آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday 19 March 2020

KARTOOS - NCERT SOLUTIONS CLASS X URDU

 کارتوس

حبیب تنویر

Courtesy NCERT
ڈرامے کے کردار : کرنل
: لیفٹیننٹ
: سپاہی
: سوار
زمانہ : 1799
وقت : رات
جگہ : (گورکھ پور کے جنگلوں میں کرنل کالنز کے خیمے کا اندرونی حصہ ۔ دو انگریز بیٹھے باتیں کررہے ہیں کرنل کا لنز اور ایک لیفٹیننٹ ۔ خیمے کے باہر چاندنی پھیلی ہوئی ہے۔ اندر لیمپ جل رہا ہے۔)
کرنل : جنگل کی زندگی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
لیفٹیننٹ : ہفتوں ہو گئے یہاں خیمہ ڈالے ہوئے ۔ سپاہی بھی تنگ آگئے ہیں ۔ یہ وزیرعلی آدمی ہے یا بھوت؟ ہاتھ ہی نہیں لگتا۔
کرنل : اس کے افسانے سن کر رابن ہڈ کے کارنامے یاد آجاتے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف اس کے دل میں کس قدر نفرت ہے۔ کوئی پانچ مہینے حکومت کی ہوگی۔ مگر اس پانچ مہینے میں وہ اودھ کے دربار کو انگریزی اثر سے بالکل پاک کر دینے میں تقریباً کامیاب ہوگیا تھا۔
لیفٹیننٹ : کرنل کالنز، یہ سعادت علی کون ہے؟
کرنل : آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیرعلی کا چچا اور اس کا دشمن۔ دراصل نواب آصف الدولہ کے ہاں لڑکے کی کوئی امید نہ تھی۔ وزیرعلی کی پیدائش کو سعادت علی نے اپنی موت خیال کیا۔
لیفٹیننٹ : مگر سعادت علی کو اودھ کے تخت پر بٹھانے میں کیا مصلحت تھی؟
کرنل : سعادت علی ہمارا دوست ہے اور بہت عیش پسند آدی ہے۔ اس نے ہمیں اپنی آدھی مملکت دے دی۔ اور دس لاکھ روپے نقد، اب وہ بھی مزے کرتا ہے اور ہم بھی ۔
لیفٹیننٹ : سنا ہے یہ وزیر علی افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔
کرنل : افغانستان کو حملے کی دعوت سب سے پہلے اصل میں ٹیپو سلطان نے دی۔ پھر وزیرعلی نے بھی اسے دلی بلایا اور شمس الدولہ نے بھی ۔
لیفٹیننٹ : کون شمس الدولہ؟
کرنل : نواب بنگال کا نسبتی بھائی - بہت خطرناک آدمی ہے۔
لیفٹیننٹ : اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ کمپنی کے خلاف سارے ہندوستان میں ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
کرنل : جی ہاں ۔ اور اگر یہ کامیاب ہوگئی تو بکسر اور پلاسی کے کارنا مے دھرے رہ جائیں گے اور کمپنی جو ساکھ لارڈ کلائیو کے ہاتھوں حاصل کر چکی ہے، لارڈ ویلزلی کے ہاتھوں وہ سب کھو بیٹھے گی۔
لیفٹیننٹ : وزیرعلی کی آزادی بہت خطرناک ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح اس شخص کو گرفتار کرہی لینا چاہیے۔
کرنل : پوری ایک فوج لیے اس کا پیچھا کر رہا ہوں اور برسوں سے وہ ہماری آنکھوں میں دھول ڈالے انھیں جنگلوں میں پھر رہا ہے اور ہاتھ نہیں آتا۔ اس کے ساتھ چند جاں باز ہیں ۔ مٹھی بھر آدمی مگر یہ دم خم!
لیفٹیننٹ : سنا ہے وزیرعلی ذاتی طور سے بہت بہادر آدمی ہے۔
کرنل : بہادر نہ ہوتا تو یوں کمپنی کے وکیل کوقتل کردیتا؟
لیفٹیننٹ : یہ قتل کا کیا قصہ ہوا تھا کرنل؟
کرنل : قصہ کیا ہوا تھا؟ وزیر علی کو معزول کرنے کے بعد ہم نے اسے بنارس پہنچا دیا اور تین لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کردیا۔ کچھ مہینے بعد گورنر جنرل نے اسے کلکتے طلب کیا۔ وزیر علی کمپنی کے وکیل کے پاس گیا جو بنارس میں رہتا تھا اور اس سے شکایت کی کہ گورنر جنرل اسے کلکتے میں کیوں طلب کرتا ہے۔ وکیل نے شکایت کی پروا نہ کی ۔ الٹا اسے برا بھلا سنا دیا۔ وزیر علی کے دل میں یوں بھی انگریزوں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس نے خنجر سے وکیل کا کام تمام کردیا۔
لیفٹیننٹ : اور بھاگ گیا؟
کرنل : اپنے جاں نثاروں سمیت اعظم گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اعظم گڑھ کے حکمرانوں نے ان لوگوں کو اپنی حفاظت میں گھاگھرا تک پہنچا دیا۔ اب یہ کارواں جنگلوں میں کئی سال سے بھٹک رہا ہے۔
لیفٹیننٹ : مگر وزیر علی کی اسکیم کیا ہے؟
کرنل : اسکیم یہ ہے کہ کسی طرح نیپال پہنچ جائے ، افغانی حملے کا انتظار کرے، اپنی طاقت بڑھائے، سعادت علی کو معزول کر کے خود اودھ پر قبضہ کر لے اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے۔
لیفٹیننٹ : نیپال پہنچنا تو کوئی ایسا مشکل نہیں ممکن ہے پہنچ گیا ہو۔
کرنل : ہماری فوجیں اور نواب سعادت علی خاں کے سپاہی بڑی سختی سے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ابھی جنگلوں میں ہے۔
(ایک گورا سپاہی تیزی سے داخل ہوتا ہے)
گورا سپاہی : سر!
کرنل : (اُٹھ کر ) کیا بات ہے؟
گورا سپاہی : دور سے گرداٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔
کرنل : سپاہیوں سے کہہ دو کہ تیار رہیں۔
(سپاہی سلام کر کے چلا جاتا ہے)
لیفٹیننٹ : (جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا) گرد تو ایسی اڑ رہی ہے جیسے پورا ایک قافلہ چلا آرہا ہے مگر مجھے تو ایک ہی سوار دکھائی دیتا ہے۔
کرنل : (کھڑکی کے پاس جا کر) ہاں ایک ہی سوار ہے۔ سرپٹ گھوڑا دوڑائے چلا آرہا ہے۔
لیفٹیننٹ : اور سیدھا ہماری طرف ہی آتا معلوم ہوتا ہے۔
: (کرنل تالی بجا کر سپاہی کو بلاتا ہے)
کرنل : (سپاہی سے) سپاہیوں سے کہو اس سوار پر نظر رکھیں کہ یہ کس طرف جارہا ہے۔
(سپاہی سلام کر کے چلا جاتا ہے)
لیفٹیننٹ : شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ تیزی سے اسی طرف آرہا ہے۔
(ٹاپوں کی آواز بہت قریب آ کر رک جاتی ہے)
سوار : (باہر سے ) مجھے کرنل سے ملنا ہے۔
گورا سپاہی : (چلّا کر) بہت اچھا۔
سوار : بھئی آہستہ بولو۔
گورا سپاہی : (اندر جا کر) حضورا سوار آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کرنل : بھیج دو۔
لیفٹیننٹ : وزیر علی کا ہی کوئی آدمی ہوگا۔ ہم سے مل کر اسے گرفتار کروانا چاہتا ہو گا ۔
کرنل : خاموش ( سوار سپاہی کے ساتھ اندر آتا ہے)
سوار : (آتے ہی پکار اٹھتا ہے) تنہائی تنہائی۔
کرنل : یہاں کوئی غیر آدمی نہیں۔ آپ رازِ دل کہہ دیں ۔
سوار : دیوار ہم گوش دارد۔ تنہائی۔
(کرنل لیفٹیننٹ اور سپاہی کو اشارہ کرتا ہے۔ دونوں باہر چلے جاتے ہیں ۔جب کرنل اور سوار خیمے میں تنہا رہ جاتے ہیں تو ذرا و قفے کے بعد سوار چاروں طرف دیکھ کر کہتا ہے۔)
سوار : آپ نے اس مقام پر کیوں خیمہ ڈالا ہے؟
کرنل : کمپنی کا حکم ہے کہ وزیر علی کو گرفتار کیا جائے۔
سوار : لیکن اتنا لاؤ لشکر کیا معنی؟
کرنل : گرفتاری میں مدد دینے کے لیے۔
سوار : وزیرعلی کی گرفتاری بہت مشکل ہے صاحب!
کرنل : کیوں؟
سوار : وہ ایک جاں باز سپاہی ہے۔
کرنل : میں نے بھی سن رکھا ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟
سوار : چند کارتوس
کرنل : کس لیے۔
سوار : وزیر علی کو گرفتار کرنے کے لیے۔
کرنل : واه یہ لو دس کارتوس۔
سوار : (مسکراتے ہوئے ) شکریہ۔
کرنل : آپ کا نام؟
سوار : وزیر علی! آپ نے مجھے کارتوس دیئے ہیں، اس لیے آپ کی جاں بخشی کرتا ہوں۔
(یہ کہہ کر باہر نکل جاتا ہے۔ ٹاپوں کا شور سنائی دیتا ہے۔
کرنل سناٹے میں ہکا بکا کھڑا ہے۔ لیفٹیننٹ اندر آجاتا ہے۔)
لیفٹیننٹ : کون تھا؟
کرنل : (دبی زبان میں اپنے آپ سے )ایک جاں باز سپاہی۔
(پردہ)
حبیب تنویر
(1923 - 2009)
حبیب تنویر کا اصل نام حبیب احمد خاں اور تنویر تخلص ہے۔ ادبی اور ثقافتی دنیا میں وہ حبیب تنویر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ناگ پور یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے۔ ابتدا میں انھوں نے فلمی گیت اور مکالمے لکھے پھر قدسیہ زیدی کے ہندوستانی تھیٹر میں شامل ہوگئے۔ لندن اور جرمنی میں ڈرامے کی تکنیک پر مہارت حاصل کی۔
انھوں نے بہت سے اردو ڈرامے لکھے جن میں بہت سے مشرقی اور مغربی ملکوں میں اسٹیج کیا گیا۔ ان میں ”سات پیسے“، ”چرن داس چور“، ”ہرما کی کہانی“، ”آگره بازار“، ”شاجا پور کی شانتی بائی“،” مٹی کی گاڑی“ اور ”میرے بعد“ بہت مشہور ہوئے ۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے چھتیس گڑھ کے لوک کلا کاروں کو قومی سطح پر روشناس کرایا۔
حبیب تنویر کو قومی اور بین الاقوامی سطح کے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ حکومتِ فرانس نے ان کو اپنی سوانح حیات لکھنے کے لیے اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ اسے قلم بند کرنے میں مصروف تھے۔
ہندی، بنگالی ، مراٹھی ، اور یورپ کی کئی زبانوں میں ان کے ڈرامے ترجمہ ہو چکے ہیں۔
مشق
خلاصہ:
1799ء کا زمانہ ہے۔ کرنل کالنز اور ایک لیفٹیننٹ گورکھ پور کے جنگلوں میں وزیر اعلیٰ کو پکڑنے کے لیے ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔ کرنل لیفٹینٹ سے کہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بڑاخطرناک سے سخت نفرت کرتا ہے۔ اس نے اودھ کو پانچ مہینے میں انگریزی اثر سے بالکل آزاد کروالیا تھا۔ اس پر لیفٹینٹ سے پوچھتا ہے کہ سعادت علی کون ہے۔ کرنل اسے بتاتا ہے کہ یہ آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا چچا۔ لیکن وزیر اعلیٰ اس کا دشمن ہے۔ وزیر اعلیٰ کی پیدائش کو سعادت علی نے اپنی موت خیال کیا۔ سعادت علی انگریزوں کا دوست ہی ہے، اسی لیے اسے ہم نے تخت پر بٹھایا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل سے کہتا ہے کہ سنا ہے وزیر اعلیٰ افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سے پہلے ٹیپو سلطان بھی اسے بلا چکا ہے اور بنگال کے نواب کے نسبتی بھائی شمس الدولہ نے بھی اسے بلوایا ہے۔ آج پورا ہندوستان انگریزوں کا مخالف ہورہا ہے۔ بکسراور پلاسی کے کارنامے دھرے رہ جائیں گے۔ لارڈ کلائیو کے ذریعے بنائی گئی کمپنی کی ساکھ لارڈ ویلزلی کے ہاتھوں رائیگاں ہو جائے گی۔ وزیراعلی کی آزادی بہت خطرناک ہے۔ کرنل: پوری فوج لے کر اس کا پیچھا کر رہا ہوں، مگر وہ کہاں ہاتھ آ رہا ہے۔ وہ برسوں سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ وزیراعلی کو معزول کر کے ہم نے اسے بنارس بھیج دیا تھا اور اس کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ اسے جب کلکتہ بلایا گیاتو اس نے کمپنی کے وکیل کوقتل کر دیا اور وہاں سے اپنے جانثاروں کو لے کر اعظم گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اب وہ وہاں سے نیپال کی طرف نکل جانا چاہتا ہے۔ وہاں رہ کر اپنی طاقت بڑھا کر افغانی امداد لے کر نہ صرف سعادت علی خاں کو تخت سے ہٹانا چاہتا ہے بلکہ انگریزوں کو بھی ہندوستان سے نکال دینے کے فراق میں ہے۔ جبکہ ہمارے سپاہی اور سعادت علی خاں کی فوجیں برابر اس کا پیچھا کر رہی ہیں ۔ تب ہی ایک گھوڑے پر سوار وہاں آ جاتا ہے، اسے فوراً انگریز افسر کی خدمت میں پیش کر دیا جا تا ہے ۔ گھڑ سوار کرنل سے پوچھتا ہے، آپ نے یہاں کیوں ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ کرنل اسے بتاتا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ کو پکڑنا چاہتے ہیں ۔ گھڑ سوار کہتا ہے وزیر اعلیٰ کو پکڑ نا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ایک جاں باز سپاہی ہے۔ کرنل اس کا اعتراف کرتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ گھڑ سوار کہتا ہے مجھے صرف چند کارتوس درکار ہیں ۔ کرنل اس سے پوچھتا ہے کہ کارتوس کس لیے۔ گھڑ سوار : وزیر اعلیٰ کو پکڑنے کے لیے۔ کرنل اسے کارتوس دے دیتا ہے۔ جنھیں وہ شکریہ کے ساتھ قبول کر لیتا ہے اور جب کرنل اس سے نام پوچھتا ہے تو وہ اسے بتاتا ہے، وزیراعلی۔۔۔۔۔ اور باہرنکل جاتا ہے۔ اس پر کرنل ہکا بکا رہ جاتا ہے اور جب لیفٹیننٹ اندر آ کر کرنل سے پوچھتا ہے کون تھا؟ کرنل کی زبان سے صرف اتنا ہی نکلتا ہے ایک جاں باز سپاہی۔
معنی یاد کیجیے: 
خیمہ : تنبو، ٹینٹ
جاں باز : بہادر، جان پر کھیل جانے والا
مصلحت : حکمت، پالیسی
ساکھ : نیک نامی، اعتبار
معزول : تخت یا گدی سے اتارا ہوا
دیوار ہم گوش دارد : دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں
مملکت : حکومت، سلطنت
رازِ دل : دل کی بات، بھید
وقفہ : مہلت ، تھوڑی سی دیر
لاؤ لشکر : فوج اور اس کا سازو سامان

