آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 13 April 2020

Sukh Ki Taan - Meeraji - NCERT Solutions Class 9 Urdu


اس صفحہ پر کام جاری ہے
سُکھ کی تان
میرا جی

اب سُکھ کی تان سنائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 اب سکھ نے بدلا بھیس نیا  اب دیکھیں گے ہم دیس نیا
جب دل نے رام دہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 اس دیس میں سب اَن جانے ہیں  اپنے بھی یہاں بیگانے ہیں
پیتم نے سب سے رہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 ہر رنگ نیا، ہر بات نئی  اب دن بھی نیا اور رات نئی
اب چین کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نتی دکھائی دی 
اب اپنا محل بنائیں گے  اب اور کے در پہ نہ جائیں گے
اک گھر کی راہ سجھائی دی
 اک دنیا نئی دکھائی دی

میراجی
( 1949 ء – 1912ء )
میراجی کا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ وہ ایک کشمیری خاندان میں گوجرانوالہ، پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ ان کا زیادہ وقت لاہور ، دلّی اور ممبئی میں گزرا۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے ۔ مطالعے کا انھیں بہت شوق تھا، اس لیے انھوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کا مطالعہ کیا ، تراجم کیے اور مضامین لکھے۔ وہ لاہور کی ایک مشہور ادبی انجمن حلقہ ارباب ذوق کے بانیوں میں تھے ، جس نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا ۔ انھوں نے اختر الایمان کے ساتھ مل کر رسالہ خيال نکالا جس کے چند ہی شمارے شائع ہو سکے ۔ ممبئی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ میرا جی کی نظموں کے کئی مجموعے مثلا میرا جی کی نظمیں اور گیتوں کا مجموعہ گیت ہی گیت ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ پابندنظمیں اور انتخاب تین رنگ بعد میں شائع ہوئے۔ بہت بعد میں پاکستان سے کلیات میراجی (مرتبہ جمیل جالبی ) اور باقیات میراجی (مرتبہ شیما مجید ) شائع ہوئے ۔ نثر میں دو کتابیں مشرق ومغرب کے نغمے اور اس نظم میں معروف ہیں۔
جدید تنقید میں بھی میراجی کا نام بہت بلند ہے۔ انھوں نے نظم کا تجزیہ لکھنے کی ایک نئی رسم کو فروغ دیا۔ ہندوستان اور یورپ کے نئے پرانے شاعروں پر بہت اچھے مضامین لکھے۔ میراجی کی بہت سی شاعری میں جنسی خیالات اور تجربات پیش کیے گئے ہیں۔
مشق
لفظ ومعنی
تان : سریلی آواز
رام دہائی : اللہ کی پناہ
پیتم : محبوب ، شوہر
در پہ نہ جانا : کسی اور کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا

غور کرنے کی بات
 * اس نظم میں ایک سیدھی سادی ، ہندوستانی لڑکی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جو ایک نئی زندگی کے ارمان لیے ہوئے ہے جس میں وہ اپنا گھر بسانے کا خواب دیکھتی ہے اور گنگناتی ہے۔
 * یہ گیت سادہ زبان میں لکھا گیا ہے جو پُر تاثیر بھی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
1. اس گیت میں لڑکی کس نئی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے؟
جواب: اس گیت میں ایک لڑکی اپنا گھر بسانے کا خوبصورت خواب دیکھ رہی ہے۔ اور اس نئی دنیا میں سبھی نئے اور انجانے لوگوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔

2. اب سکھ نے بدلا بھیس نیا سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس لڑکی کا ماننا ہے کہ اب اس کے سکھ اور خوشیوں کا انداز بدل جائے گا اور اب وہ ایک نئے روپ میں اپنے پیتم کے گھر میں لوگوں کے دل جیتے گی۔ اب تک وہ اپنے ماں باپ ،بھائی بہن کے ساتھ سکھ کی زندگی بتا رہی تھی اب سُکھ ایک نئے انداز میں اس کے سامنے ہوگا۔

 3. اپنا محل بنانا اور دوسرے کے در پر نہ جانا کے کیا معنی ہیں؟
جواب: لڑکی اب تک اپنے میکے میں تھی جس کو وہ دوسروں کا گھر تصور کرتی ہے اور اب وہ اپنا محل بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اب وہ اپنی سسرال کو اپنا گھر سمجھتی ہے اور اس گھر کو ہی اپنا محل تسلیم کرتی ہے۔

عملی کام
* اس گیت کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* اس گیت کے پہلے بند کوخوش خط لکھیے اور اس کا مطلب بھی لکھیے۔
*  گیت کو زبانی یاد کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری