آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 6 April 2020

Dehaat ki zindagi - NCERT Solutions Class IX Urdu

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
Dehaat ki zindagi by Abdul Haleem Sharar  Chapter 5 NCERT Solutions Urdu
دیہات کی زندگی
عبدالحلیم شرر
اے شہر کے عالی شان محلوں میں رہنے والو !تمھیں نہیں معلوم کہ دیہات کے رہنے والے دنیا کا کیا لطف اٹھاتے ہیں۔ تم ایک منزل عشرت میں ہو۔ عالم کی نیرنگیاں تمھاری نظر سے بہت کم گزرتی ہیں۔ جس مقام پرتم ہو وہاں صبح و شام کی مختلف کیفیتیں بھی اپنا پورا پور ااثر نہیں دکھاسکتیں۔ تمھیں خبربھی نہیں ہوتی کہ آفتاب کب نکلا اور کب غروب ہوا۔ ہواکس طرف کی چلی اور کیا بہار دکھا گئی۔ مگر غریب دیہات والے جنہیں تم اکثر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو وہ ان امور کا ہروقت اندازہ کرتے رہتے ہیں ۔ ہرصبح انہیں ایک نیا لطف دیتی ہے اور ہر شام سے انہیں ایک نئی راحت نصیب ہوتی ہے۔
گاؤں کے جفاکش رہنے والے صبح کے تارے ہنوز جھلملانے بھی نہیں پاتے کہ وہ اپنی رات کی راحت سے اکتا چکتے ہیں، ایسے وقت میں نسیم کے خوشگوار اور نازک جھونکے آتے ہیں اور بڑے ادب کے ساتھ انہیں جگانے لگتے ہیں۔ اس وقت ان کے ناز اور بادسحر   کے نیاز دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ صبح کی ہوا نہایت شگفتگی کے ساتھ جگاتی ہے اور وہ نہیں جاگتے ۔ صرف کروٹیں بدل بدل کر رہ جاتے ہیں۔بادِ سحر یوں ہی اصرار کرتی ہوتی ہے کہ صبح کے نقیب مرغان سحر اٹھتے ہیں اور انھیں اٹھاتے ہیں ۔ غریب محنت پسند لوگ تازہ دم اٹھ بیٹھتے ہیں ۔ وقت کی کیفیتوں کو نہایت غور سے بڑے لطف کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ جھونپڑیوں سے باہر نکلیں ، آسمان کو دیکھا جس میں تارے جھلملا رہے تھے۔ افق مشرق پر نظر ڈالی جو رات بھر کے چمکے ہوئے تاروں پر غالب آئی جاتی تھی۔ کچھ کچھ نمودار ہونے والے درختوں کو دیکھا جن پر چڑیاں  چہچہارہی تھیں ۔ یہ سماں انھیں اپنی خوبیاں دکھا کر بے خود کرنے کو تھا کہ انھوں نے اپنے دن کے کام کو یاد کیا۔ آگے بڑھے اور رات کی دبی ہوئی آگ پر گری ہوئی پیتاں جمع کر کے آگ جلائی۔ تاپ تاپ کے افسردہ ہاتھ پاؤں کو گرمایا اس کے بعد پاس کے شکستہ جھونپڑے میں جا کے بیل کھولے اور عین اس وقت جب کہ آفتاب کی کھڑی کھڑی کر نیں مشرقی کناره آسمان سے اوپر کو چڑھتی نظر آتی ہیں ۔ یہ لوگ لمبے لمبے پھلوں کو کاندھے پر رکھ کر کھیت کی طرف روانہ ہوئے ۔ کھیتوں کی مینڈوں پر جارہے ہیں ۔ اور زمین کی فیاضیوں کو کس مسرت اور خوشی کی نظر سے دیکھتے جاتے ہیں۔ ہرے ہرے کھیت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے لہرارہے ہیں ۔ نظر اس خوشگوار سبزی پر عجب لطف کے ساتھ کھیلتی ہوئی دور تک چلی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے پودے جو خدا کے پاس سے دنیا والوں کی روزی لیے آتے ہیں کس قدر شگفتہ اور بشاش نظر آتے ہیں۔ رات کا برقعہ اڑھا کر آسمان نے انھیں اور زیادہ خوبصورت بنا دیا ہے۔ کیونکہ تاروں کی چھاؤں میں اس وقت ان کی نازک اور چھوٹی پتیوں پر شبنم کے موتی جھلک رہے ہیں ایک عالمِ جواہر ہے جس پر جھلملاتے ہوئے تاروں کی شعاعیں خدا جانے کیا کیفیتیں دکھا رہی ہیں ۔ ان جفا کشوں نے اس وسیع میدان کو نہایت شوق سے دیکھا جو اس وقت تو صرف ان کی نظر ہی کو خوش کرتا ہے مگر اصل میں قدرت کے ہدیے اور نیچرکے تحفے ہر جاندار کو اس کی فیاضیوں سے ملتے ہیں ۔ یہ لوگ کھیتوں میں پہنچ کر اپنی غفلت پر نادم ہوگئے کیونکہ اور لوگ ان سے پیشتر پہنچ چکے تھے۔ یہ لوگ تر و تازہ کھیتوں میں منتشر ہوگئے ۔ آفتاب کی کرنوں نے جو امیر غریب سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہے کھیتوں کی مینڈوں اور کنووں کے کناروں پر ان کا خیر مقدم کیا۔
اب یہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہیں کہ نیچر کے جذبات بھی ان پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتے اور قدرت کی بہار بھی ان کی دل فریبی کرنے سے عاجز ہے۔ وہ ہرا ہرا سبزہ زار، وہ سہانا سماں، وہ صبح  کی بہار۔ و ہ تر و تازہ ہوا وہ  اجلی کرنیں، ایسی چیز یں ہیں جن کا شوق اکثر بے چین طبیعت والوں کو شہروں سے باہر کھینچ کر لے جایا کرتا ہے۔ بار بار ہم پر ایسی وحشت سوار ہوتی ہے کہ گھر سے دو تین کوس تک نکل گئے ہیں مگر یہ لوگ اپنے روزانہ کے کاموں میں ایسے مصروف ہیں کہ انکیفیتوں کو آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتے،  زمین کی اس استعداد کے بڑھانے میں دل و جان سے سائی ہیں جو صرف ان کے لیے نہیں تمام دنیا کے لیے مفید ہے۔ جان توڑ کر محنت کر رہے ہیں ۔غریب کم قوت بیل جوشاید رزق رسانی عالم کی فکر میں دبلے ہو گئے ہیں ان کے ہاتھوں کی مار کھاتے ہیں اور زمین کو پیداوار کے قابل بناتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی محنت آسان کرنے کے لیے یہ لوگ نہایت دردناک آواز میں کچھ گاتے جاتے ہیں اور ان کی آواز کھلے میدان میں گونج گونج کر ایک نئی کیفیت پیدا کرتی جاتی ہے، کنوؤں کے کنارے والے پانی نکال نکال کر زمین کو سیراب اور چھوٹے چھوٹے درختوں کو زندہ کر رہے ہیں ۔ دیکھو وہ کس شوق سے اس بات کے منتظر ہیں کہ ڈول او پر آئے اور انڈیلیں اور جس وقت ڈول ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے کس جوش کے عالم میں چلا اٹھتے ہیں۔ پانی ان کی بڑی دولت ہے جس کی امید میں و و آرزومند بن کر کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اورکبھی کنووں کی طرف رخ کرتے ہیں۔
آفتاب پوری بلندی  پرپہنچ کر نیچے کی طرف مائل ہوتا ہے اور جھکتے جھکتے افق مغرب کے قریب پہنچتے وقت باغ عالم کی دلچسپیوں سے رخصت ہونے کے خیال میں زرد پڑ جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ آفتاب کی حالت اور وضع میں اختلاف ہوجاتے ہیں مگر یہ نہ تھکنے والے اور دھن کے پکے دہقان ایک ہی وضع اور ایک ہی صورت سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ نہ محنت ا نھیں تھکا تی ہے نہ مشقت انھیں ماند ہ کرتی ہے ۔ نہ دھوپ سے پریشان ہوتے ہیں نہ کام کرنے سے  اکتا تے ہیں ۔ الغرض آفتاب غروب ہوتا ہے، دن ان سے رخصت ہوتا ہے اور یہ شام کی دلفریب کیفیتوں کا لطف بخوبی دیکھ کر یہ امید لگا کر کہ کل کھیتوں کو آج سے زیادہ تر وتازہ پائیں گے اپنے کھیتوں سے رخصت ہوتے ہیں ۔ خوش خوش اس کچے اور کم حیثیت گھر میں آتے ہیں جسے ہم نہایت ذلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں۔ بی بی ،غریبی کا کھانا اور فصل کے مناسب ، غذ اان کے سامنے لا کر رکھ دیتی ہے اوتہ ِدل سے خدا کا شکر ادا کر کے کھاتے ہیں اور دوسرے دن کی محنت کا خیال کر کے اپنے تئیں سویرے ہی سلا دیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جس وقت شہروں کے پہر، دن چڑھے تک سونے والے سیہ کار اپنی شرمناک زندگی کے برے نمونے دکھانے کے لیے جاگتے ہیں ۔ زاہد نماز عشا پڑھ کے سو چکا ہے۔ بے فکرے گپیں اڑارہے ہیں ۔ شعرا مضمون آفرینی کی فکر میں ہیں ۔ امراء کے محلوں میں کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ بچے کہانیاں سن رہے ہیں ۔ طلبا ء کتاب پر جھکے ہوئے ہیں ، میکش وہ پیاس بجھارہے ہیں جو کمبخت نہیں بجھتی ہے۔ سیہ کار بدکاری کی دھن میں شہر کی سڑکیں اور گلیاں چھان رہا ہے اور جفاکش عجب میٹھی نیند میں غافل ہو گئے ہیں تا کہ تڑکے آنکھ کھلے ۔ یہ پچھلا اطمینان اور یہ سچی آسائش بے شک حسد کے قابل ہیں۔
گاؤں عموما ًقدرت کا سچی جلوہ گاہ ہوتا ہے۔ وہاں کے سین اپنی سادگی اور دل فریب کیفیتوں کے ساتھ انتہا سے زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں ۔ اے شہر کے نازک خیال اور چابکدست کاریگر و ! وہاں تمھاری صنّا عیوں کی بالکل قدر نہیں ۔ وہاں صرف قدرت کی کاریگری عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور خدا کی فیاضیاں بڑی کامیابی اور نہایت شوق کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں۔ ان کی خوشی کا پیمانہ بہت چھوٹا اور تنگ ہے۔ وہ بہت تھوڑے عرصہ میں خوش ہو جاتے ہیں اور ادنیٰ مسرّت ان کی دل فریبی کے لیے کافی ہوتی ہے۔ وہ لہلہاتے ہوئے سبزہ زارجنہیں وہ روزصبح وشام آتے جاتے وقت دیکھا کرتے ہیں ۔ ان کے مسرور کر دینے کے لیے بہت کافی ہیں ۔ وہ تروتازہ کھیت جن سے زیادہ پیداوار کی امید ہے ان کی خوشی کو اعتدال سے زیادہ بڑھا دیا کرتے ہیں۔ دیہات کا چودھری اگرچہ اس کی حکومت چند کچے اورٹوٹے پھوٹے مکانوں اور ایک وسیع میدان پر محد ود ہے مگر اپنے حلقہ کا پورا بادشاہ ہے۔ اس کے آگے وہاں کی مختصر آبادی میں ہر ایک کا سر جھک جاتا ہے۔ اس کے راج کو ہرشخص بلاعذر تسلیم کر لیتا ہے ۔ اس کے فیصلوں کی کہیں اپیل بھی نہیں ہوتی مگر باوجود اس حکومت کے دیکھو وہ کس بے تکلفی سے اپنے مکان کے دروازے پر بیٹھا ہے۔ دنیاوی پرتکلف فرش کی ضرورت نہیں ۔ میز کرسی کو وہ نا پسند کرتا ہے۔ قدرت کے سادے فرش اور خدا کی زمین پر اس کا دربار لگا ہوا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے رتبہ کے قریب ہی سمجھتا ہے۔ اسی لیے نہ وہ کسی مقام پر بیٹھتا ہے اور نہ گاوں والے کی ذلت کی جگہ پر بیٹھتے ہیں ۔ بس یہ حالت ہے کہ اگر عزت ہے تو سب کی ۔ اس کے گھر میں بھی وہی سامان اور فرنیچر ہے جو اس کے ماتحتوں کے گھر میں ہے۔ پیال اس کا نرم اور آرام دہ بچھونا ہے۔ کچی مگر صاف اور لپی ہوئی کو کوٹھریاں اس کی خواب گاہ ہیں ۔ جفاکش اور گھر گرہست بہو بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں اس کے خادم ہیں کوٹھیوں میں بھرا ہوا غلہ اس کی دولت ہے۔ چند دبلے اور لاغرمویشی اس کا قیمتی سرمایہ ایک کم حیثیت مکان اس کی کوٹھی ہے اور اِردگِرد کے کھیت اور آس پاس کا سبزہ زار اس کا جانفزا باغ ہے۔
گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اور بسیط حالت پر ہیں۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اور اطمینان سے گزرتی ہے۔ ان کی فکر یں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمار اسکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے ۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے اس لیے وہ خدا کی بے واسطہ ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں ۔ غلہ اور اناج ان کا سکہ ہے۔ دنیا کی ہر چیز جوان کی ضرورتیں رفع کرسکتی ہے، غلہ کے عوض میں ان کو باآسانی اور بہ کفایت مل سکتی ہے۔
غریب دیہاتیوں کی یہ بات اس قابل ہے کہ ہم ان سے ایک کارآمد سبق لیں۔ اتفاق ان کی قوت ہے اور باہمی ہمدردی ان کا ہتھیار ہے۔ افلاس اور آفاتِ سماوی  بھی  کبھی ان کی دشمن ہوجاتی ہے۔ مگر وہ اس ہتھیارکو لے کر اٹھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ کھیتوں میں پانی پہنچاتے وقت وہ با ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ کھیتوں میں بیج  ڈالتے وقت وہ ایک دوسرے کو غلّہ قرض دیتے رہتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک عالم کی فکر اپنے سر لیتے ہیں اور دنیا بھر کے لیے خود مصیبت میں پھنستے ہیں ۔ ہم بے فکر ہیں اور اپنی اغراض اور بقائے زندگی کے اسباب بھولے ہوئے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کام کو  وہ پورا کرتے ہیں۔ اس جفاکشی کے انعام میں خدا کی طرف سے انھیں جو کچھ ملتا ہے اس میں سے خود بہت کم لیتے ہیں اور سب ہمارے حوالے کر دیتے ہیں ۔
ایک کسان کی زندگی پر غور کرو اور اس کی سالا نہ محنت و مشقت کا اندازہ کرو کہ کس طرح جان توڑ توڑ کر اور اپنے تئیں مٹامٹا کر جفا کشی پرتلا رہتا ہے اور اس کے بعد یہ غور کرو کہ وہ کس لیے اس مصیبت میں پڑتا ہے تو معلوم ہوگا کہ وہ دنیا کا کتنا بڑا ہمدرد ہے اور حبِّ ملک اس کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بے شک وہ ساری دنیا کے لیے یہ محنت کرتا ہے اور اس سے زیادہ نوع انسان کا دوست دنیا بھر میں نہ ملے گا۔
اے ہمدردی قوم کا لفظ بار بار زبان پر لانے والو! اگر اپنی کوششوں کا کچھ نتیجہ دیکھنا چاہتے ہو تو ان غریب، جفاکش دہقانوں کی پیروی کرو ۔ قوم کی کھیتی روز بروز کملاتی جاتی ہے اور چند روز میں بالکل سوکھ جائے گی تمھارا فرض ہے کہ جلدی اٹھو اور جس طرح ہو سکے اپنی راحت بیچ بیچ کران کھیتوں میں پانی پہنچاؤ ۔ قومی کھیت کے پودے یعنی موجود ہ نسل بھی نہ سنبھلی تو کہیں کے نہ رہو گے۔

مضمون نگاری
اردو میں مختصر مضمون نگاری کا آغاز سرسید سے ہوتا ہے۔ انھوں نے اس صنف کو سماجی اصلاح کے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا ۔ اس کے بعد مضمون نگاری بھی ایک صنف کی حیثیت سے رائج ہوگئی ۔ سماجی موضوعات کے علاوہ علمی، ادبی، فلسفیانہ اور دیگر موضوعات پر بھی مضامین لکھے جا سکتے ہیں ۔ حالی ،شبلی، محمد حسین آزاد ،نذیر احمد، میر ناصر علی ، نیا ز فتح پوری ، رشید احمد صدیقی ، مرزا فرحت اللہ بیگ، محفوظ علی بدایونی، ابوالکلام آزاد، خواجہ غلام السید ین وغیرہ اردو کے اہم مضمون نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
مختصر مضمون کی ایک شکل انشائیہ کہلاتی ہے۔ انشائیہ اور مضمون میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ لیکن عام طور پر انشائیہ میں مزاح اور طنز یا خوش مزاجی کا رنگ ہوتا ہے اور انشائیہ نگاراکثر باتیں اپنے حوالے سے ، یا اکثر اپنے ہی بارے میں ،بیان کرتا ہے۔
عبدالحلیم شرر
(1860ء – 1926ء)
عبدالحلیم نام اور شرر تخلص تھا۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور ان کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہوئی ۔ بعد میں ان کے والدحکیم تفضل حسین نے ان کو کلکتہ  مٹیا بر ج بلا لیا۔ یہاں حکیم صاحب ، واجد علی شاہ کی ملازمت میں تھے۔ اہل علم کا بھی اچھا مجمع تھا، شررکی علمی  نشو ونما یہیں ہوئی ۔ انھوں نے اردو، فارسی، انگریزی اور عربی میں مہارت حاصل کر لی۔ 1870ء میں شر رکو  پھر لکھنؤ واپس آناپڑا۔
لکھنؤ آ کر شرر نے اپناعلمی مشغلہ برابر جاری رکھا ،مختلف اہل کمال سے فیض حاصل کرتے رہے۔ 1879ء میں وہ  مزیدتعلیم کے لیے دہلی گئے ۔ دہلی پہنچ کرشر رنے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
دہلی سے لکھنؤ واپس آنے کے بعد 1881 ء میں انھوں نے اودھ اخبار کی ملازمت کر لی جس میں برابر مضامین لکھتے رہے۔ 1887ء میں شرر نے اپنا رسالہ ’دل گداز‘ جاری کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس رسالے میں ان کے ناول’ ملک العزيز ورجنا‘ ، ’حسن انجلينا‘ ، ’منصور موہنا‘قسط وار شائع ہونے لگے۔ کچھ مدت بعد مالی تنگیوں کی وجہ سے ان کو حیدر آباد جانا پڑا۔ یہاں رہ کر انھوں نے تاریخ سندهھ لکھنی شروع کی۔ نواب وقار الا مرا نے ان کی قدردانی کی اور اپنے بیٹےکے ساتھ 1893ء میں انگلستان بھیج دیا جہاں تین سال تک قیام رہا اور انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی ۔ واپس آکر حیدرآباد سے’ دل گداز ‘جاری کیا۔ 1909ء میں وہ لکھنؤ واپس آ گئے اور انھوں نے یہیں وفات پائی۔
عبد الحلیم شرر نےاردو میں تاریخی ناول کی ابتدا کی ۔اس کے علاوہ  انہوں نے ڈرامے بھی لکھےجن میں ایک منظوم ڈرامہ بھی تھا۔”گذشتہ لکھنؤ“ نامی کتاب میں انہوں نے نوابی لکھنؤ کے آخری زمانے کی تہذیب کا بہت دلچسپ اور معلومات افروز مرقع پیش کیا ہے۔
Dehaat ki zindagi by Abdul Haleem Sharar  Chapter 5 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی 
عشرت : عیش
نیرنگی : حیرت پیدا کرنے کی قوت، وہ صفت جس سے لوگ تعجب با فکر میں پڑ جائیں
حقارت : عزت کی نگاہ سے نہ دیکھنا
امور : امر کی جمع یعنی کا م ، باتیں
ہدیہ : تحفہ
جفاکش : محنتی
ہنوز : اب تک
بادِ سحر : صبح کی ہوا
نقیب : اعلان کرنے والا
نمودار : ظاہر ،نمایاں
سماں : منظر
افسردہ : اداس
فیاضی : دریا دلی ، سخاوت
بشاش : خوش
شعائیں : کرنیں
منتشر : پھیلا ہوا بکھرا ہوا
وحشت : گھبراہٹ ، دیوانگی
استعداد : اہلبیت ، لیاقت
رزق رسانی : روزی پہنچانا
افق : وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
وضع : شکل، بناوٹ
ماندہ : تھکا ہوا
میکش : شرابی
چابکدست : مشاق، ہنر مند
صناعی : کاریگری
بسیط : پھیلا ہوا
مروج : رائج، جس کا چلن ہو
آفات سماوی : آسانی بلائیں
بقا : باقی رہنا
رزاق مطلق : خدا، جسے رزق دینے کا پورا اختیار ہے۔
ضیافت : دعوت

غور کرنے کی بات
*  شہری زندگی کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر فطری ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
*  دیہات کے ماحول میں فطرت اپنی تمام ترخوبیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔
*  سادگی ، جفاکشی ، انسانی ہمدردی ، آپسی بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ دیہی زندگی کی اہم خصوصیات ہیں۔
*   کسان دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے سخت محنت و مشقت کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. دیہات کے رہنے والے زندگی کا کیا لطف اٹھاتے ہیں؟

 2. شہر کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی کس طرح مختلف ہوتی ہے؟

 3. دیہی زندگی کی وہ کون سی خصوصیات ہیں جن سے قوموں اور ملکوں کی ترقی وابستہ ہے؟

 4. اس سبق میں مصنف نے کسان کی زندگی کے کن پہلوؤں پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے؟


عملی کام
اس مضمون کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے: آپ نے کوئی گاؤں ضرور دیکھا ہوگا ۔ اس پر ایک مضمون لکھیے ۔
 ذیل کے الفاظ میں جمع کی واحد اور واحد کی جمع بنائیے: 
منزل ، امور ، تحفہ، جذبات، شاعر، امیر ، کتاب ، خادم ، آفت، اسباق ، اسباب، اغراض غریب

درج ذیل اقتباس کا مطلب اپنے الفاظ میں لکھیے:
گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اوربسیط حالت پر ہیں ۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اور اطمینان سے گزرتی ہے۔ ان کی فکریں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمارا سکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے۔ اس لیے وہ خدا کی ہے واسطے ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں ۔

خلاصہ:
عبدالحلیم شرر نے اس مضمون میں دیہات کی اور شہری زندگی پر تبصرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ شہر کے مقابلے میں دیہات کی زندگی کس قدر فطری ہے اور دیہات میں فطرت اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ کس قدر حسین نظر آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اے شہر کے عالی شان محلوں میں رہنے والو!تم نہیں جانتے کہ سورج کب طلوع ہوا اور کب غروب ہوا، ہوا کس طرف سے آئی اور اپنی بہادری دکھاتی ہوئی کدھر چلی گئی مگر دیہات کے رہنے والےجنھیں تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو وہ صبح شام اور بدلتے موسموں سے کس قدرلطف حاصل کرتے ہیں۔ گاؤں کے محنت کش کسان اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ابھی صبح کا سورج نہیں نکلا ہوتا اور آسمان پر کچھ ستارے نظر آتے رہتے ہیں۔ اس وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوا انہیں سلاتی نہیں جگاتی ہے اور وہ اپنی جھونپڑیوں سے باہر آ کر کھلے آسمان کو دیکھتے ہیں، اس وقت پیڑوں پر چڑیاں چہچہارہی ہوتی ہیں ، وہ اس حسین منظر سے بے خود ہو جاتے ہیں اور پھر تازہ اپنے بیل اور ہل لے کر کھیتوں پر چلے جاتے ہیں ۔ کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے پودوں  کے پتوں پر شبنم کے قطرے اپنی بہار دکھاتے ہیں ۔ یہ غریب کسان روزانہ ایسےصبح سے شام تک قدرت کی کاریگری کا نظارہ کرتے ہوئے یہ کسان غروب آفتاب تک اپنی اپنی جھونپڑیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر اگلی صبح اسی طرح بیدار ہوتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں شہر کے لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ رات کو دیر تک جاگ کر ایسے کام کرتے ہیں جو انہیں گناہگار بناتے ہیں جبکہ گاؤں عموما قدرت کی سچی جلوہ گاہ ہوتا ہے وہاں کے مناظر اپنی سادگی اور دل فریب کیفیتوں کے ساتھ انتہائی دلچسپ ہوتے ہیں ۔ گاؤں والوں کے لیے قدرت کا عطیہ ہے۔
مضمون کے آخر میں شرر کہتے ہیں کہ غریب دیہاتوں کی زندگی سے ہم سبق حاصل کریں کہ وہ کس قدرمحنت مشقت سے غلہ اور اناج اگاتے ہیں ۔ جوغربت کی زندگی بسر کرتے ہیں کبھی کبھی کوئی آفت ناگہانی ان کی فصل خراب کر دیتی ہے۔ وہ مفلس رہ کر بھی دوسروں کی بھلائی اور زندہ رہنے کے لیے کھیتوں میں بیج ڈالتے رہتے ہیں اورفصل تیار ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ایک کسان دنیا کا کتنا بڑا ہمدرد ہے، وہ اپنے ملک کے رہنے والوں سے کس قدر محبت کرتا ہے وہ اناج اگاتا ہے اور ساری دنیا کے لیے محنت کرتا ہے۔ اس لیے شہر والوں کو چاہئیے کہ وہ اس کی زندگی پر ہمدردی کے ساتھ غور کریں اور جس طرح کسان محنت کرتا ہے اسی طرح انہیں بھی قوم کے لیے محنت کرنی چاہئیے

کلک برائے دیگر اسباق

1 comment:

خوش خبری