اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کےحالاتِ زندگی
مختصر حالاتِ زندگی
سیّد حضرت ابراہیمؑ کے حالات جو قدیم صحیفوں میں مزکور ہیں ، اختصار کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں، اس کے بعد تفصیلی حالات یعنی آپ کی دعوت اور ترکِ وطن وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
آپ نے ستّر برس کی عمر میں، اپنے رب کے حکم سے، اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر، کنعان بن عام کے علاقے میں قیام کیا، آپ کے ہمراہ آپ کی بیوی سارہؓ اور بھتیجے لوطؑ تھے ۔ اس موقعہ پر اللہ نے آپ سے وعدہ کیا کہ یہی ملک تمہاری اولاد کو عطا ہوگا۔
یہاں سے آپ مصر گئے، سیّدہ سارہؓ کو شاہِ فرعون نے حسین سمجھ کر لے لیا، لیکن فرعون پر خدا کا قہر نازل ہوا، جس سے ڈر کر اس نے سیّدہ کو واپس کردیا۔
اس کے بعد آپ پھر کنعان کی طرف لوٹ آئے لیکن آپ کے بھتیجے لوطؑ آپ کی اجازت سے علاحدہ ہو کر یرون کی ترائی کی طرف چلے گئے اور شہر صدُوم میں آباد ہوئے، کچھ دنوں بعد کدرلا عمر شاہ عیلان نے، اپنے تین اتحادی حکمرانوں کے ساتھ شاه صدُوم اور اس کے چار اتحادی بادشاہوں سے جنگ کی اور فتح یاب ہوا تو حضرت لوطؑ کو بھی مع ان کے مال و اسباب کے اسیر کرکے لے گیا۔
سیّد حضرت ابراہیمؑ کے حالات جو قدیم صحیفوں میں مزکور ہیں ، اختصار کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں، اس کے بعد تفصیلی حالات یعنی آپ کی دعوت اور ترکِ وطن وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
آپ نے ستّر برس کی عمر میں، اپنے رب کے حکم سے، اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر، کنعان بن عام کے علاقے میں قیام کیا، آپ کے ہمراہ آپ کی بیوی سارہؓ اور بھتیجے لوطؑ تھے ۔ اس موقعہ پر اللہ نے آپ سے وعدہ کیا کہ یہی ملک تمہاری اولاد کو عطا ہوگا۔
یہاں سے آپ مصر گئے، سیّدہ سارہؓ کو شاہِ فرعون نے حسین سمجھ کر لے لیا، لیکن فرعون پر خدا کا قہر نازل ہوا، جس سے ڈر کر اس نے سیّدہ کو واپس کردیا۔
اس کے بعد آپ پھر کنعان کی طرف لوٹ آئے لیکن آپ کے بھتیجے لوطؑ آپ کی اجازت سے علاحدہ ہو کر یرون کی ترائی کی طرف چلے گئے اور شہر صدُوم میں آباد ہوئے، کچھ دنوں بعد کدرلا عمر شاہ عیلان نے، اپنے تین اتحادی حکمرانوں کے ساتھ شاه صدُوم اور اس کے چار اتحادی بادشاہوں سے جنگ کی اور فتح یاب ہوا تو حضرت لوطؑ کو بھی مع ان کے مال و اسباب کے اسیر کرکے لے گیا۔
حضرت ابراہیمؑ کو اطلاع ہوئی تو جَوبَہ تک جو دمشق کی بائیں سمت ہے۔
ان کا تعاقب کیا، حضرت لوطؑ اور ان کے ساتھیوں کو رہا کرا لیا اور مال
غنیمت بھی حاصل کیا۔
واپسی پر شاہ صدُوم اور سالم کا بادشاہ صدق جو خدا کا کاہن تھا، حضرت ابراہیمؑ کو ملے، آپ نے غنیمت کا دسواں ان کو دیا، آنِیر، اِسگال اور ہَمری کے فوجیوں کو جو ہمراہ تھے، ان کا حصّہ دیا۔ باقی تمام سامانِ غنیمت شاه صدوم کو دے دیا، خود کچھ نہ لیا۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر چھیاسی برس کی ہوئی تو حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیمؑ کی عمر ننانوے برس کی ہوئی تو خواب میں حکم دیا گیا کہ جب بچّہ آٹھ دن کا ہو تو ختنہ کیا کرو اور یہ تمہاری نسل میں عہد خداوندی کا ابدی نشان ہوگا، اس حکم کے وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر تیرہ سال تھی، جب کہ آپ کا ختنہ ہوا۔
کنعان سے پھر حضرت ابراہیمؑ نے سفر کیا، پہلے قادس پہنچے، وہاں سے سور، ان دونوں آبادیوں میں چندے قیام کے بعد جرّار تشریف لے گئے، جرّار کے بادشاہ ابی ملک نے حضرت سارہؓ کو اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن خدا کی تنبیہ کے بعد واپس کر دیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بڑی عزّت و تکریم کی۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو برس کی ہوئی تو حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے۔ ابی ملک شاہ جرّار نے ، حضرت ابراہیمؑ سے اتحادِ باہمی کا معاہدہ کر لیا اور کافی مدت تک آپ کا قیام فلسطین میں رہا، یہیں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسحاق کی شادی رِبُقَہ سے کی، جو آپ کے بھائی نُحور کی پوتی تھیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی وفات ایک سو پچھتّر سال کی عمر میں ہوئی۔
آپ کی کنیت ابو محمد بھی ہے اور ابوالانبیا بھی، کیوں کہ آپ کے بعد آپ ہی کی نسل سے انبیا پیدا ہوتے رہے، کسی اور کی نسل سے نہیں، خدا کا ارشاد ہے:-
واپسی پر شاہ صدُوم اور سالم کا بادشاہ صدق جو خدا کا کاہن تھا، حضرت ابراہیمؑ کو ملے، آپ نے غنیمت کا دسواں ان کو دیا، آنِیر، اِسگال اور ہَمری کے فوجیوں کو جو ہمراہ تھے، ان کا حصّہ دیا۔ باقی تمام سامانِ غنیمت شاه صدوم کو دے دیا، خود کچھ نہ لیا۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر چھیاسی برس کی ہوئی تو حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیمؑ کی عمر ننانوے برس کی ہوئی تو خواب میں حکم دیا گیا کہ جب بچّہ آٹھ دن کا ہو تو ختنہ کیا کرو اور یہ تمہاری نسل میں عہد خداوندی کا ابدی نشان ہوگا، اس حکم کے وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر تیرہ سال تھی، جب کہ آپ کا ختنہ ہوا۔
کنعان سے پھر حضرت ابراہیمؑ نے سفر کیا، پہلے قادس پہنچے، وہاں سے سور، ان دونوں آبادیوں میں چندے قیام کے بعد جرّار تشریف لے گئے، جرّار کے بادشاہ ابی ملک نے حضرت سارہؓ کو اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن خدا کی تنبیہ کے بعد واپس کر دیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بڑی عزّت و تکریم کی۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو برس کی ہوئی تو حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے۔ ابی ملک شاہ جرّار نے ، حضرت ابراہیمؑ سے اتحادِ باہمی کا معاہدہ کر لیا اور کافی مدت تک آپ کا قیام فلسطین میں رہا، یہیں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسحاق کی شادی رِبُقَہ سے کی، جو آپ کے بھائی نُحور کی پوتی تھیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی وفات ایک سو پچھتّر سال کی عمر میں ہوئی۔
آپ کی کنیت ابو محمد بھی ہے اور ابوالانبیا بھی، کیوں کہ آپ کے بعد آپ ہی کی نسل سے انبیا پیدا ہوتے رہے، کسی اور کی نسل سے نہیں، خدا کا ارشاد ہے:-
وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہٖ النَّبُوّۃَ والْکِتَابَ (عنكبوت
رکوع ۳ )
(ہم نے نبوّت اور کتاب کو ابراہیمؑ ہی کی ذرّیت میں کردیا )
اسی
لیے آپ کا لقب ”عمود عالم ثالث“ بھی ہے۔
(رحمة للعٰلمين)
باپ کو سچّائی کی دعوت دعوت کا آغاز، ابراہیمؑ نے سب سے پہلے اپنے باپ اور خاندان سے کیا فرمایا:-
”تم جو قدیم روش پر قائم ہو، وہ غلط ہے اور میں جس چیز کی طرف بلاتا ہوں،وہ حق ہے۔“
باپ پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ الٹا بیٹے کو دھمکایا کہ ”اگر تو نے بتوں کی برائی کرنا نہ چھوڑی تو میں پتھر مار مار کر تجھے ہلاک کردوں گا۔“حضرت ابراہیمؑ نے دیکھا کہ معاملے نے بڑی نازک شکل اختیار کرلی ہے، ایک طرف باپ کا احترام ہے، اور دوسری طرف ادائے فرض۔ آخر اس مشکل سے عہده برآ ہونے کے لیے آپ نے ایک ایسی صورت نکال لی، جو ایک نبی کے شایانِ شان ہوسکتی ہے۔ آپ نے باپ کی سختی کا جواب، سختی سے نہیں دیا نہ باپ کی تحقیر و تذلیل کی کوشش کی بلکہ نہایت نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ اگر آپ اپنے رویّے پر قائم رہیں گے تو پھر آج سے آپ کو میرا سلام، میں آپ سے الگ ہوں، کیوں کہ نہ تو میں حق اور پیغام حق کو ترک کر سکتا ہوں اور نہ بتوں کی پرستش کر سکتا ہوں جنھیں آپ اپنا معبود سمجھتے ہیں، ہاں اس علاحدگی کے باوجود، بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعار ہوں گا کہ آپ کو ہدایت نصیب ہو جاۓ اور آپ عذابِ الٰہی سے بچ جائیں، اس پورے واقعے کو سورهٔ مریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
قوم کو دعوت حق
جب آزر نے کسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعوت کو قبول نہ کیا، تو آپ نے آزر سے علاحدگی اختیار کرلی اور اپنی قوم کے سامنے دعوت حق کو پیش کیا لیکن قوم بھی آزر کی طرح اپنے آبائی مشرکانہ رسوم و روایات کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئی عقل رکھنے کے باوجود، وہ عقل و خرد سے کام لینے کے لیے تیار نہ ہوئی، تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بہت اصرار کے ساتھ دریافت فرمایا کہ ”تم جن کی پرستش میں لگے ہوئے ہو، وہ تم کو کسی طرح کا نفع نقصان پہنچاتے ہیں؟ تم جو کچھ کہتے ہو، وہ سنتے اور جواب دیتے ہیں؟“قوم نے جواب دیا”ہم اس نفع و نقصان اور کہنے سننے کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتے، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے تھے،وہی ہم بھی کرتے ہیں۔“
اب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا، کہ قوم کے اس باطل عقیدے کے تار و پود بکھیردیں، فرمایا:-
”میں تمھارے تمام بتوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں، اگر وہ مجھے کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں تو پہنچا کے دیکھ لیں، میں تو صرف اس ہستی کا غلام ہوں جو تمام جہانوں کی خالق، ہر قسم کے نفع و نقصان کے مالک اور مارنے جلانے کا اختیار رکھتی ہے۔“
قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس پُر اثر خطاب کو سورۂ شعرا میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے، بہرحال اس خطاب کا کوئی اثر قوم پر نہ ہوا اور وہ بدستور باطل پرستی پر جمی رہی۔
جب آزر نے کسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعوت کو قبول نہ کیا، تو آپ نے آزر سے علاحدگی اختیار کرلی اور اپنی قوم کے سامنے دعوت حق کو پیش کیا لیکن قوم بھی آزر کی طرح اپنے آبائی مشرکانہ رسوم و روایات کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئی عقل رکھنے کے باوجود، وہ عقل و خرد سے کام لینے کے لیے تیار نہ ہوئی، تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بہت اصرار کے ساتھ دریافت فرمایا کہ ”تم جن کی پرستش میں لگے ہوئے ہو، وہ تم کو کسی طرح کا نفع نقصان پہنچاتے ہیں؟ تم جو کچھ کہتے ہو، وہ سنتے اور جواب دیتے ہیں؟“قوم نے جواب دیا”ہم اس نفع و نقصان اور کہنے سننے کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتے، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے تھے،وہی ہم بھی کرتے ہیں۔“
اب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا، کہ قوم کے اس باطل عقیدے کے تار و پود بکھیردیں، فرمایا:-
”میں تمھارے تمام بتوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں، اگر وہ مجھے کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں تو پہنچا کے دیکھ لیں، میں تو صرف اس ہستی کا غلام ہوں جو تمام جہانوں کی خالق، ہر قسم کے نفع و نقصان کے مالک اور مارنے جلانے کا اختیار رکھتی ہے۔“
قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس پُر اثر خطاب کو سورۂ شعرا میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے، بہرحال اس خطاب کا کوئی اثر قوم پر نہ ہوا اور وہ بدستور باطل پرستی پر جمی رہی۔
0 comments:
Post a Comment