آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 18 August 2019

Yadgar-e-Ghalib ki roushni mein Ghalib By Tahsin Usmani

یادگار غالب" کی روشنی میں'' 
غالب کی شاعری اور شخصیت کا جائزہ

از تحسین عثمانی







(بہ شکریہ ریختہ ڈاٹ کام)

Saturday 17 August 2019

ُFan pare

فن پارے

ڈاکٹر عبد الوحید

20-08-2019

آدابِ مجلس

انسانوں کو جب کسی جگہ مل بیٹھنے کا موقع میسر  آئے تو سب سے اہم اور ضروری چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو نہایت صبر و سکوں سے سنا جائے۔

بات مدلل اور معقول طریقے پر کی جائے۔

کسی کی بات کو درمیان میں ٹوکا نہ جائے گفتگو بہت شریفانہ اور با مذاق ہو۔

ایسے مذاق سلیم کا مظاہرہ کیا جائے جو شرف انسانیت کے شایان شان ہو کسی کو شکایت پیدا ہونے کا موقع نہ دیا جائے دل آزاری کی کوئی بات نہ کی جائے نشست و برخاست میں تہذیب اخلاق اور مروت کا ثبوت دینا چاہیے۔

دو یا چار آدمی اگر آپس میں گفتگو کر رہے ہوں تو بلا اجازت اُن کی بات میں دخل دینا  نہایت معیوب بات ہے جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے کسی کو اٹھا کے اسکی جگہ بیٹھنا آدابِ مجلس کے خلاف ہے تکیہ لگاکر یا پاؤں پھیلا کر بیٹھنا بہت برا اور آدابِ مجلس کے خلاف ہے مجلس میں کسی کی غیبت کرنا اور ہنسی اڑانا بہت نا پسندیدہ فعل ہے۔ اسلام نے خاص طور پر غیبت کو سختی سے روکا ہے۔

19-08-2019

آدابِ ملاقات

ملاقات آپس میں انس و محبت  اور ہمدردی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اسے اجنبیت دور ہوتی ہے دل کو دل سے راہ ہوتی ہے بوقت ضرورت جان پہچان کا پاس کرتے ہوئے مدد کرنا لازم ہو جاتا ہے

ملاقات میں خلوص اور ہے غرضی دل میں انمٹ جگہ پیدا کر لیتی ہے

سلام میں ہمیشہ سبقت کی کوشش کرنی چاہیے

چھوٹا بڑے کو، راستہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو،سوار پیدل کو اور تھوڑے آدمی بہتوں کو سلام مصافحہ  معانقہ حسب روایت کیا جا نا چاہیے

ملاقات میں اعتدال کو مدنظر رکھنا چاہیے کثرت ملاقات اور طوالت بار خاطر بن جاتی ہے-

ملاقات کے وقت ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رہے نارو اغير ضروری گفتگو سے اجتناب ہو بے تکلف دوستی میں بھی بد کلامی اور بدتمیزی کو قریب نا آنے دیا جائے-

ہمیشہ اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ دیکھنے والے بھی اچھا اثر قبول کرے۔

18-08-2019

آدابِ لباس

پوشاک انسانی تمدن کی اہم ضرورت ہے۔ ہر ملک کی آب و ہوا اور تہذیب کے مطابق اس کے استعمال میں اختلاف ناگزیر ہے۔

مردوں کو ایسا لباس زیبِ تن کرنا چاہیے جو ستر پوش ہو۔ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے اور غرور اور نخوت پیدا نہ کرے۔

طبقۂ نسواں کے لیے ایسا لباس ہونا ضروری ہے جو ان کی زینت کو چھپائے۔ ان کی عزت و آبرو کا محافظ اور وقار کا حامل ہو۔

مردوں کے لیے بھڑکیلے قسم کے لباس کا استعمال ن کی مردانگی کے منافی اور مضحکہ خیز ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ لباس سلیقے سے پہنے اور موقع محل کے مطابق سلیقہ سے استعمال کرے۔ بھونڈے اور بد وضع لباس سے پرہیز لازم ہے۔

حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد  عالی ہے کہ النّاس باللبّاس یعنی انسان لباس سے پہچانا جاتا ہے۔

 یہ ضروری نہیں ہے کہ لباس قیمتی ہو۔ البتہصاف ستھرا ہونا چاہیے۔


17-8-2019

آدابِ طعام

کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، کلی کرنا، شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا، اپنے آگے سے کھانا، ادھر ادھر ہاتھ نا چلانا، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو سلیقے سے طلب کرنا، کھانا اطمنان سے چبا چبا کے کھانا،  چھینک وغیرہ آئے تو منہ پیچھے کی طرف کر لینا، خلاف طبع کوئی چیز ہو تو ناک بھوں نا چڑھانا، پانی ٹھہر ٹھہر کر پینا، کھانا ختم  ہو نے پر خدا کا شکر ادا کرنا، ہاتھ دھو کر اور کلی کر کے تولیے سے ہاتھ منہ پوچھنا آداب طعام میں شامل ہے۔

کھانا کھاتے وقت غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان باتوں سے اجتناب کرنا بھی آداب میں شامل ہے جو شریک طعام اصحاب کو ناگوار خاطر ہوں۔ ہر حالت میں محفل کے وقار اور شرکائے مجلس کے احترام کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

Neki aur badi - NCERT Solutions Class X Urdu

نیکی اور بدی

ہے دُنیا جس کا ناؤں میاں یہ اور طرح کی بستی ہے 
جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اور سَستوں کو یہ سَستی ہے
 یاں ہر دم جھگڑے اُٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے
گر مَست کرے تو مستی ہے اور پَست کرے تو پستی ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
 اس ہاتھ کرو اس ہاتھ مِلے، یاں سودا دست بدستی ہے 

جو اور کسی کا مان رکھے تو پھر اس کو بھی مان مِلے
 جو پان کھلاوے پان ملے، جو روٹی دے تو نان ملے
 نقصان کرے نقصان ملے، احسان کرے احسان ملے
 جو جیسا جس کے ساتھ کرے، پھرویسا اس کو آن ملے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بدستی ہے

 جو پار اتارے اوروں کو اس کی بھی ناؤ اترنی ہے 
جو غرق کرے پھر اس کو بھی یاں ڈُبکوں ڈُبکوں کرنی ہے
 شمشیر، تبر، بندوق، سناں اور نشتر، تیر، نہرنی ہے 
یاں جیسی جیسی کرنی ہے پھر ویسی ویسی بھرنی ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بدستی ہے 

جو اور کا اونچا بول کرے تو اُس کا بول بھی بالا ہے 
اور دے پٹکے تو اُس کو بھی پِھر کوئی  پٹکنے والا ہے
بے ظُلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
 اس ظالم کے بھی لوہو کا پھر بہتا ندّی نالا ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ مِلے یاں سودا دست بدستی ہے


نظیر اکبر آبادی
(1740-1830)

نظیر اکبر آبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ اپنے خاندان کے ساتھ آگرے میں آ کر بس گئے۔ نظیر عوامی شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ہندوستانی ماحول کی عکّاسی کی گئی ہے۔ انھوں نے یہاں کے موسموں، میلوں، تہواروں اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بہت سی نظمیں لکھی ہیں ۔ سامنے کے موضوعات کو سیدھی سادی زبان میں بیان کرنا نظیر کی بہت بڑی خوبی ہے۔ ان کے پاس الفاظ کا غیر معمولی ذخیرہ تھا۔ وہ موقعے اور موضوع کے اعتبار سے مناسب الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے کلام میں تاثیر بہت ہے۔
’روٹیاں‘، ’بنجارا نامہ‘،’ مفلسی‘، ’ہولی‘،’ آدمی نامہ‘ اور ’کرشن کنہیا کا بال پن‘ وغیرہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ اسی طرح ہنددستان کے مختلف موسموں، پھلوں اور شخصیتوں پر نظیر کی نظمیں بھی اپنی خاص پہچان رکھتی ہیں۔ وہ اردو کے معروف شاعر تھے۔

مشق

معنی یاد کیجیے: 
عدل پرستی : انصاف پرستی
شمشیر : تلوار
تبر : کلہاڑی جیسا بڑا ہتھیار
سناں : بھالا
بالا : اونچا، بلند
دست بدستی : ہاتھوں ہاتھ،” ایک ہاتھ سے دینا، دوسرے ہاتھ سے لینا“، کسی چیز کا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچانا
نان : روٹی
غرق کرنا : ڈبونا
نہرنی : ناخن کاٹنے کا آلہ

غور کیجیے:
* اس نظم میں ناؤں، یاں اور لوہو جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے یہ الفاظ رائج تھے۔ آج کل ناؤں کو نام، یاں کو یہاں اور لوہو کو لہو کہا جاتا ہے۔
*  نظم میں ایک لفظ” ذبح“ بھی آیا ہے۔ اس کا صحیح تلّفظ ’ب‘ اور‘ح‘ پر جزم کے ساتھ ہے۔

سوچیے اور بتائیے:
1. نظم کے پہلے بند میں دنیا کو کس طرح کی بستي بتایا گیا ہے؟
جواب: اس نظم میں دنیا کو ایک ایسی بستی بتایا گیا ہے جو امیروں کے لیے تو مہنگی ہے اور غریبوں کے لیے سستی ہے۔ دنیا میں ہر وقت جھگڑے اور عدالتیں ہیں اور جو یہاں مست ہیں وہ مستی سے رہتے ہیں اور جو سست ہیں ان کے لیے پستی ہے۔

2. ’کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں‘ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: ’کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں‘ سے شاعر کی مراد ہے کے اگر ابھی مصیبت ہے پھر بھی کچھ وقت کے بعد اُس کا حل نکل جائے گا  اور پریشانی ختم ہو جائیگی۔ مشہور مقولہ ہے اللہ کے گھر دیر ہے لیکن اندھیر نہیں۔

3. کس کی ناؤ پار اترتی ہے؟
جواب: اس شعر کامطلب ہے جو دوسروں کی مدد کرتا ہے اللہ  بھی اس کی مدد کرتا ہے- یعنی جو دوسروں کی نیّا پار اتارتا ہے اس کی بھی ناؤ پار لگ جاتی ہے۔

4. ظالم کو ظلم کا کیا بدلہ ملتا ہے؟
جواب: ظالم کو اس کے ظلم کی بدترین سزا ملتی ہے۔ اگر وہ ناحق کسی کا خون بہاتا ہے تو پھر اس کا خون بھی ندی نالوں میں بہہ جاتا ہے۔ ہر ظالم کو سزا ملنی یقینی ہے۔

محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
جیسی کرنی ویسی بھرنی  : ظالم کے انجام کو دیکھ کر  سب نے کہا  جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔
بول بالا ہونا: اس کے نام کا بول بالا پوری دنیا میں ہوگیا۔
پار اتارنا : ملاح نے اس کی نیّا پار اتار دی۔
مان رکھنا: احمد نے استاد کی باتوں کا مان رکھا۔

خالی جگہوں میں اسم یافعل بھریے: 
1. یہ دنیا اور طرح کی ..........بستی........... ہے۔
2. یہاں ہر دم جھگڑے ......اٹھتے........... رہتے ہیں ۔
3. جو اوروں کو پار اتارتا ہے اس کی ناؤ بھی پار ........اتاری.......... جاتی ہے۔ 

عملی کام :
* آپ کو جو محاورے یاد ہیں ان میں سے تین محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
تھالی کا بیگن ہونا: کئی لیڈر تھالی کا بیگن بنے رہتے ہیں۔
آگ بگولہ ہونا: کام پورا نہ ہونے پرافسر اپنے ماتحت پر آگ بگولہ ہوگیا۔
سرشار ہونا: رزلٹ دیکھ کر محتشم خوشی سے سرشار ہوگیا۔


کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 15 August 2019

GHAZAL-MARNE KI DUAEIN KYUN MAANGU--AHSAN JAZBI

غزل

(معین اخسن جذبی)


مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا  وہ دنیا، اب خواہش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر، ساحل کی تمنّا کون کرے 

جو آگ  لگائی تھی تم نے، اس کوتو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نےبھڑکائی ہے، اس آگ کو ٹھنڈاکون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی، ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں،  اب دنیا دنیا کون کرے

GHAZAL-CHALE BHI AAO KE GULSHAN KA KAROBAR CHALE-FAIZ AHMAD FAIZ

غزل
(فیض احمد فیض)
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کے گلشن کا کاروبار چلے 

قفس اُداس ہے یاروں صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزری وہ گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیرے عاقبت سنوار چلے

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

GHAZAL-MOMIN KHAN MOMIN

غزل 

(حکیم مومن خاں مومن )

غیروں پر کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غمّازدیکھنا

اُڑتے ہی رنگ رخ مرا نظروں سے تھا نہاں
اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا

دشمنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا

دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگاز طالع نا ساز دیکھنا

کشتہ ہوں اس کی چشم فسوں گر کا اے مسیح
کرنا سمجھ کے دعوۓ اعجاز دیکھنا

ترک صنم بھی کم نہیں سوزِ حجیم سے
مومن غم مآل کا آغاز دیکھنا

khwaja meer dard - GHAZAL

غزل
خواجہ میر درد

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے ہم سو کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

دوستوں دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

Aaina Calendar-2019

آئینہ کی جانب سے سالِ نو کاایک خوبصورت تحفہ


سال ۲۰۱۹ کا اسلامی کلنڈر اپنے موبائل یا کمپیوٹر پر دیکھنے کے لئے یہاں یا نیچے کلنڈر پر کلک کریں۔









Wednesday 14 August 2019

Ae Shareef Insano - NCERT Solutions Class10 Urdu

اے شریف انسانو!

ساحر لدھیانوی
Courtesy NCERT


ساحر لدھیانوی
(1980 – 1921)
ساحر کا اصل نام عبدالحئی بھی تھا وہ ساحر لدھیانوی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ لدھیانہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے ۔ زمانہ طالب علمی ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ 1936 میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک سے وابستہ ہونے والوں میں ساحر بھی شامل تھے۔ 1947 میں تقسیم ملک کے بعد دہلی چلے آئے پھر تلاش معاش میں ممبئی پہنچے، جہاں انھوں نے فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ساحر نے اپنی شاعری سے ہندوستانی فلموں میں گانوں کے معیار کو بہت بلند کیا ۔ اپنے زمانے کے وہ سب سے مشہور گیت کار تھے۔ ان کے فلمی گیتوں میں بھی ان کی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ عوام کے دکھ درد کا احساس اور ماحول کی کشمکش کا اثر ان گیتوں میں نمایاں ہے۔ ”تلخیاں“ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے۔ ”آو کہ کوئی خواب بُنیں“ بھی ان کی شاعری کا معروف مجموعہ ہے۔”گاتا جائے بنجارہ“ میں ساحر کے فلمی گیت یکجا کر دیے گئے ہیں۔ ساحر کی ”پرچھائیاں“ اردو کی طویل نظموں میں ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔

معنی یاد کیجیے:
نسل : آدم کی نسل، تمام انسان
مشرق : پورب
مغرب : پچھم
فتح : جیت
احتیاج  : ضرورت 
عالم  : دنیا 
روحِ تعمیر  : تعمیر کا جذ بہ، زندگی کو بنانے، سنوارنے کی خواہش 
زیست  : زندگی 
جشن  : خوشی کی تقریب ، چہل پہل 

غور کیجیے:

جنگ سے بربادی اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جنگ انسانی ترقی اور خوش حالی کی دشمن ہے۔

سوچیے اور بتائیے:

1. ’’روحِ تعمیر“ کے زخم کھانے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: یہاں شاعر کی مراد ملک کی ترقی کے عزم سے ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ جنگ میں ہلاکت ملکی روح تعمیر کو زخمی کرتی ہے۔ موت چاہے سرحد پر ہو یا گھر پہ یہ ترقی کی راہ مسدود کرتی ہے۔

2۔ دھرتی کی کوکھ بانجھ ہونے سے کیا مطلب ہے؟
جواب: دھرتی کی کوکھ بانجھ ہونے سے شاعر کی مراد زمین کا بنجر ہو جانا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹینک یا تو پیچھے ہٹیں یا آگے بڑھیں وہ زمین کو روند ڈالتے ہیں اور وہ اس کو بنجر بناتے ہیں، کھیت پیداوار کے لائق نہیں رہتے۔ اس نظم میں شاعر نے جنگ کی ہولناکیوں کو بیان کیا ہے۔

3۔ شاعر نے جنگ کو امن عالم کا خون کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر جنگ کو دنیا کے امن کے لیے خطرناک سمجھتا ہے۔ وہ اسے امن عالم کا خون قرار دیتا ہے۔ اس کا ماننا ہےکہ اگر کہیں ایک جگہ جنگ شروع ہوتی ہے تو پوری دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے۔جنگ میں گرنے والے خون کا ہر قطرہ نسل آدم کا ہے اور اس میں مشرق و مغرب کی کوئی قید نہیں ۔اور اسی لیے جنگ امن عالم کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

عملی کام:
* اس نظم میں اپنا ، پرایا، مشرق، مغرب وغیرہ متضاد الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ لفظوں کی فہرست بنائیے۔
* جنگ کے نقصانات پر مختصر مضمون لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale-NCERT SOLUTION CLASS X URDU

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 

ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بہ وقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے 

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار
 جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

نازاں نہ ہو خرد پہ، جو ہونا ہے ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانش وری چلے
تشریح:
لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے شیخ محمد ابراہیم ذوق کی مشہور غزل ہے جس میں شاعر نے زندگی کی حقیقت کا ذکر بیان کیا ہے۔ اس غزل میں شاعر نے بتایا ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ غزل کے پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ اُس کی عمر اگر حضرت خضر کی طرح بھی ہو تب بھی ہر انسان یہی کہتا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔ یعنی شاعر حضرت خضر کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اتنی طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔
تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے بدقمار یعنی ناکام جواری شاید ہی ہوں گے جس نے جو بھی چال چلی ہمیشہ ہی اُلٹی چلی۔ یہاں شاعر اپنی ناکامیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ دنیا اُسے ایک بساط کی طرح نظر آتی ہے جہاں ہرشخص اپنی چالیں چل رہا ہے۔ شاعر کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا ناکام کھلاڑی ہے جس کا کوئی بھی حربہ کوئی بھی چال کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ایک بے وفا جگہ ہے اور اس سے دل لگانا اچھا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا سے دل لگائے بغیر کام بھی نہیں چلتا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے دل لگانے کے لیے مجبور ہے۔
اس شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ اپنی ہوشیاری اور عقلمندی پر ناز کرنا فضول ہے۔ ہمیں اپنی عقلمندی پر ناز نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہاں تمہاری سوجھ بوجھ، ہوشیاری یا عقلمندی کچھ کام آنے والی ہے نہ میری۔ اس دنیا میں تو وہی چلے گا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
 ذوق کی یہ غزل پوری طرح انسان کی بے بساعتی کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا میں انسان محض ایک کھلاڑی ہے جو دوسروں کی انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے اور کہیں بھی اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

شیخ محمد ابراہیم ذوق
(1854 - 1788)

ذوق کا اصل نام شیخ محمد ابراہیم تھا۔ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایک سپاہی کے بیٹے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اپنی ذہانت اور محنت سے علمی صلاحیت پیدا کر لی تھی ۔ وہ شاہ نصیر کے شاگرد اور بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔
بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’ملک الشعراء‘ اور ’خاقانی ہند‘ کے خطابات دیے۔ ذوق نے کئی اصناف میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی اصل پہچان قصیدہ نگار کی ہے بالخصوص بہادر شاہ ظفر پر لکھے ہوئے قصائد کا مرتبہ بلند ہے۔ لیکن وہ غزل کے بھی ایک قابل ذکر شاعر ہیں۔
ذوق نے اپنے کلام میں نیا پن پیدا کرنے اور زبان اور محاورے کی صفائی پر خاص توجہ دی ہے۔

معنی یاد کیجیے: 
حیات : زندگی
قضا : موت
عمر خضر : مرادلمبی عمر
مرگ : موت
بساط : وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
بدقمار : ناکام جواری
نازاں ہونا : ناز کرنا، فخر کرنا
خرد : عقل
دانش : سمجھ بوجھ
دانش وری : ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا

غور کیجیے:
اس غزل کے ہر شعر کے آخر میں لفظ ”چلے“ آیا ہے۔ اسے ردیف کہتے ہیں۔ 
” چلے“ ردیف سے پہلے چلی، خوشی، ابھی، بری اور دل لگی جیسے ہم آواز الفاظ استعمال ہوئے ہیں، انہیں قافیہ کہتے ہیں۔


سوچیے اور بتائیے:
1. پہلے شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر کہنا چاہتا ہے کہ زندگی اسے دنیا میں لائی تو وہ آگیا موت اسے لے جا رہی ہے تو وہ جارہا ہے۔

2. ”ابھی آئے ابھی چلے“ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: اس شعر سے شاعر کی مراد ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور اسے ابھی ہی جانا پڑ رہا ہے۔

3. دنیا سے دل لگانے کے کیا معنی ہے؟
جواب: دنیا سے دل لگانے کے معنی دنیا سے محبت کرنا  یعنی دنیا کے کاموں میں گرفتار ہوجانا ہے۔

4. شاعر نے عقل پر فخر کر نے سے کیوں منع کیا ہے؟
جواب: شاعر نے عقل پر فخر کرنے سے اس لیے منع کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے انسان کی عقل کچھ کام نہیں کرتی۔ یہی سبب ہے کہ شاعر نے عقل پر فخر کرنے سے منع کیا ہے۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے:                                                                        
حیات : قضا
خوشی : غم
بہتر : بدتر
مرگ : زندگی
بری : اچھی

عملی کام:
اس غزل کو یاد کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری