آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 16 January 2021

Kahawaton Ki Kahani By Furqat Kakorvi NCERT Urdu Class 9 Jaan Pehchan

کہاوتوں کی کہانی
غلام احمد فرقت کا کوروی
ہم روز مرہ اپنی آپس کی بول چال میں ایسی کہاوتیں اور محاورے بولتے ہیں جن کا مطلب تو سمجھ لیتے ہیں مگر ہم کو نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کہاوتیں اور محاورے کس طرح ہماری زبان میں آئے اور انھیں ہم کب سے بولتے چلے آرہے ہیں ۔ تم کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ان محاوروں اور کہاوتوں میں بعض ایسے ہیں جن کے پیچھے بڑے دل چسپ لطیفے اور قصے چھپے ہوئے ہیں۔
ہم اپنی روز مرہ کی گفتگو میں"  وہی مرغے کی ایک ٹانگ" بولتے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی بس اپنی ہی بات پر اڑا رہے، چاہے حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اس مقولے کے پیچھے جو قصہ چھپا ہے، وہ بڑا دلچسپ ہے۔
  ایک انگریز کے یہاں ایک خانساماں نے ایک مسلم مرغ پکا کر اس کی ایک ٹانگ خود کھالی اور ایک اپنے صاحب کے سامنے کھانے کی میز پر رکھ دی ۔ صاحب نے ایک ٹانگ دیکھ کر کہا:
  ’’ول خانساماں! اس مرغ کی ایک ٹانگ کہاں ہے۔؟“ "حضور! اس مرغے کی ایک ہی ٹانگ تھی۔ "خانساماں نے جواب دیا۔"
  اس پر صاحب کو ہنسی تو آئی مگر وہ خاموش ہو کر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ برآمدے کے سامنے کچھ مرغ اور مرغیاں دا ناچنگ رہی تھیں۔ ان میں ایک مرغ اپنا ایک پاؤں سمیٹے دوسرے پاؤں سے کھڑا تھا۔ خانساماں کو اچھا موقع ملا۔ اس نے کہا۔” دیکھیے صاحب یہ مرغ بھی ایک ہی ٹانگ کا ہے۔‘‘
  یہ سن کر صاحب، مرغ کے پاس گئے اور انھوں نے ہش ہش‘‘ کیا۔ مرغ نے دوسری ٹانگ بھی نکال دی۔ خانساماں نے یہ دیکھ کر کہا۔ ”حضور ! کھانا کھاتے وقت سرکار سے بڑی چوک ہوگئی ۔ اگر آپ اس پکے ہوئے مرغ کے سامنے ” ہش ہش" کرتے تو وہ بھی اپنی دوسری ٹانگ نکال لیتا‘‘
  اس وقت سے یہ فقره ضرب المثل بن گیا۔
  اسی طرح ایک دوسری مثل ہے” اونٹ کس گل بیٹھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھیے کیا ظہور میں آتا ہے اور کیا انجام ہوتا ہے۔ اس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک کمھار اور ایک سبزی فروش نے مل کر ایک اونٹ کرائے پرلیا اور اس کے ایک ایک طرف اپنا سامان لاد دیا۔ راستے میں سبزی بیچنے والے کی ترکاری کو اونٹ گردن موڑ کر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر کمھار مسکراتا رہا۔ جب اونٹ منزل پر پہنچا تو جدھر کمھار کے برتنوں کا بوجھ تھا، اونٹ اسی کروٹ بیٹھا جس سے بہت سے برتن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس وقت سبزی بیچنے والے نے کمھار سے ہنس کر کہا۔
  کیوں گھبراتے ہو، دیکھو اب آئندہ اونٹ کس کل بیٹھتا ہے؟‘‘
  ہم اکثر کہتے ہیں "حضور آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے"۔ یہ فقره اس وقت بولتے ہیں جب بہت زیادہ انکساری ظاہر کرنی ہوتی ہے۔ اب اس مقولے سے متعلق جو لطیفہ ہے اسے سن لیجیے۔ ایک مرتبہ ایک مسخرے کو دل لگی سوجھی۔ جھٹ پٹ اس نے چند دوستوں کی دعوت کردی۔ جب وہ لوگ آ کر بیٹھ گئے تو اس نے سب کے جوتے لے کر ایک شخص کے حوالے کیے۔ اسے پہلے ہی سے مقرر کر رکھا تھا۔ وہ شخص سارے جوتے کباڑی بازار میں جا کر بیچ آیا۔ یہ رقم دعوت کے کھانے کی تیاری میں کام آئی۔ جب دستر خوان پر کھانا چنا گیا تو سب مہمانوں نے مسخرے سے کہا۔ آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟" مسخرے نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ” یہ سب آپ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔"
   کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگ جوتے پہننے کے لیے اٹھے تو جوتے غائب تھے۔ اس پر مسخرے نے کہا۔ "حضور! وہ تو میں آپ سے پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب آپ کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔“
   ایک اور کہاوت ہے” اونٹ کے گلے میں بلی"۔ یہ مقولہ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان کسی مشکل میں پڑ جاتا ہے اور اس سے نکلنے کی فکر کرتا ہے ۔ چناں چہ مشہور ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا ۔ جب با وجود انتہائی تلاش کے اونٹ نہ ملا تو اس نے قسم کھائی کہ اگر اونٹ مل جائے گا تو اسے ٹکے کا بیچ دے گا۔ اتفاق سے وہ اونٹ مل گیا۔ اس وقت یہ شخص گھبرا گیا کہ اب تو بہ ہر حال اونٹ کو ایک ٹکے میں بیچنا پڑے گا۔ یہ دیکھ کر ایک آدمی نے اس کو یہ صلاح دی ۔ ” تم اس کے گلے میں ایک بلی باندھ دو اور اس طرح آواز لگاؤ کہ ایک ٹکے کا اونٹ ہے اور سو روپے کی بلی، لیکن یہ دونوں ایک ساتھ بکیں گے۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا جس کے بعد اس کو مصیبت سے نجات مل گئی۔

غلام احمد فرقت کا کوروی
(1910 - 1973)
فرقت کا کوروی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ بچپن میں ہی باپ کے سایے سے محروم ہو جانے کی وجہ سے ابتدائی عمر معاشی تشنگی میں بسر ہوئی مگر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ لکھنؤ اور علی گڑھ کی دانش گاہوں سے ایم اے، بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تاریخ کے استاد کے طور پر انگلو عربک اسکول ، دہلی میں تقر یا تیس سال تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔
طنز و مزاح ان کا خاص میدان تھا۔ وہ نثر ونظم دونوں میں یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کا طرز تحریر دل چسپ اور عام فہم ہے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ادیبوں میں ہوتا ہے۔
’’كف گل فروشان، " قد مچے"، ناروا" ان کے نثری اور شعری مجموعے ہیں۔

 

1 comment:

خوش خبری