آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 23 March 2014

میں مصور ہوں ۔اسریٰ عثمانی


اسریٰ عثمانی، خدیجة الکبریٰ گرلس پبلک اسکول ، جوگا بائی، نئی دہلی

آج کا شعر


Saturday 22 March 2014

میں مصوّر ہوں ۔ یمنیٰ عمانی


جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل


قاضی سید احمد حسینؒ


جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل
طیب عثمانی ندوی

سر زمین بہار شروع سے ہی بہت مردم خیز خطہ رہا ہے۔اپنی علمی و ادبی ،روحانی و اخلاقی اور سیاسی و انقلابی کارناموں کی وجہ سے یہ ریاست ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ علم و ادب میں جہاں علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا مناظرا حسن گیلانی،مولانا ابو المحاسن محمد سجاد جیسے جید عالم دین و ادب پیدا ہوئے وہیں سیاسی و اجتماعی زندگی میں غیر مسلموں میں ڈاکٹر راجندر پرشاد،جئے پرکاش نارائن جیسے سیاسی مدبر اور مسلمانوں میں مولانا مظہر الحق،مولانا شفیع داؤدی،ڈاکٹر سید محمود اور شاہ محمد زبیر جیسے اہل فکر و سیاست نے اس سرزمین کو رونق بخشی،اسی سرزمین میں جنگ آزادی کے مجاہد جلیل،دین و سیاست اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل جناب قاضی سیداحمد حسین ؒ پیدا ہوئے۔جن کی ہشت پہلو ہمہ جہت شخصیت کا مختصر تعارف اس وقت میرے پیش نظر ہے۔وہ ایک ایسے مرد مومن تھے جن کے دنوں کی تپش اور شبوں کے گداز کوان آنکھوں نے تقریباً دو سال شب و روز خلوت و جلوت میں ساتھ رہ کر دیکھا اور ان کی حکمت و دانائی ،روحانی و اخلاقی فکر و عمل سے فیضیاب ہوا۔ان کی پوری زندگی جنگ آزادی کی جدو جہد، ملک و ملت کی خدمت گذاری اور دعوت دین میں گذری۔ان کی مؤمنانہ بصیرت اور فطری ذہانت ا ن کی پیشانی سے عیاں ہوتی۔قاضی احمد حسین صاحب بہار کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ان کی جائے پیدائش موضع کونی بر، نرہٹ ضلع نوادہ ہے۔ان کے والد قاضی عبد اللطیف صاحب بہار کے بڑے زینداروں میں شمار ہوتے تھے۔خاندان سادات سے ان کا تعلق تھا۔اس خاندان میں قضا کا محکمہ کئی پشت سے چلا آرہا تھا اس لئے قاضی کا لفظ اس خاندان کے نام کا جزو بن گیا۔ آپ کی نانیہال سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار) کے عثمانی خانوادہ میں تھی جو شروع سے رشد و ہدایت،تصوف و احسان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔ ان کی والدہ بی بی رحمت اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں جن کا ذوق عبادت اور شوق ریاضت خاندان میں مشہور تھا۔قاضی صاحب کو جہاں دادیہال سے ریاست و خوشحالی ملی تھی،وہیں اپنی نانیہال سملہ کے بزرگوں اور اپنی والدہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل ہوئی تھی،اس طرح ان کے مزاج میں سلطانی و درویشی کا حسین امتزاج تھا۔میں نے ان کو دن میں دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول پایا تو راتوں کو اخیر شب میں تہجد گذاری،ذکر و اشغال، اپنے خدا کے حضور میں روتے ،گڑگڑاتے اور آہ و بکا کرتے دیکھا،ایسی جامع شخصیت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
قاضی احمد حسین صاحب ؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔اردو،فارسی،نوشت و خواند اور ساتھ ہی حفظ قران مکمل کیا۔کم عمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔14برس کی عمر میں ہی کاروبار زمینداری کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا،اسی باعث ان کی روائتی تعلیم ادھوری رہ گئی لیکن اپنی خداداد ذہانت اور ذوق مطالعہ سے ان کی علمی صلاحیت بہت بڑھ گئی تھی ۔علماء،شیوخ اور اہل علم و دانش کے درمیان وہ بڑی وقعت اور وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،قرآن مجید سے شغف اور تفاسیر کا مطالعہ ان کا خاص موضوع تھا۔روزانہ مطالعہ قرآن کسی نہ کسی معتبر تفسیر سے کرتے۔فقہ و حدیث،تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتیں۔ان کے علاوہ مختلف علمی موضوعات پر متنوع علمی مطالعہ ان کا خاص ذوق تھا،جس نے ان کی شخصیت اور فکر و نظر میں وسعت پیدا کردی تھی ، نگہہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پرسوز کے وہ مصداق بن گئے تھے اس طرح میر کارواں بننے کے وہ ہر طرح مستحق تھے۔
عنفوان شباب میں ہی کلکتہ کے انقلابیوں سے ان کا تعلق ہوگیااور ساتھ ہی مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی بہت قریب ہو گئے،مولانا آزاد کا اخبار’’الہلال‘‘ مشرق کے افق سے طلوع ہو چکا تھا،اسی زمانہ میں مولانا آزاد کی تحریک ’حزب اللہ‘ میں بھی وہ شریک رہے۔پھر جب ملک میں خلافت تحریک کا زور ہوا تو وہ بہار میں تحریک خلافت کے روح رواں بن گئے۔مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے ان کا رابطہ ہوا۔اس سے پہلے تشدد چھوڑ کرگاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بطور حکمت عملی اختیار کر چکے تھے اور گاندھی جی کے ایماء پربمبئی خلافت ہاؤس میں مولانا محمد علی ،مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کچھ دنوں کام کیا،پھر گاندھی جی نے اہلِ بہار کے اصرار پر قاضی صاحب کو بہار واپس بھیج دیا ۔
قاضی صاحب کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے، جب کہ وہ جوان تھے،شوق اور جوش انقلاب میں زمینداری کے سارے کاروبار اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی تعلیم ختم کرکے گھر آگئے تھے حوالہ کرکے بنگال کی انقلابی تحریک میں شریک ہو گئے،اس طرح بنگالی نوجوانوں کے ساتھ تشدد کے ذریعہ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی کی جدو جہد میں شریک رہے۔قاضی صاحب تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدم تشدد کے اصول پر کانگریس کی تحریک آزادی میں کس طرح شریک ہوئے اس واقعہ کو خود انہوں نے مجھ سے اس طرح فرمایا:اسی زمانہ میں الہ آباد میں گاندھی جی نے کانگریس کا ایک جلسہ بلایا،جس میں ہم بھی شریک ہوئے اس جلسہ میں گاندھی جی نے ایک مختصر تقریر کی لیکن وہ اتنی موثر تھی کہ ہم اور دوسرے نوجوانوں نے متاثر ہوکر تشدد کا راستہ چھوڑ دیا اور پستول پھینک کر گاندھی جی کی عدم تشدد کے ذریعہ کانگریس کی تحریک آزادی میں ہم بھی شریک ہوئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قاضی صاحب کانگریس کے ساتھ تحریک خلافت میں بھی برابر شریک رہے۔اسی دور میں جب ملک میں خلافت تحریک زوروں پرچل رہی تھی،بہار میں قاضی احمد حسین صاحب کے ساتھ متعدد ہندو مسلم رہنماگرفتار کر لئے گئے تو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا مورخہ 22دسمبر1921ء میں لکھا۔
’’کرشن پرشاد ،راج رنگ دت ،رانا شنکر، قاضی احمد حسین گیا کے ،یہ سب رہنما شخصیتیں ڈیڑھ سو رضاکاروں کے ساتھ گرفتار کر لی گئی ہیں۔بہار کی زمین غم و الم بن گئی ہے،یہ حضرات ہندوستان کے سب سے زیادہ بے غرض کارکن ہیں جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور بے غیر ریا اور نمائش کے۔‘‘
جنگ آزادی میں کانگریس ،تحریک خلافت، جمعیتہ علمائے ہند اورامارت شرعیہ بہار سے عملاً متعلق رہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے جب امارت شرعیہ بہار کا قیام عمل میں لایا تو قاضی صاحب اس دینی تحریک کے ثانی اثنین بن گئے اور اخیر عمر تک اعزازی طور پر بحیثیت ناظم امارت شرعیہ میں کام کرتے رہے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد جنوری1954ء سے1955ء تک تقریباً دو سال میں امارت شرعیہ بہارسے متعلق رہا۔ ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت مدیر میری تقرری ہوئی اور ساتھ ہی معاون ناظم کی حیثیت سے قاضی صاحب کے ساتھ معاونت میرے فرائض میں شامل تھی۔یہ دو سال میری زندگی کا انتہائی قیمتی دور گذرا ہے۔جس میں مجھے قاضی صاحب کے ساتھ صبح و شام رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ملک کی دینی، سیاسی اور ملی تحریکات کے سلسلہ میں قاضی صاحب سے میں براہ راست مستفید ہوا،ان کے دینی و ملی اور سیاسی تجربے میری زندگی کے حاصل رہے۔
قاضی صاحب کی پوری زندگی ،تحریک خلافت،جمعیتہ علمائے ہنداور امارت شرعیہ بہار کے ارد گرد گھومتی ہے۔اخیر عمر میں وہ امارت شرعیہ بہارکے ہوکر رہ گئے تھے اور ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔دوران گفتگو مجھ سے کہا اور نصیحت کی کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ نیو کی اینٹ بنو جس پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھتا،واقعہ یہ ہے کہ خود قاضی صاحب اس کے عملی نمونہ تھے، بے غرض و بے ریا،ملک و ملت اور دین کی خدمت کسی ستائش کی تمنا اور صلہ سے بے پرواہ ہو کرانجام دیتے رہے۔کبھی کوئی عہدہ اور ادارہ کی صدارت و نظامت قبول نہیں کی۔امارت شرعیہ کی اعزازی نظامت بھی مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے اصرار و خواہش اور امارت کی ناگذیر ضرورت کی بنا پر اختیار کی۔بہار میں انڈی پنڈنٹ پارٹی جسے مولانا سجاد نے قائم کیا تھاجس کے روح رواں خود قاضی صاحب تھے بہار کونسل میں کانگریس کے بعد دوسری پارٹی تھی جب وزارت سازی کا وقت آیاتو کانگریس نے بعض مصالح کی بنا پر وزارت بنانے سے انکار کردیا اور گورنر نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کو مدعو کیا،مسٹر محمد یونس بیرسٹر نے جو پارٹی لیڈر تھے وزارت بنائی،قاضی صاحب جو خود کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے وزارت میں شریک نہیں ہوئے اور ہمیشہ نیو کی اینٹ بنے ملک و ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔
جب ملک آزاد ہوا اور نئی پارلیمنٹ بنی تو راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے دہلی کانگریس آفس میں خواہشمندوں کا تانتا بندھ گیا،تقسیم ہند اور آزادی کے بعد حالات بدلے، مسلمانوں کی مرکزی قیادت دہلی میں تھی،کانگریس کی مرکزی حکومت میں ،مولانا آزاد،رفیع احمد قدوائی،ڈاکٹر سید محمود جیسے رہنما،ملت مسلمہ کے مسائل کے ڈور کو سلجھانے اور حل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔،جمعیتہ علمائے ہند،جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت اپنے اپنے دائرے میں ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنی سی کوششیں کر رہے تھے،ایسے میں قاضی احمد حسین جیسے پیکر اخلاص و عمل اور مدبر کی ضرورت دہلی میں رہنے کی تھی ،پھر بھی قاضی صاحب کا خیال راجیہ سبھا کی ممبری کی طرف نہ گیا،بہار میں رہ کر بہار سنی وقف بورڈ کی اصلاح اور امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار کرنے اور اصلاحِ احوال میں لگے رہے۔ایک دن ان کے چھوڈے بھائی قاضی محمد حسین صاحب پھلواری پہنچے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیااور راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔قاضی محمد حسین صاحب ایک پڑھے لکھے علیگ تھے،قومی کاموں میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سرگرم رہے تھے،گیا میں ضلع ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس چیرمین رہ چکے تھے وہ ہر طرح اس عہدہ کے مستحق تھے۔لیکن اس دوڑ میں پٹنہ سے دہلی تک ان کی پہنچ ذرا مشکل تھی۔کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ٹھیک تو ہے تمہاری اہلیت و صلاحیت کی وہاں ضرورت ہے لیکن تم نہیں ہو سکتے ،ممکن ہے ہم ہو جائیں۔قاضی صاحب کا دل فقیرانہ اور مزاج شاہانہ تھا،پٹنہ اور دہلی کی دربار داری ان کے بس کی نہ تھی۔پھر پٹنہ اور دہلی کا چکر لگائے بغیر پھلواری سے بیٹھے بیٹھے،صرف دو سطروں کا خط مولانا آزاد کے نام لکھا’’جی چاہتا ہے کچھ دنوں دہلی میں آپ کی معیت حاصل ہو‘‘۔راجیہ سبھا کی ممبری کا کوئی ذکر بھی نہیں تھامولانا آزاد اپنی ذہانت سے مقصد کو سمجھ گئے اور جواب میں اپنے سکریٹری پروفیسر اجمل صاحب سے کہلوایاکہ ’’جب اس کا موقع اور محل آئے گاتو ہو جائے گا‘‘پھر مولانا آزاد کے ایماء پر قاضی صاحب راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہو گئے اور دو ٹرم رہے۔قاضی صاحب کی راجیہ سبھا کی یہ ممبری با مقصد تھی۔ملک و ملت کی خدمت اور دینی کاموں کی سہولت ان کے پیش نظر تھی۔دہلی میں ان کی قیام گاہ ساؤتھ ایونیوپورے ملک کے مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا مرکز بنی رہتی تھی۔جمعیتہ علمائے ہند کے اکابر،جماعت اسلامی کے محمد مسلم مرحوم مدیر’ دعوت‘ ان کے علاوہ پسماندہ اور پست اقوام کے رہنما اور کارکنان سے ان کا رابطہ رہتاسب کے مشیر اور اچھے کاموں میں شریک رہتے۔اپنی ذات میں ایک انجمن تھے سب سے جدا اور سب کے رفیق۔مرکزی سطح سے پورے ملک پر اپنی فکر صالح کی چھاپ ڈالتے۔پارلیمنٹ میں بھی اپنی بات پہنچانے میں وہ باز نہ آئے۔پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل پر آپ کی تقریر کا بڑا شہرہ ہوا۔کانگریس پارٹی کے اندر پسند نہیں کی گئی لیکن دوسرے حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔قاضی صاحب کا جوش تبلیغ اور دعوت دین کا جذبہ وہاں بھی چین سے نہ بیٹھا 12ربیع الا ول یوم میلاد النبی کے موقع پر عید کارڈ کی طرح سیرت نبوی پر انگریزی زبان میں کارڈ چھپوایا اور اپنی طرف سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام ممبران پارلیمنٹ کے نام آنحضرت ﷺکی سیرت پاک کے تناظر میں اسلام کی دعوت پیش کی جسے عام طور پر سراہا گیا اور قاضی صاحب کی ذہانت و جدت کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
قاضی صاحب اس ملک میں دعوت دین کے لئے ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بہت قائل تھے اور اس کے لئے ہر سطح پر کوشاں رہے اس سلسلہ میں پہلے صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کے نام ان کا ایک خط جیتا جاگتا ثبوت ہے جس سے ان کی ذہانت و دانائی سے لبریز ان کی بہترین تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان اگراسلام کی حقیقی روح کو سمجھ لیں اور ہندو اپنے سناتن دھرم کی روایتی رواداری کے حامل ہوجائیں تو ہماری دنیا چین و مسرت کی دنیا بن جائے۔
میں کانگریسی حکومتوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ ہندو مسلمانوں میں اس روح کو بیدار کریں گے جو ہندؤوں کی روایات اور مسلمانوں کے مذہب نے انہیں بخشا ہے۔ میں اس گمشدہ چین و مسرت کو واپس لانے کا خواہشمند ہوں، اگر مجھ سے یہ امید اور خواہش چھین لی جائے تو اس امید سے خالی زندگی میں کوئی لذت نہیں پاؤں گا۔‘‘
(اقتباس از مکتوب قاضی احمد حسین بنام ڈاکٹر راجندر پرشاد)
امارت شرعیہ بہار کی نظامت کے زمانہ ہی میں قاضی صاحب کو تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور کہا کرتے تھے کہ یہ طریقہ تبلیغ عوامی رابطہ اور اصلاح کا بہترین طریقہ ہے ،چنانچہ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبۂ تبلیغ کو عملاً اسی طریقہ تبلیغ پر ڈھال دیا تھا۔اپنی کبر سنی،تنفس کی بیماری اور ضعف و نقاہت کے با وجود بستی بستی قریہ قریہ سفر فرماتے، اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ میں عملاً شریک رہتے۔ امت مسلمہ کی دینی اصلاح اور ان کے اندر ایک داعی امت کی صفات پیدا کرنے کی ہمہ جہت کوشش ان کا مقصدِ زندگی تھا،جو زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے ساتھ رہا۔
جناب مولانا منت اللہ رحمانیؒ جب امیر شریعت رابع منتخب ہوگئے تو امارت شرعیہ بہار کے کاموں کی نگرانی براہ راست مولانامنت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں آگئی اور قاضی صاحب کی ذاتی دلچسپی زیادہ تر تبلیغی کاموں سے ہو گئی،چنانچہ انہوں نے اس کام کے لئے زیادہ وقت گیا میں گذارنا شروع کیا اور راجیہ سبھا کا سیشن بند ہوتے ہی اکثر گیا چلے آتے تھے۔ان دنوں میں بھی اپنے تعلیمی پیشہ اور ملا زمت کے سلسلہ میں گیا آگیا تھا،اس لئے جب بھی وہ گیا آتے پھلواری شریف کی طرح یہاں بھی میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا،اس طرح ان کے فکری اور روحانی فیضان سے میں برابر مستفیض ہوتا رہا اور مستقبل میں میری اجتماعی زندگی اور دینی تحریکات میں میری عملی شرکت کا باعث بنا۔
29جولائی1961ء میں گیا کے اپنے مکان رحمت منزل میر ابو صالح روڈ میں اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب کے ساتھ ان کا قیام تھا،قاضی صاحب بیمار تو تھے ہی اس دن ان پر قلب کا شدید دورہ پڑا،شہر کے مشہور معالج ڈاکٹر منظور صاحب موجود تھے،علاج معالجہ کی ہر تدبیریں ناکام ہوئیں، وہ ایک مرد مومن کی طرح چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست کی تصویر بنے اپنے رب سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔خدا مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کا یہ بطل جلیل 1918ء سے 1961ء تک ملک و ملت کی تمام تحریکات کا روح رواں،مسلم ہندوستان کی تاریخ کا عملی نمونہ،اخلاص و عمل اور دعوت دین کا پیکر جمیل آج ہم سے جدا ہو گیا۔بقول ایک عرب شاعر:
’’وہ لوگ تو چلے گئے جن کے سایہ میں زندگی گذاری جاتی تھی،وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کی زندگی کچھ کارآمد نہیں۔‘‘
دوسرے دن بعد نماز ظہر،گیا کے مرکز تبلیغ محلہ گھسیار ٹولہ کی چھوٹی مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہر سے قریب پھلگو ندی کے اس پار آبگلہ کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

Ghazal By Jigar Muradabadi


ग़ज़ल
जिगर मुरादाबादी
अब तो ये भी नहीं रहा एहसास
दर्द होता है या नहीं होता
इशक़ जब तक ना कर चुके रुसवा
आदमी काम का नहीं होता
टूट पड़ता है दफ़्फ़ातन जो इशक़
बेशतर देरपा नहीं होता
वो भी होता है एक वक़्त कि जब
मासिवा मासिवा नहीं होता
हाय क्या हो गया तबीयत को
ग़म भी राहत फ़िज़ा नहीं होता
दिल हमारा है या तुम्हारा है
हम से ये फ़ैसला नहीं होता
जिस पे तेरी नज़र नहीं होती
उस की जानिब ख़ुदा नहीं होता
में कि बेज़ार उम्र भर के लिए
दिल कि दम भर जुदा नहीं होता
वो हमारे क़रीब होते हैं
जब हमारा पता नहीं होता
दिल को क्या क्या सुकून होता है
जब कोई आसरा नहीं होता
हो के इक बार सामना उन से
फिर कभी सामना नहीं होता

Thursday 20 March 2014

میں مصوّر ہوں ۔ اقصیٰ عثمانی


اقصیٰ عثمانی ، خدیجة الکبریٰ گرلس پبلک اسکول، جوگا بائی ، نئی دہلی

Wednesday 19 March 2014

ग़ज़ल--- जिगर मुरादाबादी

ग़ज़ल
जिगर मुरादाबादी
अब तो ये भी नहीं रहा एहसास
दर्द होता है या नहीं होता
इशक़ जब तक ना कर चुके रुस्वा
आदमी काम का नहीं होता
टूट पड़ता है दफ़्फ़ातन जो इशक़
बेशतर देरपा नहीं होता
वो भी होता है एक वक़्त कि जब
मासिवा मासिवा नहीं होता
हाय क्या हो गया तबीयत को
गुम भी राहत-फ़ज़ा नहीं होता
दिल हमारा है या तुम्हारा है
हमसे ये फ़ैसला नहीं होता
जिस पे तेरी नज़र नहीं होती
इस की जानिब ख़ुदा नहीं होता
मैं कि बेज़ार उम्र-भर के लिए
दिल कि दम-भर जुदा नहीं होता
वो हमारे क़रीब होते हैं
जब हमारा पता नहीं होता
दिल को क्या-क्या सुकून होता है
जब कोई आसरा नहीं होता
हो के इक बार सामना उनसे

फिर कभी नहीं होता


غزل
جگر مراد آبادی
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
بیشتر دیرپا نہیں ہوتا
وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
ماسوا ماسوا نہیں ہوتا
ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا
دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اس کی جانب خدا نہیں ہوتا
میں کہ بےزار عمر بھر کے لیے
دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا
وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتا نہیں ہوتا
دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
ہو کے اک بار سامنا ان سے
پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا

آج کا شعر

ان کے بھیگے ہوئے بالوں میں ہے جو عالم کیف
کچھ وہی کیف مرے دیدہ ٔنمناک میں ہے

unke bhige hue balon mein h jo aalam e kaif
kuch wahi kaif mere deeda e namnahk mein hae

उन के भीगे बालों में है जो आलम ए कैफ 
कुछ वही कैफ मेरे दीदा ए नमनाक में है 

جذبی

Monday 17 March 2014

Maulana Abul Kalam Azad By Taiyab Usmani Nadvi

بیسویں صدی کا ایک نابغۂ روزگار
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد
از طیب عثمانی ندوی
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا تعارف اگر ہم چند لفظوں میں کرانا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں۔ع
مثلِ خور شید سحر فکر کی تابانی میں
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
مولانا ابوالکلام کی ذات اپنی جگہ ایک انجمن تھی۔ علم و فضل کی وہ کون سی بلند ی ہے جس کو مولانا کے ذہنِ رسانے نہ پایا تھا،ان کی جادو بیانی کا کوئی ثانی نہ تھا اور حسن انشا میں وہ یگانہ تھے۔ فکر کی تابانی ، یقین کی روشنی اور عمل کی گرمی نے ان کی شخصیت میں ایک دل آویزی و دل کشی پیدا کردی تھی۔ فضل و کمال کی رنگا رنگی، مطالعہ کی وسعت ، عالمانہ رکھ رکھاؤ، پاکیزہ جمالیاتی ذوق ان سب کا اتنا دل کش اور حسین امتزاج مولانا کے اندر پایا جاتا تھا کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ گویا وہ ایک ایسا ’’کل‘‘ تھے جس کے گرد مختلف’ اجزا‘ گردش میں ہوں،شعر و ادب ، مذہب و اخلاق، حکمت و فلسفہ ، سیاست و صحافت ہر جگہ اور ہر کہیں مولانا کی اپنی انفرادیت ، ان کا ذہنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ ہے۔ قدرت نے انہیں وہ ذہنی صلاحیتیں و دیعت کی تھیں کہ جس فن پر بھی انہوں نے توجہ کی اسے بام عروج تک پہنچا یا اور دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا جیسے وہ شاید اسی کے لئے پیدا کئے گئے ہوں۔ شعر وادب پر گفتگو کی توعرفیؔ و نظیری،ؔ متنبی اور بدیع الزماں ہمدانیؔ کی صف میں نظر آئے، حکمت و فلسفہ کی بات کی توابن رشدؔ اور ابن طفیل کی مسند سنبھالی، تصوف و اخلاق کا مسئلہ سامنے آیا تو رومی ؔ اور غزالیؔ بن کر سامنے آئے ، رشد و ہدایت، دعوت و عزیمت اور مذہبی اصلاح و انقلاب اپنا شعار بنایاتو وقت کے ابن تیمیہ اور ابن قیم ثابت ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم جیسی علمی فضیلت ، ذہانت و عبقریت اور اسلامی علوم و فنون پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ، اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئی اور نظر نہیں آتی، انیسویں صدی کے اواخر او ر بیسویں صدی کی ابتدا میں اسلامی دنیا نے دوعظیم مجاہد اور فاضل پیدا کئے ، میری مراد جمال الدین افغانی اور مفتی محمد عبدہ سے ہے۔ اسی بیسویں صدی کی ابتدا میں ہندوستان کے افق پر مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت روشن ستارے کی طرح نمودار ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ عالم اسلامی کے وہ دونوں ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکرافق ہند پر شہاب ثاقب بن کر چمکے ہوں۔ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ مولانا مرحوم عالم اسلامی کی ان دونوں شخصیتوں کے جامع تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرد مجاہد کی زندگی میں خدا کی فیاضی کے عجیب جلوے نظر آتے ہیں، ظاہری جلال و جمال ایسا تھا کہ مغل دور شہنشاہی بھی شرمندہ ہے۔ دماغ کی تابانی ایسی کہ جس سے فکر و عمل کی جانے کتنی راہیں روشن ہوتی تھیں، دل کی فراخی کا یہ عالم کہ اس میں دشمنوں کے لئے بھی جگہ تھی، مذہب میں نظر ایسی عمیق کہ اس کے آئینہ میں دین و دنیا کی واضح تصویر نظر آتی تھی اور عصرِ حاضر اور فکرِ جدید سے ایسی واقفیت کہ مغرب کے عالم بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔
مولانا کی شخصیت کا یہ تنوع ان کی نادر روز گار شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایسے گونا گوں ا وصاف اور محاسن کے مالک تھے جو کسی ایک ہی شخصیت میں بہت کم جمع ہوتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف دائروں میں انتہائی بلند مقام حاصل کیا، جہاں پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ علم و فضل ، حقائق دین، حکمت وفلسفہ ، شعر و ادب ،تصنیف و تالیف ، تقریر و خطابت، اخبارنویسی وصحیفہ نگاری ، سیاست و وزارت غرض وہ کون ساحلقہ اور دائرہ نہ تھا جس میں ان کی انفرادیت و یکتائی ثابت ومسلم نہ تھی۔لیکن ان سب کے باوجود اگر غور کیجئے تو ان کی شخصیت کا اصل مایہء خمیر صرف دین و مذہب ہی تھا اور وہی ان کے مختلف مشاغل اور عمل و کردار کے مختلف دائروں میں نمایاں ہوتا تھا، اسی چیز نے ان کی شخصیت میں کمال بلندی عطا کی۔آج ہم جب مذہب کا ذکر کرتے ہیں تو بعض ذہن اسے تفرقہ اور تفریق کی اصل قراردیتے ہیں۔ حالانکہ مولاناکا حقیقی مذہبی کردار ہمیں اس بات کی طرف نشان دہی کر تا ہے کہ مذہب کی روح آپس میں مہرو محبت کی روح ہے، خدمت کی روح ہے، وحدت کی روح ہے۔ وہ مذہب جھوٹا ہے جو تفریق و نفرت کا اظہار کرے ان کے نزدیک مذہب و سیاست دونو ں ہی کا ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ انسان اپنی زندگی کو شرافت ، صالحیت اور انسانیت کے پیکر میں ڈھالے اور اس کے لئے اپنی جسمانی ، ذہنی اور روحانی قوتوں کو فروغ دے اسی لئے ان کی زندگی میں دین اور دنیا کی تفریق نہ تھی بلکہ دونوں ہی میں حق پسندی اور شرافت کے اصولوں کی کارفرمائی تھی، جو دین کی حقیقی روح اور مذہب و اخلاق کا مقصد و منشا ہے۔ مولانا نے مشرقی تہذیب اور مشرقی علوم و فنون کے ماحول میں ابتدائی تعلیم وتربیت پائی، اور دین و مذہب کو اپنی توجہ کا خاص مرکز بنایا اور اس طرح مذہب کی بہترین قدروں کو اپنی ذات میں جذب کیا اور ساتھ ہی مغربی علوم و تہذیب کی اچھی قدروں کو بھی اپنایا اس طرح ان کی ذات مشرق ومغرب کی ایک حسین سنگم بن گئی، ان میں ایک طرف مشرق کی سکون پسندی اور گہرائی ، رواداری اور وضع داری، انسانیت اور روحانی بصیرت تھی تو دوسری طرف مغرب کی روشن خیالی، ذہنی جرأت اور حرکت و عمل کی کارفرمائی تھی۔ وہ ایک زبردست عالم دین تھے لیکن مولویانہ تنگ نظری کا ان میں کہیں پتہ نہ تھا اسی طرح عصر جدید کے تقاضوں سے واقف ہونے کے باوجود تہذیب کی فرزندی سے آزاد تھے۔ اس بات کی شہادت کے لئے یہاں پر مناسب ہے کہ مولانا کی تحریر کا ایک چھوٹا سا اقتباس ’’الہلال‘‘ سے میں پیش کردوں ۔ مولانا فرماتے ہیں :
’’ہمارے تعلیم یافتہ دوستوں کا کچھ عجیب حال ہے، ان کے پاؤں کو دیکھئے ، تو یورپ کی نافہمانہ و کو رانہ تقلید و عبودیتِ فکر کی زنجیریں لپٹی نظر آتی ہیں، مگر چہرے کی طرف نظراٹھائیے تو زبان کو ادعاء و اجتہاد سے فرصت نہیں اس سے بڑھ کر دنیا کے جمع اضدادکا اور کون سا تماشا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آئے اور عین اس وقت جب کہ اس کے پاؤں میں تقلید و استعباد کی زنجیریں پازیب کی طرح صدا دے رہی ہوں، اجتہاد فکر اور حریت رائے پر بے تکان لکچردینا شروع کر دے۔‘‘
انسانی سو سائٹی میں مذہب کا جو منصب اور مقام ہے مولانا کی نگاہ حقیقت بیں نے اس کو پالیا تھا اور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انسانی زندگی کی ساری عظمتیں دین و مذہب کے بغیر ادھوری اور نا مکمل ہیں، ’’الہلال‘‘ کے زریں صفحات اس حقیقت کی روشن یادگار ہیں چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
’’انسان ذہن وجسم کی کتنی ہی عظمتیں حاصل کرے لیکن روح اور اخلاق کی ادنیٰ سے ادنیٰ پاکیزگی بھی حاصل نہیں کرسکتا، اگر اس کا اعتقاد اور عمل روحانی ہدایت کی روشنی سے محروم ہے ۔ انسان کے لئے یہ سہل ہے کہ تمام دنیا فتح کرے، سکندر نے تمام دنیا کی سلطنتیں تہہ و بالا کر ڈالیں تھیں۔ انسان کے لئے یہ بھی مشکل نہیں کہ ذہن و فکر کی ایسی بلندیوں تک پہنچ جائے جہاں تک دوسرے کے قدم نہ پہنچ سکے ہوں۔ ارسطو ،اقلیدس، سولن اور سنیکا جیسے فاتحین علم کی فتح مندیاں لازوال ہو چکی ہیں اوردنیا منطق، ریاضی ، قانون اور فلسفۂ اخلاق میں آج تک ان کی پس رو، انسان کی اولوالعزمی ان بلندیوں پر بھی نہیں رکتی اورکچھ مشکل نہیں اگر وہ آگ کے شعلوں میں کود پڑے، سمندر کی موجوں کی ہنسی اڑائے ، پہاڑوں کی صفیں چیر ڈالے مگر ہاں یہ مشکل ہے اور بہت ہی مشکل کہ وہ اخلاق اور روحانی پاکیزگی کی راہ میں اپنی کسی ایک خواہش نفس کا بھی مقابلہ کر سکے ۔
سکندر تمام دنیا کی تسخیر کی محنت سے نہیں تھکا ، لیکن بابل کی ایک عورت جب اس کے سامنے آئی تو اپنی خواہش نفس کے اضطراب سے بے بس ہوکر رہ گیا۔ سنیکا نے تمام نوع انسانی کو اخلاق اور اخلاقی سعادت کی دعوت دی، لیکن خود اپنے آپ کو ایک دوسرے انسان کی منکوحہ عورت سے باز نہ رکھ سکا ، ارسطو کے دامن علم کے دھبّے بھی دنیا گن چکی ہے ۔
فی الحقیقت انسانی زندگی کی یہی اخلاقی اور عملی نامرادی ہے، جو الہامی ہدایت کی کسی بالاتر قوت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ، انسان اپنے ذہن و جسم کی قوتوں سے سب کچھ کر سکتا ہے لیکن تکلف اوربناوٹ سے بھی اپنے آپ کو نیک نہیں بنا سکتا، اگر انسانی زندگی کی سعادت کے لئے اس عملی صداقت کی کچھ بھی ضرورت ہے جسے نیکی کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو ناگزیر ہے کہ عام انسانی سطح سے کوئی بلند تر ذریعہ رشد و ہدایت کا ہو۔ مذہب او رالہام اسی ذریعۂ ہدایت کا نام ہے۔‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مولانا ابوالکلام کی فکر کااصل محور ہمیشہ سے دین و مذہب رہا ہے اور ان کی ساری تگ و دو اور حرکت و عمل اسی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو گذشتہ نصف صدی سے بر عظیم ہند کے مسلمانوں کی بیداری میں مولانا کا سب سے زیادہ حصہ رہا ہے بلکہ سچ تویہ ہے کہ کوئی دوسرا مسلمان رہنما ان کا شریک و سہیم نہیں ، انہوں نے اس وقت یہاں دعوتِ حق کا نعرہ بلند کیا، جب کہ مسلمانو ں کا ایک طبقہ انگریزوں کی اطاعت کو واجب قرار دیتا تھا او رغلامی پر قناعت کا وعظ کہتا تھا اور ایک دوسرا طبقہ اسلام کی ہمہ گیریت سے ناواقف صرف ظاہری عبادات و رسوم ہی کو سب کچھ قرار دئیے ہوا تھا ۔ خدمت دین کا سب سے بڑا کام درس نظامی کی کتابوں کو پڑھا دینا یا غیروں سے اسلام کے نام پر مناظرے کر لینا تھا ، ایسے حالات میں مولانا نے حق و صداقت کا چراغ روشن کیا ، اور اقامت دین کی دعوت شروع کی، مولانا کے اس اہم کارنامہ کو دیکھ کر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے عالم دین تک نے فرمایا کہ:
’’ہم سب اصل کام بھولے ہوئے تھے،’الہلال ‘نے یاد دلادیا‘‘۔
اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالی نے مولانا کو زبان و قلم کی بے مثال صلاحیتیں عطا کی تھیں ، مولانا 1912ء سے ہندوستان میں اسلامی قیادت کے مسند نشین رہے اور مسلمانوں نے بجا طور پر انہیں امام الہند کا خطاب دیا تھا ، دینی فکر و بصیرت ، سیاسی سوجھ بوجھ اور دعوت و عزیمت کے اعتبار سے فی الواقع وہ اسلامیان ہند کے عظیم رہنما تھے ، مولانا کے نزدیک مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے دو پروگرام تھے، افسو س ہے کہ ہم نے ان کی دعوت کو نہ ٹھیک سے سمجھااور نہ اس پر عمل پیر ا ہوئے ، اول مسلمانوں نے کے لئے ان کا پیغام یہ تھا کہ ان کی دینی و دنیاوی فلاح و سعادت کاضامن صرف اسلام ہے، انہیں زندگی کا ہر مسئلہ اسلام ہی کی روشنی میں طے کرنا چاہئے،اسلام ان کی پوری زندگی کا دین ہے اور اس معاملہ میں انہیں کسی دوسرے نظریۂ حیات کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے، اس غرض کے لئے مولانانے اپنی خاص جماعت ’’حزب اللہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور ملک کے اہل علم نوجوانوں کو دعوت دی او ران سے بیعت لی ۔مولانا اپنی اس بیعت امامت میں جن پانچ باتوں کی بیعت لیتے تھے، وہ یہ تھے:
’’الحمدللہ وحدہ، جن عزیزوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پر پانچ باتوں کا عہد کیا ہے :
اول : امر بالمعروف،نہی عن المنکر اور توصیۂ صبر کا یعنی ہمیشہ نیکی کا حکم دیں گے ، برائی کوروکیں گے، صبر کی وصیت کریں گے۔
ثانیاً: الحب فی اللہ و البغض فی اللہ کا ، یعنی اس دنیامیں ان کی دوستی ہوگی تو اللہ کے لئے اور دشمنی ہوگی تو اللہ کے لئے۔
ثالثاً: لایخافون فی اللہ لومتہ لائم کا ، یعنی سچائی کے راستے میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کریں گے اور خدا کے سوا وہ اور کسی سے نہیں ڈریں گے۔
رابعاً: اس بات کا کہ وہ اللہ اور اس کی شریعت کو دنیا کے سارے رشتوں، ساری نعمتوں اور ساری لذتوں سے زیادہ محبوب رکھیں گے۔
خامساً: اطاعت فی المعروف کا ، یعنی شریعت کے ہر حکم کی اطاعت بجالائیں گے۔ جو ان تک پہنچا یاجائے ۔
میں ان کو یاد دلاناچاہتا ہوں کہ یہ ان کا قول تھا او راب چاہئے کہ اپنے عمل سے بھی اس کی پوری پوری تصدیق کریں اور کامل انقطاع اور راست بازی کے ساتھ اپنے تئیں اللہ کے سپرد کردیں۔‘‘
مسلمانان ہند کی ہدایت وہنمائی کے سلسلہ میں دوسرا حصہ مولانا کے نزدیک ہندوستان کی سیاسی آزادی تھی، انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ مسلمان غلام رہ کر زندہ رہنے کے لئے نہیں پیدا ہوا ہے ،غلامی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں اور انگریزوں سے نجات حاصل کرنا ان کی محض قومی وطنی ضرورت نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے اور آزادی کا وہ صور قیامت جس سے برسوں خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہندوستانی قوم جاگ اٹھی ، مولانا نے اس وقت پھونکا، جب مکمل آزادی کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا ۔آزادئ وطن کے لئے کانگریس میں شرکت کامطلب یہ تھا کہ انگریزوں سے ہندستان کی آزادی کا مطالبہ ہندوستان کی تمام قومیں متحدہ طور ہی پر کر سکتی ہیں ۔ ایک طرف مولانا جہاں فکر اسلامی کے حقیقی نمائندہ تھے تو دوسری طرف ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے رہنما اور مجاہد بھی تھے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی شہادت گاندھی جی کی ہے ،آپ فرماتے ہیں :
’’ مجھے 1920ء سے قومی کام میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ وابستہ رہنے کا فخر حاصل رہا ہے ، اسلام کے بارے میں اُن سے زیادہ معلو مات کسی اور کو حاصل نہیں ہیں، عربی زبان کے وہ بہت بڑے عالم ہیں، ان کی دیش بھگتی اسی طرح پختہ اور راسخ ہے، جس طرح ان کا اسلام میں عقیدہ، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاسیات کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرے۔‘‘
مہاتما گاندھی کے اس بیان سے واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی شخصیت کا صحیح عرفان ہوتا ہے۔ مولانااگر ایک طرف سچے مسلمان تھے تو دوسری طرف وہ سچے ہندوستانی بھی ۔آج بہت سے کم نظروں کو مولانا کی اس جامعیت میں تضاد نظر آتا ہے ۔ وہ اپنی بے بصیرتی اور کم نظری کی وجہ سے مولانا کے بارے میں اپنے خیال کے مطابق یا تو بہت زیادہ خوش فہم ہیں یا انتہائی خفا! ایک طبقہ وہ ہے جس نے مولانا کی سیاسی زندگی ، آزادی کی جدو جہد اور اس سلسلہ میں اپنے ہم وطنوں کے شانہ سے شانہ ملا کر مجاہدانہ حرکت و عمل سے شاکی رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مولانا نے دین کی اصل حقیقت کو پس پشت ڈال دیا تھا اور وطن پرستانہ زندگی میں کھوکر رہ گئے تھے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو صرف مولانا کے اسی سیاسی پہلو کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ متحدہ قومیت کی تعمیر ہی ان کی زندگی کا اصل مقصد و منشا تھا ، یہ دونوں ہی باتیں مولانا کے بارے میں دو انتہائی ہیں اور اس طرح سوچنا مولانا کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے ،حالانکہ مولانا مرحوم کا فکر و عمل اور ان کا کردار ان دونوں انتہا داں سے علیحدہ تھا وہ دین وسیاست کے جامع تھے، اور انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا ہندوستانی بن سکتا ہے اور رہ سکتا ہے ۔ مناسب ہے کہ اس موقع پر مولانا کے خطبۂ صدارت کا ایک ٹکڑا پیش نظر رہے، جو انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کے موقع پر رام گڑھ 1941ء میں فرمائے تھے:
’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کر تا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کے تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں ۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور برداشت نہیں کر سکتاکہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتاہے، میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر حامل فیکٹرہوں ، میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔‘‘
مولانا آزاد کی تحریک دعوت و عزیمت کا جو غلغلہ 1912ء میں الہلال سے شروع ہوا تھا ،و ہ آخر تک جاری رہا اور مولانا کے مسلک و موقف میں کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ برابر ایک ہی بات کہتے رہے کہ اچھے مسلمان بنواور اچھے ہندوستانی رہو، دنیا کی ساری عظمتیں تمہارے قدموں پر ہوں گی ۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے نتائج میں47ء کا الم ناک حادثہ بھی ہندوستان کی بد قسمت سرزمین کو دیکھنا پڑا۔ ایسے نازک وقت میں بھی مولانا نے مسلمانوں کو جس حقیقت کی طرف نشان دہی کی وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے سچ تو یہ ہے کہ شاہجہانی مسجد کی یہ تقریر مولانا کے فکر وعمل کی ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر آج بھی مسلمان کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ اس تقریرکے کچھ حصّے پیش خدمت ہیں، جو خطابت اور ادب و انشاء کی بھی شاہکار ہے اور ایک مرد مومن کے دل کی آواز بھی:
’’یہ دیکھو مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے ؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔
عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے،سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلاسکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے، چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہوجانے سے ڈرو نہیں، انہوں نے تمہیں جانے ہی کے لئے اکٹھا کیا تھا، آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ عیب کی بات نہیں، یہ دیکھو کہ تمہارے دل تو ان کے ساتھ رخصت نہیں ہوگئے۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو ان کو اپنے اس خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو سال قبل عرب کے ایک امی کی معرفت فرمایا تھا: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوُ ارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ افَلاَ خَوْفْٗ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَخْزَنُوْنَ (جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کے لئے نہ تو کسی کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم)
ہوائیں آتی ہیں اور گذر جاتی ہیں یہ صر صر سہی لیکن ا س کی عمر کچھ زیادہ نہیں، ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا یہ موسم گذرنے والا ہے، یوں بدل جاؤ جیسے پہلے تم کبھی اس حالت میں نہ تھے۔۔۔
آج زلزلوں سے ڈرتے ہو کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے، آج اندھیرے سے کانپتے ہو کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود خود ایک اجالا تھا، یہ بادلوں کے پانی کا سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائچے چڑھالئے ہیں وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا ،بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرا دیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے، یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے ہیں جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
عزیزو! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے چودہ سو برس پہلے کا پرانا نسخہ ہے، وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا اور وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان: وَلاَ تَھِنُوْ اوَ لاَ تَحْزَ نُوْا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتْم مُؤْ مِنِیْنَ)‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام کی حیثیت ایک تاریخ ساز شخصیت کی تھی، انہوں نے ’الہلال‘، و ’البلاغ‘ کے ذریعہ مسلمانان ہند کو دعوت و عزیمت کی راہ دکھلائی۔ مولانا، آزادی و حق پرستی کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے، الہلال اس دعوت کا وسیلہ تھا، اس کے ذریعہ مولانا نے اس قوم کو جگانے کا فرض انجام دیا جسے استعماری تسلط نے محو خواب کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتی تھی کہ وہ سلطنت برطانیہ جس کی حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، اس کا آفتابِ اقبال بھی کبھی غروب نہ ہوگا، لیکن ’الہلال‘ کی دعوت اور اس کے پیغام نے مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ بوڑھے، جوان، جدیدتعلیم یافتہ قدیم علماء غرض ملت کے ہر ہی طبقہ میں بیداری پیدا ہوئی اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بعد کی ساری بیداریاں مولانا ہی کے اس قلم کا نتیجہ تھیں، جس کے قلم سے موتی بھی برستے تھے اور بجلیاں بھی گرتی تھیں، جو باطل کو جلاتی اور سچ کو روشن کرتی تھیں۔ الہلال کے بعد حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان بند ہوگئی، وہ قلم ٹوٹ گیا لیکن اس کی روشن مثال باقی ہے ،وہ مقصد باقی ہے، وہ دعوت باقی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مثال اور دعوت سے گرمی بھی لیں اور روشنی بھی، اپنی زندگی کی تاریک راہوں کو اسی سے روشن و تابناک بنائیں۔ آج بھی ہم جب الہلال کے فائل پڑھتے ہیں تو اپنے اندرو ہی گرمی بھی پاتے ہیں اور وہی روشنی بھی، جو الہلال کے صفحات کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ الہلال کے بعد جب مولانا نے ’البلاغ‘ جاری کیا تو اس کا نصب العین بھی وہی دعوت و عزیمت اور اقامت دین تھا جو’ الہلال‘ کا! لیکن طریق ابلاغ کچھ مختلف تھا، تیور وہی تھے، انداز بدلا ہوا۔ ’الہلال‘ حرکت و عمل، جوش و ولولہ کا پیام رساں تھا اور ’البلاغ‘ فکر و بصیرت اور روحانی عزم و ثبات کا۔ ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ میں مولانا ابوالکلام کی دینی و علمی مقالات کا جو فاضلانہ لب و لہجہ، سیاسی مضامین کا مجاہدانہ و قائدانہ انداز، مذہبی افکار کا حکیمانہ اسلوب اور اس کے ساتھ اس کی خطیبانہ بلند آہنگی، عسکرانہ رجز خوانی، مرد مومن کا اذعان و یقین ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کی مثال پیش کرنے سے اردو صفحات کی تاریخ عاجز ہے، جب ہم انھیں پڑھتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک نیا ولولۂ حیات ایک نیا جوش زندگی حاصل ہوتا ہے اور یہی مولانا کے قلم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے فکر رسا اور زور قلم کے نتیجہ میںآسمان علم و ادب پر یوں تو چند روشن ستارے نمایاں ہیں اور سب کی تابش نظر کو خیرہ کرنے والی ہے لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے قرآن مجید کی تفسیرترجمان القرآن ،مولانا کی تمام تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔اور آسمان علم و ادب پرستاروں کے جھرمٹ میں ماہ کامل کی طرح روشن اور تابناک ہے۔اس میں مولانا کے قلم کی توانائی،قوت استدلال،اجتہاد فکر،وسعت نظر،قرآنی فکر نمایاں نظر آتی ہے اوریہ وہ خصوصیات ہیں جن میں مولانامنفردحیثیت کے مالک ہیں۔بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا ایک ایسا دور ہے جس میں عالم اسلام نے ذہنی و فکری طور پر ایک نئی کروٹ لی ہے،اس کے اسباب سیاسی بھی ہیں اور علمی بھی،دنیا کے عام تمدنی حالات بھی ہیں اور علم جدیدہ کا ارتقا بھی۔یہ اسی دورکا نتیجہ تھا کے عالم اسلام میں جمال الدین افغانی،مفتی محمدعبدہ اور علامہ رشید رضا پیدا ہوئے اور اسی دور میں ہندوستان میں سرسید،شبلی اور ابوالکلام کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی ۔سرسید کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کی بیداری میں نقش اول کی حیثیت رکھتی ہے لیکن سرسید کے ذہن میں مشرق و مغرب کی وہ جامعیت نہ تھی ،جو شبلی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مسائل میں سرسید سے لغزشیں بھی ہوئیں،مولانا آزاد جہاں سرسید کی فکر روشن کے مداح تھے وہیں ان کے بعض خیالات کے ناقد بھی تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کی نئی نسل کے ذہن پر سرسید سے زیادہ شبلی کا اثر تھا،فکر شبلی سے دو متوازی لہریں اٹھیں ایک ابو الکلام کا ’’الہلال‘‘ تھا دوسرے شاعر مشرق اقبالؔ کا پیام مشرق!یعنی دو عظیم شخصیتوں نے اپنے دائرہ عمل میں ملت اسلامیہ کے جدید اذہان پرغیر معمولی اثر ڈالا،اقبال و ابو الکلام کے فکری لہروں سے ایک تیسری لہر پیدا ہوئی،جس نے عالم اسلام میں تجدید و انقلاب کی نئی داغ بیل ڈالی، میری مراد سید ابو ا لاعلیٰ مودودی سے ہے۔ مولانا مودودی کی سحر آفریں شخصیت آج سارے عالم اسلام میں تحریک اسلامی اور انقلاب اسلامی کی علامت(symbol)بن گئی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص سیدرشید رضا کی تفسیر’ المنار‘ ، مولانا ابو الکلام کا ترجمان القرآن اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ایک ساتھ مطالعہ کرے تو اسے ایک ہم آہنگ ذہنی ارتقا اور فہم قرآن کا ایک فکری تسلسل نظر آئے گا اور ایسا صاف محسوس ہوگا کہ ایک ہی سانچہ میں ڈھلے ہوئے مختلف ذہن، مختلف زبان اور انداز بیان میں اظہار مطالب کر رہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر القرآن کا جب ذکر آگیا ہے تو اس سلسلہ کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کردینا بھی بہتر ہے، ترجمان القرآن کی جب پہلی جلد منظر عام پر آئی تو اس میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر مولانا کے فکر و نظر کی ایک ایسی شاہ کار تھی جس کی مثال اردو تو کیا عربی تفاسیر میں بھی نہیں ملے گی، اس کے پڑھنے سے کچھ ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ مولانا نجات اخروی کے لئے صرف ایمان با اللہ اور عمل صالح کو کافی سمجھتے ہیں ، ایمان بالرسالت،نجات کے لئے ان کے نزدیک ضروری نہیں مولانا کی تفسیر کے اس رخ سے اپنوں کو شکایت ہوئی، غیروں نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر عوام میں مولانا کو بے دین و بے عقیدہ قرار دیا۔حالانکہ یہ بات ہی سرے سے غلط تھی۔ سورہ فاتحہ کی تفسیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مولانا ایمان با لرسل کے قائل نہیں ،ایک مسلمان کے بنیادی عقیدہ سے نا واقفیت کی دلیل ہے، مولانا نے بہت ہی صاف اور صریح لفظوں میں اس غلط فہمی کی تردید کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں مولانا مرحوم کے وہ خطوط’’ قول فیصل ‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں ہماری ریاست بہار کے مشہور قومی و ملی رہنما جناب قاضی احمد حسین مرحوم نے ’’میرا عقیدہ‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے قرآنی فکر و زہن کا سب سے بڑا ثبوت خود مولانا کا ادب و انشا بھی ہے،مولانا کا ادبی اسلوب وہی ہے،جسے ہم قرآن کا ادبی اسلوب کہہ سکتے ہیں،یعنی حکیمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطیبانہ اور معجزانہ بھی !قرآن کا ادبی اسلوب یہ ہے کہ ایک طرف وہ فکر و نظر اور عقل و دانش کو اپیل کرتا ہے تو دوسری طرف اس میں جذبہ کا ابھار اور جوش کا اظہار ہوتا ہے مولانا کا یہ ادبی اسلوب اور انداز بیان تقریبا ان کی تمام ہی تحریروں میں نمایاں ہے بلکہ ان کے ادبی اسلوب کی اصل خوبی بھی یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معجز نمااسلوب کے موجد اور خاتم دونوں ہی ہیں۔
فکر ابو الکلام کے سلسلہ میں دور متو سطین کے علماء علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کا ذکر نہ کرنا ،مولانا کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، سچ تو یہ ہے کہ مولانا آزاد،علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ سے کافی متاثر تھے۔ مولانا کی قرآنی بصیرت، دینی دعوت اور ایمانی قوت میں ابن تیمیہ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کے فکر کی پرچھائیں نظر آتی ہے۔مولانا آزاد کا زور بیان،حسن انشا اور قدرت کلام کا کمال یہ ہے کہ ہر فکر خواہ وہ کہیں سے لی گئی ہو،اُن کی اپنی فکر بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت ایک عہد آفریں شخصیت تھی اور جب ہم فکر ابوالکلام کا جائزہ الہلال و البلاغ کے فائل ، تذکرہ کے اوراق اور ترجمان القرآن کے صفحات میں لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ؂
ز فرق تا با قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است

Sunday 16 March 2014

होली


होली
नज़ीर अकबराबादी
आ धमके ऐश वतरब क्या किया जब हुस्न दिखाया होली ने
हर आन ख़ुशी की धूम हुई यूं लुतफ़ जताया होली ने
हर ख़ातिर को ख़ूरसंद क्या हर दिल को लुभाया होली ने
दफ़ रंगीं नक़्श सुनहरी का जिस वक़्त बजाया होली ने
बाज़ार गली और कूचों में गुल शोर मचाया होली ने
या स्वांग कहूं या रंग कहूं या हुस्न बताऊं होली का
सब अबरन तले पर झमक रहा और केसर का माथे टीका
हंस देना हरदम नाज़ भरा दिखलाना सज धज शोख़ी का
हर गाली, मिस्री, क़नदभरी, हर एक क़दम अटखीली का
दिल शाद किया और मोह लिया ये, जोबिन पाया होली ने
कुछ तबले खटके ताल बजे कुछ ढोलक और मृदंग बजी
कुछ झड़पें बैन रबाबों की कुछ सारंगी और चंग बजी
कुछ तार तनबोरों के झनके, कुछ ढमढी और मुँह चंग बजी
कुछ घुंघरु खटके झुम झुम झुम कुछ गति गति पर आहंग बजी
है हर दम नाचने गाने का ये तार बंधाया होली ने
हर जगह  थाल गुलालों से, ख़ुश रंगत की गुलकारी है
और ढेर अबीरों के लागे, सौ इशरत की तैय्यारी है
हैं राग बहारें दिखलाते और रंग भरी पिचकारी है
मुँह सुर्ख़ी से गुलनार हुए तन केसर की सी क्यारी है
ये रूप झमकता दिखलाया ये रंग दिखाया होली ने
हर आन ख़ुशी से आपस में सब हंस हंस रंग छिड़कते हैं
रुख़सार गुलालों से गुल गों, कपड़ों से रंग टपकते हैं
कुछ राग और रंग झमकते हैं कुछ मै के जाम छलकते हैं
कुछ कूदे हैं, कुछ उछले हैं, कुछ हंसते हैं, कुछ बिकते हैं
ये तौर ये नक्शा इशरत का हर आन बनाया होली ने

خوش خبری