آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Showing posts with label drama. Show all posts
Showing posts with label drama. Show all posts

Thursday 19 March 2020

KARTOOS - NCERT SOLUTIONS CLASS X URDU

 کارتوس

حبیب تنویر

Courtesy NCERT
ڈرامے کے کردار : کرنل
: لیفٹیننٹ
: سپاہی
: سوار
زمانہ : 1799
وقت : رات
جگہ : (گورکھ پور کے جنگلوں میں کرنل کالنز کے خیمے کا اندرونی حصہ ۔ دو انگریز بیٹھے باتیں کررہے ہیں کرنل کا لنز اور ایک لیفٹیننٹ ۔ خیمے کے باہر چاندنی پھیلی ہوئی ہے۔ اندر لیمپ جل رہا ہے۔)
کرنل : جنگل کی زندگی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
لیفٹیننٹ : ہفتوں ہو گئے یہاں خیمہ ڈالے ہوئے ۔ سپاہی بھی تنگ آگئے ہیں ۔ یہ وزیرعلی آدمی ہے یا بھوت؟ ہاتھ ہی نہیں لگتا۔
کرنل : اس کے افسانے سن کر رابن ہڈ کے کارنامے یاد آجاتے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف اس کے دل میں کس قدر نفرت ہے۔ کوئی پانچ مہینے حکومت کی ہوگی۔ مگر اس پانچ مہینے میں وہ اودھ کے دربار کو انگریزی اثر سے بالکل پاک کر دینے میں تقریباً کامیاب ہوگیا تھا۔
لیفٹیننٹ : کرنل کالنز، یہ سعادت علی کون ہے؟
کرنل : آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیرعلی کا چچا اور اس کا دشمن۔ دراصل نواب آصف الدولہ کے ہاں لڑکے کی کوئی امید نہ تھی۔ وزیرعلی کی پیدائش کو سعادت علی نے اپنی موت خیال کیا۔
لیفٹیننٹ : مگر سعادت علی کو اودھ کے تخت پر بٹھانے میں کیا مصلحت تھی؟
کرنل : سعادت علی ہمارا دوست ہے اور بہت عیش پسند آدی ہے۔ اس نے ہمیں اپنی آدھی مملکت دے دی۔ اور دس لاکھ روپے نقد، اب وہ بھی مزے کرتا ہے اور ہم بھی ۔
لیفٹیننٹ : سنا ہے یہ وزیر علی افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔
کرنل : افغانستان کو حملے کی دعوت سب سے پہلے اصل میں ٹیپو سلطان نے دی۔ پھر وزیرعلی نے بھی اسے دلی بلایا اور شمس الدولہ نے بھی ۔
لیفٹیننٹ : کون شمس الدولہ؟
کرنل : نواب بنگال کا نسبتی بھائی - بہت خطرناک آدمی ہے۔
لیفٹیننٹ : اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ کمپنی کے خلاف سارے ہندوستان میں ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
کرنل : جی ہاں ۔ اور اگر یہ کامیاب ہوگئی تو بکسر اور پلاسی کے کارنا مے دھرے رہ جائیں گے اور کمپنی جو ساکھ لارڈ کلائیو کے ہاتھوں حاصل کر چکی ہے، لارڈ ویلزلی کے ہاتھوں وہ سب کھو بیٹھے گی۔
لیفٹیننٹ : وزیرعلی کی آزادی بہت خطرناک ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح اس شخص کو گرفتار کرہی لینا چاہیے۔
کرنل : پوری ایک فوج لیے اس کا پیچھا کر رہا ہوں اور برسوں سے وہ ہماری آنکھوں میں دھول ڈالے انھیں جنگلوں میں پھر رہا ہے اور ہاتھ نہیں آتا۔ اس کے ساتھ چند جاں باز ہیں ۔ مٹھی بھر آدمی مگر یہ دم خم!
لیفٹیننٹ : سنا ہے وزیرعلی ذاتی طور سے بہت بہادر آدمی ہے۔
کرنل : بہادر نہ ہوتا تو یوں کمپنی کے وکیل کوقتل کردیتا؟
لیفٹیننٹ : یہ قتل کا کیا قصہ ہوا تھا کرنل؟
کرنل : قصہ کیا ہوا تھا؟ وزیر علی کو معزول کرنے کے بعد ہم نے اسے بنارس پہنچا دیا اور تین لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کردیا۔ کچھ مہینے بعد گورنر جنرل نے اسے کلکتے طلب کیا۔ وزیر علی کمپنی کے وکیل کے پاس گیا جو بنارس میں رہتا تھا اور اس سے شکایت کی کہ گورنر جنرل اسے کلکتے میں کیوں طلب کرتا ہے۔ وکیل نے شکایت کی پروا نہ کی ۔ الٹا اسے برا بھلا سنا دیا۔ وزیر علی کے دل میں یوں بھی انگریزوں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس نے خنجر سے وکیل کا کام تمام کردیا۔
لیفٹیننٹ : اور بھاگ گیا؟
کرنل : اپنے جاں نثاروں سمیت اعظم گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اعظم گڑھ کے حکمرانوں نے ان لوگوں کو اپنی حفاظت میں گھاگھرا تک پہنچا دیا۔ اب یہ کارواں جنگلوں میں کئی سال سے بھٹک رہا ہے۔
لیفٹیننٹ : مگر وزیر علی کی اسکیم کیا ہے؟
کرنل : اسکیم یہ ہے کہ کسی طرح نیپال پہنچ جائے ، افغانی حملے کا انتظار کرے، اپنی طاقت بڑھائے، سعادت علی کو معزول کر کے خود اودھ پر قبضہ کر لے اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے۔
لیفٹیننٹ : نیپال پہنچنا تو کوئی ایسا مشکل نہیں ممکن ہے پہنچ گیا ہو۔
کرنل : ہماری فوجیں اور نواب سعادت علی خاں کے سپاہی بڑی سختی سے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ابھی جنگلوں میں ہے۔
(ایک گورا سپاہی تیزی سے داخل ہوتا ہے)
گورا سپاہی : سر!
کرنل : (اُٹھ کر ) کیا بات ہے؟
گورا سپاہی : دور سے گرداٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔
کرنل : سپاہیوں سے کہہ دو کہ تیار رہیں۔
(سپاہی سلام کر کے چلا جاتا ہے)
لیفٹیننٹ : (جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا) گرد تو ایسی اڑ رہی ہے جیسے پورا ایک قافلہ چلا آرہا ہے مگر مجھے تو ایک ہی سوار دکھائی دیتا ہے۔
کرنل : (کھڑکی کے پاس جا کر) ہاں ایک ہی سوار ہے۔ سرپٹ گھوڑا دوڑائے چلا آرہا ہے۔
لیفٹیننٹ : اور سیدھا ہماری طرف ہی آتا معلوم ہوتا ہے۔
: (کرنل تالی بجا کر سپاہی کو بلاتا ہے)
کرنل : (سپاہی سے) سپاہیوں سے کہو اس سوار پر نظر رکھیں کہ یہ کس طرف جارہا ہے۔
(سپاہی سلام کر کے چلا جاتا ہے)
لیفٹیننٹ : شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ تیزی سے اسی طرف آرہا ہے۔
(ٹاپوں کی آواز بہت قریب آ کر رک جاتی ہے)
سوار : (باہر سے ) مجھے کرنل سے ملنا ہے۔
گورا سپاہی : (چلّا کر) بہت اچھا۔
سوار : بھئی آہستہ بولو۔
گورا سپاہی : (اندر جا کر) حضورا سوار آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کرنل : بھیج دو۔
لیفٹیننٹ : وزیر علی کا ہی کوئی آدمی ہوگا۔ ہم سے مل کر اسے گرفتار کروانا چاہتا ہو گا ۔
کرنل : خاموش ( سوار سپاہی کے ساتھ اندر آتا ہے)
سوار : (آتے ہی پکار اٹھتا ہے) تنہائی تنہائی۔
کرنل : یہاں کوئی غیر آدمی نہیں۔ آپ رازِ دل کہہ دیں ۔
سوار : دیوار ہم گوش دارد۔ تنہائی۔
(کرنل لیفٹیننٹ اور سپاہی کو اشارہ کرتا ہے۔ دونوں باہر چلے جاتے ہیں ۔جب کرنل اور سوار خیمے میں تنہا رہ جاتے ہیں تو ذرا و قفے کے بعد سوار چاروں طرف دیکھ کر کہتا ہے۔)
سوار : آپ نے اس مقام پر کیوں خیمہ ڈالا ہے؟
کرنل : کمپنی کا حکم ہے کہ وزیر علی کو گرفتار کیا جائے۔
سوار : لیکن اتنا لاؤ لشکر کیا معنی؟
کرنل : گرفتاری میں مدد دینے کے لیے۔
سوار : وزیرعلی کی گرفتاری بہت مشکل ہے صاحب!
کرنل : کیوں؟
سوار : وہ ایک جاں باز سپاہی ہے۔
کرنل : میں نے بھی سن رکھا ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟
سوار : چند کارتوس
کرنل : کس لیے۔
سوار : وزیر علی کو گرفتار کرنے کے لیے۔
کرنل : واه یہ لو دس کارتوس۔
سوار : (مسکراتے ہوئے ) شکریہ۔
کرنل : آپ کا نام؟
سوار : وزیر علی! آپ نے مجھے کارتوس دیئے ہیں، اس لیے آپ کی جاں بخشی کرتا ہوں۔
(یہ کہہ کر باہر نکل جاتا ہے۔ ٹاپوں کا شور سنائی دیتا ہے۔
کرنل سناٹے میں ہکا بکا کھڑا ہے۔ لیفٹیننٹ اندر آجاتا ہے۔)
لیفٹیننٹ : کون تھا؟
کرنل : (دبی زبان میں اپنے آپ سے )ایک جاں باز سپاہی۔
(پردہ)
حبیب تنویر
(1923 - 2009)
حبیب تنویر کا اصل نام حبیب احمد خاں اور تنویر تخلص ہے۔ ادبی اور ثقافتی دنیا میں وہ حبیب تنویر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ناگ پور یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے۔ ابتدا میں انھوں نے فلمی گیت اور مکالمے لکھے پھر قدسیہ زیدی کے ہندوستانی تھیٹر میں شامل ہوگئے۔ لندن اور جرمنی میں ڈرامے کی تکنیک پر مہارت حاصل کی۔
انھوں نے بہت سے اردو ڈرامے لکھے جن میں بہت سے مشرقی اور مغربی ملکوں میں اسٹیج کیا گیا۔ ان میں ”سات پیسے“، ”چرن داس چور“، ”ہرما کی کہانی“، ”آگره بازار“، ”شاجا پور کی شانتی بائی“،” مٹی کی گاڑی“ اور ”میرے بعد“ بہت مشہور ہوئے ۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے چھتیس گڑھ کے لوک کلا کاروں کو قومی سطح پر روشناس کرایا۔
حبیب تنویر کو قومی اور بین الاقوامی سطح کے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ حکومتِ فرانس نے ان کو اپنی سوانح حیات لکھنے کے لیے اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ اسے قلم بند کرنے میں مصروف تھے۔
ہندی، بنگالی ، مراٹھی ، اور یورپ کی کئی زبانوں میں ان کے ڈرامے ترجمہ ہو چکے ہیں۔
مشق
خلاصہ:
1799ء کا زمانہ ہے۔ کرنل کالنز اور ایک لیفٹیننٹ گورکھ پور کے جنگلوں میں وزیر اعلیٰ کو پکڑنے کے لیے ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔ کرنل لیفٹینٹ سے کہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بڑاخطرناک سے سخت نفرت کرتا ہے۔ اس نے اودھ کو پانچ مہینے میں انگریزی اثر سے بالکل آزاد کروالیا تھا۔ اس پر لیفٹینٹ سے پوچھتا ہے کہ سعادت علی کون ہے۔ کرنل اسے بتاتا ہے کہ یہ آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا چچا۔ لیکن وزیر اعلیٰ اس کا دشمن ہے۔ وزیر اعلیٰ کی پیدائش کو سعادت علی نے اپنی موت خیال کیا۔ سعادت علی انگریزوں کا دوست ہی ہے، اسی لیے اسے ہم نے تخت پر بٹھایا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل سے کہتا ہے کہ سنا ہے وزیر اعلیٰ افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سے پہلے ٹیپو سلطان بھی اسے بلا چکا ہے اور بنگال کے نواب کے نسبتی بھائی شمس الدولہ نے بھی اسے بلوایا ہے۔ آج پورا ہندوستان انگریزوں کا مخالف ہورہا ہے۔ بکسراور پلاسی کے کارنامے دھرے رہ جائیں گے۔ لارڈ کلائیو کے ذریعے بنائی گئی کمپنی کی ساکھ لارڈ ویلزلی کے ہاتھوں رائیگاں ہو جائے گی۔ وزیراعلی کی آزادی بہت خطرناک ہے۔ کرنل: پوری فوج لے کر اس کا پیچھا کر رہا ہوں، مگر وہ کہاں ہاتھ آ رہا ہے۔ وہ برسوں سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ وزیراعلی کو معزول کر کے ہم نے اسے بنارس بھیج دیا تھا اور اس کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ اسے جب کلکتہ بلایا گیاتو اس نے کمپنی کے وکیل کوقتل کر دیا اور وہاں سے اپنے جانثاروں کو لے کر اعظم گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اب وہ وہاں سے نیپال کی طرف نکل جانا چاہتا ہے۔ وہاں رہ کر اپنی طاقت بڑھا کر افغانی امداد لے کر نہ صرف سعادت علی خاں کو تخت سے ہٹانا چاہتا ہے بلکہ انگریزوں کو بھی ہندوستان سے نکال دینے کے فراق میں ہے۔ جبکہ ہمارے سپاہی اور سعادت علی خاں کی فوجیں برابر اس کا پیچھا کر رہی ہیں ۔ تب ہی ایک گھوڑے پر سوار وہاں آ جاتا ہے، اسے فوراً انگریز افسر کی خدمت میں پیش کر دیا جا تا ہے ۔ گھڑ سوار کرنل سے پوچھتا ہے، آپ نے یہاں کیوں ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ کرنل اسے بتاتا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ کو پکڑنا چاہتے ہیں ۔ گھڑ سوار کہتا ہے وزیر اعلیٰ کو پکڑ نا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ایک جاں باز سپاہی ہے۔ کرنل اس کا اعتراف کرتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ گھڑ سوار کہتا ہے مجھے صرف چند کارتوس درکار ہیں ۔ کرنل اس سے پوچھتا ہے کہ کارتوس کس لیے۔ گھڑ سوار : وزیر اعلیٰ کو پکڑنے کے لیے۔ کرنل اسے کارتوس دے دیتا ہے۔ جنھیں وہ شکریہ کے ساتھ قبول کر لیتا ہے اور جب کرنل اس سے نام پوچھتا ہے تو وہ اسے بتاتا ہے، وزیراعلی۔۔۔۔۔ اور باہرنکل جاتا ہے۔ اس پر کرنل ہکا بکا رہ جاتا ہے اور جب لیفٹیننٹ اندر آ کر کرنل سے پوچھتا ہے کون تھا؟ کرنل کی زبان سے صرف اتنا ہی نکلتا ہے ایک جاں باز سپاہی۔
معنی یاد کیجیے: 
خیمہ : تنبو، ٹینٹ
جاں باز : بہادر، جان پر کھیل جانے والا
مصلحت : حکمت، پالیسی
ساکھ : نیک نامی، اعتبار
معزول : تخت یا گدی سے اتارا ہوا
دیوار ہم گوش دارد : دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں
مملکت : حکومت، سلطنت
رازِ دل : دل کی بات، بھید
وقفہ : مہلت ، تھوڑی سی دیر
لاؤ لشکر : فوج اور اس کا سازو سامان

غور کیجیے:
*  وطن سے محبت کرنے والے جاں باز تاریخ میں زندہ رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کی قدر کی جاتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے جملوں میں صحیح لفظوں سے خالی جگہوں کو بھر یے: 
1۔  سنا ہے کہ وزیرعلی افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر ....حملے...... کی دعوت دے رہا ہے ۔ (حملے، لڑائی) 
2-  وزیرعلی کے دل میں انگریزوں کےخلاف.......نفرت....... کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔(نفرت، برائی ، محبت)  
3۔  وزیرعلی کی .....گرفتاری...... بہت مشکل ہے صاحب۔ (معزولی ، جاں بخشی ، گرفتاری) 

سوچیے اور بتائیے:

1. وزیر علی کے کارنامے سن کر کس کے کارنامے یاد آتے ہیں؟
جواب: وزیر علی کے کارنامے سن کر رابن ہُڈ کے کارنامے یاد آتے تھے۔

2. سعادت علی کو انگریزوں نے اودھ کے تخت پر کیوں بٹھایا؟
جواب: سعادت علی ایک عیش پسند آدمی تھا۔ اس نے انگریزوں کو اپنی آدھی مملکت  اور دس لاکھ روپے نقد دیا جس کے بدلے انگریزوں نے اسے تخت پر بٹھایا۔

3. سعادت علی کیسا آدمی تھا؟
جواب: سعادت علی ایک عیش پسند آدمی تھا۔ وہ تخت اور حکومت کا لالچی تھا اور اسے صرف اپنی ذات سے مطلب تھا۔

4. کرنل سے کارتوس مانگنے والا سوار کون تھا؟
جواب: کرنل سے کارتوس مانگنے والا سوار وزیرعلی تھا۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے:
تخت : انگریزوں نے ہندوستان کے تخت پر قبضہ کرلیا۔
خلاف : ہندوستانی انگریزوں کی حکومت کے خلاف تھے۔
پاک : وزیر علی ملک کو انگریزوں سے پاک کرنا چاہتا تھا۔
بہادر : وزیر علی  بہت بہادر تھا۔
جاں باز : وزیرعلی ایک جاں باز سپاہی تھا۔
وظیفہ : انگریزوں نے وزیرعلی کا تین لاکھ روپے وظیفہ مقرر کردیا تھا۔
اسکیم : وزیرعلی کی اسکیم نیپال پہنچنا تھی۔

جمع کے واحد اور واحد کے جمع بنائیے:
جنگل : جنگلات
شکایات : شکایت
افواج : فوج
سلاطین : سلطان
وظیفہ : وظائف
وزیر : وزراء

عملی کام
* استاد سے تین شہیدانِ وطن کے نام معلوم کر کے لکھیے۔
شہید بھگت سنگھ
شہید اشفاق اللہ خاں
رام پرساد بسمل

*  دو لوگوں کے درمیان کی گفتگو یا بات چیت مکالمہ کہلاتی ہے۔ اس ڈرامے کے پانچ مکا لمے یاد کر کے لکھیے۔ 
کرنل کالنز، یہ سعادت علی کون ہے؟
آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیرعلی کا چچا اور اس کا دشمن۔
جنگل کی زندگی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
افغانستان کو حملے کی دعوت سب سے پہلے اصل میں ٹیپو سلطان نے دی۔
سعادت علی ہمارا دوست ہے اور بہت عیش پسند آدی ہے۔

*  اس ڈرامے کو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسٹیج کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری