آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 11 November 2020

Faqeer-Azeem Baig Chughtai-NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

فقیر
عظیم بیگ چغتائی
 ایک روز کا ذکر ہے کہ میں غسل خانے سے نہا کر برآمدہ میں جو نکلا تو کسی فقیر نے سڑک پر سے کھڑکی کی چلمن میں شاید پرچھائیں یا جنبش دیکھ کر صدا دی " مائی تیرے بیٹا ہوئے ۔‘‘ در حال یہ کہ نہ تو یہاں کوئی مائی تھی اور نہ کسی کو یہ گھبراہٹ تھی کہ ایک عدد لڑکا کا خواہ مخواہ تولد ہوتا پھرے۔ در اصل یہ فقیران میں سے تھا جو مانگنا بھی نہیں جانتے۔ ذرا اس احمق سے کوئی یہ پوچھتا کہ بے وقوف، یہ کون سی عقل مندی ہے کہ کسی سوراخ میں سے کوئی بھی ہلتی چیز دیکھ پائی اور بیٹا بیٹی تقسیم کرنا شروع کر دیے۔ پھر مجھے فقیروں سے ویسے بھی بغض ہے۔ کیوں کہ جب کبھی مجھے کوئی فقیر ملتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں تو ایسا پاتا ہوں کہ مجھ سےدو کو کا فی ہو۔ چنانچہ میں نے کھڑکی کی سلاخوں میں سے چق اٹھا کر اس نیت سے دیکھا کہ اس سے یہ کیوں نہ پوچھ لیا جائے کہ نوکری کرے گا؟
لیکن جب میں نے دیکھا تو ایک قابل رحم ہستی کو پایا۔ ایک فاقہ زدہ ، ضعیف العمری چیتھڑے لگائے، بے کسی اور بے بسی کی زندہ تصویر تھا۔ سچ ہے ان لوگوں کو مانگنا بھی نہیں آتا۔ نہ تو یہ کوئی عمدہ گیت جانتے ہیں ، نہ کوئی لئے جانتے ہیں ، نہ صدا جانتے ہیں ۔ بس لیے اور دانت نکال دیے۔ یہ دکھانے کو کہ دیکھو ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور یوں رہتے ہیں۔ مجھے اس کی حالت زار دیکھ کر بڑا رحم آیا اور میں نے اس سے کہا کہ گھوم کر صدر دروازے پر آجایئے۔
صبح کا وقت تھا ، میں تو چائے پینے لگا ، اور گھر والی سے کہا کہ ایک انتہا سے زیادہ قابل رحم فقیر آیا ہے، اسے دو چار پیسے دے دو، اور صبح کا وقت ہے، دو توس اور ایک پیالی چائے دے دو۔
جتنی مشٹنڈے فقیروں سے مجھے نفرت ہے، اس سے دوگنی نفرت میری بیوی کو ہے۔ اور اسی مناسبت سے ان فقیروں یعنی محتاجوں سے الفت ہے جو واقعی رحم و کرم کے مستحق ہیں۔
خانم نے فقیر کا نام سن کر جلدی جلدی دو گرما گرم توس کو انگیٹھی پرسینک کر خوب مکھن لگا یا، اور ایک پیالی میں خوب بہت سا دودھ ڈال کر چائے بنا دی ۔ اور مزید برآں کچھ مٹھائی بھی رکھ دی ۔ اور سینی میں چار پیسے رکھ دیے۔ اور لڑکے سے کہا فقیر کو صدر دروازہ سے اندر یعنی برآمدہ میں بٹھا کر کھلا دے۔
اب قسمت تو ہماری ملاحظہ ہو کہ وہ غریب محتاج جسے میں نے بلا یا ، صدر دروازہ کی پشت پر تھا، گھوم کر آجانا اس کے لیے مشکل ہوا یا آتے میں کسی دوسرے سے مانگنے لگا ہوگا یا پھر اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا چاہتا ہوگا۔ قصہ مختصر، وہ تو آیا نہیں اور اس کے بدلے پھاٹک میں ایک اور فقیر صاحب داخل ہوئے اور اپنی صدا لگانے بھی نہ پائے تھے کہ کتے نے ان کا استقبال کیا۔ ان کے پاس ایک موٹا ڈنڈا تھا، اس کے دو چار ہاتھ نہ گھمائے تھے کہ لڑ کا ناشتہ لے کر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک فقیر صاحب گلے میں مالا ڈالے، موٹا سا فقیرانہ ڈنڈا اور فقیرانہ لباس، گلے میں جھولی ، ہاتھ میں چمل، تہمد باندھے موجود ہیں ۔ اس نے کتے کو ڈانٹا، اور کہا"سائیں جی برآمدہ میں آجاؤ‘ سائیں جی نے غنیمت سمجھا اور ناشتہ شروع کیا اور ادھر میں نے خانم سے کہا کہ پرانا سوئیٹر اور ایک قمیص فقیر کو اور بھیج دو، سردی کا وقت ہے اور غریب مرر ہا ہو گا جاڑے میں ۔ خانم نے جلدی سے اک قمیص اور سوئیٹر پرانا لیا اور لڑکے کو دیا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا کہ فقیر کیا کہتا ہے؟ لڑکے نے کہا خوب دعائیں دے رہا ہے اور کھا رہا ہے۔‘‘ لڑکا قمیص اور سوئیٹر لے کر پہنچا اور وہ بھی فقیر صاحب کی نذر کیا۔ اتنے میں میں چائے پی کر باہر نکالا تا کہ فقیر کو گرم کپڑے پہنے ہوئے دیکھنے سے جو خوشی حاصل ہوسکتی ہے، اس سے لطف اٹھاؤں۔
میں باہر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہٹاکٹا ، انتہا سے زیادہ مضبوط فقیر ڈکاریں لے رہا ہے اور سوئیٹر اور قمص ہزاروں دعاؤں کے ساتھ لپیٹ کر جھولی میں رکھ رہا ہے۔ دراصل  مشٹنڈ ا صرف ایک سینہ کھلی فقیروں والی کفنی پہنے تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی سرد ہوا سے لطف اٹھا رہا ہے۔ سینه بالشت بھر اونچا، داڑھی منڈی ہوئی، بلے چڑھے ہوئے ۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت لگے مجھے دعائیں دینے۔
اب میں آپ سے کیا عرض کروں ، سارا کھایا پیا خون ہو گیا، جان سلگ کررہ گئی۔ جی میں تو یہی آیا کہ اس کم بخت کا منہ نوچ لوں، ڈنڈا اور چمل اٹھا کر لگے حضرت دعائیں دے رخصت ہونے ۔ دعاؤں میں مبالغہ اور غلو سے میری اور بھی جان جلی ۔ اتنے میں خانم نے بھی جھانک کر دیکھا ، وہاں بھی یہی حال ہوا۔ اب بتایئے کیا کیا جا سکتا تھا؟ یہ ناممکن تھا کہ میں ان حضرت کو اس طرح ستم توڑ کر چلا جائے دوں ۔ میں اسی شش وپنج میں تھا کہ میرے ایک دوست بھی آ گئے ۔ میں نے دو لفظوں میں فقیر کی ستم آرائی بیان کی اور پھر فقیر سے کہا: ”تمھیں شرم نہیں آتی؟“
سادہ لوحی تو دیکھیے کہ یہ حضرت اس ریمارک کو سن کر اپنے تہمد کی طرف متوجہ ہو کر محض میری جان حزیں پر کرم گستری  کے خیال سے ذرا نیچے کر لیتے ہیں ۔”کم بخت ‘‘ میں نے اور بھی جل کر کہا :” اتنے موٹے تگڑے ہو کر بھیک مانگتے ہو، بڑے شرم کی بات ہے۔“
اس کے جواب میں فقیر صاحب نے اپنے پیدائشی حقوق کا اعادہ کرتے ہوئے ان سے دست برداری سے معذوری ظاہر کی ، اور اب میں یہ سوچنے لگا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس بدتمیز سے کم از کم سوئیٹر اور قمیص ہی چھین لی جائے۔ میرے دوست نے کہا " یہ مناسب نہیں ہے“ مگر حضرت وہ کسی نے کہا ہے۔
درد اس سے پوچھیے ، جس کے جگر میں ٹیس ہو
میں نے کہا خواہ ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے میں اس موذی کو یہ چیز یں ہرگز ہرگز ہضم نہ کرنے دوں گا۔ میں نے اب اس محتاج کی تلاش کرائی ، ملازم اسے تلاش کرنے گیا، میں نے ادھر فقیر صاحب کو لیا آڑے ہاتھوں ۔ میں نے کہا:
” تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟“
وہ کچھ جل کر بولا ” آپ ہی رکھ لیجئے۔“
میں نے فوراً رضا مندی ظاہر کی اور دس روپیہ ماہوار اور کھانا تجویز کیا ۔ فقیر صاحب اس کے جواب میں بولے: ” اور گھر والوں کو زہر دے دوں؟“
  میں نے کہا ”کیوں؟“
   وہ بولا ”آپ دس روپیہ دیتے ہیں ، ڈھائی آنہ روز کا تو گائے رزقہ کھاتی ہے، اور ایک بیوی تین بچے ، پانچ روپیہ میں گزر کیسے ہو؟“
    ”گائے بھی ہے تمھارے پاس ؟“ میں نے متعجب ہوکر کہا۔ وہ بولا:” صاحب آپ بڑے آدمی ہیں ، ہم بھلا کہاں سے پیسہ لائیں جو روز تین سیر دودھ خریدیں؟“
” تین سیر؟ “میں نے متعجب ہو کر کہا۔ ” تین سیر! بھئی تین سیر کا خرچ کیسا؟“، معلوم ہوا، خیر سے خود حضرت دو سیر دودھ یومیہ نوش کرتے ہیں ۔ میں پھر تنخواہ کے سوال پر آیا تو عسرت کی شکایت کرتے ہوئے تیس روپہ ماہوار کا خرچ گھر کا بتایا۔ اور قائل ہو کر کہا کہ اگر کم و پیش کسی روزگار میں اتنی کمائی ہو جائے کہ تنگی ترشی سے بھی گھر کا خرچ چل جائے تو فقیری چھوڑنے کو ابھی تیار ہیں۔
اب میں اپنے دوست کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ میری طرف ۔ پھر معلوم ہوا کہ حضرت دوپہر کے قیلولہ کے سخت عادی ہیں، اور کسی صورت میں بھی دو پہر میں تو کام کر ہی نہیں سکتے ۔ ویسے ہر طرح کوئی پیشہ، دھندا ، نوکری، غرض جو بھی بتاؤ اس کے لیے حاضر ہیں ۔ اب آپ ہی بتایئے میں اس کو کیا جواب دیتا۔ میرا وہ حال کہ مرے پر سو دُرّے ۔ اتنے میں ملازم آیا۔ باوجود سخت تلاش کے وہ محتاج نہ ملا۔ اگر میرے دوست نہ ہوتے تو غالباً میں اس موذی سے ضرور کپڑے چھین لیتا ۔ مگر میں نے اور ترکیب سوچی۔
میں نے قطعی طور پر فقیر صاحب سے کہا کہ”میں تمھیں اس حرام خوری کی سزا دیے بغیر ہرگز نہ جانے دوں گا۔ پچاس دفعہ کان پکڑ کر اٹھوبیٹھو، اور خبردار جو پھر کبھی اس طرف کا رخ کیا۔“
فقیر نے غصے کے شعلے میری آنکھوں میں دیکھے. ممکن ہے کہ یہی سوچا ہو کہ سوئیٹر اور قمیص دونوں بالکل ثابت ہیں، سودا پھر بھی برا نہیں نہایت ہی خاموشی اور سادگی سے آپ نے ڈنڈا اور پیالہ اپنا ایک طرف رکھا، جھولی اور مالا اتار کر رکھا اور تہمد اونچی کر کے کہنے لگا کہ میں نے ڈانٹا,” بد تمیز!“  اس کے جواب میں وہ مجھے نہایت ہی مطمئن کرکے فرماتے ہیں، ” نیچے جانگیا پہنے ہوں“ اور عذر کیا کہ اٹھنے بیٹھنے میں تہمد مخل ہوگی۔
لیکن میں چوں کہ کہ سزا دینا چاہتا تھا، لہذا میں نے اس کی بھی اجازت دے دی ۔ اب یہ حضرت ایک ہنکار کے ساتھ بڑے زور سے ہونہہ کر کے بغیر کان پکڑے ہوئے پہلوانوں کی طرح ایک سپاٹے کے ساتھ پاؤں سرکا کر بیٹھک لگا گئے۔
”بدتمیز، بیہودہ “ میں نے جل کر کہا ” یادرکھو تمہیں پولیس کو دے دوں گا ۔ کان پکڑ کر سیدھی طرح اٹھوبیٹھو۔“ دو دفعہ ان کو میں نے کان پکڑوا کر اٹھنا بیٹھنا بتایا۔ اور یہ حضرت سزا بھگتنے میں مشغول ہو گئے ۔ یہ حضرت میری پشت کی طرف تھے اور ہم دونوں دوست فقیروں کو برا بھلا کہنے میں مشغول ہوئے۔
ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ” کان پکڑی“ غالباً پچاس دفعہ ہو چکی ہے۔ مڑ کر میں نے دیکھا تو سرعت کے ساتھ جاری تھی۔ میں نے پوچھا تو وہ بولا کہ ایک سو دس دفعہ کی ۔ میں نے کہا ” بس ، بس اب جاؤ ! میں نے تو پچاس دفعہ کو کہا تھا، زیادہ کیوں کی؟“
وہ بولا ”صاحب پانچ سو بیٹھکیں روز لگاتا ہوں ، میں نے سوچا کہ اب بار بار کون کرتا پھرے۔ لاؤ یہیں پوری کر لوں۔“      
”ارے“ میں نے اس کم بخت کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ” کیا تو پہلوانی کرتا ہے؟“ والله میں نے گویا اب اس کو غور سے دیکھا، کان ٹوٹے ہوئے، سینہ اور شانہ اور پیٹں!خوب کسرتی بدن۔
جواب دیتے ہیں، ”ویسے نہیں کہتا ، شہر کے جس پٹھے سے جی چاہے لڑا لیجئے.“
میں نے کہا ”کم بخت، جی میں تو یہیں آتا ہے کہ تیرا اور اپنا سر ملا کر لڑالوں۔“
” نکل یہاں سے ابھی ۔ ابھی نکل - نکالو اسے۔“
جلدی جلدی اس نے اپنی جھولی وغیرہ اٹھائی اور سیکڑوں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور کم بخت مجھے انتہا سے ز یادہ پست اور شکست خوردہ حالت میں چھوڑ گیا۔
اس موذی کا بخار میں نے اور فقیروں پر نکالا, کسی کو نہ دیا۔ ڈانٹ کر بھگا دیا کہ ایک عرصہ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کھڑے ملازمہ سے بحث فرما رہے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ جاؤ آگے بڑھو، اور آپ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس گھر سے ہمیشہ ملتا ہے ۔ ( لفظ ہمیشہ پر زور ) ادھر میں جو آیا تو فوراً مجھے اس امر کی شہادت میں پیش کرتے ہیں اور ٹیپ کا بند ”اللہ بھلا کرے، کچھ سائیں کو بھی ۔“
میں نے اسے پکڑ لیا کہ آج تجھے نہ چھوڑ وں گا۔ صحیح عرض کرتا ہوں کہ اس موذی  سے کوئی من بھر لکڑیاں پھڑوائیں، چشم زدن میں پھاڑ پھاڑ کر برابر کیں اور میری کر سی کے پاس آ کر میرے پیر دا بنا شروع کردیے اور” اللہ بھلا کرے “
"ارے کم بخت چھوڑ ! ‘‘ میں نے بے تاب ہو کر کہا، کیوں کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میری پنڈلیاں کوئی لوہے کے شکنجے میں دھر کے داب رہا ہے۔
لکڑیوں کی پھڑوائی کے شاید دو آنے دیے۔ قمیص اور مانگنے لگا۔ وہ نہ دی تو بدمعاش کہتا ہے بھوکا ہوں۔
عظیم بیگ چغتائی
(1895-1941)
عظیم بیگ چغتائی جودھ پور (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔
عظیم بیگ چنائی واقعات کا بیان ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں کرتے ہیں ۔ ان کے مضامین ہوں، افسانے یا ناول ہوں، یہ خصوصیت ہر جگہ برقرار رہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی شوخ مزاج شخص اپنی اور اپنے ساتھیوں کی شرارتیں بیان کر رہا ہے۔ عظیم بیگ چغتائی کے کردار ہمیشہ ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں جن پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ ان کی بعض تحریروں میں طنز بھی ہے لیکن تیکھا پن نہیں ۔عظیم بیگ چغتائی کی تصانیف میں ”کولتار“ ,"خانم"، شریر بیوی‘‘ ’’ جنت کا بھوت‘‘, ’’ مرزا جنگی‘‘ اور روح ظرافت‘‘ کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ۔ مزاح نگاری کے علاوہ قرآن اور پردہ‘ ’ حدیث اور پردہ جیسی مذہبی اور ۔سنجیدہ کتابیں بھی ان کی یادگار ہیں۔

خلاصہ:
”فقیر“ عظیم بیگ چغتائی کا ایک مزاحیہ افسانہ ہے جس میں انہوں نے فقیروں کی اقسام اور ان کی صفات بیان کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض فقیر ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر واقعی رحم آتا ہے اور ان کی مدد کرنے کا دل چاہتا ہے جب کہ ایک دوسری قسم ایسی ہے جو بلا ضرورت بھیک مانگتی ہے۔ مصنف کا پالا ایک ایسے فقیر سے پڑتا ہے جسے دیکھ کر اسے سخت غصہ آتا ہے۔ مصنف نے یہ افسانہ اسی مسٹندے فقیر پر لکھا ہے۔ مصنف کو فقیروں سے بغض ہے کیونکہ آج تک اس نے ایسے ہی فقیر دیکھے ہیں جو کہ بہت ہی زیادہ ہٹے کٹے ہیں اس کے باوجود بھیک مانگتے ہیں۔ مصنف کی بیوی کوبھی موٹے مسٹندے فقیروں سے بہت بغض تھا۔ایک روز اُس نے ایک قابل رحم فقیر اپنے گھر کے باہر دیکھا اس نے اسے گھر کے اندر بلایا لیکن کسی وجہ سے وہ تو نہیں آیا لیکن اس کی جگہ کوئی اور موٹا سا فقیر آگیا۔ جو ناشتہ اور کپڑے اس بھوکے فقیر کے لئے تھے اس موٹے فقیر کو مل گئے۔ جب مصنف نے یہ دیکھا تو اُسے بہت غصّہ آیا اتنے میں اس کا دوست بھی آگیا اُسے اس نے ساری بات بتائی۔ اب مصنف موٹے فقیر کو سزا دینا چاہتا تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا کہ اگر اُسے دس روپے دیے جائیں تو کیا وہ  اس کے گھر  میں نوکری کرے گا ۔ جس پر مصنف کو پتہ چلتا ہے کہ اس فقیر کے پاس ایک گائے بھی ہے اور یہ دو سیر دودھ اکیلے ہی پی جاتا ہےاور اسے دو پہر میں سونے کی سخت عادت ہے۔ ساتھ ہی اس نے مصنف سے 30 روپے ماہوار تنخواہ مانگی۔ یہ سب سن کر مصنف حیران رہ گیا اُس نے اسے سزا دی کہ وہ پچاس بار کان پکڑ کر اٹھے بیٹھے پھر فقیر سزا پوری کرنے لگا اور مصنف اپنے دوست سے بات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد مصنف کو فقیر کا خیال آیا وہ پچاس سے زیادہ بار اٹھ بیٹھ چکا کر تھا۔ جب مصنف نے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو پتہ چلا کہ یہ فقیر پہلوان بھی ہے اور روز یہ پانچ سو بار اٹھ بیٹھ کی مشق کرتا ہے۔ اس نے سوچا کے ابھی ہی کرلے ۔ یہ بات سن کے مصنف نے اسے گھر سے نکال باہر کیا اور اس کے بعد کسی بھی فقیر کو کچھ نہ دیا۔ کچھ دن گزرے وہ فقیر پھر آیا اور ملازم سے کہنے لگا کہ اسے اس گھر سے ہمیشہ ملتا ہے۔ لیکن مصنف نے اسے سزا دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اس بار مصنف نے اس فقیر سے بہت کام کروایا۔ لکڑیاں پھڑوائیں اور جب وہ اپنی غرض سے مصنف کا پیر دبانے بیٹھا اور اس کے پیروں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو مصنف کوایسا لگا جیسے اس کا پیر ہی ٹوٹ جائے گا۔ اس نے مصنف سے کپڑوں کا مطالبہ کیا۔ جب مصنف نے فقیر کو سویٹر وغیرہ دینے سے انکار کیا تو وہ بےشرم باز نہ آیا اس نے کہا کہ وہ بھوکا ہے۔ یعنی اسے کم سے کم کھانا ہی دے دو۔ یعنی وہ فقیر کسی بھی قیمت پر مصنف سے کچھ لیے بغیر واپس جانے کو تیار نہ ہوا۔
سوالوں کے جواب لکھیے 
1 .مصنف کو فقیروں سے کیوں بغض تھا؟
جواب: مصنف کو فقیروں سے بغض اس لیےتھا کہ اس نے ایسے بہت سے فقیر دیکھے تھے جو بہت ہی زیادہ ہٹّے کٹّے اور صحت مند تھے۔جن کے ہاتھ پیر بالکل صحیح سلامت تھے لیکن وہ بھیک مانگتے تھے۔

2. مصنف کو پہلے فقیر پر کیوں رحم آیا ؟ پہلے فقیر کا حلیہ کیسا تھا؟
جواب: مصنف کو فقیر پر اس لیے رحم آیا کہ وہ حقیقت میں قابل رحم تھا۔ وہ ایک فاقہ زدہ، ضعیف العمر، چیتھڑے لٹکائے، بے کسی و بے بسی کی زندہ تصویر تھا۔

3.ہٹے کٹے فقیر کو دیکھ کر مصنف کی کیا حالت ہوئی؟ 
جوب: ہٹے کٹے فقیر کو دیکھ کر مصنف غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔ بقول مصنف اس کا سارا کھایا پیا خون ہوگیا، جان سلگ کر رہ گیا اور اس کا دل کیا کہ وہ فقیر کا منہ نوچ لے۔  اور اس کو دیا گیا سوئٹر بھی واپس چھین لے۔  
 
4. مصنف نے جب فقیر کونوکری کی پیش کش کی تو اس نے کیا تنخواہ ما نگی اور کیوں؟
جواب: فقیر نے 30 روپے ماہوار تنخواہ مانگی اور اس نے اپنے اخراجات کی تفصیل یوں بیان کی کہ اس کی گائے ڈھائی آنہ کا رزقہ کھاتی ہے۔ اس کی بیوی اور بچّے کم پیسے میں گزارا نہیں کر سکتے۔ 

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری