آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday 28 July 2016

ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ ؒ ۔۔ فقر غیور کاایک مثالی کردار


ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ ؒ ۔۔۔فقر غیور کاایک مثالی کردار

از طیب عثمانی ندوی


مجھے یاد نہیں،میں نے جناب ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحب ؒ کو کب اور کیسے دیکھا؟ اپنے دور طالب علمی میں ، جب میں تحریک اسلامی سے قریب ہوا اور ندوہ سے چھٹیوں میں گھر آنا ہوتا تو کبھی کبھی پٹنہ بھی جانا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کا نام اکثر سنتا۔ پھر تحریک اسلامی کی قربت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے درس قرآن کی شہرت سے واقفیت بڑھتی گئی۔میں نے ان کو جب بھی دیکھا ایک طرح پایا،قمیص ،چوڑے مہری کا پاجامہ،کشتی نما ٹوپی،سادگی کا پیکر،چہرہ روشن،پاک دل و پاکباز ،یہ تھا ڈاکٹر صاحب کا سراپا۔ان کی شخصیت کی ایک اور شناخت ان کی سائیکل بھی تھی،جس پر وہ اپنے پاجامہ کے ایک پائنچہ میں کلپ لگائے عالم گنج سے انجمن اسلامیہ تک اور جانے کہاں کہاں رواں دواں ہوتے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ابتدا میں اکثر ان کو اسی طرح سائیکل پر ہی دیکھا تھا۔یہ انداز بے نیا زانہ اور طرز قلندرانہ میرے لئے باعث کشش ہوتا۔ پھر تحریکی دلچسپی کے باعث اکثر ان سے ملنے، باتیں کرنے، ان کے درس قرآن میں شریک ہونے اور تقریروں کو سننے کا موقع ملا جیسے جیسے قربت بڑھتی گئی ان کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ خصوصاً ان کے درس قرآن میں جی لگتا، قرآنی نکتے، سائنسی انداز بیان اور حالات حاضرہ پر ان کا انطباق، ان کے درس قرآن کی خصوصیت تھی۔ جس نے ہر مکتب فکر میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا تھا۔ خصوصاً طلبا اور نوجوانوں میں وہ بیحد مقبول تھے، ان کی سیرت کے موضوع پر تقاریر اور انجمن اسلامیہ کے جمعہ کے خطبے میں تو دور دور سے لوگ سننے کے لئے آتے۔ وہ جس ایمان و یقین کی دولت سے مالامال تھے، اس کا اثر نئی نسل پر بیحد پڑتا، ان کے ذہن و فکر میں جلا پیدا ہوتا، تشکیک و تذبذب کے اندھیرے دور ہوتے اور ان کے اندر ایمان و یقین کی قندیلیں روشن ہوجاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی فقر و درویشی تھی، جو موجودہ معاشرہ اور اپنے ہم عصروں میں انہیں بہت ممتاز کر دیتی تھی۔ یہ فقر، ’’فقر خود اختیاری‘‘ تھا۔ حکومت کی اعلیٰ ملازمت اور دنیاوی ترقی کے امکانات کو چھوڑ کر ہومیوپیتھ ڈاکٹری کے پیشہ کو اختیار کیا تھا، جس سے انہیں بڑی مناسبت تھی۔ جو ان کی بقدر کفاف زندگی کا ذریعہ تھا، صاف ستھری اور سادہ رہن سہن ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ تحریک اسلامی کے کاموں میں وہ ہمہ وقت مشغول رہتے، پھر امیر حلقہ بھی ہوئے لیکن جماعت کے ضابطہ کے مطابق بقدر کفاف، کوئی رقم اپنی ذات کے لئے قبول نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب کے اندر تحقیق و جستجو اور نئی نئی ایجادات کا شوق اورفطری جذبہ تھا، نئی نئی دوائیں بنانے کے تجربے کرتے، عطر سازی کا خاص ذوق اور مشغلہ بھی تھا۔ طبابت و تجارت بھی بس اتنا ہی کرتے جو ان کے لئے بقدر کفاف ہوتے۔ جلبِ منفعت ان کا مطلوب و مقصود نہ تھا، وہ کبھی کسی کی مالی طور پر ممنون احسان نہیں ہوئے، اپنے مخلص، عقیدت مند اور قریبی رفقاء جو ان سے محبت رکھتے تھے، اس معاملہ میں ان سے بھی محتاط رہتے، فقر و درویشی ان کا مزاج تھا اور یہ چیز ان کے لئے باعث لذت و مسرت ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ ’’فقر غیور‘‘ کے مثالی کردار تھے۔ میرے نزدیک ان کی شخصیت اور زندگی کا یہ ایسا روشن و تابناک پہلو ہے جو اس مادہ پرستانہ اور پرتعیش معاشرہ کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔ 
ڈاکٹر صاحب کا تحریک اسلامی کے کاموں، سیرت کے جلسوں اور جماعت کے خطاب عام کے سلسلہ میں اکثر گیا بھی آنا ہوتا، اجتماعات کے علاوہ بھی ان کی صحبت میں مجھے بیٹھنے، ان کی باتیں سننے کا موقع ملتا، وہ زاہد خشک نہ تھے، شائستہ اور پر مزاح گفتگو کرتے، بڑے، بوڑھے اور بچے سبھی ان کی بصیرت افروز گفتگو سے لطف اندوز ہوتے، ان کے خطبے اور تقریر یں سادہ اور دلنشیں ہوتیں، وہ اپنی باتوں کو بڑے یقین اور اعتماد سے کہتے۔ ان کا ایک یقین، لاکھوں شک پر بھاری ہوتا۔ میں جب بھی ان کی تقریریں سنتا، مجھے اس بات کا بڑا احساس ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب کا یقین اس رومانی انقلابی تصور سے زیادہ ہم آہنگ ہے، جس کا تعلق زمینی عملی زندگی سے دور اور ایک خیالی رومانس سے قریب تر ہے۔ وہ اکثر اپنی تقریروں میں اس مغربی تہذیب اور مادی دنیا کا نقشہ اس طرح کھینچتے جیسے یہ تہذیب مغرب، اقبال کی زبان میں اپنے ہاتھوں آپ خود کشی پر تلی بیٹھی ہے، شب تاریک کے بعد، نمود سحر کے آثار نمایاں ہیں اور اب اسلامی انقلاب کا سورج بس طلوع ہی ہونے والا ہے۔ اس بات کو وہ جس ایمان اور نبوی یقین و مشاہدے کے انداز سے کہتے کہ کچھ دیر کے لئے سامعین کھو جاتے اور وہ محسوس کرتے کہ اب اسلام کا اجالا پھیلنے ہی والا ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر صاحب ملت اور مسلم مسائل سے ہٹ کر، وہ براہ راست غیر مسلموں میں دعوت اسلامی کے قائل تھے۔ میرے خیال میں اسی باعث اپنے آخری دور میں تحریک اسلامی کے بعض عملی پہلو اور ملکی حالات کے تناظر میں حکمت عملی سے خاصا اختلاف ہوگیا تھا۔ جس جماعت اور تحریک سے وہ زندگی بھر وابستہ اور پیوستہ رہے، اس کی مخالفت تو کبھی نہیں کی لیکن عملاً خموش بیٹھ گئے۔ میں اس کی وجہ ان کا وہی رومانی انقلابی تصور سمجھتا ہوں، جو ان کے جذبہ صادق اور یقین کامل سے ہم آہنگ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایمان و یقین کی یہ وہ منزل تھی، جس کے لئے ملکی حالات اور وقت درکار تھا اور موجودہ تحریک اسلامی کی اجتماعی قیادت فکر کی اِن دو انتہاؤں کے درمیان پھونک پھونک کر جس طرح قدم بڑھا رہی تھی، ڈاکٹر صاحب اس سے مطمئن نہیں تھے، اور واقعہ یہ ہے کہ آج ملک کے حالات اتنے تشویشناک، پر خطر اور سنگین ہوگئے ہیں کہ اب ضرورت عملی اقدام کی ہے۔ غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج مسلم ملت جن تہلکوں سے دوچار ہے، اور پورا ملک فسطائیت کے جس شکنجہ میں کسا جا رہا ہے اس کے تدارک کے لئے اجتماعی فکر و عمل درکار ہے۔ خدا ہماری قیادت کو حکمت و بصیرت سے نوازے۔
اخیر عمر میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی ذوق تصوف کی طرف بھی مائل تھا۔ صوفیائے کرام کے اذکارو اشغال ،مشاہدہ و مراقبہ کی وہ سائنسی تحقیق و جستجو کرنا چاہتے تھے، مجھ سے انہوں نے صوفیا کے پرانے بیاض اور اذکار واوراد وظائف کی کتابوں کی فرمائش کی، میرے پاس جو کچھ تھا، ان کے حوالہ کیا، کچھ دنوں کے بعد انہیں مجھے واپس کردیا اور کہنے لگے، میں جو چاہتا تھا وہ اس میں نہیں ہے۔ وہ دراصل قدیم صوفیاء کے ان مشاہدوں اور مراقبوں کی سائنسی توجیہہ و تعبیر کرکے ان کا سائنٹفک تجربہ کرنا چاہتے تھے، نہ جانے وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوسکے۔
بہر حال، ڈاکٹر صاحب کی روشن پاکیزہ زندگی اور قرآنی فکر و بصیرت ہمارے لئے آج بھی شمع راہ ہے، وہ دل روشن، فکر ارجمند اور زبان ہوشمند کے مصداق تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مراتب و درجات کو بلندفرمائے۔ اور ان کی دینی و اجتماعی کوششوں کو قبول فرمائے۔ اور ۔ ع
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری