آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 18 February 2019

Kalim Ajiz - Teri Masti Ke Afsane Rahein Ge


تحریر: مبشر ابن طاہرعثمانی

کلیم آئے بھی اپنی غزل سنا بھی گئے
الاپ بھی گئے رو بھی گئے رُلا  بھی گئے
سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی ایک آواز جو ۷۰ اور ۸۰ کی دہائی میں کُل ہند مشاعروں کی جان ہوا کرتی تھی آج خاموش ہوگئی۔پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز اس دنیا میں نہیں رہے۔انہوں نے اپنے منفرد انداز بیان سے اردو شاعری میں میر کے لہجے کو آگے بڑھایا۔اپنی زندگی کے سب سے بڑے المناک حادثوں کو انہوں نے آفاقی بنا دیا۔ ان کی درد بھری المناک یادیں صرف انہی تک محدود نہیں  رہیں بلکہ ان کے اشعار میں وہ تاریخ کا حصّہ بن گئیں۔ لال قلعہ کے مشاعرہ میں پڑھے گئے اس شعر 

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہے کہ کرامات کرو ہو

کو آج بھی اہل علم یاد کرتے ہیں تو اس کمزور جسم کے ناتواں انسان کےاس شدید شعری احتجاج کو نہیں بھلا پاتے۔آج بھی یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے۔خود کلیم عاجز کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ تلخ لہجہ اگر غزل کے حسین پیرائے میں قید نہ ہوتا تو قابل گردن زدنی قرار دیا جاتا۔یہ شعر بلکہ پوری غزل مخاطبِ غزل کے مزاج نازک پر کتنا گراں گزری یہ تو معلوم نہیں لیکن لال قلعہ کے مشاعروں میں کلیم عاجز کی شرکت ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار پا گئی۔خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور  اکیڈمی کے ارباب  اقتدار بخوبی اس روایت کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اسے آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔
کلیم عاجز کی شاعری ہندوستان کے سماجی و سیاسی حالات کا بھرپور منظر نامہ پیش کرتی ہے۔وہ مناظر و واقعات جو کلیم عاجز کی شاعری کا بنیادی جز بنے وہ آج بھی مختلف شکلوں میں دہرائےجا رہے ہیں۔کھونے اور لُٹ جانے کا احساس بہتوں کو ستا رہا ہے۔آج بھی لوگوں کے دل اسی طرح زخموں سے چور ہیں اور ہر درد مند انسان اس کو اپنی زندگی کا ایک حصّہ سمجھتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ قاری ڈاکٹر عاجز کا جب بھی کوئی شعر پڑھتا ہے تو اسے وہ اپنے دل سے نکلتی ہوئی آواز محسوس کرتا ہے۔اگر اپنے اشعار کی ترسیل میں کلیم عاجز کی انا پسندی کا دخل نہ ہوتا تو شاید آج وہ ہندوستان کی گلی کوچوں کے سب سے مقبول شاعر ہوتے۔
ایک زمانہ تھا کہ کلیم عاجز ہندوستانی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔میرے والد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ جو خود بھی ایک شاعر تھے ڈاکٹر کلیم عاجز سے خصوصی لگاؤتھا۔اس زمانے میں وہ جب بھی دھنباد تشریف لاتے تو ہمارے گھر ضرور آتے۔والد محترم سے گھنٹوں ادبی و شعری گفتگو ہوتی اور باتوں ہی باتوں میں ایک شعری نشست ہوجاتی۔مشاعروں میں ایک ایک شعر کے لئے ناز و انداز دکھانے والے کلیم عاجز اتنی محبت سے شعر پر شعر سناتے کے ان کی فراخدلی دیکھتے ہی بنتی۔شاید ڈاکٹر کلیم عاجز کو احسا س تھا کے اس محفل میں ان کے سچے قدرداں موجود ہیں۔ یہی صورت حال میرے خالو سید ناطق قادری  اور ماموں طارق قادری کے ساتھ تھی۔نہیں معلوم ان کے دلوں پر اس سانحہ کے بعد کیا گزری ہوگی۔ کلیم عاجز ان کے لئےمشفق بڑے بھائی  اور ہمدم سے کم نہ تھے۔ان کے آبائی گاؤں بمنڈیہہ جو اورنگ آباد بہار میں واقع ہے وہ اکثر تشریف لاتے۔ تبلیغ کی اہم معمولات کی ادائیگی کے بعد ادبی گفتگو مشاعرہ میں تبدیل ہوجاتی اور پھر کلیم عاجز کے اشعار اور واہ واہ کی یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور پھر موذن ہی اس سلسلہ کو لگام لگا پاتا۔اس محفل میں کلیم عاجز نعتیں  غزلیں یہاں تک کے گیت بھی سناتےجو کبھی بہار کی ادبی روایت کا ایک حصّہ ہوا کرتی تھیں۔میرے وطن جھریا میں تو ڈاکٹر کلیم عاجز کے آنے کاسلسلہ تو رفتہ رفتہ کم ہوگیا بلکہ والدماجد کے انتقال کے بعد بالکل ہی ختم ہوگیا لیکن بمنڈیہہ آنے کا سلسلہ تا حال جاری رہا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے یہ شعری نشستیں ان مشاعروں سے بالکل الگ تھیں جو بین الاقوامی سطح پر عرب ممالک میں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ بعض وجوہات کی سبب انہوں نے ہندوستانی مشاعروں میں حصّہ لینا بہت پہلے ہی ترک کردیا تھا۔آج ادبی دنیا کی اہم شخصیتیں اردو مشاعروں کے تہذیبی زوال پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں لیکن کلیم  عاجز کے حساس مزاج نے برسوں قبل اس ماحول سےاپنی ذات  کو الگ کرلیا تھا۔انہیں ڈر تھا

کوئی ناشناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے

گرچہ یہ موقع شکوہ و شکایت کا نہیں لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں  جن کی بنا پر جب ان کے عہد کے دوسرے شعرا مشاعروں میں اپنی دھوم مچارہے تھیں کلیم عاجز نے ان مشاعروں سے خود کو الگ کرلیا۔آخر کیوں دبستان عظیم آباد کے اس عظیم شاعر نے دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے سجے اسٹیج پر اپنی موجودگی کو اپنی رسوائی کا سبب جانا۔خودداری کا وہ کون سا جذبہ تھا جس نے مشاعروں کے اسٹیج سے دوری کو ہی اپنے عزت نفس کی تسکین کا ذریعہ جانا۔ گرچہ اس زمانے میں میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے آج بھی یاد ہے شیر وانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس یہ باریش اور پرنور شخصیت کس طرح جام و مینا میں ڈوبےشاعروں کے لئے باعث تضحیک ہوتی تھی ۔ان کے سامنے زبان کھولنے کی تو کسی میں ہمت نہ تھی لیکن ان کی شاعری میں شامل علاقائی لب و لہجہ جو کسی حد تک زبان ِ میر کے قریب ہونے کے باوجودان کے لئے باعث مزاح ہوتا  تھا۔عاجز کا یہ شعر

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

ایسے ہی ’’ناشناس مزاج غم‘‘کی جانب ایک اشارہ ہے۔بہار کے شہر جھریا میں کل ہند مشاعرہ  جس کے انعقاد میں والد ماجد کی سرگرم کوششوں کا بڑا دخل تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس مشاعرہ کے روح رواں تھےاس  مشاعرہ میں اس وقت تمام نامور شعرا نے شرکت کی تھی جن میں علامہ فرقت کاکوروی٬ہلال سیوہاروی٬ملک زاد ہ منظور احمد٬ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر٬ڈاکٹر بشیر بدر٬اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ شامل تھے۔جھریا سے قبل  جھارکھنڈ کےگریڈیہ کے مشاعروں میں ان تمام شعرا نے شرکت کی تھی۔اس مشاعرہ میں کسی بات پر ڈاکٹر کلیم عاجز کی انانیت کو ٹھیس پہنچی اور اس کے بعد انہوں نے ناظم مشاعرہ اور سجی سنوری شاعرات کو مقابل رکھ کر جو فی البدیہ غزل سنائی تو سبھی ہکا بکا منہ تکتہ رہ گئے۔یہاں میں نے ہکا بکا کا لفظ بطور خاص استعمال کیا ہے کہ زبان و بیان کے ٹھیکے دارسادہ الفاظ کی وسعت کو سمجھ سکیں۔مشاعرے میں نوبت یہ تھی کہ اسٹیج خاموش تھا اور پنڈال واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صداؤں سے گونج رہا تھا۔

مکمل غزل ملاحظہ کریں

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ گل قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
وہ شوخ ستم گر توستم ڈھائے چلے ہے
تم ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو

کلیم عاجز کی انا کو جو ٹھیس لگی تھی اس کا رنگ جھریا کے مشاعرے تک نظر آیا اور ان پر جملہ کسنے والی ٹولی ان سے شرمندہ شرمندہ سی رہی۔
کلیم عاجز ٹوٹے ہوئے دل کے مالک تھے۔اور بہار میں صوفیوں کے سرتاج حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کا کہنا ہے کہ جو دل جتنا ٹوٹا ہوتا ہے اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے۔ اقبال کی زبان میں ؃
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
عاجز کا دل ایک جانب تو  زخموں سے چور تھا دوسری جانب وہ  عشق رسول ،محبت الٰہی سے سرشار اور خوف خدا سے بھی پارہ پارہ تھا

دل کی یہ شکستگی اور خاتم النبی حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پناہ محبت کلیم عاجز کے نعتیہ اشعار میں جا بجا نظر آتی ہے۔ ان کی نعت دربار  ِ بے کس پناہ میں امت مسلمہ کی حالت  زار کا بیان اور ان کی نگاہ لطف کرم  اور ظالموں سے نجات کے لئے عرضی ہے۔  کلیم عاجز کی بیشتر نعتیں ہندوستان میں رو نما ہونے والے بدترین فسادات کے بعد کہی گئیں ۔بے سرو سامانی کی حالت میں کلیم عاجز کے لئےیہی ایک دربار ہے جہاں وہ اپنا حال دل بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ مراد آباد میں عید کے دن ہونے والے فسادات سےمتاثرہوکر یہ نعت کہی۔اس نعت کے چند اشعار یہاں آپ کی نذر ہیں جس میں  ان کے دل میں اپنی قوم کے درد اورظالموں سےپناہ کی خواہش صاف نظر آتی ہے


مدینہ پہونچ کر سرِعام کہیو
صبا کملی والے سے پیغام کہیو


طبیعت اندھیروں سے اکتا گئی ہے
بہت دن سے ہے شام ہی شام کہیو

خزاں بھی گذاری بہاریں بھی دیکھیں
ملا کوئی کروٹ نہ آرام کہیو

ہمیں پھول بانٹیںہمیں زخم کھائیں 
وہ آغاز تھا اور یہ انجام کہیو


وہ خود ہی نہ دریافت فرمائیں جب تک
تخلص نہ ان سے مرا نام کہیو


جس طرح غالب کی شاعری کا ذکر غالب کی نثر کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک اسی طرح کلیم عاجز کی شاعری کا تذکرہ ہو اور ان کی نثر کو بھلا دیا جائے ایسا ممکن نہیں۔دراصل  کلیم عاجز کی نثر ان کی شاعری کا پیش لفظ ہے۔ ان کی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا•••‘‘٬ابھی سن لو مجھ سے٬ جب فصل  بہاراں آئی تھی٬یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ اورجہاں خوشبو ہی خوشبو تھی  میں  الفاظ  کی روانی٬سادگی اور ان کی معنویت نثر میں نظم کا احساس پیدا کرتی ہے۔الفاظ اتنے سادہ اور مربوط ہیں  اور اندازبیان اتنا دل کو چھو جانے والا ہے کہ آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔غم جاناں کس طرح غم دوراں بنتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ان کی نثر نہ صرف ایک المناک داستان ہے بلکہ تاریخ ہے ان فسادات کی جو زمانے میں ہندوستان کے لئے ایک عفریت رہی ہے اور اس نے ہندوستان کے ہزاروں افراد کو اپنا نشانہ بنایا۔کلیم عاجز نے اس غم کو نہ صرف حرز جاں بنایا بلکہ  اپنے غم کو دوسرےحساس دلوں کی آواز بھی بنا دیا۔میں نے کلیم عاجز کی اس نثر کو متعدد بار پڑھنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس حقیقی بیانیے نے میرے قدم روک دیے میں نے ان وحشت ناک  مناظر سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔شاید مجھ میں ان لمحوں کو جینے کی ہمت نہ تھی۔ کلیم عاجز ۸۵ برسوں تک ان لمحوں کو سینے سے لگائے کس طرح گنگناتے رہے یہ انہی کا دل گردہ تھا۔میرا اپنا خیال ہے کہ کلیم عاجز کو پدم شری اور عزت و شہرت تو ملی لیکن عوام کو ان کی اس قدر کا موقع نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔

تری مستی کے افسانے رہیں گے
جہاں گردش میں پیمانے رہیں گے



ابھی کلیم کو کوئی پہچانتا نہیں
یہ اپنے وقت کی گدڑی  میں لعل ہیں پیارے

کلیم عاجز کے وہ اشعارجو زمانے سے میری ڈائری کی زینت ہیں ارور آج انکی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئے ہے۔
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے کی کیا بات کرو ہو

عاجز کے جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کے سب راحت و آرام پڑا ہے

عاجز یہ تم نے کیا غزل بے مزا پڑھی
ایک شعر بھی نہیں صفت زلف یار میں


Sunday 17 February 2019

Kundan Lal Sehgal - NCERT Solutions Class VIII Urdu

کندن لال سہگل
شرت دت 

سوچیے اور بتائیے
1. شرت چند چٹرجی کے ناول پر بنی پہلی فلم کا کیا نام تھا اور وہ کس زبان میں تھی؟
جواب: شرت چند چٹرجی کے ناول پر بنی پہلی فلم کا نام 'دنیا پاونا' تھا اور یہ بنگالی زبان میں تھی۔

2.بی این سرکار نے اپنی دوسری فلم کس زبان میں بنائی؟
جواب: این سرکار نے اپنی دوسری فلم ہندوستانی زبان میں بنائی۔

3. کے ایل سہگل نے اپنی کس خوبی سے سرکار صاحب اور بورال دا کو متاثر کیا؟
جواب:کے ایل سہگل نے اپنے گانے سےسرکار صاحب اور بورال کو متاثر کیا۔

4. ماتھا کی شکنیں گہری ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب: ماتھے کی شکنیں گہری ہونے سے مراد ہے کسی بات کا پسند نہ آنا، کسی سوچ میں ڈوبے ہونا یا کسی بات پر ناراض  ہونا۔

5. کے ایل سہگل صاحب کو دیکھ کر آترتھی صاحب نے کیا کہا؟
جواب: کے ایل صاحب صاحب کو دیکھ کر آترتھی صاحب نے کہا''اس لمبے سوکھے بدن کے ساتھ کیا خاک ایکٹنگ کریں گے۔دیکھنے سے لگتا ہے جیسے بانس پر کپڑے لٹکا دیے گئے ہوں۔نہ صورت نہ صحت۔"

6. آتھرتی کی باتوں کا سہگل پر کیا اثر ہوا؟
جواب: آترتھی کی باتوں سے سہگل کی حالت خراب ہوگئی تھی۔ آترتھی کا ایک ایک لفظ ان کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ پہلے وہ یہ سوچ کر خوش تھے کہ انہیں اپنی منزل مل گئی لیکن اب لگا کہ جسے وہ اپنی منزل سمجھ رہے تھے وہ محض ایک چھلاوہ تھا۔

7. موسیقی تو ایک مسلسل ہنر ہے بیٹے' یہ آواز سہگل نے کب محسوس کی؟
جواب: جب سہگل کی خود اعتمادی ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی تب انہوں نےجموں کے پیر بابا کی یہ آواز محسوس کی۔

8. سہگل میں خود اعتمادی کیسے لوٹی؟
جواب: جموں کے پیر بابا کی یہ آواز کہ موسیقی تو ایک مسلسل ہنر ہے بیٹے اور اس میں منزل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو بس ریاض اور ذکر جس کا کوئی خاتمہ نہیں۔ آخر دم تک اسے نبھانا پڑتا ہے۔ اگر تم یہ کر سکے تو تمہاری روح کو سکون ملے گا۔ سلمان پیر کی یہ بات یاد آتے ہی سہگل کو سچ مچ بہت سکون ملا اور ان کی خود اعتمادی جو ذرا دیر پہلے ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی پھر سے لوٹ آئی۔

9. آترتھی صاحب سہگل سے کیوں مطمئین ہو گئے؟
جواب:سہگل کی خود اعتمادی اور آرتھر صاحب کو دیے گئے ان کے اس جواب کو سن کر آترتھی صاحب مطمئیں ہوگئے کہ ”آپ تو پارس ہیں  لوہے کو چھولیں تو سونا بن جائے۔پھر میں آپ کی فلم کا ہیرو کیوں نہیں بن سکتا۔آپ ہی بتائیے۔میرے سر پر آپ کا ہاتھ ہوگا تو میں آسمان کو زمین پر اتار لاؤں گا۔“

11. سہگل کے رونے کی کیا وجہ تھی؟
جواب:جب کیمرے کا سامنا ہوا تو سہگل گھبرا گئے اور ان  سے بار بار غلطی ہو تی گئی۔آٹھ نو بار ری ٹیک ہوچکا تھا اور آترتھی صاحب بھی غصّے میں اسٹوڈیو سے باہر نکل گئے۔ یہ دیکھ کر سہگل رونے لگے۔

11. آترتھی کن خوبیوں کے مالک تھے؟
جواب: آترتھی ایک بہت اچھے ڈائریکٹر تھے۔وہ نفسیات کے ماہر تھے اور بہت ہی صبر سے کام لیتے تھے۔

12. کے ایل سہگل کو کن وجہوں سے شہرت حاصل ہوئی؟
جواب: سہگل کو ان کی آواز اور اداکاری کے دم پر زبردست شہرت حاصل ہوئی۔

صحیح جملوں کے سامنے صحیح اور غلط کے سامنے غلط کا نشان لگائیے۔
1. کے ایل  سہگل کی پہلی فلم کا نام ماں کے آنسو تھا۔(غلط)
2. ہیرو کے رول کے لیے مناسب کردار موجود تھا۔(غلط)
3. کے ایل سہگل بہت اچھا گاتے تھے۔(صحیح)
4. کے ایل سہگل ایک تندرست جسم کے مالک تھے۔(غلط)
5. سلمان پیر کی بات سے سہگل کو سچ مچ بہت دکھ ہوا۔(غلط)

نیچے لکھے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
دقیانوسی(پرانے زمانے کا): سہگل کے ماں باپ دقیانوسی خیالات کے مالک تھے۔
انتخاب(چننا): وہ صدارتی انتخاب میں کمیاب ہوگیا۔
مکالمہ: فلموں کے لیے مکالمہ لکھنا آسان نہیں ہوتا۔
پارس: پارس اگر لوہے کو چھو لے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔
توازن: اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔
حوصلہ افزائی: استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تناؤ: امتحان کے دنوں میں بچّے تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے۔
توازن : غیر متوازن
احساس کمتری : احساس برتری
مناسب : ۔نامناسب
سکون : بے سکون
مطمئین : غیرمطمئین
اعتماد : بےاعتماد
کلک برائے دیگر اسباق

Qurratul Ain Haider - NCERT Solutions Class VIII Urdu

قرۃ العین حیدر
خلاصہ:
قرۃ العین حیدر اردو ادب میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں ۔ وہ سید سجادحیدریلدرم کی بیٹی تھیں ۔ان کی پیدائش 20 جنوری 1928 کو علی گڑھ میں ہوئی ۔ قرۃالعین حیدر کوادب کا شوق ورثہ میں ملا تھا۔ سجادحیدر یلدرم نے سرسید تحریک میں شامل ہو کر انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے رجسٹر ار مقرر ہوئے ۔ انہوں نے ترکی زبان سےکئی ترجمےاردو میں کئے اور کچھ کہانیاں بھی لکھیں۔ 
قرۃ العین حیدر نے ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں حاصل کی ۔لکھنؤ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ قرۃ العین حیدر ر نے پہلی کہانی" چوہیا " گیارہ سال کی عمر میں لکھی۔ انہوں نے لندن میں بی بی سی ریڈ یو پر بھی کام کیا۔ ان کا پہلا ناول 'صنم خانے ‘ 1949 میں چھپا۔ سفینۂ دل، آگ کا دریا ، آخرشب کے ہم سفر ، گردش رنگ چمن ، اور چاندنی بیگم ان کے مشہور ناول ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ستاروں سے آگے ، 1947 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تین مجموعے شیشے کا گھر پت جھڑ کی آواز اور روشنی کی رفتار چھپے۔
 انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں ،لومڑی کے بچے ، بہادر ، میاں، ڈھینچوں کے بچے ، شیر خان ، اور ہرن کے بچے وغیر ہ لکھیں ۔ انہوں نے علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔
 حکومت ہند نے انہیں پدم شری ، پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا۔ انہیں ملک کا سب سے متاز ادبی انعام گیان پیٹھ دیا گیا۔
سوچیے اور بتائیے
1. ۔قرۃ العین حیدر کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی تھی؟
جواب: قرۃ العین حیدر کی پیدائش 20جنوری 1928کو علی گڑھ میں ہوئی تھی۔

2. قرۃ العین حیدر کے والدین کے نام لکھیے۔
جواب: ان‌کے والد سید سجاد حیدر یلدرم تھے اور والدہ نذر سجاد حیدر تھیں۔

3. سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ میں کس عہدے پر فائز تھے؟
جواب: سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ میں رجسٹرار کی حیثیت سے مقرر کیےگئے تھے۔

4. قرۃ العین حیدر کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی؟
جواب: قرۃ العین حیدر کی ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں ہوئی ۔

5. قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی کس عمر میں لکھی؟
جواب: قرۃ العین حیدر نے پہلی کہانی گیارہ سال کی عمر میں لکھی۔

6. قرۃ العین حیدر کا مشہور ناول 'آگ کا دریا' کس سنہ میں شائع ہوا؟
جواب: قرۃ العین حیدر کامشہور ناول 'آگ کا دریا ' 1959 میں شائع ہوا۔

7. قرۃ العین حیدر کو کون کون سے اعزاز ملے؟
جواب: قرۃ العین حیدر کو پدم شری اور پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا ۔انہیں گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

8. قرۃ العین حیدر کا انتقال کب ہوا؟
جواب: قرۃ العین حیدر كا انتقال21اگست2007،نوئیڈا میں ہوا۔ 

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. قرةالعین حیدر کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی تھی۔
2. قرةالعین حیدر کی ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں ہوئی تھی۔
3. کہانی 'بی چڑیا' رسالہ پھول میں شائع ہوئی تھی۔
4. ناول آگ کا دریا سال 1959 میں شائع ہوا تھا۔
5. قرةالعین حیدر کو 1990 میں ملک کا سب سے بڑا انعام گیان پیٹھ دیا گیا۔
6. قرة العین حیدر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں دفن ہوئیں۔

جملے بنائیے۔
ولادت  : قرۃ العین حیدر کی ولادت علی گڑھ میں ہوئی ۔ 
ترجمہ  : انگریزی کہانیاں اردو میں ترجمہ کرکے لکھی جاتی ہیں۔ 
ڈگری  : میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم. اے. کی ڈگری حاصل کی۔ 
ناول  : مجھے ناول پڑھنے کاشوق ہے۔ 
تہذیب  : ہندوستان میں گنگا جمنا تہذیب مانی جاتی ہے 
لاحقہ  : جو لفظ تنہا استعمال نہیں ہوتے 'لاحقہ' کہلاتے ہیں۔ 

دار اور گار سے بننے والے تین تین لفظ لکھیے۔

دار
زمین دار
عزت دار
وفادار
رشتہ دار
مالدار
جاندار
سمجھدار
حقدار


گار
مدد گار
خدمت گار
روز گار
کلک برائے دیگر اسباق

Chacha Kababi - NCERT Solutions Class VIII Urdu

چچا کبابی دلّی والے
ملا واحدی
Courtesy NCERT

جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دکان دار نہیں بیٹھتا تھا، شام کے پانچ چھے بجےایک کبابی صاحب دکان لگایا کرتے تھے اور رات کے بارہ ایک بجے تک کباب بیچتے تھے۔ ان کا نام مجھے معلوم نہیں۔ چچا کبابی کہلاتے تھے۔
چچا کبابی غدر 1857 کے دس بارہ سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے اور 1947 سے چند سال قبل انتقال کر گئے ۔ دلّی کے سیخ کے کباب اور گولے کے کباب مشہور ہیں۔ چچا کبابی دلّی کے ممتاز کبابی تھے۔ کباب بنانے کے اعتبار سے بھی اور انوکھی طبیعت کے اعتبار سے بھی۔ کباب بنانے کے کمال پر انھیں بڑا گھمنڈ تھا؛ اور طبیعت کا انوکھا پن تو اس سے عیاں ہے کہ اپنے لیے وہ جگہ انتخاب کی تھی جہاں گا ہک کو آنا ہو تو جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی طرف کے دسیوں کبابیوں کو چھوڑ کر آئے ۔ ایک گیارہ برس کی لڑکی آگ کا تاؤ رکھنے کی غرض سے ہر وقت پنکھا ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہتی تھی۔ غالباً ان کی بیٹی تھی ۔ ذرا تاؤ کم و بیش ہوا چچا کبابی کا پارہ چڑھا۔ غصہ ناک پر رکھا رہتا تھا، لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔
گاہکوں کو باری باری کر کے کباب دیتے تھے۔ اگر آپ ان کے ہاں اول مرتبہ تشریف لائے ہیں اور ان کی طبیعت سے واقف نہیں ہیں، اور دوسرے گاہکوں کی نسبت آپ کی حیثیت بلند ہے، صاف ستھرا پہنتے ہیں ، تانگہ یا موٹر روک کر کباب خریدنے اتر پڑے ہیں، آپ نے خیال کیا کہ مجھے ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہاتھ بڑھایا، روپے تھمائے اور فرمایا۔ ڈیڑھ روپے کے کباب ذرا جلدی ۔‘ جلدی کا لفظ سنتے ہی چھا کہانی کا مزاج بگڑ جائے گا۔ وہ روپے واپس کر دیں گے اور کہیں گے۔ ”حضور ! جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔“
ایک روز ایک ذرا زندہ دل سے شخص چچا کبابی سے الجھ گئے ۔ انھوں نےچچا کبابی کے اس فقرے پر فقرہ جڑ دیا کہ ”بھائی ! اور سے ہی لے لیں گے، اللہ نے تمھارے کبابوں سے بچایا نہ جانے ہضم ہوتے یا کوئی آفت ڈھاتے۔“ چچا کبابی تلملا اٹھے۔ کہنے لگے ۔ ”حضور! کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گھل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف بہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے، جو پہلےآیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔“
چچا کبابی دھونس نہیں برداشت کرتے تھے اور اپنے اصول کے مقابلے میں تعلقات کو بھول جاتے تھے۔ عزیز اور دوست بھی ان سے بغیر باری کے کباب نہیں لے سکتے تھے۔ آپ جائے، ان کو سلام کیجیے۔ جواب دیں گے، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ پانوں کی ڈبیہ سامنے رکھ دیجیے۔ بے تکّلف پان کھالیں گے۔ زردہ خود مانگیں گے لیکن نامکن ہے کہ سلام یا پان سے چچا کہانی پگھل جائیں ۔ کباب باری پر ہی دیں گے۔

ایک دفعہ میری موجودگی میں تیرہ چودہ برس کا ایک لڑکا آیا اور بولا:
”چار پیسے کے کباب دے دو“ چچا کبابی نے کہا ”نہیں بھائی میں تجھے کباب نہیں دوں گا۔“
اب وہ لڑ کا سر ہو رہا ہے اور خوشامدیں کر رہا ہے اور چچا کبابی انکار پر انکار کیے جاتے ہیں۔ جب بہت دیر اس حجت بازی میں گزر گئی تو کسی نے ہمت کر کے پوچھ لیا۔ ”چچا، کیا بات ہے۔ اسے کباب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘
کہنے لگے ” میاں! یہ پیسے چرا کر لاتا ہے۔ گھر سے لاتا ہو یا کہیں اور سے ، روز چار پیسے کے کباب کھا جاتا ہے۔ یہیں بیٹھ کر دیکھو نا! اس کی صورت ۔ جا بیٹا جا۔ عادت کہیں اور جا کر بگاڑ میں تجھے چار پیسے کی خاطر تباہی کے راستے پر نہیں لگاؤں گا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ تیرے ماں باپ چار پیسے روز تجھے کباب کھانے کے واسطے دیتے ہوں گے۔“
جو لوگ ان کی دکان پر تازے اور گرم گرم کباب کھا لیتے تھے، ان سے خوش ہوتے تھے۔ پیسے تھما یئے اوربتا دیجیے کہ اوپر جامع مسجد کے دالان میں انتظار کر رہا ہوں ۔ کباب بھیج دینا یا آواز دےدینا۔ ایسے لوگوں کے کباب گھی سے بگھارتے ، کبابوں میں بھیجا ملاتے۔ پیاز، پودینہ اور ہری مرچیں چھڑ کتے اور اپنے آدمی کے ہاتھ بھجوا دیتے ۔ اللہ بخشے مولانا راشد الخیری کو چچا کبابی کے ہاتھ کے کباب بے حد مرغوب تھے۔ وہ میرے ساتھ ہوتے تو میں بھی جامع مسجد چلا جاتا اور وہیں کباب منگا لیتا تھا۔ تازے کبابوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔


سوچیے اور بتائیے
1. چچا کبابی اپنی دوکان کہاں لگایا کرتے تھے؟
جواب: چچا کبابی جامع مسجد کے پھُلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دوکاندار نہیں بیٹھتا تھا اپنی دوکان لگایا کرتے تھے۔

2. چچا کبابی کی شخصیت کی کا خوبیاں تھیں؟
جواب: چچا کبابی کو کباب بنانے میں کمال حاصل تھا۔ وہ غصہ ور شخصیت کے مالک تھے لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔

3. چچا کبابی اپنے گاہکوں کو کباب دینے کے لیے کیا طریقہ اپناتے تھے؟
جواب: چچا کبابی اپنے گاہکوں کوباری باری کباب دیا کرتے تھے۔اور اگر کوئی جلدی کرتا تو ان کا پارہ چڑھ جاتا اور وہ اس سے کہتے کہ جو پہلے آیا ہے اسے پہلے کباب ملے گا اورحضور جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔

4. چچا کبابی نے زندہ دل شخص کو کیا جواب دیا؟
جواب: چچا کبابی نے زندہ دل شخص  سے کہا'' حضور کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا، لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یاجل جاتے ہیں۔ اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے،جو پہلے آیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔"

5. چچا کبابی نے بچّے کو کباب دینے سے انکار کیوں کیا؟
جواب: چچاکبابی نے بچّے کو کباب دینے سے اس لیے انکار کردیا کہ وہ بچّہ کباب کے لیے پیسے چراکر لاتا تھا۔ اور چچا کبابی نہیں چاہتے تھے کہ اسے چوری کی عادت لگ جائے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
عیاں(ظاہر): اس کا درد اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔
انتخاب(چننا): غزلوں کا اشاعت کے لیے انتخاب  کیا گیا۔
مجال(ہمت): کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ چچا کبابی سے جلدی کباب مانگ لے۔
ترجیح: چچا کبابی کباب دینے کے لیے پہلے آنے والے کو ترجیح دیتے۔
تباہی(بربادی): جنگ سے تباہی ہوتی ہے۔
مرغوب: کباب دلی والوں کی مرغوب غذا ہے۔
حجّت(بحث): حجّت کرنا چچا کبابی کی عادت تھی۔
تلملانا(تڑپنا): چچا کبابی غصّے سے تلملا گئے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Wednesday 13 February 2019

Hawai Qile - NCERT Solutions Class VI Urdu

ہوائی قلعے
شوکت تھانوی

سوچیے اور بتائیے
1. منشی جی تار کے انتظار میں کیوں بے چین تھے؟
جواب: منشی جی نے لاٹری کا ٹکٹ خریدا تھا اور وہ اس کے نتیجہ کے لیے تار کے انتظار میں تھے کیوں کہ انہیں لگ رہا تھا کہ اس بار ان کی لاٹری ضرور نکلے گی۔

2. منشی جی کو سات تاریخ کا انتظار کیوں تھا؟
جواب: اس لیے کہ سات تاریخ کو لاٹری کا نتیجہ نکلنے والا تھا۔

3. منشی جی نے لاٹری کا ٹکٹ خرید کر کیا کیا منصوبے بنا رکھے تھے؟
جواب: منشی جی نے ایک کوٹھی، بہت ساری جائدادیں، باغ، نوکر چاکر اور موٹر گاڑی خریدنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

4. منشی جی کی بیوی ان کا مذاق کیوں اڑا رہی تھیں؟
جواب: منشی جی کی بیوی ان کا مذاق اڑا رہی تھیں کہ وہ شیخ چلیوں کی طرح منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ انہیں لاٹری نکلنے کا یقین نہیں تھا۔

5. تار کی خبر سن کر منشی جی پر کیا اثر ہوا؟
جواب: تار کی خبر سن کر منشی جی گھبراہٹ کا شکار ہو گئے اور انہیں اختلاج ہوگیا۔

6. منشی جی تار کیوں نہیں کھولنا چاہتے تھے؟
جواب: منشی جی تار اس لیے نہیں کھولنا چاہ رہے تھے کہ انہیں لگ رہا تھا وہ اتنی بڑی خوشی رداشت نہ کر پائیں گے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ پتہ نہیں اس تار میں کتنی رقم لکھی ہے۔

6. منشی جی نے دستخط کرنے کی جگہ کیا لکھ دیا تھا؟
جواب:منشی جی نے دستخط کرنے کی جگہ لکھ پتی لکھ دیا تھا۔

7. تار کس کا تھا اور اس میں کیا لکھا تھا؟
جواب: یہ تار محمود بھائی کا تھا جس میں لکھا تھا کہ بھابھی جان کل شام کی ٹرین سے آرہی ہیں۔

8. اس ڈرامے میں سب سے دلچسپ کردار کون سا ہے اور کیوں؟
جواب: اس ڈرامے میں سب سے دلچسپ کردار منشی جی کا ہے جو ایک لاٹری کا ٹکٹ خرید کر ہوائی قلعہ بنانے لگتے ہیں۔ وہ شیخ چلی کی طرح منصوبہ بنانے لگتے ہیں۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے۔
1. یعنی معلوم بھی ہے آج سات تاریخ ہے ۔آج ہی تو تار آے گا اس لاٹری کا۔
2. راستہ میں تار گھر کا کوئی آدمی تو لال بائیسکل پر نظر نہیں آیا؟
3.اچھا تم خیالی پکاتے جاو مگر میں تو ہانڈی دیکھوں۔
4.بیٹھے بٹھاے آخر یہ بڑے آدمیوں کی سی بڑی باتیں بلا وجہ تو نہیں ہو سکتیں۔
5. میں تو باغ کے مالک کے لیے بھی اس قسم کی چارپائیاں مناسب نہیں سمجھتا۔
6. نہیں تم کھولو۔ مجھے تو کچھ اختلاج سا ہو رہا ہے۔

Hamare Ek Mashhoor Science daan - NCERT Solutions Class VI Urdu

ہمارے ایک مشہور سائنس داں
سوچیے اور بتائیے
1. بنگال کو برطانوی حکومت نے ۔کب اور کتنے حصے میں تقسیم کیا تھا؟
جواب: 1905 میں برطانوی حکومت نے بنگال کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بانٹا۔

2. انگریز گورنر کی آمد پر میگھ ناد ساہا اور ان کے دوستوں نے اپنے غصے کا اظہار کس طرح کیا؟
جواب: میگھ ناد ساہا اور ان کے دوست اس سخت ہدایت کے باوجود کے انگریز گورنر کی آمد پر سب کو اسکول میں موجود رہنا ہے یہ لوگ اسکول نہیں گئے۔ 

3. میگھ ناد ساہا کا وظیفہ کیوں بند ہو گیا تھا؟
جواب:اسکول سے نام کاٹ  دیے جانے کی وجہ سے میگھ ناد ساہا کا بند ہوگیا تھا۔

4. میگھ ناد ساہا کے والد انہیں کیوں نہیں پڑھانا چاہتے تھے؟
جواب: میگھ ناد ساہا کے والد کی پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس سے گھر کا خرچ مشکل سے نکلتا تھا اس لیے وہ چاہتے تھے کہ مگھ ناتھ بچپن سے ہی گھر کے لیے کچھ کمانا شروع کردے۔

5. میگھ ناد ساہا کا نام دنیا بھر میں ان کے کس کام کی وجہ سا مشہور ہوا؟
جواب: ایسٹرو فزکس کے ایک مسئلہ کو حل کرنے کی وجہ سےوہ دنیا بھر میں مشہور ہو گئے۔

6. میگھ ناد ساہا کے استادوں نے ان کی تعلیم کو جاری رکھنے کی کیا وجہ بتائی؟
جواب:میگھ ناد ساہا کے استادوں نے تعلیم جاری رکھنے کی وجہ ان کی ذہانت اور ان کا ہو نہار ہونا بتایا۔

7. تعلیم مکمل کرنے کے بعد میگھ ناد ساہا فزکس کے لیکچرر کہاں مقرر ہوئے؟
جواب: تعلیم مکمل رنے کے بعد میگھ ناد ساہا کلکتہ یونیورسٹی کے سائنس کالج میں فزکس کے لیکچرر ہو گئے۔

8. ایسٹرو فزکس میں کن چیزوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے؟
جواب: ایسٹرو فزکس میں ستارو کی نوعیت، ان کی گرمی، ان کی اندرونی بناوٹ اور کن کن چیزوں سے مل کر وہ بنے ہیں وغیرہ کا مطالعہ کرتی ہے۔

9. سانس کے میدان میں کام کرنے کے علاوہ میگھ ناد ساہا نے اور کیا کیا اہم کام کیے؟
جواب: ساہا ایک سماجی کارکن تھے۔انھیں ہمیشہ غریبوں کا دھیان رہتا تھا جب ملک تقسیم ہوا تو مشرقی بنگال سے آنے والوں کو آباد کرانے میں بھی اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے سیلاب زدہ لوگوں کے لیے راحت رسانی کا کام بھی کیا انھوں نے سیلاب پر قابو پانے کے بھی کئی منصوبے تجویز کیے۔

نیچے دیےہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
وطن پرستی : ہر ہندوستانی میں وطن پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
ہونہار : ساہا ایک ہونہار طالب علم تھے۔
مسئلہ : اس مسئلہ کا حل نکالنا ضروری ہے۔
نوعیت : اس کام کی کیا نوعیت ہے۔
موضوع : اس موضوع پر بحث مناسب نہیں۔
منصوبہ : حکومت دشمن پر حملے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
حکومت : حکومتیں
حصّوں : حصّہ
مواقع : موقع
دوست : دوستوں
قیمتیں : ۔قیمت
قربانی : قربانیاں
اقوام : قوم
استادوں : استاد

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
نوجوان : ضعیف
دوست : دشمن
آزاد : غلام
بھلائی : برائی
محبت : نفرت
اندرونی : باہری
گرمی : ۔سردی
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

O Subah Ke Sitare - NCERT Solutions Class VI Urdu

او صبح کے ستارے
سوچیے اور بتائیے۔
1.  اس نظم میں شاعر کس سے بات کر رہا ہے؟
جواب: اس نظم میں شاعر صبح کے ستارے سے بات کر رہا ہے۔

2.  صبح کا ستارہ کس طرف جارہا ہے اور اس کی منزل کہاں ہے؟
جواب:صبح کا ستارہ آسمان کی طرف جارہا ہے۔ اس کی منزل آسمان ہے۔

3.  صبح کے ستارے کو کس بات کا ڈر ہے؟
جواب: صبح کے ستارے کو اس بات کا ڈر ہے کہ اب سورج نکل آئے گا اور وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔

4.  سورج کے آنے کا کیا مطلب ہے؟
جواب: سورج کے آنے کا مطلب ہے صبح کا ہوجانا اور ستاروں کا چھپ جانا۔

5.  صبح کا ستارہ کیوں مسکرا رہا ہے؟
جواب: صبح کے ستارےکی مسکراہٹ کا راز یہ ہے کہ اس وق سماں بہت خوبصورت ہو جاتاہے۔

6. اس نظم میں زمانے کو خاموش اور بے ہوش کیوں کہا گیا ہے؟
جواب:صبح کے وقت خاموشی چھائی رہتی ہے اور لوگ نیند میں ڈوبے ہوتے ہیں۔

7.  صبح کے ستارے کے تھرتھرانے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: صبح کا ستارہ سورج کی آمد کی وجہ سے تھرتھرانے لگتا ہے کہ اب سورج کی شعائیں اس کے وجود کو نظروں سے اوجھل کر دیں گی۔

8.  شاعر صبح کے ستارے کو کیوں گلے لگانا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر صبح کے ستارے کو اس لیے گلے لگانا چاہتا ہے کہ وہ اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے اپنا دل کو لبھانے والا دوست سمجھتا ہے۔

نیچے دیے الفاظ اور محاوروں کو الگ الگ کیجیے اور انہیں جملوں میں استعمال کیجیے
الفاظ
جلوہ : آسمان پر ستاروں کا جلوہ تھا۔
منزل : وہ اپنی منزل کی سمت جارہا تھا۔
سمت : اس نے مغرب کی سمت سفر شروع کیا۔
جھلملانا : ۔آسمان میں تارے جھلملا رہے ہیں۔
محاورے
جی لبھانا : صبح کا ستارہ شاعر کا دل لبھاتا ہے۔
منہ اترنا :  تارے کو چھپتے دیکھ شاعر کا منہ اتر گیا۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Kabuli Wala - NCERT Solutions Class VI Urdu

کابلی والا
سوچیے اور بتائیے
1. مُنّی کون تھی؟
جواب: مُنّی ایک پانچ برس کی بچّی تھی۔

2. مُنّی نے بابو جی سے سبودھ کی کیا شکایت کی؟
جواب: بابو جی سبودھ کوّے کو کاگ کہتا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔

3. کابلی والے کا حلیہ کیسا تھا؟
جواب: کابلی والا لمبے ڈیل ڈول والاتھا وہ ڈھیلے ڈالے کرتا پہنتا اور صافہ باندھے رہتا تھا۔

4. کابلی والے کو دیکھ کر مُنّی کیوں گھبرا گئی؟
جواب: اس  کی ماں اس سے کہا کرتی تھی کہ کابلی والے بچوں کو تھیلے میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ اس لیے کابلی والے کا حلیہ دیکھ کرمُنّی ڈر گئی۔

5. مُنّی کی ماں اسے کس بات پر ڈانٹ رہی تھی؟
جواب:مُنّی کی ماں اس کے پاس اٹھنی دیکھ کر اسے ڈانٹ رہی تھی  کہ اس نے کابلی والے سے اٹھنی کیوں لی۔

6. وطن جانے سے پہلے کابلی والا گھر گھر کیوں جاتا تھا؟
جواب: وطن جانے سے پہلے کابلی والاگھر گھر جاکر اپنا روپیہ و صول کرتا۔

7. کابلی والے کو جیل کیوں بھیجا گیا؟
جواب: کابلی والے نے غصّے میں چھری سے ایک چپراسی پر حملہ کردیا تھا۔

8. کابلی والا مُنّی کو اپنی جھولی سے کیا دیا کرتا تھا؟
جواب: کابلی والا مُنّی کو اپنے چھولے سے میوے نکال کر دیا کرتا۔

9. کابلی والے کے پاس اپنی بیٹی کی کیا نشانی تھی؟
جواب: کابلی والے کے پاس ایک کاغذ  پر اس کی بیٹی کے چھوٹے سے ہاتھ کانشان تھا۔ اپنی بیٹی کی اس نشانی کو چھاتی سے لگاکر رحمت اتنی دور سے میوہ بیچنے کلکتہ آیا تھا۔

10. مُنّی کو دیکھ کر کابلی والے کو کیا یاد آیا؟
جواب: مُنّی کو دیکھ کر کابلی والے کو اپنی بیٹی یاد آگئی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. میں اپنے ناول کا سترہواں باب لکھ رہا تھا۔
2. کابلی والے سے میرا تعارف اس طرح ہوا۔
3. کابلی والے کا نام رحمت تھا۔
4. پیچھے سے لڑکوں اور راہ گیرں کا مجمع چلا آرہا تھا۔
5. کابلی والا کہتا ''مُنّی سسرال جاؤگی"
6.  رحمت گھونسہ تان کر کہتا میں تو  سُسرےکو ماروں گا۔
7.رحمت گھر گھر جا کر اپنا روپیہ وصول کرتا۔
8. میں نے کہا آج تو میں بہت مصروف ہوں۔
9. اس کاغذ پر ایک چھوٹے سےہاتھ کا نشان تھا۔
10. اس کو یکایک احساس ہوا کہ اس کی لڑکی بھی اتنے دنوں میں بڑی ہو گئی ہوگی۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
صافہ : کابلی والے نے صافہ باندھ رکھا تھا۔
ڈیل ڈول : وہ لمبے ڈیل ڈول کا مالک تھا۔
خوف : وہ خوف سے پردے کے پیچھے چھپ گئی۔
مصروف :  وہ بہت مصروف ہوگیا۔
احتیاط : ہر کام احتیاط سے کرو۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے

دوست : دشمن
بے ایمان : ۔ایمان دار
خوشی : غم
خوش نما : بد نما
اُلٹا : ۔سیدھا
انکار : اقرار

محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
دام وصول کرنا : دوکاندار نے میوؤں کے پورے دام وصول کیے۔ 
لین دین کرنا : کاروبار میں لین دین جاری رہتا ہے۔
وار خالی جانا : پٹھان کا وار خالی چلا گیا۔
حق مارنا : ہمیں کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے۔
مال دبا لینا : بنیے نے مہاجن کا سارا مال دبا لیا۔


واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیں
باتیں : بات
آنسو : ۔آنسوؤں
راہ گیر : ۔راہ گیروں
میوہ : میوے
سپاہیوں : ۔سپاہی
چادر : ۔چادریں
مہمانوں : مہمان
برسوں : برس

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Hamare Tehwaar - NCERT Solutions Class VI Urdu

ہمارے تہوار
سوچیے اور بتائیے
1. تہواروں سے ہمیں کیا پیغام ملتا ہے؟
جواب: سبھی تہوار ہمیں خوشی اور امن کا پیغام دیتے ہیں۔

2. ہولی کا تہوار کس واقعے کی یاد دلاتا ہے؟
جواب: کہا جاتا ہے کہ ہرن کشیپ نام کا ایک ظالم راجہ تھا۔ اس نے اپنے بیٹے پرہلادکو جلانے کی کوشش کی لیکن وشنو جی کی مہربانی سے وہ بچ گیا۔ اس کوشش میں پرہلاد کی بوا ہولیکاجل کر ختم ہو گئی۔ اس دن کی یاد میں ہولی منائی جاتی ہے۔

3. دیوالی کیوں منائی جاتی ہے؟
جواب: کہا جاتا ہے کہ دیوالی کا تہوار پلی بار اس وقت منایا گیا تھا جب رام چندر جی  لنکا کے راجہراون کو ہراکر اپنی راجدھانی اجودھیا میں داخل ہوئے تھے۔

4. اونم  کا تہوار کس طرح مناتے ہیں؟
جواب: اونم پھولوں کا تہوار ہے۔ یہ جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں اگست یا ستمبر میں منایا جاتا ہے۔۔ اس دن وہاں کے باشندے راجہ مہابلی کے زمانے کے امن و سکون، خوش حالی اور آپسی محبت کو یاد کرکے گیت گاتے ہیں۔ اس موقعے پر عورتیں اور لڑکیاں گھڑوں کو صاف ستھرا کرکے خوش نما پھولوں سے سجاتی ہیں۔راجہ مہابلی اور وشنو دونوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ پوجا کے بعد گھر کے بزرگ چھوٹوں اور دوستوں کو تحفے میں کپڑے دیتے ہیں۔

5. پونگل کے لفظی معنی کیا ہیں اور یہ کس علاقہ کا تہوار ہے؟
جواب:پونگل کے لفظی معنی ہیں 'چاول کی کھیر' جو اس موقع پر غریبوں کو کھلائی جاتی ہے اور یہ تمل ناڈو کا خاص تہوار ہے۔

6.عید کا تہوار کب اور کیوں منایا جاتا ہے؟
جواب:عید الفطر جے میٹھی عید کہتے ہیں مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔یہ رمضان کا مہینہ ختم ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ جب رمضان کی آخری تاریخ کو نیا چاند دکھائی دیتا ہے تو اگلے دن بڑی دھوم دھام سے عید منائی جاتی ہے۔

7. عید الاضحیٰ کا تہوار کس قربانی کی یاد دلاتا ہے؟
جواب: عید الاضحیٰ مسلمانوں کا ایک مقدس تہوار ہے۔ یہ ذی الحجّہ کی دسویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اسے بقرعید اور عید قرباں بھی کہتے ہیں۔ خدا نے پیغمبر حضرت ابراہیم کو بشارت دی کہ اگر تم مجھ سے سچّی عقیدت رکھتے ہو تو میرے نام پر اپنے بیٹے کو قربان کردو۔ حضرت ابراہیم فوراً حضرت اسمٰعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ گلے پر جیسے ہی چھری پھیری کہ اللہ کے حکم سے حضرت اسمٰعیل کی جگہ ایک دنبہ آگیا۔ اسی قربانی کی یاد میں بقرعید منائی جاتی ہے۔

8. کرسمس ڈے کسے کہتے ہیں؟
جواب: 25 دسمبر حضرت عیسیٰ کی ولادت کا دن ہے۔ عیسائی اسے کرسمس ڈے اور بڑا دن بھی کہتے ہیں۔

9. گرونانک جینتی کیوں منائی جاتی ہے؟
جواب:گرو نانک جینتی سکھوں کا خاص تہوار ہے۔سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کی پیدائش کے دن یہ تہوار منایا جاتا ہے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
ناراضگی : ناراضگی میں کسی کا دل دکھانا ٹھیک نہیں۔
استقبال : فوجیوں کا دھوم دھام سے استقبال ہوا۔
قابل دید : یہ منظر قابل دید تھا۔
پیغام : بھارت سب کو امن  کا پیغام دیتا ہے۔
خوش حالی : ملک میں خوش حالی آگئی ہے۔
پُر کیف : صبح کا نظارہ پُرکیف تھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
خوشی : غم
فتح : شکست
رہائی : گرفتاری
نیکی : بدی
نفرت : محبت
خوش حال : بدحال
غریب : امیر

Barish Ka Pehla Qatra - NCERT Solutions Class VI Urdu

بارش کا پہلا قطرہ
اسماعیل میرٹھی
سوچیے اور بتائیے
1. ہر قطرے نے اپنے کو ناچیز اور غریب کیوں کہا ہے؟
جواب: قطروں نے اپنے کو ناچیز اور غریب اس لیے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ تنہا ان کی کوئی بساط نہیں اور وہ گرم زمین پر گر کر ختم ہو جائیں گے۔

2. دلاور قطرے نے کیا کہا؟
جواب: دلاور قطرے نے کہا کہ آؤ میرے پیچھے قدم بڑھاؤ اور پورے میدان کو سیراب کردو۔

3. شاعر نے سخی کس کو کہا ہے؟
جواب: شاعر نے سخی  پانی کے قطرے  دلاور کو کہا ہے۔

4. سخی کی جرأت دیکھ کر دوسرے قطروں نے کیا کیا؟
جواب: سخی کی جرأت دیکھ کر سبھی قطرے اس کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ قطروں کا تار بن گیا اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔

5. شاعر اس نظم میں کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ قو کم سے پانی کے قطروں کی طرح اتفاق کرلے اور ایک سیل رواں بن جائے۔
وہ بتانا چاہتا ہے کہ اتفاق میں بڑی طاقت ہے جس طرح کمزور پانی کا قطرہ سیلاب لا سکتا ہے تم بھی زمانے کی تقدیر بدل سکتے ہو۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں
قطرہ : بارش کا پہلا قطرہ زمین پر گرا۔
خطرہ : زمین پر خطرہ تھا۔
دلاور : قطرہ بڑا دلاور تھا۔
شناور : وہ بہت بڑا شناور تھا۔
جانفشانی : اس نے جانفشانی سے محنت کی۔
جرأت : قطروں نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔
سخی : نیک آدمی بہت سخی تھا۔
پیروی : سبھی قطروں نے دلاور کی پیروی کی۔
قوم : قوم کو قطرے سے سبق سیکھنا چاہیے۔
مصرعوں کو مکمل کیجیے
1. ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
2. مٹی، پتھر تمام ہیں گرم
3. ایک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
4. میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
5. قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
6. اے صاحبو قوم کی خبر لو
ان لفظوں کے متضاد لکھیے
گرم : ٹھنڈا
سخی : کنجوس
زمین : آسمان
اتفاق : اختلاف
واحد سے جمع اور جمع سے واحد لکھیے
قطرہ  : قطرے، قطرات
خطرہ  : خطرات 
پتھروں  : پتھر 
اقدام  : قدم 
قوم  : اقوام 
خبریں  : خبر 
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Newer Posts Older Posts Home

خوش خبری