غور کیجیے:
*  وطن سے محبت کرنے والے جاں باز تاریخ میں زندہ رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کی قدر کی جاتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے جملوں میں صحیح لفظوں سے خالی جگہوں کو بھر یے: 
1۔  سنا ہے کہ وزیرعلی افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر ....حملے...... کی دعوت دے رہا ہے ۔ (حملے، لڑائی) 
2-  وزیرعلی کے دل میں انگریزوں کےخلاف.......نفرت....... کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔(نفرت، برائی ، محبت)  
3۔  وزیرعلی کی .....گرفتاری...... بہت مشکل ہے صاحب۔ (معزولی ، جاں بخشی ، گرفتاری) 

سوچیے اور بتائیے:

1. وزیر علی کے کارنامے سن کر کس کے کارنامے یاد آتے ہیں؟
جواب: وزیر علی کے کارنامے سن کر رابن ہُڈ کے کارنامے یاد آتے تھے۔

2. سعادت علی کو انگریزوں نے اودھ کے تخت پر کیوں بٹھایا؟
جواب: سعادت علی ایک عیش پسند آدمی تھا۔ اس نے انگریزوں کو اپنی آدھی مملکت  اور دس لاکھ روپے نقد دیا جس کے بدلے انگریزوں نے اسے تخت پر بٹھایا۔

3. سعادت علی کیسا آدمی تھا؟
جواب: سعادت علی ایک عیش پسند آدمی تھا۔ وہ تخت اور حکومت کا لالچی تھا اور اسے صرف اپنی ذات سے مطلب تھا۔

4. کرنل سے کارتوس مانگنے والا سوار کون تھا؟
جواب: کرنل سے کارتوس مانگنے والا سوار وزیرعلی تھا۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے:
تخت : انگریزوں نے ہندوستان کے تخت پر قبضہ کرلیا۔
خلاف : ہندوستانی انگریزوں کی حکومت کے خلاف تھے۔
پاک : وزیر علی ملک کو انگریزوں سے پاک کرنا چاہتا تھا۔
بہادر : وزیر علی  بہت بہادر تھا۔
جاں باز : وزیرعلی ایک جاں باز سپاہی تھا۔
وظیفہ : انگریزوں نے وزیرعلی کا تین لاکھ روپے وظیفہ مقرر کردیا تھا۔
اسکیم : وزیرعلی کی اسکیم نیپال پہنچنا تھی۔

جمع کے واحد اور واحد کے جمع بنائیے:
جنگل : جنگلات
شکایات : شکایت
افواج : فوج
سلاطین : سلطان
وظیفہ : وظائف
وزیر : وزراء

عملی کام
* استاد سے تین شہیدانِ وطن کے نام معلوم کر کے لکھیے۔
شہید بھگت سنگھ
شہید اشفاق اللہ خاں
رام پرساد بسمل

*  دو لوگوں کے درمیان کی گفتگو یا بات چیت مکالمہ کہلاتی ہے۔ اس ڈرامے کے پانچ مکا لمے یاد کر کے لکھیے۔ 
کرنل کالنز، یہ سعادت علی کون ہے؟
آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیرعلی کا چچا اور اس کا دشمن۔
جنگل کی زندگی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
افغانستان کو حملے کی دعوت سب سے پہلے اصل میں ٹیپو سلطان نے دی۔
سعادت علی ہمارا دوست ہے اور بہت عیش پسند آدی ہے۔

*  اس ڈرامے کو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسٹیج کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Wednesday 18 March 2020

Dr. Bheem Rao Ambedkar - NCERT SOLUTIONS CLASS 10 URDU

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر
Courtesy NCERT
ڈاکٹر امبیڈ کر کا اصل نام بھیم راؤ سکپال تھا۔ وہ 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش کےقصبے مہو میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق مہاراشٹر کے مہار خاندان سے تھا۔ اس زمانے میں چھوت چھات کی وبا عام تھی ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو بچپن ہی سے اس قسم کے بھید بھاؤ اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دفعہ وہ اسکول جارہے تھے کہ بہت زور کی بارش شروع ہوگئی ۔ وہ ایک مکان کی دیوار کے سہارے کھڑے ہونا چاہتے تھے۔ مکان کی ما لکہ نے انھیں ڈانٹا اور وہاں سے چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ چھوٹی ذات کا کوئی فرد اس کے مکان کی دیوار کے پاس کھڑارہے۔

ڈاکٹر امبیڈکر اپنے استادوں کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ستارا کے ایک اسکول میں امبیڈکر نامی ایک استاد تھے جو ذات پات کی تفریق کو نہیں مانتے تھے ۔ وہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے۔ وہ بھیم راؤ کو بہت چاہتے تھے۔ استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ ایسا مضبوط ہوا کہ آگے چل کر وہ بھیم راؤ سکپال سے بھیم راؤ امبیڈکر بن گئے۔

تعلیم حاصل کرنے کے لیے امبیڈ کر کوکئی رکاوٹوں کا سامنا کر نا پڑا۔ مگر ان کے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق اور محنت کا جذ بہ تھا، اس لیے وہ آگے ہی بڑھتے گئے۔ آخر کار اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں انگلستان جانے کا موقع مل گیا۔ انگلستان سے واپسی کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر نے ملک سے چھوت چھات اور ذات پات کی تفریق مٹانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں ۔ چھوت چھات کی اس لعنت نے ملک کو کافی نقصان پہنچایا۔ اس کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا طبقہ غربت اور جہالت کا شکار رہا۔

امبیڈکر نے اپنے جیسے کمزور انسانوں پر ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی ۔ گاؤں گاؤں اور شہر شہر جا کر لوگوں کو بیدار کیا۔ ان کے دل سے خوف دور کیا اور ان میں خود اعتمادی پیدا کی۔

ڈاکٹر امبیڈکر کا خیال تھا کہ سماج میں باعزت زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ تعلیم بہت سی برائیوں کو ختم کردیتی ہے۔ انھوں نے کمزور طبقوں کی تعلیم کے لیے کئی ادارے قائم کیے، اسکول اور کالج کھولے ۔ مردوں کے ساتھ عورتوں کی ترقی پر بھی توجہ دی۔ ان کے لیے سماج میں برابری کے حقوق کی وکالت کی۔

ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمیشہ قومی اتحاد اور یگانگت پر زور دیا۔ ان کا اہم کارنامہ ہمارے ملک کا دستور ہے۔ جب ہمارا ملک آزاد ہوا تو اس کا دستور بنانے کی ذمہ داری ڈاکٹر امبیڈکر کو سو نپی گئی۔ اسی لیے انھیں بھارت کے دستور کا معمار کہا جا تا ہے۔ بھارت کا عظیم رہنما 6 دسمبر 1954 کو اس دنیا سے چل بسا۔
مشق
معنی یاد کیجیے :
تفریق : فرق کرنا
خود اعتمادی : اپنے آپ پر بھروسا
 حقوق : حق کی جمع
معمار : تعمیر کرنے والا،بنانے والا
عظیم : بڑا
ذات : برادری ، طبقہ
اعلیٰ : اونچا، بڑا، عمدہ
آخر کار : نتیجے کے طور پر
لعنت : ناپسندیدہ چیز، برائی ،خرابی
بیدار کرنا : جگانا
دستور : آئین، قانون


خلاصہ:
ڈاکٹر امبیڈکر کا اصل نام بھیم راؤ سکپال تھا۔ وہ 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش کے قصبے مہو میں پیدا ہوۓ ۔ مہاراشٹر کے مہار خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ اس وقت چھوت چھات کی وبا عام تھی اور ڈاکٹر امبیڈکر کو بچپن ہی سے اس کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار‌ وہ اسکول جا رہے تھے کہ بہت زور کی بارش شروع ہوگئی۔ وہ ایک مکان کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے تھے کہ مکان کی مالکہ نے انہیں وہاں سے بھگا دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ چھوٹی ذات کا کوئی شخص اس کے مکان کی دیوار کے پاس کھڑا ہو۔ ستارا کے ایک اسکول میں ڈاکٹر امبیڈکر نام کے ایک استاد تھے۔ وہ چھوت چھات اور ذات پات کی تفریق کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے۔ وہ بھیم راؤ کو بہت پسند کرتے تھے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہوا کہ بھیم راؤ سکپال بھیم راؤ امبیڈکر بن گئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ان کے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق اور محنت کا جذبہ تھا۔ وہ آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ آخر کار انہیں انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ انگلستان سے واپس آکر ڈاکٹر امبیڈکر نے ملک سے چھوت چھات اور ذات پات کی تفریق مٹانے کی کوشش کی ۔ وہ جانتے تھے کہ ملک کا بڑا طبقہ غربت اور جہالت کا شکار ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے گاؤں گاؤں اور شہر جا کر لوگوں کو بیدار کیا۔ انہوں نے کمزور طبقوں کی تعلیم کے لئے کئی ادارے قائم کئے ، اسکول اور کالج کھولے،مردوں کے ساتھ عورتوں کی ترقی پر توجہ دی۔ان کے لئے سماج میں برابری کے حقوق کی وکالت کی ۔ جب ہمارا ملک آزاد ہوا تو اس کا دستور بنانے کی ذمہ داری ڈاکٹر امبیڈکر کو دی گئی ۔ بھارت کے دستور کا یہ معمار 6 دسمبر 1954 کو اس دنیا سے چل بسا۔
غور کیجیے:

* ہر انسان برابر ہے۔ سماج میں سبھی کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ قانونی طور پر کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے۔

سوچئے اور بتایئے:

1۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا پورا نام کیا تھا؟ ان کا تعلق کس خاندان سے تھا؟
جواب: ڈاکٹر امبیڈکر کا اصل نام بھیم راؤ سکپال تھا اُن کا تعلق مہاراشٹر کے مہار خاندان سے تھا۔

2۔ بھیم راؤ کے نام میں امبیڈکر کیوں شامل ہوا؟
جواب:ستارہ کے ایک اسکول میں امبیڈکر نامی استاد تھے  جو ذات پات کی تفریق کو نہیں مانتے تھے وہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے وہ بھیم راؤ کو بہت چاہتے تھے استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ ایسا مضبوط ہوا کے آگے چل کر بھیم راؤ سكپال سے بھیم راؤ امبیڈکر بن گئے۔

3۔ چھوت چھات سے ملک کو کیا نقصان پہنچا؟
جواب: چھوت چھات کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا حصّہ غربت اور جہالت کا شکار رہا۔

4۔ بھیم راؤ امبیڈکر کا سب سے اہم کارنامہ کیا ہے؟
جواب:جب ہمارا ملک آزاد ہوا تو اس کا دستور بنانے کی ذمہ داری ڈاکٹر امبیڈکر کو سونپی گئی۔ اور انہوں نے بڑی محنت سے بھارت کا دستور لکھا۔

قواعد:
بے جان چیزوں میں کبھی مذکر اور مؤنث کا فرق پایا جاتا ہے۔ جیسے ”دروازہ کھلا ہے“، ”کھڑکی کھلی ہے“،”دیوار اونچی ہے“، ”مکان بڑا ہے“۔ ان میں دروازہ، مکان، مذکر کے طور پر اور کھڑ کی، دیوار مؤنث کے
طور پر استعمال ہوئے ہیں۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں میں مذکر اور مؤنث چھانٹ کر لکھیے:

مذکر: راستہ،  موقع، ظلم،خوف

مونث: مصیبت،  تعلیم، رکاوٹ،محنت، جہالت، قوم


خالی جگہوں کو مناسب لفظوں سے بھریے:

1۔ امبیڈکر کا اصل نام ......بھیم راؤ سکپال..... تھا۔ ( بھیم راؤ امبیڈکر/ بھیم راؤ سکپال)
2۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امبیڈ کر کوکئی .....رکاوٹوں..... کا سامنا کرنا پڑا۔ (رکاوٹوں ، مجبوریوں)
 3۔ چھوت چھات کی .......لعنت....... نے ملک کو کافی نقصان پہنچایا۔ (لعنت، پھٹکار)
4۔ سماج میں باعزت زندگی گذارنے کے لیے...... تعلیم....... بے حد ضروری ہے۔ (تعلیم، ترقی)

عملی کام:
ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی کے حالات پر مختصر مضمون لکھیے ۔
بھیم راؤ امبیڈکر مغربی ہندوستان کے دلت مہار کنبے میں پیدا ہوئے ، جب وہ کمسن ہی تھے کہ  اسکول میں  اعلی ذات کے لوگوں نے انہیں ذلیل کیا تھا۔ ان کے والد ہندوستانی فوج میں افسر تھے۔ امبیڈکر کو بوروڈا (اب وڈوڈرا) کے گائیکور (حکمران) کے ذریعہ اسکالرشپ سے نوازا گیا ، انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے گائیکور کی درخواست پر بڑودہ پبلک سروس میں داخلہ لیا ، لیکن  اعلی ذات کے ساتھیوں کے ذریعہ ایک بار پھر بد سلوکی کے بعد ، وہ قانونی مشق اور تعلیم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اپنی زندگی میں متعدد بار انہیں چھوت چھات کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر امبیدکر ہندو سماج میں ذات پات کی بنیادوں پر پروان چڑھنے والی نفرت کے باوجود اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ اسکول میں جہاں دوسرے اچھوت لڑکے اونچی ذات کے ہندو لڑکوں کی نفرت کا نشانہ بن کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے وہیں پر ڈاکٹر امبیدکر نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہائی اسکول پاس کر لیا۔ڈاکٹر امیبدکر جب کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھ کر واپس آئے تو بڑودا ریاست کے شودر مہاراجہ نے انہیں ایک عہدہ دے دیا لیکن انہیں یہاں بھی قرار نہ آیا اور پھر وہ انگلستان میں مزید تعلیم کے لیے چلے گئے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Monday 16 March 2020

Qaul Ka Paas - Prem Chand - NCERT Solutions Class X Urdu

قول کا پاس
منشی پریم چند
(Courtesy NCERT)
اکبر بادشاہ مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ اس نے لڑائیاں لڑکر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا۔ ایک راجپوتانہ رہ گیا تھا، اکبر نے چاہا کہ اسے بھی فتح کر لے اور وہاں بھی سلطنت کرے۔ یہ ارادہ کر کے راجپوتانہ پر فوج کشی کی ۔ راجپوت اپنا ملک بچانے کے لیے لڑے تو بڑی بہادری سے مگر آخر کار ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ راجپوتوں کا سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کو لے کر کسی جنگل میں جا چھپا۔
راجپوتوں کے ایک سردار کا نام رگھوپت تھا۔ یہ بڑا بہادر اور جری تھا۔ اس نے کچھ لوگ اپنی فوج میں داخل کر لیے تھے اور ان کو ساتھ لے کر لڑ ا کرتا تھا۔ اس نے بہادری میں ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ بڑے بڑے مغل اس کا نام سن کر گھبرا جاتے تھے۔ اکبر کے سپاہیوں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح اس کو پکڑ لیں مگر وہ ایک جگہ کب رہتا تھا جو اسے پکڑ سکتے۔
رگھوپت سنگھ کی ایک بیوی تھی اور ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ جب وہ اپنے دشمنوں سے لڑنے کو گھر سے نکلا تھا، اس کا بیٹا بہت بیمار تھا۔ لیکن اس نے نہ تو اپنے بیمار بچے کا خیال کیا ، نہ بیوی کا ۔ مغلوں سے لڑنے کو گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ہاں کبھی کبھی چوری چھپے سے کسی کو گھر بھیج دیتا تھا اور بیوی بچے کی خبر منگوا لیا کرتا تھا۔
رگھوپت سنگھ کو  پکڑنے کو اکبر بادشاہ نے بہت سی فوج بھیجی مگر وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ پھر بادشاہ نے اس کے گھر پر پہرہ بٹھا دیا۔ اکبر کا خیال تھا کہ کسی دن رگھوپت سنگھ اپنے بال بچے سے ملنے کو ضرور گھر آئے گا۔ بس اسی دن سپاہی اس کو پکڑ لیں گے۔ ادھر کسی نے رگھو پت سنگھ کو خبرکر دی کہ تیرا بیٹا گھڑی دو گھڑی کا مہمان ہے ، چل کر اسے دیکھ لے۔
یہ سن کر رگھوپت سنگھ بہت گھبرایا۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ جنگل میں سفر کرنے کا وقت تو نہیں تھا مگر رگھوپت نے سوچا کہ اگر میں نے ذرا بھی دیر کی تو شاید میں لڑکے کی صورت بھی نہ دیکھ سکوں ۔ اسی وقت چلنا چاہیے۔ رگھوپت سنگھ اسی وقت چلنے کو تیار ہوگیا۔ جب رگھوپت سنگھ گھر پہنچا تو دروازے پر اکبر بادشاہ کے سپاہیوں میں سے ایک پہرہ دار نے کہا ”بادشاہ کا حکم ہے کہ تم جہاں ملو، پکڑ لیے جاؤ“ رگھوپت سنگھ نے کہا ”میرا لڑکا مر رہا ہے، اسے دیکھنے آیا ہوں، ذرا دیر کے لیے مجھے اندر چلا جانے دو، ابھی دیکھ کر لوٹ آتا ہوں۔ اس وقت جو بھی چاہے کر لینا۔ میں راجپوت ہوں،جھوٹ ہرگز نہ بولوں گا۔“
اس پہرہ والے سپاہی نے کہا ”دیکھ آؤ۔“ جب رگھوپت سنگھ گھر میں گیا تو دیکھا کہ لڑکا بے چین ہو رہا ہے اور بیوی فکر کے مارے بے حال ہورہی ہے۔ میاں کو دیکھ کر بیوی کی ڈھارس بندھی ۔ رگھوپت سنگھ نے بچے کو پیار کیا اور دوا کی تدبیریں بتائیں ۔ پھر اپنی بیوی سے کہا۔ ” دروازے پر سپاہی کھڑا ہے، میں کہہ آیا ہوں کہ میں قید ہونے کو ابھی واپس آتا ہوں ۔“ بیوی نے کہا”ایسا نہ کرو، دوسرے دروازے سے نکل جاؤ رگھوپت نے کہا ” یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں قول دے چکا ہوں، اس کے خلاف نہیں کرسکتا۔“
یہ کہہ کر وہ دروازے پر آیا اور سپاہی سے کہنے لگا” لو میں آ گیا اب مجھے پکڑ کر جہاں چاہو لے چلو ‘‘ سپاہی نے کہا ” تمھیں پکڑنے کو میرا دل نہیں چاہتا تم بھاگ جاؤ“رگھوپت نے کہا ”بہت بہتر، تم نے اس وقت میری مدد کی ہے، جب تم پر برا وقت آئے گا تو میں بھی تمھاری مدد کروں گا۔“ یہ کہہ کر رگھوپت آگے بڑھا اور غائب ہو گیا۔
اس بات کو تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ مغلوں کا ایک افسر چھ آدمیوں کو ساتھ لے کر آ پہنچا۔ پہرے والے سے کہا” ہم نے سنا ہے رگھوپت ادھر آیا ہے-“ پہرے والے نے سچ سچ کہہ دیا کہ ”رگھوپت سنگھ اپنے بیمار بیٹے کو دیکھنے آیا تھا اور میں نے اسے جانے کی اجازت دے دی‘‘ یہ سن کر افسر نے پہرہ دار کو قید کر لیا۔ رگھوپت سنگھ کو بھی سپاہی کے قید ہونے کی خبرمل گئی۔ وہ اسی وقت واپس آیا اور آ کر مغل افسر کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ”میں رگھوپت ہوں، میں واپس آ گیا ہوں، مجھے پکڑ لو اور اس بے گناہ قیدی کو چھوڑ دو‘‘ افسر نے رگھوپت کو پکڑ لیا اور قید خانے میں ڈال دیا لیکن سپاہی کو نہ چھوڑا، افسر نے دونوں کے قتل کرنے کا حکم دیا۔
دوسرے دن سپاہی رگھوپت اور پہرہ دار کو میدان میں لائے کہ ان کو قتل کیا جائے۔ دونوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے مغل افسر نے جلّا د سے کہا کہ” دونوں کی گردنیں اڑا دو۔ “جلّاد نے تلوار اٹھائی ہی تھی کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی ۔ لوگوں نے دیکھا تو اکبر بادشاہ اپنے افسروں کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ سب نے جھک کر سلام کیا۔ اکبرگھوڑے پر سے اتر پڑا ۔اور کہنے لگا ”رگھوپت کی گرفتاری کا پورا حال مجھ کو معلوم ہو چکا ہے ۔“ پھر پہرہ دار سے کہا ”ہر بھلے آدمی کا دل دوسروں کا دکھ دیکھ کر پگھل جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس راجپوت کی تکلیف دیکھ کر تمھارا دل بھر آیا تھا۔ اس لیے تم نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔ اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے بھی تو میں نے معاف کیا۔ مجھے ایسے ہی سپاہی چاہیے۔ جو اپنے بادشاہ سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے۔“ یہ سنتے ہی پہرہ دارخوشی سے پھولا نہ سمایا۔
پھر اکبر نے رگھوپت کی طرف دیکھ کر کہا”مجھے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ بہادر راجپوت بات کے اتنے دھننی ہوتے ہیں۔ تمھاری بہادری اور ایفائے وعدہ سے میں بہت خوش ہوا، میں نے تم کو بھی چھوڑا‘‘ رگھوپت سنگھ گھٹنوں کے بل زمین پر جھک گیا اور کہا ” آپ جس رگھوپت کو اتنی مشکل سے بھی جیت نہ سکے، آج اپنی دریا دلی دکھا کر آپ نے اسے جیت لیا۔ آپ بہادروں کی وقعت کرانا جانتے ہیں ۔ اب میں کبھی آپ کا دشمن ہو کر تلوار نہ اٹھاؤں گا۔“
جوآدمی اپنے وعدے کے پکے ہوتے ہیں اور سچائی پر جمے رہتے ہیں اور دوسرے کے دکھ میں مدد کرتے ہیں خدا ہمیشہ ان کی مدد کرتا ہے۔


خلاصہ:
مغل بادشاہ اکبر نے ہندوستان کا بہت سا علاقہ فتح کرلیا تھا۔ ایک علاقہ راجپوتانہ پر اس کا قبضہ نہ ہو سکا تھا۔ اس نے راجپوتانہ پر فوج کشی کی ۔ راجپوت بہت بہادری سے لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ ان کا سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کے ساتھ کسی جنگل میں جا چھپا۔ راجپوتوں کا ایک سردار رگھوپت سنگھ نے کچھ بہادر لوگوں کو اپنی فوج میں شامل کر لیا تھا اورمغل حکومت کا مقابلہ کر رہا تھا۔ مغل سپاہیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ رگھوپت سنگھ کی ایک بیوی اور اکلوتا بیٹا تھا۔ رگھوپت کسی ایک جگہ نہیں رہتا تھا۔ کبھی کبھی بیوی اور بیٹے سے ملنے گھر آ جاتا ۔ بادشاہ نے اسے پکڑنے کے لئے گھر پر پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اکبر کا خیال تھا کہ کسی دن رگوپت اپنے بال بچوں سے ملے ضرور آئے گا تو سپاہی اسے پکڑ لیں گے ۔ رگھوپت کو اطلاع ملی کہ اس کا بیٹا شدید بیمار ہے اور وہ اسے جا کر دیکھ لے خبر دینے والے نے بتایا کہ اگر وہ بیٹے کو دیکھنے نہ گیا تو شاید پھر کبھی نہ دیکھ سکے۔ رگھوپت اس وقت گھر روانہ ہوگیا۔ گھر کے دروازے پر پہرہ تھا۔ پہرے دار نے اسے اندر جانے سے منع کیا اور کہا کہ بادشاہ نے تمہیں پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ رگھوپت نے کہا میرا لڑکا مر رہا ہے۔ میں اسے دیکھ کر ابھی واپس آتا ہوں تب تم جو چاہے کر لینا۔ پہرے دار سپاہی نے اسے اندر جانے دیا۔ اندر پہنچ کر رگھوپت نے اپنے بیمار بیٹے کو دیکھا اور بیوی کو دوائیں بتا کر کہنے لگا کہ مجھے واپس جانا ہے کیونکہ مجھے پکڑنے کا حکم ہے۔ بیوی نے کہا کہ دوسرے دروازے سے کہیں اور چلا جائے۔ رگھوپت نے کہا کہ میں قول دے چکا ہوں اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ رگھوپت باہر آیا اور سپاہی سے کہا کہ اسے پکڑ لے۔ سپاہی نے کہا کہ میرا جی نہیں چاہتا کہ میں تمہیں پکڑوں، تم بھاگ جاؤ رگھوپت نے کہا کہ تم نے اس وقت میری مددکی ہے تم پر برا وقت آئے گا تو میں تمہاری مددکروں گا، اور وہ چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک مغل افسر کچھ سپاہیوں کے ساتھ آیا اور پہرہ دار سے رگھوپت کے بارے میں دریافت کیا۔ پہرہ دار نے صورت حال سے آگاہ کیا۔ افسرنے پہرہ دار کو گرفتار کرلیا۔ اسی وقت رگھوپت وہاں آ گیا اور افسر سے کہا تم مجھے گرفتار کرلو۔ افسر نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور اگلے دن ایک میدان میں قتل کرنے کے ارادہ سے لے کر پہنچا۔ وہاں پہنچ کر جلاد کو حکم دیا کہ دونوں کی گردنیں اڑا دو جلاد نے تلوار اٹھائی تھی کہ اس وقت اکبر دوسرے افسروں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ ان دونوں کے متعلق دریافت کیا گرفتار کرنے والے افسر نے تمام باتیں بتائیں ۔ اکبر نے پہرے دار کو معاف کر دیا اور کہا کہ ہر بھلے آدمی کا دل دوسروں کا دکھ دیکھ کر پگھل جاتا ہے، مجھے ایسے ہی سپاہی چاہئے جو اپنے بادشاہ سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے۔ پھر اکبر نے رگھوپت کی جانب دیکھ کر کہا مجھے معلوم نہ تھا کہ بہادر راجپوت بات کے اتنے ب دھنی ہوتے ہیں ۔ تمہاری بہادری اور قول کا پاس کرنے سے میں بہت خوش ہوا تم کو بھی چھوڑا۔ رگھوپت گھٹنوں کے بل زمین پر جھک گیا اور کہا جس رگھوپت کو آپ اتنی مشکل سے بھی جیت نہ سکے آج اپنی دریا دلی دکھا کر اسے جیت لیا۔ آپ بہادروں کی وقعت کرنا جانتے ہیں۔ اب میں کبھی آپ کا دشمن ہوکر تلوار نہ اٹھاؤں گا۔
منشی پریم چند
(1880-1936)
پریم چند کی پیدائش بنارس کے ایک گاؤں لمہی میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی ۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد 1899 میں بنارس کے قریب چنارگڑھ کے ایک مشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہو گئے ۔ 1905 میں کان پور کے ضلع اسکول میں استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔
پریم چند کو لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ انھوں نے زندگی کے دکھ درد کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے مسائل ان کی تحریروں کا موضوع بن گئے ۔ ان کی زبان بہت سادہ اور سلیس تھی۔ ان کے بیشتر ناول اور افسانے دیہاتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔
پریم چند نے تقریباً ایک درجن ناول اور تین سو سے زیادہ افسانے لکھے۔ ان کا شمار اردو کے اہم ترین ناول اور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
’نرملا‘ ،’ بیوہ‘، ’میدانِ عمل‘،’ بازارِحسن‘ اور ’گئودان‘ ان کے مشہور ناول ہیں ۔

مشق
معنی یاد کیجیے:
فتح : جیت
فوج کَشی : حملہ، چڑھائی
جَری : جنگجو، بہادر
قول : وعده
دریادلی : فراخ دلی
وقعت : عزّت

غور کیجیے:
انسان کو اپنے وعدے کا پکا ہونا چاہیے۔ جولوگ وعدے کے سچے ہوتے ہیں انھیں زندگی میں عزت اور کامیابی ضرورملتی ہے۔

سوچیے اور بتائیے:
سوال : اکبر کس خاندان کا بادشاہ تھا؟
جواب : اکبر مغل خاندان کا بادشاہ تھا۔

سوال : راجپوتوں کے اس  سردار کا نام کیا تھا؟ وہ جنگل میں کیوں چھپ گیا تھا؟
جواب : اکبر نے  لڑائیاں لڑ کر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا ایک راجپوتانہ رہ گیا تھا  اکبر نے چاہا کے اسے بھی فتح کرلے  اور وہاں بھی حکومت کرے یہ ارادہ کرکے اکبر نے راجپوتانہ پر فوج کشی کی راجپوت اپنا ملک بچانے کے لیے  لڑے تو  بڑی بہادری سے  لیکن آخر کار ان کے پاوں اُکھڑ گئے  راجپوتوں کا  ایک سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کے ساتھ جنگل میں جا کر چھپ گیا۔

سوال : رگھویت نے پہرےدار کی مدد کس طرح کی؟
جواب: رگھوپت نے جب یہ سنا کہ پہرےدار اسے گھر جانے دینے کی وجہ سے مصیبت میں ہے اور اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے وہ واپس آگیا اور اس نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ واپس آگیا ہے وہ اسے گرفتار کرلیں اور پہرےدارکو چھوڑ دیں۔

 سوال : اکبر رگھوپت کی کس بات سے متاثر ہوا؟
جواب : اکبر رگھوپت کی بہادری اور ایفائے وعدہ سے متاثر ہوا۔

سوال : اکبر نے رگھوپت کا دل کس طرح جیت لیا؟
جواب اکبر نے رگھو پت کا دل اپنی دریا دلی سے جیت لیا۔


نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے:
سلطنت : اکبر ایک بہت بڑی سلطنت کا شہنشاہ تھا۔
فوج : فوج ملک کی حفاظت کرتی ہے۔
پہرےدار : فوجی ملک کے پہرےدار ہیں۔
تدبیر : جنگ تدبیر سے جیتی جاتی ہے۔
قصور : اکبر کی نظر میں کا کوئی قصور نہ تھا۔۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریے:
دروازے#####وعدے#####اکبر#####سپاہی##### رگھوپت

1....اکبر....بادشاہ مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔
2. راجپوتوں کے سردار کا نام....رگھوپت....تھا
3. بیوی نے کہا”ایسا نہ کرو،دوسرے ...دروازے....سے نکل جاؤ۔“
4. دوسرے دن...سپاہی...رگھوپت اور پہرے دار کو میدان میں لائے۔
5. جو آدمی اپنے ....وعدے....کے پکّے ہوتے ہیں خدا ہمیشہ ان کی مدد کرتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
پاؤ اکھاڑنا : دشمن فوج کے پاوں اُکھڑ گئے۔
ڈھارس بندھنا : فوجی مدد پا کر بادشاہ کی ڈھارس بندھی۔
قول دینا : اس نے مدد کرنے کا قول دیا۔
دل بھر آنا  : گھر سے دور جاتے ہوئے سلیم کا دل بھر آیا۔
پھولا نہ سمانا : جنگ میں فتح سے بادشاہ پھولے نہ سمایا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سےواحد کی جمع اور جمع کی واحد بنائیے:
افواج : فوج
تدابیر : تدبیر
امداد : مدد
ممالک : ملک
اسفار : سفر
##### 
نیچے لکھے ہوئی لفظوں سے مذکر سے مونث اور مونث سے مذکر بنائیے:
بیٹی: بیٹا
عورت:مرد
لڑکا:لڑکی
گھوڑا:گھوڑی
بادشاہ :ملکہ

ان لفطوں کے متضاد الفاظ لکھیے:
محبت : نفرت
دشمن : دوست
قید : آزاد
بہادر : بزدل
دکھ : سکھ
سچائی : جھوٹ

اسم خاص اور اسم عام کو الگ الگ کیجیے:
اسم خاص: اکبر، رگھوپت، راجپوتانہ
اسم عام: بادشاہ، بہادر، بیٹا، گھوڑا

عملی کام:
* اس سبق سے کیا نصیحت ملتی ہے اپنے الفاظ میں لکھیے۔
اس سبق سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے اور اپنے قول کا پاس رکھنا چاہیے۔کسی سے وعدہ کرکے مکر جانا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔

 * اکبر کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے۔
اکبر مغل خاندان کا ایک عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ وہ تیسرا مغل بادشاہ تھا۔ اس نے 1556 سے 1605 تک حکومت کی۔ اس کے دربار میں نو رتنوں کی ایک جماعت تھی جو شہنشاہ کو مفید مشورے دیا کرتی تھی۔ اکبر نے متعدد جنگیں لڑیں اور اس کی حکومت مغل سلطنت کی سب سے بڑی حکومت تھی۔ اکبر کا27 اکتوبر 1605ء میں  انتقال ہوا اور سکندرہ میں اس کی تدفین عمل میں آئی۔ اکبر کا مقبرہ سکندرہ میں ہے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 15 March 2020

Be Takallufi by Kanahya Lal Kapoor - NCERT Solutions Class 10 Urdu

Be Takallufi by Kanhaiya Lal Kapoor  Jaan Pehchaan Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
بے تکلّفی
کنہیّا لال کپور

(Courtesy NCERT)
کہنے کو تو استاد ذوق ؔ فرما گئے ع
اے ذوق ؔ تکلّف میں ہے تکلیف سراسر
لیکن یہ غور نہ فرمایا کہ اگر تکلّف میں تکلیف ہے تو بے تکلّفی میں کون سی راحت ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ وہ تکلّف بھی جس کی معراج ”پہلے آپ ہے“ بے تکلّفی سے بدر جہا بہتر ہے۔ فرض کیجیے آپ جہنم کے دروازے پر کھڑے ہیں اور جہنم کا داروغہ آپ سے کہتا ہے تشریف لے چلیے‘ اور آپ مسکرا کر نہایت لجاجت سے عرض کرتے ہیں، ”جی پہلے آپ۔“ تو عین ممکن ہے کہ آپ کے حسنِ اخلاق سے مرعوب ہو کر آپ کو جہنم کی بجائے جنّت میں بھجوا دے۔ اس کے برعکس اگر آپ کی داروغه جنّت سے بےتکلّفی ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہنسی مذاق میں وہ آپ کو باغِ بہشت کی کسی نہر میں اتنے غوطے دلوائے کہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔
تکلّف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور ظاہر داری جوں کی توں قائم رہتی ہے۔ مثلاً آپ کے گھر کوئی صاحب تشریف لائے ہیں۔ آپ کہتے ہیں، ”کچھ منگواؤں آپ کے لیے؟“ وہ فرماتے ہیں ”اجی صاحب، تکلّف مت کیجیے۔“
”چائے پئیں گے؟‘‘
 ”شکریہ! ابھی پی ہے۔“
 ”سوڈا منگواؤں؟“ 
”نہیں صاحب، آپ تو خواہ مخواہ تکلّف کرتے ہیں ۔“
”شربت پیجیے گا۔ “
”واہ صاحب، آپ تو پھر تکلّفات پر اُتر آئے۔“
”ٹھنڈا پانی پیجیے۔“
 ”اچھا صاحب، اگر آپ اصرار کرتے ہیں، تو پی لیں گے ۔ “
اب اگر انہیں حضرت سے آپ کی بے تکلّفی ہو تو آپ کو کتنی زحمت اٹھانی پڑے۔
”کھانا کھائیں گے آپ؟“
 ”ہاں ہاں ضرور کھائیں گے ۔ لیکن کھانا کھانے سے پہلے چائے پئیں گے ۔“ 
”چائے منگواؤں؟“
 ” ضرور منگوائیے، لیکن پہلے سگریٹ پلائیے ۔ “
”چائے کے ساتھ کیا کھائیے گا ؟“
”اماں یار، تمھیں معلوم تو ہے۔ پاؤ بھر گاجر کا حلوہ ، دو آملیٹ، چارٹوسٹ چھ سمبو سے، دس بارہ کریم رول اور ہاں ایک آدھ کیک ہو جائے تو سبحان اللہ! لیکن جلدی کیجیے۔“
بے تکلّفی میں یوں تو ہزاروں قباحتیں ہیں، لیکن سب سے بڑی یہ کہ بسا اوقات اس کے طفیل آپ کو سخت خفّت اٹھانی پڑتی ہے۔ آپ چند معزّز اشخاص سے نہایت عالمانہ انداز میں کسی مسئلے پر گفتگو کر رہے ہیں کہ کوئی صاحب دروازے پر اس طرح دستک دیتے ہیں، گویا دروازہ توڑ کر ہی دم لیں گے۔ دو ایک منٹ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بلند آواز میں چلّا نا شروع کر دیتے ہیں ”ابے .................. کہاں ہے؟ دروازہ کھول ۔ ابے نا ہنجار سُنتا نہیں ۔ ہم کب سے چلّا رہے ہیں۔ ارے کوئی ہے ۔ سب مر گئے کیا ؟!“
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ آپ کے احباب پر نگاہِ غاط انداز ڈالتے ہیں اور نہایت متانت سے کہتے ہیں، ”معاف کیجیے گا صاحب ، میری ان سے ذرا بے تکلّفی ہے۔“
یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ دو بے تکلّف دوستوں کے درمیان کچھ اس طرح گِھر جاتے ہیں کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ۔ ان میں سے ایک دوسرے کو نہایت غلیظ گالی دیتا ہے اور آپ کی طرف عَفو طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے ” برا نہ مانیے گا۔“ دوسرا جواب میں اسی طرح کی گالی دیتے ہوئے کہتا ہے ”معاف کیجیے گا“ ہم بہت دنوں کے بعد ملے ہیں۔ اس معذرت کے بعد گالیوں کا وہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ آپ کو بے ساختہ اس بے تکلّفی کی داد دینا پڑتی ہے۔
ناولوں میں بے تکلّف دوستوں کی بڑی دلچسپ مثالیں ملتی ہیں تھیکرے ؔ  کے ایک کردار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ صاحب جس دوست کے پاس ٹھہر تے تھے رخصت ہوتے وقت اس سے ایک قمیض ضرور مستعار لیا کرتے تھے۔ ہمارے ایک دوست اس معاملے میں تھیکرے کے اس کردار سے بازی لے گئے ہیں۔ وہ صرف قمیض پر اکتفا نہیں کرتے۔ ساری پوشاک کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ عموماً ٹیکسی میں سوار ہو کر ہمارے یہاں تشریف لاتے ہیں اور کمرے میں داخل ہوتے ہی فرماتے ہیں۔ ”پانچ روپے کا ایک نوٹ نکا لیے۔ ڈرائیور کو دفع کر لوں ۔ پھر باتیں کریں گے۔“ یہ حضرت ہمیشہ ہماری عدم موجودگی میں واپسی کا کرم کرتے ہیں اور وداع ہوتے وقت نوکر سے کہہ جاتے ہیں” وہ آئیں تو انھیں کہہ دیجیے گا کہ میں ان کا گرم کوٹ، خاکی ٹائی اور کالی پتلون ساتھ لے جا رہا ہوں ۔ چند دن استعمال کر کے واپس کر دوں گا۔“
ہمارے ایک اور بے تکلّف دوست ہیں۔ وہ جہاں کہیں ہم سے ملتے ہیں ، مصافحہ کرنے کے بجائے بار بار بغلگیر ہو کر بے تکلّفی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایک بار انارکلی میں ملاقات ہوئی ۔ بازار کے بیچ انھوں نے یہ عمل جو دہرانا شروع کیا تو راہ گیر دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئے ۔ ہر دو منٹ کے بعد بغلگیر ہو کر کہتے ”بھئی خوب ملے ۔‘‘ یار، حد ہو گئی۔ وہ اس انداز سے مجھے اپنے بازوؤں کے شکنجے میں کس رہے تھے، گویا برسوں کے بعد ملے ہیں، حالانکہ اس ملاقات سے صرف دو دن پہلے مال روڈ پر ملے تھے اور وہاں بھی انھوں نے اسی قسم کی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔
بے تکلّف دوست کی تو وہی مثال ہے کہ اسے وبالِ جان سمجھتے ہوئے بھی آپ وبالِ جان نہیں کہہ سکتے ۔ اگر اس کے جی  میں آئے تو آدھی رات کو آپ کے گھر آ دھمکے اور نہ صرف لذیذ کھانے کا مطالبہ کرے، بلکہ کہے کہ ”سوئیں گے بھی یہیں اور سوئیں گے بھی آپ کے ساتھ ۔‘‘ دوپہر کے وقت آپ سو رہے ہوں تو قینچی لے کر ازراہِ مذاق آپ کی دونوں مونچھوں کا صفایا کر ڈالے۔ شدتِ درد سے آپ کراہ رہے ہوں تو بد تمیزی سے آپ کا منہ چڑانا شروع کر دے۔
بعض اوقات بے تکلّف احباب ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں کہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ’ہائے تکلّف! ہائے تکلّف !!‘ ایک دفعہ مجھے دہلی جانا تھا۔ گاڑی کے آنے میں دیر تھی۔ پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا۔ اتنے میں ایک دوست سے ملاقات ہوگئی۔ پوچھنے لگے’ کہاں جا رہے ہو؟‘ میں’ دہلی‘ کہنے لگے:” دہلی جا کر کیا کرو گے؟ چلو باٹا نگر لے چلیں‘‘ میں نے معذرت چاہی۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ یک لخت انہوں نے کہا ” ذراٹکٹ دیکھایئے تو“ میں نے ٹکٹ دکھایا۔ ٹکٹ لے کر انھوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور قلی سے کہنے لگے” صاحب کا سامان واپس لے چلو، انھوں نے دہلی جانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔“
انہیں صاحب نے ایک بار اس سے بھی عجیب حرکت کی ۔ ایک دن میں دریا کے کنارے کھڑا ہوا، غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ رہا تھا، نہ جانے آپ کہاں سے آ ٹپکے۔ آپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پیچھے سے مجھے اس زور سے دھکّا دیا کہ میں لڑکھڑاتا ہوا پانی میں جا گرا۔ آپ نہایت ڈھٹائی سے قہقہہ لگا کر فرمانے لگے” واہ خوب چھلانگ لگائی آپ نے!“ جب میں بڑی مشکل سے تیر کر کنارے کے قریب پہنچا تو ایک قہقہہ لگا کر کہنے لگے ”مجھے معلوم نہ تھا، آپ اتنے اچھے تیراک بھی ہیں ۔“
تکلّف کے خلاف آپ جو چاہیں کہیں لیکن آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تکلّف سراسر نفاست ہے۔ اور بے تکلّفی سراسر کثافت ۔ تکلّف ’’ پہلے آپ “ہے تو بے تکلّفی ’’ پہلے ہم اور جہنم میں جائیں آپ!‘‘۔ تکلّف گز بھر لمبا گھونگھٹ ہے تو بےتکلّفی گز بھر لمبی زبان ۔ تکلّف زیرِ لب مسکراہٹ ہے تو بے تکلّفی خندۂ بے باک۔
اب اگر اس پر بھی استاد ذوق فرمائیں کہ ” تکلّف میں سراسر تکلیف ہے تو ہم تو یہی کہیں گے ’’صاحب، آپ کو بے تکلّف دوستوں سے پالا ہی نہیں پڑا۔‘‘

خلاصہ:
ذوق نے اپنے ایک شعر میں تکلف کو تکلیف کا سبب قرار دیا ہے۔ مصنف کے نزدیک تکلف اگر تکلیف ہوتی ہے تو بے تکلفی سے بھی کوئی راحت نہیں ملتی۔ مصنف مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ فرض کیجیے آپ جہنم کے دروازے پر کھڑے ہیں اور جہنم کا داروغہ آپ سے اندر چلنے کے لیے کہتا ہے اور آپ نہایت انکسار سے پہلے آپ کہہ دیتے ہیں۔ تو عین ممکن ہے وہ خوش ہو کر آپ کو جہنم کے بجائے جنت بھجوادے۔ لیکن اگر آپ کی جنت کے داروغہ سے دوستی ہے تو وہ بے تکلفی میں باغ بہشت کی کسی نہر میں اتنے غوطے ولوائے کہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔ تکلف سے بغیر کچھ خرچ کیے ظاہرداری نبھا دی جاتی ہے۔ آپ کے گھر مہمان آتے ہیں تو آپ ان سے کچھ لینے کی فرمائش کرتے ہیں تھوڑے سے انکار کے بعد وہ اپنی رضا مندی ظاہر کرتے ہیں اور بدقسمتی سے کوئی بے تکلف دوست آجائے تو وہ آپ کی چائے کے بارے میں پوچھنے پر گاجر کے حلوے تک کی فرمائشی کر بیٹھے گا اور محض گاجر کے حلوے ہی پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ ناشتے کی ایک لمبی چوڑی فہرست پیش کردے گا۔ ہے کوئی بے تکلف دوست آجائے تو وہ آپ کی چائے کے بارے میں پوچھنے پر گاجر کے حلوے تک کی فرمائشی کر بیٹھے گا اور محض گاجر کے حلوے ہی پر اکتفانہیں کرے گا بلکہ ناشتے کی ایک لمبی چوڑی فہرست پیش کر دے گا۔ بے تکلفی میں یوں تو بہت ہی پریشانیاں ہیں لیکن کبھی کبھی اس کی وجہ سے شرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے فرض کیجیے آپ چند معزز اشخاص سے کسی اہم مسئلہ پر نہایت عالمانہ بحث کر رہے ہیں کہ آپ کے بے تکلف دوست بے تحاشا دروازہ کھکانے لگتے ہیں اور ساتھ ہی الٹے سیدھے کلمات سے بھی نواز نے لگتے ہیں اور جب آپ انھیں بادل ناخواسته اند از بلا لیں گے تو آپ کے دوستوں پر ایک نگاه غلط انداز سےڈال کر یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ دو بے تکلف دوستوں کے بیچ میں پھنس جاتے ہیں اور دونوں کی گالیوں کی بوچھار شروع ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنی جان بچانی مشکل ہو جاتی ہے۔ مصنف کے ایک بے تکلف دوست جب آتے تھے نہ صرف سواری کا کرایہ اس سے دلواتے تھے بلکہ رخصت ہوتے وقت ان کے ایک دو عدد سوٹ بھی لے جایا کرتے تھے۔ ایک دوسرے بے تکلف سڑک پر بے تحاشا بغل گیر ہو کر انھیں تماشا بنا دیا کرتے تھے۔ بے تکلف دوستوں کی بے تکلفی سے مصنف نے بہت نقصان اٹھائے ہیں ایک بے تکلف دوست نے انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ان کا ریل کا ٹکٹ ہی پھاڑ دیا۔ ایک دوسرے بے تکلف دوست نے انھیں دریا ہی میں دھکا دے دیا۔ اس کے بعد مصنف کہتا ہے کہ اگر آپ اس بات کے حامی ہیں کہ ۔ اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسرا تو ہم تو آپ سے یہی کہیں گے کہ صاحب آپ کا بے تکلف دوستو سے پالا ہی نہیں پڑا۔
کنھیّا لال کپور
(1910-1980)
کنھیا لال کپور لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انگریزی کے استاد مقرر ہو گئے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوستان آگئے اور گورنمنٹ کا لج موگا ( پنجاب) میں پرنسپل کے عہدے پر ملازم ہو گئے یہیں ان کا انتقال ہوا۔ طنز و مزاح ان کا خاص میدان ہے۔ پیروڈی لکھنے میں انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔ زندگی کے عام تجربوں سے مزاح پیدا کر لینا ان کی ایک خاص پہچان ہے۔
’نوک نشتر‘، ’بال و پر‘ ، ’نرم گرم‘، ’گرد کارواں‘ ،’ نازک خیالیاں‘، ’نئے شگوفے‘ ، ’سنگ و خشت‘، ’شیشه وتیشہ‘ اور ’کامریڈ شیخ چلّی‘  ان کی مشہور کتابیں ہیں۔


Be Takallufi by Kanahya Lal Kapoor  Jaan Pehchaan Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
مشق
معنی یاد کیجیے:
تکلّف : تکلیف اٹھا کر کوئی کام کرنا، بناوٹ ، ظاہرداری، دکھاوا
معراج : بلندی، اونچائی
شاہد : گواہ
راحت : آرام، آسائش
ناہنجار : بری چال چلنے والا
عفوطلب : معافی مانگنے والا
یک لخت : فوراً، اچانک
معذرت : عذر
مستعار : مانگا ہوا، ادھار لیا ہوا
اکتفا : کافی سمجھنا، کفایت کرنا
عدم موجودگی : غیر حاضری
کرم : عنایت، مهربانی
وداع : رخصت ، جدائی
غروب : سورج یا چاند کا ڈوبنا
نفاست : خوب ، عمدگی، لطافت
کثافت : غلاظت، گاڑھا پن


غور کیجیے:
ضرورت سے زیادہ تکّلف اور بے تکلّفی دونوں ہی پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں۔

سوچیے اور بتایئے:
 1. بے تکلفی سے کیا پریشانی ہوتی ہے؟
جواب: بے تکلفی سے کئی طرح کی پریشانیاں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ بے تکلف دوست ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ آپ دوسروں کے سامنے پانی پانی ہوجائیں،  دوسرے بے تکلف دوستوں کی فرمائشیں اللہ کی پناہ۔

2. تھیکرے ؔ نے اپنے ایک کردار کی بے تکلفی کا ذ کر کس طرح کیا ہے؟
جواب: تھیکرے ؔ نے اپنے دوست کا تذکرہ کیا ہے  جس کی عادت یہ تھی کہ  وہ اپنے جس دوست کے گھرٹھہرتا چلتے وقت اس سے ایک قمیض ضرور مستعار  لے جاتا۔

 3. ”اے ذوق ؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر“ اس مصرعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: اس مصرعے میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ اے ذوق تکلف میں سراسر تکلیف ہے اس لیے ہمیں تکلف سے بچنا چاہیے۔ اس مضمون میں انشائیہ نگار نے تکلّف سے ہونے والی تکلیفوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
ہینگ لگے نہ پھٹکری : ہینگ لگے نہ پھٹکری لیکن رنگ چوکھا آئے۔
چھٹی کا دودھ یاد آنا : پہلوان نے ایک ہی پٹخنی میں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔
دانتوں میں انگلیاں دبانا : حضرت یوسف کا حسن دیکھ کر خادماؤں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔
نیچے دیئے ہوئے لفظوں سے واحد، جمع بنایئے:
ہاتھ : ہاتھوں
نشانات : نشان
جوتی : جوتیاں
ٹوپیاں : ٹوپی
فرض : فرائض
احسانات : احسان
سوال : سوالات
جنگل : جنگلات
جوابات : جواب
منزل : منازل
درج ذیل جملوں کو غور سے پڑھیں:

 اکبر نے ایک کہانی پڑھی۔
 حمید کھانا کھا رہا ہے۔
  میں کل جے پور جاؤں گا۔

ان جملوں میں” پڑھی“، ”کھا رہا ہے“ اور ”جاؤں گا“ سے کام کرنے کا وقت معلوم ہوتا ہے۔ پہلے جملے میں کہانی پڑھنے کا کام گزرے ہوئے وقت میں ہوا، اس زمانے کو ماضی کہتے ہیں ۔ دوسرے جملے میں کھانے کا کام موجودہ وقت میں ہورہا ہے۔ اس زمانے کو حال کہتے ہیں۔ تیسرے جملے میں جے پور جانے کا کام آنے والے وقت میں ہوگا۔ یہ زمانہ مستقبل کہلاتا ہے۔

عملی کام
 * اس سبق کے جن جملوں پر آپ کو ہنسی آتی ہو انھیں اپنی کاپی میں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 23 February 2020

Exam-Faiz Ludhianvi

امتحان (جنوری ۱۹۳۱ میں لکھی ہوئی ایک پرانی نظم)

فیض لدھیانوی

!ہے امتحان سر پر اے ہونہار بچّو

!کوشش کرو ذرا تم مردانہ وار بچّو اچھی نہیں ہے غفلت کب تک رہو گے غافل !کس بات کا ہے تم کو اب انتظار بچّو یہ وقت قیمتی ہےکچھ کام کر دکھاؤ !موقع نہیں ملے گا پھر بار بار بچّو وہ کون سی ہے مشکل ہوتی نہیں جو آساں !ہمت کرو تو پل میں بیڑا ہو پیار بچّو جو شوق سے کرے گا اپنی کمی کو پورا !ہوگا اسی کے دل کو حاصل قرار بچّو جاتی نہیں کسی کی محنت کبھی اکارت !کر دے گا پاس تم کوپروردگار بچّو خوش ہوں گے تم سے اس دن استاد بھی تمہارے !ماں باپ بھی کریں گے جی بھر کے پیار بچّو اس علم کی بدولت پہنچے گا فیض تم کو
!لُوٹو گے زندگی کی آخر بہار بچّو


خوش خبری