آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 30 July 2016

Plant Marriage By Natique Quadri

پودوں میں رسمِ شادی
ایس.ایم. ناطق قادری
پودوں کی دنیا بہت عجیب و غریب ہے، ساخت کے اعتبار سے ان کے مختلف اقسام ،ان کا اُگنا اور نشؤو نما پانا، ان کے اندر پائے جانے والی مختلف عادات و اطوار ،قوّتِ دفاع، نقّالی کی عادت ، راحت و تکلیف سے متاثِر ہونا، کبھی کبھی اپنے دفاع کے واسطے جانوروں پر حملہ آور ہوجانا ایسی حیرت انگیز حقیقتیں ہیں کہ ان کا مطالعہ بڑا دلچسپ اور قابلِ غور ہے۔قدرت نے عام طور سے حیوانات سے نباتات کو کمزور بنایا ہے مگر پودوں کی افزائشِ نسل کے لیے قدرت کا انتظام بڑا ہی حیران کن اور جاذبِ نظر ہے۔ انسان اور حیوان کی بقا اور آبادی میں اضافہ کے لیے نر اور مادہ کا ملاپ ضروری عمل ہے، انسانی دنیا میں اس رسمِ طبعی کو رسمِ شادی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ قدرت نے پودوں کی آبادی میں اضافہ اور اس کی نسلوں کو فروغ دینے کے لیے پودوں کے اندر بھی باہمی شادیات کابڑا لطیف اور انوکھا انتظام کر رکھّا ہے، سائنس اور علمِ نباتات کی زبان میں اس خصوصی عمل کو پالینیشن(pollination) کہتے ہیں اوراس کاانحصارپھولوں پرہے۔
جس طرح انسانی دنیا میں شادی کی ایک عمرطبعی ہے اُسی طرح پودوں میں بھیایک خاص مدّت کے بعد پھول کا آنا ان کے ازدواجی زندگی کا آغاز ہے ،ان ہی پھولوں میں نر اور مادہ پھول ہوتے ہیں ۔بعض پودوں میں یہ نر اور مادہ پھول ایک ساتھ ہوتے ہیں یعنی ایک ہی پھول کے کٹورے میں دونوں قسم کے جنس موجود ہوتے ہیں ، ایسے پھولوں کو مکمل pletecom flower پھول کہتے ہیں ۔ بعض پودوں میں نر اور مادہ پھول ایک ہی پودے میں ہوتے ہوئے بھی مختلف جگہ پر اُگے رہتے ہیں ۔ مکئی کے پودوں میں اس کے بالائی حصہ پر جو دھان کی بالی کی شکل کا پھول ہوتا ہے وہ نر پھول کہلاتا ہے اور پودوں کے تنے میں پتّیوں کی گانٹھ کے قریب مکئی کے بال کی موچ نکلتی ہے یہ مادہ پھول ہے۔
(pollination) پالینیشن کے عمل کو سمجھنے کے لیے نر اور مادہ پھول کے مختلف حصوں کو سمجھنا ضروری ہے ۔نر پھول کا گھنڈی دار بالائی حصہ anther )) انتھر کہلاتا ہے ،یہ ایک پتلی سی چھڑی (filament) فیلا منٹ کے اوپر رہتا ہے ۔ نر پھول جب اپنے سنِ بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو بالائی حصہ پر موجود انتھر (anther) میں باریک بُرادے قوی ہو جاتے ہیں جن کو علمِ حیات میں پولن گرینس (pollen grains) کہتے ہیں یہی باریک ذرّات اپنے اندر قوّتِ تولید رکھتے ہیں اور وقتِ مقرّرہ پر مادہ پھول کے بالائی حصہ اسٹگ ما (stigma) پر قدرت کے مختلف کارندوں کی مدد سے پہنچ جاتے ہیں اور اسٹگ ما (stigma) سے نکلنے والی لس دار سیّال کی وجہ سے یہ پالن گرینس اس پر چپک جاتے ہیں اور اس طرح جنسی عمل(fertilisation ) شروع ہوتا ہے اوربیج اور پھل کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور دیکھتے دیکھتے پھول مرجھانے لگتے ہیں اوران کی جگہ ننھا سا پھل نظر آنے لگتا ہے اور ایک معینہ مدت کے بعد وہ بھی بڑا ہو جاتا ہے ۔
نر کو مادہ پھول سے قریب کرنے میں قدرت کا بڑا انوکھا ،حیرت انگیز اور دلچسپ انتظام ہے جس کو دیکھ کر قدرت کی صنّاعی کاگرویدہ ہوجانا پڑتا ہے، نہ کوئی شور نہ ہنگامہ، نہ باجا نہ گاجا، نہ سہرا نہ مکنا ،نہ بر نہ برات، جیسا کہ انسانی سماج میں آجکل ہم نے بنا رکھّا ہے۔ہمارے یہاں زن و شو کو باہم ملانے کا بڑا پُر وقار طریقہ ہے لیکن مذہب سے دوری نے اس کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔
منسوب ہی طے نہیں ہو پاتی جب تک کہ لڑکے اور لڑکی کے والدین کی ناک میں دم نہ آجائے۔ خاص طور پر لڑکے والوں کی طرف سے فرمائشوں اور انوکھی شرائط نے لڑکی والوں کی جان آفت میں ڈال رکھّی ہے۔ یہ کیا ستم ہے کہ کل تک جن بچّیوں کی چہل پہل، ان کی توتلی زبان اچھّی بھلی معلوم ہوتی تھی آج جوان ہو کر گھر کو رونق بخش رہی ہیں تو والدین کے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہوتی محسوس ہورہی ہے۔شریف او ر نادار طبقہ کے سامنے لڑکیوں کی شادی بہت بڑا مسئلہ بن کر رہ گئی ہے ۔
آج کل انسانی شادی میں مال و دولت کی ہوس ،نمائش کا شوق اور زندگی کے بامقصد اصولوں سے انحراف صا ف صاف نظر آتا ہے، ان کے مقابلہ میں معصوم، خاموش اور گونگے پودوں کی رسمِ شادی کہیں زیادہ صاف ستھری اور بھلی معلوم ہونے لگی ہے ۔معاف کیجیے گا ان باتوں کا تذکرہ یہاں بے جوڑ سا معلوم ہو رہا ہوگا لیکن انسانی دنیا کے ایک فرد ہونے کے ناطے قلم کچھ نہ کچھ تلخ حقیقتوں کی طرف اشارہ کر ہی یتا ہے۔ آیئے پودوں کی شادی میں چلیں، پالی نیشن (pollination ( یعنی نر اور مادہ پھولوں کو یکجا کرنے کے لیے قدرت نے ہوا، پانی، پتنگے ، بھنورے ، مختلف قسم کی مکھیاں اور تتلیوں سے کارندوں کا کام لیا ہے، یہ سارے کارندے نر پھول کے پالن گرینس(pollengrains ( کو مادہ پھول کے ایک مخصوص عضوstigma ) ) تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں اور گنگناتے بھنورے صرف رونقِ چمن کی خاطر نہیں بلکہ قدرت نے یہ انتظام ایک اور بہت ہی اعلی مقصد کے لیے کیا ہے۔پتنگوں اور تتلیوں کے پیر اور پر وں پر چپکے پالن گرینسpollengrains))یعنی نر پھول کے باریک ذرّات،مادہ پھول کے مخصوص عضو (Stigma) پر جا پڑتے ہیں جہاں سے جنسی عمل کی شروعات ہوتی ہے اور عملِ تولید کی تکمیل کے بعد بیج اور پھل کی بنیاد پڑتی ہے ، د ھان اور گیہوں کی بالیاں ہوں، آم کے رسیلے پھل ہوں یا انگور کے سرمست خوشے، ہر طرح کے پھل، میوہ جات سب کے سب اپنے پیدا ہونے میں اسی پالی نیشن(pollination) کے عمل کے مرہونِ منّت ہیں ۔پھولوں سے اٹھتی خوشبوجہاں آپ کے دل و دماغ کو ترو تازگی پہنچاتی ہے وہیں مکھیوں، پتنگوں کو اپنی جانب کھینچنے میں بہت معاون ہے ۔ بعض پتنگوں کی خوراک پھولوں کا رس یعنی یہی نیکٹر(nectar) ہے ۔ یہ پتنگے اپنا خوراک لینے کے لیے مختلف پھولوں پر بیٹھتے رہتے ہیں اور قدرت ان کے رزق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے ذریعہ پالی نیشن (Pollination)کے عمل کوبروئے کارلاتی ہے۔ہوا کے لطیف جھونکوں کے ساتھ نر پھول کے پالن گرینس pollengrains) ) مادہ پھول پر جا گرتے ہیں ۔ اس کا مشاہدہ مکئی کے پودوں کے ساتھ بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔ آپ ایک مکئی کے پودے کو جنبش دیں ،اس کے بالائی حصہ پراگے ہوئے دھان سے باریک ذرّات جھڑنے لگیں گے۔ یہی پالن گرینس(pollengrains ( ہیں جو مکئی کے ملائم ریشمی بالوں کے گچُھّے ( موچ ) پر گرنے سے مکئی کے بال میں دانے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی اس مادہ پھول ،مکئی کے بال کے منھ پر ایک پلاسٹک کی تھیلی باندھ دے اور پالن گرینس(pollengrains ( کو مکئی کے بال پر نہ گرنے دیا جائے تو سب مکئی کے پودوں میں تو دانے ملیں گے لیکن اس مخصوص پودے میں مکئی کے بال کے دانے بالکل نظر نہیںآئیں گے۔ پانی اور ہوا تو خاص طور سے نر پھول کے پالن گرینس(pollengrains ( کو مادہ پھول تک پہنچاتے ہیں ، اس کے علاوہ کیڑے ، پتنگے ، مکھیاں او ر بھنورے بھی نر پھول سے نکلنے والی بو کے ایسے متوالے ہوتے ہیں کہ ان پھولوں پر ان کا بیٹھنا ناگزیر ہوتا ہے اور اس طرح ان کے پیروں اور پروں پرکی مدد سے پالن گرینس(pollengrains ( مادہ پھول پر پہنچ جاتے ہیں اور عملِ تولید کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔آپ نے کبھی دھوکے سے شادی ہوتے نہیں سنا ہوگا ۔آئیے آپ کو الجیریا کے ایک پودے Mirrororchid جس کاحیاتیاتی نام (botanical name) ا و فرِس اسپیکولم (ophrys speculam) ہے کا بہت کامیاب دھوکے کا حال سناتا ہوں ۔اس کا پھول قدرت کی عطا کردہ بے مثال قوّتِ نقّالی کی وجہ سے خود کوایک اڑتی ہوئی مخصوص نسل کی مادہ مکھّی کی طرح بن کر پیش کرتا ہے جس کو دیکھ کر اسی نسل کا نر اس کی طرف مائل ہوتا ہے ۔
۲
نباتات کے ماہروں کا کہنا ہے کہ اس پھول کی پنکھڑی کے رنگوں کا امتزاج، اس کا بھورا اور چمکیلا نیلا رنگ اور اس کی بناوٹ نباتات کی دنیا میں بہت مثالی ہے اور سچ مچ ایک اڑتی ہوئی مکھّی نظر آتاہے ، قدرت کا یہ نظام بھی کتنا عجیب و غریب ہے کہ مادہ مکھّی ان پھولوں پر کبھی نہیں بیٹھتی بلکہ دوسرے اقسام کے پھولوں سے اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔اس مادہ مکھّی کا نر چند روز پہلے نکل آ تاہے اور اپنی مادہ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور دھوکے سے اس (پھول) کو اپنی مادہ سمجھ کر اس پر بیٹھ جاتا ہے،چونکہ اس کی جنسی بھوک کا تدارک نہیں ہوپاتااس لیے یہ ایک پھول سے دوسرے پھول پر اڑتا اور بیٹھتا رہتا ہے لیکن اس کی اس خواہشِ وصل اور احمقانہ حرکت سے نر پھول کے پالن گرینس(pollengrains ( مادہ پھول پر پہنچ جاتے ہیں اور بیج اور پھل کی بنیاد پڑ جاتی ہے ۔ یہ بات بھی بہت دلچسپ اور غور کرنے کی ہے کہ جب مادہ مکھّی آ نکلتی ہے تو یہ نر کبھی ان پھولوں(نقلی مادہ)کی طرف راغب نہیں ہوتا ۔
پودوں کی افزائشِ نسل کے لیے قدرت کا یہ عملِ مخصوص ، پالینیشن (pollination ( یا رسمِ شادی کہلاتا ہے ۔ یہ پودوں کی اچھّی سے اچھّی اقسام پیدا کرنے میں بہت معاون ہے۔ اس کام سے لگے ماہرین(plant- breeders )نے مختلف نرپھول کے پالن گرینس (pollengrains ( کو مادہ پھول پر تجربہ کر کے بہت ہی فائدہ مندنسلیں تیّار کی ہیں اور اسی تکنیک کی مدد سے دھان، گیہوں،گنّااور مختلف قسم کے پھلوں کی زیادہ اُ پج دینے والی قسمیں کسانوں کے پاس پہنچ رہی ہیں۔ ان قسموں کی ایجادات نے زراعت کی دنیا میں سبز انقلاب کے سنہرے خواب کی تعبیر کو حقیقت کے بہت قریب کردیا ہے۔

