آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 29 August 2020

Tazkira Imam Aali Muqam Hazrat Imam Hussain رضی اللہ تعلیٰ عنہ

امام باڑہ چھوٹی درگاہ ،حضرت دیورہ۔ بشکریہ ضو فشاں فاطمہ

محرم الحرام مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مہینہ ہے جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس ماہ کے دیگر فضائل کے ساتھ عظیم شہادت کا ایک ایسا واقعہ وابستہ ہے جس نے عالم اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوگوار کردیا ہے۔ اس مہینہ کے آغاز کے ۱۰ دنوں میں امام عالی مقام کےفضائل اور اُن کی شہادت کا بیان زور و شور سے ہوتا ہے۔ اوردنیاغم میں ڈوب جاتی ہے۔ خواہش تھی کہ آسان زبان میں حضرت امام حسین ؓ کی سیرت بچّوں کے سامنے پیش کی جائے جن کی شہادت کا واقعہ وہ بچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں حضرت الحاج  علامہ محمد حسام الدین صاحب مدظلہ کا ایک رسالہ ”تذکرہ حسین“ نظر سے گزراجس میں جگر گوشہ رسول الثقلینؐ سیدنا امام حسینؓ کی مبارک زندگی کے حالات،اخلاق و فضائل و واقعۂ شہادت کو بیان کیا گیا ہے ۔عقیدت و محبت میں ڈوبی اس تحریر نے حد درجہ متاثر کیا۔ یہ تحریر گرچہ بحق مصنف محفوظ تھی لیکن صرف اس وجہ سے اسے آپ تک نہ پہچانا نا گزیر تھا لہٰذا آئینہ حضرت مولانا سے معافی کی درخواست کے ساتھ اس عقیدت بھری تحریر کو آپ تک پہنچانے کی جسارت کر رہا ہے۔ 

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

از: حضرت الحاج علامہ محمد حسام الدین صاحب مدظلہ

نام ،نسب،ولادت 

 حسینؓ ؓ نام۔ ابو عبداللہ کنیت۔ سید و شہید لقب آپ کے والد علی مرتضیٰؓ اور والدہ ماجدہ  سیدہ بتول  فاطمہ زہرہ جگر گوشئہ رسول تھیں۔ اس لحاظ سے آپ کی ذاتِ گرامی دوہرے شرف کی حامل تھی-

علی کا لخت جگر فاطمہ کا نور العین

دُر یگانہ   ویکتائے  مجمع   البحرین

      آپ ہجرت کے چوتھے سال شعبان کی چوتھی تاریخ منگل کے روز مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت با سعادت کی خبر سنکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمانےلگے ”بچے کو دیکھاؤ“ پھر نو مولود صاحبزادے کو گود میں لے کر کانوں میں اذان دی، اس طرح گویا پہلی مرتبہ خود زبان وحی و الہام نے اس مبارک بچے کے کانوں میں توحید الٰہی کا صور پھونکا در حقیقت اسی صور کا اثر تھا کہ۔۔۔

سرداد نداد دست در دست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ 

     والدین نے حرب نام رکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر حسینؓ ؓ رکھا۔ حسن و جمال میں آپ سینے سے پاؤں تک حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ چہرہ مبارک ایسا تاباں تھا کہ لوگ اس کی روشنی میں راہ چلتے تھے ۔  

فضائل 

امام ہمام کی ذاتِ گرامی مجمع الفضا ئل تھی ۔ علم و عمل، زہد تقویٰ ،جود و سخا ،شجاعت و فتوت، اخلاق و مروت ، صبر و شکر، حلم و حیا غرض ہر فضیلت میں آپ کو کمال حاصل تھا۔

       آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی محبت و شفقت آپ کی کتاب فضیلت کا نہایت جلی عنوان ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

 ( ا )اہل بیت میں مجھکو حسنؓ و حسینؓ ؓ سب سے زیادہ محبوب ہیں 

(۲)  خدا یا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں، اس لئے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کے محبوب رکھنے والوں کو بھی محبوب رکھ

