آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 29 April 2020

Jis Din Se Gayin Hain Woh Maike - Syed Hasan Askari Tariq

شاد کے مصرع 
ڈھونڈو گے مجھے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سے ڈاکٹر کلیم عاجز کے
جب پھول اچھالا کرتے تھے اُس بام سے تم اِس بام سے ہم
سے گزر کر جب یہ بحر ایک ”زاہد خوش مزاج“ حضرت سید حسن عسکری طارق ؔ تک پہنچتی ہے تو مزاح کے ایک خاص رنگ میں ڈھل جاتی ہے جس سے لطف اندوز ہوئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ سید حسن عسکری طارق نے بیرون ملک اپنی مزاحیہ شاعری کے جوہر خوب دکھائے لیکن اپنے ملک کا ادبی حلقہ اس سے محروم رہا۔ اب ان کے بھتیجے سید ولی حسن قادری نے ان کا مجموعہ کلام ”شگفتہ خاطر“ شائع کرکے اس کمی کو پورا کردیا ہے۔ سید حسن عسکری طارق نے اپنی زندگی کا بڑا عرصہ مدینہ منورہ میں گزارا اور اسی پاک سرزمین پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند کرے۔آمین۔ سید حسن عسکری طارق نے میر، غالب، اقبال، کلیم عاجز اور احمد فراز کی زمینوں پر ایسے ایسے گُل کھلائے کہ دل و دماغ کو معطر کردیا۔ آئیے آپ بھی ان کی شاعری کو پڑھیے، مسکرانے یا قہقہہ لگانے کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے لیکن ان کے بیشتر اشعار آپ کو سوچنے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔

جس دن سے گئی ہیں وہ میکے
سید حسن عسکری طارق ؔ

جس دن سے گئی ہیں وہ میکے رہتے ہیں بڑے آرام سے ہم 
سالن کا خیال آتا ہی نہیں کھا لیتے ہیں روٹی جام سے ہم

 جو آنکھ سے دل میں اتری تھی وہ سبز پری اب گھر میں ہے
 اب لوگ نہ مانیں یا مانیں کچھ کم تو نہیں گلفام سے ہم

 اب تو ہے گلی میں سناٹا پھر بھیڑ بہت ہوجائے گی
کچھ دیر تو کھیلیں بڈمنٹن اس بام سے تم اس بام سے ہم

 آغاز محبت کے یہ مزے چھوڑے نہیں جاتے اے ناصح
 جو ہوگا دیکھا جائے گا ڈرنے کے نہیں انجام سے ہم

 جو تیری گلی میں کھائی تھی وہ چوٹ نہیں ہم بھولیں گے
 جب زور کی ٹھنڈک پڑتی ہے کرتے ہیں سینکائی بام سے ہم

 تنہائی بھی تھی وہ بھی تھے مگر اللہ کا ڈر بھی شامل تھا
 ہر چند خطا سے بچ تو گئےلیکن نہ بچے الزام سے ہم

 اے اہل ديار شعروسخن، للہ ہمیں شاعر مانو 
دیکھو نا سنانے اپنی غزل، دوڑے آئے دمام سے ہم

 اک دوست کے گھر ہے اے طارق ؔ، بریانی کی دعوت آج کی شب
 بیٹھے ہیں پجائے منہ اپنا بھوکے ہی گذشتہ شام سے ہم

Tuesday 28 April 2020

Sheikh Ibrahim Zauq

شیخ ابراہیم ذوق

 اصل نام  محمد ابرہیم تھا ذوق دہلوی کے نام سے مقبول ہوئے۔آپ ایک قصیدہ گو شاعر تھے۔آپ کے والد کا نام  محمد رمضان تھا۔  شاہ نصیر دہلوی، غلام رسول شوق سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ دیباچہ دیوان ذوق مرتب آزاد دہلوی کے مطابق ذوق کی تاریخ ولادت22 اگست 1790ء ہے۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے اور دہلی میں ہی16نومبر 1854  بروز جمعرات وفات پائی۔ تکیہ میر کلو، قطب روڈ ، دہلی میں تدفین عمل میں آئی۔
 ذوق کی اہم تصانیف میں بارہ ہزار ۱۲۰۰۰ اشعار پر مشتمل ایک دیوان ہے۔
ایک نا تمام مثنوی نالۂ جہاں سوز یادگارہے ۔
کہتے ہیں کہ ذوق جب تک زندہ رہے ان کے سامنے کسی اور شاعر کا چراغ نہ جل سکا۔ ذوق اپنے عہد کے سب سے مقبول شاعر تھے اور عوامی مقبولیت میں انہوں نےغالب اور مومن جیسے عظیم شاعروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ذوق بچپن ہی سے شعر وسخن کا ذوق رکھتے تھے ۔ فطری مناسبت اور کثرت مشق کی بدولت چند ہی دنوں میں مشہور و ممتاز ہو گئے ۔ ذوق کو آخری مغل بادشاہ  بہادر شاہ ظفر کا بھی استاد ہونے کا شرف حاصل تھا۔۔ذوق کو عربی، فارسی کے علاوہ شعرو سخن، علومِ موسیقی ، نجوم ، طب، تعبیرخواب،قیافہ شناسی ، وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ نہایت ذہین تھے۔ حافظہ قوی تھا۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ ذوق کی یہ شہرت بہت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور بعد میں غالب اور مومن کا نام ان سے پہلے لیا جانے لگا۔
ذوق قصیده و غزل کے استاد تھے۔ وہ زبان کے بہت بڑے جوہری اور صنّاع تھے۔ نشست الفاظ، زبان کی صفائی اور پاکیزگی محاورات ، اور امثال کے استعمال میں ان کا جواب نہیں تھا۔ الفاظ کا محل استعمال فن عروض سے کما حقہ واقفیت ، زور تخیل اور بلندی مضامین ، موسیقیت اور غنائیت ان کے کلام کی خصوصیات ہیں ۔ غزلیات میں مختلف شعراء کا رنگ موجود ہے۔ میر درد، جرأ ت ، شاہ نصیر، سودا سبھی کا رنگ نمایاں ہے۔ رعایت لفظی، فن زبان محاورہ اور ضرب المثل کا پورا پورا التزام ہے۔ قصیدے کے وہ بادشاہ ہیں ۔ ان کی وسعت معلومات اورمختلف علوم سے ان کی واقفیت کا اندازہ ان کے تقصیدوں سے  ہوتا ہے۔ زبان کی صفائی تراکیب کی چستی اور نشست الفاظ میں ان کا جواب نہیں۔ ان کے کلام میں حسن و عشق  کے ساتھ ہی اخلاقی و صوفیانہ مضامین بھی  موجود ہیں۔
 نمونہ کلام : 
اگر یہ جانثے چُن چُن کے ہم کوتوڑیں گے
 توگل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
بقول آزاد انتقال سے تین گھنٹے قبل یہ شعر کہا:
کہتے ہیں ذوق آج جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

