آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 12 October 2020

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale by Ibrahim Zauq - Nawa e Urdu Class 10

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے 
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے

تشریح:
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے شیخ محمد ابراہیم ذوق کی مشہور غزل ہے جس میں شاعر نے زندگی کی حقیقت کا ذکر بیان کیا ہے۔ اس غزل میں شاعر نے بتایا ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
 شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ایک بے وفا جگہ ہے اور اس سے دل لگانا اچھا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا سے دل لگائے بغیر کام بھی نہیں چلتا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے دل لگانے کے لیے مجبور ہے۔
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
 شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے بدقمار یعنی ناکام جواری شاید ہی ہوں گے جس نے جو بھی چال چلی ہمیشہ ہی اُلٹی چلی۔ یہاں شاعر اپنی ناکامیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ دنیا اُسے ایک بساط کی طرح نظر آتی ہے جہاں ہرشخص اپنی چالیں چل رہا ہے۔ شاعر کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا ناکام کھلاڑی ہے جس کا کوئی بھی حربہ کوئی بھی چال کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے 
 شاعر کہتا ہے کہ اُس کی عمر اگر حضرت خضر علیہ السلام کی طرح بھی ہو تب بھی ہر انسان یہی کہتا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔ یعنی شاعر حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اتنی طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے
اس شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ اپنی ہوشیاری اور عقلمندی پر ناز کرنا فضول ہے۔ ہمیں اپنی عقلمندی پر ناز نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہاں تمہاری سوجھ بوجھ، ہوشیاری یا عقلمندی کچھ کام آنے والی ہے نہ میری۔ اس دنیا میں تو وہی چلے گا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت کس نے کسی کا ساتھ دیاہے۔ یہ دنیا ایک سرائے فانی ہے اور ہر کسی کو جانا ہے۔ یہ زندگی جب تک ہے تم بھی اسے جیے جاؤ۔ جب موت آئے گی تو کوئی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ اس لیے جب تک زندہ ہو اس کا لطف اٹھاؤ۔
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے
مقطع میں ذوق کہتے ہیں کہ وہ اب شوق کی ہواؤں پر سوار ہوکر اس چمن سے رخصت ہورہے ہیں یعنی اپنی خواہشات کے ساتھ دنیا سے جا رہے ہیں اب یہاں ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو چلیں اُس کا اُسے اب کوئی انتظار نہیں اور اب وہ اس چمن سے جانے کے لیے تیار ہے۔  
 ذوق کی یہ غزل پوری طرح انسان کی بے بساعتی کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا میں انسان محض ایک کھلاڑی ہے جو دوسروں کی انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے اور کہیں بھی اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق
(1854 - 1789)
شیخ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ذوق نے ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول سے حاصل کی۔ اسی زمانے میں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور اپنے وقت کے مستند استاد شاہ نصیر کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔ رفتہ رفتہ مشق سخن اور اپنی ذہانت کے باعث وہ بہت کم عمری میں استادی کے مرتبے کو پہنچ گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کی استادی کا فخر بھی حاصل ہوا اور خاقانی ہند اور ملک الشعرا کے خطابات سے سرفراز کیے گئے ۔ بادشاہ کی سر پرستی میں ذوق کی زندگی آرام و آسائش سے بسر ہوئی ۔ ذوق کو موسیقی اور علمِ نجوم سے کافی دلچسپی تھی عربی و فارسی اور دیگر مشرقی علوم کے عالم تھے۔ لیکن ان کا اصل کمال ان کی شاعری سے ظاہر ہوا ۔ شاعری ان کی معاش کا ذریعہ بنی اور  یہی فن ان کی قدر و قیمت کا وسیلہ بھی ثابت ہوا۔ 
ذوق نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ، قصیدہ ان کا اصل میدان ہے۔ اس صنف میں صرف سودا ان سے آگے ہیں ۔ انھوں نے اپنے قصیدوں میں شوکت الفاظ، بلند خیالی اور معنی آفرینی کے ساتھ مختلف علوم کی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے۔ غزل گوئی میں بھی ذوق کا ایک خاص مقام ہے۔ زبان پر قدرت ، بیان کی سلاست، روز مرہ اور محاورے پر اپنی گرفت کے لحاظ سے وہ ممتاز ہیں ۔
مزید:
بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’ملک الشعراء‘ اور ’خاقانی ہند‘ کے خطابات دیے۔ ذوق نے کئی اصناف میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی اصل پہچان قصیدہ نگار کی ہے بالخصوص بہادر شاہ ظفر پر لکھے ہوئے قصائد کا مرتبہ بلند ہے۔ لیکن وہ غزل کے بھی ایک قابل ذکر شاعر ہیں۔ذوق دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔وہ ایک سپاہی کے بیٹے تھے۔
ذوق نے اپنے کلام میں نیا پن پیدا کرنے اور زبان اور محاورے کی صفائی پر خاص توجہ دی ہے۔
غزل
عام طور پر غزل سے شاعری کی وہ صنف مراد لی جاتی ہے جس میں عورتوں سے  یا محبوب سے باتیں کی گئی ہوں ، گویا کہ بنیادی طور پر غزل کی شاعری عشقیہ شاعری ہے ۔ عاشقانہ مضامین اور غنائیت غزل کی خاص پہچان ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ غزل میں دوسرے مضامین بھی داخل ہوتے گئے ۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزل میں تقریباً ہر طرح کے مضامین بیان کیے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
غزل آج بھی اردو کی سب سے زیادہ مقبول صنف سخن ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنے مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے ۔ اسی لیے سب سے زیادہ یاد رہ جانے والے اشعار بھی غزل کے ہی ہوتے ہیں۔ 
جس طرح غزل میں مضامین کی قید نہیں ہے اسی طرح اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں ہے۔ غزل میں عام طور پر پانچ یا سات شعر ہوتے ہیں لیکن کئی غزلوں میں زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں کبھی کبھی ایک ہی بحر اور ردیف و قافیہ میں شاعر ایک سے زیادہ غزلیں کہہ دیتا ہے۔ اس کو دو غزلہ ،سہ غزلہ اور چہار غزلہ کہا جاتا ہے۔ 
 غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے۔ غزل میں ایک سے زیادہ مطلعے بھی ہو سکتے ہیں۔ غزل بغیر مطلع کے بھی سکتی ہے۔ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اس شعرکو مقطع کہتے ہیں کبھی کبھی مطلع میں یا غزل کے درمیان بھی کسی شعر میں شاعر اپنا نام استعمال کر لیتا ہے لیکن ایسے شعر و مقطع نہیں کہیں گے مثال کے طور پر
میر تقی میر کا مطلع
پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی 
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
 غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاه بیت کہلاتا ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو اور شعر قافیے پر ہی ختم ہو جاتے ہوں اس غزل کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔
معنی یاد کیجیے: 
حیات : زندگی
قضا : موت، حکمِ خدا
عمر خضر : مرادلمبی عمر
بوقتِ مرگ : موت کے وقت
فغاں : آہ و زاری، واویلا
بادِ صبا : صبح کی ٹھنڈی ہوا، پُروائی
بساط : وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
بدقمار : ناکام جواری
نازاں ہونا : ناز کرنا، فخر کرنا
خرد : عقل
دانش : سمجھ بوجھ
دانش وری : ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا

غور کیجیے:
٭دوسرے شعر میں ”دل لگے“ اور ”دل لگی“ نے شعر میں بیان کا حسن پیدا کردیا ہے۔
٭کلام میں جب کسی تاریخی واقعے یہ کیسی شخصیت کا ذکر ہوتا ہے تو اُسے صنعت تلمیح کہتے ہیں یہاں حضرت خضر کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت خضر اپنی لمبی عمر کے لیے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے اور بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے رہیں گے۔



سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ اس غزل کے مطلع کا مطلب لکھیے۔
جواب:غزل کا مطلع-
  ”لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے“
غزل کے مطلع  میں شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔

2۔ عمر خضر سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:عمرخضر سے مراد لمبی عمر ہے۔ شاعر حضرت خضر کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

3۔ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے‘‘ اس مصرعے کے ذریعے شاعر نے انسانی زندگی کے کس پہلو کی نشاندہی کی ہے؟
جواب:طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔

4 ۔ غزل کے مقطع میں چمن سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:  چمن سےشاعر کی مراد دنیا اور اس کا اپنا وطن  ہے جہاں اسے صرف تکلیف ہی تکلیف اٹھانی پڑی ہے۔  وہ کہتا ہے کہ اب ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو چلیں اُس کا اُسے اب کوئی انتظار نہیں اور اب وہ اس چمن سے جانے کے لیے تیار ہے۔                                                                                                   

عملی کام:
اس غزل کے کچھ شعر زبانی یاد کیجیے اور بلند آواز سے پڑھیے۔
اس نظم میں شاعر نے طویل عمر کے لیے تلمیح کے طور پر حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔حضرت خضرعلیہ السلام کون تھے پڑھنے کے لیے نام پر کلک کریں۔


کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری