آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 10 September 2018

Aasmani Dost - NCERT Solutions Class VI Urdu

آسمانی دوست

courtesyNCERT

سوچیے اور بتائیے: 

سوال: منی اپنی بالکونی سے پارک کی طرف کیا دیکھ رہی تھی؟
جواب: منی اپنی بالکونی سے پارک میں کھیلتے بچّوں کو دیکھ رہی تھی۔

سوال: منی کی ممی اسے بار بار اندر آنے کو کیوں کہہ رہی تھیں؟
جواب: منی کی ممی اسے اندر آنے کو اس لیے کہہ رہی تھیں کہ باہر بارش ہورہی تھی۔ اور وہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ منی بارش میں بھیگ جائے۔

سوال: منی گھسٹ گھسٹ کر کیوں چلتی تھی؟
جواب: کیونکہ وہ پیروں سے معذور تھی۔

سوال: منی اپنا کون کون سا کام خود کر لیتی تھی؟
جواب: منی اپنے دانت صاف کرلیتی تھی اور چمچے کی مدد سے کھانا بھی کھالیتی تھی۔ وہ اپنی وہیل چیئر بھی خود چلا لیتی تھی۔

سوال: منی کے اسکول میں اس سے کیا کرایا جاتا تھا؟
جواب: منی کو اسکول مں کچھ خاص قسم کی کسرت اور بولنے کی مشق کرائی جاتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اسے وہی سب مضنون پڑھائے جاتے تھے جو دوسرے اسکولوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں۔

سوال: خالی وقت میں منی کا مشغلہ کیا تھا؟
جواب: خالی وقت میں منی اپنی بالکونی سے بچّوں کو کھیلتا دیکھتی تھی۔

 سوال: منی کی گود میں اچانک کیا چیز آکر گری؟
جواب: منی کی گود میں ایک خوبصورت بطخ اچانک آسمان سے آگری۔

سوال: منی نے چوٹ کھائی ہوئی بطخ کی کس طرح مدد کی؟
جواب: منی نے اپنی ماں سے اسے کچے پکے چاول دودھ میں کچل کر دینے کے لیے کہا اور پھر رات میں اسے اپنے پاس سلایا۔

سوال: بطخ کے آنے کے بعد پڑوس کے بچّے مِنی کے پاس کیوں آئے؟
جواب: بچے بطخ کو دیکھنا اور اس کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے۔

سوال: انجو نے کچھ کہتے کہتے اپنا منہ جلدی سے کیوں دبا لیا؟
جواب: انجو بطخ کو انجانے میں لولی کہہ رہی تھی کہ اسے اچانک مِنی کاخیال آیا اور اس نے جلدی سے اپنا منہ دبا لیا۔

سوال: محبت بھرے بہت سے ننھے منے ہاتھ منی کو کہاں لے گئے؟
جواب: بہت سے ننھے منے ہاتھ مِنی کو پارک میں کھیلنے کے لیے لے کر گئے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Ek mazedaar kahani - NCERT Solutions Class 8 Urdu

ایک مزےدار کہانی
مرزا فرحت اللہ بیگ
Courtesy NCERT

ایک بڑھیا جنگل بیابان میں جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھی تھی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ انھیں دنوں جاڑا، گرمی اور برسات میں جھگڑا ہوا۔ جاڑا کہتا میں اچھا ،گرمی کہتی میں اچھی ، برسات کہتی میں اچھی۔ آخر یہ صلاح ہوئی کہ چلو، چل کر کسی آدم زاد سے پوچھیں۔ ان کا جو ادھر گزر ہوا تینوں نے کہا:”لو بھئی وہ سامنے ایک بڑھیا بیٹھی ہے چلو اس سے پوچھیں “
سب سے پہلے میاں جاڑے آئے۔ گوری گوری رنگت، کلّے ایسے جیسے انار کا دانہ ۔ سفید لمبی ڈاڑھی، موٹا سا روئی کا دوگلہ پہنے، خوب اوڑھے لپپٹے آئے۔ ان کا آنا تھا کہ بڑی بی کو تھرتھری چھوٹ گئی ۔ میاں جاڑے نے آ کر کہا:
”بی بی سلام“۔ بڑی بی نے کہا: ”جیتے رہو، بال بچّے خوش رہیں، مگر بیٹا ذرا دھوپ چھوڑ کر کھڑے رہو۔ مجھے تو تمھارے آنے سے کپکپی لگ رہی ہے۔“ خیر میاں جاڑے ذرا ہٹ کر کھڑے ہوئے اور کہا: ” بڑی ہی ایک بات پوچھوں؟‘‘ بڑی بی نے کہا: ”ہاں بیٹا ضرور پوچھو۔“ میاں جاڑے نے کہا: " بڑی بی جاڑا کیسا؟‘‘
بڑی بی نے کہا : ”بیٹا! جاڑے کا کیا کہنا۔ سبحان اللہ! مہاوٹ برس رہی ہے۔ دالانوں کے پردے پڑے ہیں۔ انگیٹھیاں سلگ رہی ہیں ، لحافوں میں دبکے پڑے ہیں۔ چائے بن رہی ہے۔ خود پی رہے ہیں، دوسروں کو پلا رہے ہیں ۔ صبح ہوئی اور چنے والا آیا، گرم گرم چنے لیے۔ طرح طرح کے میوے آرہے ہیں۔ سب مزے لے لے کر کھا رہے ہیں ۔ حلوہ سوہن بن رہا ہے۔ باجرے کا ملیدہ بن رہا ہے۔ رس کی کھیر پک رہی ہے۔ اِدھر کھایا اُدھر ہضم - خون چلّوؤں بڑھ رہا ہے۔ چہرے سُرخ ہورہے ہیں۔ بیٹا جاڑا، جاڑے کا کیا کہنا ، سبحان اللہ!‘‘
میاں جاڑے تھے کہ اپنی تعریفیں سن سن کر پھولے نہ سماتے تھے۔ جب بڑی بی چُپکی ہوئیں تو میاں جاڑے نے کہا :” بڑی بی، خدا تم کو زندہ رکھے، تم نے میرا دل خوش کر دیا۔ یہ لو ایک ہزار اشرفی کی تھیلی ۔ خرچ ہو جائے تو اگلے جاڑے میں مجھ سے اور آ کر لے جانا۔“
میاں جاڑے ہٹے اور گرمی مٹکتی ہوئی سامنے آئیں ۔ روشن آنکھیں، لمبی کالی چوٹی، گلے میں موتیوں کا کنٹھا، ہاتھوں میں مولسری کی لڑیاں جس میں کرن ٹکی ہوئی ۔ ہرے ڈورے کی پیازی اوڑھنی۔ غرض بڑے ٹھسّے سے آئیں اور آتے ہی کہا:
”نانی جان سلام !“
میں یہ پوچھنے آئی ہوں کہ نانی جان گرمی کیسی ؟“ بڑی بی نے کہا: ”بیٹا گرمی، گرمی کا کیا کہنا۔ سبحان اللہ! دن کا وقت ہے۔ خس خانوں میں پڑے ہیں۔ پنکھے جھلے جارہے ہیں۔ برف کی قلفیاں کھائی جا رہی ہیں۔ فصل کے میوے آرہے ہیں۔ پتلی پتلی ککڑیاں ہیں ۔ شام کو اٹھے، نہائے دھوئے ، سفید کپڑے پہنے،خَس کا عطر ملا، صحن میں چھڑکاؤ ہو گیا ہے۔ گھڑ ونچیوں پر کورے کورے مٹکے رکھے ہیں ۔ رات ہوئی کوٹھوں پر پلنگ بچھ گئے ۔ بیٹا! گرمی کا کیا کہنا۔ سبحان اللہ!“
بی گرمی کا یہ حال تھا کہ تعریفیں سنتی جاتی تھیں اور نہال ہوتی جاتی تھیں۔ جب بڑی بی تعریف کرتے کرتے تھک کر چپ ہو گئیں تو بی گرمی نے چپکے سے نکال کر ایک ہزار اشرفی کی تھیلی ان کے ہاتھ میں دی اور کہا کہ :” نانی جان! خدا تمھارا بھلا کرے۔ تم نے آج میری لاج رکھ لی۔ میں ہر سال آیا کرتی ہوں۔ جب آؤں جو لینا ہو مجھ سے بے کھٹکے لے لیا کیجیے۔ بھلا آپ جیسے چاہنے والے مجھے ملتے کہاں ہیں ۔“
بی گرمی ذرا ہٹی تھیں کہ برسات خانم چھم چھم کرتی پہنچیں ۔ سانولا نمکین چهره، چمکدار روشن آنکھیں، بھورے بال۔ ان میں سے پانی کی باریک باریک بوندیں اس طرح ٹپک رہی تھیں جیسے موتی ۔ ہاتھوں میں دھانی چوڑیاں۔ غرض ان کے آتے ہی برکھا رت چھا گئی۔ انھوں نے بڑھ کر کہا: ”اماں جان سلام!“ بڑی بی نے کہا: ”بیٹی! جیتی رہو۔ ہونہ ہوتم بی گرمی کی بہن برسات خانم ہو؟ “بی برسات نے کہا: ”جی ہاں! میں بھی پو چھنے آئی ہوں کہ میں کیسی ہوں؟“
بڑی بی نے کہا:”بی برسات تمھارا کیا کہنا! تم نہ ہو تو لوگ جئیں ہی کیسے؟ مینہ چھم چھم برس رہا ہے۔ باغوں میں کھم گڑے ہیں ۔ جھولے پڑے ہیں۔ عورتیں ہیں کہ ہاتھوں میں مہندی رچی ہے۔ سُرخ سُرخ جوڑے، دھانی چوڑیاں پہنے جھول رہی ہیں ۔ کچھ جھول رہی ہیں، کچھ جُھلا رہی ہیں ۔ ملہار گائے جا رہے ہیں۔ اؤ دی اؤ دی گھٹائیں آئی ہوئی ہیں ۔ برسات ! بھئی برسات کا کیا کہنا۔ سبحان الله!“
بی برسات نے بھی ایک ہزار کی تھیلی بڑی بی کی نذر کی اور رخصت ہوئیں ۔ شام ہو چلی تھی۔ بڑی بی تھیلیاں سمیٹ سماٹ خوشی خوشی گھر آ گئیں۔ گھر میں بہار آ گئی۔
پڑوس میں ہی ایک اور بڑھیا رہتی تھی۔ اس نے بڑی بی کے گھر جو یہ چہل پہل دیکھی تو اس سے نہ رہا گیا۔ پوچھا: ”یہ رو پیہ تم کہاں سے لائیں؟“ بڑی بی نے کہا: ”مجھ کو یہ روپیہ جاڑے، گرمی اور برسات نے دیا ہے۔“
پڑوسن بڑھیا آفت کی پڑیا تھی۔ ایک دن گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر جنگل میں جا بیٹھی۔ خدا کا کرنا تھا کہ جاڑا،  گرمی، برسات اسی دن پھر ملے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا: ”کہو بھئی، بڑھیا نے کیا تصفیہ کیا؟“ جاڑے نے کہا: ”بھئی وہ بڑھیا غضب کی تھی۔یہ انہیں بتایا کہ تینوں میں کون اچھا ہے۔ سب ہی کی تعریفیں کر کے مفت میں تین ہزار اشرفیاں مار لیں ۔ “ غرض تینوں جلے بھنے آگے بڑھے۔ دیکھا کہ ایک بڑھیا یٹھی رو رہی ہے۔ پہلے میاں جاڑے پہنچے۔ ان کا آنا تھا کہ بڑھیا سردی سے تھر تھر کانپنے لگی۔
جاڑے نے کہا: ” بڑی بی سلام ! مزاج تو اچّھا ہے۔“ بڑھیا بولی: ”چل بڈ ھے! پرے ہٹ ۔ بڑی بی ہوگی تیری ماں ۔ اب جاتا ہے یا نہیں۔“ میاں جاڑے نے کہا: ” بڑی بی، میں جاڑا ہوں ۔ سچ بتانا میں کیسا ہوں؟“
بڑی بی نے کہا: ”اس بڑھاپے میں بھی آپ اپنی تعریف چاہتے ہیں؟ لو اپنی تعریف سنو! آپ آئے اس کو فالج ہوا، اس کو لقوہ ہوا۔ ہاتھ پاؤں پھٹے جارہے ہیں۔ ناک سُڑ سُڑ بہہ رہی ہے۔ دانت ہیں کہ کڑ کڑبج رہے ہیں ۔ کپڑے ادھر پہنے ادھر میلے ہوئے ۔  لحاف ذرا کھلا اور ہوا سر سے گھسی ۔ بچھو نے برف ہورہے ہیں ۔ توبہ تو به! آگ کی بھی تو گرمی جاتی رہتی ہے۔ لیجئے اپنی تعریف سنی یا کچھ اور سناؤں؟“
جاڑا جلا ہوا تو پہلے سے ہی تھا۔ اب جو بڑھیا کی جلی کٹی باتیں سنیں تو جل کر کوئلہ ہو گیا۔ اپنی ٹھوڑی پکڑ کر ڈاڑھی کی جو ہوا دی تو بڑھیا کو لقوہ ہو گیا۔ چلتے چلتے دو تین ٹھوکریں رسید کیں۔ ذرا فاصلے پر بی گرمی اور برسات کھڑی تھیں ان سے کہا: ”لو جاؤ ! بڑھیا سے اپنا تصفیہ کرا لاؤ، ہم تو ہار گئے۔ ‘‘
بی گرمی خوشی خوشی بڑھیا کے پاس آئیں اور کہا: ” نانی اماں! میں ہوں گرمی ۔ تم سے یہ پوچھنے آئی ہوں کہ گرمی کیسی؟“
یہ سننا تھا کہ بڑھیا کے تو آگ ہی لگ گئی ۔ گرمی، گرمی کا کیا کہنا۔ سبحان اللہ! واہ واہ!! پسینہ بہہ رہا ہے۔ کپڑوں سے بو آرہی ہے۔ صبح کو کپڑے بدلے شام تک چِکٹ ہو گئے۔ کھانا کھایا کسی طرح ہضم نہیں ہوتا۔ سینے پر رکھا ہوا ہے۔ صبح ہوئی اور لو چلنی شروع ہوئی۔ اِس کو لو لگی، اُس کو لو لگی۔ اُس کو ہیضہ ہوا۔ منہ جھلسا جاتا ہے۔ ہونٹوں پر پپڑی جمی ہوئی ہے۔ پانی پیتے پیتے جی بیزار ہو جاتا ہے۔ تمھاری جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چل دور ہو میرے سامنے سے نہیں تو ایسی بے نقط سناؤں گی کہ تمام عمر یاد رکھے گی۔ ‘‘
بی گرمی تو آگ بگولہ ہوگئیں ۔ کہا: ”ٹھہر بڑھیا تجھے اس بدزبانی کا مزہ چکھاتی ہوں۔ مجھے تو کیا سمجھتی ہے۔“ یہ کہہ کر جو پھونک ماری تو ایسا معلوم ہوا کہ لؤ لگ گئی۔ بڑھیا تو ہائے گرمی، ہائے گرمی کرتی رہی۔ بی گرمی پیٹھ پر ایک دو ہتھڑ مارچلتی بنیں۔
جب ان کو بھی روکھی صورت بنائے آتے دیکھا تو بی برسات دل میں بہت خوش ہوئیں اور سمجھیں کہ چلو میں نے پالا مار لیا۔ بڑی مٹکتی منکاتی بڑھیا کے پاس گئیں اور کہا: ”میں برسات ہوں ۔ اچھا بتاؤ تو برسات کیسی؟“
بڑھیا نے کہا: ” برسات سے خدا بچائے۔ بجلی چمک رہی ہے۔ بادل گرج رہے ہیں ۔ کلیجہ ہلا جاتا ہے۔ دهما دهم کی آوازیں آرہی ہیں ۔ ذرا پاؤں باہر رکھا اور چھینٹے سر سے اوپر ہو گئے۔ ذرا تیز چلے اور جوتیاں کیچڑ میں پھنس کر رہ گئیں۔ رات کو مچھر ہیں کہ ستائے جارہے ہیں ۔ نہ رات کو نیند، نہ دن کو چین اور پھر اس پر بھی یہ سوال کہ نانی جان میں کیسی ہوں ۔ نانی جان سے تعریف سن لی؟ اب تو دل ٹھنڈا ہو گیا۔ اے ہے! یہ بے موسم کی گرمی کیسی؟ خدا خیر کرے۔‘‘ بڑھیا یہ کہہ رہی تھی کہ کی برسات کی نگاہ بجلی بن کر گری اور بڑی بی کے پاؤں کو چاٹتی ہوئی نکل گئی اور بی برسات بڑھیا لنگڑا کر منہ پرتھوک کر رخصت ہوئیں۔
بات یہ ہے کہ الله شکّر خورے کو شکّر ہی دیتا ہے۔ جو لوگ خوش مزاج ہوتے ہیں وہ ہر حال میں خوش رہتے ہیں اور موئے رونی صورت تو ہمیشہ جوتیاں کھاتے ہیں۔

خلاصہ:
 مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر کردہ یہ کہانی تین موسموں کے آپس میں برتری کی جنگ کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ جاڑا گرمی اور برسات کا آپس میں اس بات پر جھگڑا ہوا ۔گرمی کہتی ہے کہ میں اچھی ،جاڑاکہتا میں اچھا اور برسات کہتی میں اچھی ۔جھگڑا ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ چل کرکسی سے پوچھ لیں کہ کون اچھا ہے، اس وقت انہیں راستے میں ایک بڑھیاملی۔ سب سے پہلے بڑھیا سے جاڑے نے پوچھا۔ بڑی بی ! تم کو جاڑا کیسا لگتا ہے بڑی بی نے کہا، بیٹا جاڑے میں تو اتنی خوبیاں ہیں کہ بیان نہیں کی جاسکتیں۔ جاڑا اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوااور بڑی بی کو ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بطور انعام دیا۔ اس کے بعد گرمی نے بڑھیا سے پوچھا کہ بڑی بی گرمی کیسی لگتی ہے؟ بڑی بی نے کہا گرمی میں سخت گرمی پڑنے کے باوجود بہت مزا آتا ہے۔ گرمی نے بھی اپنی تعریفیں سن کر بڑی بی کو ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔ آخر میں برسات کی باری آئی ،برسات نے پوچھا بڑی بی ! برسات کیسی ہوتی ہے ؟بڑی بی نے کہا برسات میں کالی گھٹا آتی ہے بارش ہوتی ہے۔ برسات اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھولی نہ سمائی اور اس نے بھی ایک ہزار اشرفیاں بڑھیا کو دے دی ۔ تین ہزار اشرفیاں پا کر بڑی بی کی زندگی میں چہل پہل دیکھ کر اس کی پڑوسن نے اس کا راز پوچھا۔ راز جاننے کے بعدپڑوسن گھر والوں سے جھگڑا کر کے جنگل میں جابیٹھی ۔
 اتفاق سے تینوں موسم پھر ایک دوسرے سے ملے اور بولے کہ بڑهیابہت ہوشیارتھی مفت میں تین ہزار اشرفیاں لےگئی۔ اور فیصلہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ آگے راستے میں پھرایک بڑھیاملی ، جاڑےنے بڑی بی سے پوچھا تمہیں جاڑا کیسالگتا ہے؟ بڑی بی نے جاڑے کی برائیاں بیان کیں ۔یہ سنکر جاڑا بڑی بی سے ناراض ہوگیا۔
 اس کے بعد گرمی نے بڑھیا سے اپنے بارے میں پوچھاکہ میں کیسی لگتی ہوں؟ بڑهیانےکہا گرمی میں تو بہت پسینہ آتا ہے۔اور وہ بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے۔یہاں وہاں بیماریاں پھیل جاتی ہیں غرض بڑھیا نے گرمی کو بھی ناراض کردیا۔
 اب اس کے بعد برسات کی باری تھی ،اُس نے بڑھیا سے سوال کیا کہ میں کیسی لگتی ہوں؟بڑھیا نے کہا، برسات میں تو بادل گرجتے ہیں، ہر طرف گندگی پھیل جاتی ہے۔غرض بڑھیا نے برسات کی بھی برائیاں بیان کردیں ۔اس پر برسات نے غصے میں آکر بڑھیا کولنگڑاکر دیا اور منہ پرتھوک کر آگے روانہ ہوگئی ۔
 کہانی میں سبق یہ ہے کہ جو میٹھی باتیں کرتا ہے اسی کو انعام ملتا ہے۔ کڑوی کسیلی باتیں کرنے والوں سے سب ناراض رہتے ہیں۔جو ہر حال میں خوش رہتے ہیں اور خدا کا شار ادا کرتے ہیں ان سے سب خوش رہتے ہیں اور ہر وقت شکایت کرنے والا انسان ہمیشہ پریشان ہی رہتا ہے۔

معنی یاد کیجیے
بیابان : جنگل
آدم نہ آدم زاد : جہاں کسی انسان یا جاندار کا نام و نشان نہ ہو
صلاح : مشورہ، رائے
کِلّے : درخت کی وہ کونپل جوکلی کی طرح پھوٹتی ہے
دگلہ : روئی دارلبادہ، سردی کا ایک لباس
سبحان اللہ : پاک ذات ہے اللہ کی شکر گزاری کے اظہار کے لیے کہا جا تا ہے
مہاوٹ : جاڑے کی بارش
ملیدہ : (مالیده ) نمک ، گڑ یا شکر اور روٹی کو خوب مل کر تیار کی جانے والی ایک غذا
کنٹھا : پھولوں کا ہار، موٹے موٹے موتیوں کی مالا
خس : ایک قسم کی گھاس
گھڑونچی : گھڑےرکھنے کا اسٹینڈ جو بالعموم لکڑی کا ہوتا ہے
نہال ہونا ( محاورہ) : بہت خوش ہونا، سرشار ہونا
آفت کی پڑیا : بہت زیادہ تیز ، چالاک
لاج رکھنا ( محاورہ) : شرم رکھنا ، عزت آبرو کا خیال رکھنا
ملہارگانا ( محاورہ) : برسات کے موسم کا گیت
نذر کرنا : پیش کرنا، بھینٹ دینا
تصفیہ : فیصلہ
فالج : ایک ایسی بیماری جس میں جسم کا کوئی حصہ بے حس ہو جاتا ہے
آگ لگنا ( محاورہ) : بہت زیادہ غصہ ہونا
لقوہ : ایک ایسی بیماری جس سے منہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے
آگ بگولہ ہونا (محاورہ) : بہت غصہ میں ہونا
کلیجہ دہلنا ( محاورہ) : بہت زیا دہ خوف کھانا

سوچیے اور بتائیے
سوال: جاڑا، گرمی اور برسات کا آپس میں جھگڑا کیوں ہوا؟
جواب: یہ تینوں موسم اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھ رہے تھے اس لیے ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔

سوال: جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا؟
جواب: انہوں نے ایک آدم زاد سے صلاح لینے کا فیصلہ کیا۔

سوال: جاڑے کی کن خوبیں کو بڑی بی  نے بیان کیا؟
جواب: جاڑے میں انگیٹھیاں سلگ رہی ہوتی ہیں جن کے چاروں جانب بیٹھ کر گرمی کا مزا لیا جاتا ہے سرد موسم میں دولائی اوڑھ کر گرم گرم چائے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

سوال: گرمی کے بارے میں بڑی بی کا کیا خیال تھا؟
جواب: گرمی میں مختلف قسم کے پھل کھانا، قلفی کھانا، طرح کی سبزیاں پھلنا اور خوبصورت پھولوں کا کھلنا بڑی بی کی نظر میں گرمی کی خوبیاں تھیں۔

سوال: مصنف نے برسات کا کیا حلیہ بتایا؟
جواب: برسات کا سانولا نمکین چہرہ تھا۔ چمکدار روشن آنکھیں، بھورے بال ان میں سے پانی ایسے ٹپک رہا تھا جیسے موتی ہو۔ ہاتھوں میں دھانی چوڑیاں کھنکھنا رہی تھیں۔

سوال: بڑی بی کو نذر میں تھیلیاں کیوں ملیں؟
جواب: بڑی بی نے سب کی تعریفیں کیں اس لیے سب نے بڑی بی کی خدمت میں تھیلیاں پیش کیں۔

سوال: بڑی بی کے گھر میں چہل پہل سے پڑوسن پر کیا اثر ہوا؟
جواب: اس سے بڑی بی کی خوشی دیکھی نہ گئی اور وہ بھی بڑی بی کی نقل میں جاکر جنگل میں بیٹھ گئی۔

سوال: بدزبان بڑھیا جاڑے کے ساتھ کس طرح پیش آئی؟
جواب: اس نے جاڑے کو بہت برا بھلا کہا۔ اس نے جاڑے کی برائی کرتے ہوئے کہا کہ جاڑے میں لوگوں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ اور ان کی ناک بہنے لگتی ہے۔

سوال: برسات کی کون کون سی باتوں کو بڑھیا نے ناپسند کیا۔
جواب: بجلی گرنے اور بادل گرجنے سے کلیجہ ہل جاتا ہے۔ دھم دھم کی آواز آتی ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہی کیچڑ سے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں۔ رات کو مچھر ستاتے ہیں۔ رات کی نیند اور دن کا چین چلا جاتا ہے۔

سوال: بڑھیا کے ساتھ برسات کا سلوک کیسا تھا؟
جواب: برسات کی نگاہ بجلی بن کر گری اوربڑی بی کے پیروں کو چاٹتی ہوئی نکل گئی۔ اور بی برسات بڑھیا کو لنگڑا کر کے منہ پر تھوک کر رخصت ہوئی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ بھریے
انھیں دنوں جاڑا، گرمی اور برسات میں جھگڑا ہوا۔
باجرے کا ملیدا بن رہا ہے رس کی کھیر پک رہی ہے۔
میاں جاڑے اپنی تعریفیں سن سن کر پھولے نہ سماتے تھے۔
نانی جان خدا تمہارا بھلا کرے تم نے آج میری  لاج رکھ لی۔
مینہہ چھم چھم برس رہا ہے۔

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
صلاح (مشورہ) : ہمیں بڑوں کی صلاح لینی چاہیے۔
تصفیہ (فیصلہ) : ان دونوں کے درمیاں تصفیہ ہو گیا۔
بیاباں (جنگل) : وہ بیابان میں جا کر بیٹھ گئی۔
: ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بھار آئی ہے۔
آدم نہ آدم زاد : دور تک آدم نہ آدم زاد تھا۔
ملہار (برسات کے موسم میں گانے والے گیت) : کسان بارش دیکھ کر ملہار گانے لگے۔


نیچے لکھے ہوئے واحد اور جمع کو الگ الگ کرکے لکھیے
واحد : جمع
بچا : بچے
تعریف : تعریفیں
قلفی : قلفیاں
اشرفی : اشرفیاں
چوڑی : چوڑیاں
گھٹا : گھٹائیں
مہاوٹ : مہاوٹیں
فاصلہ : فاصلے

پڑھیے اور سمجھیے۔
سورج نکل رہا ہے
اکبرا بھی ناشتہ کر رہا ہے
اوپر کے جملوں میں خط کشیدہ الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ کام شروع تو ہوا لیکن ابھی ختم نہیں ہوا۔ انھیں حال نا تمام کہتے ہیں ۔
چاند نکل آیا ہے
وہ اسکول جا چکی ہے
اوپر کے جملوں میں خط کشیدہ افعال سے پتہ چلتا ہے کہ کام ختم ہو چکا ہے انھیں حال تمام کہتے ہیں۔

غور کرنے کی بات
* مرزا فرحت اللہ بیگ اس کہانی کے مصنف ہیں ۔ وہ اردو کے ممتاز نثر نگار تھے۔ وہ اپنی مخصوص انداز میں دلی کی بول چال کی زبان اس خوب صورتی سے لکھتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو مزہ آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی سچ مچ ہمارے سامنے بیٹھا مزے دارکہانی سنا رہا ہو۔ انھوں نے اس کہانی میں جاڑا، گرمی اور برسات کی اچھائیوں اور برائیوں کو اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔

* ہندستان میں تین موسم ہوتے ہیں : موسم سرما، گرما اور برسات۔ اس کے علاوہ ایک اور موسم بھی کئی ملکوں میں ہوتا ہے جسے موسم بہار کہتے ہیں۔ ان موسموں کی اپنی اپنی خوبیاں اور کمیاں ہیں۔ ہر موسم میں اللہ تعالی نے مختلف پھول، پھل اور سبزیاں انسان کےلیے پیدا کیں۔ برسات کے موسم کا خاص طور پر کسان بڑا استعمال کرتے ہیں ۔ اس موسم میں کئی تہوار بھی ہوتے ہیں۔ باغوں میں جھولے پڑ جاتے ہیں ۔ ملہار اور گیت گائے جاتے ہیں۔

کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 9 September 2018

Barsaat Ki Baharein - NCERT Solutions Class VII Urdu

برسات کی بہاریں
نظیر اکبر آبادی
CourtesyNCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔  ’’ہرے بچھونے‘‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: ہرے بچھونے سے مراد ہے کہ حق نے چاروں جانب سبزہ بکھیر دیا ہے۔ ہر جانب ہریالی ہے۔

2۔  ’’ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں ‘‘سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: اس سے شاعر کی مراد ہے کہ برسات میں طرح طرح کی بہاریں ہیں۔ اس میں سبزوں کی لہلہاہٹ ہے، بوندوں کی جھماجھم ہے،قطرات و باغات کی بہاریں ہیں غرض کہ ہر طرح کے تماشے ہیں۔

3۔  تیتر’’سبحان تیری قدرت‘‘ کیوں  پکارتے ہیں؟
جواب:سبحان تیری قدرت پکار کر تیتراللہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔

4۔  پرندے کس کی رٹ لگا رہے ہیں؟
جواب: پرندے حق حق کی رٹ لگا رہے ہیں وہ اللہ کی حمد و ثنا میں مصروف ہیں۔

5۔  شاعر نے برسات کے موسم میں کن چیزوں کے بھیگنے کا ذکر کیا ہے؟
جواب: شاعر نے اس موسم میں گلزار، شہر و دیار و کوچہ و بازار، صحرا ،جھاڑ،بوٹے و کہسار ودلدار کے بھیگنے کا ذکر کیا ہے۔

ان لفظوں کے واحد لکھیے
بچھونے : بچھونا
تماشے : تماشہ
بوندوں : بوند
قطرات : قطرہ
باغات : باغ

مصرعے مکمل کیجیے
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماہٹ قطرات کی بہاریں
ہر جا بچھا رہا ہے سبزا ہرے بچھونے 
جنگل میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے
سب مست ہو رہے ہیں پہچان تیری قدرت 
تیتر پکارتے ہیں سبحان تیری قدرت 
جو مست ہو ادھر کے کرشور ناچتے ہیں 
مینڈک اچھل رہے ہیں اور مور ناچتے ہیں

املاء درست کیجیے
باگات : باغات
کتراط : قطرات
صبزے : سبزے
خدرت : قدرت
ہق : حق
عان : آن
تیطر : تیتر
جور : زور
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Salim Ali - NCERT Solutions Class VII Urdu

سالم علی
CourtesyNCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔  سالم علی کا اصل نام کیا تھا؟
جواب: سالم علی کا اصل نام معزالدین عبدالعلی تھا۔

2۔  سالم علی کو اورنیتھولوجسٹ(ornithologist)کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: سالم علی پرندوں کے علم کے ماہر تھے اس لیے انہیں ماہر طیور یعنی اورنیتھولوجسٹ کہا گیا ہے۔

3۔  سالم علی کے شکاری چچا کا نام کیا تھا؟
جواب: سالم علی کے شکاری چچا کا نام امیر الدین سید تھا۔

4.  سالم علی نے نیچرل ہسٹری سوسائٹی میں جاکر کون سا کام سیکھا؟
جواب:انہوں نےوہاں چڑیوں کو پہچانا اور مردہ چڑیوں کی کھال میں بھراؤ کرنا سیکھا۔

5۔  سالم علی پوری دنیا میں کیوں مشہور ہوئے؟
جواب: سالم علی نے لمبے عرصے تک پرندوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ انہوں نے خاص لمبی مدت تک بیا کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔تین چار مہینوں تک گھنٹوں صبح سے شام تک سالم علی اس چڑیا کے رہن سہن اور عادتوں کا مشاہدہ کرتے رہے۔1930 میں انہوں نے اپنی معلومات کو کتاب کی شکل میں پیش کیا۔اس کتاب سےپوری دنیا میں ان کی شہرت پھیل گئی۔

6۔  1941 میں سالم علی کی کون سی کتاب شائع ہوئی ہے اور اس میں کیا بیان کیا گیا ہے؟
جواب: سالم علی کی1941 میں'دی بک آف انڈین برڈس نامی کتاب شائع ہوئی۔اس کتاب میں رنگین اور خوبصورت تصویروں کے ذریعہ پرندوں کی پہچان کرائی گئی اور اس کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کی گئیں۔

7۔  ’’پوری دنیا میں ان کی خدمات کو قبول کیا گیا‘‘اس جملے کا کیا مطلب ہے؟
جواب: اس جملے کا مطلب ہے کہ سالم علی نے چڑیوں سے متعلق جو معلومات پیش کیں ان کا علم لوگوں کو نہیں تھا۔ اس لیے پوری دنیا نے ان کی معلو مات کو تسلیم کیا اور اعتراف کے طور پر انہیں اعزازات،ڈگریوں اور انعامات سے نوازا۔

8۔  سالم علی کو کون سےقومی اعزاز ملے؟
جواب: حکومت ہند نے سالم علی کو 1958 میں پدم بھوشن، پھر 1976 میں پدم بھشن کا اعزاز دیا۔ یہ ہماری حکومت کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1۔ پرندوں کی دنیا بھی کتنی رنگارنگ دنیا ہے۔
2۔ ملک کے نامور ماہرطیورسالم علی تھے۔
3۔ سالم علی 12 نومبر1896 کو پیدا ہوئے۔
4۔ وہ دس سال کے تھے تو ایک بار کسی شکاری نے ایک گوریّا شکار کیا۔
5۔ سالم نے نیچرل ہسٹری سوسائٹی ،بمبئی کے اعزازی سکریٹری ڈبلیو ملئرڈ سے ملاقات کی۔
6۔ سالم علی نے مردہ چڑیوں کی کھال میں بھراؤ کرنا سیکھ لیا۔
7۔ سالم علی کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی۔
8۔ سالم علی نے علم حیوانات  میں کورس مکمل کیا۔
9۔ انہوں نے کافی لمبے عرصے تک بیا کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔
10۔ سالم علی کو 1976 میں پدم وبھوشن اعزاز دیا گیا۔


نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے
پرندوں : سالم علی پرندوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
زندگی : پرندوں کی زندگی کی قدر کرنی چاہیے۔
معلومات : ہمیں پرندوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔
فضا : باغ کی فضا خوبصورت ہے۔
اعزاز : پدم وبھوشن ایک بڑا اعزاز ہے۔
خدمات : ہمیں سالم علی کی خدمات کی قدر کرنی چاہیے۔
سالم علی کو اپنی خدمات کا صلہ انعام و اکرام کی صورت میں ملا۔
حکومت : حکومت نے کام میں تعاون کیا۔
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Saturday 8 September 2018

Chiddoo - NCERT Solutions Class VII Urdu

چِھدّو
CourtesyNCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1.  چھدّو کس قسم کا لڑکا تھا؟
جواب: چھدّو ایک نٹ کھٹ بچّہ تھا جو ہر چیز کو دیکھ کر یہی کہتا میں بھی یہی کروں گا۔

2.  گھوڑے سے مل کر چھدّو کیوں خوش ہوا؟
جواب:گھوڑے سے مل کر چھدّو اس لیے خوش ہوا کیو نکہ وہ اس پر بیٹھ کر ہرجگہ گھوم پھر سکتا تھا۔

3۔  چھدّو گھوڑے پر سوار ہو کر کہاں کہاں سے گزرا؟
جواب: چھدّو گھوڑے پر سوار ہوکر بڑے سے میدان، اونچے پہاڑ، گھنے جنگل اور ہرے بھرے کھیت سے گزرا۔

4۔  گھوڑےکے لیے ریت پر چلنا کیوں دشوار تھا؟
جواب: گھوڑے کے لیے ریت پر چلنا اس لیے دشوار تھا کہ گھوڑے کےپاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے۔

5.  چھدّو نے سمندر کی سیر کیسے کی؟
جواب: چھدّو نے سمندر کی سیر مچھلی کی پیٹھ پر بیٹھ کر کی۔

6۔  کالے کپڑے پہنے ہوئے عورت کون تھی اور کہاں جا رہی تھی؟
جواب: کالے کپڑے پہنے ہوئی عورت رات تھی جو آسمان سے زمین پر جا رہی تھی۔ یہاں کالے کپڑے سے مراد رات ہے۔

7  پانی سے سر نکالتے ہی چھدّو کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
جواب: پانی سے سر نکالتے ہی ایک بڑا سا پرندہ اوپر سے آیا اور اس نے چھدّو کو اپنی چونچ میں اٹھاکر اسے اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا۔

8۔  پرندے کے رخ موڑتے ہی چھدّو کو گود میں کس نے اٹھا لیا؟
جواب: پرندے کے رخ موڑتے ہی چھدّو کو بادل نے اپنی گود میں اٹھا لیا۔

9۔  دو گرم گرم بوندیں کس کو کہا گیا ہے؟
جواب: ماں کے آنسوؤں کو دو گرم گرم بوندیں کہا گیا ہے۔

10۔بادل نے چھدّو کو آنسو کے بارے میں کیا بتایا؟
جواب:بادل نے چھدّو کو بتایا کہ یہ اس کی ماں کے آنسو ہیں۔وہ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئی تھی اور ایک جگہ بیٹھ کر رو رہی تھی میں پاس سے گزرا تو اس کے یہ دو آنسو لے آیا۔

11۔  چھدّو کی روتے روتے ہچکی کیوں بندھ گئی اور اس نے کیا خواہش ظاہر کی؟
جواب: چھدّو کی ہچکی اس لیے بندھ گئی کہ اسے اپنی ماں کا خیال آیا جو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے رونے لگی تھی اس لیے چھدّو نے اپنی ماں کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی۔

12۔   چھدّو نے آنکھیں کھولیں تو اس نے کیا دیکھا؟
جواب: چھدّو نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا ک ماں دونوں ہاتھوں سے چمیلی کی شاخیں ہٹا رہی ہے۔ وہ خوشی سے چلا رہی ہے کہ لوگوں دیکھو میرا چھدّو یہ ہے میرا چھدّو یہ ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنےجملے میں استعمال کیجیے
تالاب : مچھلیاں تالاب میں تیر رہیں ہیں۔
تالاب کا پانی گندا ہے۔
تالاب میں نہانا اچھا لگتا ہے۔
خوب صورت : باغ میں بہت خوب صورت پھول ہیں۔
درخت پر ایک خوبصورت پرندہ بیٹھا تھا۔
اسلم کا گھر بہت خوبصورت ہے۔
سوار : پہلے لوگ گھوڑے پر سوار ہو کر دوسری جگہ جاتے تھے۔
چھدّو پرندے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔
رخ : اس نے جاتے جاتے اپنا رخ موڑ لیا۔
رخ سے ذرا نقاب ہٹا دو مرے حضور
پرندے نے رخ موڑا تو چھدّو بادل کی گود میں تھا۔
پرندہ : آسمان میں پرندے اڑ رہے ہیں۔۔
صبح صادق پرندے چہچہا رہے تھے۔
پہرا : پہرے دار پہرا دیتے دیتے سو گئے اور چوری ہو گئی۔
سرحد پر فوج رات دن پہرہ دیتی ہے۔
چوڑاچکلا : سامنے سے ایک چوڑا چکلا نوجوان جا رہا ہے۔
قلی نے اپنا چوڑا چکلہ سینہ دکھایا۔


کالم الف سے کالم ب کو ملا کر محاورے مکمل کیجیے
سرپٹ : دوڑنا
بانچھیں :  کھلنا
آنکھیں :  بند ہونا
موجیں : مارنا
خوشی سے : پھولے نہ سمانا
سسکیاں : بندھنا

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Bahaar - NCERT Solutions Class VII Urdu

بہار
افسر میرٹھی
CourtesyNCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1. باغوں پر نکھار آنے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: موسم بہار آنے کی وجہ سے باغوں پر نکھار آگئی ہے۔

2۔ روشیں کیوں مہک رہی ہیں؟
جواب: کلیوں کے چٹکنے سے روشیں مہک رہی ہیں۔
###کلیاں چٹک کر پھول بن گئی ہیں اور اُس کی خوشبو سے روشیں مہک رہی ہیں۔

3۔ ’’جنت کا در کھلا‘‘ ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: جنت کا در کھلا ہے سے شاعر کی مراد ہے کہ یہ جو خوشگوار ہوا ہے وہ جنت سے آرہی ہے۔

4۔ چاندنی کیسی لگ رہی ہے؟
جواب:چاندنی ایسی لگ رہی ہے جیسے نور  کا شامیانہ تن گیا ہے۔

5۔ سڑکوں پر جانے والے لوگ کیا گا رہے ہیں؟
جواب:سڑکوں پر جانے والے لوگ  افسر میرٹھی کی غزلیں گا رہے ہیں۔

مصرعے مکمل کیجیے
آیا ہے بہار کا زمانہ
کلیاں کیا کیا چٹک رہی ہیں
چڑیاں گاتی ہیں گیت پیارے
گویا جنت کا در کھلا ہے
ہر دل میں امنگ کس قدر ہے
سب پر ہی بہار کا اثر ہے
غزلیں افسر کی گا رہے ہیں

نیچے لکھے لفظوں کے جملے بنائیے
نکھار : بہار میں پھولوں پر نکھار آجاتا ہے۔
چٹک : کلیاں چٹک گئیں۔
مہک :  پھولوں کی مہک پھیل گئی۔
ہرسو : وہاں ہرسو خوشی کا ماحول تھا۔
دلکشی : موسم کی دلکشی نے سب کو خوش کردیا۔
چاندنی : ہرسو چاندنی پھیل گئی۔
امنگ : بچّوں میں آزادی کی امنگ تھی۔
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Bi Amman - NCERT Solutions Class VII Urdu

بی امّاں
CourtesyNCERT
سوچیے اور بتائیے۔
1۔بی امّاں کا تعلق کس خاندان سے تھا؟
جواب: بی امّاں کا تعلق رئیس اور منصب داروں کے خاندان سے تھا۔

2۔بی امّاں کے خاندان میں وطن سے محبت کس بات سے ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: ۱۸۵۷ میں اس خاندان نے طے کیا کہ اگر دلی اور میرٹھ کی طرح امروہہ میں بھی آزادی کی جدو جہد شروع ہوئی تو ہم انگریزی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور اپنی حکومت قائم کرلیں گے۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ بی امّاں کے خاندان میں ہمیشہ سے وطن سے محبت پائی جاتی ہے۔

3۔انگریزوں سے سمجھوتے کی بات پر بی امّاں نے کیا کہا تھا؟
جواب: بی امّاں نے کہا گورنمنٹ یہ جان لے کہ اپنی تکلیفوں سے بچنے کے لیے اگر وہ (علی برادران) کسی ایسی بات کا اقرار کرلیں گہ جو ان کے مذہبی احکام یا ملکی فائیدوں کے ذرا بھی خلاف ہو تو مجھے یقین ہے کہ اللہ پاک میرے قلب کو اتنی مضبوطی اوران سوکھے جھریاں پڑے ہاتھوں میں اتنی طاقت دے گا کہ میں اس وقت ان دونوں کا گلا گھونٹ دوں گی۔

4۔شوہر کے انتقال کے بعد بی امّاں نے اپنے بچّوں کی پرورش کس طرح کی؟
جواب: بی امّاں نے ان دونوں بھائیوں کی تربیت اس ڈھنگ سے کی کہ آگے چل کر محمد علی اور شوکت علی نے انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ بی امّاں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنا زیور بھی رہن رکھ دیا۔

5۔علی برادران بی امّاں سے ملنے رامپور گئے تو انگریزوں نے  ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: انگریزوں نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔

6۔بی امّاں کی آخری خواہش کیا تھی؟
جواب: ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
آزادی : غلامی
نفرت : الفت
اقرار : انکار
رئیس : فقیر
شروع : ختم
مبارک : نا مبارک

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
بزرگ : ہمیں اپنے بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے۔
اصرار : عوام آزادی کے لیے اصرار کرنے لگے۔
تربیت : بی امّاں نے اپنے بیٹوں کو اچھی تربیت دی۔
رخصت : وہ لندن کے لیے گھر سے رخصت ہوئے۔
حوصلہ : اس نے حوصلے سے کام لیا۔
خواہش : بی امّاں کو آزاد ہندوستان دیکھنے کی خواہش تھی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1۔ مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی امّاں کے طور پر جانی جاتی تھیں۔
2۔ بی امّاں کا تعلق رئیسوں اور منصب داروں کے خاندان سے تھا۔
3۔ انگریزوں کے مظالم کی داستانیں بھی بزرگوں ۔سے سن رکھی تھیں۔
4۔ علی برادران نے قلم اور زبان کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی۔
5۔ انگریز حکومت نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔
6۔ ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Friday 7 September 2018

Falsafi Naukar - NCERT Solutions Class VII Urdu

فلسفی نوکر 
courtesy NCERT


سوچیے اوربتائیے 
 1۔مالک نے نوکر سے کیا کام کرنے کے لیے کہا؟
جواب:مالک نے نوکر سے کہا کہ وہ پیر پسار کر سو جائے۔ میں اپنے قیمتی اور تیز رفتار گھوڑے کی خود نگرانی کروں گا۔

2۔مالک کے باربار پوچھنے پر نوکر کیا جواب دیتا تھا؟
جواب: مالک کے بار بار پوچھنے پر نوکر نے جواب دیا کہ آپ بے فکر رہیں اور اطمنان سے سو جائیں۔

3۔فلسفی نوکر آسمان کے بارے میں کیا سوچ رہا تھا؟
جواب:فلسفی نوکر آسمان کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالی ٰ نے اسے بغیر ستونوں کے کس طرح کھڑا کر رکھا ہے اور کیل گاڑنے میں زمین کی مٹی کہاں غائب ہوجاتی ہے۔

4۔تین پہر رات سے پہلے مالک کیوں اطمینان سے سوگیا؟
جواب:مالک اس لیے اطمینان سے سو گیا کہ نوکر نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ گھوڑے کی حفاظت کر رہا ہے۔

5۔گھوڑا کس طرح چوری ہوا؟
جواب: مالک اپنے نوکر کی بات میں آکر بے فکری اور اطمنان سے سو گیا اور نوکر اپنے خیالوں میں کھو گیا۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہئے چور سرنگ لگا کر گھوڑا چرا لے گئے۔

6۔گھوڑا چوری ہونے کے بعد آقا پر کیا گزری؟
جواب: یہ وحشت اثر خبر سن کر آقا کے ہوش اڑ گئے۔

7۔آقا نے نوکر کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: آقا نے نوکر کو بہت سخت سست سنائی۔
خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
۱۔ اس کے ساتھ اس کا نوکر بھی تھا۔
۲۔ اس شہر کے چور بڑے   بےدرد  اور چوری کرنےمیں نہایت دلیر  ہیں۔
۳۔ اپنے اس  قیمتی  اور تیز رفتار گھوڑے کی خود نگرانی کروںگا ۔
۴۔ نا چیز نوکر ساری رات جاگ کر گھوڑے کی نگرانی اور پاسبانی کریگا۔
۵۔ آپ بے فکر رہیئے اور اطمینان سے سو جائیے۔
۶۔ آسمان بغیر ستونوں کے کس طرح کھڑا کر رکھا ہے اور کیل گاڑنے میں زمین کی مٹّی کہاں غائب ہو جاتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے:
شخص : ہر شخص کواپنا کام ایمانداری سے کرنا چاہیے۔
مالک : اس دوکان کا مالک ایماندار ہے۔
دلیر : ہر فوجی دلیر ہوتا ہے۔
نگرانی : آپ سی سی ٹی وی کی نگرانی میں ہیں۔
آقا : غلام نے آقا کی بات مان لی۔
اطمینان : ہر کام اطمینان سے کرو۔
غلام : غلام گھوڑا لے کر فرار ہوگیا۔
آسمان : اس کے سر پر آسمان گر پڑا۔


ان لفظوں کے متضاد لکھئے
نوکر : مالک
شام : صبح
دلیر : بزدل
آرام : تکلیف
خواب : حقیقت
فائدہ : نقصان
لمبا : چھوٹا
زمین : آسمان
ناکام : کامیاب
بےوقوف : عقلمند

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
گھوڑا : گھوڑے
شہر : شہروں
نوکر : نوکروں
عزیز : اعزا
پیسے : پیسہ
طرف : اطراف
آنکھ : آنکھیں
اونٹ : اونٹوں
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Tuesday 4 September 2018

Garmi Ka Mausam - NCERT Solutions Class VII Urdu

گرمی کا موسم
اسماعیل میرٹھی
Courtesy NCERT
سوچیے اوربتائیے
سوال: گرمی کا موسم کس مہینے سے شروع ہوتا ہے؟
جواب: گرمی کا موسم مئی کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔

سوال: دن کے کس حصّہ میں گرمی کی شدّت زیادہ ہوتی ہے؟
جواب: دن کے بارہ بجے گرمی کی شدّت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ گرمی کی دوپہر اپنی شدت کے لیے جانی جاتی ہے۔

سوال: لو کیسی ہوا کو کہتے ہے؟
جواب: لو گرم ہوا کو کہتے ہے۔ جیسے جیسے دن چڑھتا ہے ہوا گرم ہوتی جاتی ہے اور اسی گرم ہوا کو لُو کہتے ہیں۔

سوال: تڑاقے کی دھوپ سے کیا مراد ہے؟
جواب: تڑاقے کی دھوپ سے مراد ہے کہ گرمی کی شدّت زیادہ ہونے سے دھوپ میں شدّت آگئی ہے۔

سوال: مچھلی سے تڑپنے  کا کیا مطلب ہے؟
جواب: مچھلی کو پانی میں ٹھنڈک اور آرام ملتا ہے لیکن جب اس کو پانی سے نکال دو تو وہ تڑپنے لگتی ہے اسی طرح انسان کو بھی ہلکی ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے نہیں تو وہ گرمی کی وجہ سےبے چین ہوجاتا ہے۔ جسے دوسرے لفظوں میں مچھلی کی مانند تڑپنے کی مثال سے بھی جانا جاتا ہے۔

سوال: گرمی میں لوگ کس طرح گزارا کرتے ہیں؟
جواب: غریب  اپنا گزارا محنت کرکے کرتے ہیں وہ ایک جھونپڑی میں گزارا کرتے ہیں۔ دوسری جانب امیر اپنے کمروں میں پنکھے اور اے سی کا مزہ لیتے ہیں۔

سوال: پچھوا ہوا کو شعلہ کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: اس لیے کہ پچھوا ہوا آگ کے شعلہ کی طرح گرم ہوتی ہے۔

اشعار کو مکمل کیجیے
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا#####ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
 زمین ہے یا کوئی جلتا توا ہے#####کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی#####زمین کا فرش ہے  چھت آسماں کی
 نہ پنکھا ہے نا ٹٹی ہے نہ کمرہ#####ذرا سی جھوپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی#####غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجئے
لپٹ :  آگ کی لپٹ سے مریم کا ہاتھ جل گیا۔
ثمرہ : غریبوں کو محنت کرکے ثمرہ حاصل ہوتا ہے۔
محنت : غریب محنت کرکے گزارا کرتے ہیں۔
مبارک : عید کے دن مسلمان ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
توا : گرم توا سے آصف کا ہاتھ جل گیا۔

ان لفظوں کےمتضاد لکھئے
گرمی : سردی
آسمان : زمین
غریب : امیر
فرش : عرش
شعلہ : شبنم
دھوپ : چھاؤں
پوشیدہ : افشا
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Sunday 2 September 2018

Phool Walon Ki Sair - NCERT Solutions Class VII Urdu

پھول والوں کی سیر
سوچیے اوربتائیے 
سوال: ہندوستان کے مذہبی تہوار کون کون سے ہیں؟
جواب: ہندوستان کے مذہبی تہوار عید،کرسمس،دیوالی،گروپرب ہیں۔ اس کے غلاوہ اور بھی تہوار ہیں جو ملک کے الگ الگ حصّوں میں منائے جانتے ہیں

سوال: پھول والوں کی سیر کی کیا خاصیت ہے؟
جواب: پھول والوں کی سیر کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ہندو مسلم بھائی چارے کے ساتھ پھولوں کا پنکھامہرولی میں جوگ مایا کے مندر اور خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر چڑھانے کے لیے لے کر جاتے ہیں۔

سوال: انگریز ہندوستان میں کیوں آئے؟
جواب: انگریز ہمارے ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے لیکن یہاں آکر انہوں نے لوگوں میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے علاقوں میں قابض ہو گئے۔اور تجارت کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنا مقصد بنا لیا۔

سوال: پرانے زمانے میں کون کون سی سواریاں استعمال ہوتی تھیں؟
جواب: پرانے زمانے میں رتھ،بیل گاڑی،گھوڑے اور پالکیاں استعمال ہوتی تھی۔ 

سوال: میلے کے اہتمام میں بادشاہ کیا کرتے تھے؟
جواب: میلے کے اہتمام میں بادشاہ کُشتیاں دیکھتے تھے اور مرغے اور تیتر لڑاتے تھے۔گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ بھی ہوتی تھی۔ 

سوال: جوگ مایا کا مندر اور خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ کہاں واقع ہے؟
جواب:  جوگ مایا کا مندر اور خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ دہلی کے مہرولی میں واقع ہے۔

سوال: آخری مغل بادشاہ کا نام کیا تھا ؟
جواب:  آخری مغل بادشاہ کا نام مرزا جہانگیر تھا۔

سوال: آزادی کہ بعد پھول والوں کی سیرکس نے شروع کرائی؟
جواب: آزادی کہ بعد پھول والوں کی سیر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے شروع کروائی تھی۔ 

سوال: پھول والوں کی سیر کا میلہ ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟
جواب: پھول والوں کی سیر کا میلہ ہمیں آپسی بھائی چارہ کا سبق سکھاتا ہے۔ اس میلہ میں ہندو ، مسلم، سکھ، عیسائی  سبھی شریک ہوتے ہیں اور آپسی بھائی چارے اور عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ میلہ دہلی میں آپسی بھائی چارے کی ایک خاص تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
پھول والوں کی سیرسبھی مذہب کے لوگ مناتے ہیں۔
انگریزوں نے شہزادے کو قید کردیا۔
خواجہ بختیار کاکیؒ کا مزار مہرولی میں ہے۔
بیل گاڑی پر بیٹھ کر لوگ مہرولی جاتے تھے۔
پھول والوں کی سیر بھادو کے موسم میں ہوتا تھا۔
پھول والوں کی سیر مہینے کی چودھویں رات کو منایا جاتا تھا۔
پہلے دن پھولوں کا پنکھا جوگ مایا کے مندر پر چڑھایا جاتا تھا۔
دوسرے دن پھولوں کا پنکھا خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ پر چڑھایا جاتا تھا۔

نیچے لکھے ہوئےلفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
جوش وخروش : ہندوستان میں سبھی تیوہار جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔
دخل : دوسروں کے کام میں دخل نہ دیں۔ 
قید  :  اورنگ زیب نے شاہ جہاں کو قید میں ڈال دیا۔ 
دارالسلطنت  : دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ 
فروغ  :  ہمیں اردو زبان کا فروغ کرنا چاہیے۔
آپسی بھائی چارے کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
احترام  : ہمیں اپنے بڑوں کا احترام کرنا چاہیے۔ 
غول  : شیر نے ہرنوں کے غول پر حملہ کردیا۔ 
پرساد  : مندروں میں پرساد بٹ رہے تھے۔ 

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
مذاہب : مذہب
علاقہ : علاقوں
انگریزوں : انگریز
گاڑی : گاڑیاں
پنکھوں : پنکھا
پالکی : پالکیاں
حویلی : حویلیاں
کڑھائی : کڑھائیاں

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
بادشاہ : فقیر
قید : آزاد
برباد : آباد
رونق : بے رونق
پسند : ناپسند


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

خوش خبری