آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 13 April 2020

Masnavi - Meer Ghulam Hasan - NCERT Solutions Class IX Urdu

داستان شہزادے کے غائب ہونے کی اورغم
سے ماں باپ اور سب کے حالت تباہ کرنے کی

یہاں کا تو قصّہ میں چھوڑا یہاں
ذرا اب سنو غم زدوں کا بیاں
کروں حال ہجراں زدوں کا رقم
کہ گزرا جدائی سے کیا ان پہ غم
کھلی آنکھ جو ایک کی واں کہیں
تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نہیں
نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو 
رہی دیکھ یہ حال حیران کار
کہ یہ کیا ہوا ہائے پروردگار 
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی بلبلاتی سی پھرنے لگی
کوئی ضعف ہو ہو کے گرنےلگی 
کوئی سر پر رکھ ہاتھ، دل گیر ہو
گئی بیٹھ، ماتم کی تصویر ہو
کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس، آسا کھڑی کی کھڑی 
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا: گھر ہوا یہ خراب
کسی نے دیے کھول سنبل سے بال
تپانچوں سے جوں گل کیے سرخ گال
نہ بن آئی کچھ ان کو اس کے سوا
کہ کہیے یہ احوال اب شہہ سے جا
سنی شہ نے القصّہ جب یہ خبر
گرا خاک پر کہہ کے: ہائے پسر! 
کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بِکس رہ گئی
کہا شہ نے : وهاں کا مجھے دو پتا
عزیزو! جہاں سے وہ یوسف گیا 
گئے لے ووشہ کو لبِ بام پر
دکھایا کہ سوتا تھا یہاں سیم بر 
یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا
کہا: ہائے بیٹا ، تو یہاں سے گیا؟ 
مرے نوجواں ! میں کدھر جاؤں پیر
نظر تونے مجھ پر نہ کی بے نظیر! 
عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں
غرض جان سے تو نے کھویا ہمیں
کروں اس قیامت کا کیا میں بیاں
ترقی میں ہردم تھا شور وفغاں
لبِ بام کثرت جو یک سر ہوئی
تلے کی زمیں ساری، اوپر ہوئی
شب آدھی، وہ جس طرح سوتے کٹی
رہی تھی جو باقی، سو روتے کٹی
مثنوی
مثنوی مسلسل اشعار کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر شعر کے قافیے الگ الگ ہوتے ہیں۔
مثنوی کے اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ اردو میں طویل اورمختصر دونوں طرح کی مثنویاں لکھی گئی ہیں ۔ طویل مثنویوں میں میرحسن کا سحرالبیان اور دیاشنکرنسیم کی  گلزار نسیم بہت مشہور ہیں۔
مثنوی میں رزم و بزم حسن وعشق، پندونصیحت، مدح وجو ہر طرح کے موضوعات نظم کیے جا سکتے ہیں ۔ قدیم مثنویوں میں زیادہ تر عشقیہ تھے اور مذہبی و اخلاقی مضامین نظم کیے گئے ہیں ۔ ان عشقيہ قصّوں میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو نثری داستانوں میں ملتی ہیں ۔ فوق فطری عناصر کے علاوہ مثنویوں میں اس زمانے کی تہذیب و معاشرت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ۔ حالی اور آزاد کے زمانے سے مثنویوں کے اسلوب اور موضوعات میں نمایاں فرق آیا ہے۔ اس کے بعد اس میں مختلف موضوعات و مسائل نظم کیے جانے لگے۔
میر غلام حسن،حسن
(1738ء - 1786ء)
میرحسن کے خاندان کے لوگ ایران سے آ کر دلّی میں بس گئے تھے۔ اس خاندان نے اردو زبان وادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اچھے شاعر تھے۔ ان کے بیٹے میرخلیق اور ان کے پوتے میر انیس نے اردو شاعری میں مرثیہ گوئی کی نئی راہیں نکالیں۔
امیرحسن کچھ دنوں تک میر درد کے شاگردر ہے۔ جب دلی سے بہت سے لوگوں کا تعلق ٹوٹا تو میر حسن کے والد بھی فیض آباد چلے گئے۔ وہاں سے لکھنو پہنچے اور وہیں انتقال کیا۔ میر حسن نے غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار ان کی مثنوی سحر البیان پر ہے۔ یہ مثنوی میر حسن نے انتقال سے کچھ ہی پہل مکمل کی تھی ۔ ”سحرالبیان‘‘ کی شہرت اور مقبولیت کے سامنے دوسرے بہت سے شعرا کی مثنویاں اور خود میرحسن کی دوسری مثنویاں ماند پڑ گئیں۔
منظر نگاری، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کو دلچسپ اور متحرک شکل میں پیش کرنے اور کہانی کو مربوط طریقے سے بیان کرنے میں میر حسن کو خاص مہارت حاصل تھی۔ ان کی مثنوی مختلف اشیا اور مظاہر کے ذکر سے بھری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثنوی کی کہانی اگر چہ بالکل خیالی ہے لیکن اس کے واقعات اور کردار جیتے جاگتے اور ہماری دنیا کے باسی معلوم ہوتے ہیں۔

لفظ و معنی
ہجراں زده : جدائی کا مارا ہوا
رقم : تحریر (اس کے معنی روپیہ پیسہ کے بھی ہوتے ہیں)
ماہرو : چاند جیسے چہرے والا
جا : جگہ
ضعف : کمزوری
دل گیر : مغموم ، رنجیده غمگین ، دل گرفته
زنخداں : تھوڑی
سنبل : ایک قسم کی خوشبودار بیل
پسر : بیٹا
بِکس : مرجھانا
بام : بالا خانہ کوٹھا
سیم بر : چاندی جیسے بدن والا
پیر : بوڑھا
شور و فغاں : بلند آواز سے رونا

غور کرنے کی بات
* میرحسن کی یہ مثنوی تقریباً دو سو سال پرانی ہے۔ اس کی خوبی اس کی سادگی اور جادو بیانی ہے اسی لیے اس کا نام سحرالبیان رکھا گیا ہے۔ اس مثنوی میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ہے جس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بہت منتوں مرادوں کے بعد اس کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو بہت ہی خوب صورت تھا اس لیے اس کا نام بے نظیر رکھا گیا۔ نجومیوں کے کہنے کے مطابق شہزادے کے لیے بارہ سال خطرناک تھے اس لیے اسے کھلے آسمان کے نیچے نہیں جانا تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بارہ سال پورے ہونے سے چند گھڑیاں پہلے شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھت پر جا کر سو گیا اور ایک پری اس کی خوب صورتی کی وجہ سے اس پر عاشق ہوگئی اور اسے اڑا کر لے گئی ۔ آپ کے نصاب میں اس سے آگے کا اقتباس شامل ہے جس میں شہزادے کے غائب ہونے کے بعد محل کے اندر جو آہ و فغاں کا طوفان اٹھا اس کی عکاسی بہت پر اثر انداز میں کی گئی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. ’ماہ رو‘ اور ’گل رو‘ کے الفاظ کس کے لیے اور کس شعر میں استعمال ہوئے ہیں؟
جواب: اس مثنوی میں ماہ رو اور گل رو کے الفاظ شہزادہ بے نظیر کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔پلنگ اور شہزادے کے غائب ہوجانے کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے:
 نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو 
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو 
یہاں ماہ رو اور گل دونوں ہی بطور تشبیہ شہزادے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔
عملی کام
*  استاد کی مدد سے شعروں کی بلند خوانی کیجیے۔

* نیچے دیئے گئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
کچھ بن نہ آنا : شہزادے کے اچانک غائب ہوجانے سے کسی سے کچھ بھی نہ بن آیا۔
دانتوں میں انگلی دبانا : شہزادے کی پلنگ خالی دیکھ کر کنیزوں نے دانتوں میں انگلیاں دبالیں۔
کھڑی کی کھڑی رہ جانا : اچاک صدمہ سے کنیزیں وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔

* مثنوی کے کس شعر میں کون تھی تلمیح استعمال کی گئی ہے لکھیے ۔
*  اس مثنوی کے ایسے شعروں کی نشان دہی کیے جن میں صنعت تشبیہ ہو بھی لکھیے کہ کسی چیز کوکس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

1 comment:

  1. Thank you so much and please solve the remaining questions

    ReplyDelete

خوش خبری