ہے عید چلے آؤ
اس درجہ نہ تڑپاؤ کچھ دل میں تو شرماؤ اب رحم بھی فرماؤ ایسے میں تو آجاؤ
ہے عید چلے آؤ
آنا ہے تو آجاؤشاید کے ہمیں پاؤ یوں مان بھی اب جاؤ تقصیر تو بتلاؤ
ہے عید چلے آؤ
پھر فصل بہاراں ہےویرانہ گلستاں ہے حیوان بھی شاداں ہے انسان تو انساں ہے
ہے عید چلے آؤ
دریا میں روانی ہےموجوں میں دوانی ہے بہتا ہوا پانی ہے ہر شے میں جوانی ہے
ہے عید چلے آؤ
پر جوش بہاراں ہےفردوس بہ داماں ہے گلزار بیاباں ہے دیکھو جسے نازاں ہے
ہے عید چلے آؤ
یہ دن ہیں مسرت کےیہ روز ہیں عشرت کے ایام ہیں بہجت کے موقعے نہیں حجت کے
ہے عید چلے آؤ
کیا مجھ پہ شباب آیاگویا کے عذاب آیا کیوں مجھ پہ عتاب آیا اب تک نہ جواب آیا
ہے عید چلے آؤ
میں سخت پریشاں ہوںتقدیر پہ گریاں ہوں جینے سے میں نالاں ہوں اک قالب بے جاں ہوں
ہے عید چلے آؤ
گر دید تمہاری ہوپھر عید ہماری ہو نالہ ہو نہ زاری ہو نے لب پہ یہ جاری ہو
ہے عید چلے آؤ
کب تک یہ ستم آخرکب تک میں رہوں مضطر ہے تار نفس خنجر آرام ملے کیوں کر
ہے عید چلے آؤ
|
(رسالہ ندیم، گیا میں 1941 کے شمارہ میں شائع ایک نظم)
0 comments:
Post a Comment