آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 25 January 2016

Do Behnein By Aqsa Usmani

دو بہنیں 
اقصیٰ عثمانی
ایک شہر میں  دو بہنیں رہتی تھی  لینا اور ایلینا دونوں خوبصورت تھیں ان کے ماں باپ گزر چکے تھے  اور اس شہر میں بِن ماں باپ کے بچّوں کو الگ سے گھر ملتا تھا دونوں کو الگ الگ گھر مل گئے۔   
انہیں  خود سے محنت کرکے پیسہ کمانا تھا۔ لینا کا باغ بہت اچھا تھا۔ ایلینا کا باغ بہت خراب  تھا۔ کچھ سال میں ایلینا نے اپنا باغ اچھا اور خوبصورت بنا دیا۔                  
لینا کو ایلینا کا باغ دیکھ کر  جلن ہونے لگی، اس نے اُس کی جاسوسی شروع کردی۔ ایک دن اس نے ایلنا کو سیب کے پیڑ کے پاس دیکھا اور اُسے لگا یہ وہاں کوئی جادو کررہی ہے، لیکن اس کو بعد میں پتا چلا کہ وہ جادو نہیں کررہی تھی بلکہ اس پیڑ کی جڑوں میں پانی ڈال رہی تھی۔ اُسے اس کے درختوں میں پھل آنے کا راز معلوم ہو چکا تھا، وہ جان گئی تھی کہ صبح سویرے صفائی کرنے اور پودوں میں پانی ڈالنے سے ہریالی آتی ہے اور باغ خوبصورت نظر آنے لگتا ہے۔ اب وہ اس راز کو جان چکی تھی اس نے بھی وہی طریقہ اپنایا اوروہ بھی خوش رہنے لگی۔  اب اُس کے باغ میں بھی ڈھیر سارے پھل اور پھول آنے لگے تھے۔                         

दो बहनें
अकसा उसमानी
एक शहर में दो बहनें रहती थी लेना और एलिना दोनों ख़ूबसूरत थीं उनके माँ बाप गुज़र चुके थे और इस शहर में बे-माँ बाप के बच्चों को अलग से घर मिलता था दोनों को अलग अलग घर मिल गए।
उन्हें ख़ुद से मेहनत करके पैसा कमाना था। लेना का बाग़ बहुत अच्छा था। एलिना का बहुत ख़राब था। कुछ साल बाद उसने अपना बाग़ अच्छा बना दिया।
लेना को जलन होई उसने जासूसी शुरू कर दी एक दिन उसने एलिना को सेब के पेड़ के पास देखा और इस को लगा ये वहां कोई जादू कर रही है लेकिन इस को बाद में पता चला कि वो जादू नही कर रही थी बल्कि इस पेड़ की जड़ों में पानी डाल रही थी उसे उस के दरख़्तों में फल आने का राज़ मालूम हो चुका था वो जान गई थी कि सुबह सुबह सफ़ाई करने और पौदों में पानी डालने से हरियाली आती है और बाग़ ख़ूबसूरत नज़र आने लगता है। अब वो इस राज़ को जान चुकी थी उसने भी वही तरीक़ा अपनाया और वह ख़ुश रहने  लगी।

Monday 11 January 2016

JAMSHEDPUR: THE TOWN OF LOVE & BEAUTY By Arisha Usmani

JAMSHEDPUR: THE TOWN OF LOVE & BEAUTY
By ARISHA USMANI

Last year in 34 hours our town had gone decades back. That town in whose air there was relief; in the words there was sweetness; there was love; talk was about peace; there was likeness for achieving the goals in life; suddenly it all changed…

What changed? It broke down into pieces, and don’t know how much time, how many years will be required to gather all those broken pieces.

But who will gather it? That person who came to my house to sweeten his mouth? That person threw stones at my house….

The talks between ‘us’ became like abyss. If ever any talks would have happened, it would have been between the illiterate people who were the main culprits to destroy the peace of this beautiful town. Those illiterates had no religion, no caste. Then why ‘we’ lost our caste and religion? Why did ‘we’ built a wall of hatred between us?

For years we supported brotherhood, we went to each others houses in each others respective festivals, we shared each others happiness and stood by each other in the hard times, but all these just vanished in just few minutes.

Why didn’t we think that the stone which we threw would hurt our own brothers. The blood which would come out would also be red in color? Why didn’t we think that the town which was known for its hard labour and which followed the proverb “United we stand, Divided we fall” and was known for it; is now being known for hatred?

If we would have thought for it just for a second, it would never have happened. So before we stop thinking about right and wrong, about the people of other religion that they are also humans like us, we should give the PROOF OF HUMANITY.

The people who love peace should come forward be it of any religion, any caste…. Why those people are so quiet? Why they are just seeing our town burning in the fire of hatred? Why don’t they come forward and stop those hands who have stones in them?

If not so much then at least they should help the government in acquiring peace. In these hard times when just a line of faith and trust can work wonders, some people are just spreading rumors….and those people should remember just one thing that the fire of rumor can burn their own house.

So come and make a promise to maintain the beauty of this town and bring back peace which this town had lost……..

                                                                                             

                                                                                               



Tuesday 17 February 2015

تری مستی کے افسانے رہیں گے


تحریر: ابن طاہرعثمانی

کلیم آئے بھی اپنی غزل سنا بھی گئے
الاپ بھی گئے رو بھی گئے رُلا  بھی گئے
سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی ایک آواز جو ۷۰ اور ۸۰ کی دہائی میں کُل ہند مشاعروں کی جان ہوا کرتی تھی آج خاموش ہوگئی۔پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز اس دنیا میں نہیں رہے۔انہوں نے اپنے منفرد انداز بیان سے اردو شاعری میں میر کے لہجے کو آگے بڑھایا۔اپنی زندگی کے سب سے بڑے المناک حادثوں کو انہوں نے آفاقی بنا دیا۔ ان کی درد بھری المناک یادیں صرف انہی تک محدود نہیں  رہیں بلکہ ان کے اشعار میں وہ تاریخ کا حصّہ بن گئیں۔ لال قلعہ کے مشاعرہ میں پڑھے گئے اس شعر 

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہے کہ کرامات کرو ہو

کو آج بھی اہل علم یاد کرتے ہیں تو اس کمزور جسم کے ناتواں انسان کےاس شدید شعری احتجاج کو نہیں بھلا پاتے۔آج بھی یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے۔خود کلیم عاجز کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ تلخ لہجہ اگر غزل کے حسین پیرائے میں قید نہ ہوتا تو قابل گردن زدنی قرار دیا جاتا۔یہ شعر بلکہ پوری غزل مخاطبِ غزل کے مزاج نازک پر کتنا گراں گزری یہ تو معلوم نہیں لیکن لال قلعہ کے مشاعروں میں کلیم عاجز کی شرکت ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار پا گئی۔خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور  اکیڈمی کے ارباب  اقتدار بخوبی اس روایت کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اسے آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔
کلیم عاجز کی شاعری ہندوستان کے سماجی و سیاسی حالات کا بھرپور منظر نامہ پیش کرتی ہے۔وہ مناظر و واقعات جو کلیم عاجز کی شاعری کا بنیادی جز بنے وہ آج بھی مختلف شکلوں میں دہرائےجا رہے ہیں۔کھونے اور لُٹ جانے کا احساس بہتوں کو ستا رہا ہے۔آج بھی لوگوں کے دل اسی طرح زخموں سے چور ہیں اور ہر درد مند انسان اس کو اپنی زندگی کا ایک حصّہ سمجھتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ قاری ڈاکٹر عاجز کا جب بھی کوئی شعر پڑھتا ہے تو اسے وہ اپنے دل سے نکلتی ہوئی آواز محسوس کرتا ہے۔اگر اپنے اشعار کی ترسیل میں کلیم عاجز کی انا پسندی کا دخل نہ ہوتا تو شاید آج وہ ہندوستان کی گلی کوچوں کے سب سے مقبول شاعر ہوتے۔
ایک زمانہ تھا کہ کلیم عاجز ہندوستانی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔میرے والد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ جو خود بھی ایک شاعر تھے ڈاکٹر کلیم عاجز سے خصوصی لگاؤتھا۔اس زمانے میں وہ جب بھی دھنباد تشریف لاتے تو ہمارے گھر ضرور آتے۔والد محترم سے گھنٹوں ادبی و شعری گفتگو ہوتی اور باتوں ہی باتوں میں ایک شعری نشست ہوجاتی۔مشاعروں میں ایک ایک شعر کے لئے ناز و انداز دکھانے والے کلیم عاجز اتنی محبت سے شعر پر شعر سناتے کے ان کی فراخدلی دیکھتے ہی بنتی۔شاید ڈاکٹر کلیم عاجز کو احسا س تھا کے اس محفل میں ان کے سچے قدرداں موجود ہیں۔ یہی صورت حال میرے خالو سید ناطق قادری  اور ماموں طارق قادری کے ساتھ تھی۔نہیں معلوم ان کے دلوں پر اس سانحہ کے بعد کیا گزری ہوگی۔ کلیم عاجز ان کے لئےمشفق بڑے بھائی  اور ہمدم سے کم نہ تھے۔ان کے آبائی گاؤں بمنڈیہہ جو اورنگ آباد بہار میں واقع ہے وہ اکثر تشریف لاتے۔ تبلیغ کی اہم معمولات کی ادائیگی کے بعد ادبی گفتگو مشاعرہ میں تبدیل ہوجاتی اور پھر کلیم عاجز کے اشعار اور واہ واہ کی یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور پھر موذن ہی اس سلسلہ کو لگام لگا پاتا۔اس محفل میں کلیم عاجز نعتیں  غزلیں یہاں تک کے گیت بھی سناتےجو کبھی بہار کی ادبی روایت کا ایک حصّہ ہوا کرتی تھیں۔میرے وطن جھریا میں تو ڈاکٹر کلیم عاجز کے آنے کاسلسلہ تو رفتہ رفتہ کم ہوگیا بلکہ والدماجد کے انتقال کے بعد بالکل ہی ختم ہوگیا لیکن بمنڈیہہ آنے کا سلسلہ تا حال جاری رہا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے یہ شعری نشستیں ان مشاعروں سے بالکل الگ تھیں جو بین الاقوامی سطح پر عرب ممالک میں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ بعض وجوہات کی سبب انہوں نے ہندوستانی مشاعروں میں حصّہ لینا بہت پہلے ہی ترک کردیا تھا۔آج ادبی دنیا کی اہم شخصیتیں اردو مشاعروں کے تہذیبی زوال پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں لیکن کلیم  عاجز کے حساس مزاج نے برسوں قبل اس ماحول سےاپنی ذات  کو الگ کرلیا تھا۔انہیں ڈر تھا

کوئی ناشناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے

گرچہ یہ موقع شکوہ و شکایت کا نہیں لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں  جن کی بنا پر جب ان کے عہد کے دوسرے شعرا مشاعروں میں اپنی دھوم مچارہے تھیں کلیم عاجز نے ان مشاعروں سے خود کو الگ کرلیا۔آخر کیوں دبستان عظیم آباد کے اس عظیم شاعر نے دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے سجے اسٹیج پر اپنی موجودگی کو اپنی رسوائی کا سبب جانا۔خودداری کا وہ کون سا جذبہ تھا جس نے مشاعروں کے اسٹیج سے دوری کو ہی اپنے عزت نفس کی تسکین کا ذریعہ جانا۔ گرچہ اس زمانے میں میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے آج بھی یاد ہے شیر وانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس یہ باریش اور پرنور شخصیت کس طرح جام و مینا میں ڈوبےشاعروں کے لئے باعث تضحیک ہوتی تھی ۔ان کے سامنے زبان کھولنے کی تو کسی میں ہمت نہ تھی لیکن ان کی شاعری میں شامل علاقائی لب و لہجہ جو کسی حد تک زبان ِ میر کے قریب ہونے کے باوجودان کے لئے باعث مزاح ہوتا  تھا۔عاجز کا یہ شعر

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

ایسے ہی ’’ناشناس مزاج غم‘‘کی جانب ایک اشارہ ہے۔بہار کے شہر جھریا میں کل ہند مشاعرہ  جس کے انعقاد میں والد ماجد کی سرگرم کوششوں کا بڑا دخل تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس مشاعرہ کے روح رواں تھےاس  مشاعرہ میں اس وقت تمام نامور شعرا نے شرکت کی تھی جن میں علامہ فرقت کاکوروی٬ہلال سیوہاروی٬ملک زاد ہ منظور احمد٬ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر٬ڈاکٹر بشیر بدر٬اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ شامل تھے۔جھریا سے قبل  جھارکھنڈ کےگریڈیہ کے مشاعروں میں ان تمام شعرا نے شرکت کی تھی۔اس مشاعرہ میں کسی بات پر ڈاکٹر کلیم عاجز کی انانیت کو ٹھیس پہنچی اور اس کے بعد انہوں نے ناظم مشاعرہ اور سجی سنوری شاعرات کو مقابل رکھ کر جو فی البدیہ غزل سنائی تو سبھی ہکا بکا منہ تکتہ رہ گئے۔یہاں میں نے ہکا بکا کا لفظ بطور خاص استعمال کیا ہے کہ زبان و بیان کے ٹھیکے دارسادہ الفاظ کی وسعت کو سمجھ سکیں۔مشاعرے میں نوبت یہ تھی کہ اسٹیج خاموش تھا اور پنڈال واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صداؤں سے گونج رہا تھا۔

مکمل غزل ملاحظہ کریں

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ گل قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
وہ شوخ ستم گر توستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو

کلیم عاجز کی انا کو جو ٹھیس لگی تھی اس کا رنگ جھریا کے مشاعرے تک نظر آیا اور ان پر جملہ کسنے والی ٹولی ان سے شرمندہ شرمندہ سی رہی۔
کلیم عاجز ٹوٹے ہوئے دل کے مالک تھے۔اور بہار میں صوفیوں کے سرتاج حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کا کہنا ہے کہ جو دل جتنا ٹوٹا ہوتا ہے اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے۔ اقبال کی زبان میں ؃
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
عاجز کا دل ایک جانب تو  زخموں سے چور تھا دوسری جانب وہ  عشق رسول ،محبت الٰہی سے سرشار اور خوف خدا سے بھی پارہ پارہ تھا

دل کی یہ شکستگی اور خاتم النبی حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پناہ محبت کلیم عاجز کے نعتیہ اشعار میں جا بجا نظر آتی ہے۔ ان کی نعت دربار  ِ بے کس پناہ میں امت مسلمہ کی حالت  زار کا بیان اور ان کی نگاہ لطف کرم  اور ظالموں سے نجات کے لئے عرضی ہے۔  کلیم عاجز کی بیشتر نعتیں ہندوستان میں رو نما ہونے والے بدترین فسادات کے بعد کہی گئیں ۔بے سرو سامانی کی حالت میں کلیم عاجز کے لئےیہی ایک دربار ہے جہاں وہ اپنا حال دل بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ مراد آباد میں عید کے دن ہونے والے فسادات سےمتاثرہوکر یہ نعت کہی۔اس نعت کے چند اشعار یہاں آپ کی نذر ہیں جس میں  ان کے دل میں اپنی قوم کے درد اورظالموں سےپناہ کی خواہش صاف نظر آتی ہے


مدینہ پہونچ کر سرِعام کہیو
صبا کملی والے سے پیغام کہیو


طبیعت اندھیروں سے اکتا گئی ہے
بہت دن سے ہے شام ہی شام کہیو

خزاں بھی گذاری بہاریں بھی دیکھیں
ملا کوئی کروٹ نہ آرام کہیو

ہمیں پھول بانٹیںہمیں زخم کھائیں 
وہ آغاز تھا اور یہ انجام کہیو


وہ خود ہی نہ دریافت فرمائیں جب تک
تخلص نہ ان سے مرا نام کہیو


جس طرح غالب کی شاعری کا ذکر غالب کی نثر کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک اسی طرح کلیم عاجز کی شاعری کا تذکرہ ہو اور ان کی نثر کو بھلا دیا جائے ایسا ممکن نہیں۔دراصل  کلیم عاجز کی نثر ان کی شاعری کا پیش لفظ ہے۔ ان کی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا•••‘‘٬ابھی سن لو مجھ سے٬ جب فصل  بہاراں آئی تھی٬یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ اورجہاں خوشبو ہی خوشبو تھی  میں  الفاظ  کی روانی٬سادگی اور ان کی معنویت نثر میں نظم کا احساس پیدا کرتی ہے۔الفاظ اتنے سادہ اور مربوط ہیں  اور اندازبیان اتنا دل کو چھو جانے والا ہے کہ آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔غم جاناں کس طرح غم دوراں بنتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ان کی نثر نہ صرف ایک المناک داستان ہے بلکہ تاریخ ہے ان فسادات کی جو زمانے میں ہندوستان کے لئے ایک عفریت رہی ہے اور اس نے ہندوستان کے ہزاروں افراد کو اپنا نشانہ بنایا۔کلیم عاجز نے اس غم کو نہ صرف حرز جاں بنایا بلکہ  اپنے غم کو دوسرےحساس دلوں کی آواز بھی بنا دیا۔میں نے کلیم عاجز کی اس نثر کو متعدد بار پڑھنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس حقیقی بیانیے نے میرے قدم روک دیے میں نے ان وحشت ناک  مناظر سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔شاید مجھ میں ان لمحوں کو جینے کی ہمت نہ تھی۔ کلیم عاجز ۸۵ برسوں تک ان لمحوں کو سینے سے لگائے کس طرح گنگناتے رہے یہ انہی کا دل گردہ تھا۔میرا اپنا خیال ہے کہ کلیم عاجز کو پدم شری اور عزت و شہرت تو ملی لیکن عوام کو ان کی اس قدر کا موقع نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔

تری مستی کے افسانے رہیں گے
جہاں گردش میں پیمانے رہیں گے



ابھی کلیم کو کوئی پہچانتا نہیں
یہ اپنے وقت کی گدڑی  میں لعل ہیں پیارے

کلیم عاجز کے وہ اشعارجو زمانے سے میری ڈائری کی زینت ہیں ارور آج انکی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئے ہے۔
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے کی کیا بات کرو ہو

عاجز کے جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کے سب راحت و آرام پڑا ہے

عاجز یہ تم نے کیا غزل بے مزا پڑھی
ایک شعر بھی نہیں صفت زلف یار میں


Friday 19 December 2014

واپسی

آٹینہ ایک طویل وقفے کے بعد آپ کی خدمت میں ایک بار پھر حاضر ہے۔ اس درمیان کئی موضوعات ایسے آئے جن پر آپ سے روبرو ہونے کی شدید خواہش رہی مگر بعض تکنیکی وجوہات کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
انشاء اللہ اب یہ سلسلہ جاری رہے گا اور آپ مختلف موضوعات پر مضامین سے اپنے دل و دماغ کی تسکین کرسکیں گے۔

Sunday 27 April 2014

دعوت عرس

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم صلی وسلم علے نورسیدنا محمد قاسم الفیوض والبرکات و علی الہ وبارک وسلم
یک زمانہ صحبتے با اولیا
بہتر از صد سال ذکر بے ریا
حبی فی اللہ         السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی!
الحمد اللہ حسب سابق صاحب التفرید و تجرید شیخنا و مرشدنا و جدنا حضرت الحاج شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہیدفردوسی سملوی قدس سرہ العزیز کا سالانہ عرس مبارک بتاریخ 6 ،7 ، 8رجب 1436 مطابق 26، 27، 28 اپریل 2015 بروزاتوار، سوموار،منگل خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ۔سملہ میں منعقد ہورہا ہے۔زیارت شریف موئے مبارک شفیع المذنبین خاتم النبین حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۷ رجب بعد نماز ظہر ہوگی۔ تمام اخوان و احباب سے ملتجی ہوں کہ عرس کی شرکت اور آستانہ کی حاضری سے مستفیض ہوں۔ صاحب عرس کے ایصال ثواب کی نیت سے تلاوت کلام مجید ،کلمہ طیبہ اور درود شریف کا زیادہ سے زیادہ ورد  تمام احباب اور اخوان کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو کار خیر کی توفیق   عطا کرے اور بزرگوں کے فیوض و برکات سے ہمارے قلوب کو روشن اور منور فرمائے۔
ہے خراب بادہ ساقی کمالی کی د عا
حشر تک یا بوالحسن آباد میخانہرہے آمین
خاکپائے فردوسیاں
                                              دعاگو   
شاہ                                      محمد تسنیم عثمانی فردوسی سملوی
 سجادہ  نشیں خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ، ضلع اورنگ آباد (بہار)
Mobile: 09431347304



Saturday 5 April 2014

حضرت شاہ کمال علی کمال دیورویؒ شخصیت اور ان کی مثنوی

حضرت شاہ کمال علی کمال دیوروی کے عرس کے موقع پر آئینہ کی خصوصی پیشکش

 آپ کا عرس 7 جمادی الثانی کو خانقاہ برهانیہ کمالیہ دیورہ شریف میں آپ کے زیب سجادہ حضرت شاہ حافظ انور علی عثمانی فردوسی دیوروی مدظلہ العالی دامت برکاته کی سرپرستی میں منعقد ہوتا ہے۔

Sunday 23 March 2014

میں مصور ہوں ۔اسریٰ عثمانی


اسریٰ عثمانی، خدیجة الکبریٰ گرلس پبلک اسکول ، جوگا بائی، نئی دہلی

آج کا شعر


Saturday 22 March 2014

میں مصوّر ہوں ۔ یمنیٰ عمانی


جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل


قاضی سید احمد حسینؒ


جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل
طیب عثمانی ندوی

سر زمین بہار شروع سے ہی بہت مردم خیز خطہ رہا ہے۔اپنی علمی و ادبی ،روحانی و اخلاقی اور سیاسی و انقلابی کارناموں کی وجہ سے یہ ریاست ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ علم و ادب میں جہاں علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا مناظرا حسن گیلانی،مولانا ابو المحاسن محمد سجاد جیسے جید عالم دین و ادب پیدا ہوئے وہیں سیاسی و اجتماعی زندگی میں غیر مسلموں میں ڈاکٹر راجندر پرشاد،جئے پرکاش نارائن جیسے سیاسی مدبر اور مسلمانوں میں مولانا مظہر الحق،مولانا شفیع داؤدی،ڈاکٹر سید محمود اور شاہ محمد زبیر جیسے اہل فکر و سیاست نے اس سرزمین کو رونق بخشی،اسی سرزمین میں جنگ آزادی کے مجاہد جلیل،دین و سیاست اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل جناب قاضی سیداحمد حسین ؒ پیدا ہوئے۔جن کی ہشت پہلو ہمہ جہت شخصیت کا مختصر تعارف اس وقت میرے پیش نظر ہے۔وہ ایک ایسے مرد مومن تھے جن کے دنوں کی تپش اور شبوں کے گداز کوان آنکھوں نے تقریباً دو سال شب و روز خلوت و جلوت میں ساتھ رہ کر دیکھا اور ان کی حکمت و دانائی ،روحانی و اخلاقی فکر و عمل سے فیضیاب ہوا۔ان کی پوری زندگی جنگ آزادی کی جدو جہد، ملک و ملت کی خدمت گذاری اور دعوت دین میں گذری۔ان کی مؤمنانہ بصیرت اور فطری ذہانت ا ن کی پیشانی سے عیاں ہوتی۔قاضی احمد حسین صاحب بہار کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ان کی جائے پیدائش موضع کونی بر، نرہٹ ضلع نوادہ ہے۔ان کے والد قاضی عبد اللطیف صاحب بہار کے بڑے زینداروں میں شمار ہوتے تھے۔خاندان سادات سے ان کا تعلق تھا۔اس خاندان میں قضا کا محکمہ کئی پشت سے چلا آرہا تھا اس لئے قاضی کا لفظ اس خاندان کے نام کا جزو بن گیا۔ آپ کی نانیہال سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار) کے عثمانی خانوادہ میں تھی جو شروع سے رشد و ہدایت،تصوف و احسان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔ ان کی والدہ بی بی رحمت اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں جن کا ذوق عبادت اور شوق ریاضت خاندان میں مشہور تھا۔قاضی صاحب کو جہاں دادیہال سے ریاست و خوشحالی ملی تھی،وہیں اپنی نانیہال سملہ کے بزرگوں اور اپنی والدہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل ہوئی تھی،اس طرح ان کے مزاج میں سلطانی و درویشی کا حسین امتزاج تھا۔میں نے ان کو دن میں دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول پایا تو راتوں کو اخیر شب میں تہجد گذاری،ذکر و اشغال، اپنے خدا کے حضور میں روتے ،گڑگڑاتے اور آہ و بکا کرتے دیکھا،ایسی جامع شخصیت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
قاضی احمد حسین صاحب ؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔اردو،فارسی،نوشت و خواند اور ساتھ ہی حفظ قران مکمل کیا۔کم عمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔14برس کی عمر میں ہی کاروبار زمینداری کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا،اسی باعث ان کی روائتی تعلیم ادھوری رہ گئی لیکن اپنی خداداد ذہانت اور ذوق مطالعہ سے ان کی علمی صلاحیت بہت بڑھ گئی تھی ۔علماء،شیوخ اور اہل علم و دانش کے درمیان وہ بڑی وقعت اور وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،قرآن مجید سے شغف اور تفاسیر کا مطالعہ ان کا خاص موضوع تھا۔روزانہ مطالعہ قرآن کسی نہ کسی معتبر تفسیر سے کرتے۔فقہ و حدیث،تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتیں۔ان کے علاوہ مختلف علمی موضوعات پر متنوع علمی مطالعہ ان کا خاص ذوق تھا،جس نے ان کی شخصیت اور فکر و نظر میں وسعت پیدا کردی تھی ، نگہہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پرسوز کے وہ مصداق بن گئے تھے اس طرح میر کارواں بننے کے وہ ہر طرح مستحق تھے۔
عنفوان شباب میں ہی کلکتہ کے انقلابیوں سے ان کا تعلق ہوگیااور ساتھ ہی مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی بہت قریب ہو گئے،مولانا آزاد کا اخبار’’الہلال‘‘ مشرق کے افق سے طلوع ہو چکا تھا،اسی زمانہ میں مولانا آزاد کی تحریک ’حزب اللہ‘ میں بھی وہ شریک رہے۔پھر جب ملک میں خلافت تحریک کا زور ہوا تو وہ بہار میں تحریک خلافت کے روح رواں بن گئے۔مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے ان کا رابطہ ہوا۔اس سے پہلے تشدد چھوڑ کرگاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بطور حکمت عملی اختیار کر چکے تھے اور گاندھی جی کے ایماء پربمبئی خلافت ہاؤس میں مولانا محمد علی ،مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کچھ دنوں کام کیا،پھر گاندھی جی نے اہلِ بہار کے اصرار پر قاضی صاحب کو بہار واپس بھیج دیا ۔
قاضی صاحب کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے، جب کہ وہ جوان تھے،شوق اور جوش انقلاب میں زمینداری کے سارے کاروبار اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی تعلیم ختم کرکے گھر آگئے تھے حوالہ کرکے بنگال کی انقلابی تحریک میں شریک ہو گئے،اس طرح بنگالی نوجوانوں کے ساتھ تشدد کے ذریعہ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی کی جدو جہد میں شریک رہے۔قاضی صاحب تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدم تشدد کے اصول پر کانگریس کی تحریک آزادی میں کس طرح شریک ہوئے اس واقعہ کو خود انہوں نے مجھ سے اس طرح فرمایا:اسی زمانہ میں الہ آباد میں گاندھی جی نے کانگریس کا ایک جلسہ بلایا،جس میں ہم بھی شریک ہوئے اس جلسہ میں گاندھی جی نے ایک مختصر تقریر کی لیکن وہ اتنی موثر تھی کہ ہم اور دوسرے نوجوانوں نے متاثر ہوکر تشدد کا راستہ چھوڑ دیا اور پستول پھینک کر گاندھی جی کی عدم تشدد کے ذریعہ کانگریس کی تحریک آزادی میں ہم بھی شریک ہوئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قاضی صاحب کانگریس کے ساتھ تحریک خلافت میں بھی برابر شریک رہے۔اسی دور میں جب ملک میں خلافت تحریک زوروں پرچل رہی تھی،بہار میں قاضی احمد حسین صاحب کے ساتھ متعدد ہندو مسلم رہنماگرفتار کر لئے گئے تو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا مورخہ 22دسمبر1921ء میں لکھا۔
’’کرشن پرشاد ،راج رنگ دت ،رانا شنکر، قاضی احمد حسین گیا کے ،یہ سب رہنما شخصیتیں ڈیڑھ سو رضاکاروں کے ساتھ گرفتار کر لی گئی ہیں۔بہار کی زمین غم و الم بن گئی ہے،یہ حضرات ہندوستان کے سب سے زیادہ بے غرض کارکن ہیں جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور بے غیر ریا اور نمائش کے۔‘‘
جنگ آزادی میں کانگریس ،تحریک خلافت، جمعیتہ علمائے ہند اورامارت شرعیہ بہار سے عملاً متعلق رہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے جب امارت شرعیہ بہار کا قیام عمل میں لایا تو قاضی صاحب اس دینی تحریک کے ثانی اثنین بن گئے اور اخیر عمر تک اعزازی طور پر بحیثیت ناظم امارت شرعیہ میں کام کرتے رہے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد جنوری1954ء سے1955ء تک تقریباً دو سال میں امارت شرعیہ بہارسے متعلق رہا۔ ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت مدیر میری تقرری ہوئی اور ساتھ ہی معاون ناظم کی حیثیت سے قاضی صاحب کے ساتھ معاونت میرے فرائض میں شامل تھی۔یہ دو سال میری زندگی کا انتہائی قیمتی دور گذرا ہے۔جس میں مجھے قاضی صاحب کے ساتھ صبح و شام رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ملک کی دینی، سیاسی اور ملی تحریکات کے سلسلہ میں قاضی صاحب سے میں براہ راست مستفید ہوا،ان کے دینی و ملی اور سیاسی تجربے میری زندگی کے حاصل رہے۔
