آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 29 October 2017

ریلیاں ہی ریلیاں

گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان بھر میں ریلیوں کی بہار ہے۔ اسی پس منظر میں طنز و مزاح کے مشہور شاعر حضرت رضا نقوی واہی مرحوم کی ایک مشہور نظم ملاحظہ کریں۔

Saturday 28 October 2017

Iftekhar Arif : A Beautiful combination of Classic and Modern Poetry

روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج :افتخار راغبؔ 



فوزیہ ربابؔ



اے دل گر اس کے حُسن پہ کرنی ہے گفتگو
حدِّ جمالیات سے آگے کی سوچنا

بالعموم بہت کم شعر ایسے ہوتے ہیں جو پڑھتے ہی قاری کے ذہن پر نقش ہو جائیں اور ضرب المثل بننے کی خصوصیت رکھتے ہوں۔ اس بھیڑ میں چند شعراء ہی ایسے ہیں جنھوں نے اپنی محنت لگن اور دیانتداری سے وادیِ سخن میں اپنا جداگانہ مقام پیدا کیا ہے۔ انھیں میں ایک افتخار راغبؔ صاحب ہیں جن کے زیادہ تر اشعار تاثر اور تاثیر سے لبریز ہیں:
دھیان اپنی جگہ نہیں راغبؔ 
لکھ دیا کس کا نام اپنی جگہ
اس نے یوں آج شب بخیر کہا
صبح تک خیریت نہیں میری
جی تو کرتا ہے اپنے لب سی لوں
تم کو کہہ کر کبھی خدا حافظ
مرے خدا مجھے اپنی امان میں رکھنا

پھر اس نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے

افتخار راغبؔ صاحب کی شاعری روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ یعنی ان کے یہاں ملیح روایات کی پاسداری بھی ہے اور جدّت کی شیرینی بھی، نازک احساسات و جذبات بھی ہیں تلخی و ترشی بھی، حزن و یاس کی کیفیت بھی ہے مگر فرحت و شادمانی کا جذبہ اس پر غالب ہے۔ غالبؔ سی پرکاری و زبان و بیان کے دروبست میں تخلیقی شان ہے تو میرؔ کی سادگی و سلاست حزن و یاس کے ساتھ اثر انگیزی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کہتے ہیں اچھے شعر کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھ کر بے ساختہ آہ یا واہ نکل جائے۔ یہ کیفیت راغبؔ صاحب کی شاعری میں بہت نمایاں طور پرموجود ہے مگر غور کرنے پر معنی و مفہوم کے نئے در وا ہوتے جاتے ہیں:
ساری دنیا کو ہرانے والی
ایک درویش سے ہاری دنیا
خوش بیاں تجھ سے زیادہ کون ہے
چپ یہاں تجھ سے زیادہ کون ہے
کیا کہوں راغبؔ ترے بارے میں اب
خوش گماں تجھ سے زیادہ کون ہے
خواہشِ ناتمام سے تکلیف
دل کو ہے دل کے کام سے تکلیف
ماتم پُرسی مت کر اے منھ زور ہَوا
کتنے پتّے ٹوٹے اب تعداد نہ گِن
افتخار راغبؔ کی شاعری حیات و کائنات کا مربوط و منضبط فلسفہ بیان کرتی ہے۔ ان کی شاعری ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے ان کا عزمِ مصمم نیز مستقل مزاجی ان کی شاعری میں بھی خوب نظر آتی ہے۔ حکیمانہ افکار کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کے گرُ سے افتخار راغبؔ بخوبی واقف ہیں:
روک دے پرواز میری، کاٹ دے صیّاد پر
توٗ مجھے مجبور کر سکتا نہیں فریاد پر
ہم کو بس اک ذات سے امّید ہے اور کچھ نہیں
آپ کو تکیہ ہے اپنی طاقت و تعداد پر
امن کی ہر ہاتھ میں قندیل ہو
روشنی میں روشنی تحلیل ہو
مجھے تھا رہنا سدا اپنی بات پر قائم
میں سنگِ میل ہوا گردِ کارواں نہ ہوا
مشکلیں لاکھ راہِ شوق میں ہوں
شوقِ منزل سنبھال کر رکھنا
ہم ہیں قائم اصول پر اپنے
گردشِ صبح و شام اپنی جگہ
علم والوں کو علم ہے راغبؔ 
دولتِ جہل آگہی سے ملے
مچھلی کیسے رہتی ہے پانی کے بِن
حال سے میرے خوب ہیں وہ واقف لیکن
یہاں ایک لفظ ’’لیکن‘‘ سے شعر میں جو تاثیر اور کیفیت پیدا ہوئی ہے اس کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں۔
راغبؔ صاحب کی شاعری میں عمدہ تراکیب، خوبصورت استعاراتی زبان، بے ساختگی کے ساتھ ساتھ مشکل و منفرد ردیفوں میں بھی بڑے عمدہ اشعار ملتے ہیں۔ ان کی پوری شاعری پر نظر ڈالی جائے تو نئی زمینوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو فقرہ یا لفظ ان کو پسند آجائے اسے ردیف بنا کر شاہ کار غزل کہنے پر ان کو دسترس حاصل ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے پر عام طور سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افتخار راغب ؔ چھوٹی بحر کے بڑے شاعر ہیں لیکن اس کتاب میں بڑی بحروں میں جو غزلیں نظر نواز ہوئیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بڑی بحروں پر بھی آپ کو عبور حاصل ہے :
کس جگہ کس وقت اور کس بات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
میری شرحِ خواہش و جذبات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
اے غزل بے قرار رہتا ہوں صرف تجھ پر نثار رہتا ہوں
تجھ پہ راغبؔ مری طبیعت ہے چین آئے تو کس طرح آئے
چھپ چھپ کر دل کیوں روتا ہے کیا عالم وحشت ہوتا ہے
رہ رہ کر جی گھبرائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
اچھا لگتا ہے تم کو اگر کھیلنا میرے جذبات سے
کچھ نہ بولوں گا میں عمر بھر کھیلنا میرے جذبات سے
گجرات کی طرح ہوں میں، مجھ کو بھی غم گسار دو
کس کو بتاؤں کس طرح گزرا تھا دو ہزار دو
اُس نے کہا تھا ایک شب ’’تم نے مجھے بدل دیا‘‘
کیسے کہوں میں اُس سے اب تم نے مجھے بدل دیا
افتخار راغبؔ کی شاعری میں میریت کا عنصر نمایاں ہے۔ سادگی، سلاست، مضامین کا تنوع غرض یہ کہ تاثر اور تاثیر سے مملو آپ کی بیشتر غزلیں شاہ کار تخلیق ہیں۔آپ کی شاعری جذباتِ زندگی و عصرِ حاضر کی عکّاسی کرتی ہے۔ نیز سادگی و اصلاحِ زبان و بیان کے تو کیا کہنے۔ یہ عنصر میں نے موجودہ دور کے شعراء میں بہت کم پایا ہے:
یوں ہی رہنے لگی ہے وحشت سی
کوئی آفت نہیں محبت سی
آ محبت سے آ سکون سے رہ
دل ہے مسکن ترا سکون سے رہ
سبز پتّو ڈرو ہواؤں سے
میں تو ٹوٹا ہوا ہوں میرا کیا
لیجیے اور امتحان مرا
اور ہونا ہے کامیاب مجھے
لے کے نکلے ہو دور بین کہاں
اُن کے جیسا کوئی حسین کہاں
ایک خاص بات جو میں نے آپ کی شاعری میں محسوس کی وہ یہ کہ آپ کی شاعری میں حساسیت تو بدرجہ اتم موجود ہے مگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ احساس اور جنون کے درمیان جو ایک غیر مرئی لکیر ہے اس سے آپ خوب شناسا ہیں:
تمھاری مسکراہٹ کھینچتی ہے
تبسّم کی لکیریں جسم و جاں میں
دل کے دو حرفوں جیسے ہی ایک ہیں ہم
اک متحرک ہر لمحہ اور اک ساکن
پوچھا گیا تمھارے تعلق سے کچھ اگر
تم ہاں اُسے سمجھنا میں بولوں اگر نہیں
میں افتخار راغبؔ صاحب کے تینوں مجموعہ ہائے غزلیات ’’لفظوں میں احساس‘‘ ، ’’خیال چہرہ‘‘ اور ’’غزل درخت‘‘ پڑھ چکی ہوں اور چوتھا مجموعہ "یعنی تو" کے مسودے کا بھی میں نے بغور مطالعہ کر لیا ہے۔ لہٰذا یقین کامل ہے کہ راغبؔ صاحب جس قسم کی شاعری کررہے ہیں یہ ادب کا بیش قیمتی اثاثہ ثابت ہوگی۔آپ کی بیشتر غزلیں اور اشعار دل کو چھو گئے۔ اب کیا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں کہ وقت کم ہے اور گفتگو طویل ہوتی جارہی ہے ۔ راغبؔ صاحب کو صمیمِ قلب سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور آخر میں اب ملاحظہ فرمائیں وہ غزل جو اس مکمل کتاب کی وجہِ تخلیق بنی ہے جسے پڑھتے ہی بالیقین آپ بھی مسحور ہو جائیں گے۔ آپ غزل کا لطف لیجیے اور مجھے دیجیے اجازت کہ پھر ملیں گے اگر خدا لایا:
پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ
مِل گیا عشق کو اِک حُسن محل یعنی توٗ
شہرِ خوباں میں کہاں سہل تھا دل پر قابوٗ
مضطرب دل کو ملا صبر کا پھل یعنی توٗ
غمِ دل ہو غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو
سب مسائل کا مِرے ایک ہی حل یعنی توٗ
گنگناتے ہی جسے روح مچل اُٹھتی ہے 
میرے لب پر ہے ہمیشہ وہ غزل یعنی توٗ
دفعتاً چھیڑ کے خود تارِ ربابِ الفت
میرے اندر کوئی جاتا ہے مچل یعنی توٗ
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی توٗ
پیاس کی زد میں محبت کا شجر یعنی میں
جس پہ برسا نہ کبھی پریٖت کا جل یعنی توٗ
قلبِ راغبؔ میں عجب شان سے ہے جلوہ فگن
دلربائی کا حسیں تاج محل یعنی توٗ


"Yani Tu" Ki Taqreeb e Runumayi

بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام افتخار راغبؔ کے 
چوتھے مجموعۂ غزلیات ’’یعنی تو‘‘ کی تقریبِ رونمائی



قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم، بزمِ اردو قطر (قائم شدہ 1959ء ؁) نے ۵ ا/کتوبر ۲۰۱۷ء بروز جمعرات کو دوحہ کے معروف ہوٹل ’کریسٹل پیلس ہوٹل‘ کے عالی شان ہال میں تخلیقِ کارِ کلامِ دل پذیر، علمبردارِ توازنِ لفظ و معنی ، بدرِ آسمانِ شعر و سخنِ قطر اور افتخارِ بزمِ اردو قطر جناب افتخار راغبؔ کے چوتھے مجموعۂ غزلیات ’’یعنی تو‘‘ کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام کیا۔ پروگرام کی صدارت شاعرِ خلیج و فخر المتغزین و انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر جناب جلیلؔ نظامی نے فرمائی۔ جب کہ انڈین ایسو سی ایشن آف بہار اینڈ جھارکھنڈ قطر کے چیئرمین جناب محمد فاروق احمد اور کاروانِ اردو قطر کے نائب صدر جناب حسیب الرحمان ندوی مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر جلوہ افروز ہوئے۔مہمانِ اعزازی جناب افتخار راغبؔ کے علاوہ بزم کے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحئی نے بھی اسٹیج کو پُر وقار کیا۔بزمِ اردو قطر کے صدر و معروف شاعر جناب محمد رفیق شادؔ آکولوی نے جناب افتخار راغبؔ کے معروف اشعار کے عمدہ انتخاب اور بڑے افتخار و وقار کے ساتھ نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ 
پروگرام کا باضابطہ آغاز حافظ شمس الرحمان صدیقی صاحب کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ معروف خوش گلو جناب عبد الملک قاضی نے افتخار 
راغبؔ صاحب کی نئی کتاب سے حمد پیش کی۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
آنکھوں سے کفر و جہل کی عینک اُتار دیکھ
ہر شَے میں کار سازیِ پروردگار دیکھ
کس بات کا ہو غم مجھے کیوں رنج ہو کوئی
کس ذاتِ پاک پر ہے مِرا انحصار دیکھ
کہتے ہیں بے شمار کسے کیا پتا تجھے
اُس کی عنایتیں کبھی کر کے شمار دیکھ
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو راغبؔ صد اشتیاق
ہر چیز میں کمالِ فنِ کردگار دیکھ
ناظمِ اجلاس جناب شادؔ آکولوی نے بزمِ اردو قطر کا مختصر تعارف پیش فرمایا اور مہمانان و حاضرین کا پر جوش استقبال کیا۔ بزمِ اردو قطر کے خازن جناب غلام مصطفےٰ انجم نے جناب افتخار راغبؔ کا مختصر تعارف پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ دبستان قطر کے ایک گوہرِنایاب، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کے آسمان کے روشن آفتاب، بزمِ اردو قطر کی شان، سادگی و پرکاری کے ترجمان جناب افتخار راغبؔ کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہے۔ مارچ ۱۹۹۹ میں قطر میں آمد کے کچھ ہی دنوں بعد آپ بزمِ اردوقطر سے وابستہ ہو گئے اور گزشتہ ۷ برس سے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے اب تک تین شعری مجموعہ ہائے کلام ’لفظوں میں احساس‘، ’خیال چہرہ‘ اور ’ غزل درخت‘ منظرِعام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور چوتھی کتاب ’’یعنی تو‘‘ کی آج تقریبِ رونمائی ہے اور آپ کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے۔
صاحب صدر جناب جلیلؔ نظامی اور بزم کے سرپرست جناب سید عبد الحئی کے دستِ مبارک سے کتاب کا اجرا عمل میں جن کے ساتھ مہمانانِ خصوصی جناب حسیب الرحمان و جناب فاروق احمد اور صاحب کتاب جناب افتخار راغبؔ کے علاوہ بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران جناب ڈاکٹر فیصل حنیف، جناب شادؔ آکولوی، جناب فیروز خان، فیاض بخاری کمالؔ ، جناب وزیر احمد وزیرؔ اور جناب غلام مصطفےٰ انجم بھی شامل ہوئے۔ اجرا کے بعد انڈین ایسوسی ایشن آف بہار اینڈ جھارکھنڈ کی جانب سے جناب افتخارراغبؔ کو گلہائے عقیدت پیش کیے گئے جس میں ایسوسی ایشن کے صدر جناب محمد غفران صدیقی کے ساتھ کئی ذمہ داران بھی شامل تھے۔ جناب محمد یاور نے بھی راغبؔ صاحب کو بڑے ہی خلوص سے گلدستہ پیش کر کے مبارکباد پیش کی۔رسمی کاروائی کے بعد پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے شادؔ صاحب نے راقم الحروف (فیاض بخاری کمالؔ ) کو صاحبِ کتاب کو منظوم خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آواز دی جس کی حاضرین نے خوب پذیرائی کی۔ چند 
اشعار آپ کی خدمت میں:
بزمِ اردو کی شان ہیں راغبؔ 
پاسبانِ زبان ہیں راغبؔ 
شاعری میں مگن ہیں صبح و شام
چھٹی کس دن کی اور کیا آرام
وہ مہندس ہیں اپنے پیشے سے
ہیں اجالے ہر ایک گوشے سے
اپنے فعل و ہنر میں رخشندہ
بزمِ شعر و سخن میں تابندہ
مہمان خصوصی جناب حسیب الرحمان ندوی نے جناب افتخار راغبؔ پر لکھے چند مضامین سے اقتباسات پیش کیے۔ چند اقتباسات سے آپ بھی حظ اٹھائیے:
کلیم احمد عاجزؔ : ۔۔۔ تو میں افتخار راغبؔ صاحب کا کلام سن کر چونکاکہ اس عہد میں یہ آواز، یہ لہجہ اور یہ تیوَر اور یہ کلاسیکل اسلوب اس جوان کے ذوقِ شعر میں کیسے داخل ہو گیا؟ ۔۔۔افتخار راغبؔ کے متعلق میں ایک بات اور کہہ دوں۔ وہ بات اب شاید نو جوانوں میں کسی پر صادق آتی ہو۔ وہ یہ کہ ان میں فطری جوہرِ شاعری ہے۔ وہ شاعری پر محنت کریں نہ کریں اگر شغل ہی جاری رکھیں گے تو ان کے سامنے کشادہ اور افتادہ راہیں خود بخود نمایاں ہوتی رہیں گی۔ انھیں فطری طور پر زبان و بیان اور اسلوب پر گرفت نظر آتی ہے۔ یہ بہت خوش نصیبی کی بات ہے ۔ ۔۔۔(اقتباس مضمون: اَیں ۔۔۔ کس کی آواز ہے یہ ، کتاب: غزل درخت)
پروفیسر احمد سجّاد:۔۔۔فطرت میں جو سادگی و بے ریائی کے ساتھ حسن آفرینی ہوتی ہے وہی خصوصیات ایک فطری شاعر کے یہاں پائی جاتی ہیں،افتخار راغب ؔ کی خوش نصیبی کہ وہ ان خوبیوں سے متصف ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پوری شاعری سہل ممتنع کی شاعری ہے۔ صاف، سادہ، سلیس و فصیح مگر معنیٰ خیز اور فکر انگیز۔ اس لیے بہت آسان اور دلکش ہوتے ہوئے بھی جملہ تہداریوں پر عبور حاصل کرنا مشکل ہے۔ ہوا اور پانی کس قدر سہل الحصول ہیں مگر انہیں اپنی مٹھی میں قابو کرنا ناممکن ہوتا ہے یہی حال راغبؔ کی شاعری کا ہے کہ ہر شعر دل کو چھو تو لیتا ہے مگر اس کی چوپہل کیفیات کو قابو میں کرنا مشکل ہے۔۔۔۔
(اقتباس مضمون: ایک البیلا فطری شاعر ۔ افتخار راغبؔ ، کتاب: غزل درخت)
ڈاکٹر فیصل حنیف:۔۔۔اگر کسی شعر میں سادگی، سلاست، اصلیت اور واقعیت، جوش، جدت، اثر پذیری، آفاقیت، اسلوب ہو وہ یقینی طور پر اچھا شعر ہوگا۔ ان خوبیوں کی عدم موجودگی میں شعر کی اہمیت اور خوبصورتی کم ہو جائے گی۔ان خوبیوں کو پیمانہ بنا کر، راغبؔ کے کلام کو پرکھا جائے تو راغبؔ کی کتاب’غزل درخت‘ میں سرو سے سر سبز مصرعے اور گل سے رنگیں تر شعر کثیر تعداد میں ملیں گے۔ راغبؔ کے کلام میں، ان کی زبان آوری اور معجز بیانی کی بدولت آج کے زبان و ادب کے انحطاط کے دور میں زبانِ اردو کی درخشانی صورتِ مہرِ نیم روز کھل کر سامنے آتی ہے۔ افتخار راغبؔ دبستان قطر کے نمائندہ شاعر اور زبان و بیان کے اعتبار سے اپنے اکثر ہم عصر شعراء کے لیے قابلِ تقلید ہیں ۔ راغبؔ کا شعر بہت ہی نکھرا اور رواں ہوتا ہے۔ ان کا رنگِ شعر ایک ایسی خاص ادا رکھتا ہے کہ وہ اِس دبستان میں تنہا معلوم ہوتے ہیں۔ شاعری میں زبان و بیان پر انھیں قدرت ہے اور شعری عیوب و محاسن پر گہری نظر۔ راغبؔ کے کلام میں اچھا شعر ڈھونڈھنا نہیں پڑتا۔۔۔۔(اقتباس مضمون: دعوتِ کیف ، کتاب: غزل درخت)
پروفیسرعلیم اللہ حالیؔ :۔۔۔افتخار راغبؔ کے لہجے کی سادگی سب سے پہلے ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اکثر شعرا اپنی تخلیقی کمزوری کو چھپانے کے لیے خوب صورت تراکیب اور صناعانہ حربوں کا استعمال کرتے ہیں ، راغبؔ کی شاعری اپنی فطری سادگی کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے ۔ لیکن اس سلیس اور سادہ اندازِ اظہار میں جوہرِ سخن کچھ اس طرح چمک پیدا کر دیتا ہے کہ قاری چونک جاتا ہے ، ان کے یہاں لفظوں کے استعمال میں کفایت شعاری بھی ہے، کم سے کم لفظوں میں نہایت غیر صناعانہ انداز میں افتخار راغبؔ سہل ممتنع کی خصوصیت پیدا کر دیتے ہیں۔ ۔۔۔ (اقتباس مضمون: افتخار راغبؔ میری نظر میں)
فوزیہ ربابؔ : ۔۔۔راغبؔ صاحب کی شاعری میں عمدہ تراکیب، خوبصورت استعاراتی زبان، بے ساختگی کے ساتھ ساتھ مشکل و منفرد ردیفوں میں بھی بڑے عمدہ اشعار ملتے ہیں۔ ان کی پوری شاعری پر نظر ڈالی جائے تو نئی زمینوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو فقرہ یا لفظ ان کو پسند آجائے اسے ردیف بنا کر شاہ کار غزل کہنے پر ان کو دسترس حاصل ہے۔ ۔۔۔ایک خاص بات جو میں نے آپ کی شاعری میں محسوس کی وہ یہ کہ آپ کی شاعری میں حساسیت تو بدرجہ اتم موجود ہے مگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ احساس اور جنون کے درمیان جو ایک غیر مرئی لکیر ہے اس سے آپ خوب شناسا ہیں۔ ۔۔۔(اقتباس مضمون: روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج افتخار راغبؔ ، کتاب :یعنی تو)
ڈاکٹرحسن رضا صاحب: ۔۔۔راغبؔ کا اخلاقی شعور اسلامی تہذیب کی بنیادی قدروں سے حرارت لیتا ہے۔اس لیے وہ اپنی غزلوں میں اظہارِ محبت کے حوالے سے انسانی تعلقات میں نورِ ظلمات کی جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ ان تجربات سے جنم لینے والے تہہ در تہہ احساسات کو سادہ لفظوں میں اس طرح ڈھال دیتے ہیں کہ ہمارے احساسات ان کو گرفت میں لے سکیں اوروہ ہمارے لیے کسی پہلو سے بھی اجنبی نہ رہیں۔ اسی لیے ان کے اشعار سہل اور مانوس معلوم ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ان کا ذہن تخلیقی اعتبار سے بڑا ذرخیز ہے۔ آس پاس کی دنیا سے انہوں نے ایک تخلیقی رشتہ استوار کر لیا ہے۔چنانچہ ’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان‘‘ کی طرح ان کی شاعری میں رنگا رنگ احساسات ، ہر طرح کے جذبات گوں نا گوں تجربات سب تخلیقی عمل سے گزر کر ایک فطری معصومیت کے ساتھ شعر کے پیکرمیں ڈھلتے رہتے ہیں ۔ ان کے اظہار میں ایک بھولا پن ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری کی فضا میں گھن گرج نہیں ہے ،بلکہ مدھم لہجہ اور دھیمی آواز میں ان کی غزلیں بیمار و بے قرار دل کے لیے تسکین کا سامان فراہم کر دیتی ہیں۔ ۔۔۔راغبؔ کی غزلوں میں دورِ حاضر کے انسانوں میں جو دوری ،بے حسی اور بے مرووتی پائی جاتی ہے اس کا شاعرانہ اظہار بھی جابجا ہوا ہے اور ان غزلوں میں سیاسی ،کاروباری، سماجی اورذاتی تعلقات کی بے حسی سب شامل ہے۔ چنانچہ اس مطالعہ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ راغب ؔ کی شاعری میں آج کے ماحو ل کا حسی پہلو ،ارد گرد کی داخلی فضا ،اس کا دھواں، معاشرے کا آگ اور پانی کا کھیل، حق و باطل کی کشمکش، ہجرت اور بے مکانی کا احساس ،تنہائی کا ماتم، ہجر و وصل کی داستانیں، اکیسویں صدی کے انسانوں کے مخصوص حالات کی تپش اور اس سے پیدا ہونے والی بے چینی اور اضطراب سب کا اظہار غزل کے فورم میں ڈھل کر ایک نئے جمالیاتی تجربے کے ساتھ ہوا ہے ۔جس میں عام انسان شریک ہوکر بصیرت اور جمالیاتی مسرت حاصل کرسکتا ہے۔ (اقتباس مضمون : افتخار راغبؔ کی غزل گوئی ۔ ایک تنقیدی مطالعہ ، کتاب: یعنی تو)
شادؔ آکولوی صاحب نے جناب ڈاکٹر وصی الحق وصیؔ کو منظوم خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آواز دی۔ آپ نے فرمایا کہ:
لائقِ احترام ہے راغبؔ 
فن کا ماہِ تمام ہے راغبؔ 
اس کے اشعار سن کے دیکھو تو
شاعرِ خوش کلام ہے راغبؔ 
خوش فکر شاعر جناب مظفر نایاب نے اپنے مخصوص آواز و انداز میں صاحبِ کتاب کو منظوم ہدیۂ خلوص پیش کرتے ہوئے کہا کہ:
یہ خراج کا مصرع اک لطیف اشارہ ہے
سہلِ ممتنع ان کا قیمتی اثاثہ ہے
افتخار راغبؔ کو جانتے ہیں سب نایابؔ 
آسمانِ اردو کا خاص اِک ستارہ ہے
بزمِ اردو قطر کے چیئرمین اور گزرگاہِ خیال فورم کے بانی صدر و معروف نثر نگار جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے ’’یعنی تو‘‘ کے لیے لکھا ہوا اپنا مخصوص انداز کا مضمون پیش کیا جس کا عنوان بھی ’’یعنی تو‘‘ ہے جسے حاضرین خوب داد و تحسین سے نوازا۔ آپ کے تخیل نے اردو کے دو عظیم شعراء مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ اور شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کو ایک محفل میں رونق افروز کر دیا ہے جو جناب افتخار راغبؔ کی کتاب ’’یعنی تو‘‘ کے لیے منعقد کی گئی ہے۔افتخار راغبؔ اپنا کلام پیش کر رہے ہیں اور ہر شعر پر حضرتِ غالب اور ذوق داد و تحسین نیز تبصرہ فرما ررہے ہیں۔ چند مکالمے آپ بھی سماعت فرمائیں:
جب سے تم غزلوں کے محور ہو گئے
میرے سارے شعر خود سر ہو گئے
"طرزِ شعر نرا فسوں ہے۔ 'جب سے' نے عجب لطف دیا۔ ایسے شعر دل کو شگفتہ کرتے ہیں۔ "
"واہ مرزا اس کو کہتے ہیں کہ طبعیت نے راہ دی اور شاعر نے نباہ دی۔ شعروں کو محبوب کا ہم مزاج بنتے خال خال دیکھا ہے۔ محبوب کی خوبی کو شعر کی خوبی بنا دیا۔ واہ برخوردار!"
" خاقانیِ ہند ، مصرع گنگنانا بند کرو تو لڑکا اگلا شعر سنائے۔ "
پھول جیسے ہاتھ میں لے کر گلاب
اُس نے یوں دیکھا کہ پتھّر ہو گئے
سر اٹھا کر ظالموں سے بات کی
آج ہم اپنے برابر ہو گئے
"کیا شعر جوڑا ہے، کٹ کٹ کے جگر گرا جاتا ہے۔آج ہم اپنے برابر ہو گئے۔"
"میاں بصد افتخار یہ مضمون باندھ کر تم اپنے سے بڑے ہوگئے۔ برابر اس سے پچھلے شعر میں ہو چکے۔"
وادیِ عشق میں اب گم ہو جاؤں
مجھ میں بس جاؤ کہ میں تم ہو جاؤں
"بے ساختگی اور والہانہ پن قابلِ دید ہے۔ شعر کہنے والوں کے لیے صلائے عام ہے کہ طوافِ کوئے جاناں مسلسل تمنا کے پیچ و خم کو جب اور الجھا دے تو ایسی حدیثِ نو سوجھتی ہے۔ مرزا، تم کیا کہتے ہو؟"
"شعر گریباں گیر ہے۔ رنگینی اور نزاکت مل گئے۔عشق کی دنیا اسی سرمستی سے آباد ہے۔"
اس کے بعد جناب افتخار راغبؔ کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ آپ نے سب سے پہلے ’’یعنی تو‘‘ ردیف والی غزل پیش کی اور اُس کے بعد دو غزلیں سامعین سے بے ساختہ صفحہ نمبر پوچھ کر اس صفحے کی غزلوں سے سامعین کو خوب محظوظ کیا ۔ چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں:
پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ
مِل گیا عشق کو اِک حُسن محل یعنی توٗ
شہرِ خوباں میں کہاں سہل تھا دل پر قابوٗ
مضطرب دل کو ملا صبر کا پھل یعنی توٗ
غمِ دل ہو غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو
سب مسائل کا مِرے ایک ہی حل یعنی توٗ
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی توٗ
چشمِ حیرت کی تڑپ دُور کریں
خود کو اب اور نہ مستور کریں
فرطِ جذبات میں کیا کہہ بیٹھوں
لب کشائی پہ نہ مجبور کریں
اپنے ہونٹوں پہ سجا کر کسی دن
میرا اِک شعر تو مشہور کریں
آپ کو بھی مرا خیال نہیں
اب خوشی ہے کوئی ملال نہیں
کتنے احباب ہیں جواب بدست
جب مرے ہاتھ میں سوال نہیں
امن ہی چاہتے ہیں سب لیکن
کوئی مائل بہ اعتدال نہیں
اظہارِ خیال کے لیے سب سے پہلے مہمانِ خصوصی جناب فاروق احمد کو دعوت دی گئی۔ آپ نے جناب افتخار راغبؔ کو مبارکباد پیش کی اور ان کا مندرجہ ذیل مزاحیہ شعر پیش کرتے ہوئے مزاحیہ کلام کا مجموعہ جلد لانے کی گزارش کی:
موٹی عورت سے کیجیے شادی
ایک میں چار کا مزہ لیجیے
اسٹیج پر بزمِ اردو قطر کی نمائندگی کر رہے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحئی نے افتخار راغبؔ کے فن اور شخصیت پر بھرپور تبصرہ فرمایا۔ آپ نے کہا کہ راغبؔ بر وزنِ غالبؔ میرے انتہائی پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔ شاعر سے زیادہ راغبؔ میرے لیے ایک بہترین شخص کی حیثیت سے اہم ہیں۔ آپ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ تنقید خندہ پیشانی سے سنتے ہیں اور اس کا تسلّی بخش جواب دیتے ہیں یا تنقید معقول ہو تو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں۔ آپ کے اکثر اشعار میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کا عکس نظر آتا ہے۔ راغبؔ کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں ان کے کئی اشعار مختلف پروگراموں میں سنا کر ان سے زیادہ داد میں نے وصول کی ہے۔ جیسے یہ شعر کہ:
دنیا میں ہم پیڑ لگانا بھول گئے
جنت کے باغات کی باتیں کرتے ہیں
مہمانِ خصوصی جناب حسیب الرحمان نے فرمایا کہ چند سال قبل جب جناب افتخار راغبؔ کی متعلق عظیم شاعر مرحوم کلیم عاجزؔ کا ایک مضمون پڑھا تو میں حیران ہو گیا۔ اُس کے بعد میں نے ان کی پوری شاعری بہت سنجیدگی سے دوبارہ پڑھنا شروع کیا تب مجھے پتا چلا کہ ان کی شاعری کتنی اہم اور عظیم ہے۔ ناظمِ تقریب جناب شادؔ آکولوی نے دورانِ نظامت فرمایا کہ میری نظر میں افتخار راغبؔ کی شاعری قطر میں سب سے زیادہ کوٹِبل ہے اور سب سے زیادہ ان کے اشعار لوگوں کو یاد ہیں۔ آپ نے پورے پروگرام کے دوران افتخار راغبؔ تینوں کتابوں سے متعدد اشعار پیش کیے جن کو عوامی مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ جیسے:
تم نے رسماَ مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے
اک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں
ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں
جیسے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں
سارے فتنے کی جڑ رہا ہوں میں
مٹی کے ہیں مٹی میں مل جائیں گے
رہ جائے گا چاندی سونا سمجھے نا
جب آپ کو خدا پہ مکمل یقین ہے
حیرت زدہ ہوں آپ کے ذہنی تناؤ پر
ایک اندھے کی نصیحت راغبؔ 
پیار کرنا ہے تو کر آنکھوں سے
اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا
فن اگر لائقِ تحسین ہوا
خود بخود واہ نکل جائے گی
میں سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں
میں پھر اسکول جانا چاہتا ہوں
بے سبب راغبؔ تڑپ اٹھتا ہے دل
دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے
یردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔ 
اِس دور میں مفہومِ شرافت ہی الگ ہے
ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں
غم سے ترے نجات نہیں چاہتا تھا میں
آج پھر ہو گئی بڑی تاخیر
آج پھر لگ رہا ہے خیر نہیں
اُس لفافے میں بند ہوں راغبؔ 
جس پہ نام اور پتا نہیں معلوم
مہمانِ اعزازی جناب افتخار راغبؔ نے بے حد خوشی کا اظہار کیا اور پروقار اجرا کی تقریب منعقد کرنے کے لیے بزمِ اردو قطر کے تمام ذمہ داران و اراکین کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔
صدرِ تقریب جناب جلیلؔ نظامی نے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ اگر اختصار میں کہا جائے تو افتخار راغبؔ کی شاعری موہوبی اور اکتسابی صلاحیت کا حسین امتزاج ہے۔ انھیں روایت اور جدّت کے حسین امتزاج میں بھی امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ میں انھیں اٹھارہ سال سے دیکھ رہا ہوں۔ قطر چوبیس گھنٹے کا کوئی شاعر ہے تو وہ افتخار راغبؔ ہے۔ یہ شروع سے ہی اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ اپنے فن پرکام کر رہے ہیں۔ اپنے اسی اخلاص اور طبیعت میں انکساری کے سبب آج ان کا چوتھا مجموعہ کلام منظر عام پر آیا ہے جس کی عمدہ شاعری ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ذوقؔ نے کہا تھا:
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ 
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
صاحب صدر نے افتخار راغبؔ کی شاعری میں مزید ترقی کی دعا کی اور اس تقریب کے لے مبارک یاد پیش کی۔ آپ نے اس اہم پروگرام کی صدارت لیے منتخب کیے جانے پر بزمِ اردو قطر کا شکریہ بھی ادا کیا۔
بزم کے چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے مختلف تنظیموں کے نمائندو ں خصوصاً انڈیا اردو سوسائٹی قطر، حلقہ ادبِ اسلامی قطر، کاروانِ اردو قطر، انڈیا اردو سوسائٹی قطر، مجلس فروغِ اردو ادب قطر اور گزرگاہِ خیال فورم اور کثیر تعداد میں موجود اردو دوست و ادب نواز سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ تقریبِ رونمائی سے قبل عشائیہ کا بھی انتظام تھا۔ ممبئی سے تشریف لائے غزل سنگر جناب نیشاد احمد نے افتخار راغب ؔ کی کئی غزلیں بھی پیش کیں جن میں’ یعنی تو‘ اور’ تیرے سرخ ہونٹ پر‘ ردیف والی غزلوں کے ساتھ مندرجہ ذیل غزل بھی شامل تھی:
تحمّل کوچ کر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے
تڑپ کر کوئی مر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے
تمھیں کیا فرق پڑتا ہے کہ ماضی سے برا ہے حال
یہ دل فردا سے ڈر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے
جسے سیلابِ الفت نے امڈنے کی ادا بخشی
وہ دریا پھر اتر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے
مرے اجزائے ہستی میں ہے کس کے دم سے جزبندی
یہ شیرازہ بکھر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے
مروّت کی کہاں قائل تمھاری ضد کی بے مہری
مجھے پامال کر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے
تمھیں تو مسکرانا ہے دلِ راغبؔ دکھانا ہے
کوئی جاں سے گزر جائے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے

رپورٹ: سید فیاض بخاری کمالؔ 
نائب سیکریٹری، بزمِ اردو قطر

Friday 27 October 2017

Ghazal - Dr. Kaleem Ajiz

غزل
ڈاکٹر کلیم عاجز

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

دیوانہ گل قیدئ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو

مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو

زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو

وہ شوخ ستم گر تو ستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو



Thursday 26 October 2017

प्यारा जूजू

प्यारा जूजू 

अक़्सा उस्मानी 

एक हाथी था उसका  नाम जुजु था वह  एक छोटा हाथी था इसलिए वह  नासमझ था
 एक दिन छोटा  हाथी  अपने दोस्तो के साथ जंगल मे खेल रहा था।
 खेलते खेलते जु जु को पानी बहने  की आवाज़ आई।  वह  इस आवाज़ के पीछे जाने लगा। कुछ समय बाद उस ने देखा कि वह एक बहुत ही  खूबसूरत झरने  के बीच  खड़ा  है और झरने के  पास बहुत  सारी  परियाँ खेल रही हैं।
वह भी उनके साथ खेलने लगा। बहुत देर बाद  उसे याद आया कि  उसकी माँ उसका इंतेज़ार कर रही होंगी।
वह अपने घर के लिए निकला जब वो वापस पंहुचा तो  वहाँ कुछ  नही था।
 वो बहुत  डर गया और उसे अपने घर का रास्ता भी नही पता था वो चलते चलते थक गया और एक पेड़ के नीचे बैठ गया
उसे नींद आ गई। जब उसकी आंखें खुली तो उसने देखा शाम हो रही थी।  वह  फिर चलने  लगा  वह  एक ऐसी जगह पहुंचा  जहाँ  बहुत सारे फूल थे और तितलियाँ भी थी वो वहाँ  उन तितलियों के पीछे भाग रहा था और हँस रहा था।
वह बहुत  खुश था भागते भागते वो थक गया था। वह वहीं  बैठ गया। थोड़ी देर बाद बारिश होने लगी। वह  एक पेड़ के नीचे  बैठ कर यह  नज़ारा देखने लगा कि  कैसे एक बारिश की बूंद फूलों की  पत्तियों पर गिरती है तो ऐसा   लगता  है कि  पत्तों पर  मोती हो यह देखते देखते वह भूल गया के उसे  घर जाना है।
 थोड़ी देर बाद वह  उठा और चलने लगा।  उसे रास्ते में  एक दूसरा  हाथी मिला जिसका नाम जॉनी था। वह बहुत  प्यारा  था।  जुजु उसके साथ खेलने लगा। खेलते खेलते  उसे याद आया कि  उसकी माँ परेशान हो रही होगी।  वो फिर रोने लगा उसे लगा अब वह अपनी माँ  से कभी नहीं मिल पाए गा।  अचानक उसे पीछे से आवाज़ आई "जुजु " उसने पीछे मुड़ कर देखा उसकी माँ खड़ी थी वह  उसे ढूंढ रही थी वो रोते रोते चिलाया " माँ ! मैं यहां हूँ "  वह  दौड़ कर अपनी माँ  के पास गया। उसकी माँ  ने कहा चलो घर चले।  वह लोग घर आगए। उसने फैसला क्या की अब वह अपनी माँ को छोड़ कर कहीं नहीं जाये गा।

(Story & Illustration: Aqsa Usmani)

Wednesday 25 October 2017

رقص کرتی مچھلیاں

کیا آپ نے اپنے ڈرائنگ روم میں رنگ برنگی مچھلیوں کو رقص کرتے دیکھا ہے؟ یہ مچھلیاں خواہ سمندر کی گہرائیوں میں ہوں یاایکویریم میں اپنی حرکتوں سے آپ کو لطف اندوز کرتی ہیں۔ یہ آپ کے ڈرائنگ روم میں ہوں یا کسی میوزیم میں یہ بچوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ ان کی رنگا رنگی آپ کے ذہن و دماغ کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور ان کا رقص آپ کا دل جیت لیتا ہے۔ سر پر رنگوں کا تاج سجائے ان شہزادیوں کا رقص آئینہ کی ٹیم نے  کولکتہ میوزیم میں عکس بند کیا ہے۔ پیش ہے قارئین کے لئے اس کی ایک جھلک۔

Wednesday 11 October 2017

ترانۂ بہار ۔۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی

حضرت جوش ملیح آبادی کی ایک مشہور  نظم قارئین کی نذر ہے۔ نظم کا آہنگ قابل دید ہے۔


 


Saturday 25 March 2017

ز مہجوری برآمد جان عالم

حضرت جامی ؒ

ز مہجوری برآمد جان عالم
ترحم یا نبی اللہ ترحم
(آپﷺ کی فرقت میں دنیا کی جان لبوں پر آگئی
رحم فرمائیے یارسول اللہ! رحم فرمائیے)
نہ آخر رحمۃ للعالمینی
ز محروماں چرا فارغ نشینی
کیا آپﷺ سارے عالم کے لئے رحمت نہیں ہیں؟پھر محروموں سے یہ بے اعتنائی کیوں ہے؟)
بروں آور سر از برد یمانی
کہ رومی تست صبحِ زندگانی
(یمنی چادر سرسے ہٹا کر اپنا جمال دکھائیے کیونکہ آپﷺ کا چہرہ ہی زندگانی کی صبح ہے)
شبِ اندوہ مارا روز گرداں
ز رویت روز ما فیروز گرداں
 (ہماری شب ِ غم کودن میں تبدیل کردیجئے،اپنے جلوے سے زندگانی کو کامرانی عطافرمائیے)
بہ تن در پوش عنبر بوئے جامہ
بہ سر بربند کافوری عمامہ
(ہماری چارہ سازی کو آنے کے لئے) معنبر لباس پہن لیجئے اور سراقدس پر کافوری عمامہ کو جگہ دیجئے)
ادیم طائفی نعلین پا کن
شراک از شتۂ جانہائے ما کن
 (طائف کے ادیم کی بنی ہوئی نعلین پہن لیجئے، اس کے تسموں کی جگہ ہمارے رشتۂ جاں کو کام میں لائیے)
فرود آویز از سر گیسواں را
فگن سایہ بہ پا سرو رواں را
(سراقدس سے دونوں طرف معنبر گیسو لٹکا لیجئے اور اپنے مناسب قد کا سایہ اپنے قدموں پر ڈالئے، یعنی ہماری مدد کو چلے آئیے)
جہانے دیدہ کردہ فرش راہند
چو فرش اقبال پا بوس تو خواہند
 (یارسول اللہ! ایک جہان آپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے فرش کی طرح آپ کی قدم بوسی کے شرف کا مشتاق ہے)
ز حجرہ پائے در صحن حرم نِہ
بہ فرق خاک رہ بوساں قدم نِہ
(حجرے سے نکل کر حرم نبوی کے صحن میں تشریف لائیے اور خاکِ راہ چومنے والوں کے سرپر قدم رکھیے)
اگرچہ غرق دریائے گناہیم
 فتادہ خشک لب برخاک راہیم
 (اگرچہ ہم گناہوں کے دریا میں ڈوبے ہوئے ہیں پھر بھی ( آپ ﷺ کی) راہ میں پیاسے پڑے ہوئے ہیں)
تو ابرِ رحمتی آں بہ کہ گاہے
کنی برحال لب خشکاں نگاہے
 ( آپﷺ ابررحمت ہیں کیا خوب ہو کہ کبھی ہم تشنہ لبوں کے حال پر بھی نظرفرمائیں)
بہ حسن اہتمامت کار جامی
طفیل دیگراں باید تمامی
 ( کیا عجب کہ آپﷺ کی نگاہِ کرم سے دوسروں کے طفیل میں جامی کا کام بھی بن جائے۔)

Thursday 23 March 2017

صفائی سے بہتر نہیں کوئی شئے

صفائی سے بہتر نہیں کوئی شئے

تحریر: صحبہ عثمانی


پیارے بچّوں!
آج میں آپ سے صفائی کی اہمیت پر بات کرنے جا رہی ہوں ـ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گندگی سبھی بیماریوں کی جڑ ہے ـ گندگی کی وجہ سے مچھر پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کے کاٹنے سے بیماری پیدا ہوتی ہے ـ
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کے چاروں طرف جو گندگی پھیلی ہوتی ہے اس میں آپ کا کتنا بڑا حصہ ہے ـ ہم اپنی تمام خرابیوں کی ذمہ داری سرکار پر ڈال کر اپنے ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں لیکن کیا ہم غورکرتے ہیں کہ آپ کی گلی محلے میں جو گندگی ہے اس کے لیے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں ـ
میں اکثر دیکھتی ہوں کہ ابھی صفائی والا گلی  میں جھاڑو لگاکر گلی سے جاتا بھی نہیں کہ کسی نا کسی چھت سے کوڑے کا ایک پیکٹ سڑک پر آپ کا منہ چڑھانے لگتا ہے ـحیرت ہے کہ ہمیں اپنی اس حرکت پر کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی اس جانب توجہ دلائے تو ہم الٹا اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ـ
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہمارے گھروں میں اتنا  کوڑا کیوں پیدا ہوتا ہے ـپہلے ہمارے علاقے میں کوڑے کی صرف ایک جھنڈی ہوا کرتی تھی جہاں اگر کوڑا نہ اٹھایا جائے تو گندگی کا انبار لگ جایا کرتا تھا اور وہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا ـ اب صورت حال یہ ہے کہ علاقے میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ـ جس کا جہاں دل چاہتا ہے کوڑا ڈال دیتا ہے اور پھر اس کا دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس جگہ کوڑے ڈالنے لگتے ہیں ـ نتیجہ یہ ہے کہ پورا محلہ ہی کوڑا گھر میں تبدیل نظر آتا ہےـ جگہ جگہ کوڑے کا ڈھیر لگنے میں صفائی کرنے والے وہ ملازم بھی کم ذمہ دار نہیں جو آپ کے گھر سے تو کوڑا لے جاتے ہیں لیکن وہ اسے کہیں قریب ہی خالی جگہ دیکھ کر ٹھکانے لگا دیتے ہیں ـ نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے گھر کا کوڑا ایک بار پھر قریب ہی آپ کی طبیعت مکدّر کر رہا ہوتا ہےـ
ہم صفائی کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر صفائی میں ہمارا حصہ صفر ہوتا ہے یہاں مجھے اپنے شہر اور گاؤں میں فرق صاف نظر آتا ہے ـ مجھے اپنے گاؤں کی گلیاں یاد آتی ہیں جہاں گندگی نام کی چیز نہیں ہوتی ـ گھر مٹّی کے ہوتے ہیں لیکن مٹّی سے ہی لیپ کر ان کی دیواریں اتنی چکنی بنا دی جاتی ہیں کہ آپ انھیں دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں ـ وہاں کوئی صفائی والا نہیں آتا ـ گھر کی عورتیں اور لڑکیاں ہی صفائی کا سارا کام کرتی ہیں ـ وہ اپنے گھر کی دیواروں پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بناتی ہیں تاکہ ان کا گھر خوبصورت لگے ـ اور صبح سویرے وہ اپنے پورے گھر میں جھاڑو دیتی ہیں اور اپنا دروازہ اور گھر کے باہر کے حصے کی صفائی کرتی ہیں ـ اپنی گلی میں جھاڑو لگاتی ہیں  اور جو کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے اسے کہیں دور گڈھے میں پھینک آتی ہیں ـ پوری بستی یہی کام کرتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر جانب ایک صاف ستھرا ماحول ہوتا ہے ـ آپ ننگے پیر اپنے گھر کر باہر کہیں بھی جا سکتے  ہیں لیکن  کیا آپ اپنے شہر میں اس بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں ۔
پیارے بچّو!
اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنے آس پاس کی صفائی میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں ـ سب سے پہلے تو آپ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ  اپنے گھر میں کم سے کم کوڑا اکٹھاہو نے دیں ـ
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں کم سے کم پولتھین کا استعمال کریں ـ پلاسٹک کی یہ تھیلیاں سب سے زیادہ گندگی پھیلاتی ہیں اور نقصان دہ بھی ہوتی ہیں ـ ان تھیلیوں کے کھانے سے  نہ جانےکتنے پالتو جانور اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ـ یہ تھیلیاں سیور میں جاکر اسے بھی جام کر دیتی ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برسات کے دنوں میں نالیوں کا پانی سڑکوں پر آجاتا ہے ـ آپ کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے ـ جب آپ مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کو چھینٹ پڑجانے اور ناپاک ہو جانے کا ڈر ستانے لگتا ہے ـ                          لہٰذا اس سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے والدین اور بڑے بھائی بہنوں کو اس بات کے لئے رضامند کریں کہ وہ بازار سے کپڑوں کے تھیلے میں سامان لائیں ـ ان تھیلوں کو آپ گھر میں ہی دھوکر صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں اورپلاسٹک  کی بازاری تھیلیوں سے اپنے سامان کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں ـ
اگر آپ پلاسٹک کی تھیلیوں کو درکنار کرنا شروع کریں گے تو آپ کے گھروں میں کوڑا کرکٹ کی مقدارخود بخود کم ہونےلگے گی۔ دوسرے کوڑے مثلاً سبزیوں کے چھلکے وغیرہ آسانی سے ری سائکل ہو جاتے ہیں وہ پلاسٹک کی تھیلیوں کی طرح آپ کی جان کا کال نہیں بنتے ـ تجارتی پیشہ وروں اپنے فائدے کے لئے ایک مصیبت سماج کے سر منڈھ دی ہے جو سراسر نقصان کا سودہ ہے ـ اگر پلاسٹک کی تھیلیاں نہ ہوں گی تو آپ ان میں کوڑے بھر کر سڑک پر نہیں پھیکیں گے ـ اور کوڑے والا آپ کی ڈسٹ بن سے براہ راست کوڑا لے جائے گا اور انہیں میونسپلٹی کی مقرر کردہ جگہ پر ٹھکانے لگائے گاجہاں سے میونسپلٹی کی گاڑیاں ان کو ری سایکل کرنے کے لئے لے جا سکیں گی ـ
بچوں! ان باتوں سے آپ نے کیا سیکھا؟ آج میں صرف آپ سے باتیں کرنا چاہتی ہوں اس لئےکہ آپ کی آنکھوں میں مستقبل کا خواب سجتا ہےـ میں جانتی ہوں کہ آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور آپ مختلف  مقامات کی تصاویر اپنے موبائل اور کمپیوٹر یہ دیکھتے ہیں ـ مغربی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی صفائی آپ کے دلوں میں ایک شوق پیدا کرتی ہے کہ کاش میرا ملک بھی اتنا ہی صاف ستھرا  ہوتا ـ ہمارا ملک بہت ہی خوبصورت ہے لیکن ہم نے اپنے ہاتھوں اس میں داغ لگا رکھا ہے ـ ہم کہیں کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے آس پاس کی جگہ کو صاف رکھنا اپنا فرض نہیں سمجھتے ـ ہمیں اگر تھوکنا ہوتا ہے تو کنارے کی جگہ تلاش نہیں کرتے بلکہ اپنے سامنے کی سڑک یا دیوار گندی کر دیتے ہیں ـ
پیارےبچوں! آپ اس بات کا بیڑہ اٹھائیں کہ آپ اپنے آس پاس گندگی نہیں ہونے دیں گے اس گرمی میں مچھر کو اپنے پاس پیماریاں لے کر نہیں آنے دیں گے ـ جہاں  کہیں بھی گندگی دیکھیں   اپنے والدین کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ اس کے لئے آواز اٹھائیں ـ سڑک پر کسی کو کوڑا نہ پھینکنے دیں ـ محبت سے ان کو صفائی کی اہمیت بتائیں اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنے  میں اپنے والدین کی مدد کریں ـ کوشش کریں کہ گھر کے اندر اور گھر کے آس پاس گندا پانی جمع نہ ہو ـ جس میں مچھرپیدا ہو ـ
گھر کے کولر کا پانی بھی روز بدلیں ـ صفائی بہت بڑی نعمت ہیں ـ کیا گندگی دیکھ کر آپ کےاندر کوفت پیدا نہیں ہوتی ـ صفائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں تاکہ اور دیگر بہت ساری بنیادی باتیں اس سے وابستہ ہیں نماز سے قبل وضو صرف اسی لیے کیا جاتا ہے کہ نماز کے لیے پاکیزگی اور صفائی ضروری ہے...

اپنے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کیجئے اور دوسروں کے بھروسے مت رہئے ـ تبھی آپ ایک صاف ستھری اور صحت مندزندگی گزار پائیں گےـ



Wednesday 22 March 2017

تبصرہ خیابان خیال


بہ شکریہ چوتھی دنیا

خوش خبری