آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 10 January 2018

khilal

خِلال

وسیم چشتی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں کلّو نام کا ایک کسان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے نئے داروغہ صاحب  کی جو نئے نئے شہر سے آئے تھے، دعوت کرنی چاہی۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ دیکھ وہ شہر کے رہنے والے ہیں ان کی دعوت نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تم سے کوئی بات ایسی ہو جائے جو ان کو ناگوار گزرے۔ لیکن اس کسان نے کسی کی کوئی بات نہ سنی اور اس نے داروغہ صاحب کو دعوت پر مدعو کیا اور بیوی کو ہدایت کردی کہ خوب اچھے اچھے کھانے تیار کرے۔ داروغہ صاحب جب آئے اور کھانا کھا چکے تو انھوں نے ایک خِلال مانگا۔ کسان نے سمجھا یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ گھر میں گیا اور بیوی سے کہا۔ تم نے خلال پکایا ہے، جلدی سے دو داروغہ صاحب مانگ رہے ہیں۔ کسان کی بیوی نے کہا میں نے یہ چیز تو نہیں پکائی ہے۔ یہ سنتے ہی کسان اپنی بیوی پر بہت ناراض ہوا اور اس نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ سب چیزیں پکا کر رکھنا۔ وہ باہر آیا اور داروغہ صاحب کے سامنے کھڑا ہوکر عاجزی سے کہنے لگا”داروغہ صاحب خِلال تو ہمارے یہاں پکا نہیں ہے۔“ یہ سنتے ہی داروغہ صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کافی دیر تک ہنستے رہے۔جب ان کی ہنسی رکی تو وہ بولے ارے بھائی خِلال کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے وہ تو دانت کریدنے کے تنکے کو کہتے ہیں ۔ یہ سن کر کسان بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے داروغہ صاحب کی فرمائش کو فوراً پورا کردیا۔
(بہ شکریہ آج کل)

ہماری گھریلو زبان سے کچھ الفاظ رفتہ رفتہ متروک ہوتے جارہے ہیں۔ اس کہانی کا مقصد اپنے بچوّں کو ان چھوٹی چھوٹی
چیزوں سے روشناس کرانا ہے۔

آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Saturday 6 January 2018

Aaina-Youtube Channel

گزشتہ ہفتہ آئینہ کی ٹیم نے پینٹنگ کے میدان میں کچھ کر دکھانے کی ٹھانی اور اس نے یو ٹیوب پر اپنی پینٹنگس کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ گرچہ یہ ایک ابتدائی کوشش تھی لیکن اسے جس طرح آپ سب کی پذیرائی ملی اس سے اس ٹیم کو کافی تقویت حاصل ہوئی اور اس نے اس سلسلہ کو مزید جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ آئینہ کے اس یو ٹیوب چینل کو راست سبسکرائب کر سکتے ہیں۔ آئینہ کی اس ٹیم کو آپ کے بیش قیمت مشوروں کا انتظار رہے گا۔ ہم آئینہ کو اپنے بچّوں کے لئے مزید کار آمد اور فعال بنانا چاہتے ہیں۔ آپ بھی ہمیں اپنی پینٹگس اور دیگر تخلیقات ہمارے ای میل پر ارسال کریں ۔انہیں شائع کرکے ہمیں خوشی ہوگی۔ آئینہ کو آپ سب کا قلمی تعاون درکار ہے۔آئینہ آپ کی ہر کاوش کی قدر کرتا ہے اور اسے بہتر سے 
بہتر طریقہ پر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

آئینہ کے یو ٹیوب چینل پر پیش چند کاوشیں آپ کی نذر ہیں۔

 Aaina-Youtube Channel

:ہمارا ای میل پتہ
merinazar2013@gmail.com

Saturday 16 December 2017

Winter Carnival at Khadijatul Kubra Girls Public School

خدیجتہ الکبریٰ گرلس پبلک اسکول میں سرمائی میلہ کا انعقاد

نئی دہلی، 16دسمبر 2017
آج خدیجتہ الکبریٰ گرلس پبلک اسکول، جوگا بائی، نئی دہلی میں سرمائی میلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں طالبات اور ٹیچر نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہر سال کی طرح اس سال بھی مختلف ریاستوں کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔ مختلف قسم کے کھانوں  کے
بھی اسٹال لگائے گئے تھے  جن کا طالبات اور ان کی ماوؤں نے خوب لطف اٹھایا۔
اس سال میلہ کا تھیم ساؤتھ اور نارتھ ریاستوں پر مشتمل تھا۔ طالبات نے ان ریاستوں کی مشہور اشیا کی نمائش پیش کی۔ طالبات کے بنائے ہوئے تاریخی مقامات کے ماڈل  ان کی فن   کاری کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔ ایک رقاصہ کی خوبصورت پینٹگ طالبات میں آرٹ کے تئیں ان کی دلچسپی اور ان کی بہترین صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہے۔
نیچے رکھے گئے پکوانوں سے ان کے حقیقی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
ساؤتھ کا اسٹال درجہ سات بی کی کلاس ٹیچر پنیت کور اور کلثوم میم نے اپنے کلاس کی طالبات صحبہ عثمانی، فبیہ، صائبہ، شاذدہ، انعم، ضحی'،سہانا، اریبہ، صابرین وغیرہ کی مدد سے سجایا۔ جسے کافی پسند کیا۔
کھانے پینے کا اسٹال میلہ گھومنے والوں کی توجہ کا خاص مرکز تھا۔ اپنی ٹیچرس کے ہاتھوں بنائی گئی پکوانیں طالبات کی خوشی دوبالا کر رہی تھی اور طالبات انہیں شوق سے خرید کر اپنی کلاس کی سہیلیوں کے ساتھ کھا رہی تھیں۔ کچھ طالبات اپنی ٹیچرس کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوا رہی تھیں۔ طالبات اور ٹیچرس کے درمیاں دوستانہ اور مہذب ماحول اسکول میں دی جانے والی بہترین تربیت کا ثبوت پیش کر رہی تھیں۔
اسکول کی پرنسپل شبانہ خان نے میلہ کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دیگر ٹیچرس نے بھی تیاری میں ان کا پورا  ساتھ دیا۔عام طور سے سادہ اسکول ڈریس میں ملبوس رہنے والی طالبات آج خوش رنگ اور جدید لباسوں میں کافی خوش نظر آرہی تھیں ۔ طالبات کے ذریعہ کی گئی سجاوٹ بھی قابل دید تھی۔
ہر سال سال کے آ خر میں منایا جانے والا یہ میلہ طالبات میں کافی مقبول ہے۔ اور اس سے طالبات کو اپنی صلاحیتیں دکھانےکا موقع ملتا ہے۔
میلہ میں بنایا گیا انڈیا گیٹ سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ طالبات اس کے سامنے تصویریں کھنچواتی دیکھی گئیں۔
میلہ صبح دس بجے شروع ہوکر شام تین بجے ختم ہوا۔

 تصاویر: اقصیٰ عثمانی

Friday 15 December 2017

Khairat by Ghayas Ahmad Gaddi

خیرات

غیاث احمد گدی

رات سرد تھی۔ بے حد سرد۔ بارش کی ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔باہر اندھیرا تھا۔ اور پر اسرار ہوا کے تیز جھونکے  چیختے ہوئے گزر رہے تھے۔ اندر آتش دان میں لکڑیاں دہک رہی تھیں اور سارے ماحول پر ایک غم انگیز کیفیت طاری تھی۔  یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی ابھی کوئی موت ہونے والی ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

مکمل کہانی پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Monday 11 December 2017

Amrood Badshah

امرود بادشاہ
مائل خیر آبادی
   ہاں بھئی آج کون سی کہانی ہوگی ؟ امیّ جان نے آتے ہی ہم سب سے پوچھا۔ سدّو شاید سوچے  ہوئے بیٹھا تھا بولا آج میں وہ کہانی سناؤں گا جس میں  ہے کہ ایک شخص نے سورج کو نگل لیا تھا۔
ہش ایسی جھوٹی کہانی  امیّ جان نے کہا ٹنی بولا ملتانہ ڈاکو  کی کہانی سناؤ ساتھ ہی رفو  باجی کہنے لگیں نہیں الہ دین کا چراغ  والی اورپھر سب اپنی اپنی پسند کی کہانی کا نام لینے لگے۔ سعیدہ بی ابھی  تک چپ  تھیں   وہ چمک کر بولی امیّ جان امرود بادشاہ کی کہانی سناؤ۔
 امرود بادشاہ یہ نام ہم نے کہیں نہیں سنا تھا ۔سعیدہ  بی سے پوچھا گیا بھئی امرود بادشاہ کون تھا ؟ امیّ جان نے سعیدہ کی طرف دیکھا اورفرمایا  اچھا  آج سعیدہ کہانی کہیں۔ اجازت پاکر سعیدہ بی امرود بادشاہ کی کہانی اس طرح کہنے لگیں۔
 دیکھیے نا امیّ جان  وہ جو ایک بادشاہ تھا نا چار پانچ ہزار برس پہلے ۔
جی ہاں!  چار پانچ برس ہوئے اس  زمانے میں  اس کی ٹکر کا کوئی بادشاہ نہ  تھا لاو  لشکر، فوج، سپاہی پیادے سب اس کے پاس تھے  لوگ اس سے ڈرتے تھے وہ بادشاہ بڑا گھمنڈی  تھا۔  جی ہاں !ایسا گھمنڈی امی ّجان  ایسا گھمنڈی کہ بس کیا کہوں توبہ توبہ، وہ اپنےکو خدا کہتا تھا۔جی ہاں! خدا
سعیدہ بی سانس لینے کو رکیں تو ہم نے پوچھا  اسی کا نام امرود بادشاہ تھا؟
ارے ہاں میں اس کا نام بتانا تو بھول ہی گئی ۔جی ہاں! اسی کا نام تھا !
"امرود بادشاہ "
"کیا وہ امرود بہت زیادہ کھاتا تھا ؟"ہم سب نے پھر پوچھا ۔
نہیں یہ اس کا نام ہی تھا۔
اچھا پھر کیا ہوا؟
پھر یہ ہوا کہ ڈرکے مارے لوگوں نے اس کو خدا مان لیا  لیکن اللہ  میاں کے ایک بہت بڑے نبی اس زمانے میں تھے کیا نام تھا ان کا ۔سعیدہ بی سوچنے لگی  پھر خود ہی پوچھنے لگی امی جان  اسمعٰیل بھائی کے ابا جان  کا نام کیا ہے؟
"ابراہیم !"
جی ہاں جی ہاں ان کا نام تھا ابراہیم،  حضرت ابراہیم ؑ امی جان میں نے ٹھیک سے نام لیا۔
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے امرود بادشاہ کو خدا مان نے سے انکار کردیااچھا تو اللہ کہ نبی نے اس کو خدا نہ مانا  تو وہ بہت خفا ہوا۔ اپنے دربار میں طلب کیا   ۔سپاہی حضرت ابراہیم ؑکو پکڑ لے گئے۔ توبہ توبہ اس کا گھمنڈ تو دیکھیے وہ اللہ کہ نبی سے جھگڑنے لگا۔  پوچھا!
"تمہارا خدا کیا کرتا ہے ؟"
"میرا خدا مارتا اور جلاتا ہے" حضرت ابراہیم ؑنے جواب دیا ۔
یہ تو میں بھی کر سکتا  ہوں اور یہ کہہ کر امرود بادشاہ نے جیل سے دو قیدی بلائے ایک کو قتل کردیا دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا
دیکھو ہے نا میرے بس میں موت اور زندگی جس کو چاہوں مار ڈالوں جس کو چاہوں زندہ رکھوں۔
حضرت ابراہیمؑ نے یہ سنا تو بولے
"میرا خدا پورب سے سورج نکالتا ہے اور پچھم میں  لے جاتا ہے اگر تو خدا ہے  پچھم سے سورج نکال  دے اور پورب کی طرف لے جا ۔"
یہ سنا تو امرود بادشاہ بھوت بن گیا
بھوت ہم سب ہنسنے لگے بھوت کیسے بن گیا؟
اب سعیدہ بی بھی چپ۔ وہ جواب نہ دے سکیں تو امیّ جان نے بتایا  کہ بی سعیدہ نے کہانی سچی اور مزیدار سنائی مگر ان کو بادشاہ کا نام یاد نہ رہا ۔
دراصل وہ بادشاہ تھا نمرود ۔
جی ہاں! جی ہاں! سعیدہ بی بولیں جی ہاں!نمرود بادشاہ  ۔اس کا نام نمرود بادشاہ ہی تھا۔
اور سنو سعیدہ بی ؟  تم نے جو کہا کہ وہ بھوت بن کر رہ گیا  تو وہ لفظ بھوت نہیں ہے  تم نے جس سے کہانی سنی اس نے کہا ہوگا کہ نمرود  بادشاہ مبہوت ہو گیا تم مبہوت کو بھوت سمجھیں ۔
امیّ جان مبہوت کے معنی کیا ہے ہم سب نے پوچھا
مبہوت کے معنی ہے ہکا بکا رہ جانا  اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا  وہ کوئی جواب نہ دے سکا اس کی سمجھ بیکار سی ہوگئی سمجھے تم سب ۔
جی ہاں! سمجھیں ہم سب  کو سعیدہ  بی نے کہانی تو پرانی سنائی پر  واہ ری ان کی بھول  مزہ دے گئی۔ ان کی بھول، آہا، کیا مزیدار ہے امرود بادشاہ کی کہانی۔ واہ واہ ۔
سعیدہ بی بھی خوش ہو رہی تھیں اس کے بعد ہم جا جا کر اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے۔



آئینۂ اطفال کی دیگر مشمولات

Tuesday 28 November 2017

حضرت شاہ کمال علی کمال ؒ

شاہ کمال

از ڈاکٹر امین چند شرما


حضرت شاہ کمال علی کمال ؒ پر ڈاکٹر امین چند شرما کا یہ مضمون ماہنامہ سب رس  میں اپریل 1972 میں شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار حضرت شاہ کمال علی کے مقام وفات سے ناواقف ہیں۔  حضرت شاہ کمال علیؒ کا مزار  بہار کے ضلع گیا کے ایک گاؤں حضرت دیورہ  میں مرجع خلائق ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ تذکرہ ان کا نہیں ہے۔ بہرحال مضمون علمی ہے اس لیے قارئین کے لیے پیش ہے۔


Saturday 25 November 2017

عالمی تجارتی میلہ 2017


عالمی تجارتی میلہ میں خریداروں  کی بھیڑ سے دوکانداروں کے چہرے کھلے
عالمی تجارتی میلہ جیسے جیسے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے میلے میں لوگوں کی بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔ ہر سال کے مقابلے آدھے سے بھی کم رقبے میں لگائے جانے کے باوجود میلے سے لوگوں کی دلچسپی کم نہیں ہوئی اور دور دراز سے لوگ اس میلے کو دیکھنے کے لئے آئے اور انہوں نے یہاں جم کر خریداری کی۔

پرگتی میدان کے پویلینوں میں تعمیری کام ہونے کی وجہ سے ریاستوں کو ہینگروں میں منتقل کردیا گیا  جس کی وجہ سے ریاستوں کے روائتی سجاوٹوں میں کمی نظر آئی اور دوکانداروں کے اسٹال بھی ہر سال کی بہ نسبت کم نظر  آئے۔
اڑیسہ کے ہینگر میں کٹک کی خالص چاندی کے زیورات لوگوں کو پسند آرہے تھے۔
اتر پردیش ، کرناٹک، بہار ، جھارکھنڈ  جیسی ریاستیں  ہینگر میں اپنی روائتی آن بان دکھانے میں ناکام رہیں لیکن لوگوں کی ان ریاستوں سے دلچسپی  ویسے ہی برقرار تھی اور یہاں عام دنوں میں بھی چلنے کی جگہ نہیں تھی۔ اسکولی طلبہ بڑی تعداد میں یہاں میلے کالطف اٹھاتے دیکھے گئے۔
Lakshadeep hanger in International Trade fair 2017, Pragati Maidan , New Delhi
 لکشدیپ کے ہینگر کے باہر بنے خوشنما منظر نے لوگوں کو اپنی  جانب  متوجہ کیا  اور بچّے یہاں سیلفی لیتے نظر آئے۔ ہنر ہاٹ  میں بھی میلہ گھومنے والوں کی زبردست بھیڑ نظر آئی ۔ یہاں کاریگری کے نمونوں نے شائقین کا دل جیت لیا اور  لوگ ان کی محنت سے متاثر نظر آئے۔ 

Women entrepreneurs are showcasing there work in India International trade fair 2017.
تمل ناڈو کے ہینگر میں جے للتا کی تصویر لوگوں کو ان کی یاد دلاتی نظر آئی۔ مغربی بنگال میں ہاتھی اور بنگال ٹائیگرکے مجسمے لوگوں  کی دلچسپی کا مرکز تھے اور ان کے ساتھ سیلفی لینے کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے پر سبققت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
Mahatma Bodha's  statue at India international Trade Fair 2017
میلے کے لئے آن لائن ٹکٹ کی فروخت سے بھی لوگوں کو کافی آسانی ہوئی اور پرگتی میدان پہنچ کر کسی کو ٹکٹ کے لئے پریشان نہیں ہونا پڑا۔








عالمی تجارتی میلہ 2017 کی مزید تصاویر دیکھنے کے لئے کلک کریں۔


Click here to see India International Trade Fair Photos

Wednesday 15 November 2017

Our four Servant, Guess Who? By Mayel Khairabadi

میرے چار نوکر
مائل خیر آبادی



نواب نے مامو ں کو خط لکھ دیا تھا کہ میں ۳ بجے والی ٹرین سے آ رہا ہوں نوکر کو بھیج دیجیے لیکن جب ٹرین محمود پور پہنچی تو نوکر کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ نواب نے پہلے پلیٹ فارم پر نظر دوڑائی  لیکن جب دو منٹ رک کر ریل  نے چلنے کی سیٹی  دی تونواب گھبرایا  اس نے جیسے تیسے ریل سے اپنا سامان اتارا اور سوچنے لگا کہ  کیا کرے ماموں کا مکان یہاں سے تین میل دور ہے یہاں نہ تو قلی نہ آس پاس مزدور ۔کس طرح اپنا سامان لادے اور تین میل کا راستہ کاٹے۔ نواب کے پاس سامان زیادہ تو نہ تھا ایک اٹیچی تھی  جس میں اس کے کپڑے وغیرہ  تھے۔ ایک چھوٹا سا بستر تھا اور ایک چھوٹی  سی ٹوکری ۔جس میں کچھ پھل اور میوے تھے۔ وہ تو کہیں  اللہ  نے بڑی مہربانی کی ایک نوجوان لڑکا ٹہلتا ہوا اسٹیشن پر آگیا اس نے  نواب کو اکیلا  بیٹھے دیکھا تو پاس آیا ۔حال پوچھا ۔نواب نے اپنی کہانی سنائی  کہ نوکر سائیکل لے کر نہیں آیا اب یہ سامان کس طرح جائے ۔"واہ  بھائی   واہ  یہ سامان ہی کتنا ہے؟"اس نو جوان کہا۔
   "کیا یہ کم ہے؟"نواب بولا۔
"یہ تو کچھ بھی نہیں ۔پھر تم ہٹے کٹے نوجوان ہو لادو اور چل دو" 
واہ کیا مجھے  نیچی ذات کا سمجھ لیا ہے۔
نہیں بھائی کوئی اپنا   کام اپنے ہاتھوں   کرکے ذلیل نہیں ہوتا ہے۔
نو جوان کی  باتیں سن کر نواب کچھ نہ کہہ سکا  اور کسی سوچ میں پڑ گیا۔ نوجوان لڑکے کو اس پر ترس آ رہا تھا ۔ترس یہ کہ سولہ سترہ سال کا ہٹا کٹا تندرست اور کام سے جی چراتا ہے ۔اس نے کہا
"تو اپنے ساتھ نوکر  کیوں نہیں رکھتے؟"
نوکر ہر گھڑی تو ساتھ   نہیں رہتے اور پھر میرے گھر دو ہی نوکر ہیں۔ دونوں گھر پر ہیں ۔آپ جب اپنا کام  اپنے ہاتھوں نہیں کر سکتے تو نوکر کو ہر وقت اپنے   ساتھ  رکھنا چاہیے۔
واہ ہر وقت نوکر کوئی کیسے ساتھ رکھ سکتا ہے اور پھر کہیں جانا ہوتو؟
"تو بھی"
"یہ کیسے ہو سکتا ہے"
ہو کیوں نہیں سکتا  میں تو اپنے نوکر  اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔
"جھوٹ مت بکو اور جاؤ یہاں سے "نواب نے نو جوان سے کہا۔
"بھائی جھوٹ بڑا گناہ ہے۔"میں جھوٹ نہیں کہتا۔
''تو کہاں ہیں تمہارے ساتھ تمہارے نوکر؟"
یہ  دیکھو یہ میرے دو ہاتھ اور یہ دیکھو یہ میرے دونو ں پیر
یہ چاروں میرے  بڑے اچھے نوکر ہیں ۔میں ان سے جو کام کہتا ہوں جھٹ کرتے ہیں۔انھیں بلانے کی ضرورت نہیں یہ ہر وقت میرےساتھ  رہنے ہیں۔ اگر تم کہو تو میں اپنے نوکروں سے
تمہارے کام کرادوں "
نواب اس نوجوان کا منہ تکنے لگا۔ نوجوان نے نواب کی اٹیچی اٹھائی بستر بغل میں دابا اور کا کہ اپنی ٹوکری تو لے کر چلو اور اگر  یہ بھی نہ اٹھائی جاسکے تو لاؤ میرے ہاتھ میں پکڑا دو۔
نواب سچ مچ بڑا کاہل  تھا ۔ اسے ٹوکری بھی لے کر چلنا دوبھر تھا۔ اس نے نوجوان کو ٹوکری بھی دے دی۔ نوجوان تینوں چیزوں کو لے کر چلا ۔ وہ بڑا تیز چل رہا تھا۔ نواب کو بار بار اس کا ساتھ پکڑنے کے لئے دوڑنا پڑتا۔ وہ نوجوان کی خوشامد کرتا کہ بھائی ذرا دھیرے چلو۔
گھنٹہ بھر میں نواب اپنے ماموں کے گھر پہنچ گیا۔نوجوان اس کا سامان دے کر چلا تو نواب نے ایک روپیہ اسے دینا چاہا۔ نوجوان نے جواب دیا ''میرے نوکر مزدوری نہیں لیتے۔" اور وہ چلا گیا۔
نواب سوچنے لگا۔ اگر آج یہ نوجوان اسٹیشن پر نہ مل جاتا تو میں کیسے آتا۔

اس نے اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالی۔ دونوں پیروں کو دیکھا۔ بولا''یہ نوکر تو سچ مچ مفت کے ہیں۔ کاش کے میں نے ان سے خدمت لی ہوتی۔"
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Monday 13 November 2017

منقبت حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنھا

 منقبت
حضرت سبطة الرسولﷺ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا

امیمہ قادری ، دارالشرف، اوپر کلہی جھریا

 خطبہ صدق و صفا کی ابتدا زینب کے نام
عظمت و ایثار  کی ہر انتہا زینب کے نام

چاہئے ہر دل کو اس فکر و عمل کی روشنی
مشعل راہ صداقت کی ضیاء زینب کے نام

تدکرے سے سیدہ کی ہوگئی روشن حیات
گلستان دل میں ہے اک در کھلا زینب کے نام

وادی کرب و بلا میں گھر لٹا، خیمہ جلا
عرش سے اتری ردائے باصفا زینب کے نام

ہوگئے بھائی بھتیجے سب جدا وا حسرتا
خوں سے لکھ کر داستان  کربلا زینب کے نام

سیدہ کے فیض سے ہم بھی ہوئے مدحت سرا
 خامۂ پرشوق ہے نغمہ سرا زینب کے نام

مجھ کو ہو سایہ عطا ان کی ردائے پاک کا
یہ پیام شوق لے جا اے صبا زینب کے نام

خود کو ماموں پر کیا عون و محمد نے نثار
اور لہو سے کردیا رنگ وفا زینب کے نام

دین پر نانا کے جب بیٹوں نے کردی جاں نثار
ہر طرف سے ہے صدائے مرحبا زینب کے نام

دیکھ لیں آنکھیں مری اس کر قد انوار کو
ہے امیمہ کا یہ عرض مدعا زینب کے نام


(۱) اشارہ ان کے والد حضرت مولانا شاہ ہلال احمد قادری مدظلہ کی کتاب "خانوادہ سیدہ زینب بنت فاطمةالزہرارضی اللہ 
عنہما کی طرف ہے۔
(بہ شکریہ المجیب)




Sunday 12 November 2017

Her days and Night By Ghayas Ahmed Gaddi

اس کے روز و شب
غیاث احمد گدی


ہر صبح جیسے ہی بالکونی سے جھانک کر نیچے کی سمت دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ لڑکی، وہ خوبصورت لڑکی سڑک کے سست رفتار ریلے میں بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دھوپ اس کے چہرے کو چومتی،اس کی مانگ میں افشاں چنتی،دھوپ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جگاتی تب اس کے دانتوں کی قندیلیں جھلملا اٹھتیں،اس وقت وہ ذرا ٹھہر کر کائنات پر اس ارض و سما پرنظر ڈالتی ہو اسے قدرے ہیچ نظر آتے، کہ جوان لہو رگوں میں چراغ جلائے رہتا اوردل میں غرور کی کمان تنی ہوتی۔
لیکن شام پڑتے ہی جب وہ دفتر سے   وہاں آتی،اس کی تنی تنی باہیں ڈھیلی پڑچکی ہوتیں،گیسوؤں کی گھٹا مٹیالی چہرے پر جھریاں براج چکی ہوتیں اور وہ جوان لڑکی ادھیڑ بلکہ بوڑھی دکھتی۔ نہ اس کی چال میں مستانہ وشی ہوتی نہ انداز میں شہاب کی دمک دیکھائی پڑتی۔
یہ بارہ گھنٹے اس کی زندگی میں ہر روز بیس پچیس کی مدت لئے ہوتے اور اسے بوڑھے کرکے آگے بڑھ جاتے  لیکن دوسری صبح وہ اسی طرح جوان تازہ دم اور خوبصورت دیکھائی  پڑتی۔ یہ پر اسرار کیفیت مجھے پریشان کئے رہتی اور میرا دل رو اٹھتا۔
تب ایک دن میں اپنی بیوی کو بتاتا ہوں ، یوں پہلے تو وہ یقین نہیں کرتی، پھر جب میں نے ایک دن صبح و شام اس لڑکی کو دکھا دیا اور میری بیوی صبح و شام کے فرق کو اچھی طرح سمجھ چکی تو اس کی آنکھیں پھٹی  کی پھٹی رہ گئیں۔
'' یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔یہ ہماری آنکھوں کی خطا ہے۔"
نہیں یہ ہماری آنکھوں کی خطا نہیں ،شرافت ہے جو لڑکی کی زندگی کی تہوں میں اُتر  جاتی ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس بات کا پتہ لگاؤں گا کہ رات بھر کی ساری کمائی وہ دن کے بارہ گھنٹے، اس سے کس طرح چھین لیتےہیں، اور پھر رات اسے دوسرے دن کے لئے اتنا کچھ کہاں سے دیتی ہے؟
چنانچہ میں ا دن اور رات کی سی کیفیت والی لڑکی سے پوچھتا ہوں ۔ بیٹی ، یہ جو تم ہر صبح اتنا کچھ لے کر نکلتی ہو دن کے دس بارہ گھنٹے میں کہاں گما دیتی ہو؟
''بابا" اس نے اپنائیت سے ،واب دیا۔ اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے اور حسب معمول وہ ہاتھ میں پلاسٹک کی تھیلی  دوسرے میں پرس لئے دفتر کو جارہی تھی ''بابا یہ ایک کہانی ہے،اس کے لئے آپ کو تھوڑی زحمت اٹھانے پڑے گی، اٹھائیے گا زحمت؟"
''ہاں، تھوڑی کیا بہت، تم بتاؤ مجھے کیا کرنا ہوگا۔"
تو بابا چار بجے، جب میرا دفتر بند ہوجاتا ہےآپ کو صدر دروازے پر میرا انتظار کرنا ہوگا۔ پھر میں آپکو ان ڈاکوؤں کے پاس لے جاؤں گی جو مجھے چند گھنٹوں میں کنگال  کر دیتے ہیں۔
ڈاکوؤں کے پاس؟
ہاں ڈاکوؤں کے پاس؟
میں اس خوب صورت لڑکی کی رسیلی باتوں کا جام  پئے گھر آجاتا ہوں۔ اور اپنی بیوی سے سارا واقعہ کہہ سناتا ہوں ۔پہلے وہ تعجب سے میری طرف دیکھتی ہےپھر ہنس پڑتی ہے وہ  لڑکی پاگل ہے ۔ یا پھر بہروپیا ہوگی، میں آج سارا دن سوچتی رہی ہوں کہ وہ لڑکی ضرور بہروپیا ہے۔پھر میری بیوی مجھے سمجھاتی ہے کہ وہ آپ کو پھانس رہی ہے۔ایسی لڑکیاں خوش حال مردوں کو پھانس کر انہیں بلیک میل کرتی ہیں ، پیسے لوٹتی ہیں۔
میں بیوی کی بات سن کر خاموش ہوجاتا ہوں ۔مگر میرا دل نہیں مانتا۔ بار بار اندر سے آواز آتی ہے جیسے کوئی کہہ رہا ہو یہ لڑکی کھری ہے کھری ہے بالکل کنچن ہے ۔ چنانچہ دوسرے دن میں مقررہ وقت پر اس کے دفتر کے صدر دروازے پر جا کھڑا ہوتا ہوں اور انتظار کر رہا ہوتا ہوں کہ ابھی جب وہ دن بھر کی محنت کے بعد دفتر سے نکلے گی تو بوڑھی ہوچکی ہوگی اور میں اسے پہچان بھی نہیں پاؤں گا کیونکہ میرا حیال تھا کہ دن بھر کی کڑی مشقت کے سبب ہی اس کی رونق لُٹ جاتی ہے۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب وہ دفتر کی سیڑھیاں چھلانگ کر نیچے اتری تو وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی اس کا چہرہ  کھیت میں ہل جوتنے  والے کسان کے چہرے کی طرح دمک رہا  تھا یوں ہیرا دمکتا ہے ۔
وہ دوڑی ہوئی آئی اور اس نے لپک کر میرا بازو پکڑ لیا۔ میرے من میں سنکھا جاگی۔ میری بیوی کی قیاس آرائی۔۔ میں  ذرا  محتاط ہوگیا ' (کیونکہ آدمی کا لاشعور جتنا  ایماندار ہوتا اتنا ہی بے ایمان بھی)
"چلئے" اس نے میرا بازو پکڑ کر کھینتے ہوئے کہا پہلے کینٹن میں چائے پی جائے۔ وہ خاصی بے تکلّف ہورہی تھی۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ کینٹن میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ چائے پیتے پیتے سوچنے لگا۔ لڑکی اتنی بے باک کیوں ہے؟
مگر  مجھے اس سوال کا جواب اندر سے نہیں ملا۔ چائے ختم ہو گئی ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوا نکالا۔ اس میں دس دس کے نوٹ تھے۔ لڑکی نے جلدی سے بٹوہ چھین کر میری جیب میں ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر میں گھبرا اٹھا مگر وہ بدستور بے تکلفی سے ہنستی رہی گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ پھر لڑکی نے اپنے پرس سے  چند آنے پیسے نکالے اور  کینٹن والے لڑکے کو دے کر مجھے لئے باہر چلی آئی۔ 
اب میں یہاں سے بازار کی سمت چلتی ہوں ، جہاں مجھے رات کے لئے آٹا خریدنا ہے پھر سبزی، پھر چنے، چینی، تیل۔۔۔آٹا، پھر سبزی ،چنے، دال، تیل۔۔۔۔۔زندگی کا پہیہ انھیں اجناس کے بل بوتے چلتا ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی مرجائے۔ وہ لڑکی جو ساری کائنات کا حسن سمیٹے، میرے آگے آگے چل رہی ہے ،  ایک نامعلوم سے غیر مرئی دھاگے میں مجھی باندھے لئے چل رہی ہے۔ کتنی اچھی ہے، میری عمر سے آدھے عمر کی۔۔۔۔۔ میری بیٹی اگر زندہ رہ جاتی تو شاید ایسی ہی نکلتی۔ اتنی ہی بڑی ایسی ہی۔۔۔۔خوبصورت،۔۔۔۔
مگر ذہن اس سچائی سے پرے بھی دیکھتا ہے۔ میں اپنی عمر سے  بیس پچیس برس کم ہوجاتا ہوں اور اب کے اس کی چال میں جو مستانہ وشی نظر آتی ہے ، وہ کوئی اور چیز ہے، کولہوں میں چلتے سمے جو بھنور پڑتے ہیں ان میں میری اپنی کشتی مطلب ہے کشتیٔ حیات ڈوبتی ابھرتی نظر آتی ہے اور میں گلے تک پانی میں ڈوبا ہوا کھویا چلا جارہا ہوں ، کہ کائنات کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ماضی حال بن جاتا ہے اور سچائیاں تخیل کی رنگ آمیزی کے باعث کوئی تڑپتا ہوا قتل کردینے والا ، لوٹ لینے والا تبسم۔
عین اس وقت وہ لڑکی پلٹ کر میری طرف دیکھتی ہے اور ذرا افسردگی سے دریافت کرتی ہے، دیکھا آپ نے۔۔؟
"ہاں۔۔"میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا،دیکھ پایا تھا تو بس اتنا کہ دنیا پیچھے کی طرف بھاگی جارہی ہے۔ سرپٹ اور میں اس کے ساتھ خود۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا؟"یہی کہ تم بہت اچھی ہو ، بڑی خوب صورت"
"اوہ ہو بابا۔ چھوڑئیے نا میری خوبصورتی کو۔" اس نے لاپروائی  اور قطعی اطمینان سے جواب دیا۔" آپ نے دیکھا نہیں  جب میں نے بنئے سے آٹے کا بھاؤ پوچھا تو کل کے مقابلے میں آج اس نے کیلو میں دو آنے زیادہ بتائے۔"
"ہاں ہاں سنا تھا میں نے۔"
"تو بس دیکھا نہیں اسی  دم میرے چہرے کی خوبصورتی اور بانہوں کی رونق آپ سے آپ ، گھٹ گئی۔
میں نے دیکھا واقعی اس کے چہرے کا رنگ پھیکا ہوچکا تھا، اور باہیں ڈھیلی پڑچکی تھیں۔
بس اسی طرح آپ دیکھتے چلئے، میرا تھوڑا تھوڑا سب میں بٹ جائے گا۔ کچھ بنیا کی دوکان پر، کچھ سبزی والے کے پاس، کچھ دال، تیل، چنے  نمک والے کے سامنے۔
وا ایک بار مسکرائی، وہی قاتل جان لیوا تبسم۔۔۔مگر ویسا نہیں محسوس ہوا ، کچھ اور لگا، وہ آگے بڑھ گئی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اور دفعتاً مجھے یاد آیا، یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ مونا لیزا بھری مسکراہٹ میں۔۔۔۔ایک جوان عورت کا قتل کردینے والا منصوبہ پوشیدہ تھا کہ ماں کی ممتا تھی۔لینارڈ مل جاتا تو میں پوچھ لیتا۔ ویسے اس عجیب تبسم کی وضاحت مختلف معنوں میں ہوتی رہی ہے۔
جب وہ میرے دروازے کے قریب آچکی اور میرا شانہ پکڑ کر جھنجھوڑنے کے انداز میں پوچھا،میں خیالات کی دنیا سے چونکا اور اب دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ یہ تو کوئی اور تھی اتنی بوڑھی، اتنی بدصورت اور اتنی ہی لٹی ہوئی۔
میں اپنی بیوی کو ساری باتیں بتا چکا تو تعجب سے اس کا منہ کھلا رہ جاتا ہے کچھ دیر تک وہ چپ رہتی ہے۔ تعجب، تعجب،  تعجب۔ کتنے ہی لمحے گذر گئے۔ اچانک چونک کر پوچھتی ہے۔
"پھر رات بھر میں۔۔۔۔"
"ہاں۔ رات بھر میں اس کے پاس بہت سا اثاثہ جمع ہوجاتا ہے۔۔۔جب میں اس کے گھر گیا تو اس نے مجھے اپنے شوہر سے ملایا، جو اپاہج ہے۔اپنے تینوں خوب صورت بچوں سے ملایا جو کچے فرش پر ایک ٹاٹ کا ٹکڑا بچھائے لکھ پڑھ رہے تھے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، ایک بچّہ اچھل کر ماں سے لپٹ گیا، اس کی گردن میں باہیں ڈال دیں اور تھیک بچوں کے انداز میں ٹھنکنے لگا۔ ہوں ،ہوں۔۔ماں میری گیند؟پھر دوسرے بچّے نے بھی ایسا ہی کہا ماں میرا جھنجھنا؟
پھر تیسرا بھی منمنایا، اور میری کتابیں؟
ذرا پیسے بچنے دو ، پہلے تمہارے بابا کے پاؤں کی دوائیں آئیں گی۔۔۔پھر آجائیں گے جھنجھنا بھی، گیند بھی ، کتابیں بھی۔ ذرا دم لو، تمہارے بابا کے پاؤں ٹھیک ہوتے ہی وہ کام پر جانے لگیں گے نا۔۔۔۔؟
پھر میں نے دیکھا وہ آدمی تڑپ کر رہ گیا۔ نمو کیا یہ سچ ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں کام پر۔۔۔۔۔ میرے پاؤں ٹھیک ہو جائیں گے۔
ہاں ہاں ضرور، پھر یہ مہنگائی بھی کم ہوگی، کم ہوتی جائے گی۔۔۔۔
اس کے مایوس چہرے پرسیاہیاں کھسکنے لگیں۔
پھر میں نے دیکھا اس کے بچّوں کے چہرے پر بھی نور بکھرنے لگا ۔ عین اس وقت وہ لڑکی مجھے جھنجھوڑتی ہے، دیکھا ، دیکھا، بابا۔
"کیا؟" میں پلٹ کر پوچھتا ہوں ، پھر اس لڑکی کی طرف دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔واقعی، یہ تو وہی پہلے والی خوب صورت سجی سجیلی۔۔۔۔
میں یہ سب کہتا جارہا ہوں۔ میری بیوی انہماک سے سنتی جا رہی ہے، اور سمے کا سبک بہاؤ جاری ہے۔ پل، چھن، لمحہ، گھنٹہ۔۔۔۔۔ وقت۔۔۔۔وقت۔
مگر وہ وقت کب آئے گا؟ اچانک میری بیوی پوچھ لیتی ہے۔"جب اس کے پتی کے پاؤں۔ اس کے بچّے کے کھلونے کابیں۔۔۔۔ کب یہ مہنگائی، کم ہوگی۔
دفعتاً میں چونک اٹھتا ہوں، میری بیوی کے سوال بظاہر بہت معمولی ہیں، گر اندر اترتے ہ تھاہ نہیں لگ رہی ہے۔ واقعی وہ وقت کب آئے گا۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہتا ہوں ۔صبح، دوپہر، شام، دن ، رات، ہفتوںمگر جواب نہیں سوجھتا۔ بہت دیر تک میری بیوی ٹکٹکی لگائے میری جانب  دیکھتی رہتی ہے۔ جب مجھ سے کوئی جواب نہیں بنتا تو میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔۔۔۔
دیکھو، میں نہیں بتا سکتا، کہ مجھے خود پتہ نہیں، البتہ کل میں شہر کے کسی عالم، کسی سیاست داں، کسی نجومی سے مل کر ضرور معلوم کروں گا۔ پھر تمہیں بتاؤں گا ۔ ضرور ضرور۔

خوش خبری