قاضی صاحب کی پوری زندگی ،تحریک خلافت،جمعیتہ علمائے ہنداور امارت شرعیہ بہار کے ارد گرد گھومتی ہے۔اخیر عمر میں وہ امارت شرعیہ بہارکے ہوکر رہ گئے تھے اور ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔دوران گفتگو مجھ سے کہا اور نصیحت کی کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ نیو کی اینٹ بنو جس پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھتا،واقعہ یہ ہے کہ خود قاضی صاحب اس کے عملی نمونہ تھے، بے غرض و بے ریا،ملک و ملت اور دین کی خدمت کسی ستائش کی تمنا اور صلہ سے بے پرواہ ہو کرانجام دیتے رہے۔کبھی کوئی عہدہ اور ادارہ کی صدارت و نظامت قبول نہیں کی۔امارت شرعیہ کی اعزازی نظامت بھی مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے اصرار و خواہش اور امارت کی ناگذیر ضرورت کی بنا پر اختیار کی۔بہار میں انڈی پنڈنٹ پارٹی جسے مولانا سجاد نے قائم کیا تھاجس کے روح رواں خود قاضی صاحب تھے بہار کونسل میں کانگریس کے بعد دوسری پارٹی تھی جب وزارت سازی کا وقت آیاتو کانگریس نے بعض مصالح کی بنا پر وزارت بنانے سے انکار کردیا اور گورنر نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کو مدعو کیا،مسٹر محمد یونس بیرسٹر نے جو پارٹی لیڈر تھے وزارت بنائی،قاضی صاحب جو خود کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے وزارت میں شریک نہیں ہوئے اور ہمیشہ نیو کی اینٹ بنے ملک و ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔
جب ملک آزاد ہوا اور نئی پارلیمنٹ بنی تو راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے دہلی کانگریس آفس میں خواہشمندوں کا تانتا بندھ گیا،تقسیم ہند اور آزادی کے بعد حالات بدلے، مسلمانوں کی مرکزی قیادت دہلی میں تھی،کانگریس کی مرکزی حکومت میں ،مولانا آزاد،رفیع احمد قدوائی،ڈاکٹر سید محمود جیسے رہنما،ملت مسلمہ کے مسائل کے ڈور کو سلجھانے اور حل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔،جمعیتہ علمائے ہند،جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت اپنے اپنے دائرے میں ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنی سی کوششیں کر رہے تھے،ایسے میں قاضی احمد حسین جیسے پیکر اخلاص و عمل اور مدبر کی ضرورت دہلی میں رہنے کی تھی ،پھر بھی قاضی صاحب کا خیال راجیہ سبھا کی ممبری کی طرف نہ گیا،بہار میں رہ کر بہار سنی وقف بورڈ کی اصلاح اور امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار کرنے اور اصلاحِ احوال میں لگے رہے۔ایک دن ان کے چھوڈے بھائی قاضی محمد حسین صاحب پھلواری پہنچے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیااور راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔قاضی محمد حسین صاحب ایک پڑھے لکھے علیگ تھے،قومی کاموں میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سرگرم رہے تھے،گیا میں ضلع ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس چیرمین رہ چکے تھے وہ ہر طرح اس عہدہ کے مستحق تھے۔لیکن اس دوڑ میں پٹنہ سے دہلی تک ان کی پہنچ ذرا مشکل تھی۔کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ٹھیک تو ہے تمہاری اہلیت و صلاحیت کی وہاں ضرورت ہے لیکن تم نہیں ہو سکتے ،ممکن ہے ہم ہو جائیں۔قاضی صاحب کا دل فقیرانہ اور مزاج شاہانہ تھا،پٹنہ اور دہلی کی دربار داری ان کے بس کی نہ تھی۔پھر پٹنہ اور دہلی کا چکر لگائے بغیر پھلواری سے بیٹھے بیٹھے،صرف دو سطروں کا خط مولانا آزاد کے نام لکھا’’جی چاہتا ہے کچھ دنوں دہلی میں آپ کی معیت حاصل ہو‘‘۔راجیہ سبھا کی ممبری کا کوئی ذکر بھی نہیں تھامولانا آزاد اپنی ذہانت سے مقصد کو سمجھ گئے اور جواب میں اپنے سکریٹری پروفیسر اجمل صاحب سے کہلوایاکہ ’’جب اس کا موقع اور محل آئے گاتو ہو جائے گا‘‘پھر مولانا آزاد کے ایماء پر قاضی صاحب راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہو گئے اور دو ٹرم رہے۔قاضی صاحب کی راجیہ سبھا کی یہ ممبری با مقصد تھی۔ملک و ملت کی خدمت اور دینی کاموں کی سہولت ان کے پیش نظر تھی۔دہلی میں ان کی قیام گاہ ساؤتھ ایونیوپورے ملک کے مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا مرکز بنی رہتی تھی۔جمعیتہ علمائے ہند کے اکابر،جماعت اسلامی کے محمد مسلم مرحوم مدیر’ دعوت‘ ان کے علاوہ پسماندہ اور پست اقوام کے رہنما اور کارکنان سے ان کا رابطہ رہتاسب کے مشیر اور اچھے کاموں میں شریک رہتے۔اپنی ذات میں ایک انجمن تھے سب سے جدا اور سب کے رفیق۔مرکزی سطح سے پورے ملک پر اپنی فکر صالح کی چھاپ ڈالتے۔پارلیمنٹ میں بھی اپنی بات پہنچانے میں وہ باز نہ آئے۔پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل پر آپ کی تقریر کا بڑا شہرہ ہوا۔کانگریس پارٹی کے اندر پسند نہیں کی گئی لیکن دوسرے حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔قاضی صاحب کا جوش تبلیغ اور دعوت دین کا جذبہ وہاں بھی چین سے نہ بیٹھا 12ربیع الا ول یوم میلاد النبی کے موقع پر عید کارڈ کی طرح سیرت نبوی پر انگریزی زبان میں کارڈ چھپوایا اور اپنی طرف سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام ممبران پارلیمنٹ کے نام آنحضرت ﷺکی سیرت پاک کے تناظر میں اسلام کی دعوت پیش کی جسے عام طور پر سراہا گیا اور قاضی صاحب کی ذہانت و جدت کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
قاضی صاحب اس ملک میں دعوت دین کے لئے ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بہت قائل تھے اور اس کے لئے ہر سطح پر کوشاں رہے اس سلسلہ میں پہلے صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کے نام ان کا ایک خط جیتا جاگتا ثبوت ہے جس سے ان کی ذہانت و دانائی سے لبریز ان کی بہترین تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان اگراسلام کی حقیقی روح کو سمجھ لیں اور ہندو اپنے سناتن دھرم کی روایتی رواداری کے حامل ہوجائیں تو ہماری دنیا چین و مسرت کی دنیا بن جائے۔
میں کانگریسی حکومتوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ ہندو مسلمانوں میں اس روح کو بیدار کریں گے جو ہندؤوں کی روایات اور مسلمانوں کے مذہب نے انہیں بخشا ہے۔ میں اس گمشدہ چین و مسرت کو واپس لانے کا خواہشمند ہوں، اگر مجھ سے یہ امید اور خواہش چھین لی جائے تو اس امید سے خالی زندگی میں کوئی لذت نہیں پاؤں گا۔‘‘
(اقتباس از مکتوب قاضی احمد حسین بنام ڈاکٹر راجندر پرشاد)
امارت شرعیہ بہار کی نظامت کے زمانہ ہی میں قاضی صاحب کو تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور کہا کرتے تھے کہ یہ طریقہ تبلیغ عوامی رابطہ اور اصلاح کا بہترین طریقہ ہے ،چنانچہ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبۂ تبلیغ کو عملاً اسی طریقہ تبلیغ پر ڈھال دیا تھا۔اپنی کبر سنی،تنفس کی بیماری اور ضعف و نقاہت کے با وجود بستی بستی قریہ قریہ سفر فرماتے، اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ میں عملاً شریک رہتے۔ امت مسلمہ کی دینی اصلاح اور ان کے اندر ایک داعی امت کی صفات پیدا کرنے کی ہمہ جہت کوشش ان کا مقصدِ زندگی تھا،جو زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے ساتھ رہا۔
جناب مولانا منت اللہ رحمانیؒ جب امیر شریعت رابع منتخب ہوگئے تو امارت شرعیہ بہار کے کاموں کی نگرانی براہ راست مولانامنت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں آگئی اور قاضی صاحب کی ذاتی دلچسپی زیادہ تر تبلیغی کاموں سے ہو گئی،چنانچہ انہوں نے اس کام کے لئے زیادہ وقت گیا میں گذارنا شروع کیا اور راجیہ سبھا کا سیشن بند ہوتے ہی اکثر گیا چلے آتے تھے۔ان دنوں میں بھی اپنے تعلیمی پیشہ اور ملا زمت کے سلسلہ میں گیا آگیا تھا،اس لئے جب بھی وہ گیا آتے پھلواری شریف کی طرح یہاں بھی میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا،اس طرح ان کے فکری اور روحانی فیضان سے میں برابر مستفیض ہوتا رہا اور مستقبل میں میری اجتماعی زندگی اور دینی تحریکات میں میری عملی شرکت کا باعث بنا۔
29جولائی1961ء میں گیا کے اپنے مکان رحمت منزل میر ابو صالح روڈ میں اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب کے ساتھ ان کا قیام تھا،قاضی صاحب بیمار تو تھے ہی اس دن ان پر قلب کا شدید دورہ پڑا،شہر کے مشہور معالج ڈاکٹر منظور صاحب موجود تھے،علاج معالجہ کی ہر تدبیریں ناکام ہوئیں، وہ ایک مرد مومن کی طرح چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست کی تصویر بنے اپنے رب سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔خدا مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کا یہ بطل جلیل 1918ء سے 1961ء تک ملک و ملت کی تمام تحریکات کا روح رواں،مسلم ہندوستان کی تاریخ کا عملی نمونہ،اخلاص و عمل اور دعوت دین کا پیکر جمیل آج ہم سے جدا ہو گیا۔بقول ایک عرب شاعر:
’’وہ لوگ تو چلے گئے جن کے سایہ میں زندگی گذاری جاتی تھی،وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کی زندگی کچھ کارآمد نہیں۔‘‘
دوسرے دن بعد نماز ظہر،گیا کے مرکز تبلیغ محلہ گھسیار ٹولہ کی چھوٹی مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہر سے قریب پھلگو ندی کے اس پار آبگلہ کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

خوش خبری