آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 13 August 2019

Khuda ke naam khat ۔ NCERT Solutios Class X Urdu


خدا کے نام خط

اس وادی کا اکلوتا مکان ایک چھوٹی سی چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہوکر بہتے ہوئے دریا، مٹر اور چنے کے کھیتوں کو به خوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کھیت بڑی عمدہ فصل دیتے تھے ۔ اور انھیں جس چیز کی بے حد ضرورت تھی وہ بارش تھی۔
ین شو اپنی زمین اور کھیتوں کے چپّےچپّے سے واقف تھا۔ وہ آج صبح سے بار بار آسمان دیکھے جا رہا تھا ۔ اس نے تشویش ناک لہجے میں کہا:
”بی بی! میرا قیاس ہے کہ آج بارش ہوگی۔“
 بی بی نے جو اس وقت کھانا تیار کر رہی تھی ، یہ سن کر جواب دیا:
”ہاں، آج کسی بھی وقت بارش ہوسکتی ہے اگر رب چاہے تو..........“
اس وقت بڑی عمر کے لڑ کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے بچے مکان کے نزدیک کھیل رہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد بی بی نے انھیں آواز دی:
”آجاؤ ، سب آجاؤ ، کھانا تیار ہے۔“
جب سب مل کر کھانا کھارہے تھے تو جیسا کہ لین شونے قیاس آرائی کی تھی، بارش ہونے لگی۔ بارش کے شفاف قطرے زمین پر برس رہے تھے اور آسمان پرشمال کی جانب سے بادلوں کے پہاڑ چلے آرہے تھے۔ ہوا بھی تیز تھی ۔ لین شو باہر کھیتوں میں نکل گیا۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہ تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ کو اپنے تن من میں رواں دواں دیکھے۔ جب وہ گھر میں واپس آیا تو جذباتی اور جوشیلی آواز میں بولا:
” جو کچھ اس وقت آسمان سے برس رہا ہے وہ بارش کے قطرے نہیں بلکہ سکّے ہیں، بڑے اور چھوٹے ‘‘
پھر اس نے بڑے اطمینان سے یہ بھی کہا کہ غلّے کے کھیت اور مٹر کے نئے نئے کھلے ہوئے پھول بارش کی چادریں اوڑھ کر بہت خوش ہیں۔ ابھی اس نے یہ کہا ہی تھا کہ یک بارگی تند و تیز آندھی اُٹھی پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ اولے واقعی چاندی کے گول گول ڈلوں سے مشابہ تھے۔ بچوں نے یہ دیکھا تو لپک کر اندر سے باہر آگئے اور انھیں چنے میں جٹ گئے ۔ بچے خوش تھے لیکن ان کا باپ فکر مند ہوکر خود سے کہنے لگا ”اب تو معاملہ بگڑنے لگا ہے، لیکن پھر بھی مجھے امید ہے کہ سب کچھ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گا۔“
لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا اور بہت دیر تک اولے گرتے رہے ۔ زمین ایسے سفید ہوگئی ، جیسے اس پر نمک کی چادر بچھادی گئی ہو ۔ درختوں پر ایک پتہ بھی نہ رہا۔ غلّے کے کھیتوں کا ستیاناس ہو گیا، مٹر کی بیلیں اور پودوں کے تازہ پھول ٹوٹ کر بکھر گئے۔ لین شو پریشان ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹوں سے کہا:
”اگر ان کھیتوں پر ٹڈی دل نے حملہ کیا ہوتا تو بھی ہمارے پاس اس سے زیادہ بچ رہا ہوتا لیکن اس ژالہ باری نے تو ہمیں مفلس اور قلاش بنا دیا ہے۔ اب ہمارے پاس نہ غلہ ہے اور نہ سبزی ہے۔ اس سال تو میں فاقے پر فاقے کرنا ہوں گے۔“
وہ تمام لوگ جو وادی کے اس اکلوتے مکان میں رہتے تھے اپنے دلوں میں ایک ناقابلِ شکست امید لیے بیٹھے تھے اور ایک اَن دیکھی قوت پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا:
”دل چھوٹا مت کرو، ہمت مت ہارو“
”اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ بھوک سے کوئی نہیں مرتا‘‘
لین شو کے تمام خیالات اپنی آخری امید یعنی آسمانی امداد کے گِرد گھومتے رہے۔ اس کو بچپن ہی سے تعلیم دی گئی تھی کہ سب کا پالن ہار بڑا رحیم اور کریم ہے۔ انسان کے دل کی گہرائیوں کی بات جانتا ہے۔
لین شو اپنے کھیتوں میں بیل کی طرح کام کرتا تھا۔ وہ کچھ لکھنا پڑھنا بھی جانتا تھا۔ آئنده اتوار تک اس نے اپنے آپ کواس بات کا یہ پختہ یقین دلا دیا کہ ایک ان دیکھی محافظ ہستی موجود ہے۔ اس یقین کے بعد اس نے خدا کے نام ایک خط لکھنا شروع کیا۔
”یاربّی !“
اگر تو نے میری مد د نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس وقت ایک سو روپیوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ میں کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکوں اور ان میں بوائی کرسکوں اور نئی فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکوں کیوں کہ ژالہ باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے۔“
الفانے پر پتے کی جگہ اس نے یہ الفاظ لکھے:
 ”یہ خط خدا کو ملے“
اس کے بعد اس نے لفافے کو بند کیا اور غمگین دل کے ساتھ شہر کی طرف چل دیا۔ ڈاک خانے پہنچ کر اس نے ٹکٹ خریدے، لفافے پر چپکائے اورلفافہ سپرد ڈاک کردیا۔
اس ڈاک خانے کے ایک ڈاکیے نے جو خطوں کی تقسیم کے ساتھ ان کی چھٹائی کا کام کیا کرتا تھا، ہنستے ہوئے یہ لفافہ اپنے افسر کو پیش کردیا۔ اپنی ساری ملازمت کے دوران اس نے اس پتے پر کبھی ڈاک نہیں پہنچائی تھی۔ پوسٹ ماسٹر ایک خوش مزاج اور دردمند دل کا آدمی تھا وہ بھی اس لفافے کو دیکھ کر بے اختیار ہنسنے لگا لیکن قہقہوں کے درمیان وہ یک بارگی ، خاموش اور سنجیدہ ہو گیا ۔ اس نے لفافہ میز پر رکھ دیا اور کہنے لگا:
”واہ، واہ! کیا پختہ ایمان ہے ، کاش مجھے بھی ایسا ایمان نصیب ہوتا اور میں بھی ایسے ہی یقین کا حامل ہوتا ۔ کیا بات لکھنے والے کی جس نے ایک پختہ امید پر خدا سے خط و کتابت شروع کردی ، واہ، وا“
پھر اس نے سوچا ایسے پختہ ایمان اور امید کو پاش پاش کرنا اچھا نہیں ۔ اس نے اپنے ماتحتوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ خط پڑھا جائے اور اس کا جواب دیا جائے۔ جب لفافہ چاک کیا اور خط پڑھا تب اندازہ ہوا کہ اس خط کا جواب کاغذ، قلم، دوات، روشنائی، دردمندی اور نیک دلی سے کچھ زیادہ کا طلب گار ہے۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو ساری بات بتا کر چندے کی درخواست کی اور خود بھی ایک اچھی خاصی رقم پیش کی ۔ اس کے عملے نے اس کارِ خیر میں حسب توفیق ہاتھ بٹایا۔
لین شونے جس قدر رقم طلب کی تھی اتنی تو جمع نہ ہوسکی پھر بھی اس کے نصف سے کچھ زیادہ کا انتظام ہو گیا۔ پوسٹ ماسٹر نے تمام نوٹ ایک لفافے میں بند کیے پھر اس پر لین شو کا پتہ تحریر کیا اور ایک چٹھی لکھ کر لفافے میں رکھ دی جس پر دستخط کے طور پر صرف اتنا لکھا تھا۔
”خدا“
اگلے اتوار کو پھر لین شو ڈاک خانے میں آیا اور پوچھا کہ کیا اس کے نام کوئی خط آیا ہے؟ پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط اس کے حوالے کیا اور اس کار خیر کے انجام دینے پر ایک طرح کی خوشی محسوس کی۔ اس کے بعد وہ دروازے کی دراز سے لین شوکی کیفیات دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ نوٹ پا کر لین شو کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ اس کو تو جیسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ یہ رقم تو اس کو ملنے ہی والی ہے ۔ پھر جب اس نے رقم گن لی تو بگڑ گیا اور بڑ بڑانے لگا۔
”خدا نے تو ہرگز ایسی غلطی نہیں کی ہوگی اور نہ اس کے پاس اس چیز کی کمی ہے جو میں نے اس سے خط کے ذریعے طلب کی تھی۔ وہ تو اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے۔“
پھر کچھ سوچ کر ڈاک خانے کی کھڑکی پر گیا ، کاغذ قلم طلب کیا اور پھر خط لکھنے بیٹھ گیا۔ اس کی پیشانی پر ابھرنے والی لکیریں بتا رہی تھیں کہ وہ جملے بنانے کے لیے اپنے ذہن کو بری طرح ٹٹول رہا ہے۔ اس کیفیت میں اس نے خط بہ مشکل پورا کیا اور اچھی طرح دیکھ بھال کے اسے لفافے میں بند کیا پھر ٹکٹ خریدا اور اس کو ایک زور دار مکے کے ساتھ بند کر دیا۔
پھر جیسے ہی خط لیٹربکس میں گرا تو ڈاکیے نے فوراً ہی اسے نکال لیا۔ خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا۔ ”یاربّی !‘‘ جو رقم میں نے طلب کی تھی، اس میں سے مجھے صرف ستر روپے ہی ملے ہیں ۔ باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں۔ مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے۔ لیکن اب باقی رقم ڈاک کے ذریعے ہرگز نہ بھیجیں کیونکہ اس ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔“
(گریگور پولو پینز فوآنتے)
لوک کہانی
یہ سبق اسپینی زبان کی ایک لوک کہانی پرمشتمل ہے۔ لوک کہانی کسی معاشرے کے افراد میں سنی سنائی جانے والی ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں فطرت، انسان اور ماحول کی دوسری تفصیلات کے متعلق روایتوں کو اخلاقی تعلیم وتربیت کی خاطر کہانی کے روپ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اس کہانی میں خدا پر ایک کسان کے پختہ یقین کو اس ڈھنگ  سے  پیش کیا گیا ہے کہ اس سے باہمی ہمدردی اور انسان دوستی کی تصویر کشی ہوجاتی ہے۔


خلاصہ:
وادی کا اکلوتا مکان ایک چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہو کر بہتے ہوئے دریا مٹر اور چنے کے کھیتوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کھیت عمدہ فصل د یتے تھے اور فصل کے لئے ہمیشہ بارش کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اس مکان میں کھیتوں کا مالک اور کسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ آج صبح بار بار آسمان کو دیکھے جارہا تھا۔ اس نے آسمان دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا آج بارش ہوسکتی ہے۔ اس وقت بڑی عمر کے لڑ کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے بچے مکان کے نزدیک کھیل رہے تھے۔ بیوی کھانا پکا رہی تھی ۔ کھانا تیار ہو گیا تو سب مل کر کھانے لگے۔ کھانا کھانےکے دوران بارش شروع ہوگئی ۔ بارش ہونے پر لین شو کھیت دیکھنے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور بڑے جذباتی اور جوشیلی آواز میں بولا ، جو کچھ اس وقت آسمان سے برس رہا ہے وہ بارش کے قطرے نہیں بلکہ سکے ہیں چھوٹے بڑے۔ ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ ایک بارگی تند و تیز آندھی آئی اور پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ بچے اولے دیکھ کر خوش تھے لیکن باپ فکر مند تھا کہ اولے گرنے سے فصل تباہ ہو جائے گی۔ اس روز اس قدرژالہ باری ہوئی کہ ساری فصل کا ستیاناس ہو گیا ۔ لین شو نے پریشان ہو کر بیٹوں سے کہا ”اس ژالہ باری نے تو ہمیں مفلس اور قلاش بنا دیا ہے۔ اس سال تو ہمیں فاقے پہ فاقے کرنے ہوں گے" ۔ حالات سے پریشان ہو کر اس نے خدا کے نام ایک خط لکھا اور پوسٹ کر دیا۔ ڈاک خانے میں جب یہ خط پہنچا تو ڈاکیے نے پوسٹ ماسٹر کو دیا کہ اپنی ساری ملازمت کے دوران اس نے اس پتے پر کبھی ڈاک نہیں پہنچائی ۔ پوسٹ ماسٹر نے خط لیا اور کھول کر دیکھا اور پڑھ کر کہا کہ اس شخص کا کتنا پختہ ایمان ہے کہ خدا اس بری حالت میں ضرور مدد کرے گا۔ چنانچہ اس نے لین شوکی مدد کرنے کے لئے اپنے ماتحتوں سے چندہ کیا اور ایک لفافے میں یک رقم رکھ کر اس کے ساتھ ایک چٹھی بھی رکھ دی۔ خط ختم کرنے پر دستخط کی جگہ ”خدا“ لکھ دیا۔ ایک ہفتے بعد اتوار کو لین شو ڈاکخانے پہنچا اور اپنے نام خط دیکھ کر اسے کھولا ۔ لفافے میں رکھی رقم گن کر وہ بڑبڑانے لگا۔ خدا تو نے ہرگز ایسی غلطی نہیں کی ۔ پھر اس نے ایک اور خط لکھا۔ لیٹربکس میں ڈال دیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکیے نے خط نکالا۔ اس میں لکھا تھا یار بی ! جتنی رقم میں نے طلب کی تھی اس میں سے صرف 70 روپے ملے ہیں۔ باقی رقم بھی ارسال کر دیں مگر ڈاک کے ذریعے نہیں ۔ ڈاکخانے کے ملازمین بے ایمان اور بددیانت ہیں۔
مشق
معنی یاد کیجیے:
قياس : اندازہ
شُدبُد : سمجھ
شفاف : صاف
ترنگ : جوش، خوشی
قلّاش : غربت
پاش پاش کرنا : ٹکڑے ٹکڑے کرنا
کارخیر : نیک کام
بددیانت : بے ایمان

غور کیجیے:
نقصان ہوجانے کے باوجود انسان کو ہمت نہیں ہارنا چاہیے اور نہ ہی نا امید ہونا چاہیے۔

سوچیے اور بتائیے:
1. لین شو نے  بی بی سے کیا قیاس آرائی کی؟
جواب: لین شو کا پہلے سے ہی قیاس تھا کہ آج بارش ہوگی۔

2.  لین شو بارش میں کھیتوں کی طرف کیوں گیا؟
جواب: اس کا مقصد تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ اپنے من تن میں رواں دواں دیکھے۔

3.   ژالا باری سے کیا نقصانات ہوئے؟
جواب: ژالا باری سے درختوں پر ایک پتّہ نہ رہا غلّے کے کھیتوں کا ستیاناس ہوگیا مٹر کی بیلیں، پودے اور تازہ پھول تک جل گئے۔

4.  لین شو نے خدا کے نام خط میں کیا لکھا؟
جواب: لین شو نے  خدا کے نام خط میں لکھا کہ  یا ربّی اگر تونے میری مدد نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کے شکار ہو جائیں گے۔ اس نے خدا کو لکھا کہ  اس وقت اسے ایک سو روپوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکے اور ان میں بوائی کر سکے اور  فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکے کیونکہ ژالا باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے۔

5.   لین شو نے لفافے پر کیا پتہ لکھا؟
جواب:  لفافے پر پتہ لکھنے کی جگہ اُس نے لکھا کہ یہ خط خدا کو ملے۔

 6.  پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط پڑھنے کے بعد کیا کیا؟
جواب: پوسٹ ماسٹر نے اپنے ماتحتوں سے لین شو کی مدد کے لیے چندے اکٹھا کرنے کو کہا اور خود بھی ایک بڑی رقم چندے میں دی۔

7.  لین شو نے پہلے خط کا جواب ملنے کے بعد دوسرے خط میں خدا کو کیا لکھا؟
جواب: دوسرے خط میں لین شو نے لکھا کہ یا ربّی! جو رقم میں نے طلب کی تھی  اُس میں سے مجھے صرف ستتر روپیے ہی ملے ہیں باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے  لیکن اب باقی رقم ہرگز  ڈاک کے ذریعے نہ بھیجیں کیونکہ اس ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔

لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:

لفظ
:
معنی
:
جملہ
اکلوتا : اکیلا : یوسف اپنے مان باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔
ملازمین : خدمت گزار : لین شو کے ڈاک خانے کے ملازمین بہت بے ایمان تھے۔
نیک دلی : سچّے دل سے : اللہ ہمیں ہماری نیک دلی کا پورا اجر دیتا ہے۔
پختہ یقین : مکمل یقین : لین شو کو اپنے خدا پر پختہ یقین تھا۔
تکیا کرنا : دوسروں پر منحصر ہونا : لین شو نے دوسروں پر تکیا کرنا چھوڑ دیا۔
۔
ان لفظوں کے متضاد لکھیے:
شہر : گاؤں
موجود : غیرحاضر
پختہ : کچّا
شکست : فتح
تیز : آہستہ
نزدیک : دُور

واحد اورجمع:
خط : خطوط
افسر : افسران
سبزی : سبزیاں
روح : ارواح
چادر : چادریں
مکان : مکانات

عملی کام:
 * خدا کے نام لکھے گئے لین شو کے خطوں کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Zabano ka ghar hindustan -- NCERT SOLUTION CLASS 10 URDU

زبانوں کا گھر، ہندوستان
احتشام حسین

ہندوستان ایک لمبا چوڑا دیش ہے جس میں کہیں اونچے پہاڑ اور گہری ندیاں راستہ روکتی ہیں ۔ کہیں پھیلے ریگستان ہیں جن میں آبادی کم ہے۔
کہیں زمین سونا اگلتی ہے کہیں بنجر ہے اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ پھر یہاں کے بسنے والوں کو دیکھو تو کالے بھی ہیں اور گورے بھی، خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی، لمبے قد والے بھی ہیں اور چھوٹے قد والے بھی، جنگلیوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے بھی ہیں، اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی۔ یہاں نہ جانے کتنی طرح کے لوگ ملتے ہیں، اور کتنی طرح کی زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کو ہندوستان میں بسے ہوئے پانچ ہزار برس سے بھی زیادہ ہو گئے ۔ کچھ ایسے ہیں جو تھوڑے ہی دنوں سے یہاں آباد ہیں۔ ایسے دیش میں عجیب عجیب ڈھنگ کی قومیں ہوں گی اور عجیب عجیب زبانیں ، لیکن اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ تو اس ملک کے بڑے ہونے کی نشانی ہے کہ اس میں الگ الگ ہونے پر بھی سب کے مل جل کر رہنے کی گنجائش ہے۔
یہ بتانا مشن ہے کہ پانچ ہزار برس پہلے یہاں کون لوگ بستے تھے۔ مگر اب بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اس زمانے سے یہاں دور دور کے لوگ آنے لگے۔ اتنا سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں ہے کہ پہلے دنیا کے زیادہ تر لوگ وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور کھانے پینے کی کھوج میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ جانوروں کا شکار کرتے تھے یا درختوں کے پھل، پتے اور جڑ کھا کر پیٹ بھرتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ یہاں بھی پہنچے۔ ان کی نسل کے لوگ اب بھی بنگال، بہار ، چھوٹا نا گپور اور وندھیا چل کے پہاڑوں کے قریب پائے جاتے ہیں۔ وہ جو زبان بولتے تھے وہ آج بھی الگ ہے۔ ان میں سے کول اور منڈا قبیلے مشہور ہیں اور اپنی بولیاں بولتے ہیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو کوئی بولی بولتی نہ ہو۔ یہی بات تمام انسانوں میں مانتی ہے۔ ان کے ہزار ڈیڑھ ہزار برس کے بعد دراوڑ لوگ پچھم کی طرف سے آئے ، وہ لوگ جنھیں دراوڑ کہا جاتا ہے۔ یہاں انھوں نے خوب ترقی کی، آج بھی مدراس ، میسور ، آندھرا پردیش اور کیرل میں یہی لوگ آباد ہیں ۔ تم نے تامل، تیلگو زبانوں کے نام سنے ہوں گے۔ یہ انھیں لوگوں کی زبا نیں ہیں۔
یہ تو تھا ہندوستان کا حال۔ باہر  ایران، چین اور ترکستان وغیرہ میں ایک اور قوم جسے عام طور سے تاریخ میں آر یہ کہا جاتا ہے ترقی کر رہی تھی۔ یہ لوگ بہادر تھے، اچھی شکل رکھتے تھے۔ گھوڑے سے کام لینا اورکھیتی کرنا جانتے تھے۔ کوئی ساڑھے تین ہزار برس ہوئے یہ لوگ ہندوستان میں آئے اور انھوں نے یہاں کے پرانے بسنے والوں کو ہرا کر اثری بھارت میں اپنا راج قائم کیا۔ ان لوگوں نے بہت سی نظمیں، بھجن اور گیت لکھے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ لوگ جو زبان بولتے تھے اسے آریائی زبان کہتے ہیں ۔ سنسکرت اسی کی ایک شاخ ہے۔ یونانی، جرمن، پرانے زمانے کی فارسی اور یورپ کی کئی زبانیں اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور جب تم آگے بڑھ کر ان زبانوں کو پڑھو گے تو معلوم ہوگا کہ سب ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ۔ زبانوں کی کہانی بڑی لمبی ہے۔ مزے دار ہے مگر یہاں اس کے بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، بس یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سنسکرت انھیں ہندوستانی آریوں کی زبان تھی ۔ تمام لوگ سنسکرت نہیں بول سکتے تھے۔ یہاں پرانے بسنے والے یا تو اپنی پرانی بولیاں بولتے تھے یا ملی جلی زبانیں ۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ سنسکرت اونچی ذات کے ہندوؤں کی زبان ہو کر رہ گئی ، عام لوگ اس سے دور ہو گئے۔ یہ لوگ جو زبانیں بولتے تھے ان کو پراکرت کہتے ہیں۔ پراکرت ایک زبان نہیں تھی بلکہ الگ الگ علاقوں کی الگ الگ پراکرتیں تھیں۔
ہندوستان لمبا چوڑا ملک تو ہے ہی، کسی حصے میں کوئی پراکرت بولی جاتی تھی کسی میں کوئی ۔ اب جو بدھ مت کا مقابلہ کرنے کے لیے سادھو اور سنت پیدا ہوئے تو انھوں نے بھی عام لوگوں پر اپنا اثر ڈالنے کے لیے پراکرتوں ہی میں گیت اور بھجن لکھے اور دھرم کرم کی باتیں کیں ۔ اس وقت دوسری پراکرتوں یا زبانوں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، اُتّری بھارت میں جو پراکرت بولی جاتی تھی، ہمیں اسی سے کام ہے۔ اس پراکرت کو شور سینی کہتے تھے ۔ اسی کے پیٹ سے وہ بھاشا ئیں پیدا ہوئیں جن کو ہندوستانی ہندی اور اردو کہتے ہیں۔
بنگالی ، مراٹھی، گجراتی، پنجابی، سندھی، آسامی اور اڑیا بھی نئی آریائی زبانیں ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ جب مسلمان ہندوستان میں آئے تو ان زبانوں کی بھی ترقی ہوئی۔
اگر او پر لکھی ہوئی باتیں یاد رکھی جائیں تو آگے کی کہانی اور زیادہ سمجھ میں آئے گی۔ اور معلوم ہو گا کہ 1000ء کے بعد سے جو نئی  زبا نیں ہندوستان میں بولی جانے لگیں ، ان میں ایک اردو زبان بھی ہے۔ یہ زبان کہیں باہر سے نہیں آئی، یہیں پیدا ہوئی اور یہیں کے لوگوں نے اسے ترقی دی۔ اس کی بناوٹ ، اس کا رنگ روپ سب ہندوستانی ہے، اگر یہ زبان کسی دوسرے ملک میں بھی بولی جانے لگے تو یہ وہاں کی زبان نہیں بن جائے گی۔ ہندوستانی ہی رہے گی۔
سید احتشام حسین
پروفیسر سید احتشام حسین کی پیدائش قصبہ ماہل، ضلع اعظم گڑھ (یوپی) میں 1912ء میں ہوئی ۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے الہ آباد آگئے ۔ یہیں 1972ء میں ان کا انتقال ہوا۔ احتشام حسین کا شمار اردو کے صف اول کے نقادوں میں ہوتا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ’تنقیدی جائزے‘،’ روایت اور بغاوت‘، ’ادب اور سماج‘،’ ذوق ادب اور شعور‘ ،’ افکار و مسائل اور ’اعتبار نظر‘ ان کی اہم کتابیں ہیں ۔ انھوں نے امریکہ اور یورپ کا ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے ”اردو کی کہانی“ لکھی۔ اس کتاب میں اردو زبان اور ادب کی تاریخ مختصر طور سے بہت ہی آسان اور دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہے۔
یہ سبق ان کی کتاب ”اردو کی کہانی“ سے لیا گیا ہے۔


مشق
خلاصہ:
ہندوستان ایک ایسا لمبا چوڑا ملک ہے جس میں اونچے پہاڑ، گہری ندیاں ، دریا بھی ہیں اور ریگستان بھی ہیں ۔ یہاں کہیں بنجر زمین ہے تو دوسری طرف سونا اگلتی مٹی بھی۔ یہاں مختلف رنگ ونسل کے لوگ رہتے ہیں جو چھوٹے بڑے قد کے ہیں تو دوسری طرف خوبصورت اور بدصورت بھی۔ اس ہندوستان میں آج بھی جنگلوں کی طرح زندگی بسر کرنے والے بھی ہیں اور بڑے بڑے شہروں میں مہذب پڑھے لکھے لوگ بھی۔ یہ لوگ مختلف زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں ۔ ہمارے اس دیس میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے آباو اجداد پانچ ہزار برس پہلے یہاں آ کر بسے۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں ۔ چنانچہ ہمارا ملک بھانت بھانت کے رنگ ونسل مختلف بولیوں اور زبانوں کے بولنے والوں سے مل جل کر ایک بڑا ملک بن گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پہلے زیادہ تر لوگ وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ جانوروں کا شکار کرتے، درختوں کے پھل، پتے اور جڑ کھا کر پیٹ بھرتے تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگ یہاں بھی پہنچے۔ ان کی نسل کے لوگ بنگال، بہار، چھوٹا نا گپور اور وندھیاچل کے پہاڑوں کے قریب پاۓ جاتے ہیں ۔ وہ جوزبان بولتے تھے وہ آج بھی الگ ہے۔ ان میں سے کول اور منڈا قبیلے مشہور ہیں۔ ان کے ہزار ڈیڑھ ہزار برس کے بعد بچھم کی طرف سے دراوڑ لوگ آئے۔ وہ لوگ دراوڑ تھے۔ آج بھی مدراس، آندھراپردیش اور کیرل میں یہی لوگ آباد ہیں ۔ تامل، تیلگو انہیں لوگوں کی زبانیں ہیں۔ ایران، چین اور ترکستان میں ایک اور قوم تھی جسے عام طور سے تاریخ میں آریہ کہا جا تا ہے۔ ہزار برس پہلے یہ ہندوستان آئے اور انہوں نے یہاں کے پرانے بسنے والوں کو ہرا کر اتری بھارت میں بس گئے۔ یہ لوگ جو زبان بولتے تھے اسے آریائی کہتے ہیں ۔ اس زبان میں بہت سی نظمین بھجن اور گیت لکھے۔ سنسکرت، یونانی، جرمن، پرانے زمانے کی فارسی اور یورپ کی کئی زبا نیں اسی خاندان تعلق رکھتی ہیں ۔ سنسکرت ہندوستان میں بسنے والے آریوں کی زبان تھی۔ تمام لوگ سنسکرت نہیں بول سکتے تھے۔ پرانے بسنے والے اپنی پرانی بولیاں بولتے یاملی جلی زبانیں ۔ اس طرح آہستہ آہستہ سنسکرت اونچی ذات کے برہمنوں کی زبان بن گئی۔ عام لوگ پراکرت بولتے تھے۔ یہ عوامی زبان تھی اور الگ الگ علاقوں کی الگ الگ پرا کرتیں تھیں۔ جب بدھ مت کا عروج ہوا تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سادھو اور سنتوں نے عام لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے پراکرتوں ہی میں گیت اور بھجن لکھے، اور الگ الگ علاقوں کی الگ الگ پرا کرتیں تھیں۔ جب بدھ مت کا عروج ہوا تو اس کا مقابلہ کرنےکے لئے سادھو اور سنتوں نے عام لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے پراکرتوں ہی میں گیت اور بھجن لکھے، دھرم کرم کی باتیں کیں ۔ اتری بھارت میں جو پراکرت بولی جاتی تھی اسے شور سینی کہتے تھے۔ اس سے وہ بھاشا ئیں پیدا ہوئیں جنہیں ہندی، ہندو اور اردو کہتے ہیں ۔ بنگالی، مراٹهی، گجراتی، پنجابی، سندھی، آسامی اور آریائی بھی نئی آریائی زبانیں ہیں ۔ ایک ہزار سال سے جونئی زبانیں ہندوستان میں بولی جانے لگیں ان میں ایک اردو ہے۔ یہ زبان بھی باہر سے نہیں آئی ، یہیں پیدا ہوئی ہیں ، لوگوں نے اسے ترقی دی۔ یہ زبان اگر کہیں دوسرے ملک میں بھی بولی جائے گی تو وہاں کی زبان نہیں بن جائے گی، ہندوستانی ہی رہے گی۔
معنی یاد کیجیے:
دیش : ملک، دیس
قبیلہ : گروہ
پراکرت : عوامی بولی، عام بول چال کی زبان

غور کیجیے:
اردو کا جنم ہندوستان میں ہوا۔ اس کا تعلق ہندآریائی خاندان سے ہے ۔ اردو گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے جس کی تشکیل میں ہندوستان کی مختلف بولیوں اور زبانوں کے الفاظ شامل ہیں ۔

سوچیے اور بتائیے:
1. ہندوستان کی خصوصیات کیا ہیں؟
جواب:  ہندوستان میں اونچے پہاڑ، گہری ندیاں اور ریگستان ہیں۔ کہیں سرسبز زمین ہے کہیں بنجر زمین ہے۔ یہاں کے لوگ کالے بھی ہیں گورے بھی، خوب صورت بھی ہیں اور بدصورت بھی، جنگلوں کی زندگی بسر کرنے والے بھی ہیں اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی۔ ہندوستان میں بہت سی زبانیں  بولی جاتی ہیں۔غرض ہندوستان ایک ایسا باغ ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہیں۔

2. ہندوستان کی قبائلی نسلوں کے نام کیا ہیں؟
جواب: ہندوستان کی قبائلی نسلیں کول اور منڈا ہیں۔

3. دراوڑ کون سی زبانیں بولتے ہیں؟
جواب: دراوڑ تامل اور تیلگو زبانیں بولتے ہیں۔

4. سنسکرت کس زبان کی شاخ ہے؟
جواب سنسکرت آریائی زبان کی شاخ ہے۔

5. اُتّر بھارت میں کون سی پراکرت بولی جاتی ہے؟
جواب: اتر بھارت میں شورسینی بولتے ہیں۔

6. ہند آریائی زبانیں کون کون سی ہیں؟
جواب:  بنگالی، مراٹھی، آسامی، گجراتی، پنجابی، سندھی  یہ ہند آریائی زبانیں ہیں۔

7. اردو کہاں پیدا ہوئی اور کس زبان سے نکلی؟
جواب: اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہ شورسینی زبان سے نکلی۔

عملی کام:
* استاد کی مدد سے اردو زبان سے متعلق ایک مضمون لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Qol ka paas

قول کا پاس

1. اکبر کس خاندان کا بادشاہ تھا؟
جواب : اکبر مغل خاندان کا مغل خاندان کا بادشاہ تھا۔

2. راج پوتوں کے اس  سردار کیا نام کیا تھا وہ جنگل میں کیوں چپ گیا تھا؟
جواب : اکبر نے  لڑائیاں لڑ کر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا ایک راجپوتانہ رہا گیا تھا  اکبر نے چاہا کے اسے بھی فتح کرلیے  اور وہاں بھی سلطنت کرے یہ ارادہ کرکے اکبر نے راجپوتانہ پر فوج کشی کی راجپوت اپنا ملک بنانے کے لیے  لڑے تو  بڑی بہادری سے  لیکن آخر کار ان کے پاوں اُکھڑ گئے اس لیے راجپوتوں کا ایک سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کے ساتھ جنگل میں جا چھپا۔

3. رگھویت نے پھر یدار کی مدد کس طرح کی؟
جواب :رگھوپت نے پہریدار کی مدد اس طرح کی کہ وہ پہریدار کو مصیبت میں دیکھ کر خود ہی راجا کے سپاہیوں کے سامنے حاضر ہو گیا۔

4. اکبر رگهویت کی کس بات سے متاثر ہوا؟
جواب : اکبر رگھپت کی بہادری اور ایفائے وعدہ سے متاثر ہوا۔

5. اکبر نے رگھویو ت کا دل کا طرح جیت لیا؟
جواب اکبر نے رگھو پت کا دل اپنی دریا دلی سے جیت لیا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملہ بنائیے
 لفظ : معنی  :  جملہ
سلطنت اکبر ایک بہت بڑی سلطنت کا شہنشاہ تھا۔ 
فوج فوج ملک کی حفاظت کرتی ہے۔ 
پہریدار فوجی ملک کے پہریدار ہیں۔ 
تدبر جنگ تدبر سے جیتی جاتی ہے۔ 
قصور : : جنگ میں کئی بے قصور لوگوں کی بھی جان جاتی ہے ۔

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے
پاؤ اکھاڑنا : دشمن فوج کے پاوں اُکھڑ گئے
ڈھارس بندھنا : فوجی مدد پا کر بادشاہ کی ڈھارس بندھی
قول دینا : اس نے مدد کرنے کا قول دیا
دل بھر آنا : اپنی ماں سے دور جاتے ہوئے سلیم کا دل بھر آیا
پھولا نہیں سمانا : جنگ میں فتح سے بادشاہ پھولے نہ سمایا
:
واحد اور جمع
ممالک : ملک
اسفار : سفر
امداد : مدد
تدابیر : تدبیر
افواج : فوج

نیچے لکھے ہوئی لفظوں سے مذکر سے مونث اور مونث سے مذکر بنائیے
بیٹی : بیٹا
عورت : مرد
لڑکا : لڑکی
گھوڑا : گھوڑی
بادشاہ : ملکہ

ان لفظوں کے متضاد الفاظ لکھیے
محبت : نفرت
دشمن : دوست
قید : آزاد
بہادر : بزدل
دکھ : سکھ
سچائی : جھوٹ

Hamd - NCERT Solutions Class 10 Urdu

Hamd by Ismail  Merathi  Jaan Pehchaan Chapter 2 NCERT Solutions Urdu

حمد

اسماعیل میرٹھی
Courtesy NCERT

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا 
کیسی زمیں بنائی، کیا آسماں بنایا

مٹی سے بیل بوٹے، کیا خوش نما اگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا

سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی، روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تونے، اے مہرباں بنایا

یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا

رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا تجھ کو ہے قدرداں بنایا

ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا


اسماعیل میرٹھی
(1947 - 1844)

محمد اسمٰعیل میرٹھی کی پیدائش میرٹھ میں ہوئی۔ انہیں بچپن سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ اپنے شوق اور محنت سے انھوں نے بڑی ترقی کی۔ کم عمری میں ملازم ہو گئے ۔ علم وادب کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ اردو اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے انھوں نے بچوں کی نفسیات، ذوق ، شوق، دلچسپی ، پسند اور ناپسند کا جائزہ لیا۔ انھیں تجربات کی مدد سے انھوں نے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں اور اردو کی درسی کتابیں تیار کیں ۔ یہ کتابیں ہر زمانے میں مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔
اسمعیل میرٹھی نے ان کتابوں میں آسان اور سلیس زبان استعمال کی ہے۔ بچوں کے مزاج اور ان کی ذہنی ضرورتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان کتابوں کی اہمیت اور ضرورت آج بھی مسلّم ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے نتائج پیدا کرنا اسماعیل میرٹھی کا خاص انداز ہے۔ بلا شبہ وہ آج بھی بچّوں کے سب سے پسندیدہ اور اہم ادیب ہیں۔

Hamd by Ismail  Merathi  Jaan Pehchaan Chapter 2 NCERT Solutions Urdu

مشق
معنی یاد کیجیے
خوش نما : اچھا دکھائی دینے والا، خوب صورت
خلعت : قیمتی لباس جو کسی بادشاہ یا امیر کی جانب سے کسی کو اعزاز کے طور پر دیا جائے
چشمہ : سَوتا، وہ جگہ جہاں زمین سے پھوٹ کر پانی نکلتا ہے
تسبیح خواں : خدا کی پاکی بیان کرنے والا شاعر نے یہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو تسبیح خواں کہا ہے
میسر ہونا : حاصل ہونا
قدرداں : قدر کرنے والا
کارخانہ : کام کرنے کی جگہ ، مراد دنیا
رائیگاں : بے کار، فضول

غور کیجیے:
خدا تعالی نے انسان کو بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنا چاہیے۔

سوچیے اور بتائیے
1. شاعر نے بیل بوٹوں کو مٹی سے اگایا ہوا کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر نے بیل بوٹوں کو زمین سے اگایا ہوا اس لئے کہا ہے کیونکہ بیل بوٹوں کا بیج مٹی میں لگایا جاتا ہے اور بیل بوٹے مٹی سے اگتے ہیں- 

2. سورج کو چشمہ کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: سورج نکل نے کے بعد سورج کی کرنیں  چشمہ کی طرح پھیل جاتی ہیں اور اس میں سفید دودھیا چمک ہوتی ہے جو پانی کے چشمے کی مانند نظر آتی ہے۔

3. چڑیاں خدا کی تسبیح کیسے کرتی ہیں؟
جواب: وہ اپنی چہچہاہٹ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتی ہیں۔

4. آخری شعر میں کارخانے سے کیا مراد ہے؟ 
جواب: آخری شعر میں کارخانے سے مراد دنیا ہے، جہاں زندگی کا کاروبار ایک کارخانے کی مانند چلتاہے۔

عملی کام:
اس نظم کی روشنی میں نیچے دیے گئے مصرعے پر پانچ جملے لکھیے :
 تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

اللہ تعالیٰ نے مٹی سے خوش نما بیل بوٹے اگائے۔
اللہ نے سورج سے روشنی بھی دی اور گرمی بھی۔
چڑیاں چہک چہک کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتی ہیں۔
اللہ نے بندوں کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا۔
اللہ نے جھرنے اور ندیاں پیدا کیں۔
کلک برائے دیگر اسباق

Friday 8 March 2019

عالمی یوم خواتین پر خصوصی مضمون

اسلامی معاشرے میں خواتین کا مقام

( یہ مضمون 8 مارچ 2014 کو شائع ہوا تھا مضمون کی
 افادیت دیکھتے ہوئے اسے از سر نو پیش کیا جارہا ہے۔)

آج یوم خواتین ہے۔دنیا بھر میں خواتین اپنی شناخت کی بقا کے لئے منصوبے بنا رہی ہیں۔معاشرے میں اپنی حیثیت کو تسلیم کرانے کے لئے جد وجہد کے راستے تلاش کر رہی ہیں اور اس اندھی دوڑ میں اسلام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالانکہ وہ سب اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ خواتین کے حقوق کو تسلیم کرنے اور انہیں ایک انقلابی حیثیت دینے میں اسلام سب مذاہب سے آگے ہے۔

کیا اسلامی معاشرے میں خواتین  کے ملازمت اختیار کرنے کو آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے؟ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی لڑکیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے  کہ وہ شادی کے بعد اپنے گھر کی چہاردیواری تک محدود رہیں۔ لڑ کیوں کو ملازمت کے’’ قبیح فعل‘‘ سے بعض رکھنے کے لئے اسلامی احکامات کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔

بے شک اسلام نے شرم و حیا کو عورتوں کا زیور بتایا ہےاور اسے پردے میں رہنے کی تلقین کی ہے،لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام نے شرعی حدود میں خواتین کے کام کرنے کو کبھی غلط نہیں سمجھا۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام نے عورتوں کو دیگر مذاہب کے مقابلے کہیں زیادہ آزادی دی ہےاور پوری طرح ان کے حقوق کی حفاظت کی ہےخواتین کو اپنی فلاح و بہبود کے لئے کسی دوسرے کی جانب دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔اسلام نے ان کو وہ تمام آزادی فراہم کی ہے جن سے وہ جائز طریقے پر اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہیں۔ہندوستانی معاشرے میں عورتوں سے جو ناروا سلوک کیا جاتا ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ اس تہذیب کی دین ہے جس کی بنیاد مردوں کے آمرانہ مزاج پر رکھی گئی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ آحر وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے صنف نازک کو اپنی تہذیب و تمدن سے بغاوت پر آمادہ کیا۔ وہ کیا وجوہات ہیں جنہیں انہوں نے ان طاقتوں کا آلہ کار بنادیا جو ہمارے تہذیب و تمدن اور اسلامی شناخت کو ملیا میٹ کردینا چاہتی ہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر اپنا محاسبہ نہ کیا اور اس کے سد باب  کی کوشش نہ کی گئی تو حالات مزید نازک ہوتے چلے جائیں گے۔

آج ہندوستانی معاشرے میں مسلم خواتین اپنی ہم وطنوں کی طرح ملازمتیں اختیار کر رہی ہیں۔انہیں اس معاملہ میں یکلحت یہ کہ کر روکا نہیں جاسکتا کہ اسلام انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔اسلام نے عورتوں و مردوں سب کو مساویانہ حقوق دیے ہیں ساتھ ہی اس نے سبھی معاملے میں ایک حد مقرر کی ہے، اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ مر د ہو یا عورت اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔اسلام دین فطرت ہے اور اس نے تمام فطری تقاضوں کوملحوظ خاطر رکھا ہے۔اب اس صورت میں اپنی جانب سے سخت رویہ اپنایا جائے گاتو ظاہر ہے اس کے رد عمل میں وہ نتائج ظہور پذیر ہوں گے جو معاشرے کے لئے خطر ناک ہیں لیکن انسانی ضرورتوں اور فطری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک درمیانی راستہ اختیار کیا جائے تو تمام مسئلوں سے بہ آسانی نمٹا جا سکتا ہے۔

بے جا رکاوٹوں اور حد سے زیادہ پابندیوں کی وجہ سے عورتوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مرد اپنی قوامیت ثابت کرنے کے لئے ان کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اسلام نے انہیں جو اختیارات دیے ہیں انہیں اس سے محروم رکھا جاتا ہے اور اسلام  کے نام پر ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ممعاشرے کےعملی شواہد بھی ان کے اس الزام کی تائید کرتے ہیں۔ہندوستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ پردے اور گھریلو ذمہ داریوں کے کے نام پر جو ناروا سلوک عام رکھا گیا اس کی مثال مہیں ملتی۔بے بسی اور کم مائیگی کے احساس نے ان کے اندر  بغاوت پیدا کردی ہے اور اپنی جائز ضرورتوں اور مطالبوں کے حصول کے لئے انہوں نے غلط راستہ اختیار کرلیا ہے۔معاشرے میں عورتوں میں جو یہ آزادی پائی جاتی ہے اس کے لئے بہت حد تک مرد ذمہ دار ہیں۔اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے میں بیداری پیدا کی جاتی اور عورتوں کے حقوق سلب نہ کئے جاتے تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔

اسلام مرد و عورت کی جداگانہ اور منفرد حیثیت کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن اس کے نزدیک ان دونوں کے درمیان کسی مادی کشاکش یا مفاداتی تصادم کا کوئی  وجود نہیں۔اسلام میں مرد اور عورت دونوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں بلکہ بعض معاملوں میں عورتوں کو مردوں پر سبقت حاصل ہے۔
                        

Sunday 24 February 2019

NCERT Urdu Solutions for Class 6, 7 and 8

ncert solutions,ncert solutions 10th,ncert solution,ncert,ncert books in urdu,ncert chapterss in urdu,cbse solutions,complete ncert solution 10th urdu,solution,ncert book in urdu,ncert urdu class 7,all solution,chapters books,chapters question solution,download ncert books in online,ncert audio books

اپنی زبان
چھٹی جماعت کے لیے اردو کی درسی کتاب
اپنی زبان
ساتویں جماعت کے لیے اردو کی درسی کتاب
اپنی زبان
آٹھویں جماعت کے لیے اردو کی درسی کتاب
نوائے اردو
نویں جماعت کے لیے اردو کی درسی کتاب
دسویں جماعت کے لیے اردو کی درسی کتاب
پیارے بچّوں!
 اردو ایک بہت پیاری اور آسان زبان ہے۔ تم ایک بار اس زبان میں مہارت حاصل کرلو تو یہ خود بہ خود تم کو اپنا گرویدہ بنالے گی۔ یعنی تم اس زبان کے بنا رہ نہیں پاؤگے۔ انٹرنیٹ کے زمانے میں اس کا پڑھنا اور سمجھنا اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ اسکول میں اگر یہ زبان تمہیں مشکل لگتی ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے اس کا حل ڈھونڈھ لیا ہے۔ انٹرنیٹ پر جہاں دسرے سبجیکٹ کے حل موجود ہیں۔ ہم نے بھی این سی ای آر ٹی کی مختلف درجات کی اردو کتابوں کے سوال نامے کا حل یہاں پیش کیا ہے۔ یہ صرف آپ کی سہولت کے لیے ہے آپ اس پر مکمل انحصار نہ کریں بلکہ اس سے سیکھیں اور اپنے جوابات خود لکھیں۔
 ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو جہاں بھی کچھ دشوار لگے ہم سے پوچھیں۔
اردو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے میں جو بھی مدد آپ کوچاہیے ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
 ممکن ہے آپ کی کتاب اس سے الگ ہو۔ پریشان نہ ہوں آپ صرف اپنے سوال ہمیں بھیجیں۔اور اس کا جواب پائیں۔
 ہر سبق کے نیچے تبصرے کی جگہ موجود ہے وہاں آپ  اپنے سوالات لکھیں۔ پہلی فرصت میں اس کا جواب دیا جائے گا۔ 
ہمارا مقصد آپ کو اردو سکھانا اور نصابات کے حل میں آپ کی مدد کرنا  ہے۔ مفت ، بالکل مفت
 اردو لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے میں آپ کے تعاون کے لیے ہمیشہ تیار۔
  آئینہ

Monday 18 February 2019

Kalim Ajiz - Teri Masti Ke Afsane Rahein Ge


تحریر: مبشر ابن طاہرعثمانی

کلیم آئے بھی اپنی غزل سنا بھی گئے
الاپ بھی گئے رو بھی گئے رُلا  بھی گئے
سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی ایک آواز جو ۷۰ اور ۸۰ کی دہائی میں کُل ہند مشاعروں کی جان ہوا کرتی تھی آج خاموش ہوگئی۔پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز اس دنیا میں نہیں رہے۔انہوں نے اپنے منفرد انداز بیان سے اردو شاعری میں میر کے لہجے کو آگے بڑھایا۔اپنی زندگی کے سب سے بڑے المناک حادثوں کو انہوں نے آفاقی بنا دیا۔ ان کی درد بھری المناک یادیں صرف انہی تک محدود نہیں  رہیں بلکہ ان کے اشعار میں وہ تاریخ کا حصّہ بن گئیں۔ لال قلعہ کے مشاعرہ میں پڑھے گئے اس شعر 

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہے کہ کرامات کرو ہو

کو آج بھی اہل علم یاد کرتے ہیں تو اس کمزور جسم کے ناتواں انسان کےاس شدید شعری احتجاج کو نہیں بھلا پاتے۔آج بھی یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے۔خود کلیم عاجز کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ تلخ لہجہ اگر غزل کے حسین پیرائے میں قید نہ ہوتا تو قابل گردن زدنی قرار دیا جاتا۔یہ شعر بلکہ پوری غزل مخاطبِ غزل کے مزاج نازک پر کتنا گراں گزری یہ تو معلوم نہیں لیکن لال قلعہ کے مشاعروں میں کلیم عاجز کی شرکت ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار پا گئی۔خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور  اکیڈمی کے ارباب  اقتدار بخوبی اس روایت کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اسے آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔
کلیم عاجز کی شاعری ہندوستان کے سماجی و سیاسی حالات کا بھرپور منظر نامہ پیش کرتی ہے۔وہ مناظر و واقعات جو کلیم عاجز کی شاعری کا بنیادی جز بنے وہ آج بھی مختلف شکلوں میں دہرائےجا رہے ہیں۔کھونے اور لُٹ جانے کا احساس بہتوں کو ستا رہا ہے۔آج بھی لوگوں کے دل اسی طرح زخموں سے چور ہیں اور ہر درد مند انسان اس کو اپنی زندگی کا ایک حصّہ سمجھتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ قاری ڈاکٹر عاجز کا جب بھی کوئی شعر پڑھتا ہے تو اسے وہ اپنے دل سے نکلتی ہوئی آواز محسوس کرتا ہے۔اگر اپنے اشعار کی ترسیل میں کلیم عاجز کی انا پسندی کا دخل نہ ہوتا تو شاید آج وہ ہندوستان کی گلی کوچوں کے سب سے مقبول شاعر ہوتے۔
ایک زمانہ تھا کہ کلیم عاجز ہندوستانی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔میرے والد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ جو خود بھی ایک شاعر تھے ڈاکٹر کلیم عاجز سے خصوصی لگاؤتھا۔اس زمانے میں وہ جب بھی دھنباد تشریف لاتے تو ہمارے گھر ضرور آتے۔والد محترم سے گھنٹوں ادبی و شعری گفتگو ہوتی اور باتوں ہی باتوں میں ایک شعری نشست ہوجاتی۔مشاعروں میں ایک ایک شعر کے لئے ناز و انداز دکھانے والے کلیم عاجز اتنی محبت سے شعر پر شعر سناتے کے ان کی فراخدلی دیکھتے ہی بنتی۔شاید ڈاکٹر کلیم عاجز کو احسا س تھا کے اس محفل میں ان کے سچے قدرداں موجود ہیں۔ یہی صورت حال میرے خالو سید ناطق قادری  اور ماموں طارق قادری کے ساتھ تھی۔نہیں معلوم ان کے دلوں پر اس سانحہ کے بعد کیا گزری ہوگی۔ کلیم عاجز ان کے لئےمشفق بڑے بھائی  اور ہمدم سے کم نہ تھے۔ان کے آبائی گاؤں بمنڈیہہ جو اورنگ آباد بہار میں واقع ہے وہ اکثر تشریف لاتے۔ تبلیغ کی اہم معمولات کی ادائیگی کے بعد ادبی گفتگو مشاعرہ میں تبدیل ہوجاتی اور پھر کلیم عاجز کے اشعار اور واہ واہ کی یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور پھر موذن ہی اس سلسلہ کو لگام لگا پاتا۔اس محفل میں کلیم عاجز نعتیں  غزلیں یہاں تک کے گیت بھی سناتےجو کبھی بہار کی ادبی روایت کا ایک حصّہ ہوا کرتی تھیں۔میرے وطن جھریا میں تو ڈاکٹر کلیم عاجز کے آنے کاسلسلہ تو رفتہ رفتہ کم ہوگیا بلکہ والدماجد کے انتقال کے بعد بالکل ہی ختم ہوگیا لیکن بمنڈیہہ آنے کا سلسلہ تا حال جاری رہا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے یہ شعری نشستیں ان مشاعروں سے بالکل الگ تھیں جو بین الاقوامی سطح پر عرب ممالک میں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ بعض وجوہات کی سبب انہوں نے ہندوستانی مشاعروں میں حصّہ لینا بہت پہلے ہی ترک کردیا تھا۔آج ادبی دنیا کی اہم شخصیتیں اردو مشاعروں کے تہذیبی زوال پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں لیکن کلیم  عاجز کے حساس مزاج نے برسوں قبل اس ماحول سےاپنی ذات  کو الگ کرلیا تھا۔انہیں ڈر تھا

کوئی ناشناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے

گرچہ یہ موقع شکوہ و شکایت کا نہیں لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں  جن کی بنا پر جب ان کے عہد کے دوسرے شعرا مشاعروں میں اپنی دھوم مچارہے تھیں کلیم عاجز نے ان مشاعروں سے خود کو الگ کرلیا۔آخر کیوں دبستان عظیم آباد کے اس عظیم شاعر نے دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے سجے اسٹیج پر اپنی موجودگی کو اپنی رسوائی کا سبب جانا۔خودداری کا وہ کون سا جذبہ تھا جس نے مشاعروں کے اسٹیج سے دوری کو ہی اپنے عزت نفس کی تسکین کا ذریعہ جانا۔ گرچہ اس زمانے میں میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے آج بھی یاد ہے شیر وانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس یہ باریش اور پرنور شخصیت کس طرح جام و مینا میں ڈوبےشاعروں کے لئے باعث تضحیک ہوتی تھی ۔ان کے سامنے زبان کھولنے کی تو کسی میں ہمت نہ تھی لیکن ان کی شاعری میں شامل علاقائی لب و لہجہ جو کسی حد تک زبان ِ میر کے قریب ہونے کے باوجودان کے لئے باعث مزاح ہوتا  تھا۔عاجز کا یہ شعر

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

ایسے ہی ’’ناشناس مزاج غم‘‘کی جانب ایک اشارہ ہے۔بہار کے شہر جھریا میں کل ہند مشاعرہ  جس کے انعقاد میں والد ماجد کی سرگرم کوششوں کا بڑا دخل تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس مشاعرہ کے روح رواں تھےاس  مشاعرہ میں اس وقت تمام نامور شعرا نے شرکت کی تھی جن میں علامہ فرقت کاکوروی٬ہلال سیوہاروی٬ملک زاد ہ منظور احمد٬ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر٬ڈاکٹر بشیر بدر٬اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ شامل تھے۔جھریا سے قبل  جھارکھنڈ کےگریڈیہ کے مشاعروں میں ان تمام شعرا نے شرکت کی تھی۔اس مشاعرہ میں کسی بات پر ڈاکٹر کلیم عاجز کی انانیت کو ٹھیس پہنچی اور اس کے بعد انہوں نے ناظم مشاعرہ اور سجی سنوری شاعرات کو مقابل رکھ کر جو فی البدیہ غزل سنائی تو سبھی ہکا بکا منہ تکتہ رہ گئے۔یہاں میں نے ہکا بکا کا لفظ بطور خاص استعمال کیا ہے کہ زبان و بیان کے ٹھیکے دارسادہ الفاظ کی وسعت کو سمجھ سکیں۔مشاعرے میں نوبت یہ تھی کہ اسٹیج خاموش تھا اور پنڈال واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صداؤں سے گونج رہا تھا۔

مکمل غزل ملاحظہ کریں

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ گل قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
وہ شوخ ستم گر توستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو

کلیم عاجز کی انا کو جو ٹھیس لگی تھی اس کا رنگ جھریا کے مشاعرے تک نظر آیا اور ان پر جملہ کسنے والی ٹولی ان سے شرمندہ شرمندہ سی رہی۔
کلیم عاجز ٹوٹے ہوئے دل کے مالک تھے۔اور بہار میں صوفیوں کے سرتاج حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کا کہنا ہے کہ جو دل جتنا ٹوٹا ہوتا ہے اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے۔ اقبال کی زبان میں ؃
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
عاجز کا دل ایک جانب تو  زخموں سے چور تھا دوسری جانب وہ  عشق رسول ،محبت الٰہی سے سرشار اور خوف خدا سے بھی پارہ پارہ تھا

دل کی یہ شکستگی اور خاتم النبی حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پناہ محبت کلیم عاجز کے نعتیہ اشعار میں جا بجا نظر آتی ہے۔ ان کی نعت دربار  ِ بے کس پناہ میں امت مسلمہ کی حالت  زار کا بیان اور ان کی نگاہ لطف کرم  اور ظالموں سے نجات کے لئے عرضی ہے۔  کلیم عاجز کی بیشتر نعتیں ہندوستان میں رو نما ہونے والے بدترین فسادات کے بعد کہی گئیں ۔بے سرو سامانی کی حالت میں کلیم عاجز کے لئےیہی ایک دربار ہے جہاں وہ اپنا حال دل بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ مراد آباد میں عید کے دن ہونے والے فسادات سےمتاثرہوکر یہ نعت کہی۔اس نعت کے چند اشعار یہاں آپ کی نذر ہیں جس میں  ان کے دل میں اپنی قوم کے درد اورظالموں سےپناہ کی خواہش صاف نظر آتی ہے


مدینہ پہونچ کر سرِعام کہیو
صبا کملی والے سے پیغام کہیو


طبیعت اندھیروں سے اکتا گئی ہے
بہت دن سے ہے شام ہی شام کہیو

خزاں بھی گذاری بہاریں بھی دیکھیں
ملا کوئی کروٹ نہ آرام کہیو

ہمیں پھول بانٹیںہمیں زخم کھائیں 
وہ آغاز تھا اور یہ انجام کہیو


وہ خود ہی نہ دریافت فرمائیں جب تک
تخلص نہ ان سے مرا نام کہیو


جس طرح غالب کی شاعری کا ذکر غالب کی نثر کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک اسی طرح کلیم عاجز کی شاعری کا تذکرہ ہو اور ان کی نثر کو بھلا دیا جائے ایسا ممکن نہیں۔دراصل  کلیم عاجز کی نثر ان کی شاعری کا پیش لفظ ہے۔ ان کی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا•••‘‘٬ابھی سن لو مجھ سے٬ جب فصل  بہاراں آئی تھی٬یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ اورجہاں خوشبو ہی خوشبو تھی  میں  الفاظ  کی روانی٬سادگی اور ان کی معنویت نثر میں نظم کا احساس پیدا کرتی ہے۔الفاظ اتنے سادہ اور مربوط ہیں  اور اندازبیان اتنا دل کو چھو جانے والا ہے کہ آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔غم جاناں کس طرح غم دوراں بنتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ان کی نثر نہ صرف ایک المناک داستان ہے بلکہ تاریخ ہے ان فسادات کی جو زمانے میں ہندوستان کے لئے ایک عفریت رہی ہے اور اس نے ہندوستان کے ہزاروں افراد کو اپنا نشانہ بنایا۔کلیم عاجز نے اس غم کو نہ صرف حرز جاں بنایا بلکہ  اپنے غم کو دوسرےحساس دلوں کی آواز بھی بنا دیا۔میں نے کلیم عاجز کی اس نثر کو متعدد بار پڑھنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس حقیقی بیانیے نے میرے قدم روک دیے میں نے ان وحشت ناک  مناظر سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔شاید مجھ میں ان لمحوں کو جینے کی ہمت نہ تھی۔ کلیم عاجز ۸۵ برسوں تک ان لمحوں کو سینے سے لگائے کس طرح گنگناتے رہے یہ انہی کا دل گردہ تھا۔میرا اپنا خیال ہے کہ کلیم عاجز کو پدم شری اور عزت و شہرت تو ملی لیکن عوام کو ان کی اس قدر کا موقع نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔

تری مستی کے افسانے رہیں گے
جہاں گردش میں پیمانے رہیں گے



ابھی کلیم کو کوئی پہچانتا نہیں
یہ اپنے وقت کی گدڑی  میں لعل ہیں پیارے

کلیم عاجز کے وہ اشعارجو زمانے سے میری ڈائری کی زینت ہیں ارور آج انکی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئے ہے۔
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے کی کیا بات کرو ہو

عاجز کے جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کے سب راحت و آرام پڑا ہے

عاجز یہ تم نے کیا غزل بے مزا پڑھی
ایک شعر بھی نہیں صفت زلف یار میں


Sunday 17 February 2019

Kundan Lal Sehgal - NCERT Solutions Class VIII Urdu

کندن لال سہگل
شرت دت 

سوچیے اور بتائیے
1. شرت چند چٹرجی کے ناول پر بنی پہلی فلم کا کیا نام تھا اور وہ کس زبان میں تھی؟
جواب: شرت چند چٹرجی کے ناول پر بنی پہلی فلم کا نام 'دنیا پاونا' تھا اور یہ بنگالی زبان میں تھی۔

2.بی این سرکار نے اپنی دوسری فلم کس زبان میں بنائی؟
جواب: این سرکار نے اپنی دوسری فلم ہندوستانی زبان میں بنائی۔

3. کے ایل سہگل نے اپنی کس خوبی سے سرکار صاحب اور بورال دا کو متاثر کیا؟
جواب:کے ایل سہگل نے اپنے گانے سےسرکار صاحب اور بورال کو متاثر کیا۔

4. ماتھا کی شکنیں گہری ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب: ماتھے کی شکنیں گہری ہونے سے مراد ہے کسی بات کا پسند نہ آنا، کسی سوچ میں ڈوبے ہونا یا کسی بات پر ناراض  ہونا۔

5. کے ایل سہگل صاحب کو دیکھ کر آترتھی صاحب نے کیا کہا؟
جواب: کے ایل صاحب صاحب کو دیکھ کر آترتھی صاحب نے کہا''اس لمبے سوکھے بدن کے ساتھ کیا خاک ایکٹنگ کریں گے۔دیکھنے سے لگتا ہے جیسے بانس پر کپڑے لٹکا دیے گئے ہوں۔نہ صورت نہ صحت۔"

6. آتھرتی کی باتوں کا سہگل پر کیا اثر ہوا؟
جواب: آترتھی کی باتوں سے سہگل کی حالت خراب ہوگئی تھی۔ آترتھی کا ایک ایک لفظ ان کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ پہلے وہ یہ سوچ کر خوش تھے کہ انہیں اپنی منزل مل گئی لیکن اب لگا کہ جسے وہ اپنی منزل سمجھ رہے تھے وہ محض ایک چھلاوہ تھا۔

7. موسیقی تو ایک مسلسل ہنر ہے بیٹے' یہ آواز سہگل نے کب محسوس کی؟
جواب: جب سہگل کی خود اعتمادی ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی تب انہوں نےجموں کے پیر بابا کی یہ آواز محسوس کی۔

8. سہگل میں خود اعتمادی کیسے لوٹی؟
جواب: جموں کے پیر بابا کی یہ آواز کہ موسیقی تو ایک مسلسل ہنر ہے بیٹے اور اس میں منزل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو بس ریاض اور ذکر جس کا کوئی خاتمہ نہیں۔ آخر دم تک اسے نبھانا پڑتا ہے۔ اگر تم یہ کر سکے تو تمہاری روح کو سکون ملے گا۔ سلمان پیر کی یہ بات یاد آتے ہی سہگل کو سچ مچ بہت سکون ملا اور ان کی خود اعتمادی جو ذرا دیر پہلے ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی پھر سے لوٹ آئی۔

9. آترتھی صاحب سہگل سے کیوں مطمئین ہو گئے؟
جواب:سہگل کی خود اعتمادی اور آرتھر صاحب کو دیے گئے ان کے اس جواب کو سن کر آترتھی صاحب مطمئیں ہوگئے کہ ”آپ تو پارس ہیں  لوہے کو چھولیں تو سونا بن جائے۔پھر میں آپ کی فلم کا ہیرو کیوں نہیں بن سکتا۔آپ ہی بتائیے۔میرے سر پر آپ کا ہاتھ ہوگا تو میں آسمان کو زمین پر اتار لاؤں گا۔“

11. سہگل کے رونے کی کیا وجہ تھی؟
جواب:جب کیمرے کا سامنا ہوا تو سہگل گھبرا گئے اور ان  سے بار بار غلطی ہو تی گئی۔آٹھ نو بار ری ٹیک ہوچکا تھا اور آترتھی صاحب بھی غصّے میں اسٹوڈیو سے باہر نکل گئے۔ یہ دیکھ کر سہگل رونے لگے۔

11. آترتھی کن خوبیوں کے مالک تھے؟
جواب: آترتھی ایک بہت اچھے ڈائریکٹر تھے۔وہ نفسیات کے ماہر تھے اور بہت ہی صبر سے کام لیتے تھے۔

12. کے ایل سہگل کو کن وجہوں سے شہرت حاصل ہوئی؟
جواب: سہگل کو ان کی آواز اور اداکاری کے دم پر زبردست شہرت حاصل ہوئی۔

صحیح جملوں کے سامنے صحیح اور غلط کے سامنے غلط کا نشان لگائیے۔
1. کے ایل  سہگل کی پہلی فلم کا نام ماں کے آنسو تھا۔(غلط)
2. ہیرو کے رول کے لیے مناسب کردار موجود تھا۔(غلط)
3. کے ایل سہگل بہت اچھا گاتے تھے۔(صحیح)
4. کے ایل سہگل ایک تندرست جسم کے مالک تھے۔(غلط)
5. سلمان پیر کی بات سے سہگل کو سچ مچ بہت دکھ ہوا۔(غلط)

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
دقیانوسی(پرانے زمانے کا): سہگل کے ماں باپ دقیانوسی خیالات کے مالک تھے۔
انتخاب(چننا): وہ صدارتی انتخاب میں کمیاب ہوگیا۔
مکالمہ: فلموں کے لیے مکالمہ لکھنا آسان نہیں ہوتا۔
پارس: پارس اگر لوہے کو چھو لے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔
توازن: اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔
حوصلہ افزائی: استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تناؤ: امتحان کے دنوں میں بچّے تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے۔
توازن : غیر متوازن
احساس کمتری : احساس برتری
مناسب : ۔نامناسب
سکون : بے سکون
مطمئین : غیرمطمئین
اعتماد : بےاعتماد
کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری