آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Showing posts with label tarjuma. Show all posts
Showing posts with label tarjuma. Show all posts

Saturday 21 March 2020

Awanti - NCERT Solutions Class X Urdu

اَوَنتی

Courtsey NCERT
اونتی ایک خوش مزاج اور ہنس مکھ شخص تھا۔ غریبوں کا تو وہ بہت ہی عزیز دوست تھا۔ اس لیے لوگ اس سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بعض لوگ اس سے حسد کرتے تھے اور اس کو چڑھانے اور نیچا دکھانے کی تاک میں لگے رہتے تھے۔ لیکن اونتی اپنی سوجھ بوجھ سے الٹا انھیں کو قائل کر دیتا تھا۔
ایک بار اونتی کا مذاق اڑانے کے لیے ایک آدمی نے اس سے کہا ” اونتی! رات کو سو رہا تھا تو میرا منہ کھلا رہ گیا! اسی وقت ایک چوہا آیا اور میرے منھ میں گھس کر میرے پیٹ میں چلا گیا۔ اب تمہیں بتاؤ میں کیا کروں ۔“
اونتی نے فوراً جواب دیا۔ ”میرے دوست، بس ایک ہی علاج ہے۔ تم ایک زندہ بلّّی کو پکڑ کر اسے نگل جاؤ۔“
ایک بار اونتی کسی دوست کی بارات میں گیا۔ بارات والوں کو بہت اچھا کھانا کھلایا گیا۔ اونتی نے بھی خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاتے وقت اس نے دیکھا کہ ایک مہمان مٹھائیاں صرف کھا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جیب میں بھی بھرتا جا رہا ہے۔ اونتی بھلا ایسے موقعے پر کب چوکنے والا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چائے کی کیتلی اٹھا کر اس مہمان کی جیب میں انڈیلنے لگا تو وہ ناراض ہو کر بولے۔”  یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘ چائے انڈیلتے انڈیلتے اونتی نے بھولے پن سے جواب دیا” بھائی، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہا ہوں۔ آپ کی جیب نے بہت ساری مٹھائیاں کھائی ہیں اس لیے اسے پیاس بھی ضرور لگی ہوگی ۔ میں اسے چائے پلا رہا ہوں ۔“
ایک بار اونتی کے ملک میں تین غیرملکی تاجر آئے۔ اس ملک کے بادشاہ کے دربار میں آ کر انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہمارے سوالوں کے جواب دیئے جائیں ۔ وہاں کوئی ان کے سوالوں کا جواب نہ دے سکا۔ یہاں تک کے بادشاہ بھی ا لجھن میں مبتلا ہو گیا۔ کسی نے بادشاہ کو رائے دی کہ اونتی کو بلایا جائے وہی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے۔ بادشاہ نے اونتی کو بلانے کی اجازت دے دی۔ ہاتھ میں لاٹھی لیے اپنے گدھے پر سوار اونتی در بار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے تاجروں کے سوالوں کا جواب دینے کا حکم دیا۔ اونتی نے کہا کہ تاجر اپنے سوال پوچھیں۔
پہلے تاجر نے سوال کیا ” بتاؤ زمین کا مرکز کہاں ہے؟“
اونتی نے کسی تامل کے بغیر لاٹھی سے اپنے گدھے کی طرف اشارہ کر کے کہا ”ٹھیک وہاں، جہاں میرے گدھے کا اگلا دایاں قدم رکھا ہوا ہے۔ وہیں زمین کا مرکز ہے۔“
اونتی کا جواب سن کر تاجر بہت متعجب ہوا۔ اس نے پوچھا ”آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مرکز وہیں پر ہے اور کسی دوسری جگہ نہیں ہے۔“
”اگر آپ یقین نہیں کرتے ہیں تو جا کر خود ناپ لیں ۔ مرکز اس جگہ سے بال برابر بھی ادھر یا ادھر نکلے تو میں مان لوں گا کہ میرا جواب غلط ہے۔“ اونتی کے جواب سے تاجر لا جواب ہو گیا۔
اونتی نے اب دوسرے تاجر سے اس کا سوال پوچھا۔ دوسرے تاجر نے کہا۔” کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آسمان میں کتنے تارے ہیں؟“
اونتی نے فوراً ہی جواب دیا۔ ” میرے گدھے کے بدن پر جتنے بال ہیں، آسمان میں ٹھیک اتنے ہی تارے ہیں۔ نہ ایک کم نہ ایک زیا دہ“
تاجر نے پوچھا۔” آپ یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟“  اونتی بولا۔” یقین نہ آئے تو گن کر دیکھ لو، اگر کم یا زیادہ ہو تو کہنا۔“ تاجر بولا۔ ” بھلا گدھے کے بال کیسے گنے جا سکتے ہیں؟“ اونتی نے کہا۔”  تو تمہیں بتاؤ کہ آسمان کے تارےکیوں کر گنے جا سکتے ہیں؟“ بیچارا تا جر کوئی جواب نہ دے سکا، چپ ہو گیا۔ اب تیسرے تاجر کی باری آئی ۔ اونتی نے اس سے بھی سوال پوچھنے کو کہا۔ تیسرے تاجر نے اپنے سر کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ”اچھا بتاؤ میرے سر پر کتنے بال ہیں؟“
اونتی نے ہنس کر کہا”اگر تم بتا دو کہ میرے گدھے کی دم میں کتنے بال ہیں تو میں تمھارے سر کے بالوں کی تعداد بتا دوں گا۔“ یہ سن کر تا جر لا جواب ہو گیا اور بغلیں جھانکنے لگا۔ سب  درباری اونتی کے جوابات سن کر حیرت میں تھے۔ بادشاہ نے اسے حاضر جوابی اور ہوشیاری کا انعام دیا اور تینوں تاجر اپنا منہ لٹکائے واپس چلے گئے۔
ایک بار ایک غریب مزدور نے ایک سرائے والے سے مرغی کا کباب لے کر کھایا۔ اس دن اس کے پاس پیسے نہ تھے۔ وہ قیمت فوراً نہ دے سکا اور دوسرے دن کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ جب وہ دوسرے دن قیمت دینے آیا تو سرائے والے نے اس سے ایک ہزار روپے طلب کیے۔
مزدور کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا ”ایک ہزار روپے!“ وہ سرائے والے سے بولا”ایک مرغی کے کباب کی قیمت ایک ہزار روپے۔“
”کیوں نہیں، تم خود ہی حساب لگا لو۔ اگر تم مرغی نہ کھاتے تو وہ کتنے انڈے دیتی؟ ان انڈوں سے کتنے بچے نکلتے ؟ اور اس طرح جتنے بچے نکلتے ان کی قیمت اتنی ہی ہوتی ہے۔“ سرائے کے مالک نے کہا۔
مزدور نے کہا۔ ”میں اتنا پیسہ نہیں دوں گا۔“
اس پر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ آخر کار وہ عدالت میں پہنچے۔ منصف نے انہیں اگلے دن اپنے اپنے وکیل کے ساتھ آنے کو کہا۔
مزدور نے اونتی کے بارے میں سن رکھا تھا۔ وہ اونتی کے پاس گیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اونتی نے مزدور سے کہا۔”تم ٹھیک وقت پر عدالت میں پہنچ جانا۔ میں وہیں آجاؤں گا۔“
اگلے دن ٹھیک وقت پر سرائے کا مالک اور مزدور عدالت میں پہنچے۔ سرائے کے مالک کے وکیل نے وہی پرانی کہانی دہرا دی۔ اب مزدور کو اپنی حمایت میں کچھ کہنا تھا۔ لیکن اس وقت تک اونتی وہاں پہنچ نہیں پایا تھا جس سے مزدور بہت پریشان تھا۔
اتنی دیر میں اونتی وہاں آپہنچا۔ اس نے دیر سے پہنچنے کے لیے معافی مانگی اور کہا: ”آج مجھے اپنے کھیت میں گیہوں بونا تھا۔ اس لیے میں انھیں بھنوانے چلا گیاتھا۔“ اس بات پر سب لوگ ہنس پڑے۔
منصف نے اونتی سے پوچھا ”کیا کہیں بھنے ہوئے گیہوں سے بھی پودے اگتے ہیں؟“
اونتی بولا ”آپ ٹھیک کہتے ہیں جناب ، بھنے ہوئے گیہوں سے پودے نہیں اگ سکتے ۔ اسی طرح بھنی ہوئی مرغی بھی انڈے نہیں دے سکتی۔“
منصف کو اونتی کی بات بالکل ٹھیک معلوم ہوئی ۔ اس لیے اس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ ” سرائے کے مالک کو صرف ایک مرغی کی قیمت پانے کا اختیار ہے۔“
(ترجمہ جاپانی لوک کہانی )
ترجمہ
ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔ اس کے لیے ایک سے زائد زبانوں پر یکساں قدرت حاصل ہونا لازمی ہے۔ یہ قدرت لغوی مفاہیم پر نہیں، روز مرہ، محاورہ اور زبان کے طریقۂ کار پر ہونا بھی ضروری ہے۔جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے ، اس زبان کے بولنے والوں کی معاشرت اور طرزِ فکر سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ ان تمام خصوصیات کے بغیر صحیح اور اچھا ترجمہ ممکن نہیں ہے۔
سبق ”اونتی“ ایک جاپانی کہانی کا ترجمہ ہے۔ ”اونتی“ ایک حاضر جواب اور ذہین کردار ہے۔ اس کے جوابات پر ہنسی آتی ہے ، لیکن وہ مسائل کوحل کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ جاپان کا یہ کردار ملا نصیرالدین سے ملتا جلتا ہے۔
مشق
خلاصہ:
اونتی ایک خوش مزاج، ہنس مکھ اور غریب دوست انسان تھا ۔غریب بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے لیکن کچھ لوگ اس کی مقبولیت سے جلتے بھی تھے اور اونتی کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ اس کا مذاق اڑانے کے لئے ایک دن ایک شخص نے اونتی سے کہا کہ میرے سوتے میں منھ کھلا ہونے کی وجہ سے ایک چوہا میرے منھ میں چلا گیا، اب بتاؤ میں کیا کروں؟ اونتی نے جواب میں کہا تم ایک بلی پکڑ کر اسے نگل جاؤ۔ اونتی نے ایک دعوت میں دیکھا کہ ایک مہمان کھا ہی نہیں رہا بلکہ کھانا اپنی جیبوں میں بھی بھررہا ہے۔ اونتی ایسے موقع پر کہاں چوکنے والا تھا، اس نے چائے کی کیتلی اٹھا کر مہمان کی جیب میں الٹنی شروع کردی۔ اس پر مہمان ناراض ہوئے تو اس نے کہا بھائی آپ کی جیب نے بہت ساری مٹھائیاں کھائی ہیں، میں اس کی پیاس بجھانے کے لئے جیب میں چائے ڈال رہا ہوں۔ ایک دن اونتی کے ملک میں بادشاہ کے دربار میں تین غیرملکی آئے اور انھوں نے تین سوال کئے مگر دربار میں کوئی بھی جواب نہیں دے پایا۔ بادشاہ نے اس کام کے لیے اونتی کو بلایا۔ غیر ملکیوں نے اونتی سے پہلا سوال پوچھا، بتاؤ زمین کا مرکز کہاں ہے؟ اونتی نے بغیر تامل کے کہا، جہاں میرے گدھے کا اگلا دایاں قدم رکھا ہوا ہے، وہیں زمین کا مرکز ہے۔ غیرملکی نے اونتی سے پوچھا، آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اونتی نے کہا، آپ چاہیں تو اپنی تسلی کے لیے اچھی طرح ناپ تول کر لیں۔ غیرملکی لا جواب ہوگیا۔ دوسرے غیر ملکی نے پوچھا آسمان میں کتنے تارے ہیں؟ اونتی نے کہا، میرے گدھے کے جتنے بال ہیں ۔ دوسرا غیر ملکی تاجر بھی لاجواب ہو گیا۔ تیسرا تا جر بولا، بتاؤ میرے سر میں کتے بال ہیں؟ اونتی نے جھٹ جواب دیا، جتنے میرے گدھے کی دم میں بال ہیں۔ اونتی نے تیسرے تاجر کو بھی اسی طرح لاجواب کر دیا۔ ایک دن ایک مزدور ایک کبابی سے ادھار کباب کھا گیا۔ دوسرے دن جب وہ رقم دینے آیا تو کبابی نے اس سے ایک ہزار روپے مانگے۔ مزدور حیرت میں پڑ گیا ۔ کبابی نے اسے بتایا کہ اگر تم مرغی نے کھاتے تو وہ کتنے انڈے دیتی ؟ ان انڈوں سے کتنے بچے نکلتے اور اس طرح ایک ہزار روپے ہو جاتے۔ اس پر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ مزدور نے اونتی سے کہا تم میرے مقدے کی وکالت کرو۔ اونتی نے کہا تم عدالت میں چلے جانا میں وہاں پہنچ جاؤں گا۔ دوسرے فریق تو عدالت میں پہنچ گئے مگر اونتی وہاں دیر سے پہنچا۔ اس نے دیر سے پہنچنے کے لیے معافی مانگی اور کہا، آج مجھے اپنے کھیت میں گیہوں ہونا تھا ، اس لیے میں اسے بھنوانے چلا گیا تھا۔ اس بات پر سب ہنس پڑے۔ منصف نے کہا، کیا کہیں بھنے ہوئے گیہوں سے بھی پودے اگتے ہیں؟ اونتی بولا: آپ ٹھیک کہتے ہیں، بھنے ہوئے گیہوں سے پودے نہیں اگ سکتے، اسی طرح بھنی ہوئی مرغی بھی انڈے نہیں دے سکتی ۔ منصف کو اونتی کی بات ٹھیک معلوم ہوئی ، اور اس نے مزدور کے حق میں ہی فیصلہ سنایا۔
معنی یاد کیجئے:
تاجر : تجارت کرنے والا
تامل : جھجھک
حسد : جلن
متعجب : حیران ہونا
حمایت : ساتھ دینا
حاضر جوابی : کسی سوال کا فوراً جواب دینا

غور کیجئے:
حاضر جوابی اور ذہانت سے انسان کو عزت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریے:
 الجھن  #####  بلی   ##### بالکل #####  ناپ
1. تم ایک زنده...... بلی...... کو پکڑ کر اسے نگل جاؤ۔
2. بادشاہ پھر ..... الجھن ...... میں مبتلا ہو گیا۔
3. اگر آپ یقین نہیں کرتے ہیں تو جا کرخود...ناپ...لیں۔
4. منصف کو اونتی کی بات ...بالکل... ٹھیک معلوم ہوئی۔

سوچیے اور بتائیے:
1. اونتی نے زمین کا مرکز کہاں بتایا؟
جواب:اونتی نے کہا کہ میرے گدھے کا دایاں پیر جس جگہ ہے وہی زمین کا مرکز ہے۔

2. آسمان میں کتنے تارے ہیں اونتی نے اس سوال کا کیا جواب دیا؟
جواب: اونتی نے کہا جتنے اُس کے گدھے کے بدن پر بال ہیں اتنے ہی آسمان میں تارے ہیں۔

3. سرائے والے اور مزدور میں کیا جھگڑا تھا؟
جواب:مزدور نے سرائے والے کی مرغی کا کباب کھایا اگلے دن سرائے والے نے اس سے مرغی کے کباب کے ہزار روپے مانگے یہ بول کر کہ جو مرغی اُس نے کھائی وہ انڈا دیتی اور اس انڈے میں سے اور مرغیاں ہوتی تو مزدور کو اُن سب کا پیسہ دینا ہوگا لیکن مزدور نے اتنے پیسے دینے کے لیے منع کر دیا اسی وجہ سے اُن دونوں میں جھگڑا ہوا۔

4. اونتی نے سرائے والے اور مزدور کے جھگڑے کو حل کرنے کے لیے کیا دلیل دی؟
جواب:اونتی نےکہا جس طرح بھنے ہوئے گیہوں سے پودے نہیں اگتے ویسے ہی بھنی ہوئی مرغی بھی انڈے نہیں دے سکتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئی محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
نیچا دکھانا : لوگ اونتی کو نیچا دیکھاتے تھے۔
منہ لٹکانا : سارے تاجر منہ لٹکا کر چلے گئے۔
بغلیں جھانکنا : اونتی کا جواب سن کرتاجر اپنی بغلیں جھانکنے لگا۔

عملی کام: 
اونتی کی حاضر جوابی کے بارے میں چند جملے لکھیے۔
اونتی بہت ہی حاضر جواب تھا۔
اس کے جواب لوگوں کو لاجواب کردیتے تھے۔
اس سبق میں اونتی کی حاضر جوابی کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
مثلاً جب تاجروں نے اونتی کو نیچا دکھانے کے لیے بے تکے سوالات کیے تو اونتی نے اپنی حاضر جوابی سے تاجروں کی بولتی بند کردی۔



کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری