او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یاران وطن
آوارۂ غربت کو بھی سنا
کس رنگ میں ہے کنعان وطن
وہ باغ وطن فردوس وطن
وہ سرو وطن ریحان وطن
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں
ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب وہی سارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی شفق کے سایوں میں
دن رات کے دامن ملتے ہیں
کیا اب بھی چمن میں ویسے ہی
خوش رنگ شگوفے کھلتے ہیں
برساتی ہوا کی لہروں سے
بھیگے ہوئے پودے ہلتے ہیں
شاداب و شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گل زار اب کہ نہیں
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کہ نہیں
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نوعمر خریدار اب کہ نہیں
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی
دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے
اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر
سایوں کا بسیرا ہوتا ہے
باغوں کی گھنیری شاخوں میں
جس طرح سویرا ہوتا ہے
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں
میرانیوں کے آغوش میں ہے
آباد وہ بازار اب کہ نہیں
تلواریں بغل میں دابے ہوئے
پھرتے ہیں طرحدار اب کہ نہیں
اور بہلیوں میں سے جھانکتے ہیں
ترکان سیہ کار اب کہ نہیں
کیا اب بھی مہکتے مندر سے
ناقوس کی آواز آتی ہے
کیا اب بھی مقدس مسجد پر
مستانہ اذاں تھراتی ہے
اور شام کے رنگیں سایوں پر
عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
برسات کے موسم اب بھی وہاں
ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
جھولے اور گانے ہوتے ہیں
اور دور کہیں کچھ دیکھتے ہی
نوعمر دیوانے ہوتے ہیں
کیا اب بھی پہاڑی چوٹیوں پر
برسات کے بادل چھاتے ہیں
کیا اب بھی ہوائے ساحل کے
وہ رس بھرے جھونکے آتے ہیں
اور سب سے اونچی ٹیکری پر
لوگ اب بھی ترانے گاتے ہیں
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں
برکھا کی ہوائیں گونجتی ہیں
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں
جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے
کیا شہر کے گرد اب بھی ہے رواں
دریائے حسیں لہرائے ہوئے
جوں گود میں اپنے من کو لیے
ناگن ہو کوئی تھرائے ہوئے
یا نور کی ہنسلی حور کی گردن
میں ہو عیاں بل کھائے ہوئے
کیا اب بھی فضا کے دامن میں
برکھا کے سمے لہراتے ہیں
کیا اب بھی کنار دریا پر
طوفان کے جھونکے آتے ہیں
کیا اب بھی اندھیری راتوں میں
ملاح ترانے گاتے ہیں
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں
معصوم و حسیں دوشیزائیں
برکھا کے ترانے گاتی ہیں
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں
جھولوں پر لہراتی ہیں
کیا اب بھی افق کے سینے پر
شاداب گھٹائیں جھومتی ہیں
دریا کے کنارے باغوں میں
مستانہ ہوائیں جھومتی ہیں
اور ان کے نشیلے جھونکوں سے
خاموش فضائیں جھومتی ہیں
کیا شام کو اب بھی جاتے ہیں
احباب کنار دریا پر
وہ پیڑ گھنیرے اب بھی ہیں
شاداب کنار دریا پر
اور پیار سے آ کر جھانکتا ہے
مہتاب کنار دریا پر
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر
اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں
شاخوں کے حریری پردوں میں
نغموں کے خزانے گھولتے ہیں
ساون کے رسیلے گیتوں سے
تالاب میں امرس گھولتے ہیں
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فضا
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں وہ مثال خواب فضا
وہ کھیل وہ ہم سن وہ میداں
وہ خواب گہہ مہتاب فضا
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے
اب یاروں میں کوئی آہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا
للہ بتا للہ بتا
کیا ہم کو وطن کے باغوں کی
مستانہ فضائیں بھول گئیں
برکھا کی بہاریں بھول گئیں
ساون کی گھٹائیں بھول گئیں
دریا کے کنارے بھول گئے
جنگل کی ہوائیں بھول گئیں
کیا گاؤں میں اب بھی ویسی ہی
مستی بھری راتیں آتی ہیں
دیہات کی کمسن ماہ وشیں
تالاب کی جانب جاتی ہیں
اور چاند کی سادہ روشنی میں
رنگین ترانے گاتی ہیں
کیا اب بھی گجردم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں
اور شام کے دھندلے سایوں کے
ہم راہ گھروں کو آتے ہیں
اور اپنی رسیلی بانسریوں
میں عشق کے نغمے گاتے ہیں
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں
برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں
معصوم گھروں سے بھور بھئے
چکی کی صدائیں آتی ہیں
اور یاد میں اپنے میکے کی
بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں
دریا کا وہ خواب آلودہ سا گھاٹ
اور اس کی فضائیں کیسی ہیں
وہ گاؤں وہ منظر وہ تالاب
اور اس کی ہوائیں کیسی ہیں
وہ کھیت وہ جنگل وہ چڑیاں
اور ان کی صدائیں کیسی ہیں
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر
تاریخ کی عبرت طاری ہے
ان پورنا کے اجڑے مندر پر
مایوسی و حسرت طاری ہے
سنسان گھروں پر چھاؤنی کے
ویرانی و رقت طاری ہے
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارت ایماں کیسی ہے
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفت دوراں کیسی ہے
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمع شبستاں کیسی ہے
مرجانا تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے
جس پر تھے فدا طفلان وطن
وہ جان وطن کس حال میں ہے
وہ سرو چمن وہ رشک سمن
وہ سیم بدن کس حال میں ہے
کیا اب بھی رخ گلرنگ پہ وہ
جنت کے نظارے روشن ہیں
کیا اب بھی رسیلی آنکھوں میں
ساون کے ستارے روشن ہیں
کیا اب بھی شہابی عارض پر
گیسوئے سیہ بل کھاتے ہیں
یا بحر شفق کی موجوں پر
دو ناگ پڑے لہراتے ہیں
اور جن کی جھلک سے ساون کی
راتوں کے سپنے آتے ہیں
اب نام خدا ہوگی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی
دوشیزہ ہے یا آفت میں اسے
کمبخت جوانی ڈال گئی
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی
خوش حال رہی خوش حال گئی
|