ذوق کی ایک اور غزل
لائی حیات ا،ئی قضا لے چلی چلے

Shad Azimabadi

شاد عظیم آبادی

نام سیدعلی محمد اورتخلص شاد تھا ۔والد کا نام سیداظہارحسین عرف عباس مرزا  تھا۔شاد 8 جنوری 1846 میں عظیم آباد میں اپنے نانیہالی مکان میں پیدا ہوئے۔
شاد نے اردو و فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ان کی شاعری میں عربیو قرانی تلمیحات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں عربی پر اچھی دسترس حاصل تھی۔شاد نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور شاعری میں خوب نام کمایا۔
1891 میں حکومت برطانیہ نے” خان بہادر“ کے خطاب سے سرفراز کیا ۔وہ 17 سال تک آنریری مجسٹریٹ رہےاور تاعمرحکومت برطانیہ کے نامزد میونسپل کمشنر رہے۔ ان کاموں کے علاوہ  مختلف تعلیمی اداروں کے ممبرادر کمیٹیوں کے بیر ہوا  رکن  رہے۔ سرکار برطانیہ نے اخیر عمر میں پہلے 600 روپیہ سالانہ کا وظیفہ مقرر کردیا تھا جو بعد میں ایک ہزار روپے ہوگیا۔
 گھوڑ سواری اور تیراکی کاشوق تھاجو اس زمانے کے شرفا کا خاص شوق تھا۔ چالیس سال کی عمر کے بعد یہ اشغال چھوٹ گئے اور تصنیف و تالیف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
1897 میں شاد اپنی نانیہال پانی پت گئے۔وہاں نواب نظیر احمد خاں مرحوم کے مہمان رہے۔ واپسی میں دہلی گئے اور حالی کی فرمائش پر علی گڑھ گئے اور سرسید احمد خاں سے ملاقات کی۔ اور 2 دمسبر 1897 کو اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور مولود پڑھا۔ 1916 میں امیر مینائی کے شاگرد حفیظ جونپوری کی دعوت پرجومپور گئے اور واپسی میں کانپور میں قیام کرتے ہوئے عظیم آباد واپس آئے۔
 شاد نے بہار میں شاعری اور نثر نگاری کو حیات دوام عطا کیا۔شاد نے عظیم آباد کی ادبی حیثیت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔شاد نے نظم و نثر کی چھوٹی بڑی کم و بیش 60 کتابیں چھوڑیں۔ غزلیں ، نظمیں، قطعات، مرثیہ نگاری،مثنوی غرض سبھی اصناف میں شاد نے  طبع آزمائی کی ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نثر میں بھی ایک بڑا سرمایہ چھوڑا۔
غزلیات انتخاب کلام شاد مرتبہ حسرت موہانی، کلام شاد مرتبہ قاضی عبدالودود،ریاض عمر،میخانۂ الہام،زیور عرفان، لمعات شاد، مولود مراثی،ظہور رحمت(مولود جو علی گڑھ میں پڑھا گیا۔)، مراثی شاد(جلد اول و دوم)،سروش ہستی وغیرہ شاد کا شعری سرمایہ ہیں۔ نثری سرمایہ  میں تاریخ بہار اور نقش پائیدار کی تین جلدیں شامل ہیں۔ ان کی سوانح حیات ’حیات فریاد‘ کئی بار چھپی۔ ان کے ناول صورت الخیال کو بھی کافی شہرت ملی۔اردو تعلیم، ارض فارس،صورت حال اور نصائح البیان کے علاوہ تذکرہ مردم دیدہ، تذکرة الاسلاف فارسی اورنوائے وطن تحریر کیا۔
اربیہ شرح قصیدہ،عرشیہ، متروکات،قدر کمال، الصرف النحو شاد کی دیگر کتابیں ہیں۔
کلام شاد کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی شاعری کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔رومانی، عرفانی، علم الکلام، فلسفیانہ شاعری،اخلاقی سماجی اور سیاسی شاعری۔ ان تمام تر موضوعات کو شاد نے اپنی غزلوں میں سمو دیا ہے۔
7 جنوری 1927 کو رات گیارہ بجے علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔ ان کا ذاتی مکان جو بعد میں شاد منزل کہلایا ان کا مدفن بنا۔

غزل
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم 

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 

ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے 
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم 

اے شوق برا اس وہم کا ہو مکتوب تمام اپنا نہ ہوا 
واں چہرہ پہ ان کے خط نکلا یاں بھولے ہوئے القاب ہیں ہم 

کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک 
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم 

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم 

غزل
شاد عظیم آبادی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں 
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں 

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ 
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں 

نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر 
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں 

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم 
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں 

سویرا ہے بہت اے شور محشر 
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں 

ستایا آ کے پہروں آرزو نے 
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں 

نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا 
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں 

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر 
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں 

عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے 
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں 

کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا 
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں

Ae Ishq Hamein Barbaad Na Kar - Akhtar Shirani


 live nor die
 اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اختر شیرانی

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں ، ہم بھولے ہوؤں کو یاد  نہ کر
 پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں  ہمیں ناشاد نہ کر
 قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر 

جس دن سے ملے ہیں دونوں کا سب چین گیا، آرام گیا
 چہروں سے بہار صبح گئی ، آنکھوں سے فروغ شام گیا
 ہاتھوں سے خوشی کا جام چھُٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

 ہم راتوں کواٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کرتے ہیں
 آنکھوں میں تصوّر دل میں خلش، سردھُنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
 اے عشق یہ کیساروگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلّاد نہ کر
 اے عشق ہمیں برباد نہ کر

یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں، بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہروقت خلش بیخواب ہوں میں بیدار ہے وہ
 جینے سے اِدھربیزار ہوں میں، مرنے پر ادھر تيار ہے وہ
اور ضبط کہے، فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر 

اے عشق خدارا دیکھ کہیں وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
 وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
 ناموس کا اُس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

 آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا ، ہرجذبِ نہاں پر رو دینا
 آہنگِ طرب پر جھک جانا ، آوازِ فغان پر رو دینا
 بربط کی صدا پررو دینا ، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

Ek Jurm Hua Hai Hum Se - Rashida Khan

اک جرم ہوا ہے ہم سے
راشدہ خان

اک جرم ہوا ہے ہم سے
’اک یار بنا بیٹھے ہیں‘
کچھ اپنا اس کو سمجھ کر
’سب راز بتا بیٹھے ہیں‘
پھر اس کی پیار کی راہ میں
’دل و جان گنوا بیٹھے ہیں‘
وہ یاد بہت آتے ہیں
’جو ہم کوبھلا بیٹھے ہیں‘




Monday 27 April 2020

Tahir Usmani - A proud ِSufi of Silsila e Firdausia

سلسلہ فردوسیہ کی ایک باوقار شخصیت
حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کے وصال پر ممتاز شخصیتوں کا اظہار تعزیت

10 فروری 2005
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ ضلع اورنگ آباد ( بہار) کے معمر اور بزرگ سجادہ نشیں ، پیر طریقت طبیب حاذق اور معروف صحافی تحسین عثمانی کے والد ماجد حضرت مولانا حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی کی وفات پر ملک کی ممتاز شخصیتوں نے اظہار تعزیت کیا ۔
حضرت مولانا حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوی کا وصال 4 جنوری 2005 کو رات کے آخری پہر کولکتہ میں ہوا۔ وہ اپنے سنجھلے صاحبزادے مولانا شاہ تسنیم عثمانی فردوسی کو حج بیت اللہ کے لئے رخصت کرنے گئے تھے۔ آپ صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے۔ حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کے ملفوظ ”راحت القلوب“ کا ترجمہ آپ نے ہی فرمایا تھا۔ آپ کو شاعری کا بھی شغف حاصل رہا اور 60 کی دہائی میں آپ کی نظمیں اور غزلیں ملک بھر کے نامور جرائد و رسائل میں انتہائی آب و تاب سے شائع ہوتی رہیں۔ آپ ابتدا میں ندیم اور پھر تاج العرفان تخلص فرماتے تھے۔ آپ نے حمد، نعت، منقبت اور دیگر اصناف شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔
آپ کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سیّد رابع حسنی ندوی نے فرمایا کہ آج بہار اپنی ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا۔
حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ  منیریؒ کی خانقاہ معظم بہار شریف کے سجاده نشیں حضرت مولانا سید شاد محمد سيف الدين فردوسی اور خانقاه منعمیہ میتن گھاٹ ،پٹنہ کے سجادہ نشیں حضرت سید شاہ شمیم الدین ا حمد منعمی نے آپ کے وصال کو دنیائے تصوف و انسانیت کا عظیم نقصان قرار دیا۔
آستانہ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسیؒ کے سجادہ نشیں محمد علی ارشد شرفی البلخی نے فرمایا کے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ سلسلہ فردوسیہ کی شان، محبوب بارگاه مخدوم جہاں، گو ہر تاج مجیبی، گل گلزارکبیری ، نمونه سلف، قاسم فیضان شرف ، برکت العصر اور مرشد وقت تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف اکابر شخصیتوں سے خانقاہیں خالی ہوتی جا رہی ہیں ایک اور مربّی کا رخصت ہوجانا نہ صرف سلسلہ فردوسیہ بلکہ امت مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہے۔
خانقاہ حسینیہ اشرفیہ ، کچھوچھہ شریف کے مولانا سید ابو امیر جیلانی اشرف نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ سے اپنے دیرینہ  تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بندگان خدا کی فکری و روحانی تربیت کے لئے آپ کی خدمات کو یاد کیا۔
سی آئی ای ایف ایل کے شعبہ عربی کے صدر پروفیسرمحسن عثمانی نے فرمایا کہ اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ ان کی نیکیاں ، ذکر عبادت جو آخرت کے اکاونٹ میں جمع ہوچکی تھیں اب کام آئیں گی۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری امین عثمانی نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کے انتقال پر اپنے دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ محترم گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ حسن سلوک ، بڑوں کی تکریم و عزت، منکسر المزاجی ، رواداری اور تواضع، مہمانوں کی ضیافت، بیماروں کی تیمار داری و علاج، اعزاء کی خبر گیری، یہ سب ان کی امتیازی شان تھی ۔ وہ نرم دلی و رقت قلبی کے ساتھ ساتھ محبت الہی سے سرشار دل رکھنے والے تھے۔ انہوں نے اکابر صوفیا کی روش پر چلتے ہوئے عزیمت کے ساتھ اپنی ساری عمر گزار دی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبروں کو نور سے بھر دےاور انہیں بلند مقام عطا کرے ۔
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی صدر شعبہ اردو انجمن آرٹس سائنس اینڈ کامرس کالج بھٹکل نے کہا کے آپ کی ذات خلوص ومحبت، ہمدردی ، نرمی ،خوش مزاجی اور رواداری کا مجموعہ تھی۔ آپ خاندان کی روش اور روایت کے مطابق ایک جمالی بزرگ تھے۔
دفتر امارت شرعیہ، پھلواری شریف پٹنہ میں ایک تعزیتی نشست میں حضرت امیر شریعت مولانا سید نظام الدین صاحب نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کی رحلت پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کیا اور فرمایا کہ حضرت حکیم صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ طریقت اور طبیبِ حاذق بھی تھے۔ امارت شرعیہ سے ان کا بڑا گہرا اور قدیم تعلق تھا ۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور میں خود متعدد باران کے دولت کدہ پر تشریف لے جا چکا ہوں۔ وہ بڑے خلیق اور وضع دار انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔
ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمٰن صاحب قاسمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ حکیم صاحب بڑے خوش مزاج ، ملنسار ، متواضع اور شریف الطبع انسان تھے۔ تعزیتی نشست سے مولانا مفتی ثناء الهدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ ، مولانا مفتی جنید عالم قاسمی، مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی ،جناب مرزا حسین بیگ، جناب سمیع الحق، مولانا رضوان احمد ندوی اور دوسرے حضرات نے بھی خطاب کیا اور اپنے دلی صدمہ کا اظہار کیا۔
حضرت حکیم شاہ محمد  طاہر عثمانی فردوسیؒ کے مریدین و متوسلین اور معتقدین کا حلقہ بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں کافی دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی نمازِ جنازہ میں 30 سے 35 ہزار افراد شریک تھے۔ نمازِ جنازہ سے قاتحہ چہلم تک آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ صہیب عثمانی نے اپنی والدہ محترمہ کی دعاؤں کے سایہ میں اس عظیم صدمہ کے باوجود بڑی ہمت اور ثابت قدمی سے خانقاہ کی روایت کے مطابق تمام رسومات کی ادائیگی کی ۔ فریضۂ حج کی ادائیگی سے واپسی کے بعد حضرت شاہ تسنیم عثمانی فردوسی مدظلہ العالی کی رجب عرس کے موقع پر سجادگی عمل میں آئی۔
(بہ شکریہ ویوز ٹائمز)

Mohammad Rafi Sauda

مرزا محمد رفیع سودا

1713-1781

مرزا محمد رفیع نام سودا تخلص تھا۔ بعض تذکرہ نگارں نے لکھا ہے کہ ان کے والدمرزا محمدشفیع   بغرض تجارت  کابل سے دہلی  آئے   اور یہیں  آباد ہو گئے۔ مگر نقش  علی جن کے  سودا کے  ساتھ ذاتی تعلقات تھے  ان کا اصل وطن بخارا بتایا ہے۔ سودا دلی میں  پیدا ہوئے  ۔ محمد حسین آزاد نے ان کا سن پیدائش  1125 ھ لکھا ہے۔اپنے دور کے مروجہ رواج علوم یعنی عربی  و فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔فارسی پر انہیں دسترس حاصل تھی ۔بچپن  سے نہایت  ذہین اور موزوں   طبع  تھے۔ ابتدا میں فارسی اشعار کہے اور  سلیماان قلی خاں داؤد  کو اپنا کلام دکھایا ،اس کے بعد شاہ حاتم کے با قاعدہ شاگرد ہوئے۔خان آرزو   نے سودا کو مشورہ دیا کہ ابھی تک ریختہ میں ابھی تک کسی نے نام نہیں کمایا اور یہ میدان ابھی خالی ہے تم اگر طبع آزمائی کرو تو ممکن ہے شہرت کی بلندیوں تک پہنچ جاؤ۔ سودا کو مشورہ پسند آیا اور خان آرزو کی ایما پر اردو شاعری کی طرف توجہ کی اور اس فن میں وہ کمال بہم پہنچایاکہ بہت جلد مسلم الثبوت استاد تسلیم کر لیے گئے۔ ریختہ گوئی میں سودا کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔بادشاہ وقت شاہ عالم آفتاب از راہ قدر دانی ان سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔
سودا کی شاعری کا شہرہ  سن کرنواب شجاع الدّولہ  نے”برادر من،مشفق من“لکھ کر انھیں لکھنؤ  آنے کی دعوت دی۔سودا  اس وقت تو نہ جا سکے مگر کچھ  عرصےکے بعد حالات نے انہیں دہلی چھوڑ کر لکھنؤ جانےپر مجبور کر دیا جہاں نواب شجاع الدّولہ  اور ان کے بیٹے نواب آصف الدولہ کے زمانے میں ان کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔تقریباً ستر برس کی عمرمیں لکھنو میں انتقال کیا۔
سودا نے  شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ غزلیں، قصیدے ، رباعیاں،مستزاد،قطعات،تعریفیں، پہیلیاں،واسوخت، ترجیح بند، ترکیب بند اور مخمس سب کچھ کہا۔مگر قصیدہ گوئی اور  ہجو نگاری میں ان کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ ان کے قصائد شوکت الفاظ ،تازگیٔ مضامین، بلند خیالی، بندش کی چستی اور جدّت تراکیب کی وجہ سے فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ نمونے ہیں۔
سودا مزاجاً قصیدے کے شاعر ہیں مگر ان کی غزلیں بھی زبان و بیاں کی دلآویزی اور لب و لہجے کے بانکپن کی وجہ سےالگ پہچانی جاتی ہے ۔ان کا ایک الگ اور مخصوص انداز ہےجس میں درد مندی کی جگہ شوخی، سوز وگداز  کی جگہ نشاط، اور سادگی کی جگہ پُرکاری نمایاں ہے۔ ان کی سب سے بڑی طاقت زور باں میں پوشیدہ ہے۔جس کے ذریعہ وہ معمولی اور سادہ مضامین کے اندررنگ آمیزی  کرکے جان ڈال دیتے ہیں۔ برجستگی ،صوتی بلند آہنگی،ترنم اور موسیقیت سودا کی غزلوں کی امتیازی اوصاف ہیں۔ سنگلاخ زمینوں میں جب ان کی قادرالکلامی کے جوہر کھلتے ہیں تو غزلوں پر  قصیدے کے اثرات زیادہ نمایا ں اور واضح ہوجاتے ہیں۔


غزل
محمد رفیع سودا
مقدور نہیں ا س کی تجلّی کے بیان کا
 جوں شمع سراپا ہو اگر صَرف زبان کا 

پردے کو تعیّن کے در دل سے اٹھادے 
کُھلتا ہے ابھی پل میں طلِسمات جہاں کا

ٹُک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھلکتا ہے بُتاں کا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن 
جب چشم  کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا

 ہستی سے عدم  تک نَفَسِ چند کی ہے راہ
 دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا


Sunday 26 April 2020

Suraj Ke Fayede- Mohammad Husain Azad

سورج کے فائدے
محمد حسین آزاد
بس اٹھ بیٹھو بیٹا بہت سو چکے
بہت وقت بيكار تم کھو چکے
نکل آیا سورج بڑی دیر کا
ذرا آنکھ کھولو بہت دن چڑها
نہ سواب نہیں ہے یہ سونے کا وقت
اٹھو یہ ہے منہ ہاتھ دھونے کا وقت
اگر ہاتھ منہ دهو کے آؤ ابھی
سنائیں تمهیں آج باتیں نئی
یہ سنتے ہي لڑكا ہوا اٹھ کھڑا
وہیں ہاتھ منہ دهو کے حاضر ہوا
کہا باپ نے بهر بڑے پیار سے
سنو! آج سورج کے تم فائدے
یہ دنیا میں کرتا بہت کام ہے
بڑے ہم کو دیتا یہ آرام ہے
یہ نکلے تو دے دن ہمیں کام کو
چھپے جب تو دے رات آرام کو
یہ کرتا ہے چاروں طرف روشنی
نظر جس سے آتی ہیں چیزیں سبھی
اسی روشنی کا تو ہے نام دھوپ
یہی دھوپ رکھتی ہے دنیا میں روپ
پڑا کرتی سردی ہے جب زور کی 
تو یہ د هوپ لگتی ہے کیسی بھلی
غریبوں کو سردی میں بھاتی ہے یہ
ٹهٹهرنے سے ان کو بچاتی ہے یہ
پکانے اناجوں کی یہ کھیتیاں
جنہیں روز کھاتا ہے سارا جہاں
نہ ہو یہ تو پھر ہے کہاں زندگی
ہیں اس کی بدولت تو جیسے سبھی
خدا کی عنایت ہے ہم پر بڑی
  کہ سورج سی نعمت ہمیں اس نے دی
کریں خوبیاں اس کی کیا ہم بیاں 
خدا کی یہ قدرت کا ہےاک نشاں

Saturday 25 April 2020

Bachchon Ke Liye Urdu Ki Sehar Angez Duniya

بچّوں کے لیے اردو کی سحر انگیز دنیا
مبشرہ منصور

نئی نسل اور خاص کر ان کے والدین کے اندر اردو کے لیے دلچسپی پیدا کرنا آئینہ کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک ہے۔ نئی نسل کو بچّوں کے لیے تحریر عظیم سرمایہ سے واقف کرانا اور ان کے اندر بچپن سے ہی اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا کرنا آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اور والدین کو اس پہلو پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ ایک ایسے ماحول میں جب ہمارا معاشرہ انگریزی تعلیم و تہذیب سے متاثر اور مغلوب ہے اپنی قدیم اخلاقی صفات کو باقی رکھنے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے بچّوں کو ان تحریروں سے واقف کرانا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ تحریریں دلچسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔
بچّوں کے لیے تعمیری،اخلاقی اور سبق آموز تحریریں لکھنے والوں میں کئی نمایاں نام شامل ہیں۔ قدیم مصنفین میں محمد حسین آزاد کا نام قابل ذکر ہے۔ آزاد نے فسانۂ آزاد لکھ کر خوب نام کمایا۔ لیکن بچّوں کے لیے لکھی گئی ان کی اردو کی نصابی کتابیں اب بچّوں کی پہنچ سے دور ہیں۔محمد حسین آزاد کی یہ تحریریں بچّوں کے اندر اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنے، انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے واقف کرانے، اور ایک صاف ستھرے معاشرے کی تعمیر میں معاون ہو سکتی ہیں۔
آزاد نے جس زمانے میں یہ تحریریں لکھیں اس عہد میں اخلاق کی تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔یہی سبب ہے کہ آزاد کے یہاں اخلاقی تلقین بڑے صاف اور واضح انداز میں ملتی ہے۔
معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو دیکھتے ہوئےآزاد کی تحریروں کی ضرورت اور اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمارے بچّے اپنے نصاب میں اردو کے بطور مضمون شامل ہونے کے بعد ہی اردو پڑھیں۔ بلکہ ہمیں اردو کو ان کے سامنے اتنا دلچسپ اور دلآویز بناکر پیش کرنا چاہیے کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے بھی گرویدہ ہو جائیں۔ والدین سے ہماری اتنی ہی گزارش ہے کہ وہ انگریزی  تعلیم کے ساتھ ساتھ بچّوں کو بنیادی اردو تعلیم ضرور دلوائیں تاکہ وہ کم از کم اردو کے حروف پڑھنا سیکھ جائیں۔ ایک بار وہ اردو کے حروف سے شناسا ہوگئے اور انہیں جملے پڑھنے کی شد بد ہو گئی تو یہ زبان اتنی دلچسپ اور اس کا ادبی ذخیرہ اتنا من موہ لینے والا ہے کہ پھر وہ خود کو اس سے الگ نہیں رکھ پائیں گے۔
آج موبائل اور انٹر نیٹ کا زمانہ ہے۔ ہر بچّے کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ آن لائن ایجوکیشن کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ایسے میں کچھ بچّے بے مقصد مشغولیات میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ایک بار انہیں سیدھی راہ دکھا دی گئی تو وہ نہ صرف یہاں اپنی درسی کتابوں سے بلکہ اس کے علاوہ اردو کی ایک ایسی سحر انگیز دنیا سے واقف ہو سکتے ہیں جو انہیں ہیری پورٹر کے سیریلوں سے زیادہ لطف دے سکتی ہے۔
بچّوں کے اردو ادب کی اس سحر انگیز سمندر میں غوطہ لگانے کا آغاز ہم محمد حسین آزاد کی تحریروں سے کر رہے ہیں۔ ان تحریوں میں شعبہ ہائے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر آسان زبان میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ تحریریں بچّوں کو ایک ایسی تخیلاتی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں ایسا لگتا ہے وہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہوں۔ ماحول کی منظر کشی اور مختصر جملوں میں پورے منظر کی عکاسی آزاد کی خصوصیت ہے۔ یہ تحریریں بچّوں کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں ساتھ ہی انہیں ایک بہتر زندگی گزارنے کا سبق سکھاتی ہیں۔
امید ہے آپ کو بھی لطف آئے گا!

Subah Ki Hawakhori -Mohammad Husain Azad

صبح کی ہوا خوری
محمد حسین آزاد

 صبح کا وقت ہے۔
جی خوش ہے۔
 آؤ! ذرا باغ چلیں ۔ ہوا کھائیں -
آہا ؟ کیا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے ! رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں -
باغ مہک رہا ہے ۔ آتے ہي دل باغ باغ ہوگیا۔
 ذرا ہریاول کو دیکھنا! آنکھوں میں طراوت آتی ہے!
 ہری ہری گھاس کیا ہے ؟
 سبز مخمل کا فرش بچھ رہا ہے ۔ اس پر اوس کے قطرے پڑے ہیں، گو یا مخمل پر موتی جڑے ہیں ۔
درختوں پر کچھ اور ہی بہار ہے. کسی میں پھل لگا ہے . ڈالیاں جھوم رہی ہیں ۔
کنواں چل رہا ہے .
ایک چھوٹا سا لڑکا بھی پاس کھڑا ہے۔ تماشا دیکھ رہا ہے ۔
 دوسرا بڑا شوقین. ہاتھ میں کتاب ہے۔ سبق یاد کر رہا ہے .
یہ مالی کیا کرتا ہے؟ پودا لگاتا ہے.
چلو! سیر دیکھیں ۔
بڑے میاں! یہ پودا کہاں سے لائے ہو؟
 صاحب زادے ! بادشاہی باغ سے لایا ہوں ۔
کتنے دنوں میں جم جائے گا؟۔ جلدی پهوٹ آئے گا ۔
 گھڑے میں کیا ہے؟
 پانی ہے۔ کیا کرو گے؟
پودے میں دوں گا ۔ اس سے جلدی ہرا بھرا ہو جاۓ گا۔


ہریاول: ہریالی / سبزی / سبزہ / طراوت / تازگی
سبزہ زار / چراگاہ / مرغزار


آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Friday 24 April 2020

Naqsha Sehr o Iftaar Ramzan ul Mubarak 1441 H April May 2020


آئینہ 
نقشہ اوقات سحر و افطار برائے دہلی
رمضان المبارک 1441ھ اپریل و مئی 2020ء
رمضان المبارک سحری افطار دن تاریخ
1 4:21 AM 6:54 PM سنیچر 25 April 
2 4:20 AM 6:55 PM اتوار 26
3 4:18 AM 6:55 PM سوموار 27
4 4:17 AM 6:56 PM منگل 28
5 4:16 AM 6:56 PM بدھ 29
6 4:15 AM 6:57 PM جمعرات 30
7 4:14 AM 6:58 PM جمعہ 1st May
8 4:13 AM 6:58 PM سنیچر 2
9 4:12 AM 6:59 PM اتوار 3
10 4:11 AM 6:59 PM سوموار 4
11 4:10 AM 7:00 PM منگل 5
12 4:09 AM 7:01 PM بدھ 6
13 4:08 AM 7:01PM جمعرات 7
14 4:07 AM 7:02 PM جمعہ 8
15 4:06 AM 7:02 PM سنیچر 9
16 4:05 AM 7:03 PM اتوار 10
17 4:04 AM 7:04 PM سوموار 11
18 4:03 AM 7:04 PM منگل 12
19 4:02 AM 7:05 PM بدھ 13
20 4:01 AM 7:05 PM جمعرات 14
21 4:01 AM 7:06 PM جمعہ 15
22 4:00 AM 7:07 PM سنیچر 16
23 3:59 AM 7:07 PM اتوار 17
24 3:58AM 7:08 PM سوموار 18
25 3:58AM 7:08 PM منگل 19
26 3:57AM 7:09 PM بدھ 20
27 3:56AM 7:10 PM جمعرات 21
28 3:55AM 7:10 PM جمعہ 22
29 3:55AM 7:11 PM سنیچر 23
30 3:54AM 7:12 PM اتوار 24
دہلی سے باہر کے حضرات سحر و افطار کے مقامی اوقات پر عمل کریں

Thursday 23 April 2020

Asrar Jamai Ke Aakhri Ayyam - Masoom Muradabadi

اردو ادب کا ایک بڑا سرمایہ فیس بُک کی تیز رفتاری کے باعث قارئین کی نظروں سے مختصر مدت میں اوجھل ہوجاتا ہے۔ آئینہ نے فیس بُک کے سمندر سے چنندہ تخلیقات کو اپنے قارئین اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان جواہر پاروں کو آئینہ صاحبِ قلم کے شکریہ کے ساتھ اپنے ویب صفحہ پر شامل اشاعت کر رہا ہے۔(آئینہ)

اسرار جامعی کے آ خری ایام
معصوم مرادآبادی

میں نے علامہ اسرار جامعی کے انتقال کی خبر پاتے ہی اپنی تاثرات تحریر کئے تھے اور کئی اخبارات نے اپنے صفحات کی زینت بنایا۔وہ فوری اور جذبات میں لکھی ہوئی ایک تحریر تھی لیکن اب یہ دوسری تحریر میں اسرار جامعی کے آ خری ایام کی ایک تصویر شئیر کرنے کےلئے لکھ رہا ہوں۔ اس تصویر نے مجھے کافی پریشان کیا اور ان کے آ خری دنوں کی بے بسی اور لاچاری پر مجھے رونا بھی آ یا۔ سچ پوچھئے تو یہ زمانہ کی چیرہ دستیوں سے زیادہ خود ان نجی پریشانیوں کی عکاس ہے جس کی تفصیل آ گے آ ئے گی۔
 وہ پچھلے کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے اور ان کا بیشتر وقت اسپتال اور گھر کا فاصلہ طے کرنے میں گذرتا تھا۔ یوں تو اسرار جامعی کے انتقال کی افواہ کئی بار اڑی لیکن وہ بڑے سخت جان تھے کہ ہربار خود ہی اس کی تردید کرنے کے لئے نمودار ہوجاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ خبر درست ہے  ان کا جنازہ دہلی کے اوکھلا علاقے  کی ایک عمارت کی چوتھی منزل پر میں اس چھوٹے سے کمرے میں لاکر رکھا گیا جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی بے بسی اور بے کسی میں گزارے۔ 
اسرار جامعی ہماری سماجی بے حسی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔سچ پوچھئے تو ہم لوگ ان کی موت کی خبر کا ہی انتظار کر رہے تھے اور لوگوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔جوکوئی بڑی ہمت کرکے ان کی چھوٹی سی کٹیا میں جاتا تو ان کے ساتھ اپنی ایک تصویر فیس بک پر ضرور شئیر کرتا تھا۔ تاکہ ان کی مزاج پرسی کرنے کا ثبوت دے سکے۔ 
82 سال کےاسرار جامعی دہلی کی ادبی محفلوں کی آ برو تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ ان ہی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جہاں انھیں اسٹیج کی زینت بنایا جاتا ہے، ایسی بے شمار تقریبات میں علامہ اسرار جامعی کو میں نے صف سامعین میں ہمہ تن گوش دیکھا۔ ان کی ایک خاص ادا یہ تھی کہ وہ ان تقاریب میں لوگوں کو آ ئینہ دکھانے کے لئے اپنے کچھ قطعات فوٹو اسٹیٹ کرکے لے جاتے تھے اور انھیں تعویذ کی شکل میں تقسیم کرتے تھے۔ اسرار جا معی طنز و مزاح کے شاعر اور صحافی تھے۔ انھوں نے "پوسٹ مارٹم "اور "چٹنی" کے نام سے اپنے مختصر اخبارات شائع کئے اور علم و ادب کی ترسیل میں مصروف رہے۔ " شاعر اعظم" کے عنوان سے ان کے مزاحیہ کلام کا مجموعہ بھی شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوا۔ جسے دہلی اردو اکیڈمی نے شائع کروایا تھا۔ یہ اکیڈمی انھیں دس ہزار روپے ماہانہ امداد دے کر ایک طرح سے ان کی کفالت بھی کررہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں دہلی اردو اکادمی کی گورننگ کونسل کا ممبر تھا اور پروفیسر اختر الواسع اس کے وائس چیئرمین تھے تو علامہ اسرار جامعی کو طنزومزاح کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ وہ بہار کی جس مٹی سے اٹھے تھے وہاں کی اردو اکیڈمی نے انھیں کبھی کوئی اعزاز نہیں دیا۔
اسرار جامعی ایک آ سودہ اور خوشحال خانوادے کے فرد تھے اور پٹنہ میں ان کی کروڑوں روپے کی جائیداد تھی لیکن گھریلو جھگڑے اور چھوٹی بھائی کی نفسیاتی الجھنوں نے انھیں دربدری پر مجبور کیا۔ کوئی تیس برس پہلے وہ دہلی چلے آ ئے اور اسی جامعہ کے علاقے میں مقیم ہوئے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اور ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب جیسے لوگوں کے آ گے زانوئے تلمذ طے کیا تھا مگر ان کی بے باکی اور مصلحت ناپسندی نے بہت سے لوگوں سے دور بھی کیا تھا۔ جہاں چاپلوسی اور حاشیہ برداری ضروری ہوتی ہے وہاں وہ اپنی بےلاگ شاعری کا ہنر آ زماتے تھے جس کا ثبوت دہلی پر ان کی طنز یہ نظم بھی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی اسرار جامعی نے شادی نہیں کی تھی اور ان کی بہت سی مشکلات اسی کا نتیجہ تھیں۔ انھیں دیکھ کر مجھے مشہور پاکستانی شاعر اور نقاش صادقین کی درج ذیل رباعی یاد آ تی تھی جس میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں غالب اکیڈمی میں خود ان ہی کی زبانی سنی تھی۔
وہ مطلع ہستی پہ ہویدا نہ ہوئی
میں اس پہ فدا وہ مجھ پہ شیدا نہ ہوئی
میں صاحب اولاد بھی ہوسکتا تھا
مگر اولاد کی والدہ ہی پیدا نہ ہوئی 
علامہ اسرار جامعی کو زمانے سے  ڈھیروں شکایات تھیں۔ ظاہری ٹیپ ٹاپ اور بناوٹ کے اس شہر میں کم ہی لوگ انھیں "لفٹ" دیتے تھے۔ وہ ایک سادہ مگر پرکار انسان تھے اور بہترین شاعرانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ خاندانی شرافت اور وضع داری میں بھی وہ طاق تھے۔ ان کا قریبی تعلق مشہور سیاسی قائد اور سابق سفارتکار زید شہاب الدین مرحوم سے تھا جنہیں وہ اپنا پھوپھا بتاتے تھے۔
ادھر کافی دنوں سے مجھے ان سے نیاز حاصل نہیں ہوا تھا مگر فون پر اکثر باتیں ہوتی تھیں۔ لیکن ادھر کچھ عرصہ سے ان کا فون سوئچ آ ف آ رہا تھا اور میری تشویش بڑھ رہی تھی۔اسی اثناء میں ان کے انتقال کی خبر آ ئی ہے تو قلق اس بات کا ہے کہ میں ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکا۔  پورے ملک کی طرح دہلی میں بھی لاک ڈاؤن ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ شعبہ اردو جامعہ کے جن اساتذہ اور طلباء نے ان کے جنازے میں شرکت کی انہیں بھی پولیس سے اجازت لینی پڑی۔ ان کی تعداد ایک درجن کے قریب تھی۔ یہی لوگ ان کی خبر گیری بھی کرتے تھے۔ 
علامہ اسرار جامعی نہ جانے کیوں مجھے بہت عزیز رکھتے تھے اور اکثر خود میرے غریب خانے کی زینت بڑھاتے تھے۔
میری ان سے شناسائی کوئی ایک چوتھائی صدی پر محیط ہے۔ انھوں نے میرے اخبار کے لئے یومیہ قطعات بھی لکھے۔ ان کے انتقال سے دہلی کی ادبی تقریبات کی ایک اور نشست خالی ہوگئی ہے۔
(معصوم مرادآبادی کے فیس بُک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ)

Ek Zaroori Itella

ایک ضروری اطلاع
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#####تمام اعزاء و اقرباء ، مریدین و متعلقین، محبین اور مخلصین خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ ، سملہ ، اورنگ آباد (بہار) کو یہ انتہائی اہم اور ضروری اطلاع دی جاتی ہے کہ وبائی و مہلک کرونا وائرس (Covid 19) سے متعلق مرکزی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہدایات، طبی و احتیاطی تدابیر اور لاک ڈاؤن کے پیش نظر، محبوب الاولیاء حضرت مولانا الحاج شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی سملوی ۔۔۔۔ قدس سرہ ۔۔۔۔ کا پچھترواں(75واں) سالانہ فاتحہ جو 28 شعبان المعظم 1441ھ مطابق 23 اپریل 2020ء بروز جمعرات خانقاہ میں منعقد ہونے والا تھا، اسے ملتوی کیا جارہاہے، آپ تمام حضرات سے یہ درخواست بھی کی جاتی ہے کہ موجودہ حالات میں اکٹھا ہوکر یہ سالانہ فاتحہ کہیں نہ کریں ، اس کے لئے نہ کسی کے گھر جائیں اور نہ کسی کو اپنے گھر بلائیں۔ اور فی الحال مرکزی و صوبائی حکومتوں کی طبی اور احتیاطی تدابیر و ہدایات پر پوری طرح عمل کریں۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔آمین۔
منجانب
 شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی سملوی
سجادہ نشیں 
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ 
سملہ، اورنگ آباد (بہار)



Wednesday 22 April 2020

Reech Ka Bachcha - Nazeer Akbarabadi

ریچھ کا بچّہ
نظیر اکبر آبادی
کل راہ میں جاتے جو ملا ریچھ کا  بچّہ
 لے آئےو ہیں ہم بھی اٹھا ریچھ کا بچّہ
سو نعمتیں کھا کھا کے پلا ریچھ کا  بچّہ
جس وقت بڑھا ریچھ ہوا ریچھ کا بچّہ
 جب ہم بھی چلے ساتھ چلا ریچھ کا  بچّہ
تھا ہاتھ میں اک اپنے سوا من کا جو سوٹا
 لوہے کی کڑی جس پر کھٹکتی تھی سراپا
کاندھے پر چڑھا جھولنا اور ہاتھ میں پیالا
 بازار میں لے آئے دکھانے کو تماشا
آگے تو ہم اور پیچھے وہ تھاریچھ کا  بچّہ
کہتا تھا کوئی ہم سے میاں آؤ مچھندر
وہ کیا ہوئے اگلے جو تمہارے تھے وہ بندر
ہم ان سے یہ کہتے تھے یہ پیشہ ہے قلندر
ہاں چھوڑ دیا با با انہیں جنگلے کے اندر
جس دن سے خدا نے یہ دیاریچھ کا  بچّہ
مدّت  میں اب اس بچے کو ہم نے ہےسدھایا
 لڑنے کے سوا ناچ بھی اس کو ہے سکھایا
یہ کہہ کے جو ڈھپلی کے تئیں گت پہ بجایا
اس ڈھب سے اسے چوک کے جمگھٹ میں نچایا
جو سب کی نگاہوں میں کھپا ریچھ کا  بچّہ
جب ہم نے اٹھا ہاتھ کڑوں کو جو ہلایا 
خم ٹھونک پہلواں کی طرح سامنے آیا
لپٹا ##تو یہ کُشتی## کا # ہنر##آن دکھایا
 جو چھوٹے بڑے جتنے تھے ان سب کو رجھایا
ہم بھی نہ تھکے اور نہ تھکا ریچھ کا  بچّہ
 جب کُشتی کی ٹھہری تو وہیں سرکو جو جھاڑا
 للکارتے ہی اس نے ہمیں آن لتھاڑا
گہ ہم نے پچھاڑا اسے گہ اس نے پچھاڑا
 اک ڈیڑھ پہر ہوگیا کُشتی کا اکھاڑا
گر ہم بھی نہ ہارے نہ ہٹا ریچھ کا بچّہ
 کہتا تھا کھڑا کوئی جو کرآه، اہاہا ! 
اس کے تمہیں استاد ہو واللہ، اہاہا !
یہ سحر کیا تم نے تو ناگاه اہاہا !
 کیا کہئے غرض آخرش اے واہ اہاہا ! 
ایسا تو نہ دیکھا نہ سنا ریچھ کا بچّہ
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Tuesday 21 April 2020

Allama Iqbal Ki Aakhri Raat - Shibli Firdousi

علامہ اقبال کی آخری رات
تلخیص : شبلی فردوسی

20 اپریل 1938ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ انھوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے کی پیالی پی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنا اور رشید حجّام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار میں ترشے وصول ہوئے، خبر یہ تھی کہ وہاں کے مسلمانوں نے نمازِ جمعہ کے بعد اقبال، مصطفٰی کمال اور محمد علی جناح کی صحت اور عمر درازی کے لیے دعا کی ہے۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان والتھائم انھیں ملنے کے لیےآگئے۔ بیرن فان والتھائم نے جرمنی میں اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا اور اب وہ جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلرکے نمائندے کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کر کے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کر چکنے کے بعد وہ کابل جا رہے تھے۔ اقبال اور بیرن فان والتھائم دونوں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہائیڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی، احباب اور اساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انھیں سفر افغانستان کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ جب بیرن فان والتھائم جانے لگے تو اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے انھیں رخصت کیا۔ شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی اس لیے پلنگ خواب گاہ سے اٹھوا کردالان میں بچھوایا اور گھنٹہ بھر کے لیے وہیں لیٹے رہے پھر جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرے میں لانے کا حکم دیا۔ گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں دو تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے، دوپہر کو اسکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل۔ لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان سے انگریزی میں کہا، اسے اس کی حس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپاجان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لیے آ بیٹھیں اوران سے کالج میں درسِ قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔
رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آگئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبد القیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آرہا تھا اور اسی بناء پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الہٰی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انھوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا، کیوں کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی، لیکن وہ بڑے ذی فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انھیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا:؎
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟ راقم نے جواب دیا : جاوید۔ ہنس پڑے، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: چوہدری صاحب! اسے "جاوید نامہ " کے آخر میں وہ دعا "خطاب بہ جاوید" ضرور پڑھوا دیجیے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے، اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آگئی۔ البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسبِ معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔
اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزاء ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تا کہ درد کی شدت کم ہو، لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہوگئی۔ میاں محمد شفیع، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے۔ انھیں بھی حکیم محمد حسن قریشی کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ بولے: حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انھیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:؎
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
وگر دانائے راز آید کہ ناید
راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قریشی کو لانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انھوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثناء میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے "ہائے" کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انھیں شانوں سے اپنے بازؤوں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے، انھوں نے "اللہ" کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ 21 اپریل 1938ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔
----------------------------------------------------------------------
معاون کتب : (زندہ رُود، ڈاکٹر جاوید اقبال، ص 718 تا 720)
زندہ رُود (علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات) | باتصویر ایڈیشن
فرزندِ اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے قلم سے

O Des Se Aane Wale Bata - Akhtar Sheerani

او دیس سے آنے والے بتا
اختر شیرانی

او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
کس حال میں ہیں یاران وطن 
آوارۂ غربت کو بھی سنا 
کس رنگ میں ہے کنعان وطن 
وہ باغ وطن فردوس وطن 
وہ سرو وطن ریحان وطن 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں 
مستانہ ہوائیں آتی ہیں 
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر 
گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں 
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں 
ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی 
سرمست نظارے ہوتے ہیں 
کیا اب بھی سہانی راتوں کو 
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں 
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے 
کیا اب وہی سارے ہوتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی شفق کے سایوں میں 
دن رات کے دامن ملتے ہیں 
کیا اب بھی چمن میں ویسے ہی 
خوش رنگ شگوفے کھلتے ہیں 
برساتی ہوا کی لہروں سے
بھیگے ہوئے پودے ہلتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
شاداب و شگفتہ پھولوں سے 
معمور ہیں گل زار اب کہ نہیں 
بازار میں مالن لاتی ہے 
پھولوں کے گندھے ہار اب کہ نہیں 
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں 
نوعمر خریدار اب کہ نہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی 
دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے 
اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر 
سایوں کا بسیرا ہوتا ہے 
باغوں کی گھنیری شاخوں میں 
جس طرح سویرا ہوتا ہے 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں 
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں 
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی 
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں 
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں 
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
میرانیوں کے آغوش میں ہے 
آباد وہ بازار اب کہ نہیں 
تلواریں بغل میں دابے ہوئے 
پھرتے ہیں طرحدار اب کہ نہیں 
اور بہلیوں میں سے جھانکتے ہیں 
ترکان سیہ کار اب کہ نہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی مہکتے مندر سے 
ناقوس کی آواز آتی ہے 
کیا اب بھی مقدس مسجد پر 
مستانہ اذاں تھراتی ہے 
اور شام کے رنگیں سایوں پر 
عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والا بتا 
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر 
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں 
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر 
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں 
اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے 
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
برسات کے موسم اب بھی وہاں 
ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں 
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں 
جھولے اور گانے ہوتے ہیں 
اور دور کہیں کچھ دیکھتے ہی 
نوعمر دیوانے ہوتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا


او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی پہاڑی چوٹیوں پر 
برسات کے بادل چھاتے ہیں 
کیا اب بھی ہوائے ساحل کے 
وہ رس بھرے جھونکے آتے ہیں 
اور سب سے اونچی ٹیکری پر 
لوگ اب بھی ترانے گاتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں 
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں 
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں 
برکھا کی ہوائیں گونجتی ہیں 
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں 
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی 
برسات کا جوبن ہوتا ہے 
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں 
جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے 
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں 
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا شہر کے گرد اب بھی ہے رواں 
دریائے حسیں لہرائے ہوئے 
جوں گود میں اپنے من کو لیے 
ناگن ہو کوئی تھرائے ہوئے 
یا نور کی ہنسلی حور کی گردن 
میں ہو عیاں بل کھائے ہوئے 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی فضا کے دامن میں 
برکھا کے سمے لہراتے ہیں 
کیا اب بھی کنار دریا پر 
طوفان کے جھونکے آتے ہیں 
کیا اب بھی اندھیری راتوں میں 
ملاح ترانے گاتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن 
باغوں میں بہاریں آتی ہیں 
معصوم و حسیں دوشیزائیں 
برکھا کے ترانے گاتی ہیں 
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں 
جھولوں پر لہراتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی افق کے سینے پر 
شاداب گھٹائیں جھومتی ہیں 
دریا کے کنارے باغوں میں 
مستانہ ہوائیں جھومتی ہیں 
اور ان کے نشیلے جھونکوں سے 
خاموش فضائیں جھومتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا شام کو اب بھی جاتے ہیں 
احباب کنار دریا پر 
وہ پیڑ گھنیرے اب بھی ہیں 
شاداب کنار دریا پر 
اور پیار سے آ کر جھانکتا ہے 
مہتاب کنار دریا پر 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر 
اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں 
شاخوں کے حریری پردوں میں 
نغموں کے خزانے گھولتے ہیں 
ساون کے رسیلے گیتوں سے 
تالاب میں امرس گھولتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی 
وہ مدرسے کی شاداب فضا 
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں 
جس میں وہ مثال خواب فضا 
وہ کھیل وہ ہم سن وہ میداں 
وہ خواب گہہ مہتاب فضا 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی کسی کے سینے میں 
باقی ہے ہماری چاہ بتا 
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے 
اب یاروں میں کوئی آہ بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
للہ بتا للہ بتا 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا ہم کو وطن کے باغوں کی 
مستانہ فضائیں بھول گئیں 
برکھا کی بہاریں بھول گئیں 
ساون کی گھٹائیں بھول گئیں 
دریا کے کنارے بھول گئے 
جنگل کی ہوائیں بھول گئیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا گاؤں میں اب بھی ویسی ہی 
مستی بھری راتیں آتی ہیں 
دیہات کی کمسن ماہ وشیں 
تالاب کی جانب جاتی ہیں 
اور چاند کی سادہ روشنی میں 
رنگین ترانے گاتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی گجردم چرواہے 
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں 
اور شام کے دھندلے سایوں کے 
ہم راہ گھروں کو آتے ہیں 
اور اپنی رسیلی بانسریوں 
میں عشق کے نغمے گاتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں 
برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں 
معصوم گھروں سے بھور بھئے 
چکی کی صدائیں آتی ہیں 
اور یاد میں اپنے میکے کی 
بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا

او دیس سے آنے والے بتا 
دریا کا وہ خواب آلودہ سا گھاٹ 
اور اس کی فضائیں کیسی ہیں 
وہ گاؤں وہ منظر وہ تالاب 
اور اس کی ہوائیں کیسی ہیں 
وہ کھیت وہ جنگل وہ چڑیاں 
اور ان کی صدائیں کیسی ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر 
تاریخ کی عبرت طاری ہے 
ان پورنا کے اجڑے مندر پر 
مایوسی و حسرت طاری ہے 
سنسان گھروں پر چھاؤنی کے 
ویرانی و رقت طاری ہے 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا 
وہ غارت ایماں کیسی ہے 
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی 
وہ آفت دوراں کیسی ہے 
ہم دونوں تھے جس کے پروانے 
وہ شمع شبستاں کیسی ہے 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
مرجانا تھا جس کا نام بتا 
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے 
جس پر تھے فدا طفلان وطن 
وہ جان وطن کس حال میں ہے 
وہ سرو چمن وہ رشک سمن 
وہ سیم بدن کس حال میں ہے 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی رخ گلرنگ پہ وہ 
جنت کے نظارے روشن ہیں 
کیا اب بھی رسیلی آنکھوں میں 
ساون کے ستارے روشن ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا 
کیا اب بھی شہابی عارض پر 
گیسوئے سیہ بل کھاتے ہیں 
یا بحر شفق کی موجوں پر 
دو ناگ پڑے لہراتے ہیں 
اور جن کی جھلک سے ساون کی 
راتوں کے سپنے آتے ہیں 
او دیس سے آنے والے بتا 

او دیس سے آنے والے بتا 
اب نام خدا ہوگی وہ جواں 
میکے میں ہے یا سسرال گئی 
دوشیزہ ہے یا آفت میں اسے 
کمبخت جوانی ڈال گئی 
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی 
خوش حال رہی خوش حال گئی 
او دیس سے آنے والے بتا

خوش خبری