آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 17 February 2019

Kundan Lal Sehgal - NCERT Solutions Class VIII Urdu

کندن لال سہگل
شرت دت 

سوچیے اور بتائیے
1. شرت چند چٹرجی کے ناول پر بنی پہلی فلم کا کیا نام تھا اور وہ کس زبان میں تھی؟
جواب: شرت چند چٹرجی کے ناول پر بنی پہلی فلم کا نام 'دنیا پاونا' تھا اور یہ بنگالی زبان میں تھی۔

2.بی این سرکار نے اپنی دوسری فلم کس زبان میں بنائی؟
جواب: این سرکار نے اپنی دوسری فلم ہندوستانی زبان میں بنائی۔

3. کے ایل سہگل نے اپنی کس خوبی سے سرکار صاحب اور بورال دا کو متاثر کیا؟
جواب:کے ایل سہگل نے اپنے گانے سےسرکار صاحب اور بورال کو متاثر کیا۔

4. ماتھا کی شکنیں گہری ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب: ماتھے کی شکنیں گہری ہونے سے مراد ہے کسی بات کا پسند نہ آنا، کسی سوچ میں ڈوبے ہونا یا کسی بات پر ناراض  ہونا۔

5. کے ایل سہگل صاحب کو دیکھ کر آترتھی صاحب نے کیا کہا؟
جواب: کے ایل صاحب صاحب کو دیکھ کر آترتھی صاحب نے کہا''اس لمبے سوکھے بدن کے ساتھ کیا خاک ایکٹنگ کریں گے۔دیکھنے سے لگتا ہے جیسے بانس پر کپڑے لٹکا دیے گئے ہوں۔نہ صورت نہ صحت۔"

6. آتھرتی کی باتوں کا سہگل پر کیا اثر ہوا؟
جواب: آترتھی کی باتوں سے سہگل کی حالت خراب ہوگئی تھی۔ آترتھی کا ایک ایک لفظ ان کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ پہلے وہ یہ سوچ کر خوش تھے کہ انہیں اپنی منزل مل گئی لیکن اب لگا کہ جسے وہ اپنی منزل سمجھ رہے تھے وہ محض ایک چھلاوہ تھا۔

7. موسیقی تو ایک مسلسل ہنر ہے بیٹے' یہ آواز سہگل نے کب محسوس کی؟
جواب: جب سہگل کی خود اعتمادی ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی تب انہوں نےجموں کے پیر بابا کی یہ آواز محسوس کی۔

8. سہگل میں خود اعتمادی کیسے لوٹی؟
جواب: جموں کے پیر بابا کی یہ آواز کہ موسیقی تو ایک مسلسل ہنر ہے بیٹے اور اس میں منزل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو بس ریاض اور ذکر جس کا کوئی خاتمہ نہیں۔ آخر دم تک اسے نبھانا پڑتا ہے۔ اگر تم یہ کر سکے تو تمہاری روح کو سکون ملے گا۔ سلمان پیر کی یہ بات یاد آتے ہی سہگل کو سچ مچ بہت سکون ملا اور ان کی خود اعتمادی جو ذرا دیر پہلے ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی پھر سے لوٹ آئی۔

9. آترتھی صاحب سہگل سے کیوں مطمئین ہو گئے؟
جواب:سہگل کی خود اعتمادی اور آرتھر صاحب کو دیے گئے ان کے اس جواب کو سن کر آترتھی صاحب مطمئیں ہوگئے کہ ”آپ تو پارس ہیں  لوہے کو چھولیں تو سونا بن جائے۔پھر میں آپ کی فلم کا ہیرو کیوں نہیں بن سکتا۔آپ ہی بتائیے۔میرے سر پر آپ کا ہاتھ ہوگا تو میں آسمان کو زمین پر اتار لاؤں گا۔“

11. سہگل کے رونے کی کیا وجہ تھی؟
جواب:جب کیمرے کا سامنا ہوا تو سہگل گھبرا گئے اور ان  سے بار بار غلطی ہو تی گئی۔آٹھ نو بار ری ٹیک ہوچکا تھا اور آترتھی صاحب بھی غصّے میں اسٹوڈیو سے باہر نکل گئے۔ یہ دیکھ کر سہگل رونے لگے۔

11. آترتھی کن خوبیوں کے مالک تھے؟
جواب: آترتھی ایک بہت اچھے ڈائریکٹر تھے۔وہ نفسیات کے ماہر تھے اور بہت ہی صبر سے کام لیتے تھے۔

12. کے ایل سہگل کو کن وجہوں سے شہرت حاصل ہوئی؟
جواب: سہگل کو ان کی آواز اور اداکاری کے دم پر زبردست شہرت حاصل ہوئی۔

صحیح جملوں کے سامنے صحیح اور غلط کے سامنے غلط کا نشان لگائیے۔
1. کے ایل  سہگل کی پہلی فلم کا نام ماں کے آنسو تھا۔(غلط)
2. ہیرو کے رول کے لیے مناسب کردار موجود تھا۔(غلط)
3. کے ایل سہگل بہت اچھا گاتے تھے۔(صحیح)
4. کے ایل سہگل ایک تندرست جسم کے مالک تھے۔(غلط)
5. سلمان پیر کی بات سے سہگل کو سچ مچ بہت دکھ ہوا۔(غلط)

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
دقیانوسی(پرانے زمانے کا): سہگل کے ماں باپ دقیانوسی خیالات کے مالک تھے۔
انتخاب(چننا): وہ صدارتی انتخاب میں کمیاب ہوگیا۔
مکالمہ: فلموں کے لیے مکالمہ لکھنا آسان نہیں ہوتا۔
پارس: پارس اگر لوہے کو چھو لے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔
توازن: اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔
حوصلہ افزائی: استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تناؤ: امتحان کے دنوں میں بچّے تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے۔
توازن : غیر متوازن
احساس کمتری : احساس برتری
مناسب : ۔نامناسب
سکون : بے سکون
مطمئین : غیرمطمئین
اعتماد : بےاعتماد
کلک برائے دیگر اسباق

Qurratul Ain Haider - NCERT Solutions Class VIII Urdu

قرۃ العین حیدر
خلاصہ:
قرۃ العین حیدر اردو ادب میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں ۔ وہ سید سجادحیدریلدرم کی بیٹی تھیں ۔ان کی پیدائش 20 جنوری 1928 کو علی گڑھ میں ہوئی ۔ قرۃالعین حیدر کوادب کا شوق ورثہ میں ملا تھا۔ سجادحیدر یلدرم نے سرسید تحریک میں شامل ہو کر انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے رجسٹر ار مقرر ہوئے ۔ انہوں نے ترکی زبان سےکئی ترجمےاردو میں کئے اور کچھ کہانیاں بھی لکھیں۔ 
قرۃ العین حیدر نے ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں حاصل کی ۔لکھنؤ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ قرۃ العین حیدر ر نے پہلی کہانی" چوہیا " گیارہ سال کی عمر میں لکھی۔ انہوں نے لندن میں بی بی سی ریڈ یو پر بھی کام کیا۔ ان کا پہلا ناول 'صنم خانے ‘ 1949 میں چھپا۔ سفینۂ دل، آگ کا دریا ، آخرشب کے ہم سفر ، گردش رنگ چمن ، اور چاندنی بیگم ان کے مشہور ناول ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ستاروں سے آگے ، 1947 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تین مجموعے شیشے کا گھر پت جھڑ کی آواز اور روشنی کی رفتار چھپے۔
 انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں ،لومڑی کے بچے ، بہادر ، میاں، ڈھینچوں کے بچے ، شیر خان ، اور ہرن کے بچے وغیر ہ لکھیں ۔ انہوں نے علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔
 حکومت ہند نے انہیں پدم شری ، پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا۔ انہیں ملک کا سب سے متاز ادبی انعام گیان پیٹھ دیا گیا۔
سوچیے اور بتائیے
1. ۔قرۃ العین حیدر کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی تھی؟
جواب: قرۃ العین حیدر کی پیدائش 20جنوری 1928کو علی گڑھ میں ہوئی تھی۔

