آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 18 October 2020

Parts of Urdu Poetry

 شاعری کے اجزاء

قافیہ اور ردیف
قافیہ:
قافیہ ان حروف اور حرکت کا وہ مجموعہ ہےجو ہم آواز ہوتے ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ غیر مستقل طور پر اشعار کے دوسرے مصرعے کے آخر میں مگر ردیف سے پہلے بار بار آتے ہیں۔
ردیف:
  ردیف وہ حرف یا حروف ہیں جو شعر کے دوسرے مصرعے کے سب سے آخر میں یعنی قافیہ کے بعد مستقل طور پر آتے ہیں۔ ردیف کے حرف یا حروف بدلتے نہیں۔
ذیل کی غزل کے چند اشعار سے ردیف اور قافیہ  دونوں کی مثالیں واضح ہو جائیں گی۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اوپر کی غزل کے دوسرے مصرعےمیں ہم آواز الفاظ کاروبار،یار، غمگسار،دار ایسے الفاظ ہیں جو تقریباً ہم آواز ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہیں۔ یہی قافیہ کہلاتے ہیں جو ردیف ”چلے“ سے پہلے آتے ہیں۔اسی طرح ہر شعر کے دوسرے مصرعہ کے آخر میں لفظ ”چلے“ بار بار آیا ہے یہی ردیف ہیں جو قافیہ کے بعد بار بار آتے ہیں۔
مطلع:
 مطلع کے لغوی معنی ہیں طلوع ہونے کی جگہ مگر علم بیان میں غزل یا قصیدے کے سب سے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثلاً فیض کی مذکورہ غزل کا سب سے پہلا شعر
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مطلع کا شعر ہے آپ اس میں دیکھیں گے کہ دونوں مصرعوں میں قافیہ بہار اور " کاروبار موجود ہے اس کے علاوہ دونوں مصرعے ہم ردیف ہیں یعنی دونوں مصرعوں میں چلے ردیف ہے۔ مطلع اور مقطع کے علاوہ غزل کے باقی اشعار فرد کہلاتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان دونوں مصرعوں میں ہم ردیف یا ہم قافیہ نہیں ہیں۔
حسنِ مطلع
غزل میں مطلع اوّل کے فوراً بعد جو مطلع کا شعر آتا ہے اس کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ کبھی کبھی غزل میں حسنِ مطلع کے بعد بھی مطلع کے اشعار آجاتے ہیں وہ الترتیب مطلع ثانی اور مطلع ثالث کہلاتے ہیں۔
شاہ بیت: 
غزل کا سب سے عمدہ شعر شاہ بیت یا بیت الغزل کہلاتا ہے مثلاً مومن کی غزل کا مندرجہ ذیل شعر شاہ بیت کہلاتا ہے اسی شعر کو سن کر مرزا غالب نے اتنا پسند کیا تھا کہ انھوں نے مومن سے کہا کہ تم میرا پورا دیوان لے لو اور  یہ شعر مجھے دے دو
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مقطع: 
مقطع غزل یا قصیدہ کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے مقطع کہلاتا ہے
جیسے جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

طول غم حیات سے گھبرانہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
مصرعہ:
شاعری کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔موزوں کلام کی ایک سطر (لائن) کو مصرعہ کہا جاتا ہے۔
شعر:
موزوں کلام کی دو سطروں یعنی دو مصرعوں کو ملا کر ایک شعر بنتا ہے پہلا مصرعہ اوّل اور دوسرا مصرعہ ثانی کہلاتا ہے۔
وزن و بحر:
وزن کی شرط،پہلے شاعری کے لئے ضروری سمجھی جاتی تھی۔اب بے وزن اور نثری شاعری بھی کی جاتی ہے۔ وزن سے مراد وہ مقررہ پیمانہ ہے جس پر ہم شعر کو پرکھتے ہیں۔عروض(شعر کے پہلے مصرعے کا آخری جز) کے ماہروں نے کچھ پیمانے یا اوزان مقرر کیے ہیں۔ ہر شعر کا کسی پیمانے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔شاعری میں آہنگ اور نغمگی پیدا کرنے کے لئے اور نثر سے فرق پیدا کرنے کے لیے اوزان کی پابندی کی جاتی ہے جب یہ اوزان قافیے کی پابندی کے ساتھ استعمال کیے جاتی ہیں تو بحر کہلاتے ہیں۔گویا وزن اور قافیہ ہم آہنگ ہو کر بحر پیدا کرتے ہیں۔
تخلص:
وہ مختصر نام جو شاعر اپنے نام کی جگہ اپنی پہچان کے لئے شاعری میں لاتا ہے،تخلص کہلاتا ہے۔
مثلاً اسداللہ خاں کا تخلص غالب۔کبھی شاعر اپنے نام کا ہی کوئی حصہ اپنا تخلص بنا لیتا ہے۔مثلاً میر تقی کا تخلص میر اور مومن خاں کا تخلص مومن ہے۔تخلص کی پہچان کے لیے اس پر ایک مخصوص نشان بنا دیا جاتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری