پودوں میں رسمِ شادی
ایس.ایم. ناطق قادری
پودوں کی دنیا بہت عجیب و غریب ہے، ساخت کے اعتبار سے ان کے مختلف اقسام ،ان کا اُگنا اور نشؤو نما پانا، ان کے اندر پائے جانے والی مختلف عادات و اطوار ،قوّتِ دفاع، نقّالی کی عادت ، راحت و تکلیف سے متاثِر ہونا، کبھی کبھی اپنے دفاع کے واسطے جانوروں پر حملہ آور ہوجانا ایسی حیرت انگیز حقیقتیں ہیں کہ ان کا مطالعہ بڑا دلچسپ اور قابلِ غور ہے۔قدرت نے عام طور سے حیوانات سے نباتات کو کمزور بنایا ہے مگر پودوں کی افزائشِ نسل کے لیے قدرت کا انتظام بڑا ہی حیران کن اور جاذبِ نظر ہے۔ انسان اور حیوان کی بقا اور آبادی میں اضافہ کے لیے نر اور مادہ کا ملاپ ضروری عمل ہے، انسانی دنیا میں اس رسمِ طبعی کو رسمِ شادی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ قدرت نے پودوں کی آبادی میں اضافہ اور اس کی نسلوں کو فروغ دینے کے لیے پودوں کے اندر بھی باہمی شادیات کابڑا لطیف اور انوکھا انتظام کر رکھّا ہے، سائنس اور علمِ نباتات کی زبان میں اس خصوصی عمل کو پالینیشن(pollination) کہتے ہیں اوراس کاانحصارپھولوں پرہے۔
جس طرح انسانی دنیا میں شادی کی ایک عمرطبعی ہے اُسی طرح پودوں میں بھیایک خاص مدّت کے بعد پھول کا آنا ان کے ازدواجی زندگی کا آغاز ہے ،ان ہی پھولوں میں نر اور مادہ پھول ہوتے ہیں ۔بعض پودوں میں یہ نر اور مادہ پھول ایک ساتھ ہوتے ہیں یعنی ایک ہی پھول کے کٹورے میں دونوں قسم کے جنس موجود ہوتے ہیں ، ایسے پھولوں کو مکمل pletecom flower پھول کہتے ہیں ۔ بعض پودوں میں نر اور مادہ پھول ایک ہی پودے میں ہوتے ہوئے بھی مختلف جگہ پر اُگے رہتے ہیں ۔ مکئی کے پودوں میں اس کے بالائی حصہ پر جو دھان کی بالی کی شکل کا پھول ہوتا ہے وہ نر پھول کہلاتا ہے اور پودوں کے تنے میں پتّیوں کی گانٹھ کے قریب مکئی کے بال کی موچ نکلتی ہے یہ مادہ پھول ہے۔
(pollination) پالینیشن کے عمل کو سمجھنے کے لیے نر اور مادہ پھول کے مختلف حصوں کو سمجھنا ضروری ہے ۔نر پھول کا گھنڈی دار بالائی حصہ anther )) انتھر کہلاتا ہے ،یہ ایک پتلی سی چھڑی (filament) فیلا منٹ کے اوپر رہتا ہے ۔ نر پھول جب اپنے سنِ بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو بالائی حصہ پر موجود انتھر (anther) میں باریک بُرادے قوی ہو جاتے ہیں جن کو علمِ حیات میں پولن گرینس (pollen grains) کہتے ہیں یہی باریک ذرّات اپنے اندر قوّتِ تولید رکھتے ہیں اور وقتِ مقرّرہ پر مادہ پھول کے بالائی حصہ اسٹگ ما (stigma) پر قدرت کے مختلف کارندوں کی مدد سے پہنچ جاتے ہیں اور اسٹگ ما (stigma) سے نکلنے والی لس دار سیّال کی وجہ سے یہ پالن گرینس اس پر چپک جاتے ہیں اور اس طرح جنسی عمل(fertilisation ) شروع ہوتا ہے اوربیج اور پھل کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور دیکھتے دیکھتے پھول مرجھانے لگتے ہیں اوران کی جگہ ننھا سا پھل نظر آنے لگتا ہے اور ایک معینہ مدت کے بعد وہ بھی بڑا ہو جاتا ہے ۔
نر کو مادہ پھول سے قریب کرنے میں قدرت کا بڑا انوکھا ،حیرت انگیز اور دلچسپ انتظام ہے جس کو دیکھ کر قدرت کی صنّاعی کاگرویدہ ہوجانا پڑتا ہے، نہ کوئی شور نہ ہنگامہ، نہ باجا نہ گاجا، نہ سہرا نہ مکنا ،نہ بر نہ برات، جیسا کہ انسانی سماج میں آجکل ہم نے بنا رکھّا ہے۔ہمارے یہاں زن و شو کو باہم ملانے کا بڑا پُر وقار طریقہ ہے لیکن مذہب سے دوری نے اس کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔
منسوب ہی طے نہیں ہو پاتی جب تک کہ لڑکے اور لڑکی کے والدین کی ناک میں دم نہ آجائے۔ خاص طور پر لڑکے والوں کی طرف سے فرمائشوں اور انوکھی شرائط نے لڑکی والوں کی جان آفت میں ڈال رکھّی ہے۔ یہ کیا ستم ہے کہ کل تک جن بچّیوں کی چہل پہل، ان کی توتلی زبان اچھّی بھلی معلوم ہوتی تھی آج جوان ہو کر گھر کو رونق بخش رہی ہیں تو والدین کے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہوتی محسوس ہورہی ہے۔شریف او ر نادار طبقہ کے سامنے لڑکیوں کی شادی بہت بڑا مسئلہ بن کر رہ گئی ہے ۔
آج کل انسانی شادی میں مال و دولت کی ہوس ،نمائش کا شوق اور زندگی کے بامقصد اصولوں سے انحراف صا ف صاف نظر آتا ہے، ان کے مقابلہ میں معصوم، خاموش اور گونگے پودوں کی رسمِ شادی کہیں زیادہ صاف ستھری اور بھلی معلوم ہونے لگی ہے ۔معاف کیجیے گا ان باتوں کا تذکرہ یہاں بے جوڑ سا معلوم ہو رہا ہوگا لیکن انسانی دنیا کے ایک فرد ہونے کے ناطے قلم کچھ نہ کچھ تلخ حقیقتوں کی طرف اشارہ کر ہی یتا ہے۔ آیئے پودوں کی شادی میں چلیں، پالی نیشن (pollination ( یعنی نر اور مادہ پھولوں کو یکجا کرنے کے لیے قدرت نے ہوا، پانی، پتنگے ، بھنورے ، مختلف قسم کی مکھیاں اور تتلیوں سے کارندوں کا کام لیا ہے، یہ سارے کارندے نر پھول کے پالن گرینس(pollengrains ( کو مادہ پھول کے ایک مخصوص عضوstigma ) ) تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں اور گنگناتے بھنورے صرف رونقِ چمن کی خاطر نہیں بلکہ قدرت نے یہ انتظام ایک اور بہت ہی اعلی مقصد کے لیے کیا ہے۔پتنگوں اور تتلیوں کے پیر اور پر وں پر چپکے پالن گرینسpollengrains))یعنی نر پھول کے باریک ذرّات،مادہ پھول کے مخصوص عضو (Stigma) پر جا پڑتے ہیں جہاں سے جنسی عمل کی شروعات ہوتی ہے اور عملِ تولید کی تکمیل کے بعد بیج اور پھل کی بنیاد پڑتی ہے ، د ھان اور گیہوں کی بالیاں ہوں، آم کے رسیلے پھل ہوں یا انگور کے سرمست خوشے، ہر طرح کے پھل، میوہ جات سب کے سب اپنے پیدا ہونے میں اسی پالی نیشن(pollination) کے عمل کے مرہونِ منّت ہیں ۔پھولوں سے اٹھتی خوشبوجہاں آپ کے دل و دماغ کو ترو تازگی پہنچاتی ہے وہیں مکھیوں، پتنگوں کو اپنی جانب کھینچنے میں بہت معاون ہے ۔ بعض پتنگوں کی خوراک پھولوں کا رس یعنی یہی نیکٹر(nectar) ہے ۔ یہ پتنگے اپنا خوراک لینے کے لیے مختلف پھولوں پر بیٹھتے رہتے ہیں اور قدرت ان کے رزق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے ذریعہ پالی نیشن (Pollination)کے عمل کوبروئے کارلاتی ہے۔ہوا کے لطیف جھونکوں کے ساتھ نر پھول کے پالن گرینس pollengrains) ) مادہ پھول پر جا گرتے ہیں ۔ اس کا مشاہدہ مکئی کے پودوں کے ساتھ بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔ آپ ایک مکئی کے پودے کو جنبش دیں ،اس کے بالائی حصہ پراگے ہوئے دھان سے باریک ذرّات جھڑنے لگیں گے۔ یہی پالن گرینس(pollengrains ( ہیں جو مکئی کے ملائم ریشمی بالوں کے گچُھّے ( موچ ) پر گرنے سے مکئی کے بال میں دانے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی اس مادہ پھول ،مکئی کے بال کے منھ پر ایک پلاسٹک کی تھیلی باندھ دے اور پالن گرینس(pollengrains ( کو مکئی کے بال پر نہ گرنے دیا جائے تو سب مکئی کے پودوں میں تو دانے ملیں گے لیکن اس مخصوص پودے میں مکئی کے بال کے دانے بالکل نظر نہیںآئیں گے۔ پانی اور ہوا تو خاص طور سے نر پھول کے پالن گرینس(pollengrains ( کو مادہ پھول تک پہنچاتے ہیں ، اس کے علاوہ کیڑے ، پتنگے ، مکھیاں او ر بھنورے بھی نر پھول سے نکلنے والی بو کے ایسے متوالے ہوتے ہیں کہ ان پھولوں پر ان کا بیٹھنا ناگزیر ہوتا ہے اور اس طرح ان کے پیروں اور پروں پرکی مدد سے پالن گرینس(pollengrains ( مادہ پھول پر پہنچ جاتے ہیں اور عملِ تولید کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔آپ نے کبھی دھوکے سے شادی ہوتے نہیں سنا ہوگا ۔آئیے آپ کو الجیریا کے ایک پودے Mirrororchid جس کاحیاتیاتی نام (botanical name) ا و فرِس اسپیکولم (ophrys speculam) ہے کا بہت کامیاب دھوکے کا حال سناتا