آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 29 July 2016

شاعر اسلام،اقبال ۔۔ شخصیت اور پیام


شاعر اسلام،اقبال ۔۔شخصیت اور پیام

طیب عثمانی ندوی

اقبالؒ ایک بڑے شاعر تھے اور اپنے عہد کے سب سے پڑھے لکھے شاعر تھے جس نے اپنے عہد کی صرف اردو فارسی شاعری پر نہیں بلکہ اس دور کے فکر و نظر پر بھی اپنا اثر ڈالا۔ میری مکتب کی تعلیم جس ماحول میں ہوئی وہ علمی و دینی بھی تھی اور شعری و ادبی بھی، جس میں تصوف کی چاشنی تھی، مجلس سماع کے ذریعہ اردو فارسی کی نعتیہ، حمدیہ اور عشقیہ غزلوں سے کان بچپن ہی سے آشنا تھے۔ ابوالکلام کی بلند آہنگ نثر، سید سلیمان ندوی کے خطبات مدراس کی انشاء پردازی کا ذکر اکثر کانوں میں پڑتا اور ساتھ ہی حالی کی مسدس اور اکبر و اقبال کی نظموں کے اشعار گھر کے بزرگوں کی زبانی سنا کرتا۔ اقبال کی مشہور نظمیں ’’بچوں کی دعا‘‘ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری، اور ’’دعا‘‘ یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے۔ جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے۔ والد مرحوم نے مجھے بچپن ہی میں یاد کرا دی تھیں۔ یہ دونوں نظمیں آج بھی میرے دل پر نقش ہیں۔ پھر جب میں سن شعور کو پہنچا اور چمنستان شبلی و سلیمان ندوی کے ادبی ماحول میں اقبال کو تفصیل سے پڑھا تو واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا شیدائی بن گیا اور پھر اقبال میرے لیے کسی عرب شاعر کے اس شعر کے مصداق ہوگئے:
أتانی ھواھا قبل أن أعرف الھوی
فصا د ف قلباً خالیا فتمکنا
(محبت میرے قریب اس حال میں آئی کہ میں محبت سے آشنا نہ تھا، بس اس نے میرے دل کو خالی پاکر اپنا قبضہ جما لیا)
اقبالؒ محبت اور ایمان و یقین کے شاعر ہیں۔ ان کا قلب حب رسول اور عشق رسول سے سرشار تھا۔ عشق و محبت ہی نے اقبال کو یقین کی لذت سے آشنا کیا تھا جس نے انہیں عرفان ذات بخشا اور وہ خودی کے نغمہ خواں بن گئے۔ اقبال مغرب کے ناقد اور مشرق کے پیامبر تھے۔ ان کا کلام، خصوصا ’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ اس پر شاہد ہے، انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنی ہی پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتا ہے، اقبال کے یہ افکار اور جذبات، میری اپنی پرچھائیاں ہیں جو میرے شعور و احساسات سے ہم آہنگ ہیں، لہٰذا وہ میری اپنی پسند بن گئے، اور ان کی شاعری میرے اپنے دل کی آواز ہے، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
اقبالؒ کی شعریات سے میری یہ والہانہ دلچسپی اور شغف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے نزدیک ان کی شخصیت انسانی کمزوریوں سے مبرا، ملکوتی تقدس سے مشابہ ہے۔ میری حمایت میں ایسی حمیت نہیں ہے جو انہیں معصوم قرار دے۔ اس موقع پر مجھے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا وہ بلیغ جملہ یاد آرہا ہے جو انہوں نے اپنے استاد علامہ شبلی کی سوانح حیات شبلی میں لکھا ہے کہ شبلی اپنی تمام علمی و ادبی عظمت اور خوبیوں کے باوصف شبلی، شبلی تھے جنید و شبلی نہ تھے۔ میرے نزدیک بھی اقبال بیسوی صدی کے شاعر تھے، مغربی تہذیب کے لیے ایک چیلنج، وہ ایک اسلامی مفکر، فلسفی اور حکیم و دانشور تو تھے لیکن دینی رہنما اور روحانی پیشوا نہ تھے اور واقعہ یہ ہے کہ اقبال، اقبال تھے عطا رو رومی نہ تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں میر، غالب اور اقبال کے بعد ہنوز کوئی دوسرا ایسا شاعر پیدا نہ ہوسکا، جو اقبال سے ایک قدم آگے اردو شاعری کا چوتھا ستون بن سکتا ہے۔ اقبال نہ صرف اسلامی افکار و اقدار کے ترجمان تھے بلکہ اسلام ان کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا جو خون جگر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکا اور جس نے ایسی زندہ وہ جاوید شاعری کو جنم دیا۔
اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ یقین کی روشنی، محبت کی گرمی اور حرکت و عمل کا ایک ایسا پرکیف و رنگین نغمہ ہے جس کی نغمگی اور آتش نوائی سے حیات کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اقبال کا ساز حیات بے سوز نہیں ہے بلکہ عشق نے اس میں حرارت اور خودی نے اس میں عظمت پیدا کردی ہے اور اسے جب شاعر کی انگلیاں چھیڑتی ہیں تو اس سے زندگی کے کیف آور نغمے پھوٹ پڑتے ہیں۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے ہمارے لیے ایسے مسرت آگیں شعر و نغمہ پیش کئے جس کو سن کر ہمارے شعور وجدان کو اہتزاز و انبساط حاصل ہوتا ہے بلکہ اس نے ہمیں ایک نظریہ حیات کا احساس اور ایک نظام زندگی کا شعور اور زندگی کا ایک خاص نقطہ نظر بخشا، جس نظریہ زندگی کا وہ حامی اور جس نظام حیات کا وہ پیامبر تھا اس پر اس نے نہ صرف یہ کہ عمل کرنے کے ترغیب دی بلکہ اس کے کلام میں اس مخصوص نظریہ زندگی کا حسن، اس کا رنگ و آہنگ اور لذت و کیف اس طرح ہم آمیز اور رچا بسا ہوا ہے کہ آج بھی جب ہم اسے پڑھتے ہیں تو ہمارے کانوں میں وہی رنگ و آہنگ، وہی ساز کی جھنکار اور وہی شیریں نغمے گونجنے لگتے ہیں جس سے ہمیں مسرت، نشاط اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

1 comment:

خوش خبری