نواب نے مامو ں کو خط لکھ دیا تھا کہ میں ۳ بجے والی ٹرین سے
آ رہا ہوں نوکر کو بھیج دیجیے لیکن جب ٹرین محمود پور پہنچی تو نوکر کا کہیں پتہ
نہیں تھا ۔ نواب نے پہلے پلیٹ فارم پر نظر دوڑائی لیکن جب دو منٹ رک کر ریل نے چلنے کی سیٹی دی تونواب گھبرایا اس نے جیسے تیسے ریل سے اپنا سامان اتارا اور
سوچنے لگا کہ کیا کرے ماموں کا مکان یہاں
سے تین میل دور ہے یہاں نہ تو قلی نہ آس پاس مزدور ۔کس طرح اپنا سامان لادے اور تین
میل کا راستہ کاٹے۔ نواب کے پاس سامان زیادہ تو نہ تھا ایک اٹیچی تھی جس میں اس کے کپڑے وغیرہ تھے۔ ایک چھوٹا سا بستر تھا اور ایک چھوٹی سی ٹوکری ۔جس میں کچھ پھل اور میوے تھے۔ وہ تو
کہیں اللہ نے بڑی مہربانی کی ایک نوجوان لڑکا ٹہلتا ہوا
اسٹیشن پر آگیا اس نے نواب کو اکیلا بیٹھے دیکھا تو پاس آیا ۔حال پوچھا ۔نواب نے
اپنی کہانی سنائی کہ نوکر سائیکل لے کر
نہیں آیا اب یہ سامان کس طرح جائے ۔"واہ
بھائی واہ یہ سامان ہی کتنا ہے؟"اس نو جوان کہا۔
"کیا یہ کم
ہے؟"نواب بولا۔
"یہ تو کچھ بھی نہیں ۔پھر تم ہٹے کٹے نوجوان ہو لادو
اور چل دو"
واہ کیا مجھے نیچی
ذات کا سمجھ لیا ہے۔
نہیں بھائی کوئی اپنا
کام اپنے ہاتھوں کرکے ذلیل نہیں ہوتا ہے۔
نو جوان کی باتیں
سن کر نواب کچھ نہ کہہ سکا اور کسی سوچ
میں پڑ گیا۔ نوجوان لڑکے کو اس پر ترس آ رہا تھا ۔ترس یہ کہ سولہ سترہ سال کا ہٹا
کٹا تندرست اور کام سے جی چراتا ہے ۔اس نے کہا
"تو اپنے ساتھ نوکر کیوں نہیں رکھتے؟"
نوکر ہر گھڑی تو ساتھ نہیں رہتے اور پھر میرے گھر دو ہی نوکر ہیں۔
دونوں گھر پر ہیں ۔آپ جب اپنا کام اپنے
ہاتھوں نہیں کر سکتے تو نوکر کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔
واہ ہر وقت نوکر کوئی کیسے ساتھ رکھ سکتا ہے اور پھر کہیں
جانا ہوتو؟
"تو بھی"
"یہ کیسے ہو سکتا ہے"
ہو کیوں نہیں سکتا میں تو اپنے نوکر اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔
"جھوٹ مت بکو اور جاؤ یہاں سے "نواب نے نو جوان
سے کہا۔
"بھائی جھوٹ بڑا گناہ ہے۔"میں جھوٹ نہیں کہتا۔
''تو کہاں ہیں تمہارے ساتھ تمہارے نوکر؟"
یہ دیکھو یہ میرے
دو ہاتھ اور یہ دیکھو یہ میرے دونو ں پیر
یہ چاروں میرے بڑے
اچھے نوکر ہیں ۔میں ان سے جو کام کہتا ہوں جھٹ کرتے ہیں۔انھیں بلانے کی ضرورت نہیں
یہ ہر وقت میرےساتھ رہنے ہیں۔ اگر تم کہو
تو میں اپنے نوکروں سے
تمہارے کام کرادوں "
نواب اس نوجوان کا منہ تکنے لگا۔ نوجوان نے نواب کی اٹیچی
اٹھائی بستر بغل میں دابا اور کا کہ اپنی ٹوکری تو لے کر چلو اور اگر یہ بھی نہ اٹھائی جاسکے تو لاؤ میرے ہاتھ میں
پکڑا دو۔
نواب سچ مچ بڑا کاہل
تھا ۔ اسے ٹوکری بھی لے کر چلنا دوبھر تھا۔ اس نے نوجوان کو ٹوکری بھی دے
دی۔ نوجوان تینوں چیزوں کو لے کر چلا ۔ وہ بڑا تیز چل رہا تھا۔ نواب کو بار بار اس
کا ساتھ پکڑنے کے لئے دوڑنا پڑتا۔ وہ نوجوان کی خوشامد کرتا کہ بھائی ذرا دھیرے
چلو۔
گھنٹہ بھر میں نواب اپنے ماموں کے گھر پہنچ گیا۔نوجوان اس
کا سامان دے کر چلا تو نواب نے ایک روپیہ اسے دینا چاہا۔ نوجوان نے جواب دیا
''میرے نوکر مزدوری نہیں لیتے۔" اور وہ چلا گیا۔
نواب سوچنے لگا۔ اگر آج یہ نوجوان اسٹیشن پر نہ مل جاتا تو
میں کیسے آتا۔
اس نے اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالی۔ دونوں پیروں کو دیکھا۔
بولا''یہ نوکر تو سچ مچ مفت کے ہیں۔ کاش کے میں نے ان سے خدمت لی ہوتی۔"
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ |
0 comments:
Post a Comment