آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 7 November 2017

Ghazal - Kamil Quadri

غزل
کامل  القادری

ابر گھر آتا ہے جب رازِچمن کھلتا ہے
برق لہراتی ہے غنچے کا دہن کھلتا ہے

اب بھی ہے کوئی سر بزم غزل خواں اے دوست
لب وابستہ بہ زنجیر کہن کھلتا ہے

برق خاطف سے کہو چشم عنایت ہو ادھر
پھول جھڑتے ہیں لب سوختہ تن کھلتا ہے

آبلہ پائی کا یاروں کو صلہ مل ہی گیا
نقش پا ہم صفت رنگ چمن کھلتا ہے

صورت دوست وہ پہلو سے لگے بیٹھے ہیں
کون دشمن ہے یہاں اہل وطن کھلتا ہے

بے خبر تھے تو زمانے کی خبر رکھتے تھے
اب تو خود پر بھی کہاں اپنا چلن کھلتا ہے

نالہ کرتا ہوں تو ہنس پڑتے ہیں غنچے کامل
مسکراتا ہوں تو بلبل کا دہن کھلتا ہے

Friday 3 November 2017

غزل ۔ ناصر کاظمی


Thursday 2 November 2017

Ghazal - Danish Mamoon


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 2006 میں منعقدہ ایک مشاعرہ کی روداد

: آئینہ کی فائل سے



ّAbdul Qavi Dasnavi ki Bemisal Tahreerein-2

عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں-2
(بہ شکریہ گوگل)
ایک جگہ رقمطراز ہیں:


''سچی بات تو یہ ہے   کہ زندگی کو سلامتی کے ساتھ گزار لینا آج کی مادیت سے بوجھل معاشرے میں آسان نہیں ہے۔ اس معاشرے کی ساری پونجی حسد ، نفرت، احساس کمتری و برتری، ناانصافی،خود غرضی اور  ہٹ دھرمی سے ملاکر تیار ہوئی ہے۔اس معاشرے میں آپ ایمانداری اور سچائی کی زندگی تنہائی اختیار کرکے بھی نہیں گزار سکتے ہیں۔ آپ کا سماج اسے برداشت نہیں کرے گا۔ وہ آپ کی پر سکون زندگی کو برباد کرکے دم لے گااور اس توڑ پھوڑ پر فخر کرے گا۔ اگر آپ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو آپ کی آواز فضا میں لہرا کر گم ہوجائے گی۔کوئی آپ کی فریاد نہیں سنے گا۔ آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کرے گا۔ سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ آپ کے پیچھے آپ کے خلاف اڑائی ہوئی جھوٹی باتوں کو بغیر تحقیق کے سچ مان لے گا۔ بلکہ ظالم کی آواز سے اپنی آواز ملاکر اپنی دانشمندی پر ناز کرے گا۔۔۔۔۔

سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ آج کا سماج بے رحم ہوگیا ہے۔اسے ذاتی مفاد کے سوا اس بات سے غرض نہیں ہے کہ کون راستہ بہتر ہے اور کون تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔"

Wednesday 1 November 2017

Abdul Qavi Dasnavi ki Bemisal Tahreerein-1

عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں
یوم پیدائش پر گوگل کا ڈوڈ ل بناکر خراج عقیدت
(بہ شکریہ گوگل

گوگل نے آج اپنے ڈوڈل سے اردو کہ مایہ ناز ادیب عبد القوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اردو دنیا آ،ج عبد القوی دسنوی کا 87 واں یوم پیدائش منا رہی ہے۔ عبد القوی دسنوی کی پیدائش ۱۹۳۰ میں بہار کے دسنہ میں ہوئی  اور7 جولائی 2011 کوان کا انتقال ہوا۔ پانچ دہائیوں میں دسنوی نے اردو ادب کی کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے غالب ، اقبال، حسرت موہانی اور ابو الکلام آزاد پر بھرپور کام کیا۔ آپ کا تعلق سید سلیمان ندوی کے  خاندان سے تھا۔

پریم چند پر آپ کی کتاب مکتبہ جامعہ نے شائع کی جو کافی مقبول ہوئی۔آپ بھوپال میں شعبۂ اردو سے وابستہ رہے اور پوری زندگی تدریس و ادب کی خدمت میں گزاری۔ گوگل نے عبدالقوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کرکے اردو کی ایک بڑی خدمت انجام دی ہے اور ہندوستانیوں کو ایک مایہ ناز ادیب و ناقد کی یاد دلائی ہے۔ بے شک یہ ایک مستحسن قدم ہے۔
آئینہ عبد القوی دسنوی کی تحریروں کے چند اقتباسات پیش کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔

''دسنہ لائبریری نے کتاب پڑھنے اور خریدنے کا شوق پیدا کیا تھا تو میں نے اسی بچپن میں سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی کہانی زندگی میں پہلی کتاب ایک دھیلے میں خریدی تھی جسے نہایت احتیاط سے کاغذ چڑھا کر محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اسے کئی بار مطالعہ کیا تھا اور ہر بار اس احمق پر ہنسی آئی تھی جس نے سارے انڈے ایک دن حاصل کرنے کی لالچ میں اس کا پیٹ پھاڑ دیا تھا اور آنے والی دولت سے محروم ہوگیا تھا۔"

اپنی بستی  کے لوگوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:

''اور یہ بھی سچ ہے کہ اس بستی کے رہنے  والوں کی آپس میں محبت ، ایک دوسرے کے لئے احترام، ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کی کوششیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہر معاملے میں تعاون، ایک دوسرے کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھنے کا جذبہ، ایک دوسرے کی خوشیوں کو اپنی خوشی جاننے کا تصور، ایک دوسرے  کےغم دکھ درد کو اپنا درد محسوس کرنے  کا اور ایک دوسرے کے لئے مٹ جانے کی تڑپ آج بھی میرے دل میں ایک عجیب اضطراب پیدا کردیتی ہے۔ اور اس انسان پرور فضا میں لوٹ جانے کی خواہش کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ بار بار آج سوچتا ہوں کہ دسنہ کے وہ لوگ کتنے  اچھے تھے جودوسروں کی پر مسرت زندگی میں اپنی زندگی کی تسکین کا سامان پاتے تھے اور کتنے برے اور انسانیت کے نام پر داغ ہیں وہ لوگ جو اپنی پستی فکر کا زہر دوسروں کی پرسکون زندگی میں گھول کر اس کا سکون اور طمانیت چھین لیتے ہیں اور اپنی تخریبی صلاحیت پر نازاں رہتے ہیں۔"
(جاری)

Tuesday 31 October 2017

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 97ویں یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ پروگرام کا انعقاد

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 97ویں یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ  پروگرام کا انعقاد

(رپورٹ: محمد سعد اللہ صدیقی)


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۹۷ ویں   یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جو کل بروز اتوار سے شروع ہوکر آج بروز پیر اختتام پزیر ہوا۔
پروگرام کی ابتدا کل صبح ۹ بجے بدست وایس چانسلر طلعت احمد ہوئی۔ پروگرام کے آغاز پر اپنی تقریر میں جناب طلعت احمد نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے معیار کا مختصر تعارف کرایا۔۔ مزید برآں یہ بھی بتایا کہ عصر حاضر میں جامعہ کا تعلیمی معیار اور اقتدار ایشیائی سطح پر ۲۰۰ویں نمبر پر جبکہ ہندوستانی تعلیمی سطح پر ۵ویں نمبر پر شمار کیا جا رہا ہے ۔ یہ نہایت اعزاز کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی علمی اور فنی میدان میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ جامعہ اپنی علمی، ادبی و فنی اور تاریخی اعتبار سے بیش بہا علمی خزانوں کا مخزن رہا ہےـ
اس کے بعد مختلف پروگراموں کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں سب سے پہلے بچوں نے جامعہ کا ترانہ پیش کیا ، بعد ازاں موسیقی اور نغمے کے مسابقے کرائے گئے۔ مختلف موضوعات پر مناقشے اور مباحثات کا بھی انعقاد کرایا گیا ، جس میں جامعہ کے بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کئی موضوعات پر ڈرامے بھی اسٹیج کئے گئے جس کا تعلق محض معاشرتی اور اخلاقی زندگی کی اصلاح و فلاح و بہبود تھا۔ بروز اتوار رات میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان کے مشہور شعراء کرام اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ جس کی پیشکش پولس پبلک لائبریری کی جانب سے کی گئی تھی۔
بروز سوموار یوم تاسیس پروگرام کے آخری دن بھی پروگراموں کا سلسلہ اپنے شباب پر رہا۔ سب سے پہلے پروفیسر محمد مجیب موضوع کے تعلق سے توسیعی لیکچر کا انعقاد کیا گیا جس میں الگ الگ طلبائے جامعہ نے حصہ لیا۔ بعد ازاں مختلف موضوعات کے تحت ادبی پروگرام، بیت بازی ، نکڑ ناٹک اور خطابات پیش کئے گئے۔ سب سے اخیر میں مشہور قوال نظامی برادرس نے اصوفیائے کرام و تصوف کے تعلق سے قوالی پیش کرکے اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کیا اور سامعین کو اپنی بہترین آواز اور کلام سے محظوظ و لطف اندوز کرایا۔
یہ بات قابل ذکر ہے یوم تاسیس کے ہی تعلق سے ایک عظیم الشان تعلیمی میلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں علحدہ علحدہ شعبہ جات کے بک اسٹال لگائے گئے۔ طلبہ و طالبات کے علاوہ ان کے اہل خانہ اور علاقہ کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔





غزل ۔ طاہر عثمانی

غزل
تاج العرفان حکیم شاہ محمدطاہر عثمانی فردوسیؒ

مجھے راز درون دل عیاں کرنا نہیں آتا
حدیث دل سر محفل بیاں کرنا نہیں آتا

لئے پھرتی چمن میں ہر طرف ہے نکہت گل کو
صبا کو راز غنچوں کا نہاں کرنا نہیں آتا

جبین شوق مصروف تلاش حسن مطلق ہے
مجھے سجدوں کو صرف آستاں کرنا نہیں آتا

عجب بیچارگی ہے ان اسیران محبت کی
ہیں مجبور فغاں لیکن فغاں کرنا نہیں آتا

سناؤں شرح حال قلب مضطر کس طرح طاہرؔ
مجھے افشائے راز دیگراں کرنا نہیں آتا
    

Monday 30 October 2017

Ghazal - Khumaar Barabankvi

غزل
خمار بارہ بنکوی

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں
مری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں

یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیے تو دیے دل بجھے جا رہے ہیں

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

بہشت تصور کے جلوے ہیں میں ہوں
جدائی سلامت مزے آ رہے ہیں

قیامت کے آنے میں رندوں کو شک تھا
جو دیکھا تو واعظ چلے آ رہے ہیں

بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ
خمارؔ    آپ کافر ہوئے جا رہے ہیں

Sunday 29 October 2017

پرنسپل کا خط والدین کے نام

:رشاد عثمانی کے واٹس اپ پیغام سے

سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۲۰۱۵ کے سالانہ تعلیمی میلہ میں ایک طالب علم کابنایا ہوا ماڈل۔تصویر آئینہ

" محترم والدین!
آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے۔
لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان بچوں میں (مستقبل کے) موسیقار بھی بیٹھے ہوں گے جن کے لیے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے۔
لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اسکی خوداعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجئے گا۔
اگر وہ اچھے مارکس نہ لا سکیں تو انھیں حوصلہ دیجئے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں  اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
اگر وہ کم مارکس لاتے ہیں تو انھیں بتا دیں کہ آپ پھر بھی ان سے پیار کرتے ہیں اور آپ انھیں ان کم مارکس کی وجہ سے جج نہیں کریں گے۔
خدارا! ایسا ہی کیجیے گا اور جب آپ ایسا کریں گے پھر دیکھیے گا آپ کا بچہ  دنیا بھی فتح کر لے گا۔۔۔ ایک امتحان اور کم مارکس آپ کے بچے سے اس کے خواب اور اس کا ٹیلنٹ نہیں چھین سکتا۔
برائے مہربانی ایسا مت سوچئے گا کہ اس دنیا میں صرف ڈاکٹر اور انجینئرز ہی خوش رہتے ہیں۔۔
آپ کا مخلص

پرنسپل۔۔۔۔۔۔۔"

خوش خبری