سلطان
احمد ندیم قاسمی
دادا کے بائیں پنجے میں سلطان کی کھوپڑی تھی اور دائیں میں
لاٹھی جو پٹری کے پکے فرش پر ٹھن ٹھن بجے جارہی تھی ۔ سلطان ذرا سا رکا تو دادا
جلدی سے بولنے لگا " ہے بابو جی۔ اندھے فقیر کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نہیں نہیں داد‘‘ سلطان بولا” بابونہیں ہے۔ مداری کا تماشا ہور ہا ہے۔“
تیرے مدارکی .......‘‘ گالی کومکمل کرنے سے پہلے ہی دادا پر کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ سلطان کے سر پر رکھے ہوئے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ کر کھانسی کے ایک لمبے چکر میں ڈوب گیا۔
جب تک دادا کی سانس معمول پر آئی، سلطان مداری کی ٹوکری کے نیچے رکھے ہوئے چتھڑوں کو سفید براق رنگ کے دوموٹے موٹے کبوتروں میں بدلتا دیکھ چکا تھا۔
دادا نے اپنا بایاں بازو ہوا میں پھیلا کر پوچھا کہاں گیا تو؟“
سلطان نے فوراً اپنا سر دادا کے پنجے میں تھما دیا اور وہ پٹڑی پر چلنے لگے۔
ایک جگہ دادا کی لاٹھی بجلی کے کھمبے سے ٹکرائی تو کھمبا بج اٹھا اور سلطان بول ”دادا ! سنا؟ کھمبا کیسا بولا ؟
’’ہان‘ دادا رک گیا اور کھمبے کو ایک بار بجانے کی کوشش کی مگر نشانہ چوک گیا۔ کھمے بولتے ہیں۔ لے ذرا سا بجالے‘‘
سلطان نے دادا کی لاٹھی کھمبے پر ماری اور دادا بولا دیکھا؟ جب میں تمھاری طرح چھوٹا سا تھا تو دیر دیر تک کھمبوں پر کان رکھے کھڑا رہتا تھا۔ ان دنوں کھمبوں میں میمیں انگریزی بولتی تھیں ، پھر دادا نے میموں کی نقل کی ۔ "یوگڈ ۔ یو بیڈ۔"
میمیں بولتی تھیں کھمبوں میں؟‘‘سلطان حیران رہ گیا۔ آج کل کون بولتا ہے دادا؟ پھر ایک دم سلطان کا لہجہ بدلا اور اس نے سرگوشی میں دادا سے کہا ” دو بابو آرہے ہیں دادا‘‘
دادا جلدی جلدی بولنے لگا ” بابو جی۔ اندھے فقیرکو راہ مولا ایک روٹی کے پیسے دیتے جاؤ۔ اللہ تمھیں ترقیاں دے۔ اللہ تمھیں بیٹے اور پوتے دے۔“
ایک با بو قہقہ مار کر بولا ” یہ بڈھا تو خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے۔ پھر دونوں زور زور سے ہنستے ہوئے گذر گئے ۔
” چلے گئے !‘‘ سلطان نے آہستہ سے کہا پھر ذرا سارک کر اس نے بابووں کو گالی دے دی۔
دادا نے اپنے پنجے کو سلطان کی کھوپڑی پر دبایا۔ ” پھر وہی بک بک ۔ کل کیا کہا تھا میں نے کبھی کسی نے سن لیا تو ادھر کا منہ ادھر لگا دے گا‘‘
سلطان چپ چاپ دادا کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد بولا ” میرے سر پر جہاں تمہارا انگوٹھا ہے نا دادا۔ وہاں ذرا سا کھجا دو"
دادا نے اپنا انگوٹھا سلطان کی کنپٹی پر زور سے رگڑا۔ ’’سلطان ‘‘ خاصی دیر کے بعد دادا بولا ” کیا بات ہے آج تو تم کہیں رکتے ہی نہیں، آج با بولوگ کہاں چلے گئے؟
مر گئے‘ سلطان نے جواب دیا۔ پھر یکا یک رک گیا اور بولا آج کون سا دن ہے دادا ؟
میں کیا جانوں بیٹا۔‘‘ دادا بولا۔ ” تم دن یا درکھا کرو نا۔ میرے لیے تو دن رات دونوں برابر ہیں ۔‘ دادا نے ذرا سا رک کر سوچا پھر بولا۔
پرسوں تم مجھے نیلا گنبد کی مسجد میں لے گئے تھے نا؟ پرسوں جمعہ تھا۔ اس حساب سے تو آج اتوار ہے۔ بیڑا غرق ہو اس اتوار کا۔ آج تو بابولوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیوی بچوں سے کھیل رہے ہوں گے ۔
سلطان یوں دم بخود کھڑا رہ گیا جیسے کوئی زبردست حادثہ ہو گیا ہے۔ اچانک ٹن کی آواز آئی کسی راہ چلتے نے سلطان کے ہاتھ کے کٹورے میں ایک پیسہ ڈال دیا تھا۔
’’ کچھ ملا ؟ کیا ملا؟“ دادا نے پوچھا۔
ایک پیسہ ہے۔“ سلطان بولا ” چھوٹے والا۔ نئے والا ۔ دادا نے اپنا پنجہ سلطان کے سر پر گھمایا۔’’جا کوئی چیز لے کر کھالے۔ جا۔ میں یہیں کھڑا ہوں ‘‘
ایک پیسے کا تو کوئی کچھ نہیں دیتا دا دا ‘‘ سلطان بولا ” دو تین ہو گئے ۔ گنڈیری کھاؤں گا۔“
دادا نے سلطان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا کر جیب میں ڈالا ” لے یہ دو نئے پیسے کل کے بچے رکھے ہیں ۔ کوئی چیز کھالے۔ تو نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ۔ بچوں کو تو بڑی بھوک لگتی ہے۔ جا‘‘
سلطان نے پیسے لے لیے تو دادا بولا ’’ جلدی سے آجا۔ اچھا میں یہیں کھڑا ہوں ۔ کہاں کھڑا ہوں میں؟‘‘
"ذرا سا بائیں کو ہو جا دادا" سلطان نے دادا کا ہاتھ پکڑ کر کہا ” کھمبے کے ساتھ لگ جا‘‘
دادا کھمبے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ دیر تک یوں ہی کھڑا رہا۔ پھر وہ کھمبے پر کان رکھ کر جیسے کچھ سنے لگا اور مسکرانے لگا۔ یکا یک وہ چونک سا اٹھا اور سلطان کو پکارنے لگا۔ "سلطان ۔ اے سلطان ‘‘ پھر وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ ” او سلطان ! تو کہاں جا کر مرگیا؟‘‘ کوئی جواب نہ پا کر وہ ادھر ادھر گھوم کر بولا۔ ” اے بھئی، خدا کے بندہ! میرا چھوٹا سا پوتا ادھر کہیں سے پیسے دو پیسے کی کوئی چیز لینے گیا ہے۔ سلطان نام ہے۔ کہیں تانگے موٹر کے نچے تو نہیں آ گیا بدنصیب کی اولاد ‘‘ پھر وہ چلا دیا۔ ” اوسلطان ‘‘
’’ آیا دادا۔ دور سے سلطان کی آواز آئی مگر زور سے چیخنے کی وجہ سے دادا کے کھانسی چھوٹ گئی۔
دادا کی سانس معمول پر آنے لگی تو اس نے پلٹ کر جیسے کھمبے سے پوچھا۔ ” کہاں مر گیا تھا تو؟“
سلطان نے دادا کا بایاں ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ ”مداری تماشا دکھا رہا تھا۔ پیٹ سے گولے نکال رہا تھا۔‘‘
دادا نے اپنے اپنے کو سلطان کی کھوپڑی پر یوں دبایا جیسے اسے اوپر اٹھالے گا۔ چل گھر چل۔ وہاں میں تجھے مداری کا تماشا دکھاؤں ۔ یہ نہیں سوچا کہ میں اندھا اپاہج یہاں رستے میں کھڑا ہوں ۔
سلطان چپ چاپ چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد دادانے نرمی سے پوچھا کیا کھایا؟
"گنڈیریاں‘‘ سلطان بولا۔
”ارے بد بخت گنڈیریاں تو پانی ہوتی ہیں۔ دادا پیر غصے ہونے لگا۔ چنے کھالیتا تو دوپہر تک کا سہارا تو ہو جاتا ‘‘ سلطان چپ چاپ چتا رہا۔
" کٹورا ہاتھ میں لٹکا تو نہیں رکھا؟“ دادا نے پوچھا۔
"نہیں دادا" سلطان بولا۔
’’ہاں‘‘ دادا نے نرمی سے نصیحت کی ۔’’ اٹھائے رکھا کرو۔ لٹکا رہے تو لوگ سمجھتے ہیں یہ بھکاری نہیں ہیں ۔ سودا لینے چلے ہیں ‘‘
سلطان چہکنے لگا۔ ایک بار میں کٹورے میں تیل لینے جارہا تھا تو ایک بابو نے اس میں دونی ڈال دی تھی ۔ یاد ہے دادا؟
ہاں دا دا بولا۔ ” پر ایساکم ہوتا ہے ایسے با ہوکم ہوتے ہیں ۔ ’’ دادا‘‘ سلطان نے کہا۔ انگوٹھے والی جگہ کو ایک بار پھر کھجادے۔“ دادا نے سلطان کی کنپٹی پر انگوٹھا زور سے رگڑا اور بولا ”آج واپس جا کر میں زہبو بیٹی سے کہوں گا کہ میرے بچے کے سر سے جوئیں چن لے۔
تم بھی اس کا کوئی کام کر دینا۔ بالٹی بھرلا نا نل سے۔ اچھا؟
گھر واپس آ کر جب سلطان ، دادا کو کھٹولے کے پاس لاتا تو کہتا۔ ” لے دادا بیٹھ جا۔ دادا لاٹھی کو کھٹولے کے پائے سے لگادیتا اور سلطان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا کر کھٹولے پر بیٹھ جاتا۔ سر پر سے دادا کا ہاتھ اٹھتے ہی سلطان کو یوں محسوس ہوتا جیسے ایک دم وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہے اور اس کے پاؤں میں لوہے کے گولوں کی جگہ ربڑ کے پہیے بندھ گئے ہیں ۔ وہ چپکے سے چھپریا میں سے نکل آتا۔ پھر خالہ زیبو کی آنکھ بچا کر بھاگ نکلتا اور بنگلوں سے گھرے ہوئے میدان میں پہنچ جاتا جہاں امیروں کے بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور غریبوں کے بچے انھیں گیند اٹھا کر دیتے تھے۔ پھر جب وہ میدان خالی کر دیتے تھے تو بیروں، خانساموں اور چپراسیوں کے بچے بلور کی گولیاں کھیلتے تھے۔ ایک بار سلطان نے بھی اس کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی ۔ چند روز تک کھیلا بھی تھا مگر پھر ایک دن ایک لڑکے نے انکشاف کیا تھا کہ سلطان تو اندھے بھکاری کا بچہ ہے۔ جب سے اسے کھیل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ جب کوئی بچہ بلور کی گولی بہت دور پھنیک بیٹھتا تو سلطان لپک کر یہ گولی اٹھا لاتا تھا اور مالک کے حوالے کرنے سے پہلے اسے چند بار انگلیوں میں گھما لیتا تھا۔ ایک بار دادا کے سامنے دیر تک زار زار رو کر اس نے چند پیسے حاصل کر لیے تھے اور ان سے بلور کی گولیاں خرید لایا تھا مگر جب میدان میں پہنچا اور بچوں نے اس کے ہاتھ میں گولیاں دیکھی تھیں، تو وہ یہ کہہ کر اس پر جھپٹ پڑے تھے کہ یہ تو ہماری گولیاں ہیں ۔ وہ اس دن خوب پاؤں پٹخ پٹخ کر رویا تھا مگر دوسرے دن پھر میدان میں جا نکلا تھا۔
ایک بار میدان میں آنے کے بعد اسے واپس گھر جانے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں دادا پھر سے اس کے سر کو اپنے سوکھے ہاتھ میں جکڑ کر اسے سڑک سڑک نہ لیے پھرے۔ اسے معلوم تھا کہ صبح کو آنکھ کھلتے ہی اسے دادا کے ساتھ گدا کرنے کے لیے نکل جانا ہوگا۔ اس لیے کھٹولے سے اٹھتے ہی اسے ایسا لگتا جیسے اس نے پتھر کی ٹوپی پہن لی ہے۔ دادا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں درد کی پانچ لہریں بن کر اس کی کھوپڑی میں دوڑ جاتیں اور جب دادا نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے بعد لاٹھی سنبھالتا اور سلطان کو پاس بلاکر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا تو سلطان آدھا مر جاتا۔ دادا کا یہ ہاتھ سوتے جاگتے میں اسے بھوت کی طرح ڈراتا تھا۔ یہ ہاتھ اسے گرفتار کر لیتا تھا۔ اور وہ پٹری پر یوں چلتا تھا جیسے ملزم ہتھکڑیاں پہنے سپاہی کے ساتھ چلتے ہیں اور پھر قید خانے کے صدر دروازے کے جنگلے میں سے باہر سڑک پر لوگوں کو چلتا پھرتا ہنستا مسکراتا دیکھتے ہیں مگر بس دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ان کی بصارت کے ساتھ سلاخیں صلیبوں کی طرح چمٹ جاتی ہیں۔
جب دادا کا ہاتھ اپنے سر پر رکھے وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا تھا تو کئی بار اس کا جی چاہا کہ گنڈیری والے کے خوانچے میں سے جوگنڈیری لڑھک کر گندی نالی کے کنارے جا کر رک گئی تھی، وہ لپک کر کھالے۔ بابو نے کیلا کھا کر جو چھلکا بھی پھینکا ہے اسے بڑھ کر اٹھالے اور ذرا سا چاٹ لے۔ مگر جب بھی اس نے کسی بہانے دادا سے ذرا سارک جانے کو کہا تو دادا نے اپنی انگلیاں اس کے سر کی ہڈی میں گاڑ دیں اور بولا ” میں تجھے ٹہلانے نکلا ہوں کہ تو مجھے گدا کرانے نکلا ہے؟ ارے بدبخت! دن بھر میں چار پانچ آنے کی بھیک نہ ملی تو ز یبو بٹی دو وقت کی روٹی ہمیں کیا اپنی گرہ سے کھلائے گی؟ اس کی یہی مہربانی کیا کم ہے کہ اس نے ہمارے سر چھپانے کو اپنی چھپریا دے رکھی ہے؟
کافی دنوں کی بات ہے دادا بنگلوں سے بھیک مانگنے کے بعد جب کوارٹروں کے پیچھے بیگو کوچوان کے گھروندے کے سامنے سے گزرا تو اس کی ماں زیو لپک کر آئی اور بولی ارے بابا دعا کر۔ الله میرے بیٹے کی پسلی کا دردٹھیک کردے۔ میں تجھے پورا ایک روپیہ دوں گی“
دادا نے وہیں کھڑے ہو کر دعا مانگی تھی پھر چند روز کے بعد اس نے سلطان کو دوبارہ ان ہی بنگلوں کی طرف چلنے کو کہا۔ ابھی وہ بنگلوں تک نہیں پہنچے تھے کہ زیبو نے انھیں رستے ہی میں پکڑ لیا۔ دادا کو ایک روپیہ دیا اور بولی’’ مجھے بتا تو کہاں رہتا ہے بابا؟ میں جمعرات کی جمعرات تیری سلامی کو آیا کروں گی ۔‘ پھر جب اسے معلوم ہوا تھا کہ یہ دادا پوتا تو کسی دکان کے چھجے تلے پڑرہتے ہیں تو اس نے بیٹے سے کہہ کر چھپریا خالی کرا دی تھی اور جب سے دونوں وہیں رہتے تھے۔ دن بھر کی بھیک اس کو لا دیتے تھے اور وہ اسی حساب سے انھیں روٹی پکا دیتی تھی۔ ان دنوں دادا سے وہ اپنے بیٹے کے اولاد ہونے کی دعا کرا رہی تھی۔
سلطان کو دادا کے علاوہ خالہ ز یبو بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ جب بھی دادا کو واپس چھپریا میں پہنچا کر نکلا تو زیبو سے چھپ کر نکلا۔ ورنہ وہ شور مچا دیتی تھی کہ لو دیکھو۔ اپنے بوڑھے اپاہج دادا کو اکیلا چھوڑ کر کھیلنے چلا ہے۔
جس روز دا دا دن ڈھلے ہی تھک کر واپس آجاتا اور سلطان کو کھسک جانے کا موقع نہ ملتا تو ذرا سا سستالینے کے بعد وہ پھر سے لاٹھی سنبھال کر کہتا چل سلطان ۔ چوک کا ایک اور چکر لگوادے۔ آج کچھ زیادہ مل گیا تو کل تیری چھٹی‘ مگر یہ چھٹی کبھی نہیں ملتی تھی۔ اس لیے کہ کچھ زیادہ کبھی نہیں ملتا تھا۔
البتہ اب کچھ عرصے سے یوں ہونے لگا تھا کہ دادا کو آدھی رات کے بعد دمے کے دورے پڑتے اور وہ کھانس کھانس اور ہانپ ہانپ کر صبح تک ادھ موا ہو جاتا۔ اس روز وہ گدا پرنہیں نکلتا تھا۔ مگر سلطان کو جب بھی چھٹی نہیں ملتی تھی ۔ وہ دن بھر بیٹھا دادا کے کندھے اور پسلیاں دباتا رہتا اور اس کے ہاتھ رکتے تو دادا کھانسی سے بھنجی ہوئی آواز میں پکارتا " کیوں سلطان کیا کر رہا ہے؟ مرتو نہیں گیا؟ "
سلطان فوراً دادا کے کندھے پکڑ لیتا اور جی میں کہتا ”اللہ کرے تو خود مرجائے دادا۔ تو مر جائے تو اللہ قسم کیسے مزے آئیں۔ اللہ کرے تو جلدی جلدی سے بس ابھی ابھی مر جائے اور میں بنگلے کی بی بی سے اس کے بچے کی ٹوپی کی بھیک مانگ کر اپنا سر ڈھانپ لوں ۔“
پھر ایک روز دادا سچ مچ مر گیا۔ وہ ٹوٹتی رات سر کو گھٹنوں پر رکھے کھانستا اور ہانپتا رہا اور اس کی پسلیاں پھنکتی اور سمٹتی رہیں ۔ سلطان اس کے کندھے دباتا رہا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کے کناروں کو انگوٹھوں کی پوروں سے سہلاتا رہا۔ پھر وہ سو گیا۔ اور جب صبح کو اس کی آنکھ کھلی تو روتی ہوئی خالہ زبیو نے اسے بتایا کہ " سلطان ۔ تیرا دادا تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ "
ایکا ایکی سلطان کے اندر چار طرف پھلجھڑیاں سی چھوٹیں اور وہ بولا "سچ ؟ " جیسے اسے یقین نہیں آرہا کہ دادا لوگ بھی مر سکتے ہیں ۔ پھر بیگو کو چوان آس پاس کے لوگوں کو جمع کر لایا اور وہ دادا کو غسل دے
کر دفنانے لے گئے۔
خالہ زیبو وقفے وقفے سے روتی رہی اور اس کی بہو نے بھی سلطان کو بڑے پیار سے دن بھر اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ بیگو بھی قبرستان سے واپس آیا تو سلطان کے لیے گنڈیریاں لیتا آیا اور گنڈیریاں چوستے ہوئے سلطان نے سوچا۔ جب دادا مر جاتے ہیں تو کیسے مزے آتے ہیں۔
رات بھی خالہ زیپو نے اسے چھپریا میں نہ جانے دیا کہ بچہ ہے، ڈر جائے گا۔ صبح کو اس نے سلطان کو رات کی ایک چپاتی اور لسی کا ایک پیالہ دیا۔ خوب پیٹ بھر کر وہ اٹھا تو زیبو نے پوچھا۔ کہاں چلے بیٹا؟‘‘
سلطان کو یہ سوال بڑا عجیب سا لگا۔ ہم کہیں بھی جائیں تمھیں کیا۔ ہمارا دادا تو مر گیا ہے۔
سلطان کو خاموش پا کر وہ بولی نہیں بیٹا۔ کھیلتے ویلتے نہیں ہیں ۔ پھر وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر چھپریا میں لے آئی اور کٹورا اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی "آج کہیں سے آٹھ دس آنے کمالا ۔۔۔۔۔۔ میں تجھے چاول کھلاؤں گی۔ جا بیٹا کسی آباد سڑک کا ایک پھیرا لگا لے۔ اللہ تیرا ساتھی ہو۔"
سلطان نے ہاتھ میں کٹورا لے لیا مگر چھپر یا سے باہر آتے ہی وہ رک گیا۔ واپس چھپریا میں گھسا جیسے کچھ بھول آیا ہے۔ پھر وہ بلبلا کر رو دیا اور خالہ زیبو کے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے کترا کر بھاگ نکلا۔
اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہورہا تھا جب اس نے سڑک پر ایک بابو کے سامنے کٹورا پھیلایا۔ ”بابو جی اندھے فقیر کو راہ مولا ایک روٹی ۔" اس نے زار زار روتے ہوئے دادا کے الفاظ دہرا دیے۔
کیا تو اندھا ہے؟“بابو نے سختی سے پوچھا۔
سلطان کو یکا یک اپنی غلطی کا احساس ہوا اور گھبرا کر اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ جھوٹ بھی بکتا ہے اور روتا بھی ہے؟
بابونے ڈانٹا۔ نوکری کرے گا ؟ اس نے پوچھا پھر سلطان کو مسلسل روتا پا کر جانے لگا۔ سلطان رندھی ہوئی آواز میں بولا " ہے بابو جی۔ راہ مولا پیسے دو پیسے دیتے جاؤ“
بابو پلٹے بغیر آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دور نکل گیا تھا جب روتا ہوا سلطان یکا یک اس کی طرف دوڑنے لگا اور پکارنے لگا ”بابوجی۔ ہے بابو جی ۔
با بورک گیا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ٹھٹھک گئے ۔ ” نوکری کرے گا؟“بابو نے پوچھا۔
"بابو جی." ہانپتا ہوا سلطان بابو کے پاس رکا۔ پھر اس کا نچلا ہونٹ ذرا سا لٹکا اور وہ بولا ”بابوجی - دیکھیے۔ میں نوکری نہیں مانگتا ۔ بھیک نہیں مانگتا ۔ اس نے کٹورا زمین پر پٹخ دیا۔
تو پھر مجھے کیوں پکارا ؟ بابو نے جمع ہوتے ہوئے لوگوں پر ایک نظر دوڑا کر ذرا تلخی سے پوچھا۔
ایک دم سلطان کی آنکھوں میں اکٹھے بہت سے آنسو آگئے ۔ اس کے ہونٹ پھڑ کنے لگے اور وہ بڑی مشکل سے بولا بابو جی ۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔ خدا آپ کو بہت بہت دے۔ کیا آپ ذرا دور تک میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چل سکیں گے؟
" لو اور سنو۔" بابواحمقوں کی طرح ہجوم کو دیکھنے لگا۔
احمد ندیم قاسمی
(1916 - 2006)
احمد ندیم قاسمی ضلع شاہ پور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں ہی میں ہوئی۔ 1935 میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ملازمت کرتے رہے۔ 1942 میں تہذیب نسواں اور "پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ وہ ادب لطیف‘ اور نقوش“ کے بھی مدیر رہے۔ انھوں نے ” فنون“ کے نام سے خود اپنا بھی ایک سہ ماہی جریدہ جاری کیا جس کے وہ آخر وقت تک مدیر رہے۔احمد ندیم قاسمی ادب میں کئی حیثیتوں کے مالک تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور ایک معروف ادبی صحافی بھی ۔ ان کے نصف درجن کے قریب شعری مجموعے اور ایک درجن سے زیادہ افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے۔ ادبی مضامین اور اخباری کالم نویسی کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا، انھوں نے سب سے زیادہ شہرت اپنے افسانوں کی وجہ سے پائی۔ پنجاب کی دیہی زندگی اور عام انسانوں کے مسائل کی عکاسی کا وہ غیر معمولی سلیقہ رکھتے تھے۔ اسی لیے عام پڑھنے والوں میں ان کی کہانیاں بہت مقبول تھیں۔
احمد ندیم قاسمی کا تعلق ایک روایتی مزہبی خاندان سے تھا۔ ترقی پسندتحریک سے بھی انھوں نے اپنی ترجیحات کے ساتھ رابطہ قائم رکھا۔ ان کے اس ذہنی رویہ کے اثرات ان کی تخلیقات میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔
خلاصہ:
سلطان معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کا مشہور افسانہ ہے۔ اس افسانے میں انسانی نفسیات اور جذبات کو سلیقے سے بیان کیا گیا ہے۔
سلطان نام کا ایک لڑکا ہے جو اپنے نابینا دادا کے ساتھ بھیک مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلتا ہے۔ دادا کا بایاں ہاتھ ہمیشہ سلطان کی کھوپڑی پر رہتا ہے۔ دارا مختلف سڑکوں سے گزرتا ہوا ان سڑکوں اور بازاروں کی خصوصیت بتاتا ہے۔
اتوار کا دن تھا جب حسب معمول دادا اور سلطان بازار میں نکلے۔ ادھر ادھر جانے کے بعد بھی انہیں کچھ نہیں ملا تو دادا نے پوچھا ”آج بابو لوگ کہاں چلے گئے؟ سلطان نے کہا ” پرسوں تم مجھے نیلا گنبد کی مسجد میں لے گئے تھے نا، پرسوں جمعہ تھا اس حساب سے تو آج اتوار ہے۔“ بیڑاغرق ہواس اتوار کا آج تو بابو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیوی بچوں سے کھیل رہے ہوں گے۔ "سلطان یوں دم بخود کھڑارہ گیا جیسے کوئی زبردست حادثہ ہو گیا ہو۔
شام کو سلطان اور دادا گھر واپس آئے تو دادا نے کھٹولے پر بیٹھ کر سلطان کے سر سے اپنا ہاتھ اٹھالیتا ہے۔ دادا کا ہاتھ ہے ہی سلطان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دم وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہو۔ اور اس کے پاؤں میں لوہے کے گولوں کی جگہ ربڑ کے پہیے بندھ گئے ہوں۔ وہ چپکے سے چھپریا سے نکل آتا، پھر خالد زیبوکی آنکھ بچا کر بھاگ نکلتا اور بنگلوں سے گھرے ہوئے میدان میں پہنچ جاتا جہاں امیروں کے بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور غریبوں کے بچے انہیں گیند اٹھا کر دیے تھے۔ پھر جب وہ میدان خالی کر دیتے تھے تو بیروں، خانساموں اور چپراسیوں کے بچے بلور کی گولیاں کھیلتے تھے۔ ایک بار سلطان نے بھی اس کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی تو ایک لڑکے نے انکشاف کیا تھا کہ سلطان تو اندھے بھکاری کا بچہ ہے، بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ میدان میں آنے کے بعد اسے واپس گھر جانے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں دادا پھر سے اس کے سر کو اپنے سو کھے ہاتھ میں جکڑ کر اسے سڑک سڑک نہ لیے پھرے ۔ ہر صبح اسے ایسا لگتا جیسا اس نے پتھر کی ٹوپی پہن لی ہے۔ دادا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں در کی پانچ لہریں بن کر اس کی کھوپڑی میں دوڑ جاتیں ۔
ایک بار دارابنگلے کے بعد جو کوارٹروں کے پیچھے بیگو کوچوان کے گھروندے کے سامنے سے گزرا تو اس کی ماں زیبو لپک کرائی اور بولی ۔ ارے بابا! دعا کر میرے بیٹے کی پسلی کا درد ٹھیک ہو جائے میں تجھے ایک روپیہ دوں گی۔ پھر ایک بار ز یبو نے انہیں راستے میں پکڑ لیا اور دادا کو ایک روپیہ دے کر بولی، مجھے بتا کہاں رہتا ہے؟ میں جمعرات کی جمعرات تیری سلامی کو آیا کروں گی۔ زبیو کو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی گھر نہیں ہے تو اس نے اپنے بیٹے سے چھپر یا خالی کرا دی۔ دادا اور سلطان وہاں رہنے لگے۔ انہیں جو بھیک ملتی تو وہ اس کا ایک حصہ زیبو خالہ کودیتے اور وہ انہیں دو وقت کی روٹی کھلا دیتی۔
ایک روز اس چھپریا میں دادا مر گیا۔ اسی روز زیبو اور بہو نے سلطان کو بڑے پیار سے دن بھر اپنے پاس رکھا۔ زیبوکابیٹا بیگو بھی قبرستان سے واپس آیا تو سلطان کیلئے گنڈیریاں لایا اور سلطان سوچنے لگا، جب دادا مر جاتے ہیں تو کیسے مزے آتے ہیں۔ اگلے دن سلطان پھر بھیک مانگنے نکلا ۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا،آج اس کے سر پر دادا کا ہاتھ نہ تھا۔ ایک بابو کو دیکھ کر سلطان رندھی ہوئی آواز میں بولا ہے بابو جی ! راہ مولا میں پیسے دو پیسے دیتے جاؤ۔ بابو پلٹے بغیر آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دور نکل گیا جب روتا ہوا سلطان یکایک اس کی طرف دوڑنے لگا اور پکارنے لگا۔ ہے بابو جی ! ہے بابوجی ! بابو رک گیا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ٹھٹھک گئے ۔ نوکری کرے گا باہو نے پوچھا۔ ہانپتا ہوا سلطان نچلا ہونٹ ذرا سا لٹکا کر بولا۔ بابوجی! میں نوکری نہیں مانگتا، بھیک نہیں مانتا۔ یہ کہ کر اس نے کٹورا زمین پر پٹخ دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر وہ بڑی مشکل سے بولا کیا آپ ذرا دور تک میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چل سکیں گے ۔” لو اور سنو !“بابو احمقوں کی طرح ہجوم کو دیکھنے لگا۔
|
سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ سلطان کو ز یبو خالہ کا باہر جانے پر ٹوکنا کیوں برا لگتا ہے؟
جواب: سلطان کو زیبو خالہ کا باہر جانے پر ٹوکنا اس لیے برا لگتا تھا کہ وہ دوسرے بچّوں کی طرح ہی سب کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ جب وہ اپے بوڑھے دادا کو چھپریا میں پہنچا دیتا تھا تب اسے لگتا تھا کہ اس نے اپنا کام ختم کرلیا ہے اور اب وہ دوسروں کے ساتھ کھیلنے کے لیے آزاد ہے لیکن وہ جیسے ہی اپنے قدم باہر نکلتا زیبو خالہ اسے ٹوک دیتی اور وہ اس سے سخت ناراض ہوتا۔
2۔ سلطان کو دادا کا ہاتھ لوہے کی ٹوپی جیسا کیوں لگتا تھا اور بعد میں اس کے نہ ہونے پر اسے کیا محسوس ہوا؟
جواب: سلطان کو دادا کا ہاتھ لوہے کی ٹوپی جیسا اس لیے لگتا تھا کہ سلطان کے دادا اپنی سخت ہتھیلیوں سے اس کے سر کواس طرح پکڑتے تھے کہ جیسے وہ کسی شکنجے میں کس گیا ہوا ہو۔ دادا کو اس بات کا ڈر رہتا کہ سلطان اسے باہر اکیلا چھوڑ کر کھیلنے نہ بھاگ جائے اس لیے وہ اس کے سر پر اپنی گرفت بہت سخت رکھتا اور اسے لگتا کہ اس نے اپنے سر پر ایک لوہے کی ٹوپی پہن رکھی ہو۔
3۔ سلطان نے بابوجی سے اپنے سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دور چلنے کی درخواست کیوں کی؟
جواب: بابو جی کے سوال جواب سے اسے اپنے دادا کے نہ ہونے کا شدت سے احساس ہوا۔ اور اس یاد کی شدت میں وہ بے ساختہ بابوجی کی طرف دوڑ پڑا۔ اسے بابو جی میں اپنے دادا اپنے سرپرست کی صورت نظر آنے لگی اور وہ بے ساختہ ان سے اپنی خواہش کا اظہار کر بیٹھا کہ کیا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچہ دور چلیں گے۔ اس نے بھیک کا کٹورہ دور پھیک دیا تھا کیونکہ اسے بھیک کی خواہش نہیں تھی بس وہ اپنے سر پر ایک سرپرست کا شفقت بھرا ہاتھ چاہتا تھا۔ بابو جی چونکہ پورے احوال سے واقف نہ تھے اس لیے وہ صرف حیرت سے اسے دیکھتے رہے۔
0 comments:
Post a Comment