مینڈکی شہزادی

بہت دنوں کی بات ہے ملک روس میں شہنشاہ زار عالی تبار کی حکومت تھی۔اس کے تین لڑکے تھے۔ایک دن زار نے لڑکوں کو بلاکر کہا،،

Friday 29 July 2016

شاعر اسلام،اقبال ۔۔ شخصیت اور پیام


شاعر اسلام،اقبال ۔۔شخصیت اور پیام

طیب عثمانی ندوی

اقبالؒ ایک بڑے شاعر تھے اور اپنے عہد کے سب سے پڑھے لکھے شاعر تھے جس نے اپنے عہد کی صرف اردو فارسی شاعری پر نہیں بلکہ اس دور کے فکر و نظر پر بھی اپنا اثر ڈالا۔ میری مکتب کی تعلیم جس ماحول میں ہوئی وہ علمی و دینی بھی تھی اور شعری و ادبی بھی، جس میں تصوف کی چاشنی تھی، مجلس سماع کے ذریعہ اردو فارسی کی نعتیہ، حمدیہ اور عشقیہ غزلوں سے کان بچپن ہی سے آشنا تھے۔ ابوالکلام کی بلند آہنگ نثر، سید سلیمان ندوی کے خطبات مدراس کی انشاء پردازی کا ذکر اکثر کانوں میں پڑتا اور ساتھ ہی حالی کی مسدس اور اکبر و اقبال کی نظموں کے اشعار گھر کے بزرگوں کی زبانی سنا کرتا۔ اقبال کی مشہور نظمیں ’’بچوں کی دعا‘‘ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری، اور ’’دعا‘‘ یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے۔ جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے۔ والد مرحوم نے مجھے بچپن ہی میں یاد کرا دی تھیں۔ یہ دونوں نظمیں آج بھی میرے دل پر نقش ہیں۔ پھر جب میں سن شعور کو پہنچا اور چمنستان شبلی و سلیمان ندوی کے ادبی ماحول میں اقبال کو تفصیل سے پڑھا تو واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا شیدائی بن گیا اور پھر اقبال میرے لیے کسی عرب شاعر کے اس شعر کے مصداق ہوگئے:
أتانی ھواھا قبل أن أعرف الھوی
فصا د ف قلباً خالیا فتمکنا
(محبت میرے قریب اس حال میں آئی کہ میں محبت سے آشنا نہ تھا، بس اس نے میرے دل کو خالی پاکر اپنا قبضہ جما لیا)
اقبالؒ محبت اور ایمان و یقین کے شاعر ہیں۔ ان کا قلب حب رسول اور عشق رسول سے سرشار تھا۔ عشق و محبت ہی نے اقبال کو یقین کی لذت سے آشنا کیا تھا جس نے انہیں عرفان ذات بخشا اور وہ خودی کے نغمہ خواں بن گئے۔ اقبال مغرب کے ناقد اور مشرق کے پیامبر تھے۔ ان کا کلام، خصوصا ’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ اس پر شاہد ہے، انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنی ہی پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتا ہے، اقبال کے یہ افکار اور جذبات، میری اپنی پرچھائیاں ہیں جو میرے شعور و احساسات سے ہم آہنگ ہیں، لہٰذا وہ میری اپنی پسند بن گئے، اور ان کی شاعری میرے اپنے دل کی آواز ہے، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
اقبالؒ کی شعریات سے میری یہ والہانہ دلچسپی اور شغف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے نزدیک ان کی شخصیت انسانی کمزوریوں سے مبرا، ملکوتی تقدس سے مشابہ ہے۔ میری حمایت میں ایسی حمیت نہیں ہے جو انہیں معصوم قرار دے۔ اس موقع پر مجھے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا وہ بلیغ جملہ یاد آرہا ہے جو انہوں نے اپنے استاد علامہ شبلی کی سوانح حیات شبلی میں لکھا ہے کہ شبلی اپنی تمام علمی و ادبی عظمت اور خوبیوں کے باوصف شبلی، شبلی تھے جنید و شبلی نہ تھے۔ میرے نزدیک بھی اقبال بیسوی صدی کے شاعر تھے، مغربی تہذیب کے لیے ایک چیلنج، وہ ایک اسلامی مفکر، فلسفی اور حکیم و دانشور تو تھے لیکن دینی رہنما اور روحانی پیشوا نہ تھے اور واقعہ یہ ہے کہ اقبال، اقبال تھے عطا رو رومی نہ تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں میر، غالب اور اقبال کے بعد ہنوز کوئی دوسرا ایسا شاعر پیدا نہ ہوسکا، جو اقبال سے ایک قدم آگے اردو شاعری کا چوتھا ستون بن سکتا ہے۔ اقبال نہ صرف اسلامی افکار و اقدار کے ترجمان تھے بلکہ اسلام ان کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا جو خون جگر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکا اور جس نے ایسی زندہ وہ جاوید شاعری کو جنم دیا۔
اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ یقین کی روشنی، محبت کی گرمی اور حرکت و عمل کا ایک ایسا پرکیف و رنگین نغمہ ہے جس کی نغمگی اور آتش نوائی سے حیات کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اقبال کا ساز حیات بے سوز نہیں ہے بلکہ عشق نے اس میں حرارت اور خودی نے اس میں عظمت پیدا کردی ہے اور اسے جب شاعر کی انگلیاں چھیڑتی ہیں تو اس سے زندگی کے کیف آور نغمے پھوٹ پڑتے ہیں۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے ہمارے لیے ایسے مسرت آگیں شعر و نغمہ پیش کئے جس کو سن کر ہمارے شعور وجدان کو اہتزاز و انبساط حاصل ہوتا ہے بلکہ اس نے ہمیں ایک نظریہ حیات کا احساس اور ایک نظام زندگی کا شعور اور زندگی کا ایک خاص نقطہ نظر بخشا، جس نظریہ زندگی کا وہ حامی اور جس نظام حیات کا وہ پیامبر تھا اس پر اس نے نہ صرف یہ کہ عمل کرنے کے ترغیب دی بلکہ اس کے کلام میں اس مخصوص نظریہ زندگی کا حسن، اس کا رنگ و آہنگ اور لذت و کیف اس طرح ہم آمیز اور رچا بسا ہوا ہے کہ آج بھی جب ہم اسے پڑھتے ہیں تو ہمارے کانوں میں وہی رنگ و آہنگ، وہی ساز کی جھنکار اور وہی شیریں نغمے گونجنے لگتے ہیں جس سے ہمیں مسرت، نشاط اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

Thursday 28 July 2016

ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ ؒ ۔۔ فقر غیور کاایک مثالی کردار


ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ ؒ ۔۔۔فقر غیور کاایک مثالی کردار

از طیب عثمانی ندوی


مجھے یاد نہیں،میں نے جناب ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحب ؒ کو کب اور کیسے دیکھا؟ اپنے دور طالب علمی میں ، جب میں تحریک اسلامی سے قریب ہوا اور ندوہ سے چھٹیوں میں گھر آنا ہوتا تو کبھی کبھی پٹنہ بھی جانا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کا نام اکثر سنتا۔ پھر تحریک اسلامی کی قربت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے درس قرآن کی شہرت سے واقفیت بڑھتی گئی۔میں نے ان کو جب بھی دیکھا ایک طرح پایا،قمیص ،چوڑے مہری کا پاجامہ،کشتی نما ٹوپی،سادگی کا پیکر،چہرہ روشن،پاک دل و پاکباز ،یہ تھا ڈاکٹر صاحب کا سراپا۔ان کی شخصیت کی ایک اور شناخت ان کی سائیکل بھی تھی،جس پر وہ اپنے پاجامہ کے ایک پائنچہ میں کلپ لگائے عالم گنج سے انجمن اسلامیہ تک اور جانے کہاں کہاں رواں دواں ہوتے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ابتدا میں اکثر ان کو اسی طرح سائیکل پر ہی دیکھا تھا۔یہ انداز بے نیا زانہ اور طرز قلندرانہ میرے لئے باعث کشش ہوتا۔ پھر تحریکی دلچسپی کے باعث اکثر ان سے ملنے، باتیں کرنے، ان کے درس قرآن میں شریک ہونے اور تقریروں کو سننے کا موقع ملا جیسے جیسے قربت بڑھتی گئی ان کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ خصوصاً ان کے درس قرآن میں جی لگتا، قرآنی نکتے، سائنسی انداز بیان اور حالات حاضرہ پر ان کا انطباق، ان کے درس قرآن کی خصوصیت تھی۔ جس نے ہر مکتب فکر میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا تھا۔ خصوصاً طلبا اور نوجوانوں میں وہ بیحد مقبول تھے، ان کی سیرت کے موضوع پر تقاریر اور انجمن اسلامیہ کے جمعہ کے خطبے میں تو دور دور سے لوگ سننے کے لئے آتے۔ وہ جس ایمان و یقین کی دولت سے مالامال تھے، اس کا اثر نئی نسل پر بیحد پڑتا، ان کے ذہن و فکر میں جلا پیدا ہوتا، تشکیک و تذبذب کے اندھیرے دور ہوتے اور ان کے اندر ایمان و یقین کی قندیلیں روشن ہوجاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی فقر و درویشی تھی، جو موجودہ معاشرہ اور اپنے ہم عصروں میں انہیں بہت ممتاز کر دیتی تھی۔ یہ فقر، ’’فقر خود اختیاری‘‘ تھا۔ حکومت کی اعلیٰ ملازمت اور دنیاوی ترقی کے امکانات کو چھوڑ کر ہومیوپیتھ ڈاکٹری کے پیشہ کو اختیار کیا تھا، جس سے انہیں بڑی مناسبت تھی۔ جو ان کی بقدر کفاف زندگی کا ذریعہ تھا، صاف ستھری اور سادہ رہن سہن ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ تحریک اسلامی کے کاموں میں وہ ہمہ وقت مشغول رہتے، پھر امیر حلقہ بھی ہوئے لیکن جماعت کے ضابطہ کے مطابق بقدر کفاف، کوئی رقم اپنی ذات کے لئے قبول نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب کے اندر تحقیق و جستجو اور نئی نئی ایجادات کا شوق اورفطری جذبہ تھا، نئی نئی دوائیں بنانے کے تجربے کرتے، عطر سازی کا خاص ذوق اور مشغلہ بھی تھا۔ طبابت و تجارت بھی بس اتنا ہی کرتے جو ان کے لئے بقدر کفاف ہوتے۔ جلبِ منفعت ان کا مطلوب و مقصود نہ تھا، وہ کبھی کسی کی مالی طور پر ممنون احسان نہیں ہوئے، اپنے مخلص، عقیدت مند اور قریبی رفقاء جو ان سے محبت رکھتے تھے، اس معاملہ میں ان سے بھی محتاط رہتے، فقر و درویشی ان کا مزاج تھا اور یہ چیز ان کے لئے باعث لذت و مسرت ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ ’’فقر غیور‘‘ کے مثالی کردار تھے۔ میرے نزدیک ان کی شخصیت اور زندگی کا یہ ایسا روشن و تابناک پہلو ہے جو اس مادہ پرستانہ اور پرتعیش معاشرہ کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔ 
ڈاکٹر صاحب کا تحریک اسلامی کے کاموں، سیرت کے جلسوں اور جماعت کے خطاب عام کے سلسلہ میں اکثر گیا بھی آنا ہوتا، اجتماعات کے علاوہ بھی ان کی صحبت میں مجھے بیٹھنے، ان کی باتیں سننے کا موقع ملتا، وہ زاہد خشک نہ تھے، شائستہ اور پر مزاح گفتگو کرتے، بڑے، بوڑھے اور بچے سبھی ان کی بصیرت افروز گفتگو سے لطف اندوز ہوتے، ان کے خطبے اور تقریر یں سادہ اور دلنشیں ہوتیں، وہ اپنی باتوں کو بڑے یقین اور اعتماد سے کہتے۔ ان کا ایک یقین، لاکھوں شک پر بھاری ہوتا۔ میں جب بھی ان کی تقریریں سنتا، مجھے اس بات کا بڑا احساس ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب کا یقین اس رومانی انقلابی تصور سے زیادہ ہم آہنگ ہے، جس کا تعلق زمینی عملی زندگی سے دور اور ایک خیالی رومانس سے قریب تر ہے۔ وہ اکثر اپنی تقریروں میں اس مغربی تہذیب اور مادی دنیا کا نقشہ اس طرح کھینچتے جیسے یہ تہذیب مغرب، اقبال کی زبان میں اپنے ہاتھوں آپ خود کشی پر تلی بیٹھی ہے، شب تاریک کے بعد، نمود سحر کے آثار نمایاں ہیں اور اب اسلامی انقلاب کا سورج بس طلوع ہی ہونے والا ہے۔ اس بات کو وہ جس ایمان اور نبوی یقین و مشاہدے کے انداز سے کہتے کہ کچھ دیر کے لئے سامعین کھو جاتے اور وہ محسوس کرتے کہ اب اسلام کا اجالا پھیلنے ہی والا ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر صاحب ملت اور مسلم مسائل سے ہٹ کر، وہ براہ راست غیر مسلموں میں دعوت اسلامی کے قائل تھے۔ میرے خیال میں اسی باعث اپنے آخری دور میں تحریک اسلامی کے بعض عملی پہلو اور ملکی حالات کے تناظر میں حکمت عملی سے خاصا اختلاف ہوگیا تھا۔ جس جماعت اور تحریک سے وہ زندگی بھر وابستہ اور پیوستہ رہے، اس کی مخالفت تو کبھی نہیں کی لیکن عملاً خموش بیٹھ گئے۔ میں اس کی وجہ ان کا وہی رومانی انقلابی تصور سمجھتا ہوں، جو ان کے جذبہ صادق اور یقین کامل سے ہم آہنگ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایمان و یقین کی یہ وہ منزل تھی، جس کے لئے ملکی حالات اور وقت درکار تھا اور موجودہ تحریک اسلامی کی اجتماعی قیادت فکر کی اِن دو انتہاؤں کے درمیان پھونک پھونک کر جس طرح قدم بڑھا رہی تھی، ڈاکٹر صاحب اس سے مطمئن نہیں تھے، اور واقعہ یہ ہے کہ آج ملک کے حالات اتنے تشویشناک، پر خطر اور سنگین ہوگئے ہیں کہ اب ضرورت عملی اقدام کی ہے۔ غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج مسلم ملت جن تہلکوں سے دوچار ہے، اور پورا ملک فسطائیت کے جس شکنجہ میں کسا جا رہا ہے اس کے تدارک کے لئے اجتماعی فکر و عمل درکار ہے۔ خدا ہماری قیادت کو حکمت و بصیرت سے نوازے۔
اخیر عمر میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی ذوق تصوف کی طرف بھی مائل تھا۔ صوفیائے کرام کے اذکارو اشغال ،مشاہدہ و مراقبہ کی وہ سائنسی تحقیق و جستجو کرنا چاہتے تھے، مجھ سے انہوں نے صوفیا کے پرانے بیاض اور اذکار واوراد وظائف کی کتابوں کی فرمائش کی، میرے پاس جو کچھ تھا، ان کے حوالہ کیا، کچھ دنوں کے بعد انہیں مجھے واپس کردیا اور کہنے لگے، میں جو چاہتا تھا وہ اس میں نہیں ہے۔ وہ دراصل قدیم صوفیاء کے ان مشاہدوں اور مراقبوں کی سائنسی توجیہہ و تعبیر کرکے ان کا سائنٹفک تجربہ کرنا چاہتے تھے، نہ جانے وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوسکے۔
بہر حال، ڈاکٹر صاحب کی روشن پاکیزہ زندگی اور قرآنی فکر و بصیرت ہمارے لئے آج بھی شمع راہ ہے، وہ دل روشن، فکر ارجمند اور زبان ہوشمند کے مصداق تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مراتب و درجات کو بلندفرمائے۔ اور ان کی دینی و اجتماعی کوششوں کو قبول فرمائے۔ اور ۔ ع
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Sunday 24 July 2016

شہزادی الماس

آئینہ دی مرر بچوں کی کہانیوں کا ایک نیا کتابی سلسلہ شروع کر رہا ہے  جس میں ہم وہ کہانیاں  پی ڈی ایف شکل میں پیش کر رہے ہیں جو اب نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ پی ڈی ایف شکل میں ان کتابوں کو آن لائن پیش کرنے کا مقصد قطعاً تجارتی نہیں۔ امید ہے وہ پبلشر جو ان کتابوں کے جملہ حقوق کے مالک ہیں ہماری اس جسارت کو معاف کریں گے اور ہمیں بخوشی اس بات کی اجازت دیں گے کہ انہو ں نے اردو زبان کے فروغ اور بچوں کی اصلاحی و اخلاقی   کردار کی بلندی کے لئے جو کاوشیں کیں ہم اسے آگے بڑھائیں۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے لیکن اپنے بچوں کے سامنے اپنے بچپن کی لائبریری کا یہ سرمایہ تمام پبلشروں کے شکریہ کے ساتھ پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔

Shahzadi Almas

Monday 30 May 2016

Maulana Syed Abul Hasan Ali Nadvi (R)

مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ 
کچھ یادیں کچھ باتیں
از: طیب عثمانی ندوی

آج سے تقریباً نصف صدی سے کچھ زائد ہی 1944ء تقریباً 14 برس کی عمر میں جب میں نے بہ سلسلہ تعلیم ندوہ میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ حضرت مولانا علی میاںؒ کو دیکھ کر جو نقش جمیل میرے قلب پر پڑا تھا آج تک قائم ہے۔ وہ محبوب و دلنواز ذات ادب اسلامی کی نابغۂ روزگار شخصیت، شیروانی میں ملبوس، سیاہ داڑھی، آنکھوں میں یقین کا نور، چہرہ صباحت و بشاشت کا آئینہ جس پر تقویٰ کا جمال نمایاں تھا۔ اس طویل مدت کے میرے شب و روز آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ رہے۔ ندوہ کا یہ گوہر شب چراغ، علم و ادب کا مینارہ نور اور روحانیت و تقویٰ کا یہ آفتاب بیسویں صدی کے ساتھ31؍دسمبر 1999ء کو غروب ہوگیا اور جسے رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ کی ۲۳ویں شب قدر نے اپنی آغوش سعادت میں لے لیا۔
حضرت مولانا سیدابو الحسن ندیؒ کی وفات حسرت آیات سے بلاشبہ ندوہ میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے، علامہ شبلیؒ ، صاحب گل رعنا و نزہت الخواطر، مولانا عبدالحئیؒ اور مولانا سلیمان ندویؒ کی علمی و ادبی اور دینی خصوصیات و جامعیت کے ساتھ جانشینی جس طرح حضرت مولاناؒ نے کی اور ان کے علمی و ادبی کارناموں میں جو اضافہ کیا وہ قابل قدر ہے۔ مجھے یقین ہے مولانا نے ندوہ کے اہل علم و تقویٰ کی جو ٹیم چھوڑی ہے وہ انشاء اللہ ان کی جگہ لے لے گی اور ان کے بعد ندوہ انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں آپ کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے۔
مولانا کی پہلی گراں قدر تصنیف سیرت سید احمد شہیدؒ ندوہ آنے سے پہلے پڑھ چکا تھا اور اس کا ایک دھندلا سا نقش ذہن پر موجود تھا، پھر جب قریب سے دیکھا تو ان کو اپنے سے قریب تر پایا۔ اپنے گھر کا ماحول دینی تھا خاندانی طور پر بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد سے کان آشنا تھے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن سمجھ میں آیا اور شوق جہد و عمل کے جذبہ میں اضافہ ہوا۔ پھر ایسا ہوا کہ مولانا کی ذات و شخصیت مجھے اپنی طرف کھینچتی چلی گئی، فکر و نظر کے بعض زاویوں کے فرق کے باوجود محبت و عقیدت سے معمور یہ دل آج بھی ویسا ہی ہے۔ مگر میرے جذبہ دل کی تاثیر عجب الٹی نکلی۔ میرا ذہن و دماغ مولانا سید ابوالا علیٰ مودودیؒ کی فکر اور ان کی کتابوں سے قریب ہوتا گیا اور فکری طور پر میں تحریک اسلامی سے قریب ہوگیا۔ مولانا علی میاںؒ ان دنوں حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی تحریک تبلیغ سے زیادہ قریب ہوگئے تھے اور عملاً اس کے پرجوش داعی تھے۔ ندوہ میں بڑے بڑے اجتماعات ہوتے، مولانا کی پرجوش و دلنشیں تقریریں ہوتیں۔ ان کی معیت میں ہم ندوہ کے طلباء چٹھی کے دن ہر جمعرات ور جمعہ کو لکھنؤ کے اطراف ودیہات اور قصبات میں تبلیغ کے لیے نکلتے۔ اس طرح مولانا کی صحبت و معیت میں کافی وقت گزرتا اور واقعہ یہ ہے کہ بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی۔ دل و دماغ کی یہ کشمکش پورے ندوہ کی تعلیمی زندگی میں میرے ساتھ رہی۔ فکر مودودویؒ نے دماغ پر قبضہ کرلیا تھا۔ مذہب کا انقلابی تصور ذہن پر سوار تھا۔ ندوہ کے ماحول میں تبدیلی آرہی تھی یا کی جارہی تھی، فکر شبلی پر ذوق رحمانی و تھانوی پروان چڑھانے کی کوشش تھی۔ وقت کے روحانی شیوخ ندوہ کے مہمان خانہ میں ہفتوں ٹھہرائے جاتے، اہل دل جمع رہتے، ہم طلباء سے مولانا فرماتے ’’ان کی صحبتوں میں بیٹھئے ان کے یہاں مغز ہے، ہمارے یہاں تو صرف چھلکا ہے۔‘‘ میں اکثر ان بزرگوں کی نشستوں میں جایا کرتا، ان کی باتیں سنتا، اہل دل بزرگوں کے قصے بیان ہوتے۔ حضرت جی کے اقوال اور باتیں ایسی جن سے زندگیاں سنورتی ہیں۔ مگر دماغ پر سے فکر مودودیؒ کا انقلابی نشہ اترتا نہ تھا۔ مولانا کے سامنے تو نہیں، ادب مانع تھا، اپنے ساتھیوں کے درمیان کہتا ’’بھائی یہ مغز جو یہاں ہے وہ تو ہمارے گھروں میں موجود ہے، ہم تو یہاں شبلی و سلیمان کے علم و ادب کے چھلکے لینے آئے ہیں۔‘‘ شیخ حرم کی باتیں ذہن کو زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ میرے رگ و پے میں جو شوق جہاد اور انقلابی روح کارفرما تھی اس کی تسکین کے لیے فکر مودودیؒ اور اقبالؒ کے ساتھ سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کے فیضان کی ضرورت تھی۔ فکرِ مغرب اور تہذیبِ جدید کے پائے چوبیں کا علاج و مداوا مجھے یہاں نظر نہیں آتا، گوشوں اور زاویوں سے آگے مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ۔ اس فکری فرق کے باوجود اپنا دل مولانا کی ذات اور شخصیت کا نخچیر بن چکا تھا۔ محبت و عقیدت سے معمور یہ دل کبھی ان کے سامنے اپنے تعلق خاطر کے اظہار کی جسارت نہ کرسکا۔ وقت گزرتے رہے فکر و نظر میں دوری کے باوجود، میری محبت و عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مولانا روحانی اور قلبی طور پر میرے مخدوم بھی ہیں اور مرشد بھی۔ ان دنوں میرے ذہنی و قلبی مناسبت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ لکھنؤ کے کسی مرکزی مقام پر مولانا کاایک خطاب عام تھا، ہم طلباء بھی سننے گئے۔ تقریر بڑی دل پذیر اور موثر تھی۔ رات کے تقریباً ۱۲بجے جلسہ سے ہوسٹل واپس آئے اور قلم و کاغذ لے کربیٹھ گئے۔ پوری تقریر ’’صورت اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے لکھ ڈالی۔ دوسرے دن حلقہ ادب اسلامی لکھنؤ کی ایک نشست تھی، میں نے وہ مضمون اس میں پڑھا، سبھوں نے پسند کیا۔ ہمارے دوست، م۔نسیم نے مشورہ دیا کہ سہ روزہ اخبار ’’الانصاف‘‘ جو اس زمانہ میں الٰہ آباد سے نکلتا تھا اور تحریک اسلامی کا ترجمان تھا، میں اشاعت کے لیے بھیج دو۔ مضمون اسی دن حوالہ ڈاک کیا جس میں مولانا کی تقریر کا حوالہ نہ تھا۔ مضمون ’’الانصاف‘‘ میں آگیا۔ مولانا نے بھی اپنی اسی تقریر کو’’صورت اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے قلم بند فرمایا اور ہفت روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ جو زیر ادارت مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم صدر شعبہ دینیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے نکلتا تھا وہ مضمون اس میں شائع ہوا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں کی اشاعت ایک ساتھ ہوئی۔ مضمون میں الفاظ و معانی کی ایسی مناسب اور یکسانیت تھی جیسے ایک ہی مضمون دو ناموں سے دو جگہ شائع ہوا ہو۔ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے دونوں مضامین کو دو اخبار میں دو ناموں سے ایک ساتھ پڑھا اور اپنے اخبار ’’صدق جدید‘‘ میں بڑی حیرت کا اظہار کیا اور عنوان لگایا کہ کس کا سرقہ ہے؟ ایک مولانا علی میاںؒ کے نام تھا اور دوسر امجھ جیسے گمنام طالب علم کے نام! مجھے اس بات کی بڑی شرمندگی تھی کہ میں نے اپنے اس مضمون میں مولانا کی تقریر کا حوالہ نہ دیا تھا۔ مولانا سے جب ملاقات ہوئی تو بولے مجھے خوشی ہے کہ آپ کو یہ تقریر پسند آئی، میں نے اسے آپ کو دے دی۔ اسی طرح مولانا کے اقبال پر دو عربی مقالوں کا اردو ترجمہ میں نے کیا ’’اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر‘‘ اور ’’انسان کامل: اقبال کی نگاہ میں‘‘ مولانا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ یہ دونوں مضامین مولانا کی کتاب ’’نقوق اقبال‘‘ اور میری کتاب ’’حدیث اقبال‘‘ میں شامل ہیں، اس ترجمہ کو پڑھ کر میرے اکثر احباب کا یہ تاثر تھا کہ اگر مولانا خود اپنے قلم سے اردو میں پیش کرتے تو ایسا ہی ہوتا۔ مولانا کی ذات و شخصیت سے میری اس ذہنی مناسبت اور قلبی تعلق کے باوجود ہماری راہیں جدا تھیں۔ اس زمانہ میں بھی اور بعد میں بھی بہت طلبائے جدید و قدیم مولانا کے توسط سے ذاتی اور مادی فائدے اٹھانے کے لیے مولانا سے چمٹے رہتے۔ ان میں سے اکثر نے مولانا کی ذات و اثرات سے فائدہ اٹھا کر ممالک عربیہ میں بڑے دنیاوی فائدے اور عہدے حاصل کئے۔ میں اپنی درویشی اور کم مائیگی کے باوجود کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کرسکا۔ مولانا کے لیے میرے دل میں جو بے غرض محبت اور دلی اخلاص و عقیدت تھی اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی وہ ویسے ہی باقی ہے۔ اس دوری و مہجوری نے اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔
مولانا کے ذاتی کمالات و صفات، ان کا تقویٰ و عبادت، ان کی پاکیزگی میرے لیے ہمیشہ باعث کشش اور نشان راہ بنی رہی، ساتھ ہی میرا ذوق علم و ادب اور قلب و مزاج کی یکسانیت و مناسبت بھی ان کے قرب کا باعث رہا، خصوصاً علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری کے سلسلہ میں ہم دونوں اقبال کے شیدائی ہیں، جب بھی مجھ سے ملاقات ہوتی میرے ذوق کی مناسبت سے علامہ اقبال کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر اور ان کی شاعری کے محاسن بیان فرماتے۔ عرب دنیا میں اقبال پر مولانا کی مشہور کتاب ’’روائع اقبال‘‘ اقبال کی شاعری اور فکر و فن کے تعارف کا ذریعہ بنی اور اس کا اردو ترجمہ ’’نقوق اقبال‘‘ اقبالیات میں ایک اضافہ ہوا۔ اردو کے جدید اور معتبر ناقدوں کی زبان میں اردو تنقید میں بھی اس کا ایک مقام ہے۔ ان کے علاوہ مولانا کی دیگر کتابیں اسلامی ادبیات عالیہ میں شمار کئے جانے کے لائق ہیں، خصوصاً ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ مسلمانوں کے عروج و زوال کا انسانی دنیا پر اثر‘‘ مختلف تذکرے اور سوانح ہیں،خاکہ نگاری کا بہترین نمونہ ’’پرانے چراغ‘‘ان کی انشا پردازی کے شاہکار ہیں۔مولانا کی خود نوشت سوانح عمری ’’کاروان زندگی‘‘ آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہی ہے۔ اس میں ان کے سفر کے احوال، خطبے اور تقاریر کے اہم اور قابل قدر حصے آگئے ہیں۔ یہ خود نوشت بجائے خود ادب و انشاء کا مرقع ہے، عام طور پر ہمارے یہاں علمائے دین کی قدر و قیمت ان کی دینی حیثیت اور مذہبی تصانیف سے ہوتی ہے، حالانکہ ان کی نگارشات کی ادبی حیثیت و وقعت بھی مسلم ہے، مثلاً علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ’’سیرت النبیؐ‘‘ او سیرت نبوی پر ’’خطبات مدراس‘‘ جہاں سیرت پر اردو عربی کے ذخیروں میں بے مثال ہے، وہیں وہ اپنی ادبی حیثیت اور انشاء پردازی میں بھی لازوال ہے۔ اسی طرح مولانا علی میاںؒ کی ساری تصنیفات خواہ ان کا موضوع کچھ بھی ہو اپنی معنوی گہرائی و گیرائی کے ساتھ اپنی ادبی اہمیت بھی رکھتی ہیں اور ان کا ادبی جمال اور حسن انشاء اردو ادب میں اعلیٰ معیار کا نمونہ ہے جس کا اعتراف پروفیسر رشید احمد صدیقی سے لے کر شمس الرحمن فاروقی جیسے جدید ناقدین تک نے کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی علمی و دینی کارناموں کی حیثیت کا اعتراف تو سارا عالم اسلام کر رہا ہے جس کا ثبوت فیصل ایوارڈ اور حکومت دبئی کا گراں قدر ایوارڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا کی ادبی حیثیت کا اظہار، عالمی سطح پر رابطہ ادب اسلامی کے قیام سے ہوتا ہے جس کے مولانا موصوف ہمیشہ بانی صدر رہے۔ مولانا نے اس ادارہ کے ذریعہ ادب اسلامی کا وزن و وقار عالمی سطح پر ہر مکتب فکر کے جدید و قدیم عالموں، ادیبوں اور دانشوروں سے منوا لیا ہے۔ ایک عالم، دانشور، ادیب اور ناقد کی حیثیت سے دیکھا جائے تو مولانا ادب اسلامی کے نابغۂ روزگار تھے اور بلاشبہ جن کی ہمہ جہت، ہشت پہلو شخصیت کا معترف آج بر صغیر ہند کے ساتھ سارا عالم اسلام ہے۔

آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Hazrat Maulana Shah Md Qasim Usmani Firdausi (R)

حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ 
ایک گم نام مگر باکمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل
از: طیب عثمانی ندوی
ریاست بہار ضلع اورنگ آباد میں ایک چھوٹی سی قدیم بستی ’سِملہ‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں ایک قدیم صوفی عثمانی خانوادہ آباد ہے۔ اس خانوادہ میں شروع ہی سے علماء، صوفیاء اور اہل دل بزرگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ سِملہ کے یہ تمام بزرگ عام طور پر خلوت نشیں اور اہل دل رہے ہیں۔ عبادت و ریاضت، ذکر و اشغال اور خموش رشد و ہدایت میں پوری زندگی مشغول رہے۔ معروف خانقاہی مراسم کی کوئی پابندی نہیں رہی، اسی مبارک خانوادہ میں ایک معروف شخصیت شیخ وقت، مرد درویش، مجاہد جلیل حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی پیدائش ہوئی۔ جنہوں نے اپنی درویشانہ زندگی اور خلوت نشینی کے باوجود زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحی کارنامے انجام دیے، علم و ادب، تصوف و احسان، اصلاح معاشرہ، سیاست و اجتماعیت گویا زندگی کے ہر شعبہ میں تعمیرو اصلاح کے نقوش ثبت کئے۔ اور مرجع خلائق ہوئے۔ آپ کی ولادت باسعادت، 9؍صفر المظفر 1307ھ بمقام سملہ ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیسویں (38ویں) پشت میں، خلیفہ راشد ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی ذیِ النورین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اس خاندان کی قدر مشترک روحانیت رہی ہے۔ ذوق عبادت، تسبیح و تلاوت اور فکر آخرت اس کا نمایاں وصف رہا ہے۔ اسی دینی و روحانی ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں اور پروان چڑھے۔

خاندان کے قدیم روایت کے مطابق جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانیؒ نے بھی گھر پر ابتدائی اردو نوشت و خواند، قرآن مجید اور فارسی کی تعلیم مکمل کی۔ پھر جدید تعلیم کے لئے گیا شہر کے مشہور تعلیمی ادارہ ’’ہری داس سیمنری اسکول‘‘ (ٹاؤن اسکول، گیا) میں داخل کئے گئے، گیا سے مزید اعلیٰ انگریزی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جو ان دنوں ’’اینگلو محمڈن علی گڑھ کالج‘‘ کے نام سے مشہور تھا میں داخلہ لیا اور میٹرک تک تعلیم وہاں حاصل کی۔ اسی درمیان ’’تحریک ترک موالات‘‘ اور خلافت تحریک شروع ہوگئی۔ آپ بھی اپنے دینی و ملی اور قومی جوش و جذبہ کے باعث علی گڑھ کی انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر جنگ آزادی کی تحریک سے عملاً وابستہ ہوگئے۔ پھر جب مشرق (کلکتہ) کے مطلع صحافت سے ’’الہلال‘‘ طلوع ہوا تو آپ اس کے ادارہ میں انگریزی مترجم کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ ان دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار ’’الہلال‘‘ اہل علم مشاہیرو علماء و ادباء کا مرکز بن گیا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، خواجہ عبدالحئی، عبداللہ العمادی جیسے باکمال اہل علم ’الہلال ‘ کی مجلس ادارت میں شریک تھے۔ عرصہ تک الہلال سے وابستگی کے باعث، مولانا آزاد اور دیگر اہل علموں کی صحبت نے علمی و ادبی طور پر آپ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ جب الہلال سے وابستہ تھے، غالباً اسی زمانہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کی نظربندی کا واقعہ بھی پیش آیا اور انگریز حکومت نے مولانا آزاد کو رانچی میں نظر بند کر دیا۔ آپ چونکہ شروع ہی سے مولانا آزاد کی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ کے رفیق و دم ساز اور محرم راز رہے اس لئے رانچی کی نظر بندی کے زمانہ میں بھی آپ رانچی میں مولانا آزاد کے رفیق و معاون بن گئے۔ جب وہاں مولانا آزاد نے ’’مدرسہ اسلامیہ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا، جو آج بھی وہاں موجود ہے تو آپ اس مدرسہ میں مدرس اول کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ مولانا آزاد کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد اپنے فطری دینی ذوق اور تصوف و احسان سے خاندانی شغف کے باعث، خالص دینی مطالعہ اور روحانی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ میں قیام فرمایا۔ جس زمانہ میں آپ پھلواری شریف میں قیام پذیر ہوکر علمی و دینی مطالعہ میں مشغول و منہمک تھے، اسی زمانہ میں، خانقاہ مجیبہ پھلواری شریف سے شائع ہونے والے ایک اہم دینی و علمی ماہنامہ ’’معارف‘‘ کے مدیر رہے، جو آپ کی علمی گہرائی، دینی بصیرت اور ادبی صلاحیتوں کی روشن یادگار ہے۔ اس طرح علی گڑھ کی تعلیم کے اختتام کے بعد آزادانہ طور پر اپنی محنت اور ذوق مطالعہ سے اپنی دینی تعلیم کی تکمیل فرمائی۔ حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی زندگی کے احوال و واقعات 1912ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رفاقت اور ان کے اخبار الہلال کی صحافت سے 1947ء کی جنگ آزادی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی ذات والا صفات اس پورے دور کی دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی تحریکات کی تاریخ ہے۔ 15؍اگست 1947ء کو جب ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا، اس سے ایک ماہ پہلے، 19؍جولائی 1947ء کو آپ کی زندگی کا آفتاب غروب ہوگیا۔

خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں، کچھ دنوں قیام اور اپنی علمی و دینی اور روحانی تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد آخر میں اپنے وطن مالوف ’سملہ‘ میں مستقل قیام پذیر ہوئے، معاش کے لیے تھوڑی سی زمینداری اور کاشتکاری موجود تھی اس کی دیکھ بھال اپنے چھوٹے بھائی کے حوالہ کردی اور ذریعہ معاش سے بے فکر ہوکر، پوری زندگی توکل، فقر و درویشی کے ساتھ دین و ملت کی خدمت اور رشد و ہدایت کے لئے وقف کردی آپ کی بیعت اپنے جد امجد حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید فردوسی سملویؒ کے ہاتھ پر، حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمدیحیٰ منیریؒ کے سلسلہ فردوسیہ میں ہوئی۔ حضرت شہیدؒ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے انگریزوں کے تسلط کے بعد، ہندوستان میں دین کے قیام و بقا کے لئے ’’بیعت طریقت‘‘ میں ’’بیعت جہاد‘‘ کو جاری فرمایا۔ حضرت مولانا شاد محمد قاسم عثمانی فردوسی نے اپنے جدامجد کے ہاتھوں پر، بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد بھی کیا۔ یہ بیعت جہاد اور پیر و مرشد حضرت شہیدؒ کا فیضان نظر ہی تھا، جس نے زندگی کے آخری لمحوں میں بھی آپ کے اندر، جوانوں کا سا جوش و ولولہ، دین کے قیام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے والہانہ عشق پیدا کردیا تھا، ایسی بے چین و سیماب وش طبیعت پائی تھی کہ ملک و ملت اور دین کا درد ان کا اپنا درد بن گیا تھا، پھر پوری زندگی دین و ملت کی خدمت اور رشد ہدایت میں گذار دی۔

آج کے دور میں تصوف و احسان اور سلوک و طریقت کا موضوع بڑا نازک اور نزاعی بن گیا ہے، اس کی نت نئی تعبیر ہیں، جو مختلف حضرات، مختلف الفاظ اور اپنے اپنے انداز نظر سے کرتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے تصوف و احسان کے وسیع مفہوم کو اختیار کیا آپ کے نزدیک اگر تصوف، کتاب و سنت اور شریعت کے حدود میں ہو تو لائقِ تحسین ہے۔ کتاب و سنت اور شریعت سے ہٹ کر اگر تصوف ہر کوئی چیز در آتی ہے تو قابل اصلاح ہے ورنہ کلیۃً لائق رد ہے۔ آپ کے نزدیک تصوف دراصل احسان کا نام ہے، جو شریعت کی کامل پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔ سلوک و تصوف کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ کے خطوط کا مجموعہ’ نقش دوام ‘کے باب اول ’تصوف و احسان‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ جن سے ہمیں فکر کی تابانی اور یقین کی گرمی دونوں ہی حاصل ہوتی ہے۔

جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کے اخلاق و اوصاف میں خلق محمدی کا عکس نظر آتا ہے، وہ سراپا اخلاص و عمل تھے۔ عشق رسول اور اتباع رسول ان کی سیرت و کردار کا نمایاں عنصر تھا۔ اپنی گفتگو، بات چیت اور رہن سہن میں ہمیشہ اسوۂ محمدی پیش نظر رکھتے۔ عادات و خصائل پسندو ناپسند سب میں اتباع سنت کو حرز جاں بنائے ہوئے تھے۔ آپ کا لباس اور انداز شرعی اور عالمانہ تھا، کھدر کا سفید اور لانبا کرتا، ٹخنوں سے اونچا پائجامہ، سفید تہ دار عمامہ اور سفید پٹکہ ہمیشہ استعمال فرماتے۔ حالت سفر میں چستی و آسانی کے لئے پٹکہ کو جو کاندھے پر رہا کرتا تھا کمر سے باندھ لیتے تھے۔ غالباً 46ء سے پہلے کا زمانہ تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش انتہائی عروج پر تھی، علماء اور اہل دین کی توہین اور استہزا عام تھا، گیا اسٹیشن پر ایک صاحب جو جدید تعلیم سے آراستہ، کوٹ، پینٹ اور ہیٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے، آپ کو دیکھ کر ٹہلتے ہوئے آپ کے قریب آئے اور تمسخرانہ انداز میں سنجیدہ بن کر پوچھا:
’’آپ کس صاحب کے خانساماں ہیں؟‘‘
آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’محمد صاحب کے‘‘ (ﷺ)وہ حضرت شرمندہ ہوکر الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا، آنحضرت ؐ کی غلامی اور ان کے ’’خانساماں‘‘ ہونے کے احساس سے آپ کی آنکھیں روشن اور پیشانی تابناک ہوگئی۔
آپ عنفوان شباب ہی سے تہجد اور ذکر و اشغال کے پابند تھے، ساتھ ہی اپنے متوسلین اہل قرابت اور تعلق کو ہر خط میں نماز کی تاکید فرماتے، فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ آیت ربانی کی طرف متوجہ کرتے اور خود اس کے عملی نمونہ تھے، اپنے ایک عزیز کو ایک خط میں فرماتے ہیں:
’’آپ یقین کریں، حقیقی سعادت سے ہم ہرگز بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک ہم عبادت کو اپنا اوڑھنا، بچھونا نہ بنالیں، عبادت دلوں کی پونجی، متقیوں کا زیور، مردوں کا ہنر، ہمت والوں کا پیشہ اور حاصلِ عمر ہے۔‘‘
آپ کی شخصیت بڑی دل آویز، ہمہ گیر، جاذب نظر اور پرسوز و پرکشش تھی، وہ محبت، معرفت اور نگاہ کے حسین امتزاج تھے، اسی چیز نے ان کے اندر بڑی جامعیت پیدا کردی تھی، انفرادی تزکیہ و اصلاح، باطنی و روحانی ارتقا اور دینی انداز فکر کے ساتھ سیاسی و اجتماعی جدوجہد کے مختلف دھارے آپ کی زندگی میں آکر ملتے تھے اور ان سب کا سرچشمہ عشق نبوی تھا، ان کی زندگی اور فکر کی ساری روشنی و تابندگی ’’چراغِ مصطفوی‘‘ ہی سے فروزاں تھی، چنانچہ حبّ رسول اور اتباع سنت سے آپ کی پوری زندگی روشن و تابندہ تھی۔
آپ کی سیاسی و اجتماعی زندگی کا آغاز، جنگ آزادی کے مجاہد کی حیثیت سے 1912ء سے ہوا، تحریک ترک موالات کے دور میں انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر تحریک خلافت میں شریک ہوئے اور اس دورے کے اہل دین علماء اور سیاسی شخصیات سے آپ کا براہ راست رابطہ و تعلق تھا۔ الہلال کی صحافت کے ساتھ مولانا ا بوالکلام آزاد کی جماعت’ حزب اللہ‘، شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحبؒ کی خفیہ تحریک جہاد، مولانا عبید اللہ سندھی ؒ جیسی انقلابی شخصیت سے ذاتی مخلصانہ مراسم، مولانا سندھی کا ہندوستان سے فرار اور ریشمی خطوط والا واقعہ، ان سب سے آپ کا براہ راست ربط و تعلق تھا اور تمام تحریکوں میں آپ نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ بہار میں اقامت دین اور نظام شرعی کے قیام کی اہم تحریک امارت شرعیہ میںآپ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے شریک کار اور رفیق و غمگسار رہے۔ امارت شرعیہ کی تحریک کو صوبہ کی اہم زندہ اور فعال تحریک بنانے میں آپ کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ مولانا سجادؒ ، قاضی احمد حسینؒ اور شاہ محمد قاسمؒ امارت شرعیہ کے حقیقی عناصر ترکیبی تھے جن سے امارت شرعیہ بہار میں پروان چڑھی۔ آپ اپنے عنفوان شباب ہی سے عملاً اس وقت کے اکابر علماء اور سیاسی شخصیات کے ساتھ وابستہ رہے اور ان کے سیاسی کاموں میں عملاً شریک رہے لیکن جنگ آزادی کی تاریخ میں ان کا کہیں نام نظر نہیں آتا، وجہ ظاہر ہے، حضرت مخدوم الملک بہاریؒ کا فیضان ’’خاک شوگم نام شو‘‘ آپ اس کے حقیقی نمونہ تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے آپ کے کتنے قریبی تعلق تھے اور مولانا آزاد ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جس کا ذکر مولانا شاہ محمد عثمانی مدظلہ نے اپنی کتاب ’ٹوٹے ہوئے تارے‘ میں مولانا عبیداللہ سندھی کے حالات کے تذکرہ میں لکھا ہے:
’’ہمارے ایک عزیز (شاہ محمد قاسم عثمانی) نے جو ان دنوں مولانا کے معتمد لوگوں میں تھے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو دہلی میں مولانا آزاد کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ ان کی گرفتاری کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ بھاگ جائیں۔ یہ بیان قریب قیاس اس لئے بھی ہے کہ مولانا سندھی دہلی سے بھاگ کر کچھ عرصہ سندھ کے دیہاتوں میں روپوش رہے اور بہر حال مولانا افغانستان پہنچ گئے اور مولانا محمود الحسن کے بتائے نقشہ پر کام کرتے رہے۔‘‘
اسی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمود الحسنؒ کا وہ خفیہ پیغام جو ’’ریشمی رومال‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس کے پہنچانے میں بھی مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ براہ راست شریک تھے۔ اس لئے کہ آپ کے براہ راست تعلقات، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ تینوں سے تھے۔ ان کی معیت میں آپ نے جنگ آزادی میں علمی حصہ لیا، تحریک خلافت میں شریک کار رہے۔ مسلمانوں کی دینی تشخص کے ساتھ کانگریس کی جنگ آزادی کی حمایت کی، جمعیۃ علمائے ہند سے عملی تعلق رہا اور امارت شرعیہ کے قیام سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اسی کے روح رواں اور ممد و معاون بنے رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی اتنی گوناگوں، متنوع اور ہر دل عزیز تھی کہ اس مختصر مضمون میں آپ کی رنگارنگ شخصیت کے حقیقی خدوخال کو ابھارنا ممکن نہیں۔ آپ بیک وقت بوریہ نشین مرد درویش تھے اور مجاہد جلیل بھی، قائد بھی تھے اور وقت پڑنے پر والنٹیراور رضاکار بھی، غرض کہ ملک و ملت کے خادم اور مخدوم دونوں ہی تھے۔ آپ نے زیادہ عمر نہیں پائی اور تقریباً ۵۹ برس کی عمر میں اپنے وقت کے یہ گم نام مگر باکمال شیخ وقت، و درویش اور مجاہد جلیل ع نشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آ ید تبسم برلب اوست کے مصداق لقویٰ کے مرض الموت میں مبتلا ہوئے، فالج کا اثر چہرہ اور حلق پرہوا، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور کوئی ٹھوس غذا فرو حلق نہیں ہوتی، علاج معالجہ جاری رہا ،تقریباً چھ مہینے بستر مرض پر رہے، ڈاکٹر حیرت زدہ تھے کہ چھ مہینے سے بغیر غذا کے ہیں،رقیق غذا بھی، چند قطرے مشکل سے فرو حلق ہوتی، آخر آپ زندہ کیسے ہیں؟ یہ صرف آپ کی روحانیت اور کرامت ہے۔ اس حالت میں بھی آخر وقت تک ذہن و دماغ پوری طرح کام کرتا رہا تھا۔ مسلسل لوگوں سے دین کی باتیں کرتے اور تلقین و ہدایت فرماتے رہتے۔ شدت تکلیف کے باوجود، چہرہ ہمیشہ پرسکون اور روشن رہا، اسی حال میں آخر وقت موعود آگیا اور آپ کی روح اپنے رب اعلیٰ سے جاملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر، وقت کا یہ باکمال آفتاب رشد و ہدایت غروب ہوگیا، 29؍ شعبان العظم 1366ھ مطابق 19؍جولائی 1947ء اپنے آبائی گاؤں سملہ سے جانب مشرق خاندانی قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اور رمضان المبارک کا چاند بعد تدفین مطلع غرب پر پیغام مغفرت دیتانظرآیا۔ خدا مغفرت کرے ع
وہ اپنی ذات سے اک انجمن تھے
اپنے وقت کے گمنام مگر با کمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل محبوب الا ولیاء حضرت شاہ محمد قاسم فردوسی ؒ کے وصال کے بعد خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ کی سجادگی جناب الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ کو عطا ہوئی،آپ کا انتقال پر ملال ماہ 22 ذیقعدہ1425ھ ؁ مطابق 4جنوری2005ء کو ہوا اور آپ اپنے خاندانی قبرستان سملہ میں مدفون ہوئے۔آپ کے وصال کے بعد سملہ میں حضرت شاہ احمد کبیر ابو الحسن شہید ؒ کے عرس مبارک کے مو قع پر 6 رجب المرجب1425ھ ؁ مطابق12اگست 2005بروز جمعہ بعد نماز مغرب علماء اور مشائخ کی موجودگی میں عزیزی مولانا شاہ ابودجانہ تسنیم عثمانی فردوسی سلمہ اللہ تعالیٰ کی دستار بندی ہوئی اور سجادگی عمل میں آئی۔اس طرح عزیز موصوف اپنے تمام خاندانی تبرکات کے محافظ اور اپنے بزرگوں کی روش اور نقش قدم پر رشد و ہدایت کے خلیفہ و مجاز ہیں۔
ہے خراب باد ہ ساقی کمالی کی دعا
حشر تک یا بوالحسن آباد میخانہ رہے

Monday 25 January 2016

Do Behnein By Aqsa Usmani

دو بہنیں 
اقصیٰ عثمانی
ایک شہر میں  دو بہنیں رہتی تھی  لینا اور ایلینا دونوں خوبصورت تھیں ان کے ماں باپ گزر چکے تھے  اور اس شہر میں بِن ماں باپ کے بچّوں کو الگ سے گھر ملتا تھا دونوں کو الگ الگ گھر مل گئے۔   
انہیں  خود سے محنت کرکے پیسہ کمانا تھا۔ لینا کا باغ بہت اچھا تھا۔ ایلینا کا باغ بہت خراب  تھا۔ کچھ سال میں ایلینا نے اپنا باغ اچھا اور خوبصورت بنا دیا۔                  
لینا کو ایلینا کا باغ دیکھ کر  جلن ہونے لگی، اس نے اُس کی جاسوسی شروع کردی۔ ایک دن اس نے ایلنا کو سیب کے پیڑ کے پاس دیکھا اور اُسے لگا یہ وہاں کوئی جادو کررہی ہے، لیکن اس کو بعد میں پتا چلا کہ وہ جادو نہیں کررہی تھی بلکہ اس پیڑ کی جڑوں میں پانی ڈال رہی تھی۔ اُسے اس کے درختوں میں پھل آنے کا راز معلوم ہو چکا تھا، وہ جان گئی تھی کہ صبح سویرے صفائی کرنے اور پودوں میں پانی ڈالنے سے ہریالی آتی ہے اور باغ خوبصورت نظر آنے لگتا ہے۔ اب وہ اس راز کو جان چکی تھی اس نے بھی وہی طریقہ اپنایا اوروہ بھی خوش رہنے لگی۔  اب اُس کے باغ میں بھی ڈھیر سارے پھل اور پھول آنے لگے تھے۔                         

दो बहनें
अकसा उसमानी
एक शहर में दो बहनें रहती थी लेना और एलिना दोनों ख़ूबसूरत थीं उनके माँ बाप गुज़र चुके थे और इस शहर में बे-माँ बाप के बच्चों को अलग से घर मिलता था दोनों को अलग अलग घर मिल गए।
उन्हें ख़ुद से मेहनत करके पैसा कमाना था। लेना का बाग़ बहुत अच्छा था। एलिना का बहुत ख़राब था। कुछ साल बाद उसने अपना बाग़ अच्छा बना दिया।
लेना को जलन होई उसने जासूसी शुरू कर दी एक दिन उसने एलिना को सेब के पेड़ के पास देखा और इस को लगा ये वहां कोई जादू कर रही है लेकिन इस को बाद में पता चला कि वो जादू नही कर रही थी बल्कि इस पेड़ की जड़ों में पानी डाल रही थी उसे उस के दरख़्तों में फल आने का राज़ मालूम हो चुका था वो जान गई थी कि सुबह सुबह सफ़ाई करने और पौदों में पानी डालने से हरियाली आती है और बाग़ ख़ूबसूरत नज़र आने लगता है। अब वो इस राज़ को जान चुकी थी उसने भी वही तरीक़ा अपनाया और वह ख़ुश रहने  लगी।

Monday 11 January 2016

JAMSHEDPUR: THE TOWN OF LOVE & BEAUTY By Arisha Usmani

JAMSHEDPUR: THE TOWN OF LOVE & BEAUTY
By ARISHA USMANI

Last year in 34 hours our town had gone decades back. That town in whose air there was relief; in the words there was sweetness; there was love; talk was about peace; there was likeness for achieving the goals in life; suddenly it all changed…

What changed? It broke down into pieces, and don’t know how much time, how many years will be required to gather all those broken pieces.

But who will gather it? That person who came to my house to sweeten his mouth? That person threw stones at my house….

The talks between ‘us’ became like abyss. If ever any talks would have happened, it would have been between the illiterate people who were the main culprits to destroy the peace of this beautiful town. Those illiterates had no religion, no caste. Then why ‘we’ lost our caste and religion? Why did ‘we’ built a wall of hatred between us?

For years we supported brotherhood, we went to each others houses in each others respective festivals, we shared each others happiness and stood by each other in the hard times, but all these just vanished in just few minutes.

Why didn’t we think that the stone which we threw would hurt our own brothers. The blood which would come out would also be red in color? Why didn’t we think that the town which was known for its hard labour and which followed the proverb “United we stand, Divided we fall” and was known for it; is now being known for hatred?

If we would have thought for it just for a second, it would never have happened. So before we stop thinking about right and wrong, about the people of other religion that they are also humans like us, we should give the PROOF OF HUMANITY.

The people who love peace should come forward be it of any religion, any caste…. Why those people are so quiet? Why they are just seeing our town burning in the fire of hatred? Why don’t they come forward and stop those hands who have stones in them?

If not so much then at least they should help the government in acquiring peace. In these hard times when just a line of faith and trust can work wonders, some people are just spreading rumors….and those people should remember just one thing that the fire of rumor can burn their own house.

So come and make a promise to maintain the beauty of this town and bring back peace which this town had lost……..

                                                                                             

                                                                                               



Tuesday 17 February 2015

تری مستی کے افسانے رہیں گے


تحریر: ابن طاہرعثمانی

کلیم آئے بھی اپنی غزل سنا بھی گئے
الاپ بھی گئے رو بھی گئے رُلا  بھی گئے
سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی ایک آواز جو ۷۰ اور ۸۰ کی دہائی میں کُل ہند مشاعروں کی جان ہوا کرتی تھی آج خاموش ہوگئی۔پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز اس دنیا میں نہیں رہے۔انہوں نے اپنے منفرد انداز بیان سے اردو شاعری میں میر کے لہجے کو آگے بڑھایا۔اپنی زندگی کے سب سے بڑے المناک حادثوں کو انہوں نے آفاقی بنا دیا۔ ان کی درد بھری المناک یادیں صرف انہی تک محدود نہیں  رہیں بلکہ ان کے اشعار میں وہ تاریخ کا حصّہ بن گئیں۔ لال قلعہ کے مشاعرہ میں پڑھے گئے اس شعر 

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہے کہ کرامات کرو ہو

کو آج بھی اہل علم یاد کرتے ہیں تو اس کمزور جسم کے ناتواں انسان کےاس شدید شعری احتجاج کو نہیں بھلا پاتے۔آج بھی یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے۔خود کلیم عاجز کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ تلخ لہجہ اگر غزل کے حسین پیرائے میں قید نہ ہوتا تو قابل گردن زدنی قرار دیا جاتا۔یہ شعر بلکہ پوری غزل مخاطبِ غزل کے مزاج نازک پر کتنا گراں گزری یہ تو معلوم نہیں لیکن لال قلعہ کے مشاعروں میں کلیم عاجز کی شرکت ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار پا گئی۔خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور  اکیڈمی کے ارباب  اقتدار بخوبی اس روایت کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اسے آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔
کلیم عاجز کی شاعری ہندوستان کے سماجی و سیاسی حالات کا بھرپور منظر نامہ پیش کرتی ہے۔وہ مناظر و واقعات جو کلیم عاجز کی شاعری کا بنیادی جز بنے وہ آج بھی مختلف شکلوں میں دہرائےجا رہے ہیں۔کھونے اور لُٹ جانے کا احساس بہتوں کو ستا رہا ہے۔آج بھی لوگوں کے دل اسی طرح زخموں سے چور ہیں اور ہر درد مند انسان اس کو اپنی زندگی کا ایک حصّہ سمجھتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ قاری ڈاکٹر عاجز کا جب بھی کوئی شعر پڑھتا ہے تو اسے وہ اپنے دل سے نکلتی ہوئی آواز محسوس کرتا ہے۔اگر اپنے اشعار کی ترسیل میں کلیم عاجز کی انا پسندی کا دخل نہ ہوتا تو شاید آج وہ ہندوستان کی گلی کوچوں کے سب سے مقبول شاعر ہوتے۔
ایک زمانہ تھا کہ کلیم عاجز ہندوستانی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔میرے والد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ جو خود بھی ایک شاعر تھے ڈاکٹر کلیم عاجز سے خصوصی لگاؤتھا۔اس زمانے میں وہ جب بھی دھنباد تشریف لاتے تو ہمارے گھر ضرور آتے۔والد محترم سے گھنٹوں ادبی و شعری گفتگو ہوتی اور باتوں ہی باتوں میں ایک شعری نشست ہوجاتی۔مشاعروں میں ایک ایک شعر کے لئے ناز و انداز دکھانے والے کلیم عاجز اتنی محبت سے شعر پر شعر سناتے کے ان کی فراخدلی دیکھتے ہی بنتی۔شاید ڈاکٹر کلیم عاجز کو احسا س تھا کے اس محفل میں ان کے سچے قدرداں موجود ہیں۔ یہی صورت حال میرے خالو سید ناطق قادری  اور ماموں طارق قادری کے ساتھ تھی۔نہیں معلوم ان کے دلوں پر اس سانحہ کے بعد کیا گزری ہوگی۔ کلیم عاجز ان کے لئےمشفق بڑے بھائی  اور ہمدم سے کم نہ تھے۔ان کے آبائی گاؤں بمنڈیہہ جو اورنگ آباد بہار میں واقع ہے وہ اکثر تشریف لاتے۔ تبلیغ کی اہم معمولات کی ادائیگی کے بعد ادبی گفتگو مشاعرہ میں تبدیل ہوجاتی اور پھر کلیم عاجز کے اشعار اور واہ واہ کی یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور پھر موذن ہی اس سلسلہ کو لگام لگا پاتا۔اس محفل میں کلیم عاجز نعتیں  غزلیں یہاں تک کے گیت بھی سناتےجو کبھی بہار کی ادبی روایت کا ایک حصّہ ہوا کرتی تھیں۔میرے وطن جھریا میں تو ڈاکٹر کلیم عاجز کے آنے کاسلسلہ تو رفتہ رفتہ کم ہوگیا بلکہ والدماجد کے انتقال کے بعد بالکل ہی ختم ہوگیا لیکن بمنڈیہہ آنے کا سلسلہ تا حال جاری رہا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے یہ شعری نشستیں ان مشاعروں سے بالکل الگ تھیں جو بین الاقوامی سطح پر عرب ممالک میں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ بعض وجوہات کی سبب انہوں نے ہندوستانی مشاعروں میں حصّہ لینا بہت پہلے ہی ترک کردیا تھا۔آج ادبی دنیا کی اہم شخصیتیں اردو مشاعروں کے تہذیبی زوال پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں لیکن کلیم  عاجز کے حساس مزاج نے برسوں قبل اس ماحول سےاپنی ذات  کو الگ کرلیا تھا۔انہیں ڈر تھا

کوئی ناشناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے

گرچہ یہ موقع شکوہ و شکایت کا نہیں لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں  جن کی بنا پر جب ان کے عہد کے دوسرے شعرا مشاعروں میں اپنی دھوم مچارہے تھیں کلیم عاجز نے ان مشاعروں سے خود کو الگ کرلیا۔آخر کیوں دبستان عظیم آباد کے اس عظیم شاعر نے دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے سجے اسٹیج پر اپنی موجودگی کو اپنی رسوائی کا سبب جانا۔خودداری کا وہ کون سا جذبہ تھا جس نے مشاعروں کے اسٹیج سے دوری کو ہی اپنے عزت نفس کی تسکین کا ذریعہ جانا۔ گرچہ اس زمانے میں میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے آج بھی یاد ہے شیر وانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس یہ باریش اور پرنور شخصیت کس طرح جام و مینا میں ڈوبےشاعروں کے لئے باعث تضحیک ہوتی تھی ۔ان کے سامنے زبان کھولنے کی تو کسی میں ہمت نہ تھی لیکن ان کی شاعری میں شامل علاقائی لب و لہجہ جو کسی حد تک زبان ِ میر کے قریب ہونے کے باوجودان کے لئے باعث مزاح ہوتا  تھا۔عاجز کا یہ شعر

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

ایسے ہی ’’ناشناس مزاج غم‘‘کی جانب ایک اشارہ ہے۔بہار کے شہر جھریا میں کل ہند مشاعرہ  جس کے انعقاد میں والد ماجد کی سرگرم کوششوں کا بڑا دخل تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس مشاعرہ کے روح رواں تھےاس  مشاعرہ میں اس وقت تمام نامور شعرا نے شرکت کی تھی جن میں علامہ فرقت کاکوروی٬ہلال سیوہاروی٬ملک زاد ہ منظور احمد٬ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر٬ڈاکٹر بشیر بدر٬اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ شامل تھے۔جھریا سے قبل  جھارکھنڈ کےگریڈیہ کے مشاعروں میں ان تمام شعرا نے شرکت کی تھی۔اس مشاعرہ میں کسی بات پر ڈاکٹر کلیم عاجز کی انانیت کو ٹھیس پہنچی اور اس کے بعد انہوں نے ناظم مشاعرہ اور سجی سنوری شاعرات کو مقابل رکھ کر جو فی البدیہ غزل سنائی تو سبھی ہکا بکا منہ تکتہ رہ گئے۔یہاں میں نے ہکا بکا کا لفظ بطور خاص استعمال کیا ہے کہ زبان و بیان کے ٹھیکے دارسادہ الفاظ کی وسعت کو سمجھ سکیں۔مشاعرے میں نوبت یہ تھی کہ اسٹیج خاموش تھا اور پنڈال واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صداؤں سے گونج رہا تھا۔

مکمل غزل ملاحظہ کریں

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ گل قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
وہ شوخ ستم گر توستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو

کلیم عاجز کی انا کو جو ٹھیس لگی تھی اس کا رنگ جھریا کے مشاعرے تک نظر آیا اور ان پر جملہ کسنے والی ٹولی ان سے شرمندہ شرمندہ سی رہی۔
کلیم عاجز ٹوٹے ہوئے دل کے مالک تھے۔اور بہار میں صوفیوں کے سرتاج حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کا کہنا ہے کہ جو دل جتنا ٹوٹا ہوتا ہے اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے۔ اقبال کی زبان میں ؃
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
عاجز کا دل ایک جانب تو  زخموں سے چور تھا دوسری جانب وہ  عشق رسول ،محبت الٰہی سے سرشار اور خوف خدا سے بھی پارہ پارہ تھا

دل کی یہ شکستگی اور خاتم النبی حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پناہ محبت کلیم عاجز کے نعتیہ اشعار میں جا بجا نظر آتی ہے۔ ان کی نعت دربار  ِ بے کس پناہ میں امت مسلمہ کی حالت  زار کا بیان اور ان کی نگاہ لطف کرم  اور ظالموں سے نجات کے لئے عرضی ہے۔  کلیم عاجز کی بیشتر نعتیں ہندوستان میں رو نما ہونے والے بدترین فسادات کے بعد کہی گئیں ۔بے سرو سامانی کی حالت میں کلیم عاجز کے لئےیہی ایک دربار ہے جہاں وہ اپنا حال دل بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ مراد آباد میں عید کے دن ہونے والے فسادات سےمتاثرہوکر یہ نعت کہی۔اس نعت کے چند اشعار یہاں آپ کی نذر ہیں جس میں  ان کے دل میں اپنی قوم کے درد اورظالموں سےپناہ کی خواہش صاف نظر آتی ہے


مدینہ پہونچ کر سرِعام کہیو
صبا کملی والے سے پیغام کہیو


طبیعت اندھیروں سے اکتا گئی ہے
بہت دن سے ہے شام ہی شام کہیو

خزاں بھی گذاری بہاریں بھی دیکھیں
ملا کوئی کروٹ نہ آرام کہیو

ہمیں پھول بانٹیںہمیں زخم کھائیں 
وہ آغاز تھا اور یہ انجام کہیو


وہ خود ہی نہ دریافت فرمائیں جب تک
تخلص نہ ان سے مرا نام کہیو


جس طرح غالب کی شاعری کا ذکر غالب کی نثر کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک اسی طرح کلیم عاجز کی شاعری کا تذکرہ ہو اور ان کی نثر کو بھلا دیا جائے ایسا ممکن نہیں۔دراصل  کلیم عاجز کی نثر ان کی شاعری کا پیش لفظ ہے۔ ان کی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا•••‘‘٬ابھی سن لو مجھ سے٬ جب فصل  بہاراں آئی تھی٬یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ اورجہاں خوشبو ہی خوشبو تھی  میں  الفاظ  کی روانی٬سادگی اور ان کی معنویت نثر میں نظم کا احساس پیدا کرتی ہے۔الفاظ اتنے سادہ اور مربوط ہیں  اور اندازبیان اتنا دل کو چھو جانے والا ہے کہ آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔غم جاناں کس طرح غم دوراں بنتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ان کی نثر نہ صرف ایک المناک داستان ہے بلکہ تاریخ ہے ان فسادات کی جو زمانے میں ہندوستان کے لئے ایک عفریت رہی ہے اور اس نے ہندوستان کے ہزاروں افراد کو اپنا نشانہ بنایا۔کلیم عاجز نے اس غم کو نہ صرف حرز جاں بنایا بلکہ  اپنے غم کو دوسرےحساس دلوں کی آواز بھی بنا دیا۔میں نے کلیم عاجز کی اس نثر کو متعدد بار پڑھنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس حقیقی بیانیے نے میرے قدم روک دیے میں نے ان وحشت ناک  مناظر سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔شاید مجھ میں ان لمحوں کو جینے کی ہمت نہ تھی۔ کلیم عاجز ۸۵ برسوں تک ان لمحوں کو سینے سے لگائے کس طرح گنگناتے رہے یہ انہی کا دل گردہ تھا۔میرا اپنا خیال ہے کہ کلیم عاجز کو پدم شری اور عزت و شہرت تو ملی لیکن عوام کو ان کی اس قدر کا موقع نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔

تری مستی کے افسانے رہیں گے
جہاں گردش میں پیمانے رہیں گے



ابھی کلیم کو کوئی پہچانتا نہیں
یہ اپنے وقت کی گدڑی  میں لعل ہیں پیارے

کلیم عاجز کے وہ اشعارجو زمانے سے میری ڈائری کی زینت ہیں ارور آج انکی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئے ہے۔
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے کی کیا بات کرو ہو

عاجز کے جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کے سب راحت و آرام پڑا ہے

عاجز یہ تم نے کیا غزل بے مزا پڑھی
ایک شعر بھی نہیں صفت زلف یار میں


خوش خبری