آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 8 September 2018

Bi Amman - NCERT Solutions Class VII Urdu

بی امّاں
CourtesyNCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔بی امّاں کا تعلق کس خاندان سے تھا؟
جواب: بی امّاں کا تعلق رئیس اور منصب داروں کے خاندان سے تھا۔

2۔بی امّاں کے خاندان میں وطن سے محبت کس بات سے ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: ۱۸۵۷ میں اس خاندان نے طے کیا کہ اگر دلی اور میرٹھ کی طرح امروہہ میں بھی آزادی کی جدو جہد شروع ہوئی تو ہم انگریزی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور اپنی حکومت قائم کرلیں گے۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ بی امّاں کے خاندان میں ہمیشہ سے وطن سے محبت پائی جاتی ہے۔

3۔انگریزوں سے سمجھوتے کی بات پر بی امّاں نے کیا کہا تھا؟
جواب: بی امّاں نے کہا گورنمنٹ یہ جان لے کہ اپنی تکلیفوں سے بچنے کے لیے اگر وہ (علی برادران) کسی ایسی بات کا اقرار کرلیں گہ جو ان کے مذہبی احکام یا ملکی فائیدوں کے ذرا بھی خلاف ہو تو مجھے یقین ہے کہ اللہ پاک میرے قلب کو اتنی مضبوطی اوران سوکھے جھریاں پڑے ہاتھوں میں اتنی طاقت دے گا کہ میں اس وقت ان دونوں کا گلا گھونٹ دوں گی۔

4۔شوہر کے انتقال کے بعد بی امّاں نے اپنے بچّوں کی پرورش کس طرح کی؟
جواب: بی امّاں نے ان دونوں بھائیوں کی تربیت اس ڈھنگ سے کی کہ آگے چل کر محمد علی اور شوکت علی نے انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ بی امّاں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنا زیور بھی رہن رکھ دیا۔

5۔علی برادران بی امّاں سے ملنے رامپور گئے تو انگریزوں نے  ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: انگریزوں نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔

6۔بی امّاں کی آخری خواہش کیا تھی؟
جواب: ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
آزادی : غلامی
نفرت : الفت
اقرار : انکار
رئیس : فقیر
شروع : ختم
مبارک : نا مبارک

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
بزرگ : ہمیں اپنے بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے۔
اصرار : عوام آزادی کے لیے اصرار کرنے لگے۔
تربیت : بی امّاں نے اپنے بیٹوں کو اچھی تربیت دی۔
رخصت : وہ لندن کے لیے گھر سے رخصت ہوئے۔
حوصلہ : اس نے حوصلے سے کام لیا۔
خواہش : بی امّاں کو آزاد ہندوستان دیکھنے کی خواہش تھی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1۔ مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی امّاں کے طور پر جانی جاتی تھیں۔
2۔ بی امّاں کا تعلق رئیسوں اور منصب داروں کے خاندان سے تھا۔
3۔ انگریزوں کے مظالم کی داستانیں بھی بزرگوں ۔سے سن رکھی تھیں۔
4۔ علی برادران نے قلم اور زبان کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی۔
5۔ انگریز حکومت نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔
6۔ ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Friday 7 September 2018

Falsafi Naukar - NCERT Solutions Class VII Urdu

فلسفی نوکر 
courtesy NCERT


سوچیے اوربتائیے 
 1۔مالک نے نوکر سے کیا کام کرنے کے لیے کہا؟
جواب:مالک نے نوکر سے کہا کہ وہ پیر پسار کر سو جائے۔ میں اپنے قیمتی اور تیز رفتار گھوڑے کی خود نگرانی کروں گا۔

2۔مالک کے باربار پوچھنے پر نوکر کیا جواب دیتا تھا؟
جواب: مالک کے بار بار پوچھنے پر نوکر نے جواب دیا کہ آپ بے فکر رہیں اور اطمنان سے سو جائیں۔

3۔فلسفی نوکر آسمان کے بارے میں کیا سوچ رہا تھا؟
جواب:فلسفی نوکر آسمان کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالی ٰ نے اسے بغیر ستونوں کے کس طرح کھڑا کر رکھا ہے اور کیل گاڑنے میں زمین کی مٹی کہاں غائب ہوجاتی ہے۔

4۔تین پہر رات سے پہلے مالک کیوں اطمینان سے سوگیا؟
جواب:مالک اس لیے اطمینان سے سو گیا کہ نوکر نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ گھوڑے کی حفاظت کر رہا ہے۔

5۔گھوڑا کس طرح چوری ہوا؟
جواب: مالک اپنے نوکر کی بات میں آکر بے فکری اور اطمنان سے سو گیا اور نوکر اپنے خیالوں میں کھو گیا۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہئے چور سرنگ لگا کر گھوڑا چرا لے گئے۔

6۔گھوڑا چوری ہونے کے بعد آقا پر کیا گزری؟
جواب: یہ وحشت اثر خبر سن کر آقا کے ہوش اڑ گئے۔

7۔آقا نے نوکر کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: آقا نے نوکر کو بہت سخت سست سنائی۔
خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
۱۔ اس کے ساتھ اس کا نوکر بھی تھا۔
۲۔ اس شہر کے چور بڑے   بےدرد  اور چوری کرنےمیں نہایت دلیر  ہیں۔
۳۔ اپنے اس  قیمتی  اور تیز رفتار گھوڑے کی خود نگرانی کروںگا ۔
۴۔ نا چیز نوکر ساری رات جاگ کر گھوڑے کی نگرانی اور پاسبانی کریگا۔
۵۔ آپ بے فکر رہیئے اور اطمینان سے سو جائیے۔
۶۔ آسمان بغیر ستونوں کے کس طرح کھڑا کر رکھا ہے اور کیل گاڑنے میں زمین کی مٹّی کہاں غائب ہو جاتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے:
شخص : ہر شخص کواپنا کام ایمانداری سے کرنا چاہیے۔
مالک : اس دوکان کا مالک ایماندار ہے۔
دلیر : ہر فوجی دلیر ہوتا ہے۔
نگرانی : آپ سی سی ٹی وی کی نگرانی میں ہیں۔
آقا : غلام نے آقا کی بات مان لی۔
اطمینان : ہر کام اطمینان سے کرو۔
غلام : غلام گھوڑا لے کر فرار ہوگیا۔
آسمان : اس کے سر پر آسمان گر پڑا۔


ان لفظوں کے متضاد لکھئے
نوکر : مالک
شام : صبح
دلیر : بزدل
آرام : تکلیف
خواب : حقیقت
فائدہ : نقصان
لمبا : چھوٹا
زمین : آسمان
ناکام : کامیاب
بےوقوف : عقلمند

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
گھوڑا : گھوڑے
شہر : شہروں
نوکر : نوکروں
عزیز : اعزا
پیسے : پیسہ
طرف : اطراف
آنکھ : آنکھیں
اونٹ : اونٹوں
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Tuesday 4 September 2018

Garmi Ka Mausam - NCERT Solutions Class VII Urdu

گرمی کا موسم
اسماعیل میرٹھی
Courtesy NCERT
سوچیے اوربتائیے
سوال: گرمی کا موسم کس مہینے سے شروع ہوتا ہے؟
جواب: گرمی کا موسم مئی کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

سوال: دن کے کس حصّہ میں گرمی کی شدّت زیادہ ہوتی ہے؟
جواب: دن کے بارہ بجے گرمی کی شدّت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ گرمی کی دوپہر اپنی شدت کے لیے جانی جاتی ہے۔

سوال: لو کیسی ہوا کو کہتے ہے؟
جواب: لو گرم ہوا کو کہتے ہے۔ جیسے جیسے دن چڑھتا ہے ہوا گرم ہوتی جاتی ہے اور اسی گرم ہوا کو لُو کہتے ہیں۔

سوال: تڑاقے کی دھوپ سے کیا مراد ہے؟
جواب: تڑاقے کی دھوپ سے مراد ہے کہ گرمی کی شدّت زیادہ ہونے سے دھوپ میں شدّت آگئی ہے۔

سوال: مچھلی سے تڑپنے  کا کیا مطلب ہے؟
جواب: مچھلی کو پانی میں ٹھنڈک اور آرام ملتا ہے لیکن جب اس کو پانی سے نکال دو تو وہ تڑپنے لگتی ہے اسی طرح انسان کو بھی ہلکی ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے نہیں تو وہ گرمی کی وجہ سےبے چین ہوجاتا ہے۔ جسے دوسرے لفظوں میں مچھلی کی مانند تڑپنے کی مثال سے بھی جانا جاتا ہے۔

سوال: گرمی میں لوگ کس طرح گزارا کرتے ہیں؟
جواب: غریب  اپنا گزارا محنت کرکے کرتے ہیں وہ ایک جھونپڑی میں گزارا کرتے ہیں۔ دوسری جانب امیر اپنے کمروں میں پنکھے اور اے سی کا مزہ لیتے ہیں۔

سوال: پچھوا ہوا کو شعلہ کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: اس لیے کہ پچھوا ہوا آگ کے شعلہ کی طرح گرم ہوتی ہے۔

اشعار کو مکمل کیجیے
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا#####ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
 زمین ہے یا کوئی جلتا توا ہے#####کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی#####زمین کا فرش ہے  چھت آسماں کی
 نہ پنکھا ہے نا ٹٹی ہے نہ کمرہ#####ذرا سی جھوپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی#####غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے
لپٹ :  آگ کی لپٹ سے مریم کا ہاتھ جل گیا۔
ثمرہ : غریبوں کو محنت کرکے ثمرہ حاصل ہوتا ہے۔
محنت : غریب محنت کرکے گزارا کرتے ہیں۔
مبارک : عید کے دن مسلمان ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
توا : گرم توا سے آصف کا ہاتھ جل گیا۔

ان لفظوں کےمتضاد لکھئے
گرمی : سردی
آسمان : زمین
غریب : امیر
فرش : عرش
شعلہ : شبنم
دھوپ : چھاؤں
پوشیدہ : افشا
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Sunday 2 September 2018

Phool Walon Ki Sair - NCERT Solutions Class VII Urdu

پھول والوں کی سیر
سوچیے اوربتائیے 
سوال: ہندوستان کے مذہبی تہوار کون کون سے ہیں؟
جواب: ہندوستان کے مذہبی تہوار عید،کرسمس،دیوالی،گروپرب ہیں۔ اس کے غلاوہ اور بھی تہوار ہیں جو ملک کے الگ الگ حصّوں میں منائے جانتے ہیں

سوال: پھول والوں کی سیر کی کیا خاصیت ہے؟
جواب: پھول والوں کی سیر کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ہندو مسلم بھائی چارے کے ساتھ پھولوں کا پنکھامہرولی میں جوگ مایا کے مندر اور خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر چڑھانے کے لیے لے کر جاتے ہیں۔

سوال: انگریز ہندوستان میں کیوں آئے؟
جواب: انگریز ہمارے ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے لیکن یہاں آکر انہوں نے لوگوں میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے علاقوں میں قابض ہو گئے۔اور تجارت کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنا مقصد بنا لیا۔

سوال: پرانے زمانے میں کون کون سی سواریاں استعمال ہوتی تھیں؟
جواب: پرانے زمانے میں رتھ،بیل گاڑی،گھوڑے اور پالکیاں استعمال ہوتی تھی۔ 

سوال: میلے کے اہتمام میں بادشاہ کیا کرتے تھے؟
جواب: میلے کے اہتمام میں بادشاہ کُشتیاں دیکھتے تھے اور مرغے اور تیتر لڑاتے تھے۔گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ بھی ہوتی تھی۔ 

سوال: جوگ مایا کا مندر اور خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ کہاں واقع ہے؟
جواب:  جوگ مایا کا مندر اور خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ دہلی کے مہرولی میں واقع ہے۔

سوال: آخری مغل بادشاہ کا نام کیا تھا ؟
جواب:  آخری مغل بادشاہ کا نام مرزا جہانگیر تھا۔

سوال: آزادی کہ بعد پھول والوں کی سیرکس نے شروع کرائی؟
جواب: آزادی کہ بعد پھول والوں کی سیر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے شروع کروائی تھی۔ 

سوال: پھول والوں کی سیر کا میلہ ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟
جواب: پھول والوں کی سیر کا میلہ ہمیں آپسی بھائی چارہ کا سبق سکھاتا ہے۔ اس میلہ میں ہندو ، مسلم، سکھ، عیسائی  سبھی شریک ہوتے ہیں اور آپسی بھائی چارے اور عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ میلہ دہلی میں آپسی بھائی چارے کی ایک خاص تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
پھول والوں کی سیرسبھی مذہب کے لوگ مناتے ہیں۔
انگریزوں نے شہزادے کو قید کردیا۔
خواجہ بختیار کاکیؒ کا مزار مہرولی میں ہے۔
بیل گاڑی پر بیٹھ کر لوگ مہرولی جاتے تھے۔
پھول والوں کی سیر بھادو کے موسم میں ہوتا تھا۔
پھول والوں کی سیر مہینے کی چودھویں رات کو منایا جاتا تھا۔
پہلے دن پھولوں کا پنکھا جوگ مایا کے مندر پر چڑھایا جاتا تھا۔
دوسرے دن پھولوں کا پنکھا خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ پر چڑھایا جاتا تھا۔

نیچے لکھے ہوئےلفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
جوش وخروش : ہندوستان میں سبھی تیوہار جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔
دخل : دوسروں کے کام میں دخل نہ دیں۔ 
قید  :  اورنگ زیب نے شاہ جہاں کو قید میں ڈال دیا۔ 
دارالسلطنت  : دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ 
فروغ  :  ہمیں اردو زبان کا فروغ کرنا چاہیے۔
آپسی بھائی چارے کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
احترام  : ہمیں اپنے بڑوں کا احترام کرنا چاہیے۔ 
غول  : شیر نے ہرنوں کے غول پر حملہ کردیا۔ 
پرساد  : مندروں میں پرساد بٹ رہے تھے۔ 

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
مذاہب : مذہب
علاقہ : علاقوں
انگریزوں : انگریز
گاڑی : گاڑیاں
پنکھوں : پنکھا
پالکی : پالکیاں
حویلی : حویلیاں
کڑھائی : کڑھائیاں

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
بادشاہ : فقیر
قید : آزاد
برباد : آباد
رونق : بے رونق
پسند : ناپسند


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Sunday 26 August 2018

Hazrat Muhammad (PBUH) - NCERT Solutions Class VI Urdu

حضرت مُحمّد ﷺ
coutesyNCERT
عرب کے شہر مکہ میں اب سے کوئی ساڑھے چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ آپ کی پیدائش سے کچھ مہینے پہلے آپ کے والد عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس لیے آپ کے دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی۔ جب آپ چھ سال کے تھے، تو آپ کی والدہ بی بی آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ آٹھواں سال تھا کہ دادا بھی وفات پا گئے۔
پھر چچا ابو طالب نے آپ کی سر پرستی کی ۔ ذرا بڑے ہو کر آپ نے تجارت کی طرف توجہ کی اور بڑی محنت ، دیانت اور سچائی سے کاروباری معاملات کیے۔ آپ اس قدر ایمان دار تھے کہ لوگ آپ کو امین، یعنی ” امانت والا‘‘ اور ”صادق“، یعنی” سچا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ آپ نہ کھی جھوٹ بولتے ، نہ کسی کو دھوکا دیتے ، نہ لین دین کے معاملے میں ٹال مٹول اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ جو وعدہ کر لیتے، اس کو پورا کرتے ، چاہے اس میں تکلیف اٹھانی پڑے یا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
اگر کہیں جھگڑا ہو جاتا تو لوگ فیصلے کے لیے آپ کے پاس آتے ۔ اسی زمانے میں کعبہ کی عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آ ئی۔ چونکہ کعبہ تمام عرب میں سب سے زیادہ پاک اور محتر م جکہ سمجھی جاتی تھی ، اس لیے مکہ میں جتنے قبیلے تھے، سب چاہتے تھے یہ کام ہم ہی کریں ۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبیلوں کے سپرد کردی گئی ۔ سب نے خوشی خوشی اپنے حصے کا کام پورا کیا لیکن حجر اسود نصب کرنے کے سلسلے میں ایک مشکل آن پڑی ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ عزت ہمارے حصے میں آئے اور عمارت میں حجر اسود کو ہمارے ہی آدمی اٹھا کر اس جگہ لگائیں ۔ کئی روز تک جھگڑ ا ہوتا رہا۔ آخر طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو، وہ اس کا فیصلہ کرے یا خود ہی حجراسود کو اس کی جگہ پرنصب کردے۔
جانتے ہوا گلے روز کعبے میں سب سے پہلے داخل ہونے والا کون تھا؟ یہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم تھے۔ سب پکار اٹھے : لووہ امین آگئے، اب یہی اس جھگڑے کا فیصلہ کریں گے ۔ اور پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فیصلے نے واقعی سب کو خوش کر دیا۔ آپ نے کہا : ایک بڑی اور مضبوط چادر لاؤ چادر لائی گئی تو آپ نے اپنے ہاتھ سے حجر اسود اٹھا کر اس پر رکھا پھر فرمایا ۔
ہر قبیلے کا سردار آ گے بڑھے اور اس چادر کا ایک ایک سرا اپنے ہاتھوں میں تھام لے۔ اس طرح وہ لوگ حجر اسود کو کعبے کی دیوار کے پاس لے گئے ۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے صحیح جگہ پر رکھ دیا۔ اسی طرح ایک بڑا جھگڑا ختم  ہوگیا ، سب خوش ہو گئے ، مل جل کر کام کرنے کی برکت ہر ایک کی سمجھ میں آ گئی۔
کا رو بار سے فرصت پا کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر مکہ کے پاس پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں غارِ حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اور غور و فکر فرماتے ۔ چالیس سال کی عمر میں آپ نے انسا نوں کو خدا کا پیغام سنا یا اور انہیں برائیوں کو چھوڑ نے اور اچھی باتوں کو ماننے کی دعوت دی ۔ جس کتاب میں خدا کا یہ مکمل پیغام ہے اسے قرآن کہتے ہیں۔
جس زمانے میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کیا عرب کی حالت بہت خراب تھی ۔ اکثر عربوں کی زندگی قتل اور لوٹ مار میں گزرتی تھی۔ پورا عرب قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ یہ قبیلے بہت معمولی باتوں پر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ لڑائی دادا کے زمانے میں شروع ہوتی تھی تو پوتوں اور پر پوتوں تک چلتی رہتی تھی۔ جب تک ایک قبیلہ ختم نه ہو جاتا لڑائی چلتی رہتی تھی صلح کا کوئی خانہ نہ تھا۔
حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا۔ ان کے اثرات اور تعلیمات سے قبیلوں کی دشمنیاں ختم ہو گئیں۔ مساوات اور بھائی چارے کا سبق صرف عرب تک محدود نہ رہا۔ جہاں جہاں مسلمان گئے،مساوات کا تحفہ ساتھ لے گئے۔ جن جگہوں پر سماج میں سخت قسم کی اونچ نیچ تھی وہاں بھی مساوات اور بھائی چارے کا تذکرہ ہونے لگا۔
آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پہلے عرب میں عورتوں کی حالت بہت خراب تھی بعض قبیلے تو بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مارڈالتے تھے۔ جن قبیلوں میں پچیاں قتل نہ کی جاتی تھیں، ان میں بھی عورت کی حیثیت لونڈی سے بہتر نہ تھی۔ آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اثر نے نہ صرف یہ قتل و ظلم کو ختم کیا عورت کو سماج میں باوقار درجہ دیا۔ اب عورت ماں باپ کے ورثے میں حصہ پانے لگی ۔ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے عورت کی حالت کو بہتر بنایا ۔ اور بھی طرح طرح کی غلط رسمیں عام تھیں ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان برائیوں سے روکا ۔ آپ نے تعلیم دی کہ خدا ایک ہے ، وہی عبادت کے لائق ہے اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں ۔ اس آواز کا اٹھنا تھا کہ مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھٹرا ہوا۔ مکہ کے سرداروں کو اپنی سرداری خطرے میں نظر آنے کی۔ انھوں نے پہلے تو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا، پھر انھیں طرح طرح کے لالچ دیئے ۔ آپ نے فرمایا :
اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ میں چا ند تب بھی میں اللہ کے کلام سے ہاتھ نہ اٹھائوں گا یا تو اس کام کوانجام دوں گا یا اپنی جان قر بان کروں گا ۔
پھر مکہ والوں نے آپ کو طرح طرح کی دھمکیاں دیں اور تکلیفیں پہنچائیں کہ یہ آواز دب جائے ۔ ان کا ظلم بڑھتا ہی رہا ۔ وہ راستہ چلتے ہوئے آپ پر گندگی پھینک دیتے۔ دروانے کے سامنے کانٹے بچھا دیتے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا ۔ آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے ساری مخالفتوں کو تیرہ برس صبر کے ساتھ گزارے اور حق کے راستے سے بالکل نہ ہٹے۔ یہاں تک کہ سنہ 622 عیسوی میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ که مد ینہ چلے گئے۔ آپ کے اس سفر کو ہجرت کہا جا تا ہے۔ اس واقعے سے ایک نیا سن شروع ہوتا ہے۔ جس کو سن ہجری کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو اس وقت آپ کی عمر ترپن سال تھی۔
مدینے میں کچھ لوگ پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکے تھے۔ انھوں نے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا دل سے استقبال کیا اور ہر طرح کی مہمان داری کی ۔ انھوں نے کہا : یہ آنے والے ہمارے بھائی ہیں ، اس لیے ہمارے مال ودولت  میں برابر کے شریک ہیں ۔
مدینہ آکر آپ نے سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کی ۔ سب نے مل کر اس کام میں دل و جان سے حصہ لیا۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی سب کے ساتھ گارا مٹی اور پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ اس طرح ایک چھوٹی سی مسجد بنی۔ اس کے ایک
طرف چھوٹے چھوٹے کمروں میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ان کے گھر والے رہتے تھے۔ ان کے لیے کوئی محل تھا نه در بار وہی مسجد سب کچھ تھی۔
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد آپ کی مقبولیت اور اثر میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا اور دس سال کے اندر سارے عرب میں اسلام پھیل گیا۔ آپ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی ۔ بازار سے سودا سلف خود لا تے ، بکری کا دودھ خور دو ہتے ، اپنے کپٹروں کو خود ہی پیوند لگا تے ، بوجھ اٹھاتے ، چانورں کو چارا ڈالتے ، یہاں تک کہ دوسروں کے کام بھی کر دیا کرتے کوئی بیمار ہوتا تو مزاج پرسی کے لیے  ضرور تشریف لے جاتے اوراس کی تیمارداری کرتے۔
آپ بچوں سے بہت پیار کر تے تھے، ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھرتے ، ان کے لیے دعا فرماتے۔ ایک بار آپ نے فرمایا : ” بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں۔“ آپ بچوں سے ہنسی مذاق بھی کرتے اور ان کے ساتھ کھیل میں بھی شریک ہو جاتے۔
ترسٹھ سال کی عمر میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور مسجد نبوی کے اسی حجرے میں سپرد خاک کیے گئے جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی۔

سوچیے اور بتائیے:
سوال: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش مکّہ میں ہوئی۔

سوال: آپؐ کو "امین" اور "صادق" کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: آپؐ اس قدر ایمان دار تھے کہ لوگ آپؐ کو ”امین“اور ”صادق“کہہ کر پکارتے تھے۔ آپؐ نہ کبھی جھوٹ بولتے، نہ کسی کو دھوکا دیتے،نہ لین دین کے معاملے میں ٹال مٹول اور نہ  کسی بات پر جھگڑتے تھے،جو وعدہ کرلیتے اُس کو پورا کرتے۔

سوال: حجرا سود کسے کہتے ہیں؟
جواب: حجرا سود وہ کالا پتھر جو کعبہ کی دیوار میں لگا ہوا ہے اسے حجرا سود کہتے ہیں-

سوال: حضرت مُحّمدؐ نے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ کس طرح سمجھایا؟
جواب: حضرت مُحّمدؐ نے ایک بڑی اور مضبوط چادر منگوائی پھر خد آپ نے اپنے ہاتھوں سے حجرا سود کو اٹھاکر اس پر رکھا پھر فرمایا "ہر قبیلے کا سردار آگے بڑھے اور اس چادر کا ایک ایک سِرا اپنے ہاتھوں میں تھام لے"۔اس طرح وہ لوگ حجرا سود کعبے کی دیوار کے پاس لے گئے پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے صحیح جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح مل جل کر کام کرنے کی برکت ہر ایک کی سمجھ میں آگئی۔

سوال: آپؐ عبادت کرنے اور غورو فکر فرمانے کے لیے کہاں جاتے تھے؟
جواب: آپؐ عبادت کرنے اور غورو فکر فرمانے کے لیے مکہ کے پاس پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں غار حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اور غور فکر فرماتے۔

سوال: جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا کیا نام ہے؟
جواب: جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا نام قرآن ہے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Ek Pahaad aur gilehri - NCERT Solutions Class VI Urdu

 Ek Pahaad aur Gilehri by Allama Iqbal Apni Zaban Chapter 4 Class 6  Urdu NCERT Solutions

ایک پہاڑ اور گلہری
علامہ اقبال
Courtesy NCERT
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے 
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مَرے 

ذرا سی چیز ہے، اِس پر غرور! کیا کہنا! 
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا! 

خدا کی شان ہے نا چیز، چیز بن بیٹھیں! 
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں! 

تِری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟ 
زمیں ہے پست مِری آن بان کے آگے 

جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں!
بھلا پہاڑ کہاں،جانور غریب کہاں! 

کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا 
یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا! 

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا! 
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا 

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے 
کوئی بڑا،کوئی چھوٹا،یہ اس کی حکمت ہے 

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے 
مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے 

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں 
نِری بڑائی ہے خوبی ہے اور کیا تجھ میں 

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دکھا مجھ کو 
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو 

نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں 
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں 
معنی یاد کیجیے
غرور : گھمنڈ
شعور : سمجھ،عقل
بِساط : حیثیت
پَست : نیچا،گِراپڑا 
آن بان : شان و شوکت،رکھ رکھاؤ
نصیب : قسمت،تقدیر
قدرت : طاقت، خدا کی شان
حکمت : عقل مندی،خدا کی مرضی
نِری : صِرف 
ہُنر : کمال 
نِکمّی : ناکارہ، جو کسی کام کی نہ ہو
سوچیے اور بتائیے

سوال1: پہاڑ نے گلہری سے کیا کہا؟
جواب: پہاڑ نے گلہری کو ذرا سی چیز کہا اور پہاڑ نے گلہری سے کہا کہ شرم ہو تو جاکر پانی میں ڈوب مرے۔

سوال2: پہاڑ نے اپنی بڑائی کِن باتوں سے ظاہر کی؟
جواب: پہاڑ نے اپتی بڑائی کرتے ہوئے گلہری کو نیچا دکھایا اور کہا کہ پہاڑ کی آن بان کے آگے زمین بھی پست ہے۔

سوال3: گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر کیا کہا؟
جواب: گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر پہاڑ کو منھ سنبھالنےکہا اور کہا کہ ان کچّی باتوں کو دل سے نکال دے،اگر وہ پہاڑ کی طرح بڑی نہیں تو کیا ہوا خدا نے کسی کو بڑا کسی کو چھوٹا اور سب کو الگ کام کرنے کے لئے بنایا ہے۔

سوال4: گلہری میں کیا خوبی ہے جو پہاڑ میں نہیں ہے؟
جواب: گلہری درخت پہ چڑھ سکتی ہے، چھالیا توڑ سکتی ہے لیکن پہاڑ یہ سب نہیں کر سکتا۔

سوال5: خدا کی حکمت کِن باتوں سے ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: دنیا کی ہر چیز سے خدا کی حکمت ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا میں خدا کی بنائی کوئی بھی چیز بیکار نہیں اور کوئی بھی چیز بری نہیں ہے۔

خالی جگہ کو بریکٹ میں دیے ہوئے صحیح لفظ سے بھریے
1. تجھے ہو شرم،تو پانی میں جاکے ڈوب مرے(دریا،پانی)
2. خدا کی شان ہے نا چیز چیز بَن بیٹھیں(بَن،کر)
3. تِری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟(آن، شان)
4. بھلا پہاڑ کہاں،جانور غریب کہاں؟(غریب،امیر)
5. نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا(موٹا،چھوٹا)
6. ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے(عظمت،قدرت)
7. کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں(برا،بڑا)

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Tuesday 21 August 2018

Eid ul Azha Mubarak

قارئین آئینہ کو عید الاضحیٰ کی پرخلوص مبارک باد۔
آپ سب کی آسانی کے لیے قربانی کی دعا کا ایک کارڈ شائع کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کی قربانیوں کو قبول فرمائیں۔



Monday 20 August 2018

(Tulip) گل لالہ یا نرگس

گل لالہ یا نرگس (Tulip)



گل لالہ یا نرگس دنیا میں پائے جانے والے سب سے خوبصورت اور مقبول پھولوں میں سے ایک ہے۔انگریزی میں اسے Tulip کہتے ہیں۔ جنگلی ٹیولپ کی تقریباً 75 قسمیں ہیں۔ اور مختلف چنندہ اختلاط سے اس کی تقریباً تین ہزار قسمیں تیار کی جاتی ہیں۔اس پھول کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے۔ اسے 16 ویں صدی میں یوروپ لے جایا گیا۔ یہ 16 ویں صدی کے وسط میں عثمانی سلطان سلیمان محتشم کے قسطنطنیہ کے محل سے نیدر لینڈ کے سفیر کے ذریعہ نیدر لینڈ پہنچا اورپھر اس کا ساری دنیا میں رواج ہوگیا۔  آج گل لالہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔یہ موسم بہار کے سرد حصہ میں ہوتا ہے۔یعنی یہ ٹھنڈے موسم میں پروان چڑھتا ہے۔کم درجہ حرارت میں مناسب موسم اس کے بیج کی نشو و نما کے لیے مناسب ہوتا ہے۔
گل لالہ کا رنگ اس کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے پھول پیلے، نارنگی، گلابی، لال اور جامنی کے مختلف شیڈوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کچھ پھول مختلف رنگوں کے ملاپ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔
لالہ کے پھول کٹورا نما ہوتے ہیں۔ اس میں تین پنکھڑیاں اور تین سیپلیں ہوتی ہیںچونکہ پنکھڑیاں اور مسند گل ایک ہی شکل کی ہوتی ہیں اس لیے اس کانام ٹیپَلس رکھا گیا۔ ٹیپل پھول کے بیرونی گھیرے کا ایک حصے کو کہتے ہیںجس میں سنبلہ ار پتیاں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔
ٹیولپ کا نام ترکی زبان سے لیا گیا۔ ترکی میں اسے قومی پھول کا درجہ حاصل ہے۔ترکی زبان میں ٹیولپ کے معنی  مخروطی شکل کے ہیں کیونکہ دیکھنے میں یہ ترکی ٹوپی کے بالکل مشابہ لگتا ہے۔
عام طور سےگل لالہ میں دو سے چھ پتیاں ہوتی ہیں۔لیکن اس کی بعض قسموں میں 12 پتیاں تک ہوتی ہیں۔
 گل لالہ کی جڑ پیاز کی مانند ہوتی ہےاور یہ زمین میں 4 سے 6 انچ تک دھنسی ہوتی ہے۔ اس کی مٹی نم رکھی جاتی ہے۔ گل لالہ زیادہ مدت  تک باقی نہیں رہتا لیکن یہ پھول زمین سے الگ کیے جانے کے بعد بھی پیدا ہوتا رہتا ہے۔
گملے میں ایک انچ تک کی لمبائی والا ٹیولپ پیدا کیا جاسکتا ہے۔
یہ فنگل،بیکٹیریا اور وبائی بیماریں سے متاثر ہوتا ہے۔خرگوش ،چوہے اور گلہریاں  ٹیولپ کھانا پسند کرتے ہیں۔جبکہ گھوڑے، بلیوں اور کتوں کے لیے ٹیولپ کھانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس سے ایسے کیمیاوی اجزا خارج ہوتے ہیں جس سے الرجی ہوسکتی ہے۔
گل لالہ کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی اور عام طور سے یہ تین سے سات دنوں تک زندہ رہتا ہے۔
کشمیر کے سری نگر میں نرگس کے پھولوں کے باغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایشیا کا سب سے بڑا باغ ہے۔سری نگر میں نرگس کے پھولوں کے باغ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی مختلف رنگوں میں نہا جاتے ہیں۔
کشمیر میں گل لالہ یا نرگس کے پھولوں کی کاشت تجارتی مقصد سے کی جاتی ہے اور یہ دورے ملکوں کو برآمد بھی کیا جاتا ہے۔سر نگر کے ٹیولپ گارڈن کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ ایشیا میں گل لالہ کا سب سے بڑا باغ ہے۔ نرگس کے ان باغوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے پھولوں کی قالین بچھی ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ منظر اس قدر دلکش اور پرسکون ہوتا ہے کہ کوئی ذی روح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
گل لالہ کو اردو شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اور اسے مختلف علامتوں کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اقبال کا یہ محبوب پھول ہے۔ کہتے ہیں
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

خدیجة الکبریٰ گرلز پبلک اسکول کی طالبات کی نمایاں کارکردگی۔ صحبہ عثمانی کو اول انعام



(بہ شکریہ راشٹریہ سہارا و ہندوستان ایکسپریس)

Sunday 19 August 2018

Ek Khat - NCERT Solutions Class VI Urdu

 Ek Khat by Pandit Jawaharlal Nehru Apni Zaban Chapter 2 Class 6 NCERT Solutions Urdu

ایک خط
پنڈت جواھر لعل نہرو کا خط، اپنی بیٹی اندرا کے نام 
Courtesy NCERT
نینی سینٹرل جیل، الہ آباد 
26 اکتوبر 1930ء
پیاری بیٹی!
تمھیں اپنی سالگرہ کے موقع پرتحفے اور نیک خواہشات ملتی ہی رہی ہیں۔ نیک خواہشات کی تو اب بھی کوئی کمی نہیں لیکن میں نینی جیل سے تمھارے لیے کیا تحفہ بھیج  سکتا ہوں؟ نیک خواہشات کا تعلق تو دل سے ہے، جیسے کوئی پری تمھیں یہ سب کچھ دے رہی ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں جیل کی اونچی دیواریں بھی نہیں روک سکتیں۔
تم خوب جانتی ہو کہ مجھے نصیحت کرنے سے کتنی نفرت ہے۔ جب کبھی میرا جی چاہنے لگتا ہے کہ نصیحت کروں تو ہمیشہ اس ’’عقل مند“ کی کہانی یاد آجاتی ہے جو میں نے کبھی پڑھی تھی۔ شاید ایک دن تم بھی وہ کتاب پڑھو جس میں یہ کہانی بیان کی گئی ہے۔
کوئی تیرہ سو برس گزرے کہ ملک چین سے ایک سیّاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا ۔ اس کا نام ہیون سانگ تھا۔ وہ شمال کے پہاڑ اور ریگستان طے کرتا ہوا یہاں پہنچا۔ اسے علم کا اتنا شوق تھا کہ راستے میں اس نے سیکڑوں مصیبتیں اٹھائیں اور ہزاروں خطروں کا مقابلہ کیا۔ وہ ہندوستان میں بہت دن رہا۔ خود سیکھتا تھا اور دوسروں کو سکھاتا تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت نالندہ ودّیا پیٹھ میں گزرا جوشہر پاٹلی پُتر کے قریب واقع تھی۔ اس شہرکواب پٹنہ کہتے ہیں۔
ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہو گیا حتٰی کہ اس کو فاضلِ قانون (بُدھ مت) کا خطاب دیا گیا۔ پھر اس نے سارے ہندوستان کا سفر کیا۔ اس عظیم الشان ملک کے باشندوں کو دیکھا بھالا اور ان کے بارے میں پوری معلومات حاصل کیں ۔ اس کے بعد اس نے اپنا سفر نامہ لکھا۔ اس کتاب میں وہ کہانی بھی شامل ہے جو اس وقت مجھے یاد آئی :
یہ ایک شخص کا قصہ ہے جو جنوبی ہند سے شہر ”کرنا سونا“ میں آیا۔ یہ صوبہ بہار بھاگل پور کے آس پاس کہیں تھا ہیون سانگ نے سفر نامے میں لکھا ہے کہ ایک شخص اپنے پیٹ کے چاروں طرف تانبے کی تختیاں باندھے رہتا تھا۔ سر پر ایک جلتی ہوئی مشعل رکھتا تھا۔ ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوئے اکڑ اکڑ کر چلتا تھا اور اس عجیب و غریب انداز میں بڑی شان سے ادھر ادھر گھومتا پھرتا تھا۔ جب کوئی اس سے پوچھتا کہ آخر آپ نے یہ کیا صورت بنارکھی ہے؟ تو وہ جواب دیتا کہ”میرے اندر بے حساب علم بھرا ہوا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میرا پیٹ نہ پھٹ جائے ۔ اس لیے میں نے اپنے پیٹ  پر تانبے کی تختیاں باندھ رکھی ہیں۔  اور چوں کہ تم سب لوگ جہالت کے اندھیرے میں رہتے ہو، مجھے تم پر ترس آتا ہے، اس لیے میں ہر وقت اپنے سر پر مشعل لیے پھرتا ہوں ۔“
ہاں تو مجھے ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ بہت زیادہ علم وحکمت سے پھٹ جاؤں، اس لیے مجھے اپنے پیٹ پر تانبے کی تختیاں باندھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور  یہ بھی جانتا ہوں کہ میری عقل میرے پیٹ میں نہیں ہے، بلکہ جہاں کہیں بھی ہو، اس میں اتنی گنجائش ہے کہ بہت کچھ اور سما سکے ۔ اور جب میری عقل محدود ہے تو میں کیسے ایک عقل مند آدمی بن کر دوسروں کو مشورہ دوں ۔ اس لیے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے اور اس بحث مباحثےسے کبھی کبھی کوئی سچائی نکل آتی ہے۔
اس لیے میں نصیحت نہیں کروں گا۔ پھر کیا کروں ۔ خط باتوں کی جگہ نہیں لے سکتا، کیونکہ یہ یک طرفہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں اگر کوئی بات کہوں اور وہ تم کو نصیحت لگے  تو اسے کڑوی گولی سمجھ کر مت نگلو۔ بس یہ سمجھو کہ میں تم کومشورہ دے رہا ہوں ، اور گویا ہم تم آمنے سامنے بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔
میں نے تم کولمبا سا  خط لکھ ڈالا ،ابھی بہت سی باتیں باقی ہیں، اتنی باتیں اس خط میں کیسے آسکتی ہیں! 
تم بڑی خوش قسمت ہو کہ اپنے ملک کی آزادی کی جدو جہد کو دیکھ رہی ہو تم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہو کہ ایک بہادر عورت تمہاری ماں ہے۔ اگرتم کو کبھی کسی بات میں شبہ ہو اور  یا تم کسی پریشانی میں ہوتو تم کو ماں سے بہتر ساتھی نہیں مل سکتا ۔
خداحافظ بیٹی!- میری دعا ہے کہ تم ایک دن بہادر سپاہی بنواور ہندوستان کی خدمت کرو۔
 محبت اور نیک خواہشات کے ساتھ ۔
جواہر لعل نہرو

معنی یاد کیجیے
 نینی جیل  الہ آباد کی ایک جیل
 سیّاح :    جگہ جگہ سیر کرنے والا،ملکوں ملکوں گھومنے والا
 علم :    واقفیت،معلومات
 دانش :    عقل،سمجھ
 نالندہ ودیا پیٹھ :    پرانے زمانے کی ایک یونیورسٹی جو پاٹلی پُتر، پٹنہ کے قریب تھی
 پاٹلی پُتر :    موجودہ نام پٹنہ
 فاضلِ قانون :    قانون کو جاننے والا،ماہرِ قانون
 بدھ مت :    بدھ مذہب
 عظیم الشان :    بڑی شان والا، اعلیٰ
 سفر نامہ :    وہ تحریر جس میں سفر کے حالات بیان کیے گئے ہوں
 شبہ :    شک
 اندیشہ :    خطرہ، ڈر
 جہالت :    نہ جاننا،علم کا نہ ہونا، ناواقفیت
 ترس  :    رحم
 مشعل :    وہ ڈنڈا جس کے ایک سرے پر کپڑا لپیٹ کر جلایا جاتا ہے اور اس سے روشنی کی جاتی ہے، چراغ
 علم و حکمت :    عقل مندی، دانش مندی
 گنجائش :    سمائی، جگہ
محدود :   حد کے اندر، تنگ
بحث و مباحثہ  بحث و تکرار
 جِدّو جہد :   سخت کوشش

Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے
1۔ پنڈت جواہر لال نہرو کون تھے؟
جواب: پنڈت جواہر لال نہرو مجاہد آزادی تھے۔

2۔ پنڈت نہرو نے یہ خط کس کے نام اور کہاں سے لکھا؟
جواب:پنڈت نہرو نے یہ خط اپنی بیٹی اندرا کے نام نینی سینٹرل جیل،آلہ آباد سے لکھا۔

3۔ چینی سیّاح کا کیا نام تھا؟
جواب: چینی سیّاح کا نام ہیون سانگ تھا۔

4۔ جواہر لال نہرو نے نصیحت کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا؟
جواب:جواہر لال نہرو نے اپنی بیٹی کو نصیحت کرنے کے لیے مکتوب کا سہارا لیا ۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا کہ  انھیں نصیحت کرنے سے نفرت ہے،لہٰذا اس خط سے بس یہ سمجھو کے میں تمہیں مشورہ دے رہا ہوں اور گویا ہم تم آمنے سامنے بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔

5۔ چینی سیّاح ہندوستان کیوں آیا؟
جواب:چینی سیّاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔

6۔ چینی سیّاح کو علم حاصل کرنے کے لیے کن حالات سے گزرنا پڑا؟
جواب: چینی سیّاح شمال کے پہاڑ اور ریگستان طے کرتا ہوا ہندوستان پہنچا،اُسے علم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ راستے میں اُس نے سیکڑوں مصیبتیں اٹھائیں اور ہزاروں خطروں کا مقابلہ کیا۔

7۔ ہندوستان میں چینی سیّاح کا زیادہ وقت کہاں گزرا؟
جواب: ہندوستان میں چینی سیّاح کا زیادہ وقت نالندہ ودّیا پیٹھ میں گزرا جو شہر پاٹلی پُترکے قریب واقع تھی۔

8۔ ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں ایک شخص کو عجیب و غریب کیوں کہا ہے؟
جواب: ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں ایک شخص کو عجیب و غریب اس لیے کہا ہے کیونکہ وہ اپنے پیٹ کے چاروں طرف تانبے کی تختیاں باندھے رہتا تھا اور سر پر ایک جلتی ہوئی مشعل رکھتا تھا۔

9۔ اس واقعہ کا ذکر کرکے پنڈت نہرو اپنی بیٹی کو کیا سبق دینا چاہتے تھے؟
جواب: نہرو اس واقعہ کا ذکر کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے علم و دانش پر بہت گھمنڈ اور دکھاوا نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایسی چیزیں اسے دوسروں کے سامنے رسوا کرتی ہیں اس لیے چینی سیاح نے اُس کا ذکر مزاق کے طور پر کیا۔ وہ اس کی ظاہری شکل و صورت دیکھ کر اس شخص سے ذرا بھی مرعوب نہ ہوا اور اس سب کو ڈھونگ تصور کیا۔ نہرو یہاں اپنی بیٹی کو اپنے علم و دانش پر فخر کرنے کے بجائے اُسے سادگی کی تلقین کر رہے ہیں۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1.نیک خواہشات کا تعلق تو دل سے ہے۔
2.چین کا ایک سیّاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔
3.ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہو گیا۔
4.اس کو فاضلِ قانون (بدھ مَت) کا خطاب دیا گیا۔
5.اس کے بعد اس نے اپنا سفرنامہ لکھا۔
6.یہ شخص اپنے پیٹ کے چاروں طرف  تانبے کی تختیاں  باندھے رہتا تھا۔
7.میں ہر وقت اپنے سر پر مشعل لیے پھرتا ہوں۔
8.اپنے ملک کی آزادی کی جِدّو جہد کو دیکھ رہی ہو۔

نیچے دیے ہوئے جملوں کو صحیح ترتیب سے لکھیے
1.میرے اندر بے حساب علم بھرا ہوا ہے۔
2.میں نینی جیل سے تمہارے لیے کیا تحفہ بھیجوں۔
3.اور جب میری عقل محدود ہے تو میں کیسے ایک عقلمند آدمی بن کر دوسروں کو مشورہ دوں۔
4.ملک چین سے ایک سیاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔
5.تم ایک دن بہادر سپاہی بنو اور ہندوستان کی خدمت کرو۔
6.اس کا زیادہ وقت نالندہ ودیا پیٹھ میں گزرا جو شہر پاٹلی پتر کے قریب واقع تھی۔
7.اس کے بعد اس نے اپنا سفرنامہ لکھا۔
8.ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہوگیا۔

جواب:
1.میں نینی جیل سے تمہارے لیے کیا تحفہ بھیجوں۔
2.ملک چین سے ایک سیاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔
3.اس کا زیادہ وقت نالندہ ودیا پیٹھ میں گزرا جو شہر پاٹلی پتر کے قریب واقع تھی۔
4.ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہوگیا۔
5.اس کے بعد اس نے اپنا سفرنامہ لکھا۔
6.میرے اندر بے حساب علم بھرا ہوا ہے۔
7.اور جب میری عقل محدود ہے تو میں کیسے ایک عقلمند آدمی بن کر دوسروں کو مشورہ دوں۔
8.تم ایک دن بہادر سپاہی بنو اور ہندوستان کی خدمت کرو۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے
سیّاح ہیون سانگ ایک چینی سیاح تھا۔
عظیم الشان             :   ہندوستان ایک عظیم الشان ملک ہے۔
 علم و حکمت :   علم و حکمت خدا کی ایک نعمت ہے۔
 بحث و مباحثہ :   تم ہی بے وجہ بحث و مباحثہ کرنے لگتے ہو۔
 مشعل :   رات کی تاریکی دور کرنے کے لیے رحیم نے مشعل جلائی۔









لکھیے
اپنے دوست کو ایک خط لکھیے جس میں اس خط کی کہانی کا ذکر ہو۔

یاد رکھیے 
پاٹلی پتر کا نیا نام ”پٹنہ“ ہے۔ یہ شہر بہار کی راجدھانی ہے۔

غور کرنے کی بات
خط کو مکتوب بھی کہتے ہیں۔ اس کا تعلق دو لوگوں سے ہوتا ہے۔ایک خط لکھنے والا جسے مکتوب نگار کہتے ہیں اور جسے خط لکھا جائے وہ مکتوب الیہ کہلاتا ہے۔اس خط میں مکتوب نگار پنڈت جواہر لعل نہرو اور مکتوب الیہ ان کی بیٹی اندرا ہیں۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

خوش خبری