(۳) حسن ؓوحسینؓ  ؓمیرے جنت کے دو پھول ہیں 

(۴) حسنؓ و حسینؓ  ؓنوجوانان جنت کے سردار ہیں

(۵) حسینؓ ؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ ؓ سے ہوں، جو شخص حسینؓ  کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے۔ 

عراق کے رہنے والوں میں ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مسٔلہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مچھر کو مار ڈالے اس کا کیا کفارہ ہے۔ حضرت عبداللہ نے کہا اہل عراق پر افسوس ہے مچھر کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں اور رسول خدا کے نواسے حسینؓ  کو قتل کر دیا ہے حالانکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ حسن وحسینؓ  دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

       ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے امام حسن کو سیدھے کاندھے اور امام حسینؓ  کو بائیں پر بیٹھا لیا تھا حضرت یعلی بن مرّہ رضی اللہ عنہ نے کہا صاحب زادے تمہاری سواری کتنی بہتر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں سوار بھی بہتر ہیں اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں۔

       حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم امام حسینؓ  کا ہاتھ لے کر فرماتے کہ اے  نور نظر سوار ہو، پس حسینؓ  اپنے پاؤں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پائے مبارک پر رکھ دیتے پھر حضورؐ آپ کو اٹھا کر اپنے سینہ مبارک پر بیٹھا لیتے  اور فرماتے خداوند امیں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی دوست رکھ۔

صحابہ کرام ؓ کا امام کی تعظیم کر نا

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں امام حسینؓ  کی عمر  ۷ ، ۸ سال سے زیادہ نہ تھی تاہم نبیرہ رسول کی حیثیت سے آپؐ حضرت حسینؓ  کو بہت مانتے تھے اور فرمایا کرتے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اہلبیت کی تعظیم کر و۔

       حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسن و امام حسینؓ  پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے اور ان کی فضیلت و استحقاق اعلیٰ کو کسی طرح کم نہیں ہونے دیتے چنانچہ جب بدری صحابہ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظیفہ مقرر کیا تو حضرت حسینؓ  کا محض قرابت رسول کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر کیا۔

       ایک دفعہ یمن سے چادریں آئیں۔ حضرت عمر نے تمام صحابہ میں تقسیم کر دیں ۔چادریں بڑی تھیں اور ان میں سے کوئی حضرت امام حسن و حضرت امام حسینؓ  کے لائق نہ تھیں۔ حضرت عمر قبر اور منبر نبویؐ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ لوگ ان چادروں کو پہن پہن کر شکریہ کے طور پر آکر سلام کر تے تھے ۔آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ مجھے تمہیں چادریں پہنا کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہو رہی کیونکہ ان دونوں صاحبزادوں کے جسم ان چادروں سے خالی ہیں۔ اس کے بعد فوراً حاکم یمن کو حکم بھیجا کہ جلد سے جلد حسینؓ  کے اندازہ کے موافق چادریں بنوا کر بھیجیں ۔چنانچہ وہ چادریں آئیں اور امام حسن و امام حسینؓ  نے پہنیں تو حضرت عمر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ جب تک یہ چادریں ان پر نہ دیکھیں طبیعت خوش نہ ہوئی۔

       حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو اپنے صاحب زادے عبد اللہ سے بھی زیادہ مانتے تھے حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں سے عمر میں زیادہ اور ذاتی فضل وکمال میں صحابہ کے پاس مسلم تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ امام حسن و امام حسینؓ  کو اکثر اپنے پاس آنے کے واسطے کہا کرتے تھے کسی روز نہ دیکھتے تو پوچھتے آج آپ کیوں نہیں دکھائی دئیے۔

       ایک مرتبہ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دیکھاکہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اندر نہیں بلایا ہے اس لئے وہ دروازہ پر کھڑے ہیں۔ حسینؓ  رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور بغیر ملے ہوئے ان ہی کے ساتھ واپس چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آدمی بھیج کر آپ کو بلایا اور پوچھا آپ واپس کیوں لوٹ گئے؟ انہوں نے جواب دیا امیر المومنین میں حاضر ہوا تھا اور دیکھا کہ آپ کے صاحبزادہ کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ تھی اس لیے میں عبداللہ کے ساتھ کھڑا رہا پھر انہیں کے ساتھ واپس آ گیا ۔حضرت عمر نے فرمایا آپ کو ان کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی میرے پاس آنے کی اجازت حاصل کرنے کے آپ ابن عمر سے زیادہ حقدار تھے۔ ہماری بزرگی تو خدا کے بعد آپ ہی سے ہے۔

       ایک دن مال غنیمت تقسیم کر نے لگے تو امام حسن سے شروع کیا اور ان کو ہزار درہم دیئے اور پھر امام حسینؓ  کو ہزار درہم دیے جب اپنے بیٹے عبداللہ کی باری آئی تو پانسو درہم ان کو دیے ۔انہوں نے کہا امیر المومنین میں قوی آدمی ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار ماری ہے اور امام حسن و امام حسینؓ  تو اس وقت بچے تھے جو مدینہ کی گلیوں میں کھیلتے پھر تے تھے۔ ان کو ہزار ہزار درہم دیا گیا اور مجھکو پانسو یہ میرے حق سے کم ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جوش میں آ ئے اور فرما نے لگے جا تو بھی ان کے باپ جیسا باپ، ان کی ماں جیسی ماں، ان کے نانا جیسے نانا، ان کی نانی جیسی نانی ، ان کے چچا جیسے چچا ان کے ماموں جیسا ماموں، ان کی خالہ جیسی خالہ، لے آ جس کو تو نہیں لا سکے گا تجھے معلوم نہیں ان کا باپ علی مرتضیٰ،ماں فاطمتہ الزہرہ ،نانا محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،نانی خدیجہ الکبریٰ ، چچا جعفر طیار ، ماموں ابرہیم  ا بن رسول اللہ رضی اللہ عنہ ، خالہ ابن کلثوم  اور رقیہ رسول اللہ کی بیٹیاں ہیں ، عبداللہ ابنِ عمر یہ سن کر خاموش ہوگئے۔

       حضرت عمر وابن العاص ایک دن کعبہ شریف کے سایہ میں بیٹھے ہوئےتھے دیکھا کہ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ تشریف لارہے ہیں حضرت عمر و ابن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شخص(یعنی حسینؓ  رضی اللہ عنہ) آسمان والوں کے پاس تمام زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

       حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کے نعلین مبارک سے خاک صاف کر تے۔ امام منع فر ما تےتو کہتے کی خدا کی قسم جو کچھ میں جانتا ہوں لو گوں کو معلوم ہو جائے تو آپ کو اپنی گردنوں پر سوار کر لیں گے۔

       حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کے تعلقات ہمیشہ نہایت خوش گوار رہے۔ امیر معاویہ رضہ کے زمانے کی لڑائیوں میں حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ برابر شریک ہوتے تھے چنانچہ سن ۴۹ میں قسطنطنیہ کی مشہور مہم میں مجاہدانہ شرکت کی تھی۔

       حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کے وقت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کے لئیے جو رقم مقرر کر وائی تھی امیر معاویہ برابر آپ کو بھیجتے تھے بلکہ اس رقم کے علاوہ بھی مسلو ک ہو تے رہتے تھے۔

       اپنی وفات کے وقت امیر معاویہ نے حضرت حسینؓ  کے بارے میں یزید کو ان الفاظ میں وصیت کی تھی کہ” عراق والے حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو تمہارے مقابلہ میں لا کر چھوڑیں گے لیکن جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو در گزر سے کام لینا کیونکہ وہ قربتدار ہیں۔ ان کا بڑا حق ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عزیز ہیں۔

عبادت

 حضرت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو تمام عبادات خصوصاً نماز سے بڑا شوق تھا۔ نماز کی تعلیم بچپن میں خود صاحب شریعت علیہ الصلواۃ والتسلیم سے حاصل کی تھی ۔اسی کا اثر تھا کے شب وروز میں ایک ایک ہزار نوافل ادا فرماتے تھے۔  روزے بھی کثرت سے رکھتے۔حج بھی بکثرت کرتے تھے چنانچہ آپ نے ۲۵ حج پاپیادہ ادا کیے۔

جودو سخا

 مالی اعتبار سے آپ کو خدا نے جیسے فارغ البالی عطا فرمائی تھی ۔ویسی ہی آپ اس کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے۔ کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے ناکام واپس نہ ہو تا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل دردولت پر حاضر ہوا اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی صدا سن کر جلدی جلدی نماز ختم کر کے باہر نکلے اور خادم قنبر سے پوچھا کیا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ قنبر نے جواب دیا کہ آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کر نے کے لئے دیئے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں ۔فرمایا اس کو لے آؤ اہل بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت دو سو کی تھیلی منگوا کر سائل کے حوالے کر دی اور معذرت کی کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے اس لئے اس سے زیادہ خدمت نہیں کر سکتے۔

   ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص دس ہزار درہم کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے۔ آپ مکان تشریف لائے اور دس ہزار درہم غلام کے ہاتھ سائل کے پاس بھجوا دیے۔ ایک اور موقع پر پچاس ہزار درہم ایک سائل کو عطا فرمائے۔

تواضع

 آپ حد درجہ متواضع اور منکسرالمزاج تھے اور ادنیٰ ادنیٰ اشخاص سے بےتکلف ملتے۔ ایک مرتبہ کسی طرف جا رہے تھے راستے میں کچھ فقیر کھا نا کھا رہے تھے۔ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر انہیں بھی مدعو کیا۔ ان کی درخواست پر آپ فوراً سواری سے اتر پڑے اور کھانے میں شرکت کر کے فرمایا تکبر کرنے والوں کو خدا دوست نہیں رکھتا۔

 عفو وکرم 

  ایک مرتبہ آپ اپنے مہمانوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ کا غلام گرم گرم آش کا پیالہ دسترخوان پر رکھنے کے لیے لایا ۔اتفاقاً اس کے ہاتھ سے امام کے سر پر گر گیا اور تمام آش چہر ۂِ مبارک پر بہہ گئی۔ امام رضی اللہ عنہ نے غلام کی طرف نظر کی تو اس نے کہا ” والکاظمین الغیظ “ وہ یعنی متقی لوگ غصے کو ضبط کر نے والے ہو تے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کر لیا، غلام نے کہا” والعافین عن الناس“ وہ لوگوں کے قصور معاف کر نے والے ہو تے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں نے تیرا قصور معاف کر دیا ۔ غلام نے آیتہ کا تتمہ پڑھ دیا”و اللہ یحب المحسنین “اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ آپ نے اسی وقت غلام کو آزاد کر دیا اور انعام بھی عطا کیا۔

ذریعہ معاش

  حضرت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ مالی حیثیت سے ہمشہ فارغ البال رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی ملتا رہا ۔اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبردار ی کے وقت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے لئے دو لاکھ سالانہ مقرر کر ا دیئے تھے۔ غرض اس حیثیت سے آپ کی زندگی مطمئن تھی ۔

 ایثار و حق پرستی 

 آپ کی کتاب فضائل اخلاق کا نہایت جلی عنوان ہے اس کی مثال کے لئے تنہا واقعہ شہادت کافی ہے کہ حق کی راہ میں سارا کنبہ تہ تیغِ کرا دیا لیکن ظالم حکومت کے مقابلہ میں سپر نہ ڈالی۔ 

واقعۂ شہادت

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری