آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 9 September 2018

Barsaat Ki Baharein - NCERT Solutions Class VII Urdu

برسات کی بہاریں
نظیر اکبر آبادی
CourtesyNCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔  ’’ہرے بچھونے‘‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: ہرے بچھونے سے مراد ہے کہ حق نے چاروں جانب سبزہ بکھیر دیا ہے۔ ہر جانب ہریالی ہے۔

2۔  ’’ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں ‘‘سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: اس سے شاعر کی مراد ہے کہ برسات میں طرح طرح کی بہاریں ہیں۔ اس میں سبزوں کی لہلہاہٹ ہے، بوندوں کی جھماجھم ہے،قطرات و باغات کی بہاریں ہیں غرض کہ ہر طرح کے تماشے ہیں۔

3۔  تیتر’’سبحان تیری قدرت‘‘ کیوں  پکارتے ہیں؟
جواب:سبحان تیری قدرت پکار کر تیتراللہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔

4۔  پرندے کس کی رٹ لگا رہے ہیں؟
جواب: پرندے حق حق کی رٹ لگا رہے ہیں وہ اللہ کی حمد و ثنا میں مصروف ہیں۔

5۔  شاعر نے برسات کے موسم میں کن چیزوں کے بھیگنے کا ذکر کیا ہے؟
جواب: شاعر نے اس موسم میں گلزار، شہر و دیار و کوچہ و بازار، صحرا ،جھاڑ،بوٹے و کہسار ودلدار کے بھیگنے کا ذکر کیا ہے۔

ان لفظوں کے واحد لکھیے
بچھونے : بچھونا
تماشے : تماشہ
بوندوں : بوند
قطرات : قطرہ
باغات : باغ

مصرعے مکمل کیجیے
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماہٹ قطرات کی بہاریں
ہر جا بچھا رہا ہے سبزا ہرے بچھونے 
جنگل میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے
سب مست ہو رہے ہیں پہچان تیری قدرت 
تیتر پکارتے ہیں سبحان تیری قدرت 
جو مست ہو ادھر کے کرشور ناچتے ہیں 
مینڈک اچھل رہے ہیں اور مور ناچتے ہیں

املاء درست کیجیے
باگات : باغات
کتراط : قطرات
صبزے : سبزے
خدرت : قدرت
ہق : حق
عان : آن
تیطر : تیتر
جور : زور
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Salim Ali - NCERT Solutions Class VII Urdu

سالم علی
CourtesyNCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔  سالم علی کا اصل نام کیا تھا؟
جواب: سالم علی کا اصل نام معزالدین عبدالعلی تھا۔

2۔  سالم علی کو اورنیتھولوجسٹ(ornithologist)کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: سالم علی پرندوں کے علم کے ماہر تھے اس لیے انہیں ماہر طیور یعنی اورنیتھولوجسٹ کہا گیا ہے۔

3۔  سالم علی کے شکاری چچا کا نام کیا تھا؟
جواب: سالم علی کے شکاری چچا کا نام امیر الدین سید تھا۔

4.  سالم علی نے نیچرل ہسٹری سوسائٹی میں جاکر کون سا کام سیکھا؟
جواب:انہوں نےوہاں چڑیوں کو پہچانا اور مردہ چڑیوں کی کھال میں بھراؤ کرنا سیکھا۔

5۔  سالم علی پوری دنیا میں کیوں مشہور ہوئے؟
جواب: سالم علی نے لمبے عرصے تک پرندوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ انہوں نے خاص لمبی مدت تک بیا کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔تین چار مہینوں تک گھنٹوں صبح سے شام تک سالم علی اس چڑیا کے رہن سہن اور عادتوں کا مشاہدہ کرتے رہے۔1930 میں انہوں نے اپنی معلومات کو کتاب کی شکل میں پیش کیا۔اس کتاب سےپوری دنیا میں ان کی شہرت پھیل گئی۔

6۔  1941 میں سالم علی کی کون سی کتاب شائع ہوئی ہے اور اس میں کیا بیان کیا گیا ہے؟
جواب: سالم علی کی1941 میں'دی بک آف انڈین برڈس نامی کتاب شائع ہوئی۔اس کتاب میں رنگین اور خوبصورت تصویروں کے ذریعہ پرندوں کی پہچان کرائی گئی اور اس کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کی گئیں۔

7۔  ’’پوری دنیا میں ان کی خدمات کو قبول کیا گیا‘‘اس جملے کا کیا مطلب ہے؟
جواب: اس جملے کا مطلب ہے کہ سالم علی نے چڑیوں سے متعلق جو معلومات پیش کیں ان کا علم لوگوں کو نہیں تھا۔ اس لیے پوری دنیا نے ان کی معلو مات کو تسلیم کیا اور اعتراف کے طور پر انہیں اعزازات،ڈگریوں اور انعامات سے نوازا۔

8۔  سالم علی کو کون سےقومی اعزاز ملے؟
جواب: حکومت ہند نے سالم علی کو 1958 میں پدم بھوشن، پھر 1976 میں پدم بھشن کا اعزاز دیا۔ یہ ہماری حکومت کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1۔ پرندوں کی دنیا بھی کتنی رنگارنگ دنیا ہے۔
2۔ ملک کے نامور ماہرطیورسالم علی تھے۔
3۔ سالم علی 12 نومبر1896 کو پیدا ہوئے۔
4۔ وہ دس سال کے تھے تو ایک بار کسی شکاری نے ایک گوریّا شکار کیا۔
5۔ سالم نے نیچرل ہسٹری سوسائٹی ،بمبئی کے اعزازی سکریٹری ڈبلیو ملئرڈ سے ملاقات کی۔
6۔ سالم علی نے مردہ چڑیوں کی کھال میں بھراؤ کرنا سیکھ لیا۔
7۔ سالم علی کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی۔
8۔ سالم علی نے علم حیوانات  میں کورس مکمل کیا۔
9۔ انہوں نے کافی لمبے عرصے تک بیا کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔
10۔ سالم علی کو 1976 میں پدم وبھوشن اعزاز دیا گیا۔


نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے
پرندوں : سالم علی پرندوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
زندگی : پرندوں کی زندگی کی قدر کرنی چاہیے۔
معلومات : ہمیں پرندوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔
فضا : باغ کی فضا خوبصورت ہے۔
اعزاز : پدم وبھوشن ایک بڑا اعزاز ہے۔
خدمات : ہمیں سالم علی کی خدمات کی قدر کرنی چاہیے۔
سالم علی کو اپنی خدمات کا صلہ انعام و اکرام کی صورت میں ملا۔
حکومت : حکومت نے کام میں تعاون کیا۔
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Saturday 8 September 2018

Chiddoo - NCERT Solutions Class VII Urdu

چِھدّو
CourtesyNCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1.  چھدّو کس قسم کا لڑکا تھا؟
جواب: چھدّو ایک نٹ کھٹ بچّہ تھا جو ہر چیز کو دیکھ کر یہی کہتا میں بھی یہی کروں گا۔

2.  گھوڑے سے مل کر چھدّو کیوں خوش ہوا؟
جواب:گھوڑے سے مل کر چھدّو اس لیے خوش ہوا کیو نکہ وہ اس پر بیٹھ کر ہرجگہ گھوم پھر سکتا تھا۔

3۔  چھدّو گھوڑے پر سوار ہو کر کہاں کہاں سے گزرا؟
جواب: چھدّو گھوڑے پر سوار ہوکر بڑے سے میدان، اونچے پہاڑ، گھنے جنگل اور ہرے بھرے کھیت سے گزرا۔

4۔  گھوڑےکے لیے ریت پر چلنا کیوں دشوار تھا؟
جواب: گھوڑے کے لیے ریت پر چلنا اس لیے دشوار تھا کہ گھوڑے کےپاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے۔

5.  چھدّو نے سمندر کی سیر کیسے کی؟
جواب: چھدّو نے سمندر کی سیر مچھلی کی پیٹھ پر بیٹھ کر کی۔

6۔  کالے کپڑے پہنے ہوئے عورت کون تھی اور کہاں جا رہی تھی؟
جواب: کالے کپڑے پہنے ہوئی عورت رات تھی جو آسمان سے زمین پر جا رہی تھی۔ یہاں کالے کپڑے سے مراد رات ہے۔

7  پانی سے سر نکالتے ہی چھدّو کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
جواب: پانی سے سر نکالتے ہی ایک بڑا سا پرندہ اوپر سے آیا اور اس نے چھدّو کو اپنی چونچ میں اٹھاکر اسے اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا۔

8۔  پرندے کے رخ موڑتے ہی چھدّو کو گود میں کس نے اٹھا لیا؟
جواب: پرندے کے رخ موڑتے ہی چھدّو کو بادل نے اپنی گود میں اٹھا لیا۔

9۔  دو گرم گرم بوندیں کس کو کہا گیا ہے؟
جواب: ماں کے آنسوؤں کو دو گرم گرم بوندیں کہا گیا ہے۔

10۔بادل نے چھدّو کو آنسو کے بارے میں کیا بتایا؟
جواب:بادل نے چھدّو کو بتایا کہ یہ اس کی ماں کے آنسو ہیں۔وہ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئی تھی اور ایک جگہ بیٹھ کر رو رہی تھی میں پاس سے گزرا تو اس کے یہ دو آنسو لے آیا۔

11۔  چھدّو کی روتے روتے ہچکی کیوں بندھ گئی اور اس نے کیا خواہش ظاہر کی؟
جواب: چھدّو کی ہچکی اس لیے بندھ گئی کہ اسے اپنی ماں کا خیال آیا جو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے رونے لگی تھی اس لیے چھدّو نے اپنی ماں کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی۔

12۔   چھدّو نے آنکھیں کھولیں تو اس نے کیا دیکھا؟
جواب: چھدّو نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا ک ماں دونوں ہاتھوں سے چمیلی کی شاخیں ہٹا رہی ہے۔ وہ خوشی سے چلا رہی ہے کہ لوگوں دیکھو میرا چھدّو یہ ہے میرا چھدّو یہ ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنےجملے میں استعمال کیجیے
تالاب : مچھلیاں تالاب میں تیر رہیں ہیں۔
تالاب کا پانی گندا ہے۔
تالاب میں نہانا اچھا لگتا ہے۔
خوب صورت : باغ میں بہت خوب صورت پھول ہیں۔
درخت پر ایک خوبصورت پرندہ بیٹھا تھا۔
اسلم کا گھر بہت خوبصورت ہے۔
سوار : پہلے لوگ گھوڑے پر سوار ہو کر دوسری جگہ جاتے تھے۔
چھدّو پرندے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔
رخ : اس نے جاتے جاتے اپنا رخ موڑ لیا۔
رخ سے ذرا نقاب ہٹا دو مرے حضور
پرندے نے رخ موڑا تو چھدّو بادل کی گود میں تھا۔
پرندہ : آسمان میں پرندے اڑ رہے ہیں۔۔
صبح صادق پرندے چہچہا رہے تھے۔
پہرا : پہرے دار پہرا دیتے دیتے سو گئے اور چوری ہو گئی۔
سرحد پر فوج رات دن پہرہ دیتی ہے۔
چوڑاچکلا : سامنے سے ایک چوڑا چکلا نوجوان جا رہا ہے۔
قلی نے اپنا چوڑا چکلہ سینہ دکھایا۔


کالم الف سے کالم ب کو ملا کر محاورے مکمل کیجیے
سرپٹ : دوڑنا
بانچھیں :  کھلنا
آنکھیں :  بند ہونا
موجیں : مارنا
خوشی سے : پھولے نہ سمانا
سسکیاں : بندھنا

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Bahaar - NCERT Solutions Class VII Urdu

بہار
افسر میرٹھی
CourtesyNCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1. باغوں پر نکھار آنے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: موسم بہار آنے کی وجہ سے باغوں پر نکھار آگئی ہے۔

2۔ روشیں کیوں مہک رہی ہیں؟
جواب: کلیوں کے چٹکنے سے روشیں مہک رہی ہیں۔
###کلیاں چٹک کر پھول بن گئی ہیں اور اُس کی خوشبو سے روشیں مہک رہی ہیں۔

3۔ ’’جنت کا در کھلا‘‘ ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: جنت کا در کھلا ہے سے شاعر کی مراد ہے کہ یہ جو خوشگوار ہوا ہے وہ جنت سے آرہی ہے۔

4۔ چاندنی کیسی لگ رہی ہے؟
جواب:چاندنی ایسی لگ رہی ہے جیسے نور  کا شامیانہ تن گیا ہے۔

5۔ سڑکوں پر جانے والے لوگ کیا گا رہے ہیں؟
جواب:سڑکوں پر جانے والے لوگ  افسر میرٹھی کی غزلیں گا رہے ہیں۔

مصرعے مکمل کیجیے
آیا ہے بہار کا زمانہ
کلیاں کیا کیا چٹک رہی ہیں
چڑیاں گاتی ہیں گیت پیارے
گویا جنت کا در کھلا ہے
ہر دل میں امنگ کس قدر ہے
سب پر ہی بہار کا اثر ہے
غزلیں افسر کی گا رہے ہیں

نیچے لکھے لفظوں کے جملے بنائیے
نکھار : بہار میں پھولوں پر نکھار آجاتا ہے۔
چٹک : کلیاں چٹک گئیں۔
مہک :  پھولوں کی مہک پھیل گئی۔
ہرسو : وہاں ہرسو خوشی کا ماحول تھا۔
دلکشی : موسم کی دلکشی نے سب کو خوش کردیا۔
چاندنی : ہرسو چاندنی پھیل گئی۔
امنگ : بچّوں میں آزادی کی امنگ تھی۔
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Bi Amman - NCERT Solutions Class VII Urdu

بی امّاں
CourtesyNCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔بی امّاں کا تعلق کس خاندان سے تھا؟
جواب: بی امّاں کا تعلق رئیس اور منصب داروں کے خاندان سے تھا۔

2۔بی امّاں کے خاندان میں وطن سے محبت کس بات سے ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: ۱۸۵۷ میں اس خاندان نے طے کیا کہ اگر دلی اور میرٹھ کی طرح امروہہ میں بھی آزادی کی جدو جہد شروع ہوئی تو ہم انگریزی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور اپنی حکومت قائم کرلیں گے۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ بی امّاں کے خاندان میں ہمیشہ سے وطن سے محبت پائی جاتی ہے۔

3۔انگریزوں سے سمجھوتے کی بات پر بی امّاں نے کیا کہا تھا؟
جواب: بی امّاں نے کہا گورنمنٹ یہ جان لے کہ اپنی تکلیفوں سے بچنے کے لیے اگر وہ (علی برادران) کسی ایسی بات کا اقرار کرلیں گہ جو ان کے مذہبی احکام یا ملکی فائیدوں کے ذرا بھی خلاف ہو تو مجھے یقین ہے کہ اللہ پاک میرے قلب کو اتنی مضبوطی اوران سوکھے جھریاں پڑے ہاتھوں میں اتنی طاقت دے گا کہ میں اس وقت ان دونوں کا گلا گھونٹ دوں گی۔

4۔شوہر کے انتقال کے بعد بی امّاں نے اپنے بچّوں کی پرورش کس طرح کی؟
جواب: بی امّاں نے ان دونوں بھائیوں کی تربیت اس ڈھنگ سے کی کہ آگے چل کر محمد علی اور شوکت علی نے انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ بی امّاں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنا زیور بھی رہن رکھ دیا۔

5۔علی برادران بی امّاں سے ملنے رامپور گئے تو انگریزوں نے  ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: انگریزوں نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔

6۔بی امّاں کی آخری خواہش کیا تھی؟
جواب: ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
آزادی : غلامی
نفرت : الفت
اقرار : انکار
رئیس : فقیر
شروع : ختم
مبارک : نا مبارک

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
بزرگ : ہمیں اپنے بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے۔
اصرار : عوام آزادی کے لیے اصرار کرنے لگے۔
تربیت : بی امّاں نے اپنے بیٹوں کو اچھی تربیت دی۔
رخصت : وہ لندن کے لیے گھر سے رخصت ہوئے۔
حوصلہ : اس نے حوصلے سے کام لیا۔
خواہش : بی امّاں کو آزاد ہندوستان دیکھنے کی خواہش تھی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1۔ مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی امّاں کے طور پر جانی جاتی تھیں۔
2۔ بی امّاں کا تعلق رئیسوں اور منصب داروں کے خاندان سے تھا۔
3۔ انگریزوں کے مظالم کی داستانیں بھی بزرگوں ۔سے سن رکھی تھیں۔
4۔ علی برادران نے قلم اور زبان کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی۔
5۔ انگریز حکومت نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔
6۔ ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Friday 7 September 2018

Falsafi Naukar - NCERT Solutions Class VII Urdu

فلسفی نوکر 
courtesy NCERT


سوچیے اوربتائیے 
 1۔مالک نے نوکر سے کیا کام کرنے کے لیے کہا؟
جواب:مالک نے نوکر سے کہا کہ وہ پیر پسار کر سو جائے۔ میں اپنے قیمتی اور تیز رفتار گھوڑے کی خود نگرانی کروں گا۔

2۔مالک کے باربار پوچھنے پر نوکر کیا جواب دیتا تھا؟
جواب: مالک کے بار بار پوچھنے پر نوکر نے جواب دیا کہ آپ بے فکر رہیں اور اطمنان سے سو جائیں۔

3۔فلسفی نوکر آسمان کے بارے میں کیا سوچ رہا تھا؟
جواب:فلسفی نوکر آسمان کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالی ٰ نے اسے بغیر ستونوں کے کس طرح کھڑا کر رکھا ہے اور کیل گاڑنے میں زمین کی مٹی کہاں غائب ہوجاتی ہے۔

4۔تین پہر رات سے پہلے مالک کیوں اطمینان سے سوگیا؟
جواب:مالک اس لیے اطمینان سے سو گیا کہ نوکر نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ گھوڑے کی حفاظت کر رہا ہے۔

5۔گھوڑا کس طرح چوری ہوا؟
جواب: مالک اپنے نوکر کی بات میں آکر بے فکری اور اطمنان سے سو گیا اور نوکر اپنے خیالوں میں کھو گیا۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہئے چور سرنگ لگا کر گھوڑا چرا لے گئے۔

6۔گھوڑا چوری ہونے کے بعد آقا پر کیا گزری؟
جواب: یہ وحشت اثر خبر سن کر آقا کے ہوش اڑ گئے۔

7۔آقا نے نوکر کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: آقا نے نوکر کو بہت سخت سست سنائی۔
خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
۱۔ اس کے ساتھ اس کا نوکر بھی تھا۔
۲۔ اس شہر کے چور بڑے   بےدرد  اور چوری کرنےمیں نہایت دلیر  ہیں۔
۳۔ اپنے اس  قیمتی  اور تیز رفتار گھوڑے کی خود نگرانی کروںگا ۔
۴۔ نا چیز نوکر ساری رات جاگ کر گھوڑے کی نگرانی اور پاسبانی کریگا۔
۵۔ آپ بے فکر رہیئے اور اطمینان سے سو جائیے۔
۶۔ آسمان بغیر ستونوں کے کس طرح کھڑا کر رکھا ہے اور کیل گاڑنے میں زمین کی مٹّی کہاں غائب ہو جاتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے:
شخص : ہر شخص کواپنا کام ایمانداری سے کرنا چاہیے۔
مالک : اس دوکان کا مالک ایماندار ہے۔
دلیر : ہر فوجی دلیر ہوتا ہے۔
نگرانی : آپ سی سی ٹی وی کی نگرانی میں ہیں۔
آقا : غلام نے آقا کی بات مان لی۔
اطمینان : ہر کام اطمینان سے کرو۔
غلام : غلام گھوڑا لے کر فرار ہوگیا۔
آسمان : اس کے سر پر آسمان گر پڑا۔


ان لفظوں کے متضاد لکھئے
نوکر : مالک
شام : صبح
دلیر : بزدل
آرام : تکلیف
خواب : حقیقت
فائدہ : نقصان
لمبا : چھوٹا
زمین : آسمان
ناکام : کامیاب
بےوقوف : عقلمند

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
گھوڑا : گھوڑے
شہر : شہروں
نوکر : نوکروں
عزیز : اعزا
پیسے : پیسہ
طرف : اطراف
آنکھ : آنکھیں
اونٹ : اونٹوں
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Tuesday 4 September 2018

Garmi Ka Mausam - NCERT Solutions Class VII Urdu

گرمی کا موسم
اسماعیل میرٹھی
Courtesy NCERT
سوچیے اوربتائیے
سوال: گرمی کا موسم کس مہینے سے شروع ہوتا ہے؟
جواب: گرمی کا موسم مئی کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

سوال: دن کے کس حصّہ میں گرمی کی شدّت زیادہ ہوتی ہے؟
جواب: دن کے بارہ بجے گرمی کی شدّت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ گرمی کی دوپہر اپنی شدت کے لیے جانی جاتی ہے۔

سوال: لو کیسی ہوا کو کہتے ہے؟
جواب: لو گرم ہوا کو کہتے ہے۔ جیسے جیسے دن چڑھتا ہے ہوا گرم ہوتی جاتی ہے اور اسی گرم ہوا کو لُو کہتے ہیں۔

سوال: تڑاقے کی دھوپ سے کیا مراد ہے؟
جواب: تڑاقے کی دھوپ سے مراد ہے کہ گرمی کی شدّت زیادہ ہونے سے دھوپ میں شدّت آگئی ہے۔

سوال: مچھلی سے تڑپنے  کا کیا مطلب ہے؟
جواب: مچھلی کو پانی میں ٹھنڈک اور آرام ملتا ہے لیکن جب اس کو پانی سے نکال دو تو وہ تڑپنے لگتی ہے اسی طرح انسان کو بھی ہلکی ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے نہیں تو وہ گرمی کی وجہ سےبے چین ہوجاتا ہے۔ جسے دوسرے لفظوں میں مچھلی کی مانند تڑپنے کی مثال سے بھی جانا جاتا ہے۔

سوال: گرمی میں لوگ کس طرح گزارا کرتے ہیں؟
جواب: غریب  اپنا گزارا محنت کرکے کرتے ہیں وہ ایک جھونپڑی میں گزارا کرتے ہیں۔ دوسری جانب امیر اپنے کمروں میں پنکھے اور اے سی کا مزہ لیتے ہیں۔

سوال: پچھوا ہوا کو شعلہ کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: اس لیے کہ پچھوا ہوا آگ کے شعلہ کی طرح گرم ہوتی ہے۔

اشعار کو مکمل کیجیے
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا#####ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
 زمین ہے یا کوئی جلتا توا ہے#####کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی#####زمین کا فرش ہے  چھت آسماں کی
 نہ پنکھا ہے نا ٹٹی ہے نہ کمرہ#####ذرا سی جھوپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی#####غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے
لپٹ :  آگ کی لپٹ سے مریم کا ہاتھ جل گیا۔
ثمرہ : غریبوں کو محنت کرکے ثمرہ حاصل ہوتا ہے۔
محنت : غریب محنت کرکے گزارا کرتے ہیں۔
مبارک : عید کے دن مسلمان ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
توا : گرم توا سے آصف کا ہاتھ جل گیا۔

ان لفظوں کےمتضاد لکھئے
گرمی : سردی
آسمان : زمین
غریب : امیر
فرش : عرش
شعلہ : شبنم
دھوپ : چھاؤں
پوشیدہ : افشا
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Sunday 2 September 2018

Phool Walon Ki Sair - NCERT Solutions Class VII Urdu

پھول والوں کی سیر
سوچیے اوربتائیے 
سوال: ہندوستان کے مذہبی تہوار کون کون سے ہیں؟
جواب: ہندوستان کے مذہبی تہوار عید،کرسمس،دیوالی،گروپرب ہیں۔ اس کے غلاوہ اور بھی تہوار ہیں جو ملک کے الگ الگ حصّوں میں منائے جانتے ہیں

سوال: پھول والوں کی سیر کی کیا خاصیت ہے؟
جواب: پھول والوں کی سیر کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ہندو مسلم بھائی چارے کے ساتھ پھولوں کا پنکھامہرولی میں جوگ مایا کے مندر اور خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر چڑھانے کے لیے لے کر جاتے ہیں۔

سوال: انگریز ہندوستان میں کیوں آئے؟
جواب: انگریز ہمارے ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے لیکن یہاں آکر انہوں نے لوگوں میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے علاقوں میں قابض ہو گئے۔اور تجارت کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنا مقصد بنا لیا۔

سوال: پرانے زمانے میں کون کون سی سواریاں استعمال ہوتی تھیں؟
جواب: پرانے زمانے میں رتھ،بیل گاڑی،گھوڑے اور پالکیاں استعمال ہوتی تھی۔ 

سوال: میلے کے اہتمام میں بادشاہ کیا کرتے تھے؟
جواب: میلے کے اہتمام میں بادشاہ کُشتیاں دیکھتے تھے اور مرغے اور تیتر لڑاتے تھے۔گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ بھی ہوتی تھی۔ 

سوال: جوگ مایا کا مندر اور خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ کہاں واقع ہے؟
جواب:  جوگ مایا کا مندر اور خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ دہلی کے مہرولی میں واقع ہے۔

سوال: آخری مغل بادشاہ کا نام کیا تھا ؟
جواب:  آخری مغل بادشاہ کا نام مرزا جہانگیر تھا۔

سوال: آزادی کہ بعد پھول والوں کی سیرکس نے شروع کرائی؟
جواب: آزادی کہ بعد پھول والوں کی سیر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے شروع کروائی تھی۔ 

سوال: پھول والوں کی سیر کا میلہ ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟
جواب: پھول والوں کی سیر کا میلہ ہمیں آپسی بھائی چارہ کا سبق سکھاتا ہے۔ اس میلہ میں ہندو ، مسلم، سکھ، عیسائی  سبھی شریک ہوتے ہیں اور آپسی بھائی چارے اور عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ میلہ دہلی میں آپسی بھائی چارے کی ایک خاص تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
پھول والوں کی سیرسبھی مذہب کے لوگ مناتے ہیں۔
انگریزوں نے شہزادے کو قید کردیا۔
خواجہ بختیار کاکیؒ کا مزار مہرولی میں ہے۔
بیل گاڑی پر بیٹھ کر لوگ مہرولی جاتے تھے۔
پھول والوں کی سیر بھادو کے موسم میں ہوتا تھا۔
پھول والوں کی سیر مہینے کی چودھویں رات کو منایا جاتا تھا۔
پہلے دن پھولوں کا پنکھا جوگ مایا کے مندر پر چڑھایا جاتا تھا۔
دوسرے دن پھولوں کا پنکھا خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ پر چڑھایا جاتا تھا۔

نیچے لکھے ہوئےلفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
جوش وخروش : ہندوستان میں سبھی تیوہار جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔
دخل : دوسروں کے کام میں دخل نہ دیں۔ 
قید  :  اورنگ زیب نے شاہ جہاں کو قید میں ڈال دیا۔ 
دارالسلطنت  : دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ 
فروغ  :  ہمیں اردو زبان کا فروغ کرنا چاہیے۔
آپسی بھائی چارے کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
احترام  : ہمیں اپنے بڑوں کا احترام کرنا چاہیے۔ 
غول  : شیر نے ہرنوں کے غول پر حملہ کردیا۔ 
پرساد  : مندروں میں پرساد بٹ رہے تھے۔ 

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
مذاہب : مذہب
علاقہ : علاقوں
انگریزوں : انگریز
گاڑی : گاڑیاں
پنکھوں : پنکھا
پالکی : پالکیاں
حویلی : حویلیاں
کڑھائی : کڑھائیاں

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
بادشاہ : فقیر
قید : آزاد
برباد : آباد
رونق : بے رونق
پسند : ناپسند


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Sunday 26 August 2018

Hazrat Muhammad (PBUH) - NCERT Solutions Class VI Urdu

حضرت مُحمّد ﷺ
coutesyNCERT
عرب کے شہر مکہ میں اب سے کوئی ساڑھے چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ آپ کی پیدائش سے کچھ مہینے پہلے آپ کے والد عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس لیے آپ کے دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی۔ جب آپ چھ سال کے تھے، تو آپ کی والدہ بی بی آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ آٹھواں سال تھا کہ دادا بھی وفات پا گئے۔
پھر چچا ابو طالب نے آپ کی سر پرستی کی ۔ ذرا بڑے ہو کر آپ نے تجارت کی طرف توجہ کی اور بڑی محنت ، دیانت اور سچائی سے کاروباری معاملات کیے۔ آپ اس قدر ایمان دار تھے کہ لوگ آپ کو امین، یعنی ” امانت والا‘‘ اور ”صادق“، یعنی” سچا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ آپ نہ کھی جھوٹ بولتے ، نہ کسی کو دھوکا دیتے ، نہ لین دین کے معاملے میں ٹال مٹول اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ جو وعدہ کر لیتے، اس کو پورا کرتے ، چاہے اس میں تکلیف اٹھانی پڑے یا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
اگر کہیں جھگڑا ہو جاتا تو لوگ فیصلے کے لیے آپ کے پاس آتے ۔ اسی زمانے میں کعبہ کی عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آ ئی۔ چونکہ کعبہ تمام عرب میں سب سے زیادہ پاک اور محتر م جکہ سمجھی جاتی تھی ، اس لیے مکہ میں جتنے قبیلے تھے، سب چاہتے تھے یہ کام ہم ہی کریں ۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبیلوں کے سپرد کردی گئی ۔ سب نے خوشی خوشی اپنے حصے کا کام پورا کیا لیکن حجر اسود نصب کرنے کے سلسلے میں ایک مشکل آن پڑی ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ عزت ہمارے حصے میں آئے اور عمارت میں حجر اسود کو ہمارے ہی آدمی اٹھا کر اس جگہ لگائیں ۔ کئی روز تک جھگڑ ا ہوتا رہا۔ آخر طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو، وہ اس کا فیصلہ کرے یا خود ہی حجراسود کو اس کی جگہ پرنصب کردے۔
جانتے ہوا گلے روز کعبے میں سب سے پہلے داخل ہونے والا کون تھا؟ یہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم تھے۔ سب پکار اٹھے : لووہ امین آگئے، اب یہی اس جھگڑے کا فیصلہ کریں گے ۔ اور پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فیصلے نے واقعی سب کو خوش کر دیا۔ آپ نے کہا : ایک بڑی اور مضبوط چادر لاؤ چادر لائی گئی تو آپ نے اپنے ہاتھ سے حجر اسود اٹھا کر اس پر رکھا پھر فرمایا ۔
ہر قبیلے کا سردار آ گے بڑھے اور اس چادر کا ایک ایک سرا اپنے ہاتھوں میں تھام لے۔ اس طرح وہ لوگ حجر اسود کو کعبے کی دیوار کے پاس لے گئے ۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے صحیح جگہ پر رکھ دیا۔ اسی طرح ایک بڑا جھگڑا ختم  ہوگیا ، سب خوش ہو گئے ، مل جل کر کام کرنے کی برکت ہر ایک کی سمجھ میں آ گئی۔
کا رو بار سے فرصت پا کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر مکہ کے پاس پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں غارِ حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اور غور و فکر فرماتے ۔ چالیس سال کی عمر میں آپ نے انسا نوں کو خدا کا پیغام سنا یا اور انہیں برائیوں کو چھوڑ نے اور اچھی باتوں کو ماننے کی دعوت دی ۔ جس کتاب میں خدا کا یہ مکمل پیغام ہے اسے قرآن کہتے ہیں۔
جس زمانے میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کیا عرب کی حالت بہت خراب تھی ۔ اکثر عربوں کی زندگی قتل اور لوٹ مار میں گزرتی تھی۔ پورا عرب قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ یہ قبیلے بہت معمولی باتوں پر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ لڑائی دادا کے زمانے میں شروع ہوتی تھی تو پوتوں اور پر پوتوں تک چلتی رہتی تھی۔ جب تک ایک قبیلہ ختم نه ہو جاتا لڑائی چلتی رہتی تھی صلح کا کوئی خانہ نہ تھا۔
حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا۔ ان کے اثرات اور تعلیمات سے قبیلوں کی دشمنیاں ختم ہو گئیں۔ مساوات اور بھائی چارے کا سبق صرف عرب تک محدود نہ رہا۔ جہاں جہاں مسلمان گئے،مساوات کا تحفہ ساتھ لے گئے۔ جن جگہوں پر سماج میں سخت قسم کی اونچ نیچ تھی وہاں بھی مساوات اور بھائی چارے کا تذکرہ ہونے لگا۔
آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پہلے عرب میں عورتوں کی حالت بہت خراب تھی بعض قبیلے تو بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مارڈالتے تھے۔ جن قبیلوں میں پچیاں قتل نہ کی جاتی تھیں، ان میں بھی عورت کی حیثیت لونڈی سے بہتر نہ تھی۔ آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اثر نے نہ صرف یہ قتل و ظلم کو ختم کیا عورت کو سماج میں باوقار درجہ دیا۔ اب عورت ماں باپ کے ورثے میں حصہ پانے لگی ۔ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے عورت کی حالت کو بہتر بنایا ۔ اور بھی طرح طرح کی غلط رسمیں عام تھیں ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان برائیوں سے روکا ۔ آپ نے تعلیم دی کہ خدا ایک ہے ، وہی عبادت کے لائق ہے اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں ۔ اس آواز کا اٹھنا تھا کہ مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھٹرا ہوا۔ مکہ کے سرداروں کو اپنی سرداری خطرے میں نظر آنے کی۔ انھوں نے پہلے تو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا، پھر انھیں طرح طرح کے لالچ دیئے ۔ آپ نے فرمایا :
اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ میں چا ند تب بھی میں اللہ کے کلام سے ہاتھ نہ اٹھائوں گا یا تو اس کام کوانجام دوں گا یا اپنی جان قر بان کروں گا ۔
پھر مکہ والوں نے آپ کو طرح طرح کی دھمکیاں دیں اور تکلیفیں پہنچائیں کہ یہ آواز دب جائے ۔ ان کا ظلم بڑھتا ہی رہا ۔ وہ راستہ چلتے ہوئے آپ پر گندگی پھینک دیتے۔ دروانے کے سامنے کانٹے بچھا دیتے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا ۔ آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے ساری مخالفتوں کو تیرہ برس صبر کے ساتھ گزارے اور حق کے راستے سے بالکل نہ ہٹے۔ یہاں تک کہ سنہ 622 عیسوی میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ که مد ینہ چلے گئے۔ آپ کے اس سفر کو ہجرت کہا جا تا ہے۔ اس واقعے سے ایک نیا سن شروع ہوتا ہے۔ جس کو سن ہجری کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو اس وقت آپ کی عمر ترپن سال تھی۔
مدینے میں کچھ لوگ پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکے تھے۔ انھوں نے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا دل سے استقبال کیا اور ہر طرح کی مہمان داری کی ۔ انھوں نے کہا : یہ آنے والے ہمارے بھائی ہیں ، اس لیے ہمارے مال ودولت  میں برابر کے شریک ہیں ۔
مدینہ آکر آپ نے سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کی ۔ سب نے مل کر اس کام میں دل و جان سے حصہ لیا۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی سب کے ساتھ گارا مٹی اور پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ اس طرح ایک چھوٹی سی مسجد بنی۔ اس کے ایک
طرف چھوٹے چھوٹے کمروں میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ان کے گھر والے رہتے تھے۔ ان کے لیے کوئی محل تھا نه در بار وہی مسجد سب کچھ تھی۔
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد آپ کی مقبولیت اور اثر میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا اور دس سال کے اندر سارے عرب میں اسلام پھیل گیا۔ آپ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی ۔ بازار سے سودا سلف خود لا تے ، بکری کا دودھ خور دو ہتے ، اپنے کپٹروں کو خود ہی پیوند لگا تے ، بوجھ اٹھاتے ، چانورں کو چارا ڈالتے ، یہاں تک کہ دوسروں کے کام بھی کر دیا کرتے کوئی بیمار ہوتا تو مزاج پرسی کے لیے  ضرور تشریف لے جاتے اوراس کی تیمارداری کرتے۔
آپ بچوں سے بہت پیار کر تے تھے، ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھرتے ، ان کے لیے دعا فرماتے۔ ایک بار آپ نے فرمایا : ” بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں۔“ آپ بچوں سے ہنسی مذاق بھی کرتے اور ان کے ساتھ کھیل میں بھی شریک ہو جاتے۔
ترسٹھ سال کی عمر میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور مسجد نبوی کے اسی حجرے میں سپرد خاک کیے گئے جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی۔

سوچیے اور بتائیے:
سوال: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش مکّہ میں ہوئی۔

سوال: آپؐ کو "امین" اور "صادق" کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: آپؐ اس قدر ایمان دار تھے کہ لوگ آپؐ کو ”امین“اور ”صادق“کہہ کر پکارتے تھے۔ آپؐ نہ کبھی جھوٹ بولتے، نہ کسی کو دھوکا دیتے،نہ لین دین کے معاملے میں ٹال مٹول اور نہ  کسی بات پر جھگڑتے تھے،جو وعدہ کرلیتے اُس کو پورا کرتے۔

سوال: حجرا سود کسے کہتے ہیں؟
جواب: حجرا سود وہ کالا پتھر جو کعبہ کی دیوار میں لگا ہوا ہے اسے حجرا سود کہتے ہیں-

سوال: حضرت مُحّمدؐ نے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ کس طرح سمجھایا؟
جواب: حضرت مُحّمدؐ نے ایک بڑی اور مضبوط چادر منگوائی پھر خد آپ نے اپنے ہاتھوں سے حجرا سود کو اٹھاکر اس پر رکھا پھر فرمایا "ہر قبیلے کا سردار آگے بڑھے اور اس چادر کا ایک ایک سِرا اپنے ہاتھوں میں تھام لے"۔اس طرح وہ لوگ حجرا سود کعبے کی دیوار کے پاس لے گئے پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے صحیح جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح مل جل کر کام کرنے کی برکت ہر ایک کی سمجھ میں آگئی۔

سوال: آپؐ عبادت کرنے اور غورو فکر فرمانے کے لیے کہاں جاتے تھے؟
جواب: آپؐ عبادت کرنے اور غورو فکر فرمانے کے لیے مکہ کے پاس پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں غار حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اور غور فکر فرماتے۔

سوال: جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا کیا نام ہے؟
جواب: جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا نام قرآن ہے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Ek Pahaad aur gilehri - NCERT Solutions Class VI Urdu

 Ek Pahaad aur Gilehri by Allama Iqbal Apni Zaban Chapter 4 Class 6  Urdu NCERT Solutions

ایک پہاڑ اور گلہری
علامہ اقبال
Courtesy NCERT
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے 
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مَرے 

ذرا سی چیز ہے، اِس پر غرور! کیا کہنا! 
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا! 

خدا کی شان ہے نا چیز، چیز بن بیٹھیں! 
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں! 

تِری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟ 
زمیں ہے پست مِری آن بان کے آگے 

جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں!
بھلا پہاڑ کہاں،جانور غریب کہاں! 

کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا 
یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا! 

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا! 
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا 

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے 
کوئی بڑا،کوئی چھوٹا،یہ اس کی حکمت ہے 

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے 
مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے 

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں 
نِری بڑائی ہے خوبی ہے اور کیا تجھ میں 

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دکھا مجھ کو 
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو 

نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں 
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں 
معنی یاد کیجیے
غرور : گھمنڈ
شعور : سمجھ،عقل
بِساط : حیثیت
پَست : نیچا،گِراپڑا 
آن بان : شان و شوکت،رکھ رکھاؤ
نصیب : قسمت،تقدیر
قدرت : طاقت، خدا کی شان
حکمت : عقل مندی،خدا کی مرضی
نِری : صِرف 
ہُنر : کمال 
نِکمّی : ناکارہ، جو کسی کام کی نہ ہو
سوچیے اور بتائیے

سوال1: پہاڑ نے گلہری سے کیا کہا؟
جواب: پہاڑ نے گلہری کو ذرا سی چیز کہا اور پہاڑ نے گلہری سے کہا کہ شرم ہو تو جاکر پانی میں ڈوب مرے۔

سوال2: پہاڑ نے اپنی بڑائی کِن باتوں سے ظاہر کی؟
جواب: پہاڑ نے اپتی بڑائی کرتے ہوئے گلہری کو نیچا دکھایا اور کہا کہ پہاڑ کی آن بان کے آگے زمین بھی پست ہے۔

سوال3: گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر کیا کہا؟
جواب: گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر پہاڑ کو منھ سنبھالنےکہا اور کہا کہ ان کچّی باتوں کو دل سے نکال دے،اگر وہ پہاڑ کی طرح بڑی نہیں تو کیا ہوا خدا نے کسی کو بڑا کسی کو چھوٹا اور سب کو الگ کام کرنے کے لئے بنایا ہے۔

سوال4: گلہری میں کیا خوبی ہے جو پہاڑ میں نہیں ہے؟
جواب: گلہری درخت پہ چڑھ سکتی ہے، چھالیا توڑ سکتی ہے لیکن پہاڑ یہ سب نہیں کر سکتا۔

سوال5: خدا کی حکمت کِن باتوں سے ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: دنیا کی ہر چیز سے خدا کی حکمت ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا میں خدا کی بنائی کوئی بھی چیز بیکار نہیں اور کوئی بھی چیز بری نہیں ہے۔

خالی جگہ کو بریکٹ میں دیے ہوئے صحیح لفظ سے بھریے
1. تجھے ہو شرم،تو پانی میں جاکے ڈوب مرے(دریا،پانی)
2. خدا کی شان ہے نا چیز چیز بَن بیٹھیں(بَن،کر)
3. تِری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟(آن، شان)
4. بھلا پہاڑ کہاں،جانور غریب کہاں؟(غریب،امیر)
5. نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا(موٹا،چھوٹا)
6. ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے(عظمت،قدرت)
7. کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں(برا،بڑا)

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

خوش خبری