آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 27 October 2017

Ghazal - Dr. Kaleem Ajiz

غزل
ڈاکٹر کلیم عاجز

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

دیوانہ گل قیدئ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو

مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو

زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو

وہ شوخ ستم گر تو ستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو



Thursday 26 October 2017

प्यारा जूजू

प्यारा जूजू 

अक़्सा उस्मानी 

एक हाथी था उसका  नाम जुजु था वह  एक छोटा हाथी था इसलिए वह  नासमझ था
 एक दिन छोटा  हाथी  अपने दोस्तो के साथ जंगल मे खेल रहा था।
 खेलते खेलते जु जु को पानी बहने  की आवाज़ आई।  वह  इस आवाज़ के पीछे जाने लगा। कुछ समय बाद उस ने देखा कि वह एक बहुत ही  खूबसूरत झरने  के बीच  खड़ा  है और झरने के  पास बहुत  सारी  परियाँ खेल रही हैं।
वह भी उनके साथ खेलने लगा। बहुत देर बाद  उसे याद आया कि  उसकी माँ उसका इंतेज़ार कर रही होंगी।
वह अपने घर के लिए निकला जब वो वापस पंहुचा तो  वहाँ कुछ  नही था।
 वो बहुत  डर गया और उसे अपने घर का रास्ता भी नही पता था वो चलते चलते थक गया और एक पेड़ के नीचे बैठ गया
उसे नींद आ गई। जब उसकी आंखें खुली तो उसने देखा शाम हो रही थी।  वह  फिर चलने  लगा  वह  एक ऐसी जगह पहुंचा  जहाँ  बहुत सारे फूल थे और तितलियाँ भी थी वो वहाँ  उन तितलियों के पीछे भाग रहा था और हँस रहा था।
वह बहुत  खुश था भागते भागते वो थक गया था। वह वहीं  बैठ गया। थोड़ी देर बाद बारिश होने लगी। वह  एक पेड़ के नीचे  बैठ कर यह  नज़ारा देखने लगा कि  कैसे एक बारिश की बूंद फूलों की  पत्तियों पर गिरती है तो ऐसा   लगता  है कि  पत्तों पर  मोती हो यह देखते देखते वह भूल गया के उसे  घर जाना है।
 थोड़ी देर बाद वह  उठा और चलने लगा।  उसे रास्ते में  एक दूसरा  हाथी मिला जिसका नाम जॉनी था। वह बहुत  प्यारा  था।  जुजु उसके साथ खेलने लगा। खेलते खेलते  उसे याद आया कि  उसकी माँ परेशान हो रही होगी।  वो फिर रोने लगा उसे लगा अब वह अपनी माँ  से कभी नहीं मिल पाए गा।  अचानक उसे पीछे से आवाज़ आई "जुजु " उसने पीछे मुड़ कर देखा उसकी माँ खड़ी थी वह  उसे ढूंढ रही थी वो रोते रोते चिलाया " माँ ! मैं यहां हूँ "  वह  दौड़ कर अपनी माँ  के पास गया। उसकी माँ  ने कहा चलो घर चले।  वह लोग घर आगए। उसने फैसला क्या की अब वह अपनी माँ को छोड़ कर कहीं नहीं जाये गा।

(Story & Illustration: Aqsa Usmani)

Wednesday 25 October 2017

رقص کرتی مچھلیاں

کیا آپ نے اپنے ڈرائنگ روم میں رنگ برنگی مچھلیوں کو رقص کرتے دیکھا ہے؟ یہ مچھلیاں خواہ سمندر کی گہرائیوں میں ہوں یاایکویریم میں اپنی حرکتوں سے آپ کو لطف اندوز کرتی ہیں۔ یہ آپ کے ڈرائنگ روم میں ہوں یا کسی میوزیم میں یہ بچوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ ان کی رنگا رنگی آپ کے ذہن و دماغ کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور ان کا رقص آپ کا دل جیت لیتا ہے۔ سر پر رنگوں کا تاج سجائے ان شہزادیوں کا رقص آئینہ کی ٹیم نے  کولکتہ میوزیم میں عکس بند کیا ہے۔ پیش ہے قارئین کے لئے اس کی ایک جھلک۔

Wednesday 11 October 2017

ترانۂ بہار ۔۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی

حضرت جوش ملیح آبادی کی ایک مشہور  نظم قارئین کی نذر ہے۔ نظم کا آہنگ قابل دید ہے۔


 


Saturday 25 March 2017

ز مہجوری برآمد جان عالم

حضرت جامی ؒ

ز مہجوری برآمد جان عالم
ترحم یا نبی اللہ ترحم
(آپﷺ کی فرقت میں دنیا کی جان لبوں پر آگئی
رحم فرمائیے یارسول اللہ! رحم فرمائیے)
نہ آخر رحمۃ للعالمینی
ز محروماں چرا فارغ نشینی
کیا آپﷺ سارے عالم کے لئے رحمت نہیں ہیں؟پھر محروموں سے یہ بے اعتنائی کیوں ہے؟)
بروں آور سر از برد یمانی
کہ رومی تست صبحِ زندگانی
(یمنی چادر سرسے ہٹا کر اپنا جمال دکھائیے کیونکہ آپﷺ کا چہرہ ہی زندگانی کی صبح ہے)
شبِ اندوہ مارا روز گرداں
ز رویت روز ما فیروز گرداں
 (ہماری شب ِ غم کودن میں تبدیل کردیجئے،اپنے جلوے سے زندگانی کو کامرانی عطافرمائیے)
بہ تن در پوش عنبر بوئے جامہ
بہ سر بربند کافوری عمامہ
(ہماری چارہ سازی کو آنے کے لئے) معنبر لباس پہن لیجئے اور سراقدس پر کافوری عمامہ کو جگہ دیجئے)
ادیم طائفی نعلین پا کن
شراک از شتۂ جانہائے ما کن
 (طائف کے ادیم کی بنی ہوئی نعلین پہن لیجئے، اس کے تسموں کی جگہ ہمارے رشتۂ جاں کو کام میں لائیے)
فرود آویز از سر گیسواں را
فگن سایہ بہ پا سرو رواں را
(سراقدس سے دونوں طرف معنبر گیسو لٹکا لیجئے اور اپنے مناسب قد کا سایہ اپنے قدموں پر ڈالئے، یعنی ہماری مدد کو چلے آئیے)
جہانے دیدہ کردہ فرش راہند
چو فرش اقبال پا بوس تو خواہند
 (یارسول اللہ! ایک جہان آپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے فرش کی طرح آپ کی قدم بوسی کے شرف کا مشتاق ہے)
ز حجرہ پائے در صحن حرم نِہ
بہ فرق خاک رہ بوساں قدم نِہ
(حجرے سے نکل کر حرم نبوی کے صحن میں تشریف لائیے اور خاکِ راہ چومنے والوں کے سرپر قدم رکھیے)
اگرچہ غرق دریائے گناہیم
 فتادہ خشک لب برخاک راہیم
 (اگرچہ ہم گناہوں کے دریا میں ڈوبے ہوئے ہیں پھر بھی ( آپ ﷺ کی) راہ میں پیاسے پڑے ہوئے ہیں)
تو ابرِ رحمتی آں بہ کہ گاہے
کنی برحال لب خشکاں نگاہے
 ( آپﷺ ابررحمت ہیں کیا خوب ہو کہ کبھی ہم تشنہ لبوں کے حال پر بھی نظرفرمائیں)
بہ حسن اہتمامت کار جامی
طفیل دیگراں باید تمامی
 ( کیا عجب کہ آپﷺ کی نگاہِ کرم سے دوسروں کے طفیل میں جامی کا کام بھی بن جائے۔)

Thursday 23 March 2017

صفائی سے بہتر نہیں کوئی شئے

صفائی سے بہتر نہیں کوئی شئے

تحریر: صحبہ عثمانی


پیارے بچّوں!
آج میں آپ سے صفائی کی اہمیت پر بات کرنے جا رہی ہوں ـ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گندگی سبھی بیماریوں کی جڑ ہے ـ گندگی کی وجہ سے مچھر پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کے کاٹنے سے بیماری پیدا ہوتی ہے ـ
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کے چاروں طرف جو گندگی پھیلی ہوتی ہے اس میں آپ کا کتنا بڑا حصہ ہے ـ ہم اپنی تمام خرابیوں کی ذمہ داری سرکار پر ڈال کر اپنے ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں لیکن کیا ہم غورکرتے ہیں کہ آپ کی گلی محلے میں جو گندگی ہے اس کے لیے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں ـ
میں اکثر دیکھتی ہوں کہ ابھی صفائی والا گلی  میں جھاڑو لگاکر گلی سے جاتا بھی نہیں کہ کسی نا کسی چھت سے کوڑے کا ایک پیکٹ سڑک پر آپ کا منہ چڑھانے لگتا ہے ـحیرت ہے کہ ہمیں اپنی اس حرکت پر کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی اس جانب توجہ دلائے تو ہم الٹا اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ـ
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہمارے گھروں میں اتنا  کوڑا کیوں پیدا ہوتا ہے ـپہلے ہمارے علاقے میں کوڑے کی صرف ایک جھنڈی ہوا کرتی تھی جہاں اگر کوڑا نہ اٹھایا جائے تو گندگی کا انبار لگ جایا کرتا تھا اور وہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا ـ اب صورت حال یہ ہے کہ علاقے میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ـ جس کا جہاں دل چاہتا ہے کوڑا ڈال دیتا ہے اور پھر اس کا دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس جگہ کوڑے ڈالنے لگتے ہیں ـ نتیجہ یہ ہے کہ پورا محلہ ہی کوڑا گھر میں تبدیل نظر آتا ہےـ جگہ جگہ کوڑے کا ڈھیر لگنے میں صفائی کرنے والے وہ ملازم بھی کم ذمہ دار نہیں جو آپ کے گھر سے تو کوڑا لے جاتے ہیں لیکن وہ اسے کہیں قریب ہی خالی جگہ دیکھ کر ٹھکانے لگا دیتے ہیں ـ نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے گھر کا کوڑا ایک بار پھر قریب ہی آپ کی طبیعت مکدّر کر رہا ہوتا ہےـ
ہم صفائی کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر صفائی میں ہمارا حصہ صفر ہوتا ہے یہاں مجھے اپنے شہر اور گاؤں میں فرق صاف نظر آتا ہے ـ مجھے اپنے گاؤں کی گلیاں یاد آتی ہیں جہاں گندگی نام کی چیز نہیں ہوتی ـ گھر مٹّی کے ہوتے ہیں لیکن مٹّی سے ہی لیپ کر ان کی دیواریں اتنی چکنی بنا دی جاتی ہیں کہ آپ انھیں دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں ـ وہاں کوئی صفائی والا نہیں آتا ـ گھر کی عورتیں اور لڑکیاں ہی صفائی کا سارا کام کرتی ہیں ـ وہ اپنے گھر کی دیواروں پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بناتی ہیں تاکہ ان کا گھر خوبصورت لگے ـ اور صبح سویرے وہ اپنے پورے گھر میں جھاڑو دیتی ہیں اور اپنا دروازہ اور گھر کے باہر کے حصے کی صفائی کرتی ہیں ـ اپنی گلی میں جھاڑو لگاتی ہیں  اور جو کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے اسے کہیں دور گڈھے میں پھینک آتی ہیں ـ پوری بستی یہی کام کرتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر جانب ایک صاف ستھرا ماحول ہوتا ہے ـ آپ ننگے پیر اپنے گھر کر باہر کہیں بھی جا سکتے  ہیں لیکن  کیا آپ اپنے شہر میں اس بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں ۔
پیارے بچّو!
اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنے آس پاس کی صفائی میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں ـ سب سے پہلے تو آپ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ  اپنے گھر میں کم سے کم کوڑا اکٹھاہو نے دیں ـ
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں کم سے کم پولتھین کا استعمال کریں ـ پلاسٹک کی یہ تھیلیاں سب سے زیادہ گندگی پھیلاتی ہیں اور نقصان دہ بھی ہوتی ہیں ـ ان تھیلیوں کے کھانے سے  نہ جانےکتنے پالتو جانور اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ـ یہ تھیلیاں سیور میں جاکر اسے بھی جام کر دیتی ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برسات کے دنوں میں نالیوں کا پانی سڑکوں پر آجاتا ہے ـ آپ کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے ـ جب آپ مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کو چھینٹ پڑجانے اور ناپاک ہو جانے کا ڈر ستانے لگتا ہے ـ                          لہٰذا اس سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے والدین اور بڑے بھائی بہنوں کو اس بات کے لئے رضامند کریں کہ وہ بازار سے کپڑوں کے تھیلے میں سامان لائیں ـ ان تھیلوں کو آپ گھر میں ہی دھوکر صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں اورپلاسٹک  کی بازاری تھیلیوں سے اپنے سامان کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں ـ
اگر آپ پلاسٹک کی تھیلیوں کو درکنار کرنا شروع کریں گے تو آپ کے گھروں میں کوڑا کرکٹ کی مقدارخود بخود کم ہونےلگے گی۔ دوسرے کوڑے مثلاً سبزیوں کے چھلکے وغیرہ آسانی سے ری سائکل ہو جاتے ہیں وہ پلاسٹک کی تھیلیوں کی طرح آپ کی جان کا کال نہیں بنتے ـ تجارتی پیشہ وروں اپنے فائدے کے لئے ایک مصیبت سماج کے سر منڈھ دی ہے جو سراسر نقصان کا سودہ ہے ـ اگر پلاسٹک کی تھیلیاں نہ ہوں گی تو آپ ان میں کوڑے بھر کر سڑک پر نہیں پھیکیں گے ـ اور کوڑے والا آپ کی ڈسٹ بن سے براہ راست کوڑا لے جائے گا اور انہیں میونسپلٹی کی مقرر کردہ جگہ پر ٹھکانے لگائے گاجہاں سے میونسپلٹی کی گاڑیاں ان کو ری سایکل کرنے کے لئے لے جا سکیں گی ـ
بچوں! ان باتوں سے آپ نے کیا سیکھا؟ آج میں صرف آپ سے باتیں کرنا چاہتی ہوں اس لئےکہ آپ کی آنکھوں میں مستقبل کا خواب سجتا ہےـ میں جانتی ہوں کہ آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور آپ مختلف  مقامات کی تصاویر اپنے موبائل اور کمپیوٹر یہ دیکھتے ہیں ـ مغربی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی صفائی آپ کے دلوں میں ایک شوق پیدا کرتی ہے کہ کاش میرا ملک بھی اتنا ہی صاف ستھرا  ہوتا ـ ہمارا ملک بہت ہی خوبصورت ہے لیکن ہم نے اپنے ہاتھوں اس میں داغ لگا رکھا ہے ـ ہم کہیں کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے آس پاس کی جگہ کو صاف رکھنا اپنا فرض نہیں سمجھتے ـ ہمیں اگر تھوکنا ہوتا ہے تو کنارے کی جگہ تلاش نہیں کرتے بلکہ اپنے سامنے کی سڑک یا دیوار گندی کر دیتے ہیں ـ
پیارےبچوں! آپ اس بات کا بیڑہ اٹھائیں کہ آپ اپنے آس پاس گندگی نہیں ہونے دیں گے اس گرمی میں مچھر کو اپنے پاس پیماریاں لے کر نہیں آنے دیں گے ـ جہاں  کہیں بھی گندگی دیکھیں   اپنے والدین کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ اس کے لئے آواز اٹھائیں ـ سڑک پر کسی کو کوڑا نہ پھینکنے دیں ـ محبت سے ان کو صفائی کی اہمیت بتائیں اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنے  میں اپنے والدین کی مدد کریں ـ کوشش کریں کہ گھر کے اندر اور گھر کے آس پاس گندا پانی جمع نہ ہو ـ جس میں مچھرپیدا ہو ـ
گھر کے کولر کا پانی بھی روز بدلیں ـ صفائی بہت بڑی نعمت ہیں ـ کیا گندگی دیکھ کر آپ کےاندر کوفت پیدا نہیں ہوتی ـ صفائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں تاکہ اور دیگر بہت ساری بنیادی باتیں اس سے وابستہ ہیں نماز سے قبل وضو صرف اسی لیے کیا جاتا ہے کہ نماز کے لیے پاکیزگی اور صفائی ضروری ہے...

اپنے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کیجئے اور دوسروں کے بھروسے مت رہئے ـ تبھی آپ ایک صاف ستھری اور صحت مندزندگی گزار پائیں گےـ



Wednesday 22 March 2017

تبصرہ خیابان خیال


بہ شکریہ چوتھی دنیا

Tuesday 21 March 2017

بے وقوف مرغا

بے وقوف مرغا
اقصیٰ عثمانی
ایک بار دو چور  رات میں گھوم رہے تھے۔ انہوں نےایک آواز سنی۔  چوروں نے اوپر چھت پر   چڑ ھ کر دیکھا تو ایک مرغا بانگ دےرہا تھا۔ دونوں چور خوشی سے جھوم اٹھے۔ انہوں نے کہا ارے واہ ہمارے لئے کل کی دعوت کا بہترین انتظام ہوگیا۔ وہ اسے ذبح کرکے کھانے کا منصوبہ بنانے لگے۔ مرغا یہ دیکھ کر ڈر گیا ۔وہ ان سے کہنے لگا مجھے مت مارو میں آپ دونوں کو روزانہ صبح سویرے اٹھاؤں گا اور پھر آپ دونوں اپنے کام پر چلے جانا ۔ یہ سن کر چور گھبرا گئے اور انہوں نے فوراً ہی مرغے کو مار ڈالا۔
جانتے ہو بچو! چوروں نے مرغے کو مارنے میں جلدی کیوں کی۔؟
 کیونکہ وہ یہ سن کر ڈر گئے  تھےکہ اب مرغا انہیں اٹھانے کے لئے روز صبح سویرے بانگ دے گا جسے سن کر محلے والے اٹھ جائیں گے اور انہیں چوری کرتے پکڑلیں  گے۔(انگریزی سے ماخوذ)

موسم بہار


Saturday 18 March 2017

Shikayat Ka Anjaam

شکایت کا انجام
اقصیٰ عثمانی
ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ وہ جنگل کا راجہ تھا۔ ایک بار شیر بیمار پڑ گیا ۔ جنگل کے سارے جانور ا سےدیکھنے آئے ۔وہ اس کے لئے طرح طرح کے تحفے لاتے۔شیر انہیں دیکھ کر خوش ہوجاتا۔وہ خود کو اچھا محسوس کرنے لگتا۔اسے دوسروں   کو  اپنی عزت کرتے دیکھ بہت خوشی ہوتی۔ اگر کوئی اس کی عزت نہیں کرتا  تو وہ اس سے بہت ناراض ہوتا۔ اس کی عیادت کے لئے جنگل کے سارے جانور آئے۔لیکن لومڑی کو آنے میں دیر ہو گئی ۔بھیڑیا لومڑی سے نفرت کرتا تھا ۔ کیونکہ لومڑی بھیڑیے سے زیادہ عقل مند اور چالاک تھی۔  بھیڑیے نے سوچا ”کتنا اچھا موقع ہے۔ میں شیر کو لومڑی کے خلاف ورغلا سکتا ہوں۔“لومڑی کو مصیبت میں ڈالنے کے لیے اس نے شیر کو  لومڑی کے بارے میں  ایک جھوٹی کہانی  سنائی ۔جب کہانی ختم ہونے لگی تبھی لومڑی آگئی  اور اس نے  دیکھا  کہ شیر  بہت غصے میں ہے   ۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گئی۔ اس نے بھیڑیے کو سبق سکھانے کی سوچی۔ اس نے کہا ”جہاں پناہ !رکیے یہاں بات کرنے  سے اچھا ہے کی  آپ میری بات پر غور کیجیے، میرے پاس آپ کی بیماری کے لیے ایک علاج ہے۔ آپ کسی  بھیڑیے کی کھال کو اپنے  جسم پر لپیٹ لیجیے۔ یہ آپ کو گرم رکھے گی اور آپ کو اچھا لگے گا ۔“یہ سنتے  ہی شیر چنگھاڑا  اور بھیڑیے کو مار کر اس کی  کھال لپیٹ لی۔بھیڑیا بے چارہ اپنی جان سے گیا۔
سبق: اگر بھیڑیے نے شیر کو جھوٹی کہانی سنانے کے بجائے اس سے سچ بولا ہوتا تو ایسا نہیں 
ہوتا۔ہمیں کسی کی بلا وجہ شکایت نہیں کرنی چاہئے۔
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

خوش خبری