آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 21 July 2020

Watan Ki Muhabbat

وطن کی محبت
وہ ایک خوبصورت شام تھی۔ بارش ہورہی تھی اور اسے اپنے گھر پہنچنے کی فکر ستا رہی تھی۔  اس نے راستے میں ادھر ادھر  دیکھا دور دور تک کوئی سواری نظر نہیں آرہی تھی۔ اپنے گھر سے دور یہ خوبصورت شام کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اس نے سوچا کاش کوئی سواری مل جاتی اور وہ شام ڈھلنے سے قبل گھر پہنچ جاتا۔
یکایک اسے سامنے سے ایک آٹو رکشہ آتا نظر آیا۔ وہ امید بھری نظروں سے آٹو کی جانب دیکھنے لگا۔ جیسے ہی وہ آٹو قریب پہنچا اُس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا لیکن یہ دیکھ کروہ مایوس ہوگیا کہ اس میں پہلے سے ہی ایک سواری بیٹھی تھی۔ وہ امید بھری نظروں سے دوسرے آٹو کو تکنے لگا۔ شام گہری ہونے لگی تھی اور بارش لگاتار بڑھتی جارہی تھی۔ ایک بڑے شہر میں گھر پہنچنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اُسے وہ دن یاد آنے لگے جب ایک ہزار کلو میٹر کا سفر پیدل طے کیا تھا۔ وہ دن یاد کرکے وہ خوف سے سحر گیا اس کے بدن میں کپکپی دوڑ گئی ۔کہ کیا آج پھر اسے اپنے گھر پیدل ہی جانا پڑے گا۔ وہ دن اور تھے۔ تب وہ گریجویشن کرنے کے بعد بھی ایک معمولی مزدور تھا۔ دن رات کی محنت اور معمولی کھانا اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ وہ نمدوری کے لیے پیدل ہی گھر سے نکلتا اور شام ڈھلے پیدل ہی گھر آتا اور اپنے یار دوستوں کے ساتھ گپیں اڑاتا اور بے فکری کی زندگی جیتا تھا ۔ 
اور ایسے میں جب غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اس نے ایک طویل سفر پیدل ہی طے کیا تھا۔ راستے میں پیش آنے والی مشکلات پر اس نے کس طرح قابو پایا یہ وہی جانتا تھا۔ کئی بار اسے ایسا لگا اب اس کی ہمت جواب دے جائے گی اور اب وہ اپنے گھر والوں سے کبھی بھی مل سکے گا۔ لیکن پھر وہ ایک انجانے نشے میں اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگتا۔ وہ کہتا وطن کی محبت کیا ہوتی ہے اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اسے اپنے کھیت اور کھلیان کھینچ رہے تھے۔گاوں کی پگڈنڈیاں اسے پکار رہی تھیں۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ گھر والوں کی بڑی منت سماجت کے بعد وہ دوبارہ شہر واپس آیا تھا۔ اور اسے شہر میں ایک اچھی نوکری مل گئی تھی۔ اب وہ ایک معمولی مزدور نہیں تھا۔ وہ ایک اچھی کمپنی میں نوکری کرنے لگا تھا اور اچھی تنخواہ پاتا تھا۔ اس کے رہنے کا اسٹائل بھی بدل چکا  تھا۔ اس کی فیملی اب اس کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ اور اس کے بچے ایک اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اب اس کے لیے کچھ میٹر بھی پیدل چلنا آسان نہیں رہا تھا فارغ البالی کی زندگی نے اسے کمزور بنا دیا تھا۔ اسے گھر پہنچنا تھا لیکن سواری کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ بارش تھی کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے پھر سوچا کہ وہ گھر کی جانب جو کہ صرف ۶ کیلومیٹر کی دوری پر تھا پیدل ہی نکل پڑے۔ لیکن ایک بار پھر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ امید بھری نظروں سے رستہ تکنے لگا۔ لیکن کسی سواری نے بھی نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ خوشگوار موسم اب موسلادھار بارش سے خطرناک صورت اختیار کرنے لگا تھا۔ اسے اپنے بیوی اور بچوں کی یاد ستانے لگی لیکن یہ یاد اسے پیدل چلنے پر راغب نہ کرسکی۔ اس کے انتظار کی حد جواب دینے لگی تھی لیکن وہ اب بھی سواری کے بنا گھر جانے کو تیار نہ تھا۔ وہ پھر امید بھری نظروں سے رستہ تکنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا کاش کوئی گاڑی آجاتی اور وہ اپنے گھر پہنچ جاتا جہاں اس کی بیوی اور بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ تین گھنٹے بیت چکے تھے اور اسے اپنے گھر کی جانب جانے والی کوئی گاڑی نہیں ملی تھی۔ وہ انتظار کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ اچانک اُسے دور سے آنے والی بس دکھائی دی۔قریب آنے پر پتہ چلا یہ بس اس کے گھر کی روڈ پر ہی جارہی تھی ۔بس اسٹینڈ پر رکی اور وہ دوڑ کر اس میں سوار ہوگیا۔ بس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا وہ سوچ رہا تھا۔ آخر وہ کیا شئے تھی جس نے اسے ایک ہزار کیلو میٹر کا سفر پیدل چلنے کی ہمت دی۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری