آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 13 February 2019

Rabindra Nath Tagore - NCERT Solutions Class VI Urdu

رابندر ناتھ ٹیگور

رابندر بابو 7 مئی 1861 ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار مہارشی دیوندر ناتھ ٹیگور کے چودھویں اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ گھر والے محبت سے انھیں "رابی" کہتے تھے۔
آپ کے والد مہارشی ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ ان کی ساری زندگی ایشور بھکتی اور غریبوں کی مدد کرنے میں گزری ۔ اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔ بنگالی، سنسکرت اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی زبانیں بھی اچھی خاصی جانتے تھے۔ سچے دیش بھگت تھے اور شب و روز قوم و ملک کی بہبودی کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
ٹیگور کے خاندان میں بچّوں کی تعلیم و تربیت اسی مخصوص ڈھنگ سے دی جاتی تھی جس پر صدیوں ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو فخر رہا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا منھ ہاتھ دھو کر درشن کے لیے اکھاڑے پر پہنچ جانا، اکھاڑے سے نکلتے ہی اسکول چلا جانا۔
تمام دن اسکول میں گزار کر سہ پہر کو جب یہ بچّے واپس آتے تو گھر پر پڑھانے والوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور رات 9 بجے انھیں قید یوں کی طرح سونے پر مجبور کر دیا جاتا۔
ٹیگور بنگال کے ممتاز ترین امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر اس خاندان میں اپنے بچوں کی تربیت کا ڈھنگ بھی بس نمونے کا تھا۔ بچّوں کے لیے نہ تو قیمتی کپڑوں کا اہتمام تھا، نہ اچّھے اچّھے مرغن کھانوں کا ، نہ عیش و آرام کا وہ تمام سامان فراہم کیا گیا تھا جس نے آج نسلوں کو برباد کر دیا ہے۔ خود ٹیگور معمولی قمیص اور پاجامہ پہنتے۔ عام طور سلیپروں کا ایک جوڑا ملا کرتا تھا۔ گھر پر زیادہ تر ننگے پاؤں رہتے تھے۔
ابھی ٹیگور آٹھ ہی برس کے تھے کہ ان کے بڑے بھائی "جیوتی ناتھ" نے ان سے کہا "رابی تم شعر کیوں نہیں کہتے؟"
ٹیگور نے پہلی نظم "کنول" پر لکھی۔  نظم کیسی تھی کچھ پتہ نہیں لیکن ایسا ضرور تھا کہ اسے دیکھ کر جیوتی ناتھ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے۔ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی ہمت بڑھائی اور سب سے پہلے بنگالی بحروں کے اتار چڑھاؤ پر تعلیم دی۔
ٹیگور کی شاعری کی یہ ابتدا تھی۔ اس کے بعد جب نارمل اسکول پہنچے تو باقاعدہ سرخ رنگ کی کاپی پر شعر  لکھنے لگے۔ اکثر فرصت کے وقت یہ اپنے شعر جیوتی بابو کو سنایا کرتے تھے۔ جیوتی ، جب انھیں اپنے دوستوں سے ملاتے تو ہمیشہ شاعر کی حیثیت سے تعارف کراتے۔ اس ہمّت  افزائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ جلد شاعر کی حیثیت سے روشناس ہو گئے۔
بات کچھ اور آگے بڑھی ٹیگور کی شہرت نارمل اسکول کے سپرنٹنڈنٹ تک پہنچی۔ انھوں نے ٹیگور کے شعر سن کر انھیں اپنے خاص شاگردوں میں شامل کرلیا۔
ٹیگور کی زندگی جس ادھُوری تعلیم کے دور سے گزر رہی تھی وہ ٹیگور کے خاندان کے لیے کسی طرح اطمینان بخش نہ تھی۔ اپنے بڑے بھائی جیوتی ناتھ کے ساتھ انھیں انگلستان تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ یہ 1877ء کی بات ہے ٹیگور کو پہلےتو ایٹن کالج پھر یونیورسٹی کالج لندن میں داخل کرا دیا گیا۔ جہاں وہ کئی مہینے تک پڑھتے رہے لیکن جلد ہی ان کا دل اُچاٹ ہو گیا۔ تعصب ، کالے گورے کا فرق، غلام اور آقا کا امتیاز، ان سب باتوں کو ان کا دل برداشت نہ کر پایا اور ایک مرتبہ پھر انھوں نے اپنا سارا دھیان شعر و شاعری اور ادبی مشغلوں کی طرف لگا دیا۔ اس زمانے میں انھوں نے نظم سے زیادہ نثر لکھنے کی کوشش کی۔
انگلستان میں کچھ دن ٹھہرنے کے بعد جیسے گئے تھے ویسے واپس آئے کوئی ڈگری ساتھ نہ لائے۔ خاندان کے لوگ ناراض تھے۔ اس لیے،ان کوحکم ملا کہ شیلدان پہنچ کر جاگیر کا انتظام کریں۔
یہاں انھیں پہلی بار اس ہندوستان کی غریبی اور افلاس، گاؤں والوں کی بھل منساہٹ اور انسانیت کو گہری نظر سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں انھیں غریب کاشت کاروں کی سادہ زندگی سے سابقہ پڑا۔ یہاں وہ غریبوں اور مزدوروں کے دکھ درد میں شریک رہے اور جاگیر کا انتظام اتنا اچّھا کیا کہ سبھی مطمئن ہو گئے ۔ یہاں ان کی شاعری کو نئی زندگی ملی۔ ان کے بہت سے ڈرامے اور گیتوں کے مجموعے اسی شیلد ان کی پیداوار ہیں۔
ٹیگور کو موسیقی سے بھی قدرتی لگاؤ تھا۔ آپ نے بچپن سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ انھنوں نے نہ صرف گیت لکھے بلکہ انھیں دلکش دھنوں پرگا کر سنایا۔ انھوں نے اپنے گیتوں کی دھنیں خود بنائیں۔ ان کی بنائی ہوئی دھنیں
رفتہ رفتہ بنگال کی سب سے زیادہ مقبول سنگیت بن گئیں۔ انھیں رابندر سنگیت کا نام دیا گیا۔ بنگال کی موسیقی میں رابندر سنگیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔
ٹیگور کی ایک اور بات سن کر آپ کو بڑا اچنبھا ہوگا۔ انھوں نے ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر میں مصوری سیکھی۔ بھلا اتنی عمر کو پہنچ کر انسان کسی نئے فن کو تو کیا سیکھتا اپنے اس فن سے بھی اکتا جاتا ہے جس کا وہ ماہر ہوتا ہے لیکن ٹیگور نے عمر
کے اسی حصّے میں ایک نئے فن کو سیکھا پوری توجہ اور محنت سے سیکھا اور ابھی اسے سیکھے ہوئے دس بارہ سال بھی نہ ہوئے تھے کہ مصوری کے ماہروں نے انھیں مصوری کے پیغمبر کا درجہ دیا۔ ٹیگور کی تصویریں زیادہ تر قدرتی مناظر پر ہیں، جنگل کے جانوروں پر ہیں اور پرندوں پر ہیں ۔ ان تصویروں کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے۔
ٹیگور ہندوستان کے نہیں ، دنیا کے بہت بڑے شاعر تھے۔ بہت بڑے سنگیت کار تھے۔ بہت بڑے مصور تھے۔ سب باتوں کے ساتھ ساتھ انسان بھی تھے، بہت بڑے انسان، جس سے ملتے برابری سے ملتے۔ بہت اخلاق سے ملتے۔ جس کسی سے ملتے اس کی حیثیت کے مطابق باتیں کرتے۔
انھوں نے ایک زمین دار یا جاگیر دار کے گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان کی سادہ زندگی قابل رشک تھی۔ ساده لباس پہنتے تھے۔ کھانے میں کسی قسم کی تکلف نہیں ۔ ہمیشہ سادہ غذا کھاتے تھے۔ اپنے شاگردوں کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔ "سادہ اور قدرتی اصولوں پر زندگی بسر کرو‘‘
ٹیگور کو استاد کی حیثیت سے بہت اونچا مقام حاصل ہے۔ ہندوستان کے پرانے رشیوں کی طرح انھوں نے ہمارے لیے ایک لازوال تر کہ چھوڑا ہے اور وہ ہے شانتی نکیتن ۔ انھوں نے کلکتہ سے نوے 90 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیاد ڈالی ۔ یہاں بچّوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اس اسکول کو چلانے میں انھیں بڑی مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری کا گھر بیچا، بیوی کے زیورات فروخت کیے اور تھوڑی بہت امداد باہر سے حاصل کی۔ خدا خدا کر کے اسے وشوا بھارتی کی شکل دی اور اب اس ادارے کو یو نیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔
  لافانی شاہ کار گتانجلی کا خالق اور قومی ترانہ       کا جنم داتا 7 اگست 1941ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ ارتھی کے ساتھ کئی میل لمبا جلوس تھا۔ اس جلوس میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی تھے، عیسائی بھی تھے اور سکھ بھی تھے۔ دوسرے ملکوں کے وہ لوگ بھی تھے جو کلکتہ میں رہتے تھے۔ اور یہ سب شاعر اعظم کے آخری درشن کے لیے بے تاب تھے، بے قرار تھے۔
سوچیے اور بتائیے
1. رابندر ناتھ ٹیگور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب: رابندر ناتھ ٹیگور کلکتہ میں پیدا ہوئے۔

2. رابندر بابو کو گھر والے کس نام سے پکارتے تھے؟
جواب: گھر والے محبت سے انھیں رابی کہکر پکارتے۔

3.ٹیگور خاندان میں تعلیم و تربیت کا کیا طریقہ تھا؟
جواب: ٹیگور کے خاندان میں بچوں کی تعلیم وتربیت اسی مخصوص ڈھنگ سے دی جاتی تھی جس پر صدیوں ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو فخر رہا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا، ۔نہ ہاتھ دھو کر درشن کے‌لیے اکھاڑے پر پنچ جانا، اکھاڑے سے نکلتے ہی اسکول چلا جانا۔شام میں یہ بچے واپس آتے تو گھر پر پڑھانے والوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا اور رات ٩ بجے انھیں قیدیوں کی طرح سونے پر مجبور کردیا جاتا۔

4. ٹیگور نے شاعری کس کے کہنے پر شروع کی؟
جواب: ٹیگور نے اپنے بڑے بھائی جیوتی ناتھ کے کہنے پر شاعری شروع کی۔

5. انگلستان تعلیم حاصل کرنےکے لیے ٹیگور کو کیوں بھیجا گیا؟
جواب: ٹیگور کی ادھوری تعلیم ان کے گھر والوں کے لیے اطمینان بخش نہیں تھی اس لیے ان کو ان کے بڑے بھائی جیوتی ناتھ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان بھیج دیا گیا۔

6.ٹیگور تعلیم چھوڑ کروطن واپس کیوں آگئے؟
جواب: تعصب، کالے گورے کا فرق،غلام اور آقا کا امتیاز، انسب باتوں کو ان کا دل برداشت نہ کرپایا اور ان کا پڑھائی سے دل اچاٹ ہوگیا اور وہ وطن واپس آ گئے۔

7. موسیقی سے ٹیگور کی دلچسپی کس طرح ظاہر ہوتی ہے؟
جواب:ٹیگور کو موسیقی سے قدرتی لگاؤ تھا۔ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔انھوں نے نہ صرف گیت لکھے بلکہ انھیں گایا بھی۔ اور اپنے گیتوں کی دھنیں بھی خود بنائیں۔ ان کی بنائی ہوئی دھنوں کو رابندر سنگیت کا نام دیا گیا۔

8. شیلدان جاکر ٹیگور کو کیا دیکھنے کا موقع ملا؟
جواب: شیلدان میں ٹیگور کو پہلی بار ہندوستان کی غریبی اور افلاس دیکھنے کا موقع ملا یہاں ان کا سابقہ غریب کاشتکاروں کی سادہ زندگی اور ان کی انسانیت سے ہوا۔ یہاں وہ غریبوں اور مزدوروں کے دکھ درد میں شریک رہے۔

9. ٹیگور نے مصوری کس عمر میں سیکھی؟
جواب: ٹیگور نے 60 سال سے زیادہ کی عمر میں مصوری سیکھی۔

10. ٹیگور نے کیسی زندگی گزاری؟
جواب: ٹیگور نے سادہ زندگی گزاری وہ سادہ لباس پہنتے۔کھانے میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے۔ ہمیشہ سادہ غذا کھاتے تھے۔

11. ٹیگور اپنے شاگردوں کو کیا مشورہ دیتے تھے؟
جواب: ٹیگور اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ سادہ اور قدرتی طریقے پر زندگی بسر کرو۔

12. تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ٹیگور نے کیا کیا کام کیے؟
جواب: ٹیگور نے کلکتہ سے 90 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیاد ڈالی۔ یہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ آج شانتی نکیتن کو ایک لازوال مقام حاصل ہے اور اب وشوا بھارتی کی شکل میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔
13. ہمارا قومی ترانہ کیا ہے اور اسے کس نے لکھا ہے؟
جواب: ہمارا قومی ترانہ جن گن من ہے اور اسے رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا ہے۔

14. رابندر ناتھ ٹیگور کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟
جواب: رابندر ناتھ ٹیگور کا انتقال7 اگست 1941 کو کلکتہ میں ہوا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. رابندر ناتھ ٹیگور کے لافانی شاہکارگیتانجلی کو نوبل پرائز کے لیے منتخب کیا گیا۔
2. رابندر بابو 7 مئی 1861کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔
3. آپ اپنے والد بزرگوار مہارشی دیویندر ناتھ ٹیگور کےچودھویں اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
4.گھر والے محبت سے انہیں’’رابی‘‘ کہتے تھے۔
5.ٹیگور نے پہلی نظم کنول پر لکھی۔
6.انھوں نے60 سالسے زیادہ کی عمر میں مصوری سیکھی۔
7. انھوں نے ہمارے لیے ایک لا زوال ترکہ چھوڑا ہے اور وہ ہے شانتی نکیتن۔

نیچے دیے گئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
قومی ترانہ : ٹیگور نے بھارت کا قومی ترانہ لکھا۔
تعلیم و تربیت : ٹیگور کی تعلیم و تربیت روایتی طریقے سے ہوئی۔
ہمت افزائی : ٹیگور اپنے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے۔
لازوال :  ٹیگور نے شانتی نکیتن کی شکل میں لازوال ترکہ چھوڑا۔
شب و روز : اس نے شب و روز محنت کی۔
تہذیب و تمدن : ہندوستانی تہذیب و تمدن کا کوئی جواب نہیں۔
واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیں
صوفی : صوفیا
فکر :  افکار 
خاندان : خاندانوں 
بحروں  : بحر 
اشعار  : شعر 
شعرا  : شاعر 
کاشتکاروں  : کاشتکار 
گیتوں  : گیت 
ڈراما  : ڈرامے 
فن  : فنون 
تصاویر  : تصویر 
مناظر  : منظر 
اصول  : اصولوں 
ملکوں  : ملک 
مشاغل  : مشغلہ 
ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
مغرب : مشرق
محبت : نفرت
زوال : عروج
ابتدا : انتہا
شاگرد : استاد
باقاعدہ : بےقاعدہ
فروخت : خرید
لافانی : فانی
صحیح جملے پرصحیح () اور غلط جملے پرغلط (X) نشان لگائیے
رابندر ناتھ یورکو احترام اور محبت سے گورودیو بھی کہا جا تا ہے ۔()
ٹیگور بنگال کے غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔(X)
ٹیگور کو ہندوستان کا قومی شاعر مانا جاتا ہے کیوں کہ ان کی لکھی ہوئی نظم جن گن من ہمارے ملک ہندوستان کا قومی ترانہ ہے۔()
ٹیگور نے انگلستان میں اپنی تعلیم  مکمل کی۔(X)
 ٹیگور نے شانتی نکیتن کی بنیاد ڈالی تھی۔( )
نیچے دیے ہوئے واقعات کو صحیح ترتیب سے لکھیے
1. ابھی ٹیگور آٹھ برس کے تھے کہ ان کے بڑے بھائی جیوتی ناتھ نے ان سے کہا ” رابی تم شعر کیوں نہیں لکھتے ؟
2. یہاں انھیں غریب کاشت کاروں کی سادہ زندگی سے سابقہ پڑا۔
3 .رابندر بابو 7 مئی 1861 ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ 
4. انگستان میں کچھ دن ٹھہرنے کے بعد جیسے گئے تھے ویسے واپس آئے کوئی ڈگری ساتھ نہ لائے۔
5. انھوں نے کلکتہ سے نوے ( 90 ) میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیادڈالی ۔ 
6. ٹیگور کو استاد کی حیثیت سے بہت اونچا مقام حاصل ہے۔
7. ٹیگور نے پہلی نظم کنول پر لکھی-

جواب:
3 .رابندر بابو 7 مئی 1861 ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔
1. ابھی ٹیگور آٹھ برس کے تھے کہ ان کے بڑے بھائی جیوتی ناتھ نے ان سے کہا ” رابی تم شعر کیوں نہیں لکھتے ؟
7. ٹیگور نے پہلی نظم کنول پر لکھی
2. یہاں انھیں غریب کاشت کاروں کی سادہ زندگی سے سابقہ پڑا۔
4. انگستان میں کچھ دن ٹھہرنے کے بعد جیسے گئے تھے ویسے واپس آئے کوئی ڈگری ساتھ نہ لائے۔
6. ٹیگور کو استاد کی حیثیت سے بہت اونچا مقام حاصل ہے۔
5. انھوں نے کلکتہ سے نوے ( 90 ) میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیادڈالی ۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Eidgah - Munshi Prem Chand - NCERT Solutions Class VI Urdu

عید گاہ
پریم چند
رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح پر تبسم، درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ 

تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کے لئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے مہاجن چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں۔ 

ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب خوب صورت بچہ ہےجس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان بڑی دور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لئے خاموش ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں۔ دنیا اپنی مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔ 

حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، "تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟ 

مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہیمن کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں۔ یہی بساط ہے۔ اللہ ہی بیڑاپار کرے گا۔ دھوبن مہترانی اور نائن بھی تو آئیں گی۔سب کو سیویّاں چاہئیں۔ کس کس سے منہ چھپائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے ۔ ان کی تقدیر بھی تو اس کے ساتھ ہے بچّے کو خدا سلامت رکھے یہ دن بھی یوں ہی کٹ جائیں گے۔ 

گاؤں سے لوگ چلے اور حامد بھی بچّوں کے ساتھ تھا۔ سب کے سب دوڑ کر نکل جاتے۔ پھر کسی درخت کے نیچے کھڑے ہوکر ساتھ والوں کا انتظار کرتے۔ یہ لوگ کیوں اتنے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ 

شہر کا سرا شروع ہوگیا۔ سڑک کے دونوں طرف امیروں کے باغ ہیں پختہ چہار دیواری بنی ہوئی ہے۔ درختوں میں آم لگے ہوئے ہیں۔ حامد نے ایک کنکری اٹھا کر ایک آم پر نشانہ لگایا۔ مالی اندر سے گالی دیتا ہوا باہر آیا۔ بچّے وہاں سے ایک فرلانگ پر ہیں۔ خوب ہنس رہے ہیں۔ مالی کو خوب الّو بنایا۔ 

بڑی بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے۔ یہ مدرسہ ہے۔ یہ کلب گھر ہے۔ اتنے بڑے مدرسے میں کتنے سارے لڑکے پڑ ھتے ہوں گے۔ لڑکے نہیں ہیں جی بڑے بڑے آدمی ہیں۔ سچ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ اتنے بڑے ہوگئے اب تک پڑھنے جاتے ہیں۔ آج تو چھٹی ہے لیکن ایک بار جب پہلے آئے تھے۔ تو بہت سے داڑھی مونچھوں والے لڑکے یہاں کھیل رہے تھے۔ نہ جانے کب تک پڑھیں گے۔ اور کیا کریں گے اتنا پڑھ کر۔ گاؤں کے دیہاتی مدرسے میں دو تین بڑے بڑے لڑکے ہیں۔ بالکل کودن غبی۔ کام سے جی چرانے والے۔ یہ لڑکے بھی اسی طرح کے ہوں گے جی۔ اور کیا نہیں۔ کیا اب تک پڑھتے ہوتے۔ وہ کلب گھرہے۔ وہاں جادو کا کھیل ہوتا ہے۔ سنا ہے مردوں کی کھوپڑیاں اڑتی ہیں۔ آدمی بے ہوش کر دیتے ہیں۔ پھر اس سے جو کچھ پوچھتے ہیں وہ سب بتلادیتے ہیں اور بڑے بڑے تماشے ہوتے ہیں اور میمیں بھی کھیلتی ہیں۔ سچ، ہماری اماں کو وہ دے دو۔ کیا کہلاتا ہے۔ ’’بیٹ‘‘تو اسے گھماتے ہی لڑھک جائیں۔ 

محسن نے کہا، ’’ہماری امّی جان تو اسے پکڑ ہی نہ سکیں۔ ہاتھ کانپنے لگیں۔اللہ قسم‘‘ حامد نے اس سے اختلاف کیا، چلو منوں آٹا پیس ڈالتی ہیں۔ ذرا سی بیٹ پکڑ لیں گے تو ہاتھ کانپنے لگے گا۔ سینکڑوں گھڑے پانی روز نکالتی ہیں۔ کسی میم کو ایک گھڑا پانی نکالنا پڑے تو آنکھوں تلے اندھیرا آجائے۔‘‘ 

محسن؛ ’’لیکن دوڑتی تو نہیں۔ اچھل کود نہیں سکتیں۔‘‘ 

حامد؛ ’’ کام آپڑتا ہے تو دوڑبھی لیتی ہیں ابھی اس دن تمھاری گائے کھل گئی تھی اور چودھری کے کھیت میں جا پڑی تھی تو تمھاری امّاں ہی تو دوڑ کر اسے بھگا لائی تھیں۔ کتنی تیزی سے دوڑی تھیں۔ہم تم دونوں ان سے پیچھے رہ گئے۔‘‘ 

پھر آگے چلے۔ حلوائیوں کی دکانیں شروع ہوگئیں۔آج خوب سجی ہوئی تھیں۔ ’’اتنی مٹھائیاں کون کھاتا ہے؟ دیکھونا ایک ایک دکان پر منوں ہوں گی۔ سنا ہے رات کو ایک جنّات ہر ایک دکان پر جاتا ہے۔ جتنا مال بچا ہوتا ہے وہ سب خریدلیتا ہے اور سچ مچ کے روپے دیتا ہے بالکل ایسے ہی چاندی کے روپے۔‘‘ 

محمود کو یقین نہ آیا، ’’ایسے روپے جنّات کو کہاں سے مل جائیں گے‘‘ 

محسن ؛ ’’جنّات کو روپوں کی کیا کمی؟ جس خزانہ میں چاہیں چلے جائیں کوئی انھیں دیکھ نہیں سکتا۔ لوہے کے دروازے تک نہیں روک سکتے۔ جناب آپ ہیں کس خیال میں۔ ہیرے جواہرات ان کے پاس رہتے ہیں۔ جس سے خوش ہوگئے اسے ٹوکروں جواہرات دے دیے۔ پانچ منٹ میں کہو کابل پہنچ جائیں۔‘‘ 

حامد؛ ’’جنات بہت بڑے ہوتے ہوں گے۔‘‘ 

محسن؛ ’’اور کیا ایک ایک آسمان کے برابر ہوتا ہے۔ زمین پر کھڑا ہوجائے تو اس کا سر آسمان سے جا لگے۔ مگر چاہے تو ایک لوٹے میں گھس جائے۔‘‘ 

سمیع؛ ’’ سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے، چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آ کر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔‘‘ 

اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آ کر انہیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔ 

نوری نے تصحیح کی، ’’یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا، ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔‘‘ 

حامد نے تعجب سے پوچھا، ’’یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتا نہیں؟ ‘‘ نوری نے اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھا کر کہا، ’’ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔‘‘ 

بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمعے نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اڑتی تھی۔ 

دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔ 

وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔ 

نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم محظوظ نہیں ہیں۔یہ دیکھو ہنڈولا ہے ۔ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں ۔یہ چرخی ہے ۔لکڑی کے گھوڑے، اونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔ ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لئے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صَرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گایا ہے۔ حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔ 

سب لو گ چرخی سے اترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورت ،بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے۔ خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسند آیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دہانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے، کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لئے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟ 

محسن کہتا ہے، ’’میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔‘‘ 

نوری بولی، ’’اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا‘‘ 

حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لئے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں، ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک بانسری۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے کے لئے لپکتا ہے۔لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔ 

کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا۔ کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔ 

محسن نے کہا، ’’حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔‘‘ 

حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت ہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا، ’’اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاؤ۔ اللہ قسم۔‘‘ 

حامد نے کہا، ’’رکھیے رکھیےکیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟‘‘ 

سمیع بولا، ’’تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لو گے؟‘‘ 

محمود بولا، ’’تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو‘‘ 

حامد؛ ’’مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔‘‘ 

محسن؛ ’’ لیکن جی میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟‘‘ 

محمود؛ ’’ اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔‘‘ 

حلوائیوں کی دکانوں کے آگے کچھ دکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں۔ کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لئے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی۔ گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ 

دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اتار لو، چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔ اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا۔کھائیں مٹھائیاں،آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی۔تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ 

میری زبان کیوں خراب ہو گی۔ اس نے پھر سوچا، اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹا اپنی ماں کے لئے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا اور کتابیں دے دوں گا۔ یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔ دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دُکاندار سے پوچھا، ’’یہ دست پناہ بیچو گے؟‘‘ دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا، ’’وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔‘‘ 

’’بکاؤ ہے یا نہیں؟‘‘ 

’’بکاؤ ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں‘‘ 

’’تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟‘‘ 

’’چھ پیسے لگے لگا‘‘ 

حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لئے۔ حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔ محسن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟‘‘ 

حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا، ’’ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی‘‘ 

محمود؛ ’’تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟‘‘ 

حامد: ’’کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا" ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا۔ چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔‘‘ 

سمیع متاثر ہو کر بولا، ’’میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے‘‘ 

حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا، ’’میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔‘‘ 

میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ 

اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف۔ حامد یکہ و تنہا دوسری طرف۔ سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔ مناظرہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحادِ ثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہو رہا ہے۔ ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا ۔جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ روئیں تن ہے ۔صف شکن ہے۔ اگر کہیں شیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں منہ چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر بہادر یہ رستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔ 

محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا، ’’اچھا تمہارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔ ‘‘ حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا، ’’ کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔‘‘ 

محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی، ’’بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولئے جناب‘‘ 

حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا، ’’اسے پکڑنے کون آئے گا؟‘‘ 

محمود نے کہا،’’یہ سپاہی بندوق والا‘‘ حامد نے منھ چڑا کر کہا ’’یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی۔طپکڑیں گے کیا بے چارے‘‘محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا،’’تمہارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔‘‘ حامد کے پاس جواب تیار تھا، ’’آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رستم ہی کر سکتا ہے۔‘‘ 

نوری نے انتہائی جودت سے کام لیا، ’’تمہارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔"بے شک بڑے معرکے کی بات کہی، دست پناہ باورچی خانہ میں پڑا رہے گا‘‘ 

حامد نے دھاندلی کی، میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔ 

اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو ثلاثہ کے پاس ابھی گیند سیٹی اور ربط ریزرو تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔ دست پناہ رستمِ ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔ 

فاتح کو مفتوحوں سے وقار اور خوشامد کا خراج ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کئے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیا اعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حامد کا دست پناہ تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔ 

محسن نے کہا،’’ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تو دیکھیں۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد!‘‘ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔ مگر ان کھلونوں کے لئے انہیں دعا کون دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہو گا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے۔ پھر اب دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔ اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لئے، حامد کو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔ 

گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور عالمِ جاودانی کو سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کئے۔ میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہو گا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پٹرا رکھا گیا۔ پٹرے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو بمنزلہ قالین کے تھا۔ وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دنیائے فانی میں آ رہے۔ اور ان کی مجسمۂ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی تاکہ بے کار نہ جا کر زاغ و زغن کے کام آ جائے۔ 

اب رہے میاں محمود کے سپاہی۔ وہ محترم اور ذی رعب ہستی ہے اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہا تھا اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے "تھونے والے داگتے لہو" پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لئے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ د ے گا۔ صرف گولر کا دودھ چاہئے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ عملِ جراحی ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔ 

اب میاں حامد کا قصہ سنئے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔ ’’یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا؟‘‘ 

’’میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔‘‘ 

امینہ نے چھاتی پیٹ لی، ’’یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔" 

حامد نے خطاوارانہ انداز سے کہا، "تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟‘‘ 

امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ دردِ التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لئے کتنا ضبط کیا۔ جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کا دل کتنا لہراتا ہو گا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھیا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔ 
سوچیے اور بتائیے
1حامد کی عمر کیا تھی؟
جواب: حامد کی عمر چار سال تھی۔

2. عید کے دن حامد کی دادی کیوں رو رہی تھی؟
جواب: حامد کی دادی اس لیے رو رہی تھی کہ عید کا دن تھا اور اس کے گھر میں کھانے کا ایک دانہ نہ تھا۔

3.محمود، محسن اور نورے نے کون کون سے کھلونے خریدے؟
جواب: محمود نے خاکی وردی اور لال پگڑی والا سپاہی، محسن نے بہشتی لیا جس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور اس پر مشک رکھا تھا، نورے نے کالا چغہ اور سفید اچکن پہنے وکیل لیا اور سمیع نے ایک دھوبن خریدی۔

4. حامد نے دست پناہ کیوں خریدا؟
جواب:: حامد نے دست پناہ اس لیے لیا کہ  روٹیاں بناتے وقت اس کی دادی کے ہاتھ جل جاتے تھے۔

5. حامد کے دوست دست پناہ سے کیوں متاثر ہوئے؟
جواب: حامد نے دست پناہ کی اتنی خوبیاں بیان کیں کہ اس کے دوست متاثر ہوے بنا نہ رہ سکے۔ اس نے کہا کہ میرا دست پناہ ایک وار میں تمہارے کھلونوں کو توڑ سکتا ہے۔ اسے میں کندھے پر رکھ لوں تو بندوق بن جاتا ہے۔ہاتھ میں لے لہں تو فقیر کا چمٹا ہو جاتا ہے اور اس سے میں تم سب کی ناک بھی پکڑ سکتا ہوں۔ یہ سن کر سب مرعوب ہو گئے۔

6. دوستوں کے کھلونوں کا کیا انجام ہوا؟
جواب: حامد کے دوستوں کے کھلونے ایک ایک کر ٹوٹ گءے۔ ہوا یہ کہ محسن جب گھر پہنچا تو اس کی بہن نے اس کے ہاتھ سے کھلونا لیا۔خوشی اور جوش میں۔ ہ اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر آرہا۔ سپاہی اور وکیل کا بھی یہی حال ہوا۔

7. دادی کا غصّہ شفقت میں کیوں بدل گیا؟
جواب: جب حامد نے اپنی دادی سے کہا کہ کھانا بناتے وقت اس کی انگلیاں جل جاتی تھیں اس لیے اس نے اس کے لیے یو چمٹا لیا یہ سن کر دادی کا غصہ شفقت میں بدل گیا کہ جب دوسرے بچے طرح طرح کے کھلونے لے رہے تھے اور مٹھائی کھا رہے تھے اس وقت حامد نے اسے یاد رکھا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے۔
1. رمضان کے پورے 30 روزوں کے بعد عید آئی۔
2. ان کے جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہے۔
3. انہیں دوچار پیسوں میں دنیا کی ساری نعمتیں لائیں گے۔
4. آمنہ کو ڈر تھا کہ اس بھیڑبھاڑ میں حامد کہیں کھو نہ جائے۔
5. نماز میں کسی کا رتبہ یا عہدہ نہیں دیکھا جاتا۔
6. کتنی باقاعدہ منتظم جماعت ہے۔
7. 11 بجے سارے گاؤں میں۔۔ ہوگئی۔
8. اس کا دست پناہ بہادر شیر ہے

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Pahle Kaam, Baad Aaraam - NCERT Solutions Class VI Urdu

پہلے کام، بعد آرام
تلوک چند محروم
کام کے وقت جو آرام کیا کرتے ہیں
 آخر کار وہ ناکام رہا کرتے ہیں

 سخت نادان ہیں وہ لوگ برا کرتے ہیں
 ہم تو داناؤں سے یہ قول سنا کرتے ہیں

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو

 لطف آرام میں ملتا ہے بہت کام کے بعد
 کام کرنے میں مزہ آتا ہے آرام کے بعد 

دن کو جو سویا تو کیا سوئے گا وہ شام کے بعد 
دور راحت کا مزہ تلخئی ایام کے بعد

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو 

جس کو آرام سے ہر وقت سروکار رہے
 فکر آرام میں جو کام سے بیزار رہے 

کیا تعجب ہے کہ وہ مفلس و نادار رہنے 
کاہل وخستہ و در مانده و لاچار رہے

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو

 چھوڑتے کام ادھورا نہیں ہمت والے 
کام پورا نہیں کرتےکبھی راحت والے

 بازی لے جاتے ہیں جو لوگ ہیں محنت والے
 ہار جاتے ہیں سدا سستی و غفلت والے

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو

سوچیے اور بتائیے
1. وقت پر کام نہ کرنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟
جواب: وقت پر جو لوگ کام نہیں کرتے ہیں وہ اپنی زندگی میں ناکام رہا کرتے ہیں۔

2. کامیابی حاصل کرنے کے لیے کس قول پر عمل کرنا چاہیے؟
جواب: کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں پہلے کام بعد میں آرام کے قول پر عمل کرنا چاہیے۔ آج کا کام کل پر نہ ٹال بھی ایک مشہور قول ہے۔

3. آرام میں لطف کب حاصل ہوتا ہے؟
جواب: آرام میں لطف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب آدمی اپنے کام مکمل کر لیتا ہے۔

4. شاعر نے آرام کرنے والوں کے لیے کون کون سے الفاظ استعمال کیے ہیں؟
جواب: شاعر نے آرام کرنے والوں کے لیے کاہل، خستہ، درماندہ اور لاچار کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

5. اس نظم میں محنت سے کام کرنے والوں کی کیا کیا خوبیاں بیان کی گئی ہے؟
جواب: ہمت کرنے والےکبھی اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑتے۔محنت والے ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں۔

6. سستی اور غفلت سے کام کرنے والوں ا کیا انجام ہوتا ہے؟
جواب:سستی اور غفلت کرنے والے ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔

7. پہلے کام بعد میں آرام کی تکرار سے شاعر کا کیا مطلب ہے۔
جواب: پہلے کام بعد میں تکرار سے شاعر کا یہ کہنا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو وقت پر اپنا کام کرتے ہیں۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
بیزار ہونا : وہ اپنی کتاب سے بیزار ہو گیا۔
بازی لے جانا :  امتحان میں  صبا دوسروں پر بازی لے گئی۔
ہار جانا : کبڈی میں میری کلاس ہار گئی۔
نادان : نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔
غفلت :
مسافر غفلت کا شکار ہوگئے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Ghode Aur Hiran Ki Kahani - NCERT Solutions Class VI Urdu

گھوڑے اور ہرن کی کہانی
 ہزاروں سال پرانی بات ہے ایک ہرن اور گھوڑے میں بڑی دوستی تھی۔ ایک بار کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا ، مار پیٹ کی نوبت آگئی ۔ ہرن ہلکا پھلکا اور پھر تیلا تھا۔ اُس نے اُچھل اُچھل کر گھوڑے کو پیٹا۔ مار پیٹ میں گھوڑے کو بہت چوٹ آئی ۔ اُسے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ گھوڑا کچھ نہ کر پایا اور ہرن مار پیٹ کر چلتا بنا۔
گھوڑے کو بہت غصّہ آیا۔ اُس نے سوچا، ہرن سے بدلہ لینا چاہیے۔ لیکن بدلہ لے تو کیسے ! بہت دنوں تک جنگل میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ایک دن اُس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو تیر کمان لیے شکار کی تلاش میں پھر رہا تھا۔ گھوڑے نے پوچھا : ”بھائی آدمی! تم جنگل میں اکیلے کیا کرتے پھر رہے ہو؟“
آدمی نے جواب دیا : ” میں شکاری ہوں اور شکار کی تلاش میں ہوں ۔“
گھوڑے نے کہا : ”اگر میں تمھیں کوئی شکار دکھادوں ، تو کیا تم اُسے مار دوگے؟“
 ”ہاں کیوں نہیں! میرا تو کام ہی یہ ہے۔" شکاری نے کہا۔
اب تو گھوڑا خوش ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آ گئی ۔ اس نے شکاری سے کہا : ”اس جنگل میں ایک ہرن رہتا ہے۔ تم چاہو تو اس کو مار سکتے ہو۔“
شکاری نے کہا : مارنے کو تو میں مار دوں لیکن تم ہی بتاؤ کہ میں اُس کے پیچھے کیسے دوڑ سکتا ہوں؟ اگر تم میری مدد کرو تو میں اُسے مار دوں ۔“
گھوڑے نے کہا : "میں تیار ہوں ۔ بتاؤ میں تمھاری کیا مدد کروں؟"
 شکاری نے کہا : "مجھے اپنی پیٹھ پر بٹھالو اور وہاں لے چلو جہاں وہ ہرن رہتا ہے۔"
گھوڑے نے شکاری کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا تو شکاری نے کہا : ” بھائی گھوڑے ! ایک بات سنو اگر تمھیں تکلیف نہ ہوتو میں تمھارے منھ میں لگام ڈال لوں؟“
لگام سے کیا ہوگا ؟‘‘ گھوڑے نے پوچھا۔
شکاری نے کہا : ” لگام سے ہہ فائدہ ہوگا کہ جس طرف ہرن نظر آئے گا، میں اسی طرف لگام موڑ دوں گا، تم ادھر چل پڑنا۔ پھر میں اسے اپنے تیر کا نشانہ بنادوں گا۔“
گھوڑا تو ہر قیمت پر ہرن سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے، تم میرے منہ میں لگام ڈال دو-‘‘
شکاری نے گھوڑے کے منہ میں لگام ڈال دی اور دونوں ہرن کی تلاش میں نکل پڑے۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ہرن نظر آیا۔ گھوڑے نے کہا : یہی ہے وہ ہرن، تم اسے مار دو۔
شکاری نے گھوڑے کو اس کے پیچھے ڈال دیا۔ گھوڑا تیز تیز دوڑنے لگا۔ دوڑتے دوڑتے وہ ہرن کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ شکاری نے تیر چلایا۔ تیر ہرن کے سینے پر لگا۔ ہرن نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن تھوڑی دور جا کر گر پڑا۔
اب گھوڑے نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس کا دشمن مارا گیا۔ اس نے شکاری سے کہا "بھائی شکاری! میں تمھارا احسان مند ہوں کہ تم نے میرے دشمن کا کام تمام کر دیا۔ اب تم اپنا شکار لے جا سکتے ہو۔"
شکاری نے کہا :" اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ مجھے شکار ملا اور اس کے ساتھ ایک اور فائدہ بھی ہوا۔“
گھوڑے نے پوچھا : "کیا فائدہ؟"
شکاری نے کہا: "مجھے پہلے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے کار آمد ہو۔ اب پتہ چلا ہے کہ تم تو بڑے کام کے جانور ہو۔" یہ کہہ کر اس نے لگام کھینچی ۔ گھوڑا بے چارہ بے بس ہو گیا۔ کرتا تو کیا کرتا۔ شکاری گھوڑے کو بستی میں لے آیا۔ وہ دن اور آج کا دن گھوڑے کے منھ سے لگام نہیں نکلی اور گھوڑے کا کام ہی یہ ہے کہ وہ آدمی کو اپنی پیٹھ پر بٹھائے پھرتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ آپس کا لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں۔"
سوچیے اور بتائیے
1. ہرن نے گھوڑے کو کیوں مارا؟
جواب: ایک بار کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا اور ہرن نے گھوڑے کو خوب مارا۔

2. گھوڑا ہرن سے کیوں بدلا لینا چاہتا تھا؟
جواب: ایک بار جھگڑے میں ہرن نے گھوڑے کو پیٹ پیٹ کر زخمی کردیا تھا اس لیے گھوڑا ہرن سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔

3. شکاری سے مل کر گھوڑا کیوں خوش ہوا؟
جواب: شکاری سے مل کر گھوڑا اس لیے خوش ہوا کہ اسے لگا کہ اب وہ شکاری کی مدد سے ہرن سے بدلہ لے سکے گا۔

4. گھوڑے نے ہرن سے کس طرح بدلا لیا؟
جواب: گھوڑے نے ایک شکاری کو ہرن کا نہ صرف پتہ بتایا بلکہ اپنی ۔پیٹھ پر شکاری کو بٹھاکر اسے ہرن‌کے پاس لے گیا۔اور شکاری نے ہرن کو مار دیا۔

5. ہرن کے مارے جانے کے بعد گھوڑے نے شکاری سے کیا کہا؟
جواب: گھوڑے نے شکاری سے کہا” بھائی شکاری! میں تمہارا احسان مند ہوں کہ تم نے میرے دشمن کا کام تمام کردیا۔ اب تم اپنا شکار لے جا سکتے ہو۔“

6. شکاری نے گھوڑے کو کیا جواب دیا؟
جواب: شکاری نے گھوڑے سے کہا کہ اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ مجھے تو ایک فایدہ اور ہوا کہ مجھے ایک کام کا جانور مل گیا۔

7. شکاری نے گھوڑے کو کام کا جانور کیوں سمجھا؟
جواب: شکاری نے گھوڑے کو کام جانور اس لیے کہا کا وہ آرام سے اس کی سواری کر سکتا تھا۔

8. آپس میں لڑنا جھگڑنا کیوں ٹھیک نہیں؟
جواب: لگام کس سجانے کے بعد گھوڑے کو اپنی بے بسی سے سمجھ آیا کہ لڑنا جھگڑنا اچھی بات نہیں۔

صحیح جملوں پر صحیح اور غلط پر غلط کا نشان لگائیے
1. ہرن اور گھوڑے میں بہت دوستی تھی۔(صحیح)
2. گھوڑا ہلکا پھلکا اور پھرتیلا تھا۔(غلط)
3. شکاری نے گھوڑے کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا۔(غلط)
4. گھوڑا ہر قیمت پر ہرن سے انتقام لینا چاہتا تھا۔(صحیح)
5. آپس میں لڑنا جھگڑنا ٹھیک بات ہے۔(غلط)

نیچے لکھی ہوئی باتوں کی وجہ لکھیے۔
1. ہرن نے گھوڑے کو بہت پیٹا کیونکہ وہ ہلکا پھلکا اور پھرتیلا تھا۔
2. گھوڑے کو غصّہ اس لیے آیا کہ وہ ہرن سے بری طرح پِٹ گیا۔
3. ہرن کے مرنے کے بعد گھوڑے نے اطمنان کا سانس لیا کیونکہ اب اس کا انتقام پورا ہو چکا تھا۔
4. شکاری کے سامنے گھوڑا بے بس تھا کیونکہ شکاری نے اس کو لگام ڈال دی تھی
5. آپس میں لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے دونوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔

نیچے دیے ہوئے جمع الفاظ کی واحد لکھیے
تراکیب : ترکیب
مشکلات : مشکل
فوائد : فائدہ
تکالیف : تکلیف
تجاویز : تجویز



دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Gandhi Ji - NCERT Solutions Class VI Urdu

گاندھی جی
حامد اللہ افسر
سنہ انیس سو اکیس (1921) کا ذکر ہے میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا۔ گاندھی جی میرے وطن میرٹھ میں تشریف لائے۔ مجھے ان سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ آخر میری آرزو بر آئ اور مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہو نے کا موقع مل گیا۔ باتیں کرتے کرتے گاندھی جی نے میری اچکن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”دیسی کیوں نہیں پہنتے؟“
میں نے عرض کیا: ”تین چار دیسی چیزیں میں مستقل طور پر استعمال کرتا ہوں دیسی آم کھاتا ہوں ، دیسی پان کھاتا ہوں، دیسی آلو کھاتا ہوں اور دیسی شکر استعمال کرتا ہوں ، کیا یہ کافی نہیں؟“
گاندھی جی نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا اور فرمایا :” تب تو آپ کے لیے دیسی کپڑا پہننا اور بھی آسان ہے، ایک ہی دیسی  چیز کا تو اور اضافہ ہوگا۔“
اس کے بعد متعدد بار، کئی کئی برس  کے وقفے سے مجھے گاندھی جی کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا مگر حیرت ہے کہ ہر مرتبہ مجھے  دیکھتے ہی انھیں میری چار دیسی  چیزوں میں اپنی اسی پانچویں چیز کا خیال آ جاتا۔
انیس سو پینتالیس (1945) کا زمانہ تھا ۔ گاندهی جی مسوری پہاڑ پر بِرلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میں بھی اس سال مسوری گیا ہوا تھا اور گاندھی جی کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوتا رہتا تھا۔
مسوری میں ان دنوں بہت سے لداخی مزدور آئے ہوئے تھے۔ لداخ کشمیر میں ایک جگہ ہے، یہاں کے رہنے والوں کو لداخی کہتے ہیں ۔ وہ ہر سال گرمی کے موسم میں کام کی تلاش میں مسوری اور دوسرے مقامات پر آ جاتے ہیں۔ یہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ بے چارے بہت غریب تھے۔ ایک پھٹے ہوئے جانگئیے اور پیوند لگے ہوئے شلوکے کے سوا ان کے بدن پر کچھ نہ ہوتا تھا۔ رات کے وقت ٹاٹ کے بورے میں لپٹ جاتے تھے۔ یہی ٹاٹ کا بورا ان کا لحاف تھا اور یہی ان کا گدّا۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر گاندھی جی کو بڑا ترس آیا اور انھوں نے ان کی امداد کے لیے مختلف  تجویزوں پر غور کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں گاندھی جی نے ایک ایسی عمارت کی تعمیر  کی تحریک بھی شروع کی جہاں پر یہ بے چارے پہاڑی مزدور ٹھہر سکیں اور اُن سے اُس کا کرایہ نہ لیا جاۓ۔  شاید اس عمارت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے کے وعدے بھی ہو گئے تھے۔
ایک دن میں بیٹھا ہوا تھا کہ یہ ذکر چلا کہ اُس عمارت کا نام کیا رکھا جائے؟  کئی نام تجویز ہوئے، مگر گاندھی جی کو کوئی نام بھی پسند نہ آیا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ اُسے دھرم شالہ کہا جائے۔
میں نے عرض کیا : ”اُس عمارت کا نام آپ ’غریب خانہ‘ کیوں نہیں رکھتے؟“
 ایک اور صاحب وہاں بیٹھے ہوئے تھے بولے : ”’غریب خانہ‘ تو شاید اپنے ہی گھر کو کہتے ہیں؟“
میں نے کہا: ”جی ہاں، کہتے تو ہیں، لیکن اپنے گھر کوغریب خانہ محض انکساری کی وجہ سے کہتے ہیں ۔ خود کو غریب فرض کر لیتے ہیں اور اپنے گھر کو غریب خانہ قرار دیتے ہیں ، ورنہ 'غریب خانہ' کے معنی غریب کے گھر کے سوا اور کُچھ نہیں۔ “
گاندھی جی کو یہ نام پسند آیا۔ اس کے بعد مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ عمارت بنی بھی  یانہیں اور اُس کا نام "غریب خانہ‘‘ رکھا گیا یانہیں ۔
گاندھی جی بھی جھوٹ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ستیہ گرہ آشرم میں ایک نیک چلنی اور سچائی کے قواعد بڑے سخت تھے۔ یہاں تک کہ بچّوں کو بھی اُن  کی پابندی کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ ایک نوجوان آشرم میں رہنے کے لیے آئے۔ یہ بی اے پاس کر چکے تھے۔ دستور کے مطابق گاندھی جی نے اُن کے  سپرد یہ کام کیا کہ تین مہینے تک وہ آشرم میں روزانہ جھاڑو دیا کریں۔
اُس نوجوان کو بچّوں سے بڑا اُنس تھا اور بچّے بھی اُس سے بہت مانوس تھے۔ ایک دن آشرم کی ایک آٹھ سالہ لڑکی اُس نوجوان سے ایک لیمو چھیننا چاہتی تھی ۔ وہ اُس لڑکی کے ساتھ کھیلنے لگا۔ کھیلتے کھیلتے اُسے تھکا دیا لیکن لیمو نہیں دیا۔  لڑکی تنگ آکر رو پڑی۔ اصل میں یہ لیمو آشرم کے ایک مریض کے واسطے تھا، اُس لڑکی کو کیسے دے دیا جاتا۔ جب لڑکی رونے لگی تو اُس نوجوان کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کرے؟
 آخر اُسے ایک ترکیب سوجھی ۔ اُس نے لیمو ہاتھ میں لے کر زور سے اپناہاتھ ہلایا اور یہ ظاہر کیا کہ جیسے لیمو کو سابر متی ندی میں پھینک دیا ہو، مگر اصل میں ایسا نہیں کیا تھا، بلکہ لیمو اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔ اب لڑکی کا دھیان ندی کی طرف گیا اور کہنے لگی ”میں لیمو کو ندی  سے نکال  لاؤں، کنارے ہی پرتو ہوگا؟“
نوجوان نے جواب دیا ”لیمو ندی میں ڈوب گیا، اب تم اسے نہیں نکال سکتیں۔“ بات آئی گئی ہوئی۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ مریض کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نوجوان نے اپنی جیب سے رومال جو نکالا اس کے ساتھ لیمو بھی جیب سے نکل کر زمین پر گر پڑا۔ لڑکی ہکّا بکّا رہ گئی اور نفرت سے نوجوان کی طرف دیکھ کر بولی: ”اچھا آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا،لیمو آپ نے جیب میں رکھ لیا تھا اور مجھ سے کہہ دیا کہ میں نے ندی میں پھینک دیا۔ آشرم میں رہ کر آپ نے اتنی بری بات کی۔ میں باپو سے کہوں گی کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔“
یہ کہہ کر وہ بھاگی اور سیدھی گاندھی جی کی خدمت میں پہنچی اور ان سے کہہ دیا کہ فلاں آدمی نے اس طرح جھوٹ بولا۔ گاندھی جی نے کہا:”ہم معلوم کریں گے کہ کیا بات ہے اور کیوں انھوں نے جھوٹ بولا؟“
شام کو دعا کے بعد گاندھی جی نے اس نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ”کیا بات تھی؟“اس نے سارا قصہ سنا دیا اور کہا”یہ سب مزاق تھا۔“
گاندھی جی نے مسکرا تے ہوئے اس سے کہا:”دیکھو!آئندہ سے اس بات کا خیال رکھو کہ بچّوں سے مزاق میں بھی جھوٹ نہ بولو۔ “                                                          
سوچیے اور بتائیے
1. گاندھی جی کہاں تشریف لے گئے تھے؟
جواب: گاندھی جی میرٹھ تشریف لے گئے تھے۔

2. گاندھی جی نے اچکن کی طرف اشارہ کرکے کیا فرمایا؟
جواب: گاندھی جی نے اچکن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''دیسی کیہں نہیں پہنتے۔''

3.گاندھی جی نے قہقہہ کیوں لگایا؟
جواب: گاندھی جی نے مصنف کی اس بات پر قہقہہ لگایا کہ وہ چار دیسی چیزیں، دیسی آم، دیسی پان، دیسی آلو اور دیسی شکر استعمال کرتا ہے تو کیا پانچویں چیز دیسی اچکن بھی استعمال کرنا ضروری ہے۔

4. گاندھی جی مسوری میں کس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے؟
جواب: گاندھی جی مسوری پہاڑ پر برلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

5. لداخی مزدور گرمی کے موسم میں مسوری کس لیے آتے ہیں؟
جواب: لداخی مزدور ہر سال کام کی تلاش میں مسوری آجاتے ہیں۔

6.لداخی مزدوروں پر گاندھی جی کو کیوں ترس آیا؟
جواب: لداخی مزدوروں پر گاندھی جی کو اس لیے ترس آیا کہ یہ بے چارے بہت غریب تھے۔ایک ذھٹے ہوئے جانگیے اور پیوند لگے ہوئے شلوکے کے سوا آن کے بدن پر کچھ نہ ہوتا تھا۔رات کے وقت وہ ٹاٹ کے بورے میں لپٹ جاتے۔یہی بورا ان کا لحاف بھی تھا اور ان کا گدا بھی۔

7. ''غریب خانہ" کس کو کہا جاتا ہے؟
جواب: اپنے ہی گھر کو انکساری کی وجہ سے غریب خانہ کہتے ہیں۔

8.ستیہ گرہ آشرم میں کن قواعد کی پابندی ہوتی تھی۔
جواب: ستیہ گرہ آشرم میں نیک چلنی اور سچائی کے قواعد بڑے سخت تھے۔چھوٹے بڑے کب کو اس پر عمل کرنا پڑتا تھا۔

9.بچی کو نوجوان کیا واقعی دھوکہ دینا چاہتا تھا
جواب: نہیں وہ صرف اسے بہلانا چاہتا تھا۔ اور یہ سب محض ایک مذاق تھا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. مجھے ان سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔
2. تین چار دیسی چیزیں۔مستقل طور پر استعمال کرتا ہوں۔
3. گاندھی جے نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا۔
4.مسوری میں ان دنوں بہت سے لداخی مزدور کام کی تلاش میں آئےہوئے تھے۔
5. وہ ہر سال گرمی کے موسم میں کام کی تلاش میں مسوری اور دوسرے مقامات پر آجاتے ہیں۔
6. انھیں اس حالت میں دیکھ کر گاندھی جی کو بڑا ترس آیا۔
7. آخر فیصلہ ہوا کہ اسے غریب خانہ کہا جائے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Lalach - NCERT Solutions Class VIII Urdu

لالچ
 رام آسرا راج
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے:
1. مشکوب کو اجنبی مسافر پر کیوں رحم آیا؟
جواب: مشکوب کو مسافر پر رحم آگیا اس لیے کہ وہ ایک لمبا سفر طے کر کے آیا تھا اور وہ پیاسا اور بہت ہی تھکا ہوا تھا۔

2. مسافر نے مشکوب کو کیاہدایت دی؟
جواب: مسافر نے مشکوب ایک کتاب دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس میں دوا کی تیاری کا نسخہ اور طریقہ درج ہے اس پر عمل کیجیے اور یاد رکھیے کہ کسی بھی غریب آدمی سے دوا کی قیمت نہ لیجیے ورنہ دوا کا اثر جاتا رہے گا۔ 

3. مشکوب حکیم مشکوب کیسے بنا؟
جواب: مسافر نے مشکوب کو نسخہ کی کتاب دی جس سے دوا بناکر وہ لوگوں کو دوائیں دینے لگا۔اس طرح وہ مشکوب سے حکیم مشکوب بن گیا۔

4. دواؤں کا اثر کیوں زائل ہوگیا؟
جواب: مشکوب نے ایک نہایت غریب آدمی سے اس کے بچّے کے علاج کے لیے پیسہ طلب کیا اور بڑی منت سماجت کے بعد بھی اسے فت میں دوا نہ دی جس کی وجہ سے دواؤں کا اثر زائل ہوگیا۔

5. سانڈنی سوار نے مشکوب کو اپنے بارے میں کیا بتایا؟
جواب: سانڈنی سوار نے مشکوب سے کہا کہ میں ایک بے یار و مددگار مسافر ہوں، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، اندھیرا چھانے کو ہے۔ ایک رات کے لیے مجھے اپنے گھر ٹھرنے کی اجازت دے دیں۔

6. قیمتی کتاب پتھر میں کیوں تبدیل ہو گئی؟
جواب: مشکوب نے مسافر کی بات نہ مانی اور خود اکیلے ہی سونا بنانے کی ٹھانی اس لیے اس کی قیمتی کتاب پتھر میں تبدیل ہو گئی۔

7. مسافر نے مشکوب سے گڑگڑاکر کیا کہا؟
جواب: مسافر نے گڑگڑاکر کہا کہ میں بھوکا پیاسا ایک بے یار و مددگار شخص ہوں مجھے ایک رات اپنے گھر میں ٹھہرنے کی جگہ دے دو۔

8. بو علی سینا کون تھے اور انہوں نے مشکوب سے کیا کہا۔
جواب: بوعلی سینا ایک نامی طبیب تھے انہوں نے کہا کہ میری زندگی غریبوں اور محتاجوں کے لیے وقف ہے۔ مگر تمہاری سنگ دلی نےمیری محنت پر پانی پھیر دیا اور دو قیمتی کتابوں کو پتھر بنا دیا۔ اب یہ پتھر قیمتی کتابوں میں اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک تم جیسے سنگ دل لوگ اپنی زندگی غریبوں اور محتاجوں کی بھلائی کے لیے وقف نہ کر دیں۔ جو بھی شخص ایسا کرے گا اس کے دل کی گرمی ان پتھروں کو پگھلا سکے گی۔ علم ور عقل سونے سے نہیں خریدے جا سکتے بلکہ سونا حاصل کرنے کے لیےعلم اور عقل کے ساتھ ساتھ درد مند دل بھی پیدا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہہ کر بو علی سینا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:
مجرب : مسافر نے مشکوب کو مجرب نسخہ دیا۔
بادلِ ناخواستہ : مشکوب نے بادل ناخواستہ مسافر کی بات مان لی۔
کیمیاگری : مسافر نے مشکوب کو کیمیا گری سکھائی۔
مربی : وہ اس بچّے کا مربی بن گیا۔
جمع پونجی : ساری جمع پونجی ختم ہو گئی۔
اوجھل : مسافر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
مسکین : وہ ایک مسکین و نادار شخص تھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے:
تندرست : بیمار
اجنبی : جاننے والا
خوش حال : بدحال
مستحق : غیر مستحق
نادار : حقدار 
محاوروں کو جملےمیں استعمال کیجیے:
عقل پر پردہ پڑجانا : میری عقل پر پردہ پڑگیا تھا کہ میں اس کی باتوں میں آگئی۔
نشہ ہرن ہونا  : شیر کو دیکھ کر اس کا نشہ ہرن ہوگیا۔ 
پتھر پگھلانا  :  کلاس ٹیچر کو منانا پتھر پگھلانے جیسا ہے۔ 
تھک کر چور ہونا  : امتحان کی تیاری میں طسلبات تھک کر چور ہو گئیں۔ 
صحیح جملے پر صحیح اور غلط پر غلط کا نشان لگائیے:

پیشے کی نسبت سے لوگ اسے مشکوب کہہ کر پکارتے تھے۔(صحیح)
مشکوب کو اجنبی مسافر پر رحم آگیا(صحیح)
مسافر نے مشکوب کو مجرب نسخہ نہیں دیا۔(غلط)
نسخہ پاکر بھی مشکوب سڑکوں پر پانی بیچتا رہا۔(غلط)
مشکوب کی دوائیں اثر والی نہیں تھیں۔(غلط)
لوگ مشکوب کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔(صحیح)
ایک دن ایک غریب آدمی اپنے بیمار بچے کی دوا لینے آیا۔(صحیح)
مشکوب کی نسخے والی کتب غائب ہوگئی۔(صحیح)
اجنبی مسافر بوعلی سینا تھے۔(صحیح)

پڑھیے، سمجھیے اور لکھیے:

’’مسافر‘‘ کا مطلب ہے ''سفر کرنے والا‘‘ یہ اسم فاعل ہے یعنی ایسا اسم جس سے کسی کام کے کرنے کا پتہ چلے’’اسمِ فاعل‘‘ کہلاتا ہے۔ درج ذیل کواسمِ فاعل میں بدل کر لکھیے۔
طلب کرنے والا : طالب
شعر کہنے والا : ۔شاعر
شکر ادا کرنے والا : شاکر
عبادت کرنے والا  : عابد
حفظ کرنے والا : حافظ
کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری