آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 2 June 2020

Lal Batti Jal Gaya By Tasneem Usmani Simlawi


تسنیم عثمانی سملوی

مضمون کی ” سرخی “  ذرا بے تکی اور بے قاعدہ معلوم ہو رہی ہوگی ، مگر اس سرخی کے پس منظر بہت ہی خوبصورت ، پیاری اور دلکش و دل نشین یادیں ہیں ، جنہیں جان کر یقیناً آپ بھی کہہ اٹھیں گے ” لال بتی جل گیا “،” لال بتی جل گیا “۔
رمضان المبارک کے ایام ہیں، عصر کے بعد کا وقت ہے۔ ” دارالشرف “ (ہمارا مسکن، اوپر کلہی جھریا ) کا صدردروازہ کھول دیا جاتا  ہے تاکہ روزہ دار مہمان تشریف لے آئیں۔افطار کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ، امی جان مدظلہا اور چھوٹی بہن زنیرہ سلمہا کے خلوص و محبت بھرے ہاتھوں سے روزہ داروں کی ضیافت کے لیے بنائی ہوئی اشیاء جیسے پھلکیاں ، گلگلے ، گھنگھنی( تلے ہوئے چنے)، کچے چنے، بونٹ (چنا) کی میٹھی دال، نمکین دال،کچی بھی اور تلی ہوئی بھی،کچے چنے لیمون اور پیاز کے ساتھ ، کھجور اور انڈوں وغیرہ کے سموسے، بیگنیاں، کونہڑے کے پکوڑے، سنگھاڑے (تکونے)،  دہی بڑے، منگوچھیاں(رس گلوں کی طرح ہوتی ہیں اور ہمارے یہاں صرف  رمضان المبارک میں بنائی جاتی ہیں )، ان سب کے علاوہ موسم کے پھل جیسے کیلے، تربوز، خربوزے، امرود،ناشپاتی، سیب،سنترے وغیرہ، الغرض جس دن جو میسر ہوتا دسترخوان پر چنا جاتا ۔
     اب دسترخوان کے اطراف بیٹھنے کا حال سنیے۔۔۔باہر بڑے کمرے یا برآمدہ میں دسترخوان بچھایا جاتا  ۔ حضرت اباجان  رحمة الله عليه (تاج العرفان حضرت مولانا الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی، زیب سجادہ  خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ،اورنگ آباد، بہار) کی نشست مخصوص تھی، دسترخوان کے آخری سرے پر  پچھم کی جانب اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ مسجد نظروں کے سامنے ہو، بڑے بزرگ اور سبھی مہمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے،ہم  سب بھائی اور گھر کے دوسرےبچے دسترخوان پر ایسی جگہوں پر بیٹھنا چاہتے جہاں اپنی اپنی پسند کی چیزیں ہوں، دسترخوان پر بڑی ترتیب سے ساری اشیاء رکھی جاتیں ،مہمان آتے جاتے دسترخوان لمبا ہوتا جاتا اور ہم سب سمٹتے چلے جاتے،  افطار کا وقت قریب ہوتا ، سب لوگ افطار کی دعا پڑھتے،بڑوں  کی نظریں گھڑیوں پر اور توجہ مغرب کی اذان کی طرف ، اور بچوں کی نگاہیں ”چھوٹی مسجد“........جو پتہ نہیں کس زلزلہ میں چھوٹی مسجد سے ”نوری مسجد“ ہوگئی........کے درمیانی گنبد سےبندھے بانس پر ٹک جاتیں، افطار کا وقت جیسے جیسے قریب ہوتا جاتا محلہ کے بچے گھروں  سے  باہر آکر اپنے اپنے دروازوں، برآمدوں اور ہمارے گھر کے چبوترے پر کھڑے ہو جاتے جہاں سے مسجد صاف نظر آتی ،سب کی نگاہیں مسجد کے بانس پرہوتیں ، جیسے ہی افطار کا وقت ہوتا بانس پر بندھی لال بتی جل جاتی، سارے بچے چیختے چلاتے اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ”لال بتی جل گیا“، ”لال بتی جل گیا “ .........لال بتی عام طور سے رکنے اور ٹھہر جانے کا اشارہ ہوتی
 ہے مگر یہ عجیب لال بتی ہے جو شروع ہو جانے کی علامت ہے۔
خاندانی روایت کے مطابق سب لوگ پہلے آب زم زم سے روزہ کھولتے ،پھر حصول برکت کے لئے مدینہ منورہ کی کھجوریں کھائی جاتیں، بچے اپنی اپنی پسند کے مطابق تاک لگائے افطار کرتے، ایک پھلکی منھ میں دوسری ہاتھ میں ایک نشانہ پر ، اگر کسی اور نے اسے شکار کرلیا تو فوراً کسی تیسرے پر نشانہ سادھ لیا جاتا، پسند کی چیزیں ختم اور سارے بچے یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ دیکھ کراٹھ جاتے اور اندر جاکر زنانہ دسترخوان پر دھاوا بول دیتے، بڑے ہماری حرکتوں پر مسکراتے اور چنے چباتے رہتے، برا ماننے یا ڈانٹنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا، بلکہ مغرب کی باجماعت نماز کے بعد چائے کا دور چلتا اور ہماری حرکتوں پر تبصرے اور خوش گپیاں اور کچھ نصیحتیں ہوتیں،  پھر سب عشاء کی نماز اور تراویح کی تیاری میں لگ جاتے۔۔۔۔۔       
  ہمارے نانا ابا حضرت مولانا الحاج قاری حکیم شاہ محمد ابراہیم عثمانی فردوسی دیوروی رحمة الله عليه ( زیب سجادہ خانقاہ برہانیہ کمالیہ ، حضرت دیورہ،گیا ) کو ہمارے جھریا شہر کا رمضان اور تراویح بہت پسند تھی اور اس ماہ مبارک میں یہاں ضرور تشریف لاتے تھے، ٹھیک اسی طرح بڑے ماموں جان حضرت مولانا الحاج قاری حکیم شاہ منصور احمد عثمانی فردوسی دیوروی رحمة الله عليه (زیب سجادہ خانقاہ برہانیہ کمالیہ، حضرت دیورہ ،گیا) بھی ماہ رمضان کے مبارک ایام جھریا میں گزارنا پسند فرماتے تھے، افطار کےبعد ، مغرب کی نماز کبھی حضرت ابا جانؒ اور کبھی حضرت بڑے ماموں جانؒ کی اقتدا میں ادا کی جاتی ، جب ناچیز اس لائق ہوا تو اسے بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔۔تراویح اور رات کے کھانے کے بعد حضرت بڑے ماموں جان  پوری پوری رات دین کی باتیں اور بزرگوں کے واقعات سنایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔                        
ہر سال 20 رمضان المبارک کوافطار کی ایک  دعوت کا اہتمام ہوتا جس میں کولفیلڈ یعنی شہر جھریا   اور اس کے  اطراف جیسے ہورلا ڈیہہ، بنیاہر،پھوس بنگلہ، لودنا،جاما ڈوبا، رمضان پور، پاتھر ڈیہہ،سودام ڈیہہ،  سندری ، کتراس موڑ، ائینہ کوٹھی، دھنباد،وغیرہ کے عوام و خواص،اعزا و اقربا،حضرت ابا جان کے مریدین و معتقدین اور اُن کے احباب شرکت کرتے  جن کی فہرست یہاں ممکن نہیں ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد مولائے کائنات  سیدنا حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا سالانہ فاتحہ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس دعوت اور فاتحہ کی سادگی اور رونق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔جس نے شرکت کی ہے وہی جانتا ہے۔
یہی ہیں وہ یادیں اور وہ باتیں، خدا بھلا کرے اس لاک ڈاؤن کا ، جس نے سب کچھ تو ” لاک ڈاؤن ” کررکھا ہے لیکن اس نے یادوں کے جھروکوں کو پوری طرح ” ان لاک ” کردیا ہے۔۔ جی چاہتا ہے پھر وہی وقت ہوتا، ویسے ہی لوگ ہوتے ، ویسی ہی سحر ہوتی، ویسے ہی جگانے والے مخلص اور سریلے درویش اور سنجیدہ قافلے ہوتے، حلال وحرام کے بے جا فتووں سے محفوظ و مامون محبت بھری اور میٹھی میٹھی عید ہوتی اور افطار کے وقت بچوں کی ویسی ہی پیاری  پیاری چیخ و پکار ہوتی ” لال بتی جل گیا،  لال بتی جل گیا “
  

1 comment:

  1. نہایت ہی دل آویز تحریر ماشاءاللہ
    تابش مامون فردوسی

    ReplyDelete

خوش خبری