آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 15 August 2018

Mitti Ka Diya - NCERT Solutions Class VI Urdu

 Mitti ka Diya by Altaf Hussain Hali  Apni Zaban Chapter 1 Class 6 NCERT Solutions Urdu

مٹّی کا دِیا
الطاف حسین حالی
Courtesy NCERT

جُھٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دِیا
 ایک بُڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا

 تا کہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھو کر نہ کھائیں 
راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا

 یہ دِیا بہتر ہے اُن جھاڑوں سے اور فانوس سے 
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا

گر نکل کر اِک ذرا محلوں سے باہر دیکھیے
ہے اندھیرا گُھپ در و دیوار پر چھایا ہوا 

سُرخ روٗ آفاق میں وہ رہ نما مینار ہیں
روشنی سے جن کی ملّاحوں کے بیڑے پار ہیں

خلاصہ:
اس نظم میں خواجہ الطاف حسین حالی نے دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے ”مٹی کا دیا“ لوگوں کے کتنے کام آتا ہے یہ بتایا ہے۔ حالی نے اس نظم میں ایک بڑھیا کی کہانی بیان کی ہے جو شام کے وقت اپنے دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلاکر رکھ دیتی ہے تاکہ رات میں جو مسافر گزریں انہیں کوئی پریشانی نہ ہو اور وہ راستے میں ٹھوکر نہ کھائیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ دِیا اس جھاڑ و فانوس سے بہتر ہے جو محلوں کے اندر جگمگاتا ہے۔ لیکن اس کی روشنی محلوں کے اندر ہی رہ جاتی ہے۔ اگر ان محلوں سے باہر نکل کر دیکھا جاتا ہے تو وہاں گہرا اندھیرا چھایا ہوتا ہے۔ حالی پھر ان رہنما میناروں کی تعریف کرتے ہیں جو سمندر میں ملّاحوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔

معنی یاد کیجیے
جھُٹ پُٹے کے وقت : سورج ڈوبنے کے وقت، شام کے وقت
سرِرہ : راستے میں
رہ گیر : راستہ چلنے والا، راہی
پر دیسی : مسافر، دوسری جگہ کا رہنے والا 
جھاڑ : شیشے کا بنا ہوا ایک قسم کا شمع دان
فانوس : چراغ کی حفاظت کرنے والا شیشہ، چمنی
سدا : ہمیشہ
سرخ روٗ : کامیاب
آفاق  : اُفق کی جمع، دُنیا، کائنات 
رہ نما مینار : وہ روشن مینارجو سمندروں میں جہازوں اور کشتیوں کو راستہ دکھانے میں مدد کرتے ہیں۔ 
ملّاح : کشتی چلانے والا
بیڑے : جہازوں اور کشتیوں کا قافلہ
بیڑہ پار ہونا  : منزل پر پہنچنا، کامیاب ہونا 

سوچیے اور بتائیے

1۔ بڑھیانے مٹّی کا دِیا کس وقت روشن کیا؟
جواب:سورج غروب ہونے کے وقت بڑھیانےمٹّی کا دِیا روشن کیا-

2۔ راستے میں مٹّی کا دِیا روشن کرنے کا کیا مقصد تھا؟
جواب: راستے میں مٹّی کا دِیا روشن کرنے کا مقصد یہ تھا کہ رہ گیر  ٹھوکر کھانے سے بچ  جائیں اور اپنا راستہ آسانی سے پار کرلیں۔

3۔ مٹّی کا دِیا جھاڑ اور فانوس سے بہتر کیوں ہے؟
جواب:مٹّی کا دِیا جھاڑ اور فانوس سے بہتر اس لیے ہے کہ جھاڑ اور فانوس دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ یہ صرف گھر کی زینت کے لیے ہوتے ہیں ۔ دوسروں کو فائدہ پہچانے کے لئے بہت زیادہ قیمتی چیزوں اور روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مدد کرنے کے جذبے اور درد مند دل کی ضرورت ہوتی ہے۔

4۔ محلوں کے باہر اندھیرا ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب : شاعر کہنا چاہتا ہے کہ محلوں میں رہنے والے لوگوں کو باہر کے اندھیرے کا علم نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے پاس ہمیشہ روشنی رہتی ہے۔

5۔ رات میں ملّاحوں کو راستہ دکھانے میں کون سی چیز مدد کرتی ہے؟
جواب : رات میں ملّاحوں کو راستہ دکھانے میں رہ نما مینار مدد کرتا ہے۔

6۔ دوسروں کی بھلائی کے لئے ہم کیا کیا کام کر سکتے ہیں؟
جواب : دوسروں کی بھلائی کے لئے ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں، دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بہت زیادہ قیمتی چیزوں اور روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مدد کرنے کے جذبے اور دردمند دل کی ضرورت ہوتی ہے۔جیسے کہ ہم اپنے گھر کی چھتوں پر کسی برتن میں پانی رکھ دیں تو اس سے پیاسے پرندوں کو پانی مل جاۓ گا، یہ چھوٹا سا کام بھی بھلائی کا ہے۔ 

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
آسان : مشکل
بہتر : بدتر
روشنی : تاریکی
محل  : جھونپڑی 
اندھیرا  : روشنی 

مصرعے مکمل کیجیے
1. جھُٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دِیا
2. تاکہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
3. راہ سے آساں گزر جائے ہر اک  چھوٹا بڑا
4. روشنی سے جن کی ملّاحوں کے بیڑے پار ہیں

املا درست کیجیے
بُڑیا : بڑھیا
آصان : آسان
فانوص : فانوس
پردیصی : پردیسی
مہلوں  : محلوں 
بہطر  : بہتر 
صُرخ  : سُرخ 

لکھیے
1. اس نظم کا مطلب اپنے لفظوں میں لکھیے 
اس نظم کا مطلب اوپر خلاصہ میں بیان کیا گیا ہے۔

2. آپ نے بھلائی کا کوئی کام ضرور کیا ہوگا، اسے اپنے الفاظ میں لکھیے
بزرگوں نے کہا ہے کہ کسی کے ساتھ بھلائی کرو تو ایسے کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ لیکن اس سوال کے جواب میں میں صرف اتنا بتانا چاہوں گی/گا کہ ہر سال جب میں اگلے درجہ میں جاتی/جاتا ہوں تو اپنی پچھلے کلاس کی کتابیں اس لڑکی/لڑکے کو دے دیتی/دیتا ہوں جو نئی کتابیں نہیں خرید سکتیں/سکتے۔ میں اس بات کی کسی کو خبر نہیں لگنے دیتی/دیتا کہ اس لڑکی/لڑکے کو شرمندگی نہ ہو۔
(لڑکیاں اور لڑکے اپنے حساب سے صیغہ استعمال کریں۔)

کالم’الف‘ اور کالم ’ب‘ کے مصرعوں کو ملا کر صحیح شعر لکھیے
(الف)    (ب) 
 جُھٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دیا    تا کہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں 
راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا      ایک بُڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا
 روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا   یہ دِیا بہتر ہے اُن جھاڑوں سے اور فانوس سے
جواب:
جُھٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دیا
ایک بُڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا
 تا کہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
 راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا
 یہ دِیا بہتر ہے اُن جھاڑوں سے اور فانوس سے
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا

غور کرنے کی بات
آپ نے پڑھا  کہ مٹّی کے معمولی دیے سے راہ گیروں کو کتنا فائدہ ہوا۔ وہ ٹھوکر کھانے سے بچ گئے اور دیے کی تھوڑی سی روشنی میں انھوں نے آسانی سے راستہ پار کرلیا۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ لوگوں کی مدد کرنے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہت زیادہ قیمتی چیزوں اور روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مدد کرنے کے جذبے اور دردمند دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑا آدمی وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Isra's Gallery

آئینہ دی مرر میں مصور ہوں کے عنوان سے بچوں کی بنائی ہوئی پینٹنگس شائع کرتا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں اسرا عثمانی کی بنائی ہوئی پینٹنگس کی ایک گیلری شائع کی جارہی ہے جو امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی۔ آپ بھی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگس ہمیں ارسال کریں ہمیں شائع کرکے خوشی ہوگی ۔

Sunday 12 August 2018

Sunflower

سورج مکھی ( Sunflower)
سورج مکھی پیلے رنگ کا  ایک خوش نما پھول ہے   جس کا درمیانی حصہ بھورا ہوتا ہے اورجو ایک سیدھی ڈالی میں کھلتا ہے۔ اس کا نام سورج مکھی اس لیے پڑا کہ اس کا رخ سورج  کی جانب مڑتا رہتا ہے۔ صبح اس کا    رخ مشرق کی جانب رہتا ہے تو شام میں اس کا رخ مغرب کی جانب ہو تا ہے۔ اس کی بیج سے تیل نکالا جاتا ہے جس کا استعمال کھانا بنانے میں ہوتا ہے
سورج مکھی کے پھولوں کی تقریباً 60 قسمیں ہوتی ہیں جو شمالی امریکہ اور دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں۔بھارت میں بھی سورج مکھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ سورج مکھی  روس اور یوکرین کا قومی پھول ہے جبکہ  کنساس میں اسے ریاستی پھول کا درجہ حاصل ہے۔بھارت میں ریاست کرناٹک سورج مکھی پیدا کرنے والوں میں سر فہرست ہے۔
سورج مکھی کے پھولوں کا استعمال کھانے ،تیل اور رنگوں میں ہوتا ہے۔
سورج مکھی کا پودا 3 سے 18 فٹ تک کی اونچائی کا ہوتا ہے۔ یہ ایک نہایت تیزی سے بڑھنے والا پھول ہے اور 6 ماہ میں یہ 8 سے 12 فٹ کا ہوجاتا ہے۔ بھارت میں اس کی اوسط اونچائی 3 سے 16 فٹ ہوتی ہے۔اب اس کی بہت ساری قسمیں آگئی ہیں اور اب اسے گملوں میں بھی اگایا جانے لگا ہے۔
سورج مکھی اگانے کے لیے وہ جگہ بہترین ہے جہاں 6 سے 8 گھنٹے تک دھوپ آتی ہے۔ سورج مکھی کو لگانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا آسان ہے۔ اس کے بیج کو  دو سے تین فٹ کےدائرے میں دو فٹ گہرے گڈھے کے اندر بونا مناسب ہے۔
سورج مکھی کےسر یعنی درمیانی حصے میں تقریباً دو ہزار چھوٹے چھوٹے منقش پھول ہوتے ہیں جو  زیرگی  یعنی پولی نیشن  (پھول دار پودوں میں پولن کا نر تولیدی عضو سے مادہ تولیدی عضو میں منتقل ہونے کا عمل ) کے بعد بیج میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔سر کے کنارے کے حصے میں پنکھڑیاں ہوتی ہیں جو بیج میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ یہ عام طور سے  پیلی،نارنجی اور لال ہوتی ہیں۔
سورج مکھی کے پھول بوئے جانے کے 80 سے 100 دن بعد سن بلوغ کو پہنچتے ہیں۔
سورج مکھی کے بیج دو طرح کے ہوتے ہیں: سیاہ اور دھاری دار۔ یہ سائز، رنگ اورتغذیہ میں مختلف ہوتے ہیں۔
قبائلی امریکیوں کے لیے یہ غذا کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ وہ اس کا روٹی بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ روحانی تقریبوں میں سورج مکھی کے پیلے رنگ سے اپنے جسموں کو پینٹ کرتے ہیں۔وہ اس کا استعمال طبّی مقاصد سے بھی کرتے ہیں۔
سورج مکھی کے بیج وٹامن بی اور وٹامن ای  اور معدنیات مثلاً تانبا، فاسفورس، سیلینیم اور میگنیشیم کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں۔
سورج مکھی کے سیاہ بیج تیل حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں  جن کا استعال کھانابنانے میں ہوتا ہے۔
دھاری دار بیج نمکین کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا استعمال سلاد میں بھی ہوتا ہے۔ اس سے دیگر نمکین ڈشیں بھی بنائی جاتی ہیں اور اسے مہمانوں کو بطور ناشتہ پیش کیا جاتا ہے۔
تازہ ترین تحقیقات کےمطابق اس کے بیج کا استعمال بایو ڈیزل بنانے میں کیا جاتا ہے جو ماحول دوست ہوتا ہے اور فضا میں آلودگی کم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
سورج مکھی کے بیج چڑیوں، گوریّوں اور کیڑے مکوڑوں کی پسندیدہ غذا ہے۔
سورج مکھی بھاری معدنیات اور ٹوکسنس کو زمین سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے آلودہ ماحول میں خاص طور سے لگایا جاتا ہے۔اس کے اندر نیوکلیائی آلودگی کو بھی کم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
یہ ایک سالانہ پیدا ہونے والا پھول ہے لیکن اس کی بعض قسمیں ایسی ہیں جو دو سال تک بھی رہتی ہیں۔

Sunday 5 August 2018

Gulab, Rose, گلاب

دنیا بھر میں پھولوں کی  بہت ساری اقسام پائی جاتی ہیں۔ہماری نئی نسل کو اردو میں اس بابت تحریری طور پر کم مواد دستیاب ہیں۔ لہٰذا آئینہ کے قارئین کے لیےمختلف پھولوں سے مختصر تعارف کرانے کا ایک  نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جو امید ہے آپ سب کو پسند آئے گا۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور پر پیش ہے گلاب کا تعارف۔
اسراء عثمانی

گلاب

گلاب دنیا بھرمیں سب سے پسندیدہ پھول ہے۔ گلاب ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی خوشبو گلاب جیسی تھی۔
گلاب کی ۱۰۰ سے بھی زائد قسمیں ہیں۔ جن میں زیادہ تر قسمیں ایشیا میں پائی جاتی ہیں  جبکہ دیگر کا تعلق یوروپ شمالی امریکہ اور افریقہ سے ہے۔ گلاب مختلف موسموں میں لگایا جاسکتاہے۔ گلاب کا سائز اس کی نسل پر منحصر کرتا ہے۔گلگب کی کئی نسلیں ایسی ہیں جس میں اس کی کونپلیں ۳۲ انچ اور اس کا قد لمبائی میں ۲۳ فٹ تک ہو سکتا ہے۔گلاب کا رنگ اس کی species  پر منحصر کرتا ہے۔گلاب مختلف رنگوں کا پایا جاتا ہے جس میں سفید، پیلا، گلابی ،نارنگی اور لال شامل ہیں۔ کالا گلاب کمیاب ہے مگر کافی مشہور ہے۔ کالے گلاب کی ایک قسم جمشید پور کےجوبلی پارک میں پائی جاتی  ہے۔ اس کے مختلف رنگ اپنی الگ الگ معنویت رکھتے ہیں۔ لال گلاب محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پیلا گلاب دوستی کی نشانی ہے۔ نارنگی جوش و ولولہ کی اور سفید  پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔گلابی رنگ خوشیوں کی علامت ہے۔
جنگلی گلاب میں پانچ پنکھڑیاں اور پانچ مسند گل یعنی سنبلہ ہوتے ہیں۔
اس کے بہت سارے طبّی فوائد بھی ہیں۔گلاب کی پنکھڑیوں سے گل قند بنایا جاتا ہے  جو قلب  اور دماغ کے لیے انتہائی سکون بخش ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پیٹ کے درد میں بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔گلاب کی پتیوں کو سکھاکر اس کی چائے بھی بنائی جاتی ہے۔ گلاب کی پتیوں کا عرق بھی نکالا جاتا ہے جو امراض چشم میں بہت مفید ہے۔ یہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے اور اس کی لالی کو کم کرتا ہے۔ عرق گلاب کھانوں میں خوشبو کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مذہبی تقریبات  میں اس کے پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا جاتا ہے۔
گلاب کی پنکھڑیاں ایک دوسرے پر چڑھی ہوتی ہیں۔ اس کی شاخوں میں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔اردو شاعری میں گلاب کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور شعرا نے اس کا مختلف موقعوں پر استعمال کیا ہے اور اس کی تشبیہیں دی ہیں۔ میر کا ایک مشہور شعر ہے جس میں اس نے اپنے محبوب کے ہونٹوں کی مثال گلاب کی پنکھڑی سے دی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
گلاب سے عطر بھی کشید کیا جاتا ہے۔یہ عطریات کی انڈسٹری کا ایک اہم جز ہے۔عطر کشید کرنے کے لیے کثیر تعداد میں گلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک گرام تیل کے لیے تقریباً دو ہزار گلاب کے پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
گلاب ایک بہت ہی قدیم پودا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کولاریڈو/امریکہ میں گلاب کی سب سے قدیم نسل دریافت ہوئی ہے جو ایک تخمینہ کے مطابق ۳۵ ملین سال پرانی ہے۔

ؒتاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی


تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ کا آج یومِ وصال ہے۔ آج ہی کے دن 4 جنوری2005 مطابق 22 ذیقعدہ کو کولکتہ میں صبح 4 بجے آپ کا انتقال ہوا۔ آپ اپنے صاحبزادے شاہ تسنیم عثمانی فردوسی مدظلہ العالی،سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ(اورنگ آباد،بہار) کو حج بیت اللہ کے لیے رخصت کرنے کولکتہ گئے تھے۔

آپ ایک پیر طریقت، طبیب حاذق اور باکمال شاعر تھے۔ آپ کی شاعری اور حالات زندگی پر ایک مضمون عزیزی ڈاکٹر اقبال حسین نے اپنی کتاب سخنوران جھارکھنڈ میں شامل کیا ہے۔قارئین کے لیے یہ مضمون پیش ہے۔

Thursday 2 August 2018

Shahzadi Gul


اقصیٰ عثمانی کی یہ کہانی ان کی ابتدائی کاوشوں میں سے ایک ہے۔ اقصیٰ عثمانی خدیججة الکبریٰ گرلس پبلک اسکول میں درجہ ہفتم کی طالبہ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی یہ کاوش قابل قدر ہے۔ ہم اپنی بچیوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنا چاہتے ہیں ۔ آپ بھی اگر اس طرح کی کوئی تخلیقی کاوش انجام دیتی ہیں تو بلا جھجک ہمیں بھیجیں۔ اس کے نوک پلک درست کرکے آپ کے نام سے شائع کرنے میں ہمیں خوشی ہوگی۔ ہمارا پتہ ہے aainathemirror2017@gmail.com

Saturday 14 July 2018

یا رب بس است مارا ایک دلربا محمد


نعت
از:  مولانا شاہ وصی احمد نعمتی پھلواروی
ترجمہ: حضرت مولاناسید  شاہ ہلال احمد قادری پھلواروی

یا رب بس است مارا ایک دلربا محمد
صل علی محمد صل علی محمد
(اے رب ہمارے لیے ایک ہی دلربا محمد کافی ہیں صل علی محمد صل علی محمد)

برماوجملہ عالم رحمت بودچوذاتش
ارحم علی محمدارحم علی محمد
(ہم پر اور تمام عالم پر ان کی ذات رحمت ہے اے اللہ محمد پر رحم کر اے اللہ محمد پر رحم فرما)

چوں او سلام خواندہ برما تو نیزاے دل
سلم علی محمد سلم علی محمد
(جب انہوں نے(یعنی رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم نے) ہم پرسلام بھیجا ہے تواے دل تو بھی سلام بھیج محمد پرتوبھی سلام بھیج محمد)

اے دل اگر تو خواہی بینی جمال مطلق
انظر الی محمد انظرالی محمد
(اے دل اگر تو جمال مطلق (یعنی جمال الٰہی )دیکھنا چاہتا ہے تو دیکھ محمد کو دیکھ محمد کو)

در وصف او چہ خوانم از نور اوچہ گویم
شمس الضحی محمد  شمس الضحی محمد
(ان کی تعریف میں میں کیا کہوں   ان کے نور کے بارے میں کیا بولوں؟ محمد تو شمس الضحی  ہیں (چڑھتے دن کا سورج جو بلند کی طرف مائل رہتا ہو )محمد تو شمس الضحی)

خوش آنکہ بردر  او خوانم چوبے نوایاں
یا  مصطفی محمد یا  مصطفی محمد
(کتنا اچھا ہوتا کے انکے در پر میں بینواو کی طرح صدا لگاتا اے مصطفی ٰمحمد اے مصطفیٰ محمد)

خوش دعوتے نمودی اے صد چومن فدایت
لبیک یا محمد لبیک یا محمد
(کتنی اچھی دعوت دی آپنے اے وہ کے جیسے سینکڑوں آپ پر فدا ہوں (یعنی دعوت  دین حق ) میں حاضر ہوں اے محمد  میں حاضر ہوں اے محمد (یعنی میں آپ کی  دعوت حق پر لبیک کہتا ہوں اس کو قبول کرتا ہوں)

یا رب زناب پاکش ہر جاوصی سخن زد
صل علی محمد صل علی محمد
 (اے رب وصی ہر جگہ ان  کے نام  سے سخن طرازی کرتا ہے  اے اللہ حضرت سیدنا محمد  پر درود بھیج اے اللہ حضرت سیدنا محمد  پر درود بھیج)


Sunday 1 July 2018

خود نمائی ۔۔۔۔۔۔ شاہ ہلال احمد قادری


حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری پھلواروی مدظلہ العالی کی ایک بے باک نظم قارئین آئینہ کی نذر۔



Saturday 10 February 2018

Urdu Shayeri mein rang e tassauf


اردو شاعری میں رنگ تصوف

شاہ رشاد عثمانی


اردو شاعری میں رنگ تصوف کے عنوان سے ماہنامہ پیش رفت  کے فروری ۲۰۱۸ کے شمارہ میں شاہ رشاد عثمانی کا اداریہ آئینہ کے قارئین کے لئے پیش ہے۔

Wednesday 10 January 2018

khilal

خِلال

وسیم چشتی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں کلّو نام کا ایک کسان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے نئے داروغہ صاحب  کی جو نئے نئے شہر سے آئے تھے، دعوت کرنی چاہی۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ دیکھ وہ شہر کے رہنے والے ہیں ان کی دعوت نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تم سے کوئی بات ایسی ہو جائے جو ان کو ناگوار گزرے۔ لیکن اس کسان نے کسی کی کوئی بات نہ سنی اور اس نے داروغہ صاحب کو دعوت پر مدعو کیا اور بیوی کو ہدایت کردی کہ خوب اچھے اچھے کھانے تیار کرے۔ داروغہ صاحب جب آئے اور کھانا کھا چکے تو انھوں نے ایک خِلال مانگا۔ کسان نے سمجھا یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ گھر میں گیا اور بیوی سے کہا۔ تم نے خلال پکایا ہے، جلدی سے دو داروغہ صاحب مانگ رہے ہیں۔ کسان کی بیوی نے کہا میں نے یہ چیز تو نہیں پکائی ہے۔ یہ سنتے ہی کسان اپنی بیوی پر بہت ناراض ہوا اور اس نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ سب چیزیں پکا کر رکھنا۔ وہ باہر آیا اور داروغہ صاحب کے سامنے کھڑا ہوکر عاجزی سے کہنے لگا”داروغہ صاحب خِلال تو ہمارے یہاں پکا نہیں ہے۔“ یہ سنتے ہی داروغہ صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کافی دیر تک ہنستے رہے۔جب ان کی ہنسی رکی تو وہ بولے ارے بھائی خِلال کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے وہ تو دانت کریدنے کے تنکے کو کہتے ہیں ۔ یہ سن کر کسان بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے داروغہ صاحب کی فرمائش کو فوراً پورا کردیا۔
(بہ شکریہ آج کل)

ہماری گھریلو زبان سے کچھ الفاظ رفتہ رفتہ متروک ہوتے جارہے ہیں۔ اس کہانی کا مقصد اپنے بچوّں کو ان چھوٹی چھوٹی
چیزوں سے روشناس کرانا ہے۔

آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

خوش خبری