2. قرۃ العین حیدر کے والدین کے نام لکھیے۔
جواب: ان‌کے والد سید سجاد حیدر یلدرم تھے اور والدہ نذر سجاد حیدر تھیں۔

3. سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ میں کس عہدے پر فائز تھے؟
جواب: سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ میں رجسٹرار کی حیثیت سے مقرر کیےگئے تھے۔

4. قرۃ العین حیدر کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی؟
جواب: قرۃ العین حیدر کی ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں ہوئی ۔

5. قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی کس عمر میں لکھی؟
جواب: قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی گیارہ سال کی عمر میں لکھی۔

6. قرۃ العین حیدر کا مشہور ناول 'آگ کا دریا' کس سنہ میں شائع ہوا؟
جواب: قرۃ العین حیدر کامشہور ناول 'آگ کا دریا ' 1959 میں شائع ہوا۔

7. قرۃ العین حیدر کو کون کون سے اعزاز ملے؟
جواب: قرۃ العین حیدر کو پدم شری اور پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا ۔انہیں گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

8. قرۃ العین حیدر کا انتقال کب ہوا؟
جواب: قرۃ العین حیدر كا انتقال21اگست2007،نوئیڈا میں ہوا۔ 

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. قرةالعین حیدر کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی تھی۔
2. قرةالعین حیدر کی ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں ہوئی تھی۔
3. کہانی 'بی چڑیا' رسالہ پھول میں شائع ہوئی تھی۔
4. ناول آگ کا دریا سال 1959 میں شائع ہوا تھا۔
5. قرةالعین حیدر کو 1990 میں ملک کا سب سے بڑا انعام گیان پیٹھ دیا گیا۔
6. قرة العین حیدر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں دفن ہوئیں۔

جملے بنائیے۔
ولادت  : قرۃ العین حیدر کی ولادت علی گڑھ میں ہوئی ۔ 
ترجمہ  : انگریزی کہانیاں اردو میں ترجمہ کرکے لکھی جاتی ہیں۔ 
ڈگری  : میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم. اے. کی ڈگری حاصل کی۔ 
ناول  : مجھے ناول پڑھنے کاشوق ہے۔ 
تہذیب  : ہندوستان میں گنگا جمنا تہذیب مانی جاتی ہے 
لاحقہ  : جو لفظ تنہا استعمال نہیں ہوتے 'لاحقہ' کہلاتے ہیں۔ 

دار اور گار سے بننے والے تین تین لفظ لکھیے۔

دار
زمین دار
عزت دار
وفادار
رشتہ دار
مالدار
جاندار
سمجھدار
حقدار


گار
مدد گار
خدمت گار
روز گار
کلک برائے دیگر اسباق

Chacha Kababi - NCERT Solutions Class VIII Urdu

چچا کبابی دلّی والے
ملا واحدی
Courtesy NCERT

جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دکان دار نہیں بیٹھتا تھا، شام کے پانچ چھے بجےایک کبابی صاحب دکان لگایا کرتے تھے اور رات کے بارہ ایک بجے تک کباب بیچتے تھے۔ ان کا نام مجھے معلوم نہیں۔ چچا کبابی کہلاتے تھے۔
چچا کبابی غدر 1857 کے دس بارہ سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے اور 1947 سے چند سال قبل انتقال کر گئے ۔ دلّی کے سیخ کے کباب اور گولے کے کباب مشہور ہیں۔ چچا کبابی دلّی کے ممتاز کبابی تھے۔ کباب بنانے کے اعتبار سے بھی اور انوکھی طبیعت کے اعتبار سے بھی۔ کباب بنانے کے کمال پر انھیں بڑا گھمنڈ تھا؛ اور طبیعت کا انوکھا پن تو اس سے عیاں ہے کہ اپنے لیے وہ جگہ انتخاب کی تھی جہاں گا ہک کو آنا ہو تو جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی طرف کے دسیوں کبابیوں کو چھوڑ کر آئے ۔ ایک گیارہ برس کی لڑکی آگ کا تاؤ رکھنے کی غرض سے ہر وقت پنکھا ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہتی تھی۔ غالباً ان کی بیٹی تھی ۔ ذرا تاؤ کم و بیش ہوا چچا کبابی کا پارہ چڑھا۔ غصہ ناک پر رکھا رہتا تھا، لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔
گاہکوں کو باری باری کر کے کباب دیتے تھے۔ اگر آپ ان کے ہاں اول مرتبہ تشریف لائے ہیں اور ان کی طبیعت سے واقف نہیں ہیں، اور دوسرے گاہکوں کی نسبت آپ کی حیثیت بلند ہے، صاف ستھرا پہنتے ہیں ، تانگہ یا موٹر روک کر کباب خریدنے اتر پڑے ہیں، آپ نے خیال کیا کہ مجھے ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہاتھ بڑھایا، روپے تھمائے اور فرمایا۔ ڈیڑھ روپے کے کباب ذرا جلدی ۔‘ جلدی کا لفظ سنتے ہی چھا کہانی کا مزاج بگڑ جائے گا۔ وہ روپے واپس کر دیں گے اور کہیں گے۔ ”حضور ! جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔“
ایک روز ایک ذرا زندہ دل سے شخص چچا کبابی سے الجھ گئے ۔ انھوں نےچچا کبابی کے اس فقرے پر فقرہ جڑ دیا کہ ”بھائی ! اور سے ہی لے لیں گے، اللہ نے تمھارے کبابوں سے بچایا نہ جانے ہضم ہوتے یا کوئی آفت ڈھاتے۔“ چچا کبابی تلملا اٹھے۔ کہنے لگے ۔ ”حضور! کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گھل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف بہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے، جو پہلےآیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔“
چچا کبابی دھونس نہیں برداشت کرتے تھے اور اپنے اصول کے مقابلے میں تعلقات کو بھول جاتے تھے۔ عزیز اور دوست بھی ان سے بغیر باری کے کباب نہیں لے سکتے تھے۔ آپ جائے، ان کو سلام کیجیے۔ جواب دیں گے، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ پانوں کی ڈبیہ سامنے رکھ دیجیے۔ بے تکّلف پان کھالیں گے۔ زردہ خود مانگیں گے لیکن نامکن ہے کہ سلام یا پان سے چچا کہانی پگھل جائیں ۔ کباب باری پر ہی دیں گے۔

ایک دفعہ میری موجودگی میں تیرہ چودہ برس کا ایک لڑکا آیا اور بولا:
”چار پیسے کے کباب دے دو“ چچا کبابی نے کہا ”نہیں بھائی میں تجھے کباب نہیں دوں گا۔“
اب وہ لڑ کا سر ہو رہا ہے اور خوشامدیں کر رہا ہے اور چچا کبابی انکار پر انکار کیے جاتے ہیں۔ جب بہت دیر اس حجت بازی میں گزر گئی تو کسی نے ہمت کر کے پوچھ لیا۔ ”چچا، کیا بات ہے۔ اسے کباب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘
کہنے لگے ” میاں! یہ پیسے چرا کر لاتا ہے۔ گھر سے لاتا ہو یا کہیں اور سے ، روز چار پیسے کے کباب کھا جاتا ہے۔ یہیں بیٹھ کر دیکھو نا! اس کی صورت ۔ جا بیٹا جا۔ عادت کہیں اور جا کر بگاڑ میں تجھے چار پیسے کی خاطر تباہی کے راستے پر نہیں لگاؤں گا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ تیرے ماں باپ چار پیسے روز تجھے کباب کھانے کے واسطے دیتے ہوں گے۔“
جو لوگ ان کی دکان پر تازے اور گرم گرم کباب کھا لیتے تھے، ان سے خوش ہوتے تھے۔ پیسے تھما یئے اوربتا دیجیے کہ اوپر جامع مسجد کے دالان میں انتظار کر رہا ہوں ۔ کباب بھیج دینا یا آواز دےدینا۔ ایسے لوگوں کے کباب گھی سے بگھارتے ، کبابوں میں بھیجا ملاتے۔ پیاز، پودینہ اور ہری مرچیں چھڑ کتے اور اپنے آدمی کے ہاتھ بھجوا دیتے ۔ اللہ بخشے مولانا راشد الخیری کو چچا کبابی کے ہاتھ کے کباب بے حد مرغوب تھے۔ وہ میرے ساتھ ہوتے تو میں بھی جامع مسجد چلا جاتا اور وہیں کباب منگا لیتا تھا۔ تازے کبابوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔


سوچیے اور بتائیے
1. چچا کبابی اپنی دوکان کہاں لگایا کرتے تھے؟
جواب: چچا کبابی جامع مسجد کے پھُلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دوکاندار نہیں بیٹھتا تھا اپنی دوکان لگایا کرتے تھے۔

2. چچا کبابی کی شخصیت کی کا خوبیاں تھیں؟
جواب: چچا کبابی کو کباب بنانے میں کمال حاصل تھا۔ وہ غصہ ور شخصیت کے مالک تھے لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔

3. چچا کبابی اپنے گاہکوں کو کباب دینے کے لیے کیا طریقہ اپناتے تھے؟
جواب: چچا کبابی اپنے گاہکوں کوباری باری کباب دیا کرتے تھے۔اور اگر کوئی جلدی کرتا تو ان کا پارہ چڑھ جاتا اور وہ اس سے کہتے کہ جو پہلے آیا ہے اسے پہلے کباب ملے گا اورحضور جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔

4. چچا کبابی نے زندہ دل شخص کو کیا جواب دیا؟
جواب: چچا کبابی نے زندہ دل شخص  سے کہا'' حضور کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا، لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یاجل جاتے ہیں۔ اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے،جو پہلے آیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔"

5. چچا کبابی نے بچّے کو کباب دینے سے انکار کیوں کیا؟
جواب: چچاکبابی نے بچّے کو کباب دینے سے اس لیے انکار کردیا کہ وہ بچّہ کباب کے لیے پیسے چراکر لاتا تھا۔ اور چچا کبابی نہیں چاہتے تھے کہ اسے چوری کی عادت لگ جائے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
عیاں(ظاہر): اس کا درد اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔
انتخاب(چننا): غزلوں کا اشاعت کے لیے انتخاب  کیا گیا۔
مجال(ہمت): کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ چچا کبابی سے جلدی کباب مانگ لے۔
ترجیح: چچا کبابی کباب دینے کے لیے پہلے آنے والے کو ترجیح دیتے۔
تباہی(بربادی): جنگ سے تباہی ہوتی ہے۔
مرغوب: کباب دلی والوں کی مرغوب غذا ہے۔
حجّت(بحث): حجّت کرنا چچا کبابی کی عادت تھی۔
تلملانا(تڑپنا): چچا کبابی غصّے سے تلملا گئے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Wednesday 13 February 2019

Hawai Qile - NCERT Solutions Class VI Urdu

ہوائی قلعے
شوکت تھانوی

سوچیے اور بتائیے
1. منشی جی تار کے انتظار میں کیوں بے چین تھے؟
جواب: منشی جی نے لاٹری کا ٹکٹ خریدا تھا اور وہ اس کے نتیجہ کے لیے تار کے انتظار میں تھے کیوں کہ انہیں لگ رہا تھا کہ اس بار ان کی لاٹری ضرور نکلے گی۔

2. منشی جی کو سات تاریخ کا انتظار کیوں تھا؟
جواب: اس لیے کہ سات تاریخ کو لاٹری کا نتیجہ نکلنے والا تھا۔

3. منشی جی نے لاٹری کا ٹکٹ خرید کر کیا کیا منصوبے بنا رکھے تھے؟
جواب: منشی جی نے ایک کوٹھی، بہت ساری جائدادیں، باغ، نوکر چاکر اور موٹر گاڑی خریدنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

4. منشی جی کی بیوی ان کا مذاق کیوں اڑا رہی تھیں؟
جواب: منشی جی کی بیوی ان کا مذاق اڑا رہی تھیں کہ وہ شیخ چلیوں کی طرح منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ انہیں لاٹری نکلنے کا یقین نہیں تھا۔

5. تار کی خبر سن کر منشی جی پر کیا اثر ہوا؟
جواب: تار کی خبر سن کر منشی جی گھبراہٹ کا شکار ہو گئے اور انہیں اختلاج ہوگیا۔

6. منشی جی تار کیوں نہیں کھولنا چاہتے تھے؟
جواب: منشی جی تار اس لیے نہیں کھولنا چاہ رہے تھے کہ انہیں لگ رہا تھا وہ اتنی بڑی خوشی رداشت نہ کر پائیں گے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ پتہ نہیں اس تار میں کتنی رقم لکھی ہے۔

6. منشی جی نے دستخط کرنے کی جگہ کیا لکھ دیا تھا؟
جواب:منشی جی نے دستخط کرنے کی جگہ لکھ پتی لکھ دیا تھا۔

7. تار کس کا تھا اور اس میں کیا لکھا تھا؟
جواب: یہ تار محمود بھائی کا تھا جس میں لکھا تھا کہ بھابھی جان کل شام کی ٹرین سے آرہی ہیں۔

8. اس ڈرامے میں سب سے دلچسپ کردار کون سا ہے اور کیوں؟
جواب: اس ڈرامے میں سب سے دلچسپ کردار منشی جی کا ہے جو ایک لاٹری کا ٹکٹ خرید کر ہوائی قلعہ بنانے لگتے ہیں۔ وہ شیخ چلی کی طرح منصوبہ بنانے لگتے ہیں۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے۔
1. یعنی معلوم بھی ہے آج سات تاریخ ہے ۔آج ہی تو تار آے گا اس لاٹری کا۔
2. راستہ میں تار گھر کا کوئی آدمی تو لال بائیسکل پر نظر نہیں آیا؟
3.اچھا تم خیالی پکاتے جاو مگر میں تو ہانڈی دیکھوں۔
4.بیٹھے بٹھاے آخر یہ بڑے آدمیوں کی سی بڑی باتیں بلا وجہ تو نہیں ہو سکتیں۔
5. میں تو باغ کے مالک کے لیے بھی اس قسم کی چارپائیاں مناسب نہیں سمجھتا۔
6. نہیں تم کھولو۔ مجھے تو کچھ اختلاج سا ہو رہا ہے۔

Hamare Ek Mashhoor Science daan - NCERT Solutions Class VI Urdu

ہمارے ایک مشہور سائنس داں
سوچیے اور بتائیے
1. بنگال کو برطانوی حکومت نے ۔کب اور کتنے حصے میں تقسیم کیا تھا؟
جواب: 1905 میں برطانوی حکومت نے بنگال کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بانٹا۔

2. انگریز گورنر کی آمد پر میگھ ناد ساہا اور ان کے دوستوں نے اپنے غصے کا اظہار کس طرح کیا؟
جواب: میگھ ناد ساہا اور ان کے دوست اس سخت ہدایت کے باوجود کے انگریز گورنر کی آمد پر سب کو اسکول میں موجود رہنا ہے یہ لوگ اسکول نہیں گئے۔ 

3. میگھ ناد ساہا کا وظیفہ کیوں بند ہو گیا تھا؟
جواب:اسکول سے نام کاٹ  دیے جانے کی وجہ سے میگھ ناد ساہا کا بند ہوگیا تھا۔

4. میگھ ناد ساہا کے والد انہیں کیوں نہیں پڑھانا چاہتے تھے؟
جواب: میگھ ناد ساہا کے والد کی پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس سے گھر کا خرچ مشکل سے نکلتا تھا اس لیے وہ چاہتے تھے کہ مگھ ناتھ بچپن سے ہی گھر کے لیے کچھ کمانا شروع کردے۔

5. میگھ ناد ساہا کا نام دنیا بھر میں ان کے کس کام کی وجہ سا مشہور ہوا؟
جواب: ایسٹرو فزکس کے ایک مسئلہ کو حل کرنے کی وجہ سےوہ دنیا بھر میں مشہور ہو گئے۔

6. میگھ ناد ساہا کے استادوں نے ان کی تعلیم کو جاری رکھنے کی کیا وجہ بتائی؟
جواب:میگھ ناد ساہا کے استادوں نے تعلیم جاری رکھنے کی وجہ ان کی ذہانت اور ان کا ہو نہار ہونا بتایا۔

7. تعلیم مکمل کرنے کے بعد میگھ ناد ساہا فزکس کے لیکچرر کہاں مقرر ہوئے؟
جواب: تعلیم مکمل رنے کے بعد میگھ ناد ساہا کلکتہ یونیورسٹی کے سائنس کالج میں فزکس کے لیکچرر ہو گئے۔

8. ایسٹرو فزکس میں کن چیزوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے؟
جواب: ایسٹرو فزکس میں ستارو کی نوعیت، ان کی گرمی، ان کی اندرونی بناوٹ اور کن کن چیزوں سے مل کر وہ بنے ہیں وغیرہ کا مطالعہ کرتی ہے۔

9. سانس کے میدان میں کام کرنے کے علاوہ میگھ ناد ساہا نے اور کیا کیا اہم کام کیے؟
جواب: ساہا ایک سماجی کارکن تھے۔انھیں ہمیشہ غریبوں کا دھیان رہتا تھا جب ملک تقسیم ہوا تو مشرقی بنگال سے آنے والوں کو آباد کرانے میں بھی اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے سیلاب زدہ لوگوں کے لیے راحت رسانی کا کام بھی کیا انھوں نے سیلاب پر قابو پانے کے بھی کئی منصوبے تجویز کیے۔

نیچے دیےہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
وطن پرستی : ہر ہندوستانی میں وطن پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
ہونہار : ساہا ایک ہونہار طالب علم تھے۔
مسئلہ : اس مسئلہ کا حل نکالنا ضروری ہے۔
نوعیت : اس کام کی کیا نوعیت ہے۔
موضوع : اس موضوع پر بحث مناسب نہیں۔
منصوبہ : حکومت دشمن پر حملے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
حکومت : حکومتیں
حصّوں : حصّہ
مواقع : موقع
دوست : دوستوں
قیمتیں : ۔قیمت
قربانی : قربانیاں
اقوام : قوم
استادوں : استاد

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
نوجوان : ضعیف
دوست : دشمن
آزاد : غلام
بھلائی : برائی
محبت : نفرت
اندرونی : باہری
گرمی : ۔سردی
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

O Subah Ke Sitare - NCERT Solutions Class VI Urdu

او صبح کے ستارے
سوچیے اور بتائیے۔
1.  اس نظم میں شاعر کس سے بات کر رہا ہے؟
جواب: اس نظم میں شاعر صبح کے ستارے سے بات کر رہا ہے۔

2.  صبح کا ستارہ کس طرف جارہا ہے اور اس کی منزل کہاں ہے؟
جواب:صبح کا ستارہ آسمان کی طرف جارہا ہے۔ اس کی منزل آسمان ہے۔

3.  صبح کے ستارے کو کس بات کا ڈر ہے؟
جواب: صبح کے ستارے کو اس بات کا ڈر ہے کہ اب سورج نکل آئے گا اور وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔

4.  سورج کے آنے کا کیا مطلب ہے؟
جواب: سورج کے آنے کا مطلب ہے صبح کا ہوجانا اور ستاروں کا چھپ جانا۔

5.  صبح کا ستارہ کیوں مسکرا رہا ہے؟
جواب: صبح کے ستارےکی مسکراہٹ کا راز یہ ہے کہ اس وق سماں بہت خوبصورت ہو جاتاہے۔

6. اس نظم میں زمانے کو خاموش اور بے ہوش کیوں کہا گیا ہے؟
جواب:صبح کے وقت خاموشی چھائی رہتی ہے اور لوگ نیند میں ڈوبے ہوتے ہیں۔

7.  صبح کے ستارے کے تھرتھرانے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: صبح کا ستارہ سورج کی آمد کی وجہ سے تھرتھرانے لگتا ہے کہ اب سورج کی شعائیں اس کے وجود کو نظروں سے اوجھل کر دیں گی۔

8.  شاعر صبح کے ستارے کو کیوں گلے لگانا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر صبح کے ستارے کو اس لیے گلے لگانا چاہتا ہے کہ وہ اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے اپنا دل کو لبھانے والا دوست سمجھتا ہے۔

نیچے دیے الفاظ اور محاوروں کو الگ الگ کیجیے اور انہیں جملوں میں استعمال کیجیے
الفاظ
جلوہ : آسمان پر ستاروں کا جلوہ تھا۔
منزل : وہ اپنی منزل کی سمت جارہا تھا۔
سمت : اس نے مغرب کی سمت سفر شروع کیا۔
جھلملانا : ۔آسمان میں تارے جھلملا رہے ہیں۔
محاورے
جی لبھانا : صبح کا ستارہ شاعر کا دل لبھاتا ہے۔
منہ اترنا :  تارے کو چھپتے دیکھ شاعر کا منہ اتر گیا۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Kabuli Wala - NCERT Solutions Class VI Urdu

کابلی والا
سوچیے اور بتائیے
1. مُنّی کون تھی؟
جواب: مُنّی ایک پانچ برس کی بچّی تھی۔

2. مُنّی نے بابو جی سے سبودھ کی کیا شکایت کی؟
جواب: بابو جی سبودھ کوّے کو کاگ کہتا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔

3. کابلی والے کا حلیہ کیسا تھا؟
جواب: کابلی والا لمبے ڈیل ڈول والاتھا وہ ڈھیلے ڈالے کرتا پہنتا اور صافہ باندھے رہتا تھا۔

4. کابلی والے کو دیکھ کر مُنّی کیوں گھبرا گئی؟
جواب: اس  کی ماں اس سے کہا کرتی تھی کہ کابلی والے بچوں کو تھیلے میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ اس لیے کابلی والے کا حلیہ دیکھ کرمُنّی ڈر گئی۔

5. مُنّی کی ماں اسے کس بات پر ڈانٹ رہی تھی؟
جواب:مُنّی کی ماں اس کے پاس اٹھنی دیکھ کر اسے ڈانٹ رہی تھی  کہ اس نے کابلی والے سے اٹھنی کیوں لی۔

6. وطن جانے سے پہلے کابلی والا گھر گھر کیوں جاتا تھا؟
جواب: وطن جانے سے پہلے کابلی والاگھر گھر جاکر اپنا روپیہ و صول کرتا۔

7. کابلی والے کو جیل کیوں بھیجا گیا؟
جواب: کابلی والے نے غصّے میں چھری سے ایک چپراسی پر حملہ کردیا تھا۔

8. کابلی والا مُنّی کو اپنی جھولی سے کیا دیا کرتا تھا؟
جواب: کابلی والا مُنّی کو اپنے چھولے سے میوے نکال کر دیا کرتا۔

9. کابلی والے کے پاس اپنی بیٹی کی کیا نشانی تھی؟
جواب: کابلی والے کے پاس ایک کاغذ  پر اس کی بیٹی کے چھوٹے سے ہاتھ کانشان تھا۔ اپنی بیٹی کی اس نشانی کو چھاتی سے لگاکر رحمت اتنی دور سے میوہ بیچنے کلکتہ آیا تھا۔

10. مُنّی کو دیکھ کر کابلی والے کو کیا یاد آیا؟
جواب: مُنّی کو دیکھ کر کابلی والے کو اپنی بیٹی یاد آگئی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. میں اپنے ناول کا سترہواں باب لکھ رہا تھا۔
2. کابلی والے سے میرا تعارف اس طرح ہوا۔
3. کابلی والے کا نام رحمت تھا۔
4. پیچھے سے لڑکوں اور راہ گیرں کا مجمع چلا آرہا تھا۔
5. کابلی والا کہتا ''مُنّی سسرال جاؤگی"
6.  رحمت گھونسہ تان کر کہتا میں تو  سُسرےکو ماروں گا۔
7.رحمت گھر گھر جا کر اپنا روپیہ وصول کرتا۔
8. میں نے کہا آج تو میں بہت مصروف ہوں۔
9. اس کاغذ پر ایک چھوٹے سےہاتھ کا نشان تھا۔
10. اس کو یکایک احساس ہوا کہ اس کی لڑکی بھی اتنے دنوں میں بڑی ہو گئی ہوگی۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
صافہ : کابلی والے نے صافہ باندھ رکھا تھا۔
ڈیل ڈول : وہ لمبے ڈیل ڈول کا مالک تھا۔
خوف : وہ خوف سے پردے کے پیچھے چھپ گئی۔
مصروف :  وہ بہت مصروف ہوگیا۔
احتیاط : ہر کام احتیاط سے کرو۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے

دوست : دشمن
بے ایمان : ۔ایمان دار
خوشی : غم
خوش نما : بد نما
اُلٹا : ۔سیدھا
انکار : اقرار

محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
دام وصول کرنا : دوکاندار نے میوؤں کے پورے دام وصول کیے۔ 
لین دین کرنا : کاروبار میں لین دین جاری رہتا ہے۔
وار خالی جانا : پٹھان کا وار خالی چلا گیا۔
حق مارنا : ہمیں کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے۔
مال دبا لینا : بنیے نے مہاجن کا سارا مال دبا لیا۔


واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیں
باتیں : بات
آنسو : ۔آنسوؤں
راہ گیر : ۔راہ گیروں
میوہ : میوے
سپاہیوں : ۔سپاہی
چادر : ۔چادریں
مہمانوں : مہمان
برسوں : برس

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Hamare Tehwaar - NCERT Solutions Class VI Urdu

ہمارے تہوار
سوچیے اور بتائیے
1. تہواروں سے ہمیں کیا پیغام ملتا ہے؟
جواب: سبھی تہوار ہمیں خوشی اور امن کا پیغام دیتے ہیں۔

2. ہولی کا تہوار کس واقعے کی یاد دلاتا ہے؟
جواب: کہا جاتا ہے کہ ہرن کشیپ نام کا ایک ظالم راجہ تھا۔ اس نے اپنے بیٹے پرہلادکو جلانے کی کوشش کی لیکن وشنو جی کی مہربانی سے وہ بچ گیا۔ اس کوشش میں پرہلاد کی بوا ہولیکاجل کر ختم ہو گئی۔ اس دن کی یاد میں ہولی منائی جاتی ہے۔

3. دیوالی کیوں منائی جاتی ہے؟
جواب: کہا جاتا ہے کہ دیوالی کا تہوار پلی بار اس وقت منایا گیا تھا جب رام چندر جی  لنکا کے راجہراون کو ہراکر اپنی راجدھانی اجودھیا میں داخل ہوئے تھے۔

4. اونم  کا تہوار کس طرح مناتے ہیں؟
جواب: اونم پھولوں کا تہوار ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں اگست یا ستمبر میں منایا جاتا ہے۔۔ اس دن وہاں کے باشندے راجہ مہابلی کے زمانے کے امن و سکون، خوش حالی اور آپسی محبت کو یاد کرکے گیت گاتے ہیں۔ اس موقعے پر عورتیں اور لڑکیاں گھڑوں کو صاف ستھرا کرکے خوش نما پھولوں سے سجاتی ہیں۔راجہ مہابلی اور وشنو دونوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ پوجا کے بعد گھر کے بزرگ چھوٹوں اور دوستوں کو تحفے میں کپڑے دیتے ہیں۔

5. پونگل کے لفظی معنی کیا ہیں اور یہ کس علاقہ کا تہوار ہے؟
جواب:پونگل کے لفظی معنی ہیں 'چاول کی کھیر' جو اس موقع پر غریبوں کو کھلائی جاتی ہے اور یہ تمل ناڈو کا خاص تہوار ہے۔

6.عید کا تہوار کب اور کیوں منایا جاتا ہے؟
جواب:عید الفطر جے میٹھی عید کہتے ہیں مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔یہ رمضان کا مہینہ ختم ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ جب رمضان کی آخری تاریخ کو نیا چاند دکھائی دیتا ہے تو اگلے دن بڑی دھوم دھام سے عید منائی جاتی ہے۔

7. عید الاضحیٰ کا تہوار کس قربانی کی یاد دلاتا ہے؟
جواب: عید الاضحیٰ مسلمانوں کا ایک مقدس تہوار ہے۔ یہ ذی الحجّہ کی دسویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اسے بقرعید اور عید قرباں بھی کہتے ہیں۔ خدا نے پیغمبر حضرت ابراہیم کو بشارت دی کہ اگر تم مجھ سے سچّی عقیدت رکھتے ہو تو میرے نام پر اپنے بیٹے کو قربان کردو۔ حضرت ابراہیم فوراً حضرت اسمٰعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ گلے پر جیسے ہی چھری پھیری کہ اللہ کے حکم سے حضرت اسمٰعیل کی جگہ ایک دنبہ آگیا۔ اسی قربانی کی یاد میں بقرعید منائی جاتی ہے۔

8. کرسمس ڈے کسے کہتے ہیں؟
جواب: 25 دسمبر حضرت عیسیٰ کی ولادت کا دن ہے۔ عیسائی اسے کرسمس ڈے اور بڑا دن بھی کہتے ہیں۔

9. گرونانک جینتی کیوں منائی جاتی ہے؟
جواب:گرو نانک جینتی سکھوں کا خاص تہوار ہے۔سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کی پیدائش کے دن یہ تہوار منایا جاتا ہے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
ناراضگی : ناراضگی میں کسی کا دل دکھانا ٹھیک نہیں۔
استقبال : فوجیوں کا دھوم دھام سے استقبال ہوا۔
قابل دید : یہ منظر قابل دید تھا۔
پیغام : بھارت سب کو امن  کا پیغام دیتا ہے۔
خوش حالی : ملک میں خوش حالی آگئی ہے۔
پُر کیف : صبح کا نظارہ پُرکیف تھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
خوشی : غم
فتح : شکست
رہائی : گرفتاری
نیکی : بدی
نفرت : محبت
خوش حال : بدحال
غریب : امیر

Barish Ka Pehla Qatra - NCERT Solutions Class VI Urdu

بارش کا پہلا قطرہ
اسماعیل میرٹھی
سوچیے اور بتائیے
1. ہر قطرے نے اپنے کو ناچیز اور غریب کیوں کہا ہے؟
جواب: قطروں نے اپنے کو ناچیز اور غریب اس لیے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ تنہا ان کی کوئی بساط نہیں اور وہ گرم زمین پر گر کر ختم ہو جائیں گے۔

2. دلاور قطرے نے کیا کہا؟
جواب: دلاور قطرے نے کہا کہ آؤ میرے پیچھے قدم بڑھاؤ اور پورے میدان کو سیراب کردو۔

3. شاعر نے سخی کس کو کہا ہے؟
جواب: شاعر نے سخی  پانی کے قطرے  دلاور کو کہا ہے۔

4. سخی کی جرأت دیکھ کر دوسرے قطروں نے کیا کیا؟
جواب: سخی کی جرأت دیکھ کر سبھی قطرے اس کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ قطروں کا تار بن گیا اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔

5. شاعر اس نظم میں کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ قو کم سے پانی کے قطروں کی طرح اتفاق کرلے اور ایک سیل رواں بن جائے۔
وہ بتانا چاہتا ہے کہ اتفاق میں بڑی طاقت ہے جس طرح کمزور پانی کا قطرہ سیلاب لا سکتا ہے تم بھی زمانے کی تقدیر بدل سکتے ہو۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں
قطرہ : بارش کا پہلا قطرہ زمین پر گرا۔
خطرہ : زمین پر خطرہ تھا۔
دلاور : قطرہ بڑا دلاور تھا۔
شناور : وہ بہت بڑا شناور تھا۔
جانفشانی : اس نے جانفشانی سے محنت کی۔
جرأت : قطروں نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔
سخی : نیک آدمی بہت سخی تھا۔
پیروی : سبھی قطروں نے دلاور کی پیروی کی۔
قوم : قوم کو قطرے سے سبق سیکھنا چاہیے۔
مصرعوں کو مکمل کیجیے
1. ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
2. مٹی، پتھر تمام ہیں گرم
3. ایک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
4. میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
5. قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
6. اے صاحبو قوم کی خبر لو
ان لفظوں کے متضاد لکھیے
گرم : ٹھنڈا
سخی : کنجوس
زمین : آسمان
اتفاق : اختلاف
واحد سے جمع اور جمع سے واحد لکھیے
قطرہ  : قطرے، قطرات
خطرہ  : خطرات 
پتھروں  : پتھر 
اقدام  : قدم 
قوم  : اقوام 
خبریں  : خبر 
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Rabindra Nath Tagore - NCERT Solutions Class VI Urdu

رابندر ناتھ ٹیگور

رابندر بابو 7 مئی 1861 ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار مہارشی دیوندر ناتھ ٹیگور کے چودھویں اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ گھر والے محبت سے انھیں "رابی" کہتے تھے۔
آپ کے والد مہارشی ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ ان کی ساری زندگی ایشور بھکتی اور غریبوں کی مدد کرنے میں گزری ۔ اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔ بنگالی، سنسکرت اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی زبانیں بھی اچھی خاصی جانتے تھے۔ سچے دیش بھگت تھے اور شب و روز قوم و ملک کی بہبودی کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
ٹیگور کے خاندان میں بچّوں کی تعلیم و تربیت اسی مخصوص ڈھنگ سے دی جاتی تھی جس پر صدیوں ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو فخر رہا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا منھ ہاتھ دھو کر درشن کے لیے اکھاڑے پر پہنچ جانا، اکھاڑے سے نکلتے ہی اسکول چلا جانا۔
تمام دن اسکول میں گزار کر سہ پہر کو جب یہ بچّے واپس آتے تو گھر پر پڑھانے والوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور رات 9 بجے انھیں قید یوں کی طرح سونے پر مجبور کر دیا جاتا۔
ٹیگور بنگال کے ممتاز ترین امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر اس خاندان میں اپنے بچوں کی تربیت کا ڈھنگ بھی بس نمونے کا تھا۔ بچّوں کے لیے نہ تو قیمتی کپڑوں کا اہتمام تھا، نہ اچّھے اچّھے مرغن کھانوں کا ، نہ عیش و آرام کا وہ تمام سامان فراہم کیا گیا تھا جس نے آج نسلوں کو برباد کر دیا ہے۔ خود ٹیگور معمولی قمیص اور پاجامہ پہنتے۔ عام طور سلیپروں کا ایک جوڑا ملا کرتا تھا۔ گھر پر زیادہ تر ننگے پاؤں رہتے تھے۔
ابھی ٹیگور آٹھ ہی برس کے تھے کہ ان کے بڑے بھائی "جیوتی ناتھ" نے ان سے کہا "رابی تم شعر کیوں نہیں کہتے؟"
ٹیگور نے پہلی نظم "کنول" پر لکھی۔  نظم کیسی تھی کچھ پتہ نہیں لیکن ایسا ضرور تھا کہ اسے دیکھ کر جیوتی ناتھ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے۔ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی ہمت بڑھائی اور سب سے پہلے بنگالی بحروں کے اتار چڑھاؤ پر تعلیم دی۔
ٹیگور کی شاعری کی یہ ابتدا تھی۔ اس کے بعد جب نارمل اسکول پہنچے تو باقاعدہ سرخ رنگ کی کاپی پر شعر  لکھنے لگے۔ اکثر فرصت کے وقت یہ اپنے شعر جیوتی بابو کو سنایا کرتے تھے۔ جیوتی ، جب انھیں اپنے دوستوں سے ملاتے تو ہمیشہ شاعر کی حیثیت سے تعارف کراتے۔ اس ہمّت  افزائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ جلد شاعر کی حیثیت سے روشناس ہو گئے۔
بات کچھ اور آگے بڑھی ٹیگور کی شہرت نارمل اسکول کے سپرنٹنڈنٹ تک پہنچی۔ انھوں نے ٹیگور کے شعر سن کر انھیں اپنے خاص شاگردوں میں شامل کرلیا۔
ٹیگور کی زندگی جس ادھُوری تعلیم کے دور سے گزر رہی تھی وہ ٹیگور کے خاندان کے لیے کسی طرح اطمینان بخش نہ تھی۔ اپنے بڑے بھائی جیوتی ناتھ کے ساتھ انھیں انگلستان تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ یہ 1877ء کی بات ہے ٹیگور کو پہلےتو ایٹن کالج پھر یونیورسٹی کالج لندن میں داخل کرا دیا گیا۔ جہاں وہ کئی مہینے تک پڑھتے رہے لیکن جلد ہی ان کا دل اُچاٹ ہو گیا۔ تعصب ، کالے گورے کا فرق، غلام اور آقا کا امتیاز، ان سب باتوں کو ان کا دل برداشت نہ کر پایا اور ایک مرتبہ پھر انھوں نے اپنا سارا دھیان شعر و شاعری اور ادبی مشغلوں کی طرف لگا دیا۔ اس زمانے میں انھوں نے نظم سے زیادہ نثر لکھنے کی کوشش کی۔
انگلستان میں کچھ دن ٹھہرنے کے بعد جیسے گئے تھے ویسے واپس آئے کوئی ڈگری ساتھ نہ لائے۔ خاندان کے لوگ ناراض تھے۔ اس لیے،ان کوحکم ملا کہ شیلدان پہنچ کر جاگیر کا انتظام کریں۔
یہاں انھیں پہلی بار اس ہندوستان کی غریبی اور افلاس، گاؤں والوں کی بھل منساہٹ اور انسانیت کو گہری نظر سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں انھیں غریب کاشت کاروں کی سادہ زندگی سے سابقہ پڑا۔ یہاں وہ غریبوں اور مزدوروں کے دکھ درد میں شریک رہے اور جاگیر کا انتظام اتنا اچّھا کیا کہ سبھی مطمئن ہو گئے ۔ یہاں ان کی شاعری کو نئی زندگی ملی۔ ان کے بہت سے ڈرامے اور گیتوں کے مجموعے اسی شیلد ان کی پیداوار ہیں۔
ٹیگور کو موسیقی سے بھی قدرتی لگاؤ تھا۔ آپ نے بچپن سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ انھنوں نے نہ صرف گیت لکھے بلکہ انھیں دلکش دھنوں پرگا کر سنایا۔ انھوں نے اپنے گیتوں کی دھنیں خود بنائیں۔ ان کی بنائی ہوئی دھنیں
رفتہ رفتہ بنگال کی سب سے زیادہ مقبول سنگیت بن گئیں۔ انھیں رابندر سنگیت کا نام دیا گیا۔ بنگال کی موسیقی میں رابندر سنگیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔
ٹیگور کی ایک اور بات سن کر آپ کو بڑا اچنبھا ہوگا۔ انھوں نے ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر میں مصوری سیکھی۔ بھلا اتنی عمر کو پہنچ کر انسان کسی نئے فن کو تو کیا سیکھتا اپنے اس فن سے بھی اکتا جاتا ہے جس کا وہ ماہر ہوتا ہے لیکن ٹیگور نے عمر
کے اسی حصّے میں ایک نئے فن کو سیکھا پوری توجہ اور محنت سے سیکھا اور ابھی اسے سیکھے ہوئے دس بارہ سال بھی نہ ہوئے تھے کہ مصوری کے ماہروں نے انھیں مصوری کے پیغمبر کا درجہ دیا۔ ٹیگور کی تصویریں زیادہ تر قدرتی مناظر پر ہیں، جنگل کے جانوروں پر ہیں اور پرندوں پر ہیں ۔ ان تصویروں کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے۔
ٹیگور ہندوستان کے نہیں ، دنیا کے بہت بڑے شاعر تھے۔ بہت بڑے سنگیت کار تھے۔ بہت بڑے مصور تھے۔ سب باتوں کے ساتھ ساتھ انسان بھی تھے، بہت بڑے انسان، جس سے ملتے برابری سے ملتے۔ بہت اخلاق سے ملتے۔ جس کسی سے ملتے اس کی حیثیت کے مطابق باتیں کرتے۔
انھوں نے ایک زمین دار یا جاگیر دار کے گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ لیکن ان کی سادہ زندگی قابل رشک تھی۔ ساده لباس پہنتے تھے۔ کھانے میں کسی قسم کی تکلف نہیں ۔ ہمیشہ سادہ غذا کھاتے تھے۔ اپنے شاگردوں کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔ "سادہ اور قدرتی اصولوں پر زندگی بسر کرو‘‘
ٹیگور کو استاد کی حیثیت سے بہت اونچا مقام حاصل ہے۔ ہندوستان کے پرانے رشیوں کی طرح انھوں نے ہمارے لیے ایک لازوال تر کہ چھوڑا ہے اور وہ ہے شانتی نکیتن ۔ انھوں نے کلکتہ سے نوے 90 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیاد ڈالی ۔ یہاں بچّوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اس اسکول کو چلانے میں انھیں بڑی مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری کا گھر بیچا، بیوی کے زیورات فروخت کیے اور تھوڑی بہت امداد باہر سے حاصل کی۔ خدا خدا کر کے اسے وشوا بھارتی کی شکل دی اور اب اس ادارے کو یو نیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔
  لافانی شاہ کار گتانجلی کا خالق اور قومی ترانہ       کا جنم داتا 7 اگست 1941ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ ارتھی کے ساتھ کئی میل لمبا جلوس تھا۔ اس جلوس میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی تھے، عیسائی بھی تھے اور سکھ بھی تھے۔ دوسرے ملکوں کے وہ لوگ بھی تھے جو کلکتہ میں رہتے تھے۔ اور یہ سب شاعر اعظم کے آخری درشن کے لیے بے تاب تھے، بے قرار تھے۔
سوچیے اور بتائیے
1. رابندر ناتھ ٹیگور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب: رابندر ناتھ ٹیگور کلکتہ میں پیدا ہوئے۔

2. رابندر بابو کو گھر والے کس نام سے پکارتے تھے؟
جواب: گھر والے محبت سے انھیں رابی کہکر پکارتے۔

3.ٹیگور خاندان میں تعلیم و تربیت کا کیا طریقہ تھا؟
جواب: ٹیگور کے خاندان میں بچوں کی تعلیم وتربیت اسی مخصوص ڈھنگ سے دی جاتی تھی جس پر صدیوں ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو فخر رہا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا، ۔نہ ہاتھ دھو کر درشن کے‌لیے اکھاڑے پر پنچ جانا، اکھاڑے سے نکلتے ہی اسکول چلا جانا۔شام میں یہ بچے واپس آتے تو گھر پر پڑھانے والوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا اور رات ٩ بجے انھیں قیدیوں کی طرح سونے پر مجبور کردیا جاتا۔

4. ٹیگور نے شاعری کس کے کہنے پر شروع کی؟
جواب: ٹیگور نے اپنے بڑے بھائی جیوتی ناتھ کے کہنے پر شاعری شروع کی۔

5. انگلستان تعلیم حاصل کرنےکے لیے ٹیگور کو کیوں بھیجا گیا؟
جواب: ٹیگور کی ادھوری تعلیم ان کے گھر والوں کے لیے اطمینان بخش نہیں تھی اس لیے ان کو ان کے بڑے بھائی جیوتی ناتھ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان بھیج دیا گیا۔

6.ٹیگور تعلیم چھوڑ کروطن واپس کیوں آگئے؟
جواب: تعصب، کالے گورے کا فرق،غلام اور آقا کا امتیاز، انسب باتوں کو ان کا دل برداشت نہ کرپایا اور ان کا پڑھائی سے دل اچاٹ ہوگیا اور وہ وطن واپس آ گئے۔

7. موسیقی سے ٹیگور کی دلچسپی کس طرح ظاہر ہوتی ہے؟
جواب:ٹیگور کو موسیقی سے قدرتی لگاؤ تھا۔ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔انھوں نے نہ صرف گیت لکھے بلکہ انھیں گایا بھی۔ اور اپنے گیتوں کی دھنیں بھی خود بنائیں۔ ان کی بنائی ہوئی دھنوں کو رابندر سنگیت کا نام دیا گیا۔

8. شیلدان جاکر ٹیگور کو کیا دیکھنے کا موقع ملا؟
جواب: شیلدان میں ٹیگور کو پہلی بار ہندوستان کی غریبی اور افلاس دیکھنے کا موقع ملا یہاں ان کا سابقہ غریب کاشتکاروں کی سادہ زندگی اور ان کی انسانیت سے ہوا۔ یہاں وہ غریبوں اور مزدوروں کے دکھ درد میں شریک رہے۔

9. ٹیگور نے مصوری کس عمر میں سیکھی؟
جواب: ٹیگور نے 60 سال سے زیادہ کی عمر میں مصوری سیکھی۔

10. ٹیگور نے کیسی زندگی گزاری؟
جواب: ٹیگور نے سادہ زندگی گزاری وہ سادہ لباس پہنتے۔کھانے میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے۔ ہمیشہ سادہ غذا کھاتے تھے۔

11. ٹیگور اپنے شاگردوں کو کیا مشورہ دیتے تھے؟
جواب: ٹیگور اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ سادہ اور قدرتی طریقے پر زندگی بسر کرو۔

12. تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ٹیگور نے کیا کیا کام کیے؟
جواب: ٹیگور نے کلکتہ سے 90 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیاد ڈالی۔ یہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ آج شانتی نکیتن کو ایک لازوال مقام حاصل ہے اور اب وشوا بھارتی کی شکل میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔
13. ہمارا قومی ترانہ کیا ہے اور اسے کس نے لکھا ہے؟
جواب: ہمارا قومی ترانہ جن گن من ہے اور اسے رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا ہے۔

14. رابندر ناتھ ٹیگور کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟
جواب: رابندر ناتھ ٹیگور کا انتقال7 اگست 1941 کو کلکتہ میں ہوا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. رابندر ناتھ ٹیگور کے لافانی شاہکارگیتانجلی کو نوبل پرائز کے لیے منتخب کیا گیا۔
2. رابندر بابو 7 مئی 1861کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔
3. آپ اپنے والد بزرگوار مہارشی دیویندر ناتھ ٹیگور کےچودھویں اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
4.گھر والے محبت سے انہیں’’رابی‘‘ کہتے تھے۔
5.ٹیگور نے پہلی نظم کنول پر لکھی۔
6.انھوں نے60 سالسے زیادہ کی عمر میں مصوری سیکھی۔
7. انھوں نے ہمارے لیے ایک لا زوال ترکہ چھوڑا ہے اور وہ ہے شانتی نکیتن۔

نیچے دیے گئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
قومی ترانہ : ٹیگور نے بھارت کا قومی ترانہ لکھا۔
تعلیم و تربیت : ٹیگور کی تعلیم و تربیت روایتی طریقے سے ہوئی۔
ہمت افزائی : ٹیگور اپنے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے۔
لازوال :  ٹیگور نے شانتی نکیتن کی شکل میں لازوال ترکہ چھوڑا۔
شب و روز : اس نے شب و روز محنت کی۔
تہذیب و تمدن : ہندوستانی تہذیب و تمدن کا کوئی جواب نہیں۔
واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیں
صوفی : صوفیا
فکر :  افکار 
خاندان : خاندانوں 
بحروں  : بحر 
اشعار  : شعر 
شعرا  : شاعر 
کاشتکاروں  : کاشتکار 
گیتوں  : گیت 
ڈراما  : ڈرامے 
فن  : فنون 
تصاویر  : تصویر 
مناظر  : منظر 
اصول  : اصولوں 
ملکوں  : ملک 
مشاغل  : مشغلہ 
ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
مغرب : مشرق
محبت : نفرت
زوال : عروج
ابتدا : انتہا
شاگرد : استاد
باقاعدہ : بےقاعدہ
فروخت : خرید
لافانی : فانی
صحیح جملے پرصحیح () اور غلط جملے پرغلط (X) نشان لگائیے
رابندر ناتھ یورکو احترام اور محبت سے گورودیو بھی کہا جا تا ہے ۔()
ٹیگور بنگال کے غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔(X)
ٹیگور کو ہندوستان کا قومی شاعر مانا جاتا ہے کیوں کہ ان کی لکھی ہوئی نظم جن گن من ہمارے ملک ہندوستان کا قومی ترانہ ہے۔()
ٹیگور نے انگلستان میں اپنی تعلیم  مکمل کی۔(X)
 ٹیگور نے شانتی نکیتن کی بنیاد ڈالی تھی۔( )
نیچے دیے ہوئے واقعات کو صحیح ترتیب سے لکھیے
1. ابھی ٹیگور آٹھ برس کے تھے کہ ان کے بڑے بھائی جیوتی ناتھ نے ان سے کہا ” رابی تم شعر کیوں نہیں لکھتے ؟
2. یہاں انھیں غریب کاشت کاروں کی سادہ زندگی سے سابقہ پڑا۔
3 .رابندر بابو 7 مئی 1861 ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ 
4. انگستان میں کچھ دن ٹھہرنے کے بعد جیسے گئے تھے ویسے واپس آئے کوئی ڈگری ساتھ نہ لائے۔
5. انھوں نے کلکتہ سے نوے ( 90 ) میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیادڈالی ۔ 
6. ٹیگور کو استاد کی حیثیت سے بہت اونچا مقام حاصل ہے۔
7. ٹیگور نے پہلی نظم کنول پر لکھی-

جواب:
3 .رابندر بابو 7 مئی 1861 ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔
1. ابھی ٹیگور آٹھ برس کے تھے کہ ان کے بڑے بھائی جیوتی ناتھ نے ان سے کہا ” رابی تم شعر کیوں نہیں لکھتے ؟
7. ٹیگور نے پہلی نظم کنول پر لکھی
2. یہاں انھیں غریب کاشت کاروں کی سادہ زندگی سے سابقہ پڑا۔
4. انگستان میں کچھ دن ٹھہرنے کے بعد جیسے گئے تھے ویسے واپس آئے کوئی ڈگری ساتھ نہ لائے۔
6. ٹیگور کو استاد کی حیثیت سے بہت اونچا مقام حاصل ہے۔
5. انھوں نے کلکتہ سے نوے ( 90 ) میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیادڈالی ۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Newer Posts Older Posts Home

خوش خبری