آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 14 August 2019

Ae Shareef Insano - NCERT Solutions Class10 Urdu

اے شریف انسانو!

ساحر لدھیانوی
Courtesy NCERT


ساحر لدھیانوی
(1980 – 1921)
ساحر کا اصل نام عبدالحئی بھی تھا وہ ساحر لدھیانوی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ لدھیانہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے ۔ زمانہ طالب علمی ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ 1936 میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک سے وابستہ ہونے والوں میں ساحر بھی شامل تھے۔ 1947 میں تقسیم ملک کے بعد دہلی چلے آئے پھر تلاش معاش میں ممبئی پہنچے، جہاں انھوں نے فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ساحر نے اپنی شاعری سے ہندوستانی فلموں میں گانوں کے معیار کو بہت بلند کیا ۔ اپنے زمانے کے وہ سب سے مشہور گیت کار تھے۔ ان کے فلمی گیتوں میں بھی ان کی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ عوام کے دکھ درد کا احساس اور ماحول کی کشمکش کا اثر ان گیتوں میں نمایاں ہے۔ ”تلخیاں“ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے۔ ”آو کہ کوئی خواب بُنیں“ بھی ان کی شاعری کا معروف مجموعہ ہے۔”گاتا جائے بنجارہ“ میں ساحر کے فلمی گیت یکجا کر دیے گئے ہیں۔ ساحر کی ”پرچھائیاں“ اردو کی طویل نظموں میں ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔

معنی یاد کیجیے:
نسل : آدم کی نسل، تمام انسان
مشرق : پورب
مغرب : پچھم
فتح : جیت
احتیاج  : ضرورت 
عالم  : دنیا 
روحِ تعمیر  : تعمیر کا جذ بہ، زندگی کو بنانے، سنوارنے کی خواہش 
زیست  : زندگی 
جشن  : خوشی کی تقریب ، چہل پہل 

غور کیجیے:

جنگ سے بربادی اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جنگ انسانی ترقی اور خوش حالی کی دشمن ہے۔

سوچیے اور بتائیے:

1. ’’روحِ تعمیر“ کے زخم کھانے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: یہاں شاعر کی مراد ملک کی ترقی کے عزم سے ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ جنگ میں ہلاکت ملکی روح تعمیر کو زخمی کرتی ہے۔ موت چاہے سرحد پر ہو یا گھر پہ یہ ترقی کی راہ مسدود کرتی ہے۔

2۔ دھرتی کی کوکھ بانجھ ہونے سے کیا مطلب ہے؟
جواب: دھرتی کی کوکھ بانجھ ہونے سے شاعر کی مراد زمین کا بنجر ہو جانا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹینک یا تو پیچھے ہٹیں یا آگے بڑھیں وہ زمین کو روند ڈالتے ہیں اور وہ اس کو بنجر بناتے ہیں، کھیت پیداوار کے لائق نہیں رہتے۔ اس نظم میں شاعر نے جنگ کی ہولناکیوں کو بیان کیا ہے۔

3۔ شاعر نے جنگ کو امن عالم کا خون کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر جنگ کو دنیا کے امن کے لیے خطرناک سمجھتا ہے۔ وہ اسے امن عالم کا خون قرار دیتا ہے۔ اس کا ماننا ہےکہ اگر کہیں ایک جگہ جنگ شروع ہوتی ہے تو پوری دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے۔جنگ میں گرنے والے خون کا ہر قطرہ نسل آدم کا ہے اور اس میں مشرق و مغرب کی کوئی قید نہیں ۔اور اسی لیے جنگ امن عالم کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

عملی کام:
* اس نظم میں اپنا ، پرایا، مشرق، مغرب وغیرہ متضاد الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ لفظوں کی فہرست بنائیے۔
* جنگ کے نقصانات پر مختصر مضمون لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale-NCERT SOLUTION CLASS X URDU

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 

ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بہ وقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے 

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار
 جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

نازاں نہ ہو خرد پہ، جو ہونا ہے ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانش وری چلے
تشریح:
لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے شیخ محمد ابراہیم ذوق کی مشہور غزل ہے جس میں شاعر نے زندگی کی حقیقت کا ذکر بیان کیا ہے۔ اس غزل میں شاعر نے بتایا ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ غزل کے پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ اُس کی عمر اگر حضرت خضر کی طرح بھی ہو تب بھی ہر انسان یہی کہتا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔ یعنی شاعر حضرت خضر کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اتنی طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔
تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے بدقمار یعنی ناکام جواری شاید ہی ہوں گے جس نے جو بھی چال چلی ہمیشہ ہی اُلٹی چلی۔ یہاں شاعر اپنی ناکامیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ دنیا اُسے ایک بساط کی طرح نظر آتی ہے جہاں ہرشخص اپنی چالیں چل رہا ہے۔ شاعر کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا ناکام کھلاڑی ہے جس کا کوئی بھی حربہ کوئی بھی چال کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ایک بے وفا جگہ ہے اور اس سے دل لگانا اچھا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا سے دل لگائے بغیر کام بھی نہیں چلتا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے دل لگانے کے لیے مجبور ہے۔
اس شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ اپنی ہوشیاری اور عقلمندی پر ناز کرنا فضول ہے۔ ہمیں اپنی عقلمندی پر ناز نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہاں تمہاری سوجھ بوجھ، ہوشیاری یا عقلمندی کچھ کام آنے والی ہے نہ میری۔ اس دنیا میں تو وہی چلے گا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
 ذوق کی یہ غزل پوری طرح انسان کی بے بساعتی کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا میں انسان محض ایک کھلاڑی ہے جو دوسروں کی انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے اور کہیں بھی اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

شیخ محمد ابراہیم ذوق
(1854 - 1788)

ذوق کا اصل نام شیخ محمد ابراہیم تھا۔ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایک سپاہی کے بیٹے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اپنی ذہانت اور محنت سے علمی صلاحیت پیدا کر لی تھی ۔ وہ شاہ نصیر کے شاگرد اور بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔
بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’ملک الشعراء‘ اور ’خاقانی ہند‘ کے خطابات دیے۔ ذوق نے کئی اصناف میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی اصل پہچان قصیدہ نگار کی ہے بالخصوص بہادر شاہ ظفر پر لکھے ہوئے قصائد کا مرتبہ بلند ہے۔ لیکن وہ غزل کے بھی ایک قابل ذکر شاعر ہیں۔
ذوق نے اپنے کلام میں نیا پن پیدا کرنے اور زبان اور محاورے کی صفائی پر خاص توجہ دی ہے۔

معنی یاد کیجیے: 
حیات : زندگی
قضا : موت
عمر خضر : مرادلمبی عمر
مرگ : موت
بساط : وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
بدقمار : ناکام جواری
نازاں ہونا : ناز کرنا، فخر کرنا
خرد : عقل
دانش : سمجھ بوجھ
دانش وری : ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا

غور کیجیے:
اس غزل کے ہر شعر کے آخر میں لفظ ”چلے“ آیا ہے۔ اسے ردیف کہتے ہیں۔ 
” چلے“ ردیف سے پہلے چلی، خوشی، ابھی، بری اور دل لگی جیسے ہم آواز الفاظ استعمال ہوئے ہیں، انہیں قافیہ کہتے ہیں۔


سوچیے اور بتائیے:
1. پہلے شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر کہنا چاہتا ہے کہ زندگی اسے دنیا میں لائی تو وہ آگیا موت اسے لے جا رہی ہے تو وہ جارہا ہے۔

2. ”ابھی آئے ابھی چلے“ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: اس شعر سے شاعر کی مراد ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور اسے ابھی ہی جانا پڑ رہا ہے۔

3. دنیا سے دل لگانے کے کیا معنی ہے؟
جواب: دنیا سے دل لگانے کے معنی دنیا سے محبت کرنا  یعنی دنیا کے کاموں میں گرفتار ہوجانا ہے۔

4. شاعر نے عقل پر فخر کر نے سے کیوں منع کیا ہے؟
جواب: شاعر نے عقل پر فخر کرنے سے اس لیے منع کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے انسان کی عقل کچھ کام نہیں کرتی۔ یہی سبب ہے کہ شاعر نے عقل پر فخر کرنے سے منع کیا ہے۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے:                                                                        
حیات : قضا
خوشی : غم
بہتر : بدتر
مرگ : زندگی
بری : اچھی

عملی کام:
اس غزل کو یاد کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Kaath Ka Ghoda--NCERT Solution Class 10 Urdu

کاٹھ کا گھوڑا
رتن سنگھ

Courtesy NCERT
اس وقت بُندو کا ٹھیلہ تو ٹھیلہ خود بندو ایسا بے جان کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہ گیا ہے جو اپنے آپ نہ ہل سکتا ہے نہ ڈُل سکتا ہے، نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
اسی لیے ، بندو کی ہی وجہ سے اندھیر دیو کےتنگ بازار میں راستہ قریب قریب بند ہو کر رہ گیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ بوجھ سے لدا ہوا بندو کا ٹھیلہ سڑک پر چڑھائی ہونے کی وجہ سے رُک سا گیا ہے۔ رہ رہ کر اگر چلتا بھی ہے تو جوں کی رفتار سے رینگتا ہے اور پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کاریں، ٹرک، بسیں ، موٹر سائیکل ، اسکوٹر غرض یہ کہ سبھی تیز رفتار گاڑیوں کی لمبی قطار ٹھہرسی گئی ہے اور انہی کے بیچ میں تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری سیٹھ ، دفتروں کے افسر، دوکاندار، اور وردیوں والے فوجی اور پولس والے، سفید کالروں والے بابو، عام آدمی ، سودا سلف خریدنے کے لیے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچّے ، ڈاکٹر، نرس، انجینئر سبھی کے سبھی ٹھہر گئے ہیں۔ لگتا ہے جیسے بندو کی سست رفتار کی وجہ سے سارے شهر، بلکہ ایک طرح سے کہا جائے تو سارے ملک، ساری دنیا کی رفتار دھیمی پڑ گئی ہے۔
یوں تو وزیر اپنی کار میں بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو کر رہا ہے۔ لیکن بے چینی سے بار بار گھٹری دیکھ رہا ہے۔ کیوں کہ کسی غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آگے سے راستہ اس طرح بند کیوں ہو گیا ہے۔ اس کا ڈرائیور گھبرایا ہوا بار بار کار سے اترتا ہے، کچھ دور جا کر دیکھ کر آتا ہے ۔ اور پھر مایوس ہوکر گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگتا ہے ۔ وہ لوگ جو کار میں بیٹھے وزیر سے باتیں کر رہے ہیں، دل ہی دل میں خوش ہیں کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے کار کھڑی ہے اور انھیں وزیر کے سامنے اپنی بات رکھنے کا پورا پورا موقع مل رہا ہے ۔ کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ البتّہ کاروں کی گدّیوں پر بیٹھے بے چین ہورہے ہیں ۔ ان کے لیے ہر گذرے ہوئے پل کے معنی ہیں لاکھوں کا گھاٹا۔
ریلوے کا ایک ڈرائیور بار بار اپنی سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا اٹھا کر پٹک رہا ہے۔ پریشانی کی وجہ سے اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا ہے، کیوں کہ جس گاڑی کو لے کر اسے جانا ہے، اس کے جانے کا وقت ہو چکا ہے اور وہ یہاں راستے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔
اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچّے خوش ہیں ۔ جتنے پیریڈ نکل جائیں اتنا ہی اچھا ہے لیکن کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائی پیچھے رہ جائے گی۔
اسی طرح سر پر لوہے کی ٹوپی پہنے ہوئے فوجی بار بار موٹر سائیکل کا ہارن بجارہا ہے لیکن آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دفتر پہنچنے میں دیر ہوگئی تو اس کا کمانڈنٹ آفیسر چالیس کلو کا وزن پیٹھ پر لدوا کر دس کلو میٹر کا روڈ مارچ کروادے گا۔
لیکن بُندوان سب سے بے خبر ہے۔ بے نیاز ہے۔
آج اس سے ٹھیلہ کھنچ بھی نہیں پا رہا۔ ایک تو سیٹھ کے بچے نے زیادہ بوجھ لاد دیا ہے دوسرے اس کے ٹھیلے کا دھُرا جام ہورہا ہے۔ تیسرے یہ کہ چڑھائی کا راستہ ہے اور چوتھے یہ کہ اس کا من ہی نہیں ہورہا ہے ٹھیلہ کھینچنے کا۔ وہی کاٹھ کے گھوڑے والی بات ہورہی ہے جواپنے آپ سرک نہیں سکتا۔ جب بھی اس کا من اداس ہوتا ہے تو اس کی کیفیت اس کا ٹھ کے گھوڑے جیسی ہو جاتی ہے جسے وہ بچپن میں ایک میلے سے خرید کر بڑا دکھی ہوا تھا۔
کاٹھ کا رنگین گھوڑا لے کر جب وہ بڑے فخر سے گلی کے بچوں کے بیچ گیا تو اس نے دیکھا کہ کسی کے پاس چابھی والی موٹر تھی جو گھوں گھوں کرتی ہوئی تیز بھاگتی تھی اور کسی کے پاس ریل گاڑی تھی ، انجن سمیت اپنے آپ چلنے والی گاڑی ۔ جس کے پاس ایسے دوڑنے والے کھلونے نہیں تھے، ان کے پاس رسّی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹّو تھے۔ تیزی سے گھومتے ہوئے وہ ایسے لگتے تھے جیسے وہ سارے میدان کو اپنے گھیرے میں لے رہے ہوں ۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا سا کت بے جان تھا۔ ویسے بچوں کے سامنے کھیلتے ہوئے اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے بیچ پھنسا کر دوڑ نے کا سوانگ کیا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اس کا کھلونا دوسروں کے کھلونے کے سامنے بے کار اور بے معنی ہے ۔ اسی لیے گھر آ کر اس نے کاٹھ کے گھوڑے کو چولہے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ لیکن جلنے کے با وجود جیسے وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی شخصیت کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا۔ کیونکہ ہوا یہ کہ گلی کے ہی بچّے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر منیم بن گیا تھا تو کوئی وکیل ۔ کوئی اسکول کا ماسٹر ہوگیا تھا تو کوئی بڑا افسر اور اس کے برعکس بندو وہی کاٹھ کا گھوڑا ہی رہ گیا۔ باپ ٹھیلا چلاتا تھا تو وہ بھی ٹھیلہ ہی کھینچ رہا ہے۔
وہ اکثر سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا کہ ایک ہی گلی میں رہتے ہوئے باقی لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گیا۔ ایسا کیوں کر ہوگیا ؟ لیکن وہ سوچے بھی تو کیا؟ کاٹھ کا گھوڑا بھلا سوچ ہی کیا سکتا ہے؟
لیکن آج وہی کاٹھ کا گھوڑا یہی سوچ کر اداس ہورہا ہے کہ اس کے آٹھ نو سال کے لڑ کے چندو نے محض اس لیے اسکول جانا بند کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے ضرورت کی چیزیں جُٹا نہیں پاتا۔”جب میں اپنی زندگی کی گاڑی ٹھیک سے نہیں کھینچ پاتا تو پھر اس ٹھیلے کے بوجھ کو کیوں کھینچوں؟“ بندو سوچ رہا ہے۔
اس کے دل نے کہا کہ ٹھیلہ جو پہلے ہی سرک نہیں پا رہا ہے اسے چھوڑ چھاڑ کر الگ کھڑا ہو جاؤں ۔ اس کی ہمت پہلے ہی جواب دے رہی ہے ۔ رہ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے ہیں کہ ایک دن اس کے چندو کو بھی اسی طرح ٹھیلے کے بوجھ کو سینچنا پڑے گا۔ اور اس خیال کے ساتھ اسے اپنی جان ٹوٹتی ہوئی سی محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہورہا ہے۔
لیکن اس کے پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں وہ اتاولے ہورہے ہیں۔ بار بار ہارن بجا کر اپنے غصّے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے پاس آیا اور بولا ”بھیا جلدی کرو۔ تمھارے پچھے پوری دنیا رکی پڑی ہے۔“ اٹکی پڑی ہے۔ ”اٹکی ہے تو اٹکی رہے ۔“ بندو جھنجھلا کر بولا۔”جو لوگ تیز جانا چاہتے ہیں ان سے کہو کہ میرے پیروں میں بھی پہیے لگوادیں ۔‘‘
”بات تو ٹھیک کہتا ہے۔“ کسی نے کہا ”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اتنے تیز ہو جائیں کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگیں اور کچھ کو اتنا مجبور کردیا جائے کہ ان کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہو جائے۔“
یہ سب باتیں گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں اور لوگوں کے شور میں دبی جا رہی ہیں۔
کاٹھ کے گھوڑے میں قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ۔ وہ آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔ اور اس کے پیچھے بھیڑ میں وہ وزیررکا ہوا ہے جسے کسی غیر ملکی وفد سے وقت مقررہ پر بات کرنا ہے، وہ ڈرائیور اٹکا ہوا ہے، جسے ملک کے کسی دوسرے شہر کی طرف ریل گاڑی لے کر جانا ہے، اسکول کے وہ پچّے رکے ہوئے ہیں جوکل کے مالک ہوں گے ۔ ڈاکٹر، نرس، انجینئر سب کے قدم بندھ کر رہ گئے ہیں۔
اور بُندو کاٹھ کا گھوڑا اندھیر دیو کے بازار میں اپنے ٹھیلے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
رتن سنگھ
رتن سنگھ قصبہ داؤد، تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ میں 1927ء میں پیدا ہوئے۔ ایک مقامی اسکول میں میٹرک تک تعلیم پائی تقسیمِ وطن کے بعد ہندوستان چلے آئے ۔ 1962 میں آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایکزیکیٹو کی حیثیت سے منسلک ہوئے۔ اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے جالندھر، بھوپال، لکھنؤ ، جبل پور اور سری نگر وغیرہ شہروں میں قیام کیا۔
انھیں شروع سے افسانہ نگاری کا شوق تھا۔ طالب علمی کے دور میں کہانیاں لکھنے لگے۔ بطور افسانہ نگار ان کا نام بہت جلد مشہور ہوگیا۔ ’پہلی آواز‘ ، ’پنجرے کا آدمی‘، ’کاٹھ کا گھوڑا‘ اور ’پناہ گاہ‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں ۔ ان کے دو ناولٹ ’در بدری‘ اور ’اڑن کھٹولہ‘ اور ایک طویل سوانحی نظم ’ہڈ بیتی‘ اردو اور پنجابی میں شائع ہوچکی ہے۔ وہ مترجم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔


مشق
خلاصہ:
اس وقت بندو خاں بے جان ہورہا تھا۔ وہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔ بندو کے ٹھیلے کی وجہ سے اندھیر دیو کے تنگ بازار میں راستہ تقریباً بند ہو کر رہ گیا۔ بندو کے ٹھیلے کے پیچھے کاریں ، ٹرک ، بسیں، موٹر سائیکلیں، اسکوٹر وغیرہ کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ ان ہی کے درمیان تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے تھے۔ ان گاڑیوں میں بڑے بڑے امیر کبیر لوگ کارخانے دار، کاروباری سیٹھ ، دفتروں کے افسران، دکان دار ، فوجی اور پولیس والے، بابو، عام آدمی ، گھر کا سامان خریدنے والی عورتیں، اسکول اور کالج کے بچے، ڈاکٹر، نرس، انجینئر سب رک گئے تھے۔ یوں تو وزیر اپنی گاڑی میں بیٹھا باتیں کر رہا تھامگر بار بار گھڑی بھی دیکھتا جاتا تھا۔ اس کا غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اس کا ڈرائیور بھی خاصا پریشان ہورہا تھا۔ جولوگ وزیر سے باتیں کررہے تھے وہ خوش تھے کہ انھیں وزیر سے اتنی دیر بات کرنے اور اپنے مسئلہ رکھنے کا پورا موقعہ مل گیا تھا۔ ادھر کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ بھی بار بار اپنی کاروں کی گدیوں پر پہلو بدل رہے تھے۔ ان کی نگاہوں میں لاکھوں کا گھاٹا گھوم رہا تھا۔ ریلوے ڈرائیور بھی خاصا پریشان تھا، وہ اپنی سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا تھا۔ اسے گاڑی لے کر جانا تھا، اور وہ لیٹ ہو گیا تھا۔ ادھر ایک فوجی بار بار اپنی موٹر سائیکل کا ہارن بجارہا تھا، اسے ڈر تھا کہ لیٹ ہونے پر کمانڈ ینٹ آفیسر بھاری وزن لدوا کر روڈ مارچ کروادے گا۔ لیکن بندو ان سب باتوں سے بے نیاز تھا۔ آج اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ٹھیلے کو آگے بڑھا سکے۔ اسے بچپن میں خریدا ہوا کاٹھ کا گھوڑا یاد آ رہا تھا۔ جو دوسرے بچوں کے کھلونوں کے سامنے بالکل حقیر سا تھا۔ اس کے ساتھ کے ساتھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن قسمت نے اسے بھی کاٹھ کا گھوڑا ہی بنا ڈالا۔ بے بس لاچار بندو ٹھیلے والا ۔ وہ اپنے بیٹے چند کو پڑھا بھی نہ سکا۔ اس کے دل میں آیا کہ یہ ڈھیلا پہلے ہی سرک نہیں رہا تھا، کیوں نہ اسے چھوڑ کر الگ کھڑا ہو جائے ۔ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے تھے کہ ایک دن چندو کو بھی یہی سب کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے ایک ایک قدم بڑھانا بھی دشوار ہورہا تھا۔ لیکن اس کے پیچھے جولوگ جام میں پھنسے تھے، بار بار ہارن بجا کر اپنے غصےکا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن بندو ایک جگہ کھڑا تھا۔ وہ آگے بڑھے، اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
معنی یاد کیجیے :
کاٹھ کا گھوڑا : لکڑی کا گھوڑا
وفد : نمائندوں کی جماعت
روڈ مارچ : حکم نہ ماننے پرفوجی کی پیٹھ پر بھاری بوجھ لدوا کر سڑک پر دوڑایا جانا
بے نیاز : بے پروا
ساکت  : بے حرکت 
سوانگ  : خاموش نقل (روپ بدلنا)
برعکس  : بر خلاف 
محض  : صرف 
مقررہ  : طے شدہ 
غور کیجیے:
ہمیں ان اسباب کی تہ تک پہنچنا چاہیے کہ زندگی کی دوڑ میں کچھ لوگ بہت آگے کیوں نکل جاتے ہیں اور کچھ لوگ کیوں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر ہمیں ترقی اور پچھڑجانے کے اسباب کا علم ہوجائے تو پھر ہم آسانی سے اپنی کمزوریوں پر قابو پاسکتے ہیں۔
نیچے دیئے ہوئے لفظوں سے خالی جگہوں کو بھر یے: 

حرکت#### سوانگ#### رفتار#### ساکت #### شخصیت

1۔ ساری دنیا کی .....رفتار..... دھیمی پڑگئی۔ 
2۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا ....ساکت.....بے جان تھا۔
3. اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے نیچے پھنسا کر دوڑنے کا......سوانگ...... کیا تھا۔ 
4۔ وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی .....شخصیت....سے چپک کر رہ گیا تھا۔ 
5۔ اس کے پاؤں میں...حرکت....آئے تو زندگی آگے بڑھے۔

نیچے دیے ہوئے جملوں پر غور کیجیے: 

1. اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچے خوش ہیں۔ 
2۔ ان کے پاس رسّی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹّو تھے۔ 
3. کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائی پیچھے رہ جائے گی۔

* پہلا جملہ ’ہیں‘ پر ختم ہوتا ہے، جو موجودہ زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں ایسی حالت اور کیفیت واقع ہوتی ہے اسے ’حال‘ کہتے ہیں۔
 * دوسرا جملہ ’تھے‘ پر ختم ہوتا ہے ، جو گزرے ہوئے زمانے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جہاں ایسی حالت اورکیفیت واقع ہوتی ہے، اسے ’ماضی‘ کہتے ہیں۔
 * تیسرا جمله ’گی‘ پر ختم ہوتا ہے، جو آنے والے زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں ایسی حالت اور کیفیت واقع ہوتی ہے اسے ’مستقبل‘ کہتے ہیں۔ 

نیچے دیے ہوئے جملوں میں زمانے کی نشان دہی کیجیے۔ 

1. احمد کل آیا تھا۔########اا اااا#ماضی
2. موہن بازار سے لوٹ آیا ہے۔ ####حال
3. سردی کا زمانہ کب آئے گا۔#####مستقبل
4. گرمی کا موسم جا رہا ہے۔ ####گگ#حال
5. ہم عید کے دن ملیں گے۔###گ#مستقبل

سوچیے اور بتائیے: 

1. بندو کو کاٹھ کا گھوڑا کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: بندو ایک نہایت سست انسان تھا اور ہر کام بہت دھیرے کرتا تھا اس لیے اسے کاٹھ کا گھوڑا کہا گیا ہے۔ 

2. بندو کی سست رفتاری کا اثر کن کن لوگوں پر پڑا؟
جواب:  وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری، سیٹھ ،دفتروں کے افسر، دکاندار، وردیوں والے فوجی، پولیس والے، عام آدمی، سودا سلف خریدنے کے لئے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچے، ڈاکٹر، نرس، انجینئر ان سب پر بندو کی سست رفتاری کا اثر پڑا۔

3. وزیر کی بے چینی کا سبب کیا تھا؟
جواب:  وزیر جام کی وجہ سے بے چین تھا کیونکہ غیر ملکی  وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا تھا۔

4. کاروباریوں کے لیے ”پل“ کے معنی لاکھوں کے گھاٹے کے کیوں ہیں؟
جواب:  کاربار میں ایک پل میں لاکھوں کے گھاٹے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ان کےلیے ایک  پل کے معنی لاکھوں کا گھاٹا ہوتے ہیں۔ 

5. چندو کے بارے میں بندو کے ذہن میں کیا خیال آیا؟
جواب: اُس کے ذہن میں یہ خیال  آیا کہ اُس کا بیٹا چندو اس لئے اسکول نہیں جا پایا کیونکہ وہ اُس کے لیے ضرورت کی چیزیں نہیں جُٹا پایا۔

6.  پیروں میں پہیے لگوانے سے بندو کی کیا مراد تھی؟
جواب: پیروں میں پہیے لگوانے سے مراد تھی کہ بُندو موٹر گاڑیوں کی طرح تیز رفتار ہوجائے اور بالکل ان کے جیسا بن جائے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائے:
قطار : بندو کے پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار ہے۔
رفتار : گاڑی کی رفتار بہت دھیمی تھی۔
کیفیت : مریض کی کیفیت اچھی نہیں تھی۔
فخر : استاد کو اپنے شاگردوں پر فخر ہے۔
دشوار : لوگوں کے لیے اس مہنگائی میں جینا دشوار ہوگیا ہے۔
حرکت : سیما کی اس حرکت سے مینا بہت ناراض ہوئی۔
عملی کام: 
کاٹھ کے گھوڑے کی تصویر بنائیے اور اس میں رنگ بھریے۔
پیارے بچّو! کاٹھ کے گھوڑے کی تصویر بناکر رنگ بھر کر ہمیں بھیجو ہم تمہارے نام اور پتے کے ساتھ شائع کریں گے۔
کلک برائے دیگر اسباق

Pani ki aaloodgi -- NCERT SOLUTION CLASS X URDU

پانی کی آلودگی

 Courtesy NCERT 
ہوا، پانی اور غذا ہماری صحت اور زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ بے احتیاطی اور بے قاعدگی سے ان چیزوں میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ کھانے کی چیز یں اگر کھلی چھوڑ دی جائیں تو مکھیاں، گرد اور بیماری پھیلانے والے جراثیم، ان کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ گردوغبار، کارخانوں سے نکلنے والا دھواں اور مہلک گیسیں ہوا میں آلودگی پیدا کر دیتی ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پینے کے پانی کے ذخیرے کس طرح آلودہ ہوتے ہیں؟ باؤلیوں ، تالا بوں اور نہروں کے پانی میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں، مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، انسان بھی وہیں نہاتے ہیں، اس طرح انسانوں اور جانوروں کی ساری گندگیاں باؤ لیوں اور تالابوں میں داخل ہو جاتی ہیں اور پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ نالیوں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ بھی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ کارخانوں سے نکلنے والا میل کچیل اور کیڑے مار دواؤں کا چھڑکاؤ بھی پانی کی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس قسم کی گندگیاں پانی میں آکسیجن کی مقدار کم کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے مچھلیاں مر جاتی ہیں۔
بارش کا پانی قدرتی طور پر صاف ستھرا اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔ جب وہ زمین پر بہتا ہے تو نالوں کی شکل میں بہتا ہوا ندیوں اور تالابوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس پانی میں مٹّی کے ذرّات ، نمکیات اور دوسرے مادّے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ پانی گدلا ہو جاتا ہے اور پیچش قبض، پیٹ کا درد اور ہیضہ جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔
آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے اسے جوش دے کر ٹھنڈا کریں اور چھان کر کسی صاف برتن میں رکھیں۔ پانی کو جوش دیتے وقت دو چٹکی پوٹاشیم پرمیگنیٹ ڈالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں ۔ گدلا پانی صاف کرنے کے لیے اس میں پھٹکری کے ٹکڑے ڈالنے کے بعد کپڑے سے چھان لینا چاہیے۔ اس طرح مٹی کےذرّات تہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور پانی صاف ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پانی کے نلوں کو گندی نالیوں سے دور رکھا جائے۔

مشق
خلاصہ:
اس سبق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری زندگی اور صحت کے لئے غذاکے ساتھ ساتھ ہوا اور پانی بھی ضروری ہیں ۔ اگر ان تینوں میں احتیاط نہ برتی جائے، ہوا، پانی اور غذا میں آلودگی ہوتو جراثیم پیدا ہونے کے باعث طرح طرح کی آلودگی اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ یہی نہیں، گردوغبار کارخانوں سے نکلنے والی گیسوں اور دھوئیں سے بھی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے پینے کا پانی کس طرح آلودہ ہوتا ہے، اس کی چند مثالیں یہ ہیں کہ جہاں جہاں پانی کے ذخیرے ہیں ، باولیاں ، تالاب، نہریں ہیں، وہاں مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، کپڑ ے دھوئے جاتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں اور جانوروں کی ساری گندگیاں اس پانی میں داخل ہو کر اسے آلودہ کر دیتی ہیں۔ نالیوں کا گندہ پانی اور کوڑا کرکٹ بیماریوں کی وجہ بن جاتا ہے۔ کارخانوں سے نکلنے والا میل کچیل اور کیڑے مار دواؤں کے چھڑکاؤ سے بھی پانی آلودہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے گندے پانی میں آکسیجن کم ہونے کے باعث مچھلیاں مر جاتی ہیں۔ بارش کا پانی قدری طور پر صاف ستھرا اور پینے کے لائق ہوتا ہے۔ مگر زمین پر نالوں کی شکل میں بہ کر ندیوں اور تالابوں میں جمع ہو جاتا ہے اور اس میں مٹی کے ذرات نمکیات اور دوسرے مادے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ پانی گدلا ہو جاتا ہے اور اس کے پینے سے پیچش قبض، پیٹ کا درد اور ہہضہ جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ ایسے آلودہ پانی کو پینے کے لائق بنانے کے لئے ابالا جائے اور ابالتے وقت اس میں دوچٹکی پوٹاشیم پر میگنیٹ ڈالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں ۔ گدلا پانی صاف کرنے کے لئے اس میں پھٹکری کے بعد کپڑے میں چھان لینا چاہئے۔ اس طرح مٹی کے ذرات تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور پانی صاف ہو جاتا ہے۔ پینے کے پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ پانی کے نلوں کو گندی نالیوں سے دور رکھا جائے۔
معنی یاد کیجیے:
آلودگی : ملاوٹ ، گندگی ، میلا پن
بے احتیاطی : لاپروائی
بے قاعدگی : بے ترتیبی
جراثیم : کیڑے مکوڑے
آلودہ : گندا
گندا : ذرّہ کی جمع، ریزے، چھوٹے ٹکڑے
نمکیات : کھاری چیزیں

غور کیجیے:
صحت کے لیے ہوا، پانی اور غذا ضروری ہے۔
جانوروں اور انسانوں کے نہانے سے باؤلیوں اور تالابوں کا پانی گندا ہوجا تا ہے۔
بیماریوں کے پھیلنے کی ایک وجہ گندے پانی کا استعمال بھی ہے۔
 آلودہ پانی کو پینے کے لائق بنانے کے لیے خوب اُبالنا چاہیے۔


سوچیے اور بتائیے:
سوال: آلودگی سے کیا مراد ہے؟
جواب:    آلودگی سے مراد گندگی ملاوٹ اورمیل ہے۔

سوال:  کھانے پینے کی چیزیں کس طرح آلودہ ہو جاتی ہیں؟
جواب:    کھانے کی چیزیں اگر کھلی چھوڑ دی جائیں تو  مکھیاں گرد اور بیماری پھیلانے والے جراثیم اُن کوآلودہ اور گندا کردیتے ہیں۔

سوال:  پانی حاصل کرنے کے قدرتی ذریعے کون کون سے ہیں؟
جواب:   بارش،جھرنے، ندیاں،جھیلیں، کنویں اور تالاب  پانی حاصل کرنے کے قدرتی طریقے ہیں۔

سوال: پانی کی آلودگی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟
جواب:   باؤلیوں،  تالابوں اور نہروں کے پانی میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، انسان بھی وہیں نہاتے ہیں۔ اس طرح انسانوں اور جانوروں کی ساری گندگی باؤلیوں اور تالابوں میں داخل ہوجاتی ہیں اور پانی آلودہ ہوجاتا ہے ۔ نالیوں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ بھی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ کارخانوں سے نکلا میل کچیل اور کیڑے مارنے والی دوائیں بھی پانی کی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔

سوال: شہروں کی گندگی کس طرح دریاؤں میں شامل ہو جاتی ہے؟
جواب: شہروں کی گندگیاں نالیوں سے جاکر ندیوں میں گرتی ہیں اور دریاؤں میں شامل ہوجاتی ہیں۔

سوال: آلودہ پانی کو پینے کے قابل کیسے بنایا جاتا ہے؟
جواب:  آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے اسے جوش دے کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور چھان کر کسی برتن میں رکھا جاتا ہے۔ پانی کوں جوش دیتے وقت ایک چٹکی پوٹاشیم پر میگنیٹ ڈالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں۔ گدلا  پانی  صاف کرنے کے لیے  اُس میں پھٹکری کے ٹکڑے ڈالنے کے بعد اسے کپڑے سے چھان لیا جاتا ہے  اس طرح مٹی کے ذرّات تہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور پانی صاف ہو جاتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائے:
صحت : صحت اللہ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔
آلودگی : آلودگی سے کئی بیماریاں ہوئی ہیں۔
گرد و غبار : پورا میدان گرد وغبار میں ڈوب گیا۔
جراثیم : بیماری پھیلانے والے جراثیم کھانے کو آلودہ کر رہے ہیں۔
دریا : دریا کا پانی بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔
قدرتی : بارش اور تالاب پانی حاصل کرنے کے قدرتی طریقے ہیں۔
تالاب : تالاب میں مچھلیاں تیر رہی تھیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھر یے:

پانی ####آلوده#### بارش#### جراثیم

تالابوں کا پانی جانوروں کے نہانے سے .........آلوده........ہو جا تا ہے۔
صحت کے لیے صاف .......پانی............ضروری ہے۔
.........بارش ............ کا پانی قدرتی طور پر صاف ہوتا ہے۔
 مکھیاں ........جراثیم.......... پھیلاتی ہیں۔

واحد اور جمع
اقسام : قسم
ذرات : ذرہ
خرابی : خرابیاں
ذخائر : ذخیرہ
عملی کام :
پانی کی آلودگی پر ایک مختصر نوٹ لکھیے
پانی کا آلودہ ہونا اس دور میں ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔خاص طور سے پینے کے پانی کا مسئلہ اور بھی سنگین ہو گیا ہے۔ پانی کے آلودہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ندیوں اور تالابوں کا آلودہ ہونا ہے۔ شہر کے قریب سے گزرنے والی ندیاں شہر کی گندگی اور کارخانوں کے گندے پانی کی وجہ سے روز بروز تشویشناک شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔ گنگا، جمنا اور اس جیسی دوسری ندیوں کی حالت اور بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان ندیوں کو صاف کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ان ندیوں کو عوامی شراکت اورسرکاری تعاون سے ہی صاف و شفاف اور پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

NAI ROSHNI--NCERT SOLUTION CLASS X URDU

نئی روشنی

اسکول میں کھانے کا وقفہ تھا۔ کچھ طلبا کھانا لے کر باہر پیڑ کے نیچے جا بیٹھے تھے۔ کچھ اپنی کلاس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ سبھی حیرت میں تھے۔ روز کی طرح درجہ میں شور بھی نہیں تھا۔ اسلم اور جاوید کی بات چیت صاف سنائی دے رہی تھی۔
اسلم : ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ کل سے ہماری کلاس میں ایک ایسا لڑکا پڑھنے آئے گا جو نابینا ہے۔ اسے آج ہی داخلہ ملا ہے۔
جاوید : (حیرت سے) میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ پڑھے گا کیسے؟


(وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی بجتی ہے)
 اسلم : ماسٹر صاحب آتے ہی ہوں گے۔ انہیں سے پوچھیں گے۔

:
(ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوتے ہیں ۔ سبھی طلبا ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اسلام اور جاوید سوال کرتے ہیں۔)
اسلم و جاوید : (ایک ساتھ ) ماسٹر صاحب معلوم ہوا ہے کہ ایک ایسے لڑکے کو ہماری کلاس میں داخلہ ملا ہے۔ جو دیکھ نہیں سکتا پھروہ پڑھے گا کیسے؟
ماسٹر صاحب :  تم لوگوں نے ٹھیک سُنا ہے۔ محمود کل سے تمھاری کلاس میں آئے گا اور تمھارے ساتھ ہی پڑھے گا ۔ تم سب اتنےحیران ہو کر میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟ محمود بالکل تم جیسا ہی ہے۔ بس وہ دیکھ نہیں سکتا۔ جانتے ہو وہ گذشتہ سال اپنی کلاس میں اول آیا تھا۔
اسلم : ماسٹر صاحب ! جب محمود کو دکھائی ہی نہیں دیتا تو وہ پڑھتا کس طرح ہے؟
ماسٹر صاحب : محمود اور اس جیسے بچّے ایک خاص تحریر کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ اسے ’بریل‘ کہتے ہیں ۔ 
جاوید : لیکن ماسٹر صاحب! آنکھوں کے بغیر تحریر کیوں کر پڑھی جاسکتی ہے؟
ماسٹر صاحب :  ایک خاص آلے سے موٹے کاغذ پرحروف کو ابھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلی سے چھو کر پڑھ سکتے ہیں۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں، جن کو کئی طرح سے ملا کرحروف ابھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی اور پڑھی جاسکتی ہے۔ آج اسی کی مدد سے اس طرح کے بچّے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
زاہده : یہ تحریر کس نے ایجاد کی ہے؟
ماسٹر صاحب : اس کی ایجاد کرنے والے فرانس کے ’لوئی بریل‘ تھے۔ وہ پیرس کے نزدیک ’کوپ بِرے‘ نام کے قصبے میں جنوری 1809 میں پیدا ہوئے تھے۔ دو سال کی عمر میں ایک نوکیلا اوزار لگ جانے سے لوئی کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی مگر لوئی نے ہار نہیں مانی اور کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کرنے میں لگے رہے۔ اپنی بیس سال کی محنت اور لگن سے انھوں نے اس تحریر کو ایجاد کیا جسے انھیں کے نام پر ’بریل‘ تحریر کہا جاتا ہے۔ بچو! اس تحریر کو ایجاد کر کے لوئی نے نابینا لوگوں کے لیے تعلیم کا راستہ کھول دیا اور ان کی تاریک زندگی میں روشنی کی کرن بکھیر دی۔
اسلم : ماسٹر صاحب! کیا آپ کو بریل تحریر آتی ہے؟ آپ محمود کو کیسے پڑھائیں گے؟ آپ اس کے ہوم ورک کی جانچ کس طرح کریں گے اور پھر امتحان کی کاپی کیسے جانچی جائے گی؟
جاوید : اور پھر وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں کیسے جائے گا؟
ماسٹر صاحب : محمود بہت محنتی طالب علم ہے۔ ویسے تو اپنا ہوم ورک کسی سے لکھوا کر بھی مجھے دکھا سکتا ہے مگر وہ دوسروں کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا۔ وہ آج کل بڑی لگن سے ٹائپ سیکھنے میں لگا ہوا ہے تا کہ وہ ہماری تحریر میں ہی ہوم ورک کر سکے اور امتحان دے سکے۔ رہی آنے جانے کی بات تو ایک بار تم لوگ اسے کلاسوں اور لائبریری وغیرہ کے راستے کو بتا دو گے تو پھر وہ اپنی سفید چھڑی کی مدد سے خود ہی راستہ ڈھونڈ لے گا۔
 زاہده : سفید چھڑی ہی کیوں؟
ماسٹر صاحب : سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ اس چھڑی کو دیکھ کر لوگ انھیں راستہ دے دیتے ہیں اور ضرورت ہونے پر انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔
اسلم : کیا محمود اپنی روزی خود کما سکے گا؟
ماسٹر صاحب : محمود اور اس جیسے دوسرے بچّے ہماری ہی طرح تعلیم حاصل کر کے اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ وہ کارخانوں میں بڑی مہارت سے مشینوں پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ استاد، وکیل، اخبار نویس اور موسیقار وغیرہ بن سکتے ہیں۔ آج کل ایسے کئی لوگ اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سماج کے لیے مفید بن سکتے ہیں۔ آج وہ سماج پر کوئی بوجھ نہیں ہیں ۔ یہ ضروری ہے کہ ہم انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھیں۔ ان کے ساتھ سچّے دوست جیسا برتاؤ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ کلاس کے سبھی طلبا پڑھنے لکھنے میں محمود کی بھر پور مدد کریں گے۔ جاوید ! کیا تم اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟
جاوید : ماسٹر صاحب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ایسے سبھی بچّے محمود کی طرح ہمارے جیسے اسکول ہی میں پڑھتے ہیں؟
ماسٹر صاحب : نہیں جاوید ایسا نہیں ہے۔ ان کے اسکول الگ ہوتے ہیں جہاں ان کے رہنے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ڈھائی سو ایسے اسکول ہیں ۔ ان اسکولوں میں پڑھنے لکھنے اور کھیل کود کے ساتھ ساتھ انھیں روزگار کے لیے مفید کام بھی سکھائے جاتے ہیں ۔ یہ بہت سے کھیلوں میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ جیسے کبڈی، رسّا کشی، تیراکی ، دوڑ وغیرہ۔ تاش اور شطرنج بھی ان کے پسندیدہ کھیل ہیں ۔ کھیلوں کے علاوہ یہ اسکاؤٹنگ، موسیقی اور سیّاحی میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
اکرم : ماسٹر صاحب! کیا یہ لوگ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟
ماسٹر صاحب : کیوں نہیں ۔ کچھ ماہ پہلے ہی دور درشن پر ایسے کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا۔ ان کے لیے خاص قسم کی گیند بنائی جاتی ہے جس سے آواز نکلتی ہے۔ آواز سن کر ہی کھلاڑی اپنے بلّے سے گیند کو مارتے یا پکڑتے ہیں۔
پرکاش : ان کے لیے اور کیا کیا خاص چیزیں بنائی گئی ہیں؟
ماسٹر صاحب :  ان کے لیے انگریزی اور ہندی کا ایسا کمپیوٹر تیار کیا گیا ہے جو بولتا ہے یعنی جس حرف کے بٹن کو دبائیں گے توکمپیوٹر اسی حرف کو ادا کرے گا۔ پھر وہ سن سن کر جو بھی ٹائپ کریں، وہ سب کچھ خاص پرنٹر کے ذریعے بریل تحریر میں فوراً ان کے سامنے آ جائے گا۔
موہن : ارے واہ! یہ تو بہت مزے دار بات ہوئی۔
ماسٹر صاحب :  یہی نہیں، ان لوگوں کی انگلیوں کے پور اور کان بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ چیزوں کو چھوکر محسوس کرتے ہیں اور سن کر وہ اپنا نصاب یاد کر لیتے ہیں ۔ ایک بار سنا ہوا اور ایک بار چھوا ہوا وہ کبھی نہیں بھولتے انہیں دکھائی نہیں دیتا تو کیا ہوا۔ بدلے میں بہت ساری صلاحیتیں ہیں جن سے وہ اپنی زندگی اچھی طرح گزار سکتے ہیں۔
 اسلم : ماسٹر صاحب، آنکھیں خراب کیوں ہوتی ہیں؟
ماسٹر صاحب : کبھی کبھی کھانے میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بینائی کم ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بچے حادثوں میں اپنی بینائی کھو بیٹھتے ہیں ۔ بچّو! وٹامن ’اے‘ کی کمی پورا کرنے کے لیے اپنے کھانے میں ہری سبزیاں، گاجر، پیلے پھل، آم، پپیتا، کدو، وغیره مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی گِلی ڈنڈا اور پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی گندگی سے بھی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کو ہمیشہ صاف پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ صاف تولیے یا رومال سے آنکھیں پوچھنی چاہئیں۔ کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور آنکھوں کی ورزش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمھاری آنکھیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

مشق
خلاصہ:
اسکول میں کھانے کے وقفے کے دوران دو طالب علم اسلم اور جاوید یہ گفتگو کر رہے تھے کہ کلاس میں ایک ایسا لڑکا پڑھنے آئے گا جو نابینا ہے، دیکھ نہیں سکتا۔ جاوید کو اس بات پر حیرت تھی کہ جب لڑکا نابینا ہے تو وہ پڑھے گا کیسے؟ اسلم نے کہا کہ ماسٹر صاحب سے پوچھیں گے۔ کلاس میں ماسٹر صاحب کے آنے پر اسلم و جاوید نے نابینا لڑکے کے تعلق سے سوال کیا۔ ماسٹر صاحب نے بتایا وہ لڑکا محمود ہے اور وہ نابینا لوگوں کے لئے ایک خاص تحریر " بر یل‘‘ کے ذرایہ پڑھے گا۔ ماسٹر صاحب نے "بریل" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاص آلے کی مدد سے موٹے کاغذ پرحروف کو ابھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلی سے چھوکر پڑھ سکتے ہیں ۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں جن کو کئی طرح سے ملا کر حروف ابھارے جاتے ہیں ۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں پڑھی جاسکتی ہے۔ فرانس میں ایک شخص لوئی بریل نے یہ طریقہ ایجاد کیا تھا۔ اس کے نام پر اس تحریر کو بریa کہا جاتا ہے۔ بریل پیرس کے قریب کوپ برے نام کے ایک قصبے میں جنوری 1809 کو پیدا ہوا تھا۔ دو سال کی عمر میں ایک نوکیلا اوزار لگ جانے سے لوئی کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی ۔ مگر لوئی نے ہار نہیں مانی اور وہ کسی نہ کسی طرح پڑھتا رہا۔ بیس سال سخت محنت کرنے کے بعد اس نے نابینا لوگوں کے پڑھنے کے لئے یہ طریقہ ایجاد کرلیا۔ اسلم نے جب یہ پوچھا کہ ماسٹر صاحب آپ کو بریل تحریر پڑھنی آتی ہے آپ اسے کیسے پڑھائیں گے اور ہوم ورک کی جانچ کیسے کریں گے؟ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ نابینا طالب علم کسی اسے لکھوا کر بھی دکھا سکتا ہے مگر محمود دوسروں کا سہارا لینے کے بجاۓ آج کل ٹائپ سیکھ رہا ہے تا کہ وہ لکھ سکے اور امتحان بھی دے سکے اور ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ نابینا افراد اپنے ساتھ ایک سفید چھڑی رکھتے ہیں ۔ یہ ان کی پہچان ہے تا کہ لوگ انہیں راستہ دے سکیں۔ نابیناپڑھ لکھ کر مختلف پیشے اختیار کرتے ہیں اور اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ انہیں خود سے علیحدہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ جاوید کے پوچھنے پر ماسٹر صاحب نے بتایا کہ نابینا افراد کو پڑھانے کے لئے ان کے اپنے اسکول ہوتے ہیں جہاں ان کے رہنے کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ انہیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور روزگار کے لئے کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔ ایک طالب علم اکرم نے پوچھا کہ کیا لوگ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟ تو ماسٹر صاحب نے بتایا کہ پچھلے دنوں دور درشن پر نابینا لوگوں کو کرکٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا ان کے لئے ایک ایسی گیند بنائی گئی تھی جس سے آوازنکلتی ہے۔
معنی یاد کیجیے:
نابینا : جسے دکھائی نہ دے
تحریر : لکھاوٹ، عبارت
تربیت : پرورش
سیاحی : سفر کرنا، سیر و سیاحت کرنا
حساس : زیادہ محسوس کرنے والا
نصاب : پڑھائی کا کورس
صلاحیت : لیاقت، استعداد
ورزش : کسرت
مقدار : اندازه، وزن
غور کیجیے:
آنکھیں وٹامن ’اے‘ کی کمی سے خراب ہو جاتی ہیں ۔ وٹامن ’اے‘ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہری سبزیاں اور پیلے پھل کھانا چاہیے۔

سوچیے اور بتائیے:
1.  کلاس میں بچے کس بات پر حیرت زدہ تھے؟
جواب: کلاس کے بچے اس لیے  حیرت زدہ تھے کہ ان کی کلاس میں ایک نابینا طالب علم آنے والا تھا۔

2.  بریل ایجاد کرنے والے کا نام کیا تھا؟
جواب: بریل کو لوئی بریل نے ایجاد کیا تھا۔

3.  بریل کے ذریعے پڑھائی کس طرح ہوتی ہے؟
جواب: بریل میں ایک خاص آلے سے موٹے کاغذ پر حروف کو اُبھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلیوں سے چھو کے پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں چھ نقطے ہوتے ہیں جنہیں کئی طرح سے ملاکر حروف اُبھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی یا پڑھی جا سکتی ہے۔

4.  لوگ سفید چھڑی کیوں رکھتے ہیں؟
جواب: سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ اس چھڑی کو دیکھ کر لوگ انہیں راستہ دے دیتے ہیں اور ضرورت ہونے پر انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔

5. آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: کبھی کبھی کھانے میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بینائی کم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کھانے میں ہری سبزیاں، گاجر، پیلے پھل، آم، پپیتا، کدو، وغیره مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی گِلی ڈنڈا اور پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنا چاہیے۔ آنکھوں کو گندگی سے پاک رکھنا چاہیے اور اسے ہمیشہ صاف پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ صاف تولیے یا رومال سے آنکھیں پوچھنی چاہئیں۔ کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور آنکھوں کی ورزش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے ہماری آنکھیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے :
موسیقار :  نوشاد ایک معروف موسیقار ہیں۔
حیرت زدہ : نابینا بچّے کے پڑھنے کی بات سن کرکلاس کے سبھی بچے حیرت زدہ تھے۔
مقدار : اس نے زیادہ مقدار میں کھانے میں نمک ڈال دیا۔
وقفہ : اسلم نے کھانے کے وقفہ میں ہوم ورک مکمل کرلیا۔
اخبار نویس : نابینا افراد اخبار نویس بھی بن سکتے ہیں۔
عہدہ : رضیہ سلطان نے میر آخر کا عہدہ ایک حبشی غلام کو دے دیا۔
آلہ : سائنسدانوں نے سماعت کا آلہ ایجاد کر لیا۔

خالی جگہوں کو صحیح لفظوں سے بھریے:
 1. ان کے .....اسکول..... الگ ہوتے ہیں۔ (گھر، اسکول، ہاسٹل)
2. کم روشنی میں نہیں ......پڑھنا....چاہیے۔ (سونا، کھانا، پڑھنا)
3 ارے واہ یہ تو بہت .....مزے دار..... بات ہوگی ۔ (خراب ، مزے دار، بیکار)
4. ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمھاری آنکھیں....محفوظ... رہ سکتی ہیں ۔ (اچھی، محفوظ ، بہتر)

عملی کام:
* بینائی کی حفاظت کس طرح کی جاسکتی ہے ۔ اس پر پانچ جملے لکھیے۔
وٹامن اے کا استعمال کرنا چاہئے۔
بینائی کی حفاظت کے لیے ہمیں ہری سبزیاں زیادہ کھانی چاہئیں۔
 پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنی چاہیے۔ 
گندگی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے رہنا چاہئے۔
ہمیں موبائل اور ٹی وی کا کم سے کم استعمال کرنا چاہیے۔

* اسم کی تعریف آپ کو بتائی جا چکی ہے ۔ اس سبق سے پانچ اسم تلاش کر کے لکھیے ۔
اسلم، چھڑی،بریل،گلی ڈنڈا،آم

کلک برائے دیگر اسباق

Razia Sultan - NCERT Solutions Class 10 Urdu

رضیہ سلطان

Courtesy NCERT
رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی ملکہ تھی جو دلّی کے تخت پر بیٹھی ۔ وہ دہلی کے بادشاہ التتمش کی بیٹی تھی۔ اپنے بہن بھائیوں میں رضیہ سب سے زیادہ ذہین، محنتی اور ہوشیارتھی۔ باپ نے اپنی زندگی ہی میں اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ بیٹے عیش پسند ہیں، بیٹی کے علاوہ کوئی اور حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس نے اپنے آخری دنوں میں چاندی کے سکّے پر رضیہ کا نام بھی شامل کر لیا تھا۔
التتمش کی وفات کے بعد دربار میں وزیر نے جب بادشاہ کی وصیت پڑھ کر سنائی تو ترک امیروں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ایک عورت دلّی کے تخت و تاج کی مالک ہو۔ رضیہ نے یہ دیکھا تو امیروں سے کہا: ”میرے عورت ہونے پر اعتراض ہے تو میں امن کی خاطر اپنے بھائی رکن الدین کا نام پیش کرتی ہوں ۔ آؤ ہم سب مل کر اس سے وفاداری کا عہد کریں۔“
لیکن حکومت ہاتھ آتے ہی رکن الدین عیش و آرام میں پڑ گیا ۔ اس کی ماں ایک حاسد عورت تھی۔ اس نے دوسری بیگمات اور ان کے بچوں کو طرح طرح سے پریشان کیا۔ وہ سوتیلی بیٹی رضیہ کی مقبولیت سے جلنے لگی۔ مگر جلد ہی رکن الدین اپنی عیش پسندی اور اپنی ماں کی زیادتیوں کی وجہ سے اس قدر بدنام ہو گیا کہ دلّی کے لوگوں نے اس کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دلّی کے عوام رضیہ کی خوبیوں اور التتمش کی وصیت سے واقف تھے۔ ان میں ایک بزرگ صوفی کاظم الدین زاہد نے رضیہ کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔
تخت نشین ہونے پر رضیہ نے عہد کیا کہ ”میں عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی کے لیے کام کروں گی۔ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک یہ ثابت نہ کر دوں کہ میں مردوں سے کم نہیں ۔“
رضیہ نے تخت نشینی کے بعد نہایت بہادری سے مشکلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ وہ فوج کی کمان خود سنبھالتی تھی ۔ اس نے بادشاہوں کی طرح ”قبا“ اور” كلاہ“  پہنی۔ اپنے نام کے سکّے جاری کیے۔ سلطنت میں امن قائم کیا، انتظام کو بہتر بنایا اور عوام کی  خوش حالی کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ تجارت کو فروغ دیا، سڑکیں بنوائیں، درخت لگوائے اور کنویں کھدوائے۔ اس نے مدرسے اور سرکاری کتب خانے بھی قائم کیے۔ رضیہ سلطان کو خود بھی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ وہ اچھی گھوڑ سوارتھی ۔ اور اسے جنگی اسلحوں کے استعمال کا ہنر بھی آتا تھا۔ اس کی حکومت بنگال سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔
رضیہ سلطان با قاعده دربار لگاتی تھی۔ اس نے برابری اور بھائی چارے کو عام کیا۔ رضیہ سلطان نے حکومت کے اختیارات کو چالیس امیروں میں بانٹا جن سے وہ ملکی معاملات میں مشورہ کرتی تھی ۔ اس نے ”میرآخور‘‘ کا سب سے بڑا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا کیونکہ وہ ایمان دار اور جفاکش تھا۔ یہ اہم عہدہ اب تک صرف ترک امیروں کو ملتا تھا۔ یہ بات ترک امیروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوں نے رضیہ کو تخت سے اتارنے کی سازش کی اور بھٹنڈا کے گورنر التونیہ کو بہکا کر بغاوت کروا دی۔ جب وہ بغاوت کو کچلنے کے لیے پنجاب میں بھٹنڈا پہنچی تو اس کے سپاہی طویل سفر اور گرمی سے پریشان ہو چکے تھے۔ اگرچہ دونوں فوجوں میں زبردست مقابلہ ہوا مگر رضیہ کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ وہ قید کر لی گئی۔ ادھر دلّی میں سازشیوں نے رضیہ کے بھائی بہرام کو تخت پر بٹھا دیا اور بڑے بڑے عہدے آپس میں بانٹ لیے۔ بہرام کمزور بادشاہ ثابت ہوا۔ التونیہ کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے رضیہ سے معافی مانگی اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا پھر دونوں کی شادی ہوگئی۔
اب رضیہ اور التونیہ نے دلّی کا تخت واپس لینے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے کچھ ترک امیروں اور راجپوتوں کی مدد سے دلّی پر حملہ کیا۔ مخالف امیروں نے سوچا کہ رضیہ دلّی میں بڑی مقبول ہے اگر اس کی فوجیں یہاں پہنچ گئیں تو اس کے مددگار اٹھ کھڑے ہوں گے اس لیے جنگ دلّی سے دور ہونی چاہیے۔ چنانچہ بہرام کی فوج نے رضیہ کو راستے ہی میں روک دیا۔ شاہی فوج تعداد میں زیادہ تھی اور اس کے پاس بہتر ہتھیار بھی تھے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ رضیہ نے بڑی ہمت دکھائی لیکن اسے شکست ہوئی اور اسے قتل کر دیا گیا۔
رضیہ سلطان نے صرف ساڑھے تین سال حکومت کی لیکن اس مختصر مدت میں اس نے  اپنی ہمت ، حوصلے اور حسنِ انتظام   سے ثابت کر دیا کہ وہ اعلیٰ درجے کی حکمراں تھی۔   


مشق
خلاصہ:
رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون ملکہ تھی جو دہلی کے تخت پر بیٹھی وه بادشاہ التمش کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے زیادہ ذہین اور ہوشیار تھی۔ التمش نے رضیہ سلطان کو اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ التمش کے انتقال کے بعد جب اس کی وصیت پڑھی گئی تو اس میں رضیہ کو بادشاہ بنانے کی بات سامنے آئی ۔ترک امیروں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ ایک عورت ان کی حاکم بنے۔ جب رضیہ نے سرداروں کی مخالفت دیکھی تو اس نے خود بادشاہ بنےکے بجائے اپنے بھائی رکن الدین التمش کو بادشاہ بنا دیا مگر رکن الدین بادشاہ بنتے ہی عیش و آرام میں ڈوب گیا۔ لیکن جلد ہی سردار اس سے ناراض ہو گئے۔ دلی کے لوگوں نے اسے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد رضیہ سلطان کی تخت نشینی کی گئی۔ رضیہ نے بادشاہ بنتے ہی نہایت بہادری سے مشکلوں کا مقابلہ کیا۔ وہ فوج کی کمان خود سنبھالتی تھی۔ سلطنت میں امن و امان قائم کیا ۔ انتظام کو بہتر بنایا اور عوام کی خوش حالی کا ہر طرح خیال رکھا۔ اس نے تجارت کو فروغ دیا، سڑکیں تعمیر کرائیں ، درخت لگوائے اور کنوئیں کھدوائے ۔ مدرسے اور کتب خانے قائم کیے۔ رضیہ سلطان کی حکومت بنگال سے سندھ تک جاپہنچی ۔ رضیہ سلطان با قاعده در بار لگاتی تھی ۔ اس نے برابری اور بھائی چارے کو عام کیا۔ اس نے حکومت کے اختیارات کو چالیس امیروں میں تقسیم کیا ۔ اس نے "میرآخور" کا سب سے بڑا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا۔ یہ بات ترک سرداروں کو پسند نہیں آئی ۔ انھوں نے بھٹنڈا کے گورنر التونیہ کے ذریعہ رضیہ کے خلاف بغاوت کروادی ۔ رضیہ اورالتو نیہ کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں رضیہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا اور اسے قید کر لیا گیا۔ ادھر دلی میں سازشیوں نے رضیہ کے بھائی بہرام کو تخت پر بٹھا دیا مگر وہ بھی ناکارہ اور کمزور بادشاہ ثابت ہوا۔ ادھر التونیہ نے رضیہ سے معافی مانگ لی اور اس سے شادی کر لی۔ اب رضیہ اور التونیہ نے دلی کا تخت واپس لینے کے لیے دلی کی طرف کوچ کیا مگر بہران کی فوجوں نے اسے راستے ہی میں روک دیا۔ دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی ، اس میں رضیہ کو شکست ہوئی اور اسے قتل کردیا گیا۔ رضیہ سلطان نے صرف ساڑھے تین سال حکومت کی مگر اس مختصر مدت میں ہی اس نے اپنی ہمت ، حوصلے اور حسن انتظام سے یہ ثابت کردیا کہ اعلی درجے کی حکمراں تھی۔
معنی یاد کیجیے:
واحد : ایک، اکیلا
وصیت : موت سے پہلے کی جانے والی ہدایت
کلاہ : ٹوپی
محافظ : حفاظت کرنے والا
صلہ : بدلہ ، انعام
جفا کش : محنت کرنے والا
حسن انتظام : اچھا انتظام ، کام کرنے کی خوبی
حکمراں : حاکم، حکومت کرنے والا
عالم : علم والا ، پڑھا لکھا
    
غور کیجیے:
1. رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون حکمراں تھی۔
 2. رضیہ سلطان نے اپنے کارناموں سے یہ دکھا دیا کہ عورتیں مردوں سے کسی طرح کم نہیں ہوتیں۔

سوچیے اور بتائیے:

1.رضیہ سلطان کی خوبیاں کیا تھیں؟
جواب: رضیہ ذہین، محنتی اور ہوشیار حکمراں تھی۔

2. رکن الدین کس کا بیٹا تھا، اسے کس نے مارا؟
جواب: رکن الدین سلطان التتمش کا بیٹا تھا۔ اس کی نا اہلی سے تنگ آکر دلّی کے لوگوں نے اسے گرفتار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

3. التتمش کی وصیت کیا تھی؟
جواب: التتمش کی وصیت یہ تھی کہ  رضیہ دلی سلطنت کی اگلی سلطان بنے گی اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گی۔

4. تخت نشینی کے بعد رضیہ نے کیا عہد کیا؟
جواب: تخت نشینی کے بعد رضیہ نے عہد کیا کہ وہ عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی کے لیے کام کرے گی۔ اور وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک  یہ ثابت نہ کردے کہ وہ مردوں سے کم نہیں ۔

5. رضیہ نے میرآخور کا عہدہ کسے دیا؟
جواب: رضیہ سلطان نے میرآخور کا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا۔

6. رضیہ کی فوج کا مقابلہ کس سے ہوا تھا؟
جواب: بھٹنڈہ کے گورنر التونیہ نے رضیہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی جسے ختم کرنے کے لیے رضیہ کی فوج نے بھٹنڈہ کے گورنر التونیہ کی فوج کا مقابلہ کیا۔

7. رضیہ سلطان نے کتنے برس حکومت کی؟
جواب: رضیہ سلطان نے ساڑھے تین برس حکومت کی۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے: 

ذہن : آج کل ایسا ماحول ہے کے ذہن کو سکون نہیں ملتا۔
وفاداری : کتا اپنی وفاداری کے لیے مشہور ہے۔
عہدہ : رضیہ سلطان نے میرآخور کا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا۔
محافظ : ہم سب کا محافظ اللہ ہے۔
محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
میدان چھوڑنا : اکبر کی فوج سے پسپا ہوکر دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔
ہتھیار ڈالنا : ہندوستانی فوج کے سامنے دشمن نے ہتھیار ڈال دیے۔
موت کے گھاٹ اتارنا : رانا پرتاپ نے دشمن فوج کے متعدد سپاہیوں کو موت کے
 گھاٹ اتار دیا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے مذکرسےمونث اور مونث سے مذکر بنائیے:
ملکہ : بادشاہ
عالم : عالمہ
بہن : بھائی
بیٹی : بیٹا

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:
بھلائی : برائی
خوش حالی : بدحالی
امن : بدامنی
شکست : فتح
 خالی جگہوں کو بھریے: 
1. رضیہ سلطان دہلی کے بادشاه .....التتمش.....کی بیٹی تھی۔
 2 رضیہ .....ہندستان.....کی پہلی ملکہ تھی۔
3، رضیہ کے شوہر کا نام ......التونیہ...... تھا۔
4. ترک امیروں نے رضیہ کے بھائی ....بہرام شاہ....کو تخت پر بٹھا دیا۔
5 رضیہ سلطان اعلیٰ درجے کی ....حکمراں..... تھی۔

عملی کام:
 * بلند آواز سے پڑھیے۔
رضیہ سلطان
حبشی غلام
حسن انتظام
یاقوت
وصیت
التونیہ

ازراہ مزاق: 
امتحان میں اساتذہ کو بعض اوقات بڑے دلچسپ جوابات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس مضمون میں ایک سوال ہے کہ ”رکن الدین کس کا بیٹا تھا، اسے کس نے مارا؟ ایک طالب علم جو گانوں کا شوقین تھا اُس نے جواب میں لکھا:
رکن الدین سلطان التتمش کا بیٹا تھا  اور
کس کس کا نام لوں میں
 اُسے ہر کسی نے مارا


کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری