آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 13 February 2019

Diwali Ke Deep Jale Class 8 NCERT


دیوالی کے دیپ جلے
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری

نئی ہوئی پھر رسم پرانی، دیوالی کے دیپ جلے 
شام سلونی رات سہانی دیوالی کے دیپ جلے 

دھرتی کا رس ڈول رہا ہے دور دور تک کھیتوں کے
 لہرائے وہ آنچل دهانی دیوالی کے دیپ جلے

 نرم لوں نے زبانیں کھولیں پھر دنیا سے کہنے کو
بے وطنوں کی رام کہانی دیوالی کے دیپ جلے

 آج منڈیروں سے گھر گھر کی نور کے چشمے پھوٹ پڑے
 پگھلے شعلوں کی یہ روانی، دیوالی کے دیپ جلے

 جلتے دیپک رات کے دل میں گھاؤ لگاتے جاتے ہیں 
شب کا چہرہ ہے نورانی، دیوالی کے دیپ جلے

چھیڑ کے ساز نشاط چراغاں آج فراق سناتا ہے 
غم کی کتھا خوشی کی زبانی دیوالی کے دیپ جلے

سوچیے اور بتائیے:
1. دھانی آنچل کے لہرانے سے کیا مراد ہے؟
جواب: دھانی آنچل سے مراد کھیتوں میں دور تک سبزہ لہرانا ہے۔

2. چراغ کی لویں دنیا سے کیا کہہ رہی ہیں؟
جواب: چراغ کی لویں دنیا سے بے وطنوں کی کہانی بیان کر ہی ہیں۔

3.منڈیروں سے نور کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہوئے لگ رہے ہیں؟
جواب: منڈیروں پر چراغ روشن ہیں جس سے کہ نور کی کرنیں نکل رہی ہیں۔

4.رات کے دل میں گھاؤ لگنے سے کیا مراد ہے؟
جواب: رات کے دل میں گھاؤ لگنے سے مراد جلتے ہوئے دیپک کی روشنی سے تاریکی کا خاتمہ ہونا ہے۔ شاعر دیپک سے روشنی ہونے کو رات کے دل کا زخم قرار دیتا ہے۔

5. شاعر غم کی کتھا کیوں سنا رہا ہے؟
جواب: شاعر غم کی کتھا اس لیے سنا رہا ہے کہ ہر طرف دیوالی کا چراغاں ہے اور وہ اپنے وطن سے دور ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے
1. لہرائے وہ آنچل دھانی دیوالی کے دیپ جلے
2. آج منڈیروں سے گھر گھر کی نور کے چشمے پھوٹ پڑے
3.چلتے دیپک رات کےدل میں گھاؤ لگاتے جاتے ہیں
4. پگھلے شعلوں کی یہ روانی، دیوالی کے دیپ جلے
5. چھیڑ کے ساز نشاط چراغاں آج فراق سناتا ہے

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
رسم(رواج): دیوالی کے دیپ جلنے سے پرانی رسم نئی ہو گئی۔
سلونی(سانولی): دیوالی کی شام سلونی اور سہانی ہے۔
منڈیر: منڈیر پر دیپ جل رہے ہیں۔
نور(روشنی): چاروں جانب نور پھیل گیا۔
روانی(بھراؤ): دریا روانی سے بہہ رہا ہے۔
نورانی(روشنی): بزرگ کا چہرہ نورانی تھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
شب : روز
پرانی : ۔نئی
نور : ۔تاریکی
نشاط : رنج
غم : خوشی
املا درست کیجیے
نشات : نشاط
صاز : ساز
بے وتن : ۔بے وطن
ثلونی : سلونی
چراگاں : ۔چراغاں

عملی کام:

دیوالی کے موضوع پر اور بھی کئی شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔ اسکول کی لائبریری سے کتاب لے کر نظیر اکبرآبادی کی نظم دیوالی پڑھیے اورلکھیے۔  دیوالی کارڈ بنا کر اس میں رنگ بھریے۔

پڑھے اور سمجھیے: 
اکرم نے پوچھا : میں نے پوچھا
اکرم کو روٹی دی : مجھے روٹی دی
بے وتن : ۔بے وطن
اکرم کا سر پھٹ گیا : میرا سر پھٹ گیا

اوپر کے جملوں میں خط کشیدہ الفاظ ترتیب وار فاعلی ، مفعولی یا اضافی حالت میں ہیں۔ پہلے کالم میں یہ اسم ہیں دوسرے میں ضمیر۔ حالات کی تبدیلی سے اسم میں تبدیلی نہیں ہوتی لیکن ضمیر میں تبدیلی ہوگئی۔

غور کرنے کی بات 
 دیوالی خوشیوں کا تہوار ہے لیکن خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ۔ خوشی کے موقعے پر کچھ محرومیاں اور ناکامیاں بھی یاد آجاتی ہیں وہ انسان کو غم زدہ  کردیتی ہیں۔ اس نظم میں بیان کی خوشی کے ساتھ ساتھ غم کی یہی کیفیت ظاہر کی گئی ہے۔

اس نظم کے شاعرفراق گورکھپوری کی سوانح حیات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

کلک برائے دیگر اسباق

Gul e Abbas - NCERT Solutions Class VIII Urdu

گلِ عباس
غلام عباس
Courtesy NCERT

میں ایک چھوٹے سے کالے کالے نی میں رہتا تھا۔ یہی میرا گھر تھا۔ اس کی دیوار میں خوب مضبوط تھیں اور مجھے اس کے اندر کسی کا ڈر نہ تھا۔ یہ دیواریں مجھے سردی سے بھی بچاتی تھیں اور گرمی سے بھی۔ کچھ دن تو میں ادھر ادھر رہا لیکن میرا گھر کالی مٹی میں دبا دیا گیا کہ کوئی اٹھا کر پھینک نہ دے اور میں کسی شریر لڑکے کے پاؤں تلے نہ آ جاؤں۔ زمین کی مدھم گرمی مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ بس اب میں ہمیشہ مزے سے یہیں رہوں گا ،مگر میرے کان میں اکثر میٹھی میٹھی سریلی سی آواز آتی تھی ۔ میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ آواز کدھر سے آتی تھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ اوپر سے آتی تھی۔ یہ آواز مجھ سے کہا کرتی تھی کہ ”اس گھر سے نکل، بڑھ روشنی کی طرف چل“ لیکن میں زمین میں اپنے گھر کے اندر ایسے مزے سے تھا کہ میں نے اس آواز کے کہنے پر کان نہ دھرا اور جب اس نے بہت پیچھا کیا تو میں نے صاف کہہ دیا کہ : ”نہیں۔ میں تو یہیں رہوں گا۔بڑھنے اور گھر سے نکلنے سے کیا فائدہ۔ یہیں چین سے سونے میں مزہ ہے۔ یہیں! میں تو یہیں رہوں گا۔“
یہ آواز بند نہ ہوئی۔ ایک دن اس نے ایسے پر اثر انداز سے مجھ سے کہا: ”چلو روشنی کی طرف چلو“ کہ مجھے پھر پری سی آ گئی اور مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے سوچا کہ اس گھر کی دیواروں کو توڑ کر باہر نکل ہی آؤں مگر دیواریں مضبوط تھیں اور میں کمزور۔ اب جب وہ آواز مجھ سے کہتی کہ ”بڑ ھے چلو“ تو میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا تھا اور مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں بہت طاقتور ہوگیا ہوں ۔ آخر کو اللہ کا نام لے کر جو زور لگایا تو دیوار ٹوٹ گئی اور میں ہرا کلّہ بن کر نکل آیا۔ اس دیوار کے بعد زمین تھی ، مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور اس کو بھی ہٹا دیا۔ اب میں نے اپنی جڑوں کو نیچے بھیجا کہ خوب مضبوطی سے جگہ پکڑ لیں۔ آخر کو ایک دن میں زمین کے اندر سے نکل ہی آیا اور آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھا۔ کیسی خوبصورت اور اچھی جگہ ہے۔
کچھ دنوں بعد تو خوب ادھر ادھر پھیل گیا اور ایک دن اپنی کلی کا منہ جو کھولا تو سب لوگ کہنے لگے:” دیکھو یہ کیا خوبصورت لال لال گلِ عباس ہے۔ میں نے بھی جی میں سوچا کہ اس تنک گھر کو چھوڑا تو اچھا ہی ہے۔ آس پاس اور بہت سے گُلِ عباس تھے۔ میں ان سے خوب باتیں کرتا اور ہنستا بولتا تھا۔ دن بھر ہم سورج کی کرنوں سے کھیلا کرتے تھے اور رات کو چاندنی سے ۔ ذرا آنکھ لگتی تو آسمان کے تارے آ کر ہمیں چھیڑ تے تھے اور اٹھا دیتے۔ افسوس! یہ مزے زیادہ دن نہ رہے۔ ایک دن صبح ہمارے کان میں ایک سخت آواز آئی۔” گل عباس چاہیے، ہیں گلِ عباس“ ”اچھا جتنے چاہے لے لو۔“ ہمارے سمجھ میں یہ بات کچھ نہ آئی اور ہم حیرت ہی میں تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور ارادہ کر رہے تھے کہ ذرا چل کر اپنے دوست ستاروں سے کہیں کہ دوڑو! ہماری مدد کرو، یہ کیسا معاملہ ہے۔ اتنے میں کسی نے قینچی سے ہمیں ڈنٹھل سمیت کاٹ لیا اور ایک ٹوکری میں ڈال دیا۔
اب یاد نہیں کہ اس ٹوکری میں کتنی دیر پڑے رہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ میں اوپر تھا نہیں تو گھٹ کر مر جاتا۔ شاید میں سو گیا ہوں گا، کیونکہ جب میں آٹھا ہوں تو میں نے دیکھا پانچ چھ اور ساتھیوں کے ساتھ مجھے بھی ایک خوبصورت تاگے سے باندھ کر کسی نے گلدستہ بنایا ہے۔ آس پاس نظر ڈالی تو نہ باغ کی روشیں تھیں، نہ چڑیوں کا گانا ۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی میلی کچیلی دکان تھی۔ ہزاروں آدمی ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ یکے گاڑیاں شور مچا رہی تھیں ۔ فقیر بھیک مانگ رہے تھے اور کوئی ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔ میرا جی ایسا گھبرایا کہ کیا کہوں ۔ ستاروں کوڈھونڈا تو ان کا پتہ نہیںں، چاند کو تلاش کیا تو وہ غائب ۔ سورج کی کرنیں بھی سڑک تک آ کر رک گئی تھیں اور میں پکارتے پکارتے تھک گیا کہ:” مجھے جانتی ہو؟ روز ساتھ کھیلتی تھیں ، ذرا پاس آؤ اور بتاؤ کہ یہ معاملہ کیا ہے؟“ مگر وہ ایک نہ سنتی تھیں ۔ شام ہونے کو آئی تو ایک خوبصورت لڑکی دکان کے پاس سے گزری ۔ ہماری طرف دیکھا۔ پھولوں والے نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس زور سے جھٹکا دے کر لڑکی کے سامنے رکھا کہ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
پھولوں والوں نے کہا: ”بیٹی ! دیکھو کیسے خوبصورت گلِ عباس ہیں۔ ایک آنے میں گلدستہ، ایک آنے میں ۔“
لڑکی نے اکنّی دی اور ہمیں ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے ہاتھ ایسے نرم نرم تھے کہ یہاں آ کر جان میں جان آئی ۔ لیکن تھوڑی دیر بعد شاید میں بے ہوش ہو گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ پانی نہیں ملا تھا اور پیاس بہت لگی تھی۔ لڑکی نے شیشے کے ایک گلدان میں پانی بھر کر ہمیں پلایا تو ذرا طبیعت ٹھیک ہوئی اور میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ اب میں ایک صاف کمرے میں تھا۔ جس میں کئی بستر لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف سے ایک بیمار لڑکی کی آواز سنائی دی: ”ڈاکٹر صاحب ! کیا میں اچھی نہیں ہوں گی، کیا اب میں کبھی چل پھر نہ سکوں گی؟ کیا کبھی باغ میں کھیلنے نہ جا سکوں گی۔ اور کیا اب کبھی گل عباس دیکھنے کو نہ ملیں گے؟“ یہ کہتے کہتے بچّی کی ہچکی بندھ گئی۔ آنکھوں سے آنسو پونچھ کر کروٹ لی تو اس کو میں اور میرے ساتھی گلدان میں رکھے ہوئے دکھائی دیے۔ لڑکی خوشی سے تالیاں بجانے  لگی۔ پاس جو نرسں کھڑی تھی اس نے ہمیں اٹھا کر اس لڑکی کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس پیاری بچّی نے ہمیں چوما۔
اس کے گورے گورے گالوں میں ہماری سرخی کی ذرا سی جھلک آگئی۔
اس وقت سمجھ میں آیا۔ بیج کا گھر چھوڑ کر روشنی کی طرف بڑھنے کی غرض یہی تھی کہ ایک دکھیاری بیمار بچّی کو کم سے کم تھوڑی دیر کی خوشی ہم سے مل جائے۔

معنی یاد کیجیے
گل عباس : ایک قسم کا پھول جن میں سے کچھ خاص سرخ، چھ گلانی، کچھ زرد اور کچھ پانچ رنگ اسے گل عباسی بھی کہتے ہیں
مدھم : دهیما، آہستہ
سریلی : مدھر آواز ، ایسی آواز جس میں شر ہو
پھریری : جھرجھری
ہرا کِلّہ : ہری کونپل
روشیں : روش کی جمع ، کیاریوں کے درمیان کا راستہ، پگڈنڈی
اکنّی : ایک آنہ، ایک لہ جو چار پیسے کے برابر ہوتا تھا۔
سوچیے اور بتائیے

1. گل عباس کا گھر کیسا تھا؟
جواب:ایک چھوٹا کالا سا بیج گلِ عباس کا گھر تھا۔جو بہت مضبوط تھا اور اسے سردی و گرمی سے بچاتا تھا۔

2.گل عباس کا نیا گھر کیسا تھا؟
جواب: گلِ عباس کا نیا گھر بڑا ہی دلکش تھا۔وہاں اس دوست تھے۔کھلا آسمان تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں تھیں اور رات میں تاروں برا آسمان تھا۔

3. گل عباس نے بیج کی دیوار کس طرح توڑی؟
جواب:گل عباس کو جب بھی آواز آتی اسگھر سے نکل اور روشنی کی طرف بڑھ تو اس کی ہمت بڑھ جاتی۔آواز کہتی بڑھے چلو تو وہ پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہوجاتا یہاں تک کہ ایک دن وہ زمین سے نکل آیا۔

4. باغ سے نکلنے کے بعد گل عباس پر کیا گزری؟
جواب:باغ سے نکلنے کے بعد اس کے ساتھ بدسلوکی کا دور شروع ہوگیا۔ اسے کسی نے قینچی سے ڈنٹھل سمیت کاٹ دیا اور ایک ٹوکری میں ڈال دیا۔ پھر ایک خوبصورت دھاگے سے باندھ کر اس کا گلدستہ بنا دیا گیا۔

5. گل عباس کو لڑکی کے پاس پہنچ کر کیا محسوس ہوا؟
جواب: گل عباس کو لڑکی کے پاس پہنچ کر سکون ملا۔ اس لڑکی کے ہاتھ اتنے نرم تھے کہ گل عباس کے جان میں جان آئی۔

6. ڈاکٹر سے باتیں کرتے کرتے لڑکی کی ہچکی کیوں بندھ گئی؟
جواب:'اکٹر سے بات کرتے کرتے لڑکی کی ہچکی بندھ گئی کہ اب وہ کبھی باغ میں نہیں جا سکے گی اور وہ اب کبھی گل عباس کو نہیں دیکھ سکے گی۔

7. بیمار لڑکی کے خوش ہنے کی کیا وجہ تھی؟
جواب: جب اس لڑکی نے کروٹ لی تو اس نے دیکھا کہ گلِ عباس اور اس کے ساتھی گلدان میں سجے ہیں۔یہ دیکھ کر وہ خوش ہوگئی۔

8. گل عباس کے ساتھ بیمار بچی نے کیسا سلوک کیا؟
جواب:بیمار بچی نے گل عباس کو اٹھاکر چوما جس سے اس کے چہرے پر رونق آگئی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. میں ایک چھوٹے سے کالے بیج میں رہتا تھا۔
2.دیواریں مجھے سردی سے بھی بچاتی تھیں اور گرمی سے بھی۔
3. دن بھ ہم سورج کی کرنوں سے کھیلا کرتے تھے۔
4. شام ہونے کو آئی تو ایک خوبصورتلڑکی دکان کے سامنے سے گزری۔
5. اس کے ہاتھ ایسےنرم نرم تھے کہ یہاں آکر جان میں جان آئی۔

صحیح جملوں کے سامنے صحیح (üاور غلط کے سامنے غلط (X کا نشان لگائیے
1. ایک کالا کالا سا بیج ہی گل عباس کا گھر تھا۔(ü)
2. گل عباس کو دنیا بڑی خوبصورت اور اچھی لگی۔(X)
3. گل عباس کا رنگ پیلا ہوتا ہے۔(X)
4. پھولوں والوں نے کہا بیٹی دیکھو کیسے خوبصورت گل عباس ہیں۔(ü)
5. فقیر بھیک مانگ رہے تھے اور کوئی ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔(ü)
6. شام کو ایک بدصورت لڑکی دکن کے پاس سے گزری۔(X)
7. لڑکی خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔(ü)
8.اس پیاری بچی نے ہمیں باہر پھینک دیا۔(X)

عملی کام
* گلِ عباس کی کہانی کا خلاصہ اپنے لفظوں  میں لکھیے۔
* جن پھولوں کے نام سے آپ واقف ہیں ان کی ایک فہرست بنائے اور اس کے علاوہ دوسرے پھولوں کے بارے میں بھی
واقفیت حاصل کیجیے۔

پھولوں سے متعلق مکمل تفصیلات کے لیے آئینہ کا ”داستانِ گُل“ سیکشن دیکھیں۔

 پڑھیے سمجھیے اورلکھیے۔
چور چلا گیا۔
اجنبی ہانپ رہا تھا۔
 سورج نکلا ۔
ان جملوں میں چور، اجنبیی اور سورج فاعل ہیں۔ چلا گیا، ہانپ رہا تھا اور نکلا فعل ہیں ۔ ان جملوں میں مفعول نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان جملوں کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ ایسے جملوں کے فعل کو فعل لازم کہتے ہیں۔ ایسے فعل جو فاعل کے ساتھ مل کر پورا مطلب بتادے اسے فعل لازم کہتے ہیں۔ سونا، بیٹھنا، دوڑنا، ہنسنا، رونا، آنا اور جانا سے جوفعل بنتے ہیں وہ فعل لازم ہوتے ہیں۔

 غور کرنے کی بات
*  آج کی دنیا میں رہنے والے دکھوں اور تکلیفوں سے گھرے ہوئے ہیں ، چند لمحوں کی خوشیاں بھی آسانی سے میسر نہیں ہوپاتیں۔
*  اس سبق کا مرکزی خیال یہ ہے گل عباس اپنے وجود سے ایک دکھیاری بچی کو کم سے کم تھوڑی دیر کی خوشی تو دیتا ہے۔ اس کے گورے گورے گالوں پر سُرخی کی جھلک لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
*  لال لال گل عباس گلدان میں پاکرلڑکی خوشی سے تالیاں بجانے لگتی ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Bachche - NCERT Solutions Class VIII Urdu

بچّے
پطرس بخاری

Courtesy NCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے
1. بچوں کے پانچوں حواس کب کام کرنا شروع کرتے ہیں؟
جواب: بیدار ہونے پر بچوں کے پانچوں حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

2. روتے ہوئے بچّے کو چُپ کرانے کے لیے مصنف نے کیا تدبیر کی؟
جواب: روتے ہوئے بچّے کو چپ کرانے کے لیے مصنف نے گیت گائے،ناچے، تالیاں بجائیں، گھٹنوں کے بل چل کر نقلیں اتاریں، بھیڑ بکری کی آوازیں نکالیں،سر کے بل کھڑے ہوکر ہوا میں سائیکل چلائی مگر بچّہ چپ نہ ہوا۔

3.مصنف نے کن والدین کو خوش قسمت کہا ہے؟
جواب:  مصنف نے ان لوگوں کوخوش قسمت کہا ہے جو والدین کہلاتے ہیں اور جن کے بچے صرف دوسروں کو پریشان کرتے ہیں۔

4. مرزا صاحب کے بچّے مصنف کو رات میں کس طرح پریشان کرتے تھے؟
جواب: مرزا صاحب کے بچّے رات بھر رو رو کر مصنف کو پریشان کرتے تھے۔

5. بچّوں کی ضد عموماً کس وقت کار آمد ہوا کرتی ہے؟
جواب: جب گھر میں کوئی مہمان موجود ہو تو بچّے کی ضد کار آمد ہوتی ہے۔

خالی جگہوں کو صحیح الفاظ سے بھریے
1. مگر میری مراد صرف انسان کے بچّوں سے ہے۔
2. اس سے بڑھ کر میری صحت کے لیےمضر کوئی اور چیز نہیں۔
3. ان نغمہ سرا بیٹوں نے میری زندگی حرام کردی۔
4. میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ وہی نالائق ہے۔
5. خدا جانے آج کل کے بچّے کس قسم کے ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
بیدار: بچّہ نیند سے بیدار ہو گیا۔
اتفاق: اتفاق سے وہ وقت پر پہنچ گیا۔
بدقسمت: وہ ایک بدقسمت انسان ہے۔
لمحہ: زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔
تجربہ: یہ ایک تلخ تجربہ تھا۔

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
پنگوڑے : پنگوڑا
خطابات : خطاب
حکما : حکیم
شغل : اشغال
موقع : مواقع
نغمہ  : نغمات 
تجربات  : تجربہ 
فقرہ  : فقرے 


کلک برائے دیگر اسباق

Monday 11 February 2019

Ibn e Insha Germani Mein - NCERT Solutions Class VIII Urdu

ابن انشا جرمنی میں
Courtesy NCERT
خلاصہ:
اس انشائیہ میں مصنف نے اپنے دلچسپ انداز میں ایک غیر ملک میں وہاں کی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کا ذکر کیا ہے۔اور اس سلسلہ میں پیش آنے والے واقعات بیان کیے ہیں۔
 ایک مرتبہ مصنف جرمن کے ایک شہر ہمبرگ گئے۔ مصنف اپنے دوست مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ اسٹشن پر کھڑے تھے تیز ہوا چل رہی تھی ، ابن انشا کے بال ہوا سے اڑ کر انہیں پریشان کر رہے تھے ، مصنف نے ایک دکان پرکنگھے کی خر یداری شروع کردی مصنف چونکہ ہندوستانی تھے ، اور اس وقت جرمن کے شہر ہمبرگ میں ان کی انگریزی کون سمجھتا۔ اس لئے انہوں نے کنگھا خریدنے کے لئے اشاروں کا استعمال کیا ۔ مصنف بڑے پریشان ہوئے اب کس طرح انہیں سمجھائیں اتنی دیر میں مسٹر کیدرلین آئے ان کے آتے ہی دکاندار نے جھٹ بہت سارے کنگھے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے، تب ان کا مسئلہ حل ہوا۔
 مصنف کے سفر کا دوسرا واقعہ ہے کہ مصنف برلن ہمبرگ اور میونخ سے ہوکر فرنیکفرٹ قیام پذیر تھے۔ اتوار کی صبح مصنف نے اٹھ کر شیو کا سامان نکالا تو بلیڈ نہ تھا، سارا سوٹ کیس چھان مارا ، بلیڈکا کہیں پتہ نہیں ، آخر کارسوچا کہ بلیڈ بازار سے خریدا جائے ، نیچے کاؤنٹر پر جا کر دریافت کیا کہ بلیڈ کہاں سے خریدے جاسکتے ہیں ؟وہ شخص ان کی بات نہ سمجھا اور بولا اچھا آپ جارہے ہیں تو آپ کا بل بنا دوں۔مصنف نے کہا نہیں بھائی ! ہماری صورت کیا اتنی بری معلوم ہوتی ہے جوہمیں جانے کے لئے کہہ رہے ہو۔ مصنف نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ہم شیو کرنا چاہتے ہیں ، بولا ۔ اچھا۔ آج تو سب دکانیں بند ہیں ، ریلوے اسٹیشن چلے جا ؤ شاید وہاں کوئی مل جائے۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی دکان پر ایک بڑی بی نظر آئیں مصنف نے پہلے Blatt یعنی بلیڈکا ترجمہ کہا پھر Rasieren یعنی شیو کرانے کے لئے کہا اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ بڑی بی فوراًسمجھ گئیں انہوں نے بلیڈ اٹھا کر مصنف کو دے دیا۔ 
 تیسرا واقعہ مصنف اس طرح بیان کرتے ہیں کہ شام کو ایک سوال کے جواب میں ٹیکسی والے نے انہیں گڈ ایوننگ کہہ کر انگریزی بولنی شروع کی ۔ مصنف نے کہا میاں خوب انگریزی بولتے ہو ۔بو لا میں لندن کا رہنے والا ہوں یہاں ٹیکسی چلاتا ہوں ۔ وہ جرمن ، فرنچ، اٹالین اور ہسپانوی زبانیں جانتا تھا۔ منزل آنے پر مصنف نے اسے پیسے دیے اور ٹیکسی والا تھینک یو کہہ کر چلا گیا۔
سوچیے اور بتائیے
1. ابن انشاکہاں گئے ہوئے تھے؟
جواب: ابن انشا جرمنی کے شہر ہیمبرگ گئے ہوئے تھے۔

2. ابن انشا نے کنگھا خریدنے کے لیے کیا کیا اشارے کیے؟
جواب:انہوں نے بالوں کی پٹیاں ہاتھ سے جما کر دکھائیں۔ ٹیڑھی مانگ نکالی۔سیدھی مانگ نکالی۔بالوں میں انگلیوں سے کنگھا کر کے دکھایا۔

3. ٹیکسی ڈرائیور کون تھا اور کون کون سی زبانیں جانتا تھا۔؟
جواب: ٹیکسی ڈرائیور لندن کا رہنے والا تھا۔ وہ برٹش آرمی میں افسر تھا۔وہ انگریزی ، اردو، جرمن، فرنچ،اٹالین اور ہسپانوی جانتا تھا۔

4.  بڑی بی نے بلیڈ خریدتے وقت ابن انشا کی کیا مدد کی؟
جواب: بڑی بی ابن انشا کا اشارہ جلد سمجھ گئیں اور انہیں بلی، کا پیکٹ نکال کر دے دیا۔

5. ابن انشا نے میونخ میں خاتون کو کس طرح خوش کیا؟
جواب: ابن انشا نے میونخ میں خاتون کو فیض کے دو تین اشعار کا ترجمہ سنایا جس سے وہ بہت خوش ہوئیں۔


خالی جگہوں کو صحیح الفاظ سے بھریے۔
COMB تو خیر وہ کیا سمجھتا۔ ہم نے بالوں میں انگلیوں سے کنگھا کرکے دکھایا۔ اس نے پہلے کریم کی ایک شیشی پیش کی۔ہم نے رد کردی تو شیمپو کی ایک ٹیوب دکھائی۔اس پر ہم نے ہامی نہ بھری تو وہ بالوں کی ایک وگ دکھانے لگا۔ہم نےبالوں کی پٹیاں ہاتھ سے جماکر دکھائیں۔ٹیڑھی مانگ نکالی سیدھی مانگ نکالی۔


نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملے میں استعمال کیجیے
قطار(لائن): لوگ قطار میں کھڑے تھے۔
مقصد(ارادہ): اس کا مقصد پورا نہ ہوسکا۔
مقام(جگہ): ابن انشا اس مقام تک پہنچ کر رک گئے۔
شائستہ: اس نے شائستہ لہجہ میں پوچھا۔
فروخت(بیچنا): دوکاندار نے کنگھا فروخت کر دیا۔

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیں۔
ترکیب : تراکیب
دوکان : دوکانیں
انگلیوں : انگلی
تحریریں : تحریر
راہ : راہیں
مٹھائی : مٹھائیاں
زبانوں : زبان
خرابی : خرابیاں
خوبیوں : خوبی
خبر : خبریں

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
بوڑھا : جوان
ہوشیار : بے وقوف
خوش : اداس
مغرب : مشرق
باقاعدہ : بے قاعدہ
کلک برائے دیگر اسباق

Rafi Ahmed Kidwai - NCERT Solutions Class VIII Urdu

رفیع احمد قدوائی
عبد الماجد دریا بادی

سوچیے اور بتائیے:
۱۔رفیع احمد قدوائی کون تھے؟
جواب: رفیع احمد قدوائی مجاہدِ آزادی تھے پھر آزاد ہندوستان کے وزیرِ مواصلات اور اس کے بعد وزیرِ غذا بنائے گا۔

۲۔رفیع احمد قدوائی کی سیاسی زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟
جواب: علی گڑھ میں رفیع احمد قدوائی وزیرِ تعلیم تھے کہ تحریک ترک موالات میں حصہ لینے کے  باعث ایک سال کے لئے جیل بھیج دیے گئے۔یہیں سے ان کی سیاسی زندگی کا آغذ ہوتا ہے۔

۳۔رفیع احمد قدوائی نے کن رہنماؤں سے سیاسی تربیت پائی؟
جواب: رفیع احمد قدوائی نے پنڈت موتی لال نہرو کی رہنمائی اور جواہرلال نہرو کی رفاقت میں سیاسی تربیت پائی۔

۴.رفیع احمد قدوائی ملک و قوم کی خاطر کتنی بار جیل گئے؟
جواب: رفیع احمد قدوائی ملک وقوم کی خاطر پانچ مرتبہ جیل گئے۔

۵۔وزیرِ مواصلات کی حیثیت سے رفیع احمد قدوائی نے کیا کیا اصلاحات کیں؟
جواب: وزیرِ مواصلات کی حیثیت سے رفیع صاحب نے رات کی ہوائی ڈاک کاسلسلہ شروع کیا اور اسی طرح انہوں نے ڈاکیو‌ں کو اتوار کی چھوٹی دلوائی۔

۶۔رفیع احمد قدوائی کا سب سے اہم کارنامہ کیا تھا؟
جواب: رفیع صاحب کا سب سے اہم کارنامہ راشننگ ختم کروانا تھا۔

۷۔قدوائی صاحب لوگوں سے کس طرح پیش آتے تھے؟
جواب: قدوائ صاحب لوگوں سےسادگی اور خوش اخلاقی سے ملتے تھے۔

۸۔رفیع احمد قدوائی کا انتقال کب ہوا؟
جواب: رفیع احمد قدوائی کا انتقال 1954میں جب وہ ساٹھ سال کے تھے تب ہوا۔

ان الفاظ سے جملے بنائیے
عزم : میں نےکامیاب ہونے کا عزم کرلیا ہے۔
رفاقت : نہرو نے گاندھی کی رفاقت میں آزادی کی لڑائی لڑی۔
درہم برہم : بارش کی وجہ سے سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔
غلّہ : کسان نے غلّہ پیدا کیا۔
وضعداری : نوابوں میں وضعداری باقی ہے۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
بہادر : بزدل
ابتدا : انتہا
نیک : بد
دوست : دشمن
ادنیٰ : اعلیٰ
ان لفظوں کے واحد جمع لکھیے
قوم  : اقوام 
بازار  : بازاروں 
شخصیات  : شخصیت 
ضرورت  : ضروریات 
عزیزوں  : عزیز 
خدمت  : خدمات 
کلک برائے دیگر اسباق

Falastini Bchche Ke Liye Lori - NCERT Solutions Class VIII Urdu

فلسطینی بچے کے لیے لوری
فیض احمد فیض
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے
١۔"تیری امی کی آنکھ لگی ہے" اس مصرعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: ۔شاعر کہتا ہے کہ ابھی ابھی بچے کی ماں سوئی ہے۔

٢۔نظم میں "پردیس" جانے سے کیا مراد ہے؟
جواب: شاعر  کی "پردیس"سے یہ مراد ہے کہ وہ کسی دوسرے دیس گیا ہے یعنی دوسری دنیا میں۔

۳۔شاعر نے سورج اور چاند کن لوگوں کو کہا ہے؟
جواب: ۔شاعر نے بچے کے  بھائی، بہن اور امی ابو کو چاند اور سورج کہا ہے اور جو جنگ میں شہید ہوئے انہیں فلسطینی شہیدوں کو چاند اور سورج کہا گیا ہے۔

۴۔بچے کے  مسکرانے کا کیا اثر ہوگا؟
جواب: بچے کے ماں، باپ، بھائی، بہن ایک دن کسی دوسری شکل میں اس کے سامنے آئیں گے۔

۵۔کن لوگوں کے بھیس بدل کر لوٹ آنے کی بات کہی گئی ہے؟
جواب: بچے کے ماں،باپ، بھائی اور بہن کے بھیس بدل کر لوٹ آنے کی بات کہی گئی ہے۔

ان لفظوں کے جملے بنائیے
پردیس: ابا کل پردیس جا رہے ہیں۔
ڈولا: شادی میں لڑکی کا ڈولا اٹھتا ہے۔
آنگن: میرے گھر کا آنگن وسیع ہے۔
رخصت: چاچی کل کی ٹرین سے رخصت ہوں گی۔
بھیس: چور بھیس بدل کر گھوم رہا ہے۔
لوٹ: وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے لوٹ آیا۔

ان لفظوں کے متضاد الفاظ لکھیے
غم : خوشی
پردیس : دیس
رونا : ہنسنا
پرایا : اپنا
دن : شام، رات
ان لفظوں کے مذکر لکھیے
امّاں : ابا
رانی : راجا
مینا : مینا
بہن : بھائی
لڑکی : لڑکا
بیٹی  : بیٹا 


کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 10 February 2019

Zarron Ko Bhi Insaan Bana Do - NCERT Solutions Class VI Urdu

ذرّوں کو بھی انسان بنا دو
سیماب اکبر آبادی
courtesy:NCERT


اے اہل وطن! جان وطن بن کے دکھا دو 
تم خاک کے ذروں کو بھی انسان بنا دو

 انسان وہ ہے علم کی جس میں ہو تجلی 
حیواں کو بھی علم ملا ہو تو بتا دو 

خود بھی پڑھو بنے کے لیے عالم و کامل 
اَن پڑھ کوئی مل جائے تو اس کو بھی پڑھا دو

 ہو علم تو پھر کیا نہیں امکاں میں تمھارے 
تم چاہو تو جنگل کو بھی گلزار بنا دو 

کانٹوں کو جہالت کے الگ کاٹ کے پھینکو
تم علم کے پھولوں سے نیا باغ کھلا دو

 ہے ملک میں تفریق جہالت کے سبب سے 
تم علم کی قوت سے یہ جھگڑا ہی مٹا دو

بے علم کا جینا بھی ہے اک قسم کا مرنا 
جیسے تن بے روح، جلا دو کہ دبا دو

سوچیے اور بتائیے
1.وطن کے لوگ جانِ وطن کیسے بن سکتے ہیں؟
جواب: وطن کے لوگ علم حاصل کر اور اسے بانٹ کے جانِ وطن بن سکتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ تم لوگوں کو علم سکھاؤ۔ اور اگر تم نے ان ذرّوں کو آفتاب بنا دیا تو تم جانِ وطن بن جاؤ گے۔

2.شاعر کے نزدیک انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے؟
جواب: شاعر کے مطابق انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان علم حاصل کرتا ہے جب کہ حیوانوں کے پاس علم نام کی کوئی چیز نہیں۔

3.علم حاصل کرکے کیا کیا کام کیے جا سکتے ہیں؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ انسان علم حاصل کرلے تو وہ جنگلوں کو بھی گلزار بنا سکتا ہے، کانٹوں کے جہالت کو اکھاڑ پھینک سکتا ہے، علم کے پھولوں سے ایک نیا باغ کھلا سکتا ہے اور ملک سے جہالت کو دور کرکے آپسی تفریق کو مٹا سکتا ہے۔ 

4.کانٹوں اور پھولوں سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب: کانٹوں سے شاعر کی مراد جہالت اور پھولوں سے شاعر کی مراد علم ہے۔

5.جہالت کی وجہ سے ملک کو کیا نقصان ہوتا ہے؟
جواب: جہالت کی وجہ سے ملک میں فرقہ پرستی پھیلتی ہے اور آپسی تفریق کی وجہ سے ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

6.علم کی قوت ملک کی تعمیر و ترقی میں کیسے مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
جواب: علم سے جہالت کے سبب ہونے والی تفریق کا خاتمہ ہوتا ہے اور سب مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

7.آخری شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بے علم کی زندگی ایک لاش کی مانند ہے چاہے تم اسے جلا دو یا دفن کردو۔ یعنی بے علم کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔


نیچے دیےہوئے الفاظ کو جملوں میں استعمال
علم : علم ایک دولت ہے۔
تجلّی : علم کی تجلّی سے دل و دماغ روشن ہوجاتا ہے۔
گلزار : علم بنجر زمین کو گلزار بنا دیتا ہے
تفریق : جہالت کے سبب تفریق پیدا ہوتی ہے۔
قوّت : علم کی قوت ملک کی ترقی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔


ان لفظوں کے متضاد لکھیے
انسان : حیوان
عالم : ان پڑھ
پھول : کانٹا
جینا : مرنا
ان پڑھ : عالم
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Mehmaan - NCERT Solutions Class VIII Urdu

مہمان
ممتاز مفتی

سوچیے اور بتائیے
1. جمیل بار بار حساب کیوں جوڑ رہا تھا؟
جواب:جمیل بار بار اس لیے حساب جوڑ رہا تھا کہ وہ مہینے بھر کے خرچ کے لیے اس کے پاس کتنا پیسہ بچ رہا ہے یہ جان سکے۔

2. ثریا کی تجویز سے خوش ہوکر جمیل نے کیا کہا؟
جواب: ثریا کی تجویز سے خوش ہو کر جمیل نے کہا کہ وہ کل ہی آفس میں چھٹی کے لیے بات کرے گا۔

3. جمیل کے گھر مہمان بن کر کون لوگ آئے۔
جواب: جمیل کے گھر مہمان بن کر ثریا کی سہیلی ناز اور اس کے شوہر آئے۔

4. جمیل اور ثریا نے اکبر اور ناز کا استقبال کس طرح کیا؟
جواب: جمیل اور ثریا نے ناز اور اکبر کا استقبال بڑی بے دلی سے کیا۔ انہیں لگا جیسے ایک اور مصیبت ان کے گھر آگئی۔

5. اکبر اور ناز کی ترکیب کیا تھی؟
جواب: اکبر اور ناز کی ترکیب یہ تھی کہ وہ ثریا کے گھر مہمان بن کر بہت سارے پیسے بچالے گی۔ جس سے وہ نازلی کے لیے کپڑے اور شادی میں لین دین کر سکے گی۔

6. ثریا کی ترکیب کیوں ناکام رہی؟
جواب: ثریا کی ترکیب اس لیے ناکام ہوگئی کہ وہ اپنی جس سہیلی ناز کے گھر مہمان بن کر جانا چاہتی تھی وہ خود اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر آگئی۔

7.''اب تو لینے کے دینے پڑگئے" جمیل نے یہ کیوں کہا؟
جواب: جمیل نے ایسا اس لیے کہا کہ ایک تو پہلے ہی کئی خرچ اس کے سر پر تھے اب مزید مہمان بھی آگئے۔

8. ثریا نے مہمانوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا ترکیب سونچی؟
جواب: ثریا نے مہمانوں سے بچنے کے لیے اپنی خالہ کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔

9. ثریا کی ترکیب ناکام کیسے ہوئی؟
جواب: ثریا کی ترکیب اس لیے ناکام ہو گئی کہ اس کی خالہ مہمان بن کر اس کے گھر آگئیں۔

خالی جگہ کو صحیح الفاظ سے بھریے
1. بار بار گننے سے ان رقموں کی میزان کم ہوجائے گی کیا۔
2. کیوں نہ آئے، اللہ کےفضل سےکھاتا پیتا گھر ہے۔
3. تمام بل ادا کردیں تو خود یتیم خانے میں داخل ہوجائیں یا پیٹ پر باندھ لیں۔
4. میں ابھی سونگھنے کی دوا کی شیشی لاتا ہوں۔
5. جی نہیں علی گڑھ والی خالہ آئی ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
میزان : کسان پیداواروں کی میزان کرتے ہیں۔
گزارہ : اتنے کم پیسے میں گزارہ مشکل ہے۔
تجویز : ثریا کے شوہر نے تجویز پیش کی۔
فراخ : میزبان کو فراخ دل ہونا چاہیے۔
مہمان : مہمان کا استقبال کرو۔
فضل : اللہ کے فضل سے ہر کام آسانی سے ہوگیا۔
پروگرام : اس نے اپنی بہن کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔
حیرانی : وہ اپنے دوست کو دیکھ کر حیرانی ہوئی۔

املا درست کرکے لکھیے۔
مزاک
:
مذاق
ڈیوڑی
:
ڈیوڑھی
بکایا
:
بقایہ
فجل
:
فضل
غلتی
:
غلطی

کلک برائے دیگر اسباق

Saturday 9 February 2019

Watan Ki Taraf Wapsi - NCERT Solutions Class VIII Urdu

وطن کی طرف واپسی
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے
سوال: گاندھی جی جنوبی افریقہ میں کیا کام کرتے تھے؟
جواب: گاندھی جی جنوبی افریقہ میں وکالت کیا کرتے تھے۔ اور تعلیمی انجمن چلایا کرتے تھے۔

سوال: جہاز کے سفر میں گاندھی جی کی کن لوگوں سے دوستی ہوئی؟
جواب: جہاز کے سفر میں گاندھی جی کی ملاقات دو انگریزوں سے ہوئی۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وہ اردو پڑھتے اور دوسرے کے ساتھ روزانہ ایک گھنٹے شطرنج کھیلا کرتے تھے۔

سوال: گاندھی جی نے اردو زبان سیکھنے کے لیے کس سے مدد لی؟
جواب: گاندھی جی نے اردو زبان سیکھنے کے لیے تیسرے درجے میں سفر کر رہے ایک منشی سے مدد لی۔

سوال: جنوبی افریقہ کی لڑائی کن لوگوں کے لیے تھی؟
جواب: جنوبی افریقہ کی لڑائی غریبوں کے لیے تھی اور غریب اس لڑائی میں دل و جان سے شریک تھے۔

ان لفظوں کے جملے بنائیے
عزت: ہمیں اپنے استاد کی عزت کرنی چاہئے۔
اخلاق: گاندھی جی بلند اخلاق کے مالک تھے۔
عزیز: مجھے میری کتابیں عزیز ہیں۔
عقیدت: چاچا نہرو کو گاندھی جی سے عقیدت تھی۔
خوشگوار: آج موسم خوشگوار ہے۔
معاوضہ: اس نے زمین کا معاوضہ ادا کردیا۔

واحد  جمع بنائیں
تاجروں : تاجر
کارکن : کارکنان
ہم وطنوں : ہم وطن
نقصان : نقصانات
اختیارات : اختیار
خیال : خیالات
امید  : امیدیں 
حرف جار کی تعریف لکھیے:
حمید نے متحیر لہجے میں پوچھا۔
وہ لفظ جن کی مدد سے جملے بنتے ہیں حرف جار کہلاتے ہیں

کلک برائے دیگر اسباق

Payaam e Amal - NCERT Solutions Class VI Urdu

پیامِ عمل


سوچیے اور بتائیے
1.قوم کی خدمت کس جذبے سے کرنی چاہئے؟
جواب:  قوم کی خدمت محبت اور لگن کے جذبے سے کرنی چاہیے۔اپنے قوم کی خدمت کرنا کسی پر احسان کرنا نہیں بلکہ یہ آپ کا فرض ہے۔

2.وقت برباد کرنے کا کیا  انجام ہوتا ہے؟
جواب. وقت برباد کرنے والے کو رونا پڑتا ہے ۔ان کے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں بچتا۔

3.نظم کے تیسرے بند میں شاعر نے کیا کہا ہے؟
جواب: نظم کے تیسرے بند میں شاعر نے کہا ہے کہ جو لوگ موقع پاکر اسے کھو دیتے ہیں وہ اپنے آنسوؤں سے منہ دھوتے ہیں۔ سونے والے کو رونا پڑتا ہے اور کاٹتا وہی ہے جو کچھ بوتا ہے۔ شاعر نصیحت کرتا ہے غافلوں سوو نہیں۔ جو ہونا ہے وہ ہوگا پہلے تو ہمت کرکے اپنی کمر کس پھر دیکھ خدا کس طرح تیری مدد کرتا ہے۔

4..وقت پر کام نہ کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے؟
جواب: وقت پر کام نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور  پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

5 ہمت کی جولانی سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی ہمت عروج پر ہے تو پھر آپ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔

 6. پتھر کے پانی ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب: پتھر کے پانی ہونے سے مراد آپ کے کام کا آسان ہو جانا ہے۔  یعنی آپ کا کام مشکل نہیں رہ جاتا۔

لکھیے
''اشکوں سے منھ دھونا'' محاورہ ہے اس کے معنی رونا اور آنسو بہانا ہے۔ نیچے کچھ محاورے اور اس کے معنی دیے گئے ہیں ان محوروں کو جملوں میں استعمال کیجی

محاورہ
معنی
احسان دھرنا : کسی پر احسان دھرنا اچھی بات نہیں۔
دم بھرنا : طالبات اپنی استانی کا دم بھرتی ہیں۔
کمر باندھنا : اس نے سفر کے لیے کمر باندھ لی۔
ہاتھ نہ آنا: : بے وفائی کرکے اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔
پتھر پانی ہونا :  اس کی محنت و لگن سے پتھر بھی پانی ہوگیا۔



دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

خوش خبری