آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 5 June 2020

Sir Syed Ka Bachpan By Altaaf Hussain Hali NCERT Class 10 Chapter 4

(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
سرسید کا بچپن
خواجہ الطاف حسین حالی
سرسیّد کے خاندان کا حال جس قدر ہم نے لکھا ہے شاید ناظرین کتاب اس کو قدرے ضرورت سے زیادہ خیال کریں لیکن بائیوگرافی کا اصل مقصد جو ہیرو کے اخلاق و عادات و خیالات کا دنیا پر روشن کرنا ہے وہ اْس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک یہ نہ کہا جائے کہ ہیرو میں اخلاق و عادات اور خیالات کہاں سے آئے؟ اور اْن کی بنیاد اْس میں کیونکر پڑی؟ انسان میں کچھ خصلتیں جبلّی ہوتی ہیں جو آباواجداد سے بطور میراث کے اْس کو پہنچتی ہیں ۔ اور زیادہ تر وہ اخلاق و عادات ہوتے ہیں جو بچپن میں نامعلوم طور پر وہ اپنے خاندان کی سوسائٹی سے اکتساب کرتا ہے اور جو رفتہ رفتہ اس درجہ تک پہنچ جاتے ہیں جس کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے لیکن آدمی اپنی جبلّت سے نہیں ٹل سکتا۔ پس ہیرو کے خاندان کا حال جس میں وہ پیدا ہوا اور اْس سوسائٹی کا حال جس میں اس نے نشوونما پائی درحقیقت ہیرو کے اخلاق و عادات پر ایک ایسی روشنی ڈالتا ہے جس کے بعد کسی اور ثبوت کے پیش کرنے کی چنداں ضرورت باقی  نہیں رہتی ۔
         سرسیّد کے پیدا ہونے ے پہلےان کی بہن صفیتہ النسااور ان کے بھائی سیّد محمد خاں پیدا ہو چکے تھے۔ سید محمد خاں کے پیدا ہونے کی اْن کو نہایت خوشی ہوئی۔ سرسیّد سے چند مہینے پہلے اْن کے ماموں نواب زین العابدین خان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام حاتم علی خاں تھا۔ سرسیّد کو اوّل حاتم علی خان کی والدہ نے دودھ پلایا اور پھر خود سرسیّد کی والدہ نے۔ وہ اپنے خاندان کے اکثربچوں کی نسبت ز یا دہ قوی  اور توانا اور ہاتھ پاؤں سے تندرست پیدا ہوۓ تھے۔
             سرسیّد کے بیان سےمعلوم ہوتا تھا کہ ان کے بچپن میں جسمانی صحت اور فزیکل قابلیت کے سوا کوئی ایسی خصوصیت جس سے اْن کے بچپن کو معمولی لڑکوں کے بچپن پر بے تکلف فوقیت دی جا سکےنہیں پائی جا تی تھی ۔یعنی جیسے کہ بعضے بچےابتدامیں نہایت ذکی اور طبّاع اور اپنے ہمجولیوں میں سب سے زیادہ تیز اور ہوشیار ہوتے ہیں سرسید میں کوئی اس قسم کا صریح امتیاز نہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے قوائے ذہنیہ کومحض دماغی ریاضت اور لگاتار غور وفکر سے بتدریج ترقی دی تھی اور اسی لیے ان کی لائف کا آغاز معمولی آدمیوں کی زندگی سے کچھ زیاد و چمکدار معلوم نہیں ہوت۔لیکن جس قدر آگے بڑھتے جایئے اْسی قدر اس میں زیاد وعظمت پیدا ہوتی جاتی ہے ، یہاں تک کہ  ہیرو کو  معمولی آدمیوں کی سطح سے بالاتر کر دیتی ہے۔ اسی لیے بعض حکما کی یہ رائے ہے کہ محنت سے آدمی جو چاہے سو ہوسکتا ہے۔  
      سرسیّد کو مسماة ماں بی بی نے جو ایک قدیم خیر خواہ خادمہ اْن کے گھرانے کی تھی، پالا تھا۔ اس لیے ان کو ماں بی بی سے نہایت محبت تھی۔ وہ پانچ برس کے تھے جب ماں بی بی کا انتقال ہوا۔ اْن کا بیان ہے کہ "مجھے خوب یاد ہے ماں بی بی مرنے سے چند گھنٹے پہلے فالسے کا شربت مجھ کو پلا رہی تھی۔ جب وہ مرگئی تو مجھے اْس کے مرنے کا نہایت رنج ہوا۔ میری والدہ نے مجھے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئی ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے۔ بہت سے نوکر چاکر اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کی بہت آرام سے گزرتی ہے تم کچھ رنج مت کرو۔ مجھ کو ان کے کہنے سے پورا یقین تھا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے۔ مدت تک ہر جمعرات کو اْس کی فاتحہ ہوا کرتی تھی اور کسی محتاج کو کھانا دیا جاتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ سب کھانا ماں بی بی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس نے مرتے وقت کہا کہ میرا تمام زیور سیّد کا ہے مگر میری والدہ اس کو خیرات میں دینا چاہتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں ، میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات میں دے دیا۔
     بچپن میں سرسیّد پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھلنے کودنے کی بالکل بندی ہو اور نہ ایسی کی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھر یں ۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتہ داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لیے کافی تھے۔ اس لیے ان کو نوکروں اور اجلافوں کے بچوں اور اشرافوں کے آوارہ لڑکوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ ان کے بزرگوں نے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ جس کھیل کو تمھارا جی چاہے شوق  سے کھیلومگرکسی کھیل کو چھپا کر مت کھیلو ۔ اس لیے سب لڑ سکے جو کھیل کھیلتے تھے اپنے بڑوں کے سامنے کھیلتے تھے۔ ان کے کھیلوں میں کوئی بات ایسی نہ ہوتی تھی جو اپنے بزرگوں کے سامنے نہ کرسکیں ۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر لڑکے رہتے تھے اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہرقسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لیے کافی تھیں ۔ ابتدا میں وہ اکثر گیند،
بلا، کبڈی ، گیڑ یاں، آنکھ مچولی، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگر چہ گیڑیاں کھیلنےکواشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلوتو کچھ مضائقہ نہیں۔
           ان کا بیان تھا کہ" باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی ، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جداحویلی بنائی اور وہاں آرہیں تو باوجود یہ کہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک در میان تھی۔ جب کبھی میں اْن کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا۔ اسی لیے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔ٗ ٗ
           سرسید لکھتے ہیں کہ " میرے نانا صبح  کا کھانا اندر زنانے میں کھاتے تھے ۔ ایک چوڑا  چکلا دسترخوان بچھتا تھا۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، بچوں کے آ گےخالی رکابیاں ہوتی تھیں ۔ نانا صاحب ہرایک سے پوچھتے تھے کون سی چیز کھاؤ گے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اس کی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے بہت ادب اور صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے، اور نوالا چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوان خانے میں کھاتے تھے۔ زنانہ ہو جاتا تھا، میری والدہ اور میری چھوٹی خالا کھانا کھلانے آتی تھیں ۔ ہم سب لڑ کے ان کے سامنے بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ کسی کے پائوں کا دھبّا سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو نہایت ناراض ہوتے تھے۔ روشنائی وغیرہ کا دھبّا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی ناخوش ہوتے تھے۔ شام کو چراغ جلنے کے بعد اْن کے پوتے اور نواسے جو مکتب میں پڑھتے تھے اور جن میں سے ایک میں بھی تھا، ان کوسبق سنانے جاتے تھے۔ جس کا سبق اچھا یا د ہوتا اس کو کسی قسم کی عمدہ مٹھائی ملتی اور جس کو یاد نہ ہوتا اس کو کچھ نہ دیتے اور گْھڑک دیتے۔"
          گرمی اور برسات کے موسم میں اب بھی دلّی کے اکثر باشندے سہ پہر کو جمنا پر جا کر پانی کی سیر دیکھتے ہیں اور تیرنے والے تیرتے ہیں ، مگر پچاس برس پہلے وہاں اشراف تیرنے والوں کے بہت دلچپ جلسے ہوتے تھے۔ سرسیّد کہتے تھے کہ میں نے اور بڑے بھائی نے اپنے والد سے تیرنا سیکھا تھا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک طرف دلّی کے مشہور  تیراک مولوی علیم اللہ کا غول ہوتا تھا جن میں مرزا مغل اور مرز الطفل بہت سر برآورده نامی تھے ۔ اور دوسری طرف ہمارے والد کے ساتھ سوسواسو شاگردوں کا گروہ ہوتا تھا۔ یہ سب ایک ساتھ دریا میں کودتے تھے اور مجنوں کے ٹیلے سے شیخ محمدکی بائیں تک یہ سارا گروہ تیرتا جاتا تھا۔ پھر جب ہم دونوں بھائی تیرنا سیکھتے تھے تو اس زمانے میں بھی تیس چالیس آدمی والد کے ساتھ ہوتے تھے۔ انھیں دونوں میں نواب اکبر خاں اور چند اور رئیس زادے بھی تیرنا سیکھتے تھے۔ زینت المساجد کے پاس نواب احمد بخش خاں کے باغ کے نیچے جمنا بہتی تھی۔ وہاں سے تیرنا شروع ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت سب تیراک زینت المساجد میں جمع ہوجاتے تھے اور مغرب کی نماز جماعت سے پڑھ کر اپنے اپنے گھر چلے آتے تھے۔ میں ان جلسوں میں اکثر شریک ہوتا تھا ۔‘‘
     تیراندازی کی صحبتیں بھی سرسید کے ماموں زین العابدین خاں کے مکان پر ہوتی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیر اندازی ہوتی تھی یا دنہیں ۔مگر جب دوباره تیراندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔ اس زمانے میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد تیراندازی شروع ہوتی تھی ۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں، نواب سید عظمت اللہ خاں ، نواب ابراہیم علی خاں اور چند شاہزادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔ نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھر کہ جب دلّی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے۔ میں نے بھی اسی زمانے میں تیراندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہوگئی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میر ا   نشا نہ جوتو دے میں نہایت صفائی اور خوبی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے" یہ جلسہ  برسوں تک رہا پھر موقوف ہو گیا۔
        دلّی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاؤں ہے ۔ وہاں سرسیّد کے والد کی کچھ ملک بطور معافی کے تھی۔ اگر کبھی فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھی اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ایک ہفتہ گاؤں میں رہتے۔ سرسید کہتے تھے کہ "اس عمر میں گاؤں میں جا کر رہنا، جنگل میں پھرنا، عمدہ دودھ اور دہی اور تازہ تازگھی اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔ ٗ           ٗ
        سرسیّد کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا۔ مگر اخیر میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، انھوں نے دربار کا جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سرسید کو باوجود یہ کہ ان کی عمرکم تھی دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سر سید کہتے تھے کہ ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا اتفاق ہوا کہ والد بہت سویرے اٹھ کر قلعے چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردے کے قریب پہنچا تو قاعدے کے موافق اوّل دربار میں جا کر آداب بجالانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو در بار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے  بادشاہ نے مجھےدیکھ والد سے جواس وت ہوادارک پاس ہی تھے کہا کہ تمہارابیٹا ہے؟‘انھوں نے کہا"  حضور کا خانہ زاد ٗ                     بادشاه چپکے ہور ہے ۔ لوگوں نے جانا کہ بس اب محل میں چلے جائیں گے مگر جب تسبیح خانے میں پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے تسبیح خانے میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی در بار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترے پر بیٹھ گئے، جواہر خانے کے داروغہ کو کشتی جواہرحاضر کرنے کاحکم ہوا ، میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا ۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اورکمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا  کہ دیر کیوں کی ؟ حاضرین نے کہا عرض کروکہ تقصیرہوئی مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ سو گیا تھا۔ بادشاہ مسکرائے اور فرمایا بہت سویرے اٹھا کرو۔ اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا آداب بجا لاؤ میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے بنائیں۔ میں نے نذ ردی اور بادشاہ اٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلےگئے۔ تمام درباری میر والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے۔ سرسیّد کہتے تھے کہ اس زمانے میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔ تقر یبّا انھیں دنوں میں راجہ رام موہن رائے جو بر ہموسماج کے بانی تھے، ان کو اکبرشاه نے کلکتہ سے بلایا تھا تا کہ اضافئہ پنشن بادشاہی کے لیے ان کو لندن بھیجا جائے۔ چنانچہ وہ بادشاہ کی طرف سے لندن بھیجے گئے اور 1831 ء میں وہاں پہنچے۔ سرسیّد نے لندن جانے سے پہلے ان کو متعدد  دفعہ دربار شاہی میں دیکھا تھا۔
         سرسیّد کہتے تھے کہ "مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے۔ خصوصاً حضرت شاہ غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ میں اس  مجمع کو دیکھ کر ہکّا بکّا سا ہوگیا۔ میر ے سامنےتختی رکھی گئی اور غا لباً شاه صاحب ہی نے فرمایا کہ پڑھو بسم الله الرحمٰن الرحیم ۔ میں کچھ نہ بولا اور حضرت صاحب کی طرف دیکھتا رہا۔ انھوں نے اٹھا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھیں گے اور اوّل بسم اللہ پڑھ کر اقراء کی اوّل آیتیں مالم یعلم تک پڑھیں ۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گیا۔ سرسیّد نے جب  یہ ذکر کیا بطور فخر کے اپنا یہ فارسی شعر جو خاص اسی موقع کے لیے انھوں نے بھی کہا تھا ، پڑھا۔

 بہ مکتب  رفتم  و  آموختم اسرار یزدانی
 زفیضِ      نقش   بندِ  وقت جان ِجان  جانانی

      سرسید کہتے تھے کہ شاہ صاحب اپنی خانقاہ سے کبھی نہیں اْٹھتے تھے اور کسی کے ہاں نہیں جاتے تھے۔ الا ماشاء اللہ۔ صرف میرے والد پر جو غایت درجہ کی شفقت تھی اس لیے کبھی کبھی ہمارے گھر قدم رنجہ فرماتے تھے۔ بسم اللہ ہونے کے بعد سرسید نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ ان کی ننھیال میں قدیم سے کوئی نہ کوئی استانی نو کر رہتی تھی ۔ سرسید نے استانی ہی سے جو ایک اشراف گھر کی پردہ نشین بی بی تھی ، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا۔ وہ کہتے تھے میرا قرآن ختم ہونے پر ہد یےکی مجلس جو زنانہ میں ہوئی تھی وہ اس قدر دلچسپ اور عجیب تھی کہ پھرکسی ایسی مجلس میں وہ کیفیت میں نے نہیں دیکھی ۔ قرآن پڑھنے کے بعد وہ باہر مکتب میں پڑھنے لگے ۔ مولوی حمید الدین ایک ذی علم اور بزرگ آدمی ان کے نانا کے ہاں نوکر تھے جنھوں نے ان کے ماموں کو پڑھایا تھا۔ اْن سے معمولی کتا بیں کر یما، خالق باری، آمد نامہ وغیرہ پڑھیں ۔ جب مولوی حمید الدین کا انتقال ہو گیا تو اور لوگ پڑھانے پر نوکر ہوتے رہے۔ اْنھوں نے فارسی میں گلستاں، بوستاں، اور ایسی ہی ایک آدھ اور کتاب سے زیادہ نہیں پڑھا۔ پھر عربی پڑھنی شروع کی ۔ مگر طالب علموں کی طرح نہیں بلکہ نہایت بے پروائی اور کم توجہی کے ساتھ ۔ اس کے بعد اْن کو اپنے خاندانی علم یعنی ریاضی پڑھنے کا شوق ہوا جس میں ان کی ننھیال کے لوگ دلّی میں اپنا مثل نہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے ماموں 
نواب زین العابدین خاں سے حساب کی  معمولی درسی کتاب چند مقالے پڑھے ۔ اْسی زمانے میں طب پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ جب انھوں نے پڑھنا چھوڑا ہے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ انیس برس کی تھی۔ اس کے بعد بطور خود کتابوں کے مطالعے کا برابر شوق رہا۔ اور دلی  میں جواہل علم اور فارسی دانی میں نام آور تھے جیسے صہبائی، غالب، اور آزردہ وغیرہ ان سے ملنے کا اورعلمی مجلسوں میں بیٹھنےاکثرموقع ملتا رہا۔(تلخیص(


سوالوں کے جواب لکھیے :
1. سرسید نے اپنا بچپن کیسے گزارا؟
جواب: سرسید نے اپنا بچپن ایک معتدل ماحول میں گزارا۔ نہ تو ان کو اتنی آزادی تھی کہ وہ جہاں چاہیں آزادانہ گھوم پھر سکیں اور نہ ہی اُن پر ایسی پابندی تھی کہ وہ کھیلنے بھی نہ جا سکیں۔انہوں نے اپنے بچپن ہی میں  تیراندازی اور تیراکی کا فن بھی سیکھا۔ بچپن میں سرسید کو تنہا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

2. سرسید کے نانا کے یہاں دستر خوان کے آداب کیا تھے؟
جواب: سرسید کے نانا صبح کا کھانا اندر زنانے میں کھاتے تھے ۔ ایک چوڑا چکلا دسترخوان بچھتا تھا۔ بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں سب ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، بچوں کے آگے خالی رکا بیاں ہوتی تھیں ۔ نانا صاحب ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاؤ گے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اس کی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے بہت ادب اور صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے ، ہاتھ میں کھانا زیادہ نہ بھرے، اور نوالا چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوان خانے میں کھاتے تھے۔

3.  سرسید نے بچپن میں کون کون سے کھیل کھیلے؟
جواب: سرسید نے بچپن میں  اکثر گیند ، بلا ، کبڈی ، گیڑیاں، آنکھ مچولی، چیل چِلو وغیرہ کھیلتے تھے۔انہیں تیر اندازی کا فن بھی آتا تھا۔اُن کو ہر طرح کا کھیل کھیلنے کی آزادی تھی۔بس اُن کھیلوں پر پابندی تھی جو چھپا کر کھیلیں جائیں۔

4. سرسید کو گاوں میں جا کر رہنا کیوں پسند تھا؟
جواب: سرسید کو گاؤں میں جا کر رہنااس لیے بہت پسند تھا کہ وہاں انہیں  جنگل میں  آزاد پھرنے کا موقع ملتا ، ساتھ ہی گاؤں میں انہیں عمدہ دودھ اور دہی  اور تازہ تازہ گھی  اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری