آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 19 October 2018

Khwaab e Aazaadi - NCERT Solutions Class VIII Urdu

خوابِ آزادی
شوکت تھانوی

بہ شکریہ این سی ای آر ٹی

سوچیے اور بتائیے۔
1۔ شاعر نے خواب میں کیا دیکھا؟
جواب: شاعر نے خواب میں دیکھا کہ وہ اب آزاد ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اب وہ ہر کام کر سکتا ہے جس کا کرنا پہلے جرم تھا۔

2۔ شاعر کے بے خوف ہونے کی کیا وجہ تھی؟
جواب: شاعر اس لیے بے خوف تھا کہ اب وہ آزاد ہے اور قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

3۔ "خود ہی کوزہ، خود ہی کوزہ گر وہی مضمون ہے" اس مصرعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر کی مراد یہ ہے کہ وہی قانون بنانے والا اور خود ہی اس پر عمل کرنے والا ہے۔یعنی وہی برتن ہے اور وہی برتن بنانے والا بھی اس لیے اب اسے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

4۔ شاعر نے اپنے آپ کو تھانیدار کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر کے خود کو تھانیدار کہنے سے یہ مراد ہے کہ آزاد ہونے کی وجہ سے اب وہ شہر کا حاکم ہے اور وہ خود ہی سرکار ہے لہذا اب وہ صرف نم کا تھانوی نہیں بلکہ تھانیدار ہے۔

5۔ چور بازاری اور شاہ بازاری سے کس طرح گھر بھرا جاسکتا ہے۔
جواب: چور بازاری کے معنی ہیں اشیا میں ملاوٹ کرنا اور شاہ بازاری سے مراد چیزوں کی زیادہ قیمت وصول کرنے سے ہے۔ مثلاً دوگنا تین گنا منافع وصول کرنا یا پھر گھی میں چربی ملانا۔ اس طرح شاعر کو لگتا ہے کہ وہ اپنا گھر بھر سکتا ہے۔

6۔ گاہک کی بربادی گھی میں چربی ملانے سے کیسے ہو سکتی ہے؟
جواب: چربی ملی ہوئی گھی کھا کر گاہک بیمار پڑسکتا ہے اس لیے کہ یہ چربی کسی بھی جانور کی ہو سکتی ہے۔ ملاوٹی کھانا اسے بیمار ڈال کر اسپتال پہنچا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کی جان بھی لے سکتا ہے۔

7۔ نیند سے بیدار ہونے کے بعد شاعر اپنے آپ کو کن پابندیوں میں گھرا پاتا ہے؟
جواب: شاعر نیند سے بیدار ہونے پر خود کو اپنی آزادی کی پابندیوں میں گھرا پاتا ہے۔ شاعر سمجھ جاتا ہے کہ آزادی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور وہ ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے۔

ملک اپنا قوم اپنی اور سب اپنے غلام
آج کرنا ہے مجھے آزادیوں کا احترام

جس جگہ لکھا ہے مت تھوکو!میں تھوکوں گا ضرور
اب سزاوار سزا ہوگا نہ کوئی بھی قصور

میری سڑکیں ہیں تو میں جس طرح بھی چاہوں چلوں
جس جگہ چاہے رکوں اور جس جگہ چاہے مڑوں

کیوں نہ رشوت لوں کہ جب حاکم ہوں میں سرکار ہوں
تھانوی ہرگز نہیں ہوں اب میں تھانیدار ہو

ان لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے
احترام (عزت، حرمت، توقیر) ہمیں مسجد کا احترام کرنا چاہیے۔
 ہم سب اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔ 
سزاوار (مستحق، لائق، اہل، قابل)   وہ اپنے گناہوں کا سزاوار ہے۔ 
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت#اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے(حسرت موہانی 
رشوت (ناجائز نذرانہ، ناجائز معاوضہ)  رشوت لینا اور دینا دونوں گناہ ہے۔ 
چور بازاری (چیزوں کو مقررہ نرخ سے زیادہ قیمت پر چوری سے فروخت کرنا۔)  چور بازاری سے بچنا چاہیے۔

حقیر (مبتذل، ذلیل، خوار، معمولی، کمتر)   کوئی پیشہ حقیر نہیں ہے۔ 

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
آزادی : غلامی
قید : آزاد
زندہ باد : مردہ باد
غلام :  آقا
اسیر : آزاد
بربادی  : آباد 
کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری