آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 21 September 2019

shagufta khatir ka aurangabad bihar mein ijra

پنڈت نے دام شیخ نے قیمت وصول کی 
کتنے میں کون کون بکا ہم سے پوچھئے

اورنگ آباد میں سید حسن عسکری طارق کے مجموعہ کلام "شگفتہ خاطر" کی رسمِ اجرا  



اورنگ آباد (نمائندہ آئینہ)اورنگ آباد کے مدرستہ الصفہ سیدنا مصعب بن عُمیر ، محلہ نواڈیہہ کے کانفرنس ہال میں جناب سید ناطق قادری کے برادرِ معظم جناب سید حسن عسکری طارق مدنی نوراللہ مرقدہ کے مجموعہ کلام "شگفتہ خاطر" کا رسمِ اجرا ہوا ۔ جس میں اورنگ آباد شہر کے شائقین ادب نے شرکت کی۔ "شگفتہ خاطر" مزاحیہ شاعری کا ایک حسین ترین مجموعہ ہے ۔


اس تقریب کی نظامت مدرستہ الصفہ کے سرپرست جناب مولانا فہیم ندوی کر رہے تھے ۔ تقریب کے آغاز میں مولانا فہیم ندوی نے ایک بیحد عمدہ نعت پاک پڑھی ۔ بعد ازاں جناب سید ناطق قادری نے کتاب اور اپنے برادر مکرم جناب حسن عسکری طارق مدنی کے حوالے سے پر مغز تقریر کی و سامعین سے خطاب کیا ۔ جناب ناطق قادری نے حسن عسکری طارق  کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ طارق صاحب اگرچہ پیشے سے انجینئر تھے مگر ان کی شاعری اور ان کا دینی مزاج ان کو دوسروں سے بیحد مختلف اور ممتاز رکھتا ہے ۔ اخیر وقت میں ان کی خواہش تھی کہ مدینے کی پاک سرزمین ہی ان کا آخری ٹھکانہ ہو اور یہی ہوا بھی ۔ ان کی اس نیک خواہش کو الله نے قبول فرمایا ۔ آپ نے مدینے میں ہی آخری سانسیں لیں اور وہیں دفن ہوئے ۔ ناطق قادری نے سید حسن عسکری طارق کے کچھ عُمدہ اشعار بھی سنائے ۔


پیش ہیں چند منتخب اشعار

گھر والوں کو غصہ میرے اس کام سے آیا 
کیوں شعر سنانے کو میں دمام سے آیا 

میں نے تمہارا نام ہی ماہِ تمام رکھ دیا 
تم نے مسل کر دل میرا صورت حرام رکھ دیا  

ٹوپی اتار اتار چپت مارتا ہے کون 
دیکھو تو ذرا پیچھے ہی میرے کھڑا ہے کون  

پنڈت نے دام شیخ نے قیمت وصول کی 
کتنے میں کون کون بکا ہم سے پوچھئے 

گرگے لیکر ووٹروں کو گاؤں دھمکانے گئے 
ہم الیکشن کی بدولت ہر طرف جانے گئے 

اس تقریب میں شرکت کرنے والوں میں جناب مسیح الزماں صاحب، پروفیسر مظفر حسین راز، مولانا قاری شاہد انور ندوی صاحب، ڈپٹی الیکشن آفیسر جناب جاوید اقبال صاحب، سید الحمداللہ صاحب، شبلی فردوسی صاحب، جناب گلفام صدیقی صاحب، نور عالم صدیقی صاحب، جناب یوسف جمیل صاحب، مولانا اختر حسن قاسمی صاحب و ڈاکٹر یوسف صاحب کے علاوہ مدرستہ الصفہ کے طلبہ و طالبات موجود تھے ۔ آخر میں جناب سید ناطق قادری صاحب نے اس تقریب میں شامل ہونے والے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔

(آئینہ جلد ہی شگفتہ خاطر پر ایک تبصراتی مضمون پیش کرنے جارہا ہے۔)

Sunday 1 September 2019

Taleem-e-Niswaan - Aqsa Usmani

تعلیمِ نسواں
اقصیٰ عثمانی

ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کے معاشرے میں  لڑکیوں کی تعلیم کو ضروری قرار دیا گیا ہے کہتے ہیں کہ اگر ایک لڑکی تعلیم یافتہ بن جاتی ہے تو اس کا گھر علم کا ۔گہوارہ بن جاتا ہے۔ اسلام نے بھی عورت کو معاشرے میں عزت  کا مقام دیا ہے اور  وہ عورتوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کی تعلیم دیتا ہے۔
اس زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے اور لڑکیاں تعلیم کے میدان میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ علم کے ہر میدان میں ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ مقابلہ جاتی امتحان میں بھی وہ لڑکوں پر بازی مار رہی ہیں۔  یہی سبب ہے کہ سماج میں لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس پر توجہ دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہر جگہ اسکول اور مدرسے کھل رہے ہیں جس میں لڑکیوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔
 مدرسہ البنات جہاں صرف لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے اسکی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیاں دنیاوی تعلیم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں، وہ سائنس کے میدان میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں، انجینئرنگ اور ڈاکٹری کی تعلیم بھی اب ان،کی پسند بنتی جا رہی ہے۔ خاص طور سے انجینئرنگ میں مسلم طالبات بڑھ چڑھ کر داخلہ لے رہی ہیں ۔ کمپیوٹر سائنس لڑکیوں کی پہلی پسند ہے اور وہ ایک اچھی پروگرامر بننا چاہتی ہیں۔
 ہماری حکومت بھی تعلیم نسواں پر بھرپور توجہ دے رہی ہے اور اس سلسلے میں اداروں کو مالی مدد بھی فراہم کرتی ہے۔ لڑکیوں کے لئے وظیفے کا بھی خصوصی انتظام ہوتا ہے۔
 آج سماج کے ہر طبقے میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے اور والدین اپنی بیٹیوں کو پڑھانے میں فخر محصوس کرتے ہیں وہ اپنے گھریلو خرچ کا بڑا حصہ اپنی بیٹیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس زمانے میں تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔ اسکول اور مدرسوں میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ تعلیم نسواں کی اہمیت کو لوگوں نے سمجھ لیا ہےاور سبھی اپنے بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرہ ور کرنا چاہتے ہیں  تاکہ وہ اپنے خاندان اور سماج کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔  آج تعلیم کے میدان میں لڑکیوں اور لڑکوں کا فرق تقریباً ختم ہو چکا ہے اور تعلیم نسواں کی ضرورت اور کامیابی کا جو خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اس کے شرمندہ ٔ تعبیر ہونے کا وقت آگیا ہے۔

Sunday 18 August 2019

Yadgar-e-Ghalib ki roushni mein Ghalib By Tahsin Usmani

یادگار غالب" کی روشنی میں'' 
غالب کی شاعری اور شخصیت کا جائزہ

از تحسین عثمانی







(بہ شکریہ ریختہ ڈاٹ کام)

Saturday 17 August 2019

ُFan pare

فن پارے

ڈاکٹر عبد الوحید

20-08-2019

آدابِ مجلس

انسانوں کو جب کسی جگہ مل بیٹھنے کا موقع میسر  آئے تو سب سے اہم اور ضروری چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو نہایت صبر و سکوں سے سنا جائے۔

بات مدلل اور معقول طریقے پر کی جائے۔

کسی کی بات کو درمیان میں ٹوکا نہ جائے گفتگو بہت شریفانہ اور با مذاق ہو۔

ایسے مذاق سلیم کا مظاہرہ کیا جائے جو شرف انسانیت کے شایان شان ہو کسی کو شکایت پیدا ہونے کا موقع نہ دیا جائے دل آزاری کی کوئی بات نہ کی جائے نشست و برخاست میں تہذیب اخلاق اور مروت کا ثبوت دینا چاہیے۔

دو یا چار آدمی اگر آپس میں گفتگو کر رہے ہوں تو بلا اجازت اُن کی بات میں دخل دینا  نہایت معیوب بات ہے جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے کسی کو اٹھا کے اسکی جگہ بیٹھنا آدابِ مجلس کے خلاف ہے تکیہ لگاکر یا پاؤں پھیلا کر بیٹھنا بہت برا اور آدابِ مجلس کے خلاف ہے مجلس میں کسی کی غیبت کرنا اور ہنسی اڑانا بہت نا پسندیدہ فعل ہے۔ اسلام نے خاص طور پر غیبت کو سختی سے روکا ہے۔

19-08-2019

آدابِ ملاقات

ملاقات آپس میں انس و محبت  اور ہمدردی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اسے اجنبیت دور ہوتی ہے دل کو دل سے راہ ہوتی ہے بوقت ضرورت جان پہچان کا پاس کرتے ہوئے مدد کرنا لازم ہو جاتا ہے

ملاقات میں خلوص اور ہے غرضی دل میں انمٹ جگہ پیدا کر لیتی ہے

سلام میں ہمیشہ سبقت کی کوشش کرنی چاہیے

چھوٹا بڑے کو، راستہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو،سوار پیدل کو اور تھوڑے آدمی بہتوں کو سلام مصافحہ  معانقہ حسب روایت کیا جا نا چاہیے

ملاقات میں اعتدال کو مدنظر رکھنا چاہیے کثرت ملاقات اور طوالت بار خاطر بن جاتی ہے-

ملاقات کے وقت ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رہے نارو اغير ضروری گفتگو سے اجتناب ہو بے تکلف دوستی میں بھی بد کلامی اور بدتمیزی کو قریب نا آنے دیا جائے-

ہمیشہ اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ دیکھنے والے بھی اچھا اثر قبول کرے۔

18-08-2019

آدابِ لباس

پوشاک انسانی تمدن کی اہم ضرورت ہے۔ ہر ملک کی آب و ہوا اور تہذیب کے مطابق اس کے استعمال میں اختلاف ناگزیر ہے۔

مردوں کو ایسا لباس زیبِ تن کرنا چاہیے جو ستر پوش ہو۔ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے اور غرور اور نخوت پیدا نہ کرے۔

طبقۂ نسواں کے لیے ایسا لباس ہونا ضروری ہے جو ان کی زینت کو چھپائے۔ ان کی عزت و آبرو کا محافظ اور وقار کا حامل ہو۔

مردوں کے لیے بھڑکیلے قسم کے لباس کا استعمال ن کی مردانگی کے منافی اور مضحکہ خیز ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ لباس سلیقے سے پہنے اور موقع محل کے مطابق سلیقہ سے استعمال کرے۔ بھونڈے اور بد وضع لباس سے پرہیز لازم ہے۔

حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد  عالی ہے کہ النّاس باللبّاس یعنی انسان لباس سے پہچانا جاتا ہے۔

 یہ ضروری نہیں ہے کہ لباس قیمتی ہو۔ البتہصاف ستھرا ہونا چاہیے۔


17-8-2019

آدابِ طعام

کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، کلی کرنا، شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا، اپنے آگے سے کھانا، ادھر ادھر ہاتھ نا چلانا، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو سلیقے سے طلب کرنا، کھانا اطمنان سے چبا چبا کے کھانا،  چھینک وغیرہ آئے تو منہ پیچھے کی طرف کر لینا، خلاف طبع کوئی چیز ہو تو ناک بھوں نا چڑھانا، پانی ٹھہر ٹھہر کر پینا، کھانا ختم  ہو نے پر خدا کا شکر ادا کرنا، ہاتھ دھو کر اور کلی کر کے تولیے سے ہاتھ منہ پوچھنا آداب طعام میں شامل ہے۔

کھانا کھاتے وقت غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ان باتوں سے اجتناب کرنا بھی آداب میں شامل ہے جو شریک طعام اصحاب کو ناگوار خاطر ہوں۔ ہر حالت میں محفل کے وقار اور شرکائے مجلس کے احترام کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

Neki aur badi - NCERT Solutions Class X Urdu

نیکی اور بدی

ہے دُنیا جس کا ناؤں میاں یہ اور طرح کی بستی ہے 
جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اور سَستوں کو یہ سَستی ہے
 یاں ہر دم جھگڑے اُٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے
گر مَست کرے تو مستی ہے اور پَست کرے تو پستی ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
 اس ہاتھ کرو اس ہاتھ مِلے، یاں سودا دست بدستی ہے 

جو اور کسی کا مان رکھے تو پھر اس کو بھی مان مِلے
 جو پان کھلاوے پان ملے، جو روٹی دے تو نان ملے
 نقصان کرے نقصان ملے، احسان کرے احسان ملے
 جو جیسا جس کے ساتھ کرے، پھرویسا اس کو آن ملے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بدستی ہے

 جو پار اتارے اوروں کو اس کی بھی ناؤ اترنی ہے 
جو غرق کرے پھر اس کو بھی یاں ڈُبکوں ڈُبکوں کرنی ہے
 شمشیر، تبر، بندوق، سناں اور نشتر، تیر، نہرنی ہے 
یاں جیسی جیسی کرنی ہے پھر ویسی ویسی بھرنی ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بدستی ہے 

جو اور کا اونچا بول کرے تو اُس کا بول بھی بالا ہے 
اور دے پٹکے تو اُس کو بھی پِھر کوئی  پٹکنے والا ہے
بے ظُلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
 اس ظالم کے بھی لوہو کا پھر بہتا ندّی نالا ہے

کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ مِلے یاں سودا دست بدستی ہے


نظیر اکبر آبادی
(1740-1830)

نظیر اکبر آبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ اپنے خاندان کے ساتھ آگرے میں آ کر بس گئے۔ نظیر عوامی شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ہندوستانی ماحول کی عکّاسی کی گئی ہے۔ انھوں نے یہاں کے موسموں، میلوں، تہواروں اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بہت سی نظمیں لکھی ہیں ۔ سامنے کے موضوعات کو سیدھی سادی زبان میں بیان کرنا نظیر کی بہت بڑی خوبی ہے۔ ان کے پاس الفاظ کا غیر معمولی ذخیرہ تھا۔ وہ موقعے اور موضوع کے اعتبار سے مناسب الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے کلام میں تاثیر بہت ہے۔
’روٹیاں‘، ’بنجارا نامہ‘،’ مفلسی‘، ’ہولی‘،’ آدمی نامہ‘ اور ’کرشن کنہیا کا بال پن‘ وغیرہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ اسی طرح ہنددستان کے مختلف موسموں، پھلوں اور شخصیتوں پر نظیر کی نظمیں بھی اپنی خاص پہچان رکھتی ہیں۔ وہ اردو کے معروف شاعر تھے۔

مشق

معنی یاد کیجیے: 
عدل پرستی : انصاف پرستی
شمشیر : تلوار
تبر : کلہاڑی جیسا بڑا ہتھیار
سناں : بھالا
بالا : اونچا، بلند
دست بدستی : ہاتھوں ہاتھ،” ایک ہاتھ سے دینا، دوسرے ہاتھ سے لینا“، کسی چیز کا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچانا
نان : روٹی
غرق کرنا : ڈبونا
نہرنی : ناخن کاٹنے کا آلہ

غور کیجیے:
* اس نظم میں ناؤں، یاں اور لوہو جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے یہ الفاظ رائج تھے۔ آج کل ناؤں کو نام، یاں کو یہاں اور لوہو کو لہو کہا جاتا ہے۔
*  نظم میں ایک لفظ” ذبح“ بھی آیا ہے۔ اس کا صحیح تلّفظ ’ب‘ اور‘ح‘ پر جزم کے ساتھ ہے۔

سوچیے اور بتائیے:
1. نظم کے پہلے بند میں دنیا کو کس طرح کی بستي بتایا گیا ہے؟
جواب: اس نظم میں دنیا کو ایک ایسی بستی بتایا گیا ہے جو امیروں کے لیے تو مہنگی ہے اور غریبوں کے لیے سستی ہے۔ دنیا میں ہر وقت جھگڑے اور عدالتیں ہیں اور جو یہاں مست ہیں وہ مستی سے رہتے ہیں اور جو سست ہیں ان کے لیے پستی ہے۔

2. ’کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں‘ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: ’کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں‘ سے شاعر کی مراد ہے کے اگر ابھی مصیبت ہے پھر بھی کچھ وقت کے بعد اُس کا حل نکل جائے گا  اور پریشانی ختم ہو جائیگی۔ مشہور مقولہ ہے اللہ کے گھر دیر ہے لیکن اندھیر نہیں۔

3. کس کی ناؤ پار اترتی ہے؟
جواب: اس شعر کامطلب ہے جو دوسروں کی مدد کرتا ہے اللہ  بھی اس کی مدد کرتا ہے- یعنی جو دوسروں کی نیّا پار اتارتا ہے اس کی بھی ناؤ پار لگ جاتی ہے۔

4. ظالم کو ظلم کا کیا بدلہ ملتا ہے؟
جواب: ظالم کو اس کے ظلم کی بدترین سزا ملتی ہے۔ اگر وہ ناحق کسی کا خون بہاتا ہے تو پھر اس کا خون بھی ندی نالوں میں بہہ جاتا ہے۔ ہر ظالم کو سزا ملنی یقینی ہے۔

محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
جیسی کرنی ویسی بھرنی  : ظالم کے انجام کو دیکھ کر  سب نے کہا  جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔
بول بالا ہونا: اس کے نام کا بول بالا پوری دنیا میں ہوگیا۔
پار اتارنا : ملاح نے اس کی نیّا پار اتار دی۔
مان رکھنا: احمد نے استاد کی باتوں کا مان رکھا۔

خالی جگہوں میں اسم یافعل بھریے: 
1. یہ دنیا اور طرح کی ..........بستی........... ہے۔
2. یہاں ہر دم جھگڑے ......اٹھتے........... رہتے ہیں ۔
3. جو اوروں کو پار اتارتا ہے اس کی ناؤ بھی پار ........اتاری.......... جاتی ہے۔ 

عملی کام :
* آپ کو جو محاورے یاد ہیں ان میں سے تین محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
تھالی کا بیگن ہونا: کئی لیڈر تھالی کا بیگن بنے رہتے ہیں۔
آگ بگولہ ہونا: کام پورا نہ ہونے پرافسر اپنے ماتحت پر آگ بگولہ ہوگیا۔
سرشار ہونا: رزلٹ دیکھ کر محتشم خوشی سے سرشار ہوگیا۔


کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 15 August 2019

GHAZAL-MARNE KI DUAEIN KYUN MAANGU--AHSAN JAZBI

غزل

(معین اخسن جذبی)


مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا  وہ دنیا، اب خواہش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر، ساحل کی تمنّا کون کرے 

جو آگ  لگائی تھی تم نے، اس کوتو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نےبھڑکائی ہے، اس آگ کو ٹھنڈاکون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی، ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں،  اب دنیا دنیا کون کرے

GHAZAL-CHALE BHI AAO KE GULSHAN KA KAROBAR CHALE-FAIZ AHMAD FAIZ

غزل
(فیض احمد فیض)
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کے گلشن کا کاروبار چلے 

قفس اُداس ہے یاروں صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزری وہ گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیرے عاقبت سنوار چلے

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

GHAZAL-MOMIN KHAN MOMIN

غزل 

(حکیم مومن خاں مومن )

غیروں پر کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غمّازدیکھنا

اُڑتے ہی رنگ رخ مرا نظروں سے تھا نہاں
اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا

دشمنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا

دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب
تھا سازگاز طالع نا ساز دیکھنا

کشتہ ہوں اس کی چشم فسوں گر کا اے مسیح
کرنا سمجھ کے دعوۓ اعجاز دیکھنا

ترک صنم بھی کم نہیں سوزِ حجیم سے
مومن غم مآل کا آغاز دیکھنا

khwaja meer dard - GHAZAL

غزل
خواجہ میر درد

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے ہم سو کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

دوستوں دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

Aaina Calendar-2019

آئینہ کی جانب سے سالِ نو کاایک خوبصورت تحفہ


سال ۲۰۱۹ کا اسلامی کلنڈر اپنے موبائل یا کمپیوٹر پر دیکھنے کے لئے یہاں یا نیچے کلنڈر پر کلک کریں۔









خوش خبری