آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 11 November 2017

Maulana Shah Tayyab Usmani ke Azkar e Sufiana - Shah Helal Quadri

 مولانا شاہ طیب عثمانی ندوی کے اذکارصوفیانہ
از: مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری  
( پھلواری شریف، پٹنہ،بہار)

مولانا شاہ طیب عثمانی، ایک صوفی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کا خاندان مشہور چشتی بزرگ حضرت جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی قدس سرہ کی اولاد میں سے ہے اور وہ حضرت امیر المومنین عثمان غنی رضی الله عنہ کی نسل سے تھے۔

عثمانی خانوادہ اپنے دامن میں ایک طویل علمی، ادبی اور عرفانی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ خانواده شروع سے فردوسی سلسلے سے وابستہ رہا ہے اور ان دونوں خانقاہوں سے صوبہ بہار میں مخدوم جہاں شیخ شرف الدین کی منیری قدس سرہ کے سلسلے کی بہت اشاعت ہوئی اور آج بھی یہ خانقاہیں فعال ہیں اور اعتدال پسندصوفيانہ فکر کی حامل ہیں۔

مولانا شاہ طبیب عثمانی اسی خاندان عثمانی کے قابل فخر فرزند تھے۔ ان کے بارے میں یہ خیال عام رہا کہ وہ خاص جماعت اسلامی کے آدمی ہیں اور جماعت اسلامی کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ وہ تصوف اور نظام خانقاہی سے بہت مختلف جماعت ہے۔ اس جماعت کے بعض فضلاء کی تصوف پرتنقیدیں راقم کی نظر میں ہیں۔

شاہ طیب عثمانی کی نشوونما اور ان کی فکری ساخت ایک ایسے صوفیانہ ماحول میں ہوئی تھی جہاں نظام خانقاہی اپنے تمام ’’بدعتی لوازم کے ساتھ قائم تھا، یعنی وہاں نیازوفاتحہ ہوتا تھا ، عرس و سماع کی محفلیں  آراستہ ہوتی تھیں، اور بڑے اہتمام کے ساتھ موئے مبارک کی ہر سال زیارت ہوا کرتی ، مریدین ومتوسلین کو اذ کار و وظائف کی تعلیم دی جاتی تھی ، اہل خاندان سلسلہ فردوسیہ سے وابستہ تھے اور سجادہ نشینی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس ماحول سے نکل کر شاہ طیب صاحب جس ماحول میں پہنچے وہاں ہی رسوم صوفیانہ، دستور مشخیت اور معمولات خانقاہی ’’ممنوعات شرعیہ میں شمار ہوتے تھے اور ان امور کے بارے میں اس طبقے کی رائے عام اور واضح تھی ۔ شاہ طیب صاحب، خانقاہی مسلک کی رواداری کے مطابق اس ماحول میں بغیر کسی ناخوش گواری کے سکون وانشراح کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے اور اعلی تعلیمی صلاحیت لے کر نکلے۔

قابل ذکر یہ ہے کہ مولانا طیب عثمانی کو فکری استقامت حاصل تھی مختلف غیر صوفیانہ ماحول میں رہ کر اور اس سے وابستہ ہوکر بھی ان کے صوفیانہ مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جماعت اسلامی سے تادم آخر وابستہ رہنے کے باوجود وہ ایک صوفی بھی رہے۔ یہ ان کے کتاب زندگی کا اہم باب ہے اور ان کی دینی اور فکری عزیمت و استقامت کا ثبوت ہے۔ بچپن میں جوسبق ان کے قلب و ذہن نے اپنے بزرگوں سے سیکھا تھا اور باشعور ہونے کے بعد اپنے خاندانی اور خانقاہی ماحول کے مشاہدے نے جو کچھ ان کو سکھایا تھا، اور اپنے بزرگوں کی اخلاص وللہیت سے بھری زندگی کے جو نقوش ان کے قلب و ذہن پر مرتسم ہوئے تھے وہ اتنے پراثر تھے کہ ماحول کی تبدیلی اور مطالعہ کے تنوع نے اس میں شکوک پیدا کرنے کے بجائے مزید پختگی پیدا کردی، اور ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یہ اگر شاه طیب صاحب کی سلامت قلبی کی دلیل ہے تو دوسری طرف ان کے بزرگوں کی تربیت کا کمال بھی ہے۔

مولانا طیب عثمانی کو تصوف کے بارے میں جو انشراح قلب حاصل تھا وہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ روابط کے باوجود باقی رہا، ان کو خانقاہی معمولات پرکبھی معترض ہوتے یا اپنے بزرگوں کے طریقے پر شک و شبہ کرتے ہوئے میں نے نہیں سنا، وہ اتنی سنجیدہ طبیعت کے آدمی تھے کہ کبھی مسائل مختلفہ پر گفتگونہیں کرتے تھے اور نہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ایسی کوئی بات لکھی ہے جس سے سمجھا جائے کہ تصوف کے کسی گوشے پران کو اعتراض تھا۔ ایکمرتبہ ان کے جماعتی دوستوں نے کسی خانقاہی رسم یا عرس پر اعتراض کیا توانہوں نے یہ جواب دیا کہ یہ توخانقاہی معمولات ہیں جس طرح جماعت کے ہفت وار اور ماہانہ پروگرام ہوتے ہیں یہ بات انہوں نے خود مجھ سے فرمائی تھی۔

مولانا طیب عثمانی مزاجاً صوفی تھے اور تصوف پر ان کے مضامین بھی ہیں ۔ انہوں نے تصوف کو پہلے پڑھا نہیں تھا بلکہ بدوشعور سے تصوف کی عملی تصویریں دیکھی تھیں، تصوف کا سب سے جامع اور عملی نمونہ انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا شاہ قاسم عثمانی فردوسی رحمہ الله کی ذات میں پایا، اور یہ مشاہدہ ، تصوف کے متعلق انشراح باطن اور اطمینان قلب کا باعث ہوا۔ ان کے والد ماجد جو ان کے مرشد ومربی روحانی بھی تھے ،علمی وعرفانی خوبیوں سے مزین ایک صاحب نسبت بزرگ تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کی ایک عظیم المرتبت شخصیت زبدة العارفین قدوة الصالحین مولانا سید شاہ بدرالدین قادری پھلواروی قدس سرہ زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ کی صحبت اٹھائی تھی ، خاندان کی میراث عرفانی و روحانی ان کو حاصل تھی ، خانقاہ مجیبی کے قطب الارشادکی توجہ نے ان کی باطنی صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔ مولانا طیب صاحب اپنے والد ومرشد کو تصوف کا عملی نمونہ سمجھتے تھے۔ بعد میں انہوں نے تصوف کا مطالعہ کیا ہوگا ، وہ مطالعہ ان کے علم میں اضافے کا سبب ہوا اور اپنے مشاہدات کی ان کو سندبھی مل گئی۔

انہوں نے اپنے والد کی سوانح ’’حیات دوام“ میں تصوف پر گفتگو کی ہے، اس وقت تصوف پر ان کا ایک مضمون ”تصوف کی حقیقت ۔ مکتوبات و ملفوظات مخدوم جہاں کے تناظر میں بھی میرے سامنے ہے ان تحریروں سے تصوف پر ان کے افکار و خیالات معلوم ہوتے ہیں ۔ حیات دوام میں وہ تصوف و سلوک کی حقیقت کے عنوان سے لکھتے ہیں: ۔
 ’’آج کے دور میں تصوف و احسان اور سلوک کا موضوع بڑا نازک بن گیا ہے، اس کی نت نئی تعبیریں ہیں جومختلف حضرات مختلف الفاظ ، نقطہ نظر اور اپنے انداز سے کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ابتدا سے ایک گروہ ایساموجود ہے جس نے تمام مقاصد دنیوی سے قطع نظر کر کے اپنا نصب العین محض یاد خدا اور ذکر الٰہی کو رکھا اور صدق وصفا، سلوک واحسان کے خلاف طریقوں پر عامل رہا، یہی گروہ رفتہ رفتہ گروہ صوفیہ کہلایا، اور اس کے مسلک کا نام ’’مسلک تصوف“ پڑ گیا۔یہ قدیم اکابر صوفیہ شریعت پر عامل باعمل مسلمان تھے پھر صوفی تھے۔ اور اپنے اپنے تصوف کو اسلام کے مقابل ایک جداگانہ حیثیت سے نہیں لاتے تھے بلکہ اسلام کے ماتحت اسی کی پاکیز ہ صورت کو کہتے تھے۔ تصوف ان کی نظر میں اسلام کی خالص ترین اور پاکیزه ترین تعبیرتھی۔“
(حیات دوام:۴۰)

 تصوف کے موضوع پراہل  نظر قلم اٹھاتے ہیں تو اپنے زمانے کے اہل تصوف کے بعض تسامحات کونظر انداز نہیں کرتے ، ان خامیوں کا ذکر کرنا وہ اپنی دیانت داری سمجھتے ہیں مولانا طیب عثمانی نے بھی تصوف پرتنقیدی نظر ڈالتے ہوئے جو رائے پیش کی ہے وہ ہرسلیم الطبع کے لئے قابل قبول ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’موجودہ دور میں تصوف کی مسخ شدہ شکل جو عام طور پر نظر آتی ہے وہ اسلامی اور غیر اسلامی عناصر کا معجون مرکب بن گئی ہے جس کے اسلامی اجزاء غیر اسلای افکار ونظریات کے دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تصوف تو وہ ہے جو حضرت سرور کائناتﷺ کا تھا، جو حضرت صدیق و علی مرتضی کا تھا، جو حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابوذر غفاری کا تھا اور جس کی تعلیم حضرت جنید بغدادی، شیخ عبدالقادر جیلانی ، شیخ شہاب الدین سہروردی ، خواجہ معین الدین چشتی، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری  نے دی۔ صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کی طرح صلحاء اور اخیارامت کی زندگی بھی ہمارے لئے اسوہ اورنمونہ ہے۔ ان اہل دل بزرگوں کے حالات کو جاننا اور ان کی حقیقی اسلامی تعلیمات کی واقفیت بہم پہنچانا، ہماری سعادت ہے۔“(ص:۴۱)

شاه طيب عثمانی نے اپنے والد گرامی محبوب الاولیا شاہ قاسم فردوسیؒ کے حوالے سے حیات دوام میں تصوف سے متعلق جو باتیں لکھی ہیں وہ سب، وہ افکار ہیں جن کو شاہ طیب عثمانی کے قلب روشن نے پورے انشراح کے ساتھ قبول کیا ہے۔ حیات دوام کے مندرجات سے ان  کے صوفيانہ نظریات کھل کر واضح ہو جاتے ہیں ، مثلاً صوفیا کی جو اصطلاحات ہیں فنا، بقا، ذکر،شغل اور مراقبہ وغیرہ ان کے صحیح و برحق ہونے میں ان کو کوئی شبہ نہیں تھا۔ اپنے والد کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
’’سلوک و احسان آپ کی زندگی کا حال بن چکا تھا، آپ نے اپنے خطوط میں تصوف و احسان کی حقیقت پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے: تصوف سراپا عمل ہے ،تصوف ، اتباع نبوی کا نام ہے۔ پھر فرماتے ہیں: تصوف میں منازل و مقامات اور فنا و بقا کی اصطلاحات نظری نہیں بلکہ عملی ہے۔ اسی طرح ذکر، شغل ومراقب بھی صرف ذہنی چیز نہیں ہیں بلکہ سراپا عمل ہے۔“ (ص:۴۲)

تصوف کے مخالف تصوف کے خلاف بہت کچھ کہتے اور لکھتے رہتے ہیں، اس کا جواب اپنے والد گرامی کے حوالے سے دیتے ہیں:
’’تصوف کیا ہے؟ عموماً لوگ اسے ہندوانہ جوگ یا نصرانی رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : تصوف نہ ہندوانہ جوگ ہے اور نہ نصرانی رہبانیت تصوف ما سوا اللہ سے دلی تعلق کو قطع کر کے خدا کی طرف یکسوکر دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ تصوف مادی نعمتوں کا ترک کرنا نہیں سکھاتا بلکہ ان کا صحیح  استعمال بتاتا ہے۔ حقیقت میں اسلامی تصوف محمد رسول اللہ ﷺ کی صوری و معنوی پیروی کا نام ہے۔“(م:۴۳)

تصوف کے مختلف مباحث جن کو اس زمانے میں معترضین گمرہی سے تعبیر کرتے مثلاً وحدة الوجود اور وحدة الشهود وغیرہ ۔ مولانا طیب عثمانی اپنے والد کے حوالے سے ان افکار صوفیانہ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’یوں تو آپ نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے تجدیدی فکر وعمل کے نقوش ثبت کئے ہیں جن پر آئندہ صفحات میں مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت روشنی ڈالوں گا لیکن تصوف و احسان آپ کا عملی اور حقیقی مسلک ومشرب رہا ہے ۔ اسلامی تصوف کی روح ، توحید خالص، وحدة الوجود اور وحدة الشهود  جیسے خالص فلسفیانہ اور نظری مسئلوں کی حقیقت کو آپ نے بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اور جس سے عملی زندگی میں ہماری رہنمائی ہوتی ہے، تصوف میں شریعت وطریقت اور حقیقت کی حقیقی تعبیر اس طرح بیان فرمائی: جس طرح اصطلاح تصوف میں جوارح و حواس سے متعلق احکامات کو شریعت کہتے ہیں اور دل سے متعلق احکامات کوطریقت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی طرح کتاب وسنت میں جو احکامات روح کی پاکی اور صفائی سے تعلق رکھتے ہیں ان کو اصطلاح تصوف میں حقیقت کہتے ہیں ۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود جو خالص نظری مسئلہ ہے، آپ نے اس کو سہل ممتنع بنادیا ہے جس سے حقیقت تک رسائی آسان ہو جاتی ہے چنانچہ اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: موجودات کے اندر صفات وجود کو دیکھنا’’ از اوست“ ہے اور صفات وجود کے اندر وجود دیکھنا  ’’ہمہ اوست“ ہے۔” از اوست“۔ وحدت شہود ہے۔ اور ہمہ اوست وحدت الوجود از اوست“ سیرفی الصفات .” ہمہ اوست“ سیرفی الذات ہے۔“(ص:۴۹)

ایک قدیم نظر یہ ہے کہ خطائے بزرگان گرفتن خطا است یعنی بزرگوں کی  کسی فکری، انسانی اور قلمی غلطیوں کی گرفت کرنا اور اس پر معترض ہونا خودا یک خطا ہے۔ اگرچہ اس محاورے کا یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بزرگوں کی خطا کو درست سمجھ کر اس کو اختیار کر لینا بھی خطا ہے۔ لیکن یہ محض  ایک لفظی ہیر پھیر ہے یہ مفہوم وہی ہے جو پہلے بیان کیا گیا۔ مولانا طیب عثمانی اپنے وسیع مطالعے اور مختلف الخيال لوگوں کے درمیان رہ کر بھی اس محاورے کے عملاً قائل رہے اور کسی اختلافی مسئلے میں اپنے بزرگوں سے اختلاف تو کجا علمی نقطہ نظر سے بھی معترض نہیں ہوئے ۔ وحدة الوجود کے مسئلے پر معترضین کی تحریریں اتنی سخت ہیں کہ تصوف کا بھی مطالعہ رکھنے والے ان کو پڑھ کر جنید و بایزید سے لے کر اس عہد تک کے تمام صوفیوں کو گمراہ تصور کرنے لگتے ہیں ، مولانا طیب صاحب نے یقیناً ان تحریروں کا مطالعہ کیا ہوگا لیکن ان کی سلامت فکرنے ان کو اپنے بزرگوں سے برگشتہ نہیں کیا اور اپنے بزرگوں کی تاویلات وتشریحات کو  بلا کسی تردد کے تسلیم کرلیا۔ یہ سب باتیں شاہ طیب صاحب کے صوفیانہ افکار و مزاج کو واضح کرتی ہیں ۔ حضرت مخدوم جہاںؒ کے ملفوظات ومکتوبات کی روشنی میں تصوف پران کا ایک مختصر مضمون ہے، اس میں وہ حضرت مخدوم قدس سرہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’برعظیم ہند میں اولیاء الله اور اکابر صوفیاء کا ایک سلسلة الذهب نظر آتا ہے ، جن کی تعلیمات ، ریاضات ومجاہدات اور دعوت وعزیمت کے نقوش اس سر زمین میں ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور جن کے قدموں کے نشانات سے یہاں کا چپہ چپہ روشن ہے۔ اس میں آٹھویں صدی ہجری کی ایک عظیم اور نادر شخصیت حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحیٰ منیریؒ کی ذات والا صفات بھی ہے۔ جن کا بچپن اور شباب ، مروجہ علوم کے حصول اور علوم دینیہ کی تکمیل میں گزرا۔ پھر روحانی علوم کی تکمیل اور تلاش شیخ میں آپ دہلی پہنچے، وہاں حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ شیخ کی ایک نگاہ نے سلوک کے وہ ساری منازل طے کرادیں جن کی آپ کو ضرورت تھی اور جن کے لئے آپ کا قلب پہلے سے تیار تھا ، ضرورت صرف ایک آنچ کی تھی ، جو ایک نگاہ شیخ سے پوری ہوئی۔ پھر بیعت اور داخل سلسلہ کے بعد اجازت دے کر حضرت خواجہ شیخ نجیب الدین فردوسی نے رخصت فرمایا۔ وطن واپسیمیں جب بہیا کے جنگل سے گزرے تو مناظر قدرت سے ایسے سرشار ہوئے کہ ضبط کایارا نہ رہا، گریباں چاک کر کے جنگل کی راہ لی اور روپوش ہوگئے ، جنگل میں بارہ برس کا عرصہ ریاضت و مجاہدہ ، خلوت ومراقبہ عشق الہی کی حرارت اور بے خودی وسرمستی میں گزرا، جب ذرا سکون ہوا تو روحانیت کی تکمیل کے بعد خلق خدا کی ہدایت کی طرف متوجہ ہوئے، جو اصل مقصود تھا۔ اس عظیم و اصل مقصد کے لئے بہارشریف تشریف فرما ہوئے اور تقریباً نصف صدی سے زیادہ کا زمانہ خلق خدا کی رشد و ہدایت اور طالبین حق کی تعلیم وتربیت میں گزرا۔ اس عرصے میں لاکھوں انسانوں کے دلوں کو بدلا سینکڑوں علماء اور عارفین واصل بحق ہوئے اور جانے کتنے ہندو فقیروں اور جوگیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت اور پیغام ہی ان کا اصل مشن تھا۔
(اسلامی معاشرہ صفحہ:۷) 

شاه طیب عثمانی کی یہ تحریر ان کے تصوف سے گہری دلچسپی اور اولیاء اللہ سے غیر معمولی عقیدت مندی کی دلیل ہے ۔ اکابر اولیاء اللہ کا تذکرہ جس احترام کا متقاضی ہے شاہ طیب صاحب کی تحریر میں وہ جذبۂ احترام بھی موجود ہے۔

مولانا شاہ طیب عثمانی فردوسی رحمه الله ، مشائخ کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ درویش صفت تھے، اپنی تحریر کی روشنی میں فکر و عمل میں صوفی تھے لیکن یہ بات ان کے لباس ومعاشرت سے نہیں جھلکتی تھی ، یہ بھی ان کے عالی ظرف ہونے کی دلیل تھی ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرے۔ آمین!

 (مولانا شاہ طیب  عثمانی کی سوانح ''شیرازۂ حیات" سے شکریہ کے ساتھ) 



Friday 10 November 2017

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں نو وارد طلبہ کا استقبال


ڈاکٹر خالد مبشر کے فیس بُک صفحہ سے09-11-2017 کی ایک رپورٹ  ان کے شکریہ کے ساتھ۔

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں نو وارد طلبہ کا استقبال
ڈاکٹر خالد مبشر

’’طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کی نشّوو نمااور حصول علوم وفنون کے لئے حد درجہ انہماک ا ورسنجیدگی اختیار کرے۔ جامعہ علم ودانش کے ساتھ فکری وعملی تربیت پر اپنی ابتدا سے ہی خصوصی توجہ دیتی آئی ہے ‘‘۔ ان خیالات کا اظہاربزم جامعہ کی جانب سے منعقدہ شعبۂ اردو کے نو وارد طلبہ کی استقبالیہ تقریب میں ڈین فیکلٹی برائے انسانی علوم و السنہ پروفیسر وہاج الدین علوی نے کیا۔
اس موقع پر صدر شعبہ پروفیسر شہپر رسول نے طلبہ کو مبارک باد دیتے ہوئے انہیں نظم وضبط اورانکساروشائستگی کو اپنا شعار بنانے کی نصیحت کی۔ شعبۂ اردو کے طلبہ کی ادبی وثقافتی تنظیم بزم جامعہ کے ایڈوائزر پروفیسر کوثر مظہری نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہا کہ علمی وتخلیقی آبیاری کے لئے مطالعہ،علما واساتذہ اور اچھے دوستوں کی صحبت کے ساتھ علمی ودابی مجلسوں کی اہمیت مسلم ہے۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے اظہار تشکر میں طلبہ وطالبات کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ وتہذیب اور اس کی علمی ودابی روایت کو سمجھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس عظیم ورثے کے امین ومحافظ بنیں۔
نووارد طلبہ کی یہ استقبالیہ تقریب رنگا رنگ پروگراموں سے بے حد دلکش ودلچسپ ہو گئی۔ بزم کا آغاز عبد الواجد کی تلاوت اور محمد مہتاب عالم کی نعت سے ہوا۔ پروگرام میں ایم اے،بی اے اور پی جی ڈپلومہ اردو ماس میڈیا میں داخلہ لینے والے نئے طلبہ وطالبات نے اپنا تعارف پیش کیا اوران کے استقبال میں انہیں شعبہ کی جانب سے فریم شدہ خوبصورت مومینٹو سے نوازا گیا جس میں اردو کے مشہوراورچنندہ اقتباسات و اشعار کندہ تھے۔ نظامت کے فرائض بزم جامعہ کے نائب صدر عمران احمد، جنرل سکریٹری محمد کامل حسین اور میڈیا کو آرڈی نیٹروسیم احمد علیمی نے انجام دئے۔ رضاء الحق نے بی اے، ایم اے اور پی جی ڈپلومہ اردو ماس میڈیا کی نمائندگی کرتے ہوئے شعبے میں داخلہ لینے والے تمام نو وارد طلبا کا استقبال کیا۔ پروگرام کے دوران سامعین کے ذوق کا خیال کرتے ہوئے فیض الرحمن، شبنم، سیف الرحمن نے غزل اور محمد عتیق الرحمن نے انشائیہ پیش کیا۔ جدیدطلبا کی جانب سے محمد کاشف بی اے آنرز اردو سمسٹر اول نے اظہار تشکر کا فریضہ انجام دیا۔
اس پروگرام میں شعبۂ اردو کے اساتذہ میں پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر عبد الرشید، ڈاکٹر خالد جا وید، ڈکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر تنویر حسین، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر سلطانہ واحدی اورڈاکٹر محمد آدم وغیرہ موجود تھے۔
استقبالیہ تقریب کے مختلف پروگراموں میں محمد عثمان، رضاء الدین، محمد ذکر اللہ، عافیہ خان، نداکوثر، محمدافضال ساحل، عبد الواحد رحمانی، شگفتہ، ارسلان صفدر، فلک اقبال، محمد اظہر رضا، یاسمین صدیقی، نکہت اور عاصم بدر شریک ہوئے۔

Wednesday 8 November 2017

دہلی کی آلودہ فضائیں

اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔
دہلی کی آلودہ فضائیں


دہلی میں فضائی آلودگی اپنے عروج پر ہے ـ آپ کی صحت کے لئے یہ صورت حال انتہائی خراب ہے ـ فضا میں صحت کے لئے خطرناک پارٹیکلس میں خطرناک حد تک اضافہ درج کیا گیا ہے. ایک رپورٹ کے مطابق رات 12 بجے کے بعد یہ اپنے عروج یعنی اے کیو آئی  700سے اوپر تھا جس میں صبح9 بجے تک کچھ بہتری آئی اس کے بعد  دن کے ایک بجے سے یہ دوبارہ بڑھنا شروع ہوا اور تین بجے تک یہ 800 سے بھی   اوپر پہنچ چکا تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اے کیو آئی ایک ہزار سے بھی اوپر پہنچ گیا۔
کل خدیجتہ الکبری گرلس اسکول میں آلودگی کی وجہ سے ایک لڑکی کی طبیعت بگڑنے لگی اس نے سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کی اور گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگنے لگی۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے دہلی کے سبھی اسکول اتوار تک بند کر دیے گئے ہیں۔
 چھوٹے بچوں کے لئے آلودگی کی یہ صور ت حال بہت ہی خطرناک اور تشویشناک ہے۔اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہےـ
دہلی کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی ہے اور حفاظتی اقدامات کی کوئی آہٹ سنائی نہیں دیتی۔لوگوں میں سانس لینے میں دشواری کی شکایت عام ہوتی جارہی ہے لیکن حفظ ما تقدم کے طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ۔مختلف علاقوں میں ملبوں کا ڈھیر لگا ہے جس نے حالات کو اور بھی ناگفتہ بہ بنا دیا ہے۔ آنکھوں میں جلن صاف طور سےمحسوس کی جارہی ہے۔کچھ لوگوں نے ماسک لگایا ہوا ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔
دہلی کے عوام کو چاہئے کے وہ حفاظتی انتظامات میں مزید تاخیر نہ کریں اور اس سلسلہ میں ازخود قدم اٹھائیں۔اس وقت دہلی کو پانی کے چھڑکاؤ کی سخت ضرورت ہے ـ لوگوں کو سانس لینے میں سب سے زیادہ دشواری کا سبب گرد آلود فضا ہے ۔اس کا حل ہے تعمیرات کے کام پر مکمل پابندی ، صفائی اور پانی کا چھڑکاؤ۔  ہر شخص اگر اپنے اپنے گھر کے سامنے پانی کا بھرپور چھڑکاؤ کرے تو اس پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
 اس وقت ہمارے بچوں یعنی ملک کے مستقبل کی صحت اور جان دونوں ہی خطرے میں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اور حکومت دونوں ہی  خواب خرگوش سے جاگیں اور فوری اقدام کریں۔
ایک اندازہ کے مطابق دہلی میں فضائی آلودگی سے ہر سال 30 ہزار اموات ہوتی ہیں۔ اور ڈاکٹروں نے اس صورت حال کے برقرار رہنے پر سنگین حالات کا انتباہ دیا ہے۔  خاص طور سے وہ لوگ جو سانس کی بیماری یا صدر کی تکلیف میں مبتلا ہیں  ان کو سخت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ اپنے گھروں میں رہیں اور باہر کی سرگرمیوں سے پرہیز کریں ۔ اپنےبچوں کو بھی باہر کھیلنے کی اجازت نہ دیں اور اپنی  اور اپنے بچّوں کی صحت کا بھرپور خیال رکھیں۔ 

Tuesday 7 November 2017

حسرت موہانی ایک مجاہد آزادی ایک بے مثال شاعر

حسرتؔ موہانی
صحبہ عثمانی



حسرتؔ موہانی کااصل نام سید فضل الحسن تھا۔ وہ اترپردیش  کے قصبہ موہان ضلع اناؤ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک کامیاب شاعر اور بے باک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سر گرم سیاست داں اور مجاہد آزادی بھی تھے۔  ۱۹۰۳میں وہ اپنےباغیانہ خیالات کی  وجہ سے کالج سے نکالے گئے ان کی شادی ان کی چچا زاد بہن نشاط النسا بیگم سے ہوئی ۔جو ایک پڑھی لکھی ،با ہمت ،حوصلہ مند اور مستقل مزاج خاتون تھیں۔

اسی سال حسرتؔ موہانی نے ایک علمی وادبی رسالہ”اردوئے معلّیٰ“ جاری کیا۔اپریل ۱۹۰۸ کے ”اردو ئےمعلّیٰ“ میں ایک مضمون کی اشاعت پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے انھیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی اور پانچ سو روپے جرمانہ بھرنا پڑا۔حسرت موہانی  کا انتقال ۱۳ مئی ۱۹۵۱  کو لکھنؤمیں ہوا۔

حسرت موہانی ایک سچے اور صاف دل انسان تھے۔ ان کے اندر اپنے ملک کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔انہوں نے جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ساتھ ہی شعر و سخن کا سلسلہ بھی جاری رہا۔کہتے ہیں

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

 حسرت موہانی کی زندگی بہت سادہ تھی۔ مزاج میں درویشی  تھی۔ان کاقلم آگ اگلتا۔ دل عشق و محبت کے نغمے گاتا۔ انہوں نے ایک ہی وقت میں انقلابی شاعری بھی کی اور عشقیہ شاعری بھی۔

(جاری)



  

Ghazal - Kamil Quadri

غزل
کامل  القادری

ابر گھر آتا ہے جب رازِچمن کھلتا ہے
برق لہراتی ہے غنچے کا دہن کھلتا ہے

اب بھی ہے کوئی سر بزم غزل خواں اے دوست
لب وابستہ بہ زنجیر کہن کھلتا ہے

برق خاطف سے کہو چشم عنایت ہو ادھر
پھول جھڑتے ہیں لب سوختہ تن کھلتا ہے

آبلہ پائی کا یاروں کو صلہ مل ہی گیا
نقش پا ہم صفت رنگ چمن کھلتا ہے

صورت دوست وہ پہلو سے لگے بیٹھے ہیں
کون دشمن ہے یہاں اہل وطن کھلتا ہے

بے خبر تھے تو زمانے کی خبر رکھتے تھے
اب تو خود پر بھی کہاں اپنا چلن کھلتا ہے

نالہ کرتا ہوں تو ہنس پڑتے ہیں غنچے کامل
مسکراتا ہوں تو بلبل کا دہن کھلتا ہے

Friday 3 November 2017

غزل ۔ ناصر کاظمی


Thursday 2 November 2017

Ghazal - Danish Mamoon


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 2006 میں منعقدہ ایک مشاعرہ کی روداد

: آئینہ کی فائل سے



ّAbdul Qavi Dasnavi ki Bemisal Tahreerein-2

عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں-2
(بہ شکریہ گوگل)
ایک جگہ رقمطراز ہیں:


''سچی بات تو یہ ہے   کہ زندگی کو سلامتی کے ساتھ گزار لینا آج کی مادیت سے بوجھل معاشرے میں آسان نہیں ہے۔ اس معاشرے کی ساری پونجی حسد ، نفرت، احساس کمتری و برتری، ناانصافی،خود غرضی اور  ہٹ دھرمی سے ملاکر تیار ہوئی ہے۔اس معاشرے میں آپ ایمانداری اور سچائی کی زندگی تنہائی اختیار کرکے بھی نہیں گزار سکتے ہیں۔ آپ کا سماج اسے برداشت نہیں کرے گا۔ وہ آپ کی پر سکون زندگی کو برباد کرکے دم لے گااور اس توڑ پھوڑ پر فخر کرے گا۔ اگر آپ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو آپ کی آواز فضا میں لہرا کر گم ہوجائے گی۔کوئی آپ کی فریاد نہیں سنے گا۔ آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کرے گا۔ سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ آپ کے پیچھے آپ کے خلاف اڑائی ہوئی جھوٹی باتوں کو بغیر تحقیق کے سچ مان لے گا۔ بلکہ ظالم کی آواز سے اپنی آواز ملاکر اپنی دانشمندی پر ناز کرے گا۔۔۔۔۔

سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ آج کا سماج بے رحم ہوگیا ہے۔اسے ذاتی مفاد کے سوا اس بات سے غرض نہیں ہے کہ کون راستہ بہتر ہے اور کون تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔"

Wednesday 1 November 2017

Abdul Qavi Dasnavi ki Bemisal Tahreerein-1

عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں
یوم پیدائش پر گوگل کا ڈوڈ ل بناکر خراج عقیدت
(بہ شکریہ گوگل

گوگل نے آج اپنے ڈوڈل سے اردو کہ مایہ ناز ادیب عبد القوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اردو دنیا آ،ج عبد القوی دسنوی کا 87 واں یوم پیدائش منا رہی ہے۔ عبد القوی دسنوی کی پیدائش ۱۹۳۰ میں بہار کے دسنہ میں ہوئی  اور7 جولائی 2011 کوان کا انتقال ہوا۔ پانچ دہائیوں میں دسنوی نے اردو ادب کی کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے غالب ، اقبال، حسرت موہانی اور ابو الکلام آزاد پر بھرپور کام کیا۔ آپ کا تعلق سید سلیمان ندوی کے  خاندان سے تھا۔

پریم چند پر آپ کی کتاب مکتبہ جامعہ نے شائع کی جو کافی مقبول ہوئی۔آپ بھوپال میں شعبۂ اردو سے وابستہ رہے اور پوری زندگی تدریس و ادب کی خدمت میں گزاری۔ گوگل نے عبدالقوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کرکے اردو کی ایک بڑی خدمت انجام دی ہے اور ہندوستانیوں کو ایک مایہ ناز ادیب و ناقد کی یاد دلائی ہے۔ بے شک یہ ایک مستحسن قدم ہے۔
آئینہ عبد القوی دسنوی کی تحریروں کے چند اقتباسات پیش کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔

''دسنہ لائبریری نے کتاب پڑھنے اور خریدنے کا شوق پیدا کیا تھا تو میں نے اسی بچپن میں سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی کہانی زندگی میں پہلی کتاب ایک دھیلے میں خریدی تھی جسے نہایت احتیاط سے کاغذ چڑھا کر محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اسے کئی بار مطالعہ کیا تھا اور ہر بار اس احمق پر ہنسی آئی تھی جس نے سارے انڈے ایک دن حاصل کرنے کی لالچ میں اس کا پیٹ پھاڑ دیا تھا اور آنے والی دولت سے محروم ہوگیا تھا۔"

اپنی بستی  کے لوگوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:

''اور یہ بھی سچ ہے کہ اس بستی کے رہنے  والوں کی آپس میں محبت ، ایک دوسرے کے لئے احترام، ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کی کوششیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہر معاملے میں تعاون، ایک دوسرے کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھنے کا جذبہ، ایک دوسرے کی خوشیوں کو اپنی خوشی جاننے کا تصور، ایک دوسرے  کےغم دکھ درد کو اپنا درد محسوس کرنے  کا اور ایک دوسرے کے لئے مٹ جانے کی تڑپ آج بھی میرے دل میں ایک عجیب اضطراب پیدا کردیتی ہے۔ اور اس انسان پرور فضا میں لوٹ جانے کی خواہش کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ بار بار آج سوچتا ہوں کہ دسنہ کے وہ لوگ کتنے  اچھے تھے جودوسروں کی پر مسرت زندگی میں اپنی زندگی کی تسکین کا سامان پاتے تھے اور کتنے برے اور انسانیت کے نام پر داغ ہیں وہ لوگ جو اپنی پستی فکر کا زہر دوسروں کی پرسکون زندگی میں گھول کر اس کا سکون اور طمانیت چھین لیتے ہیں اور اپنی تخریبی صلاحیت پر نازاں رہتے ہیں۔"
(جاری)

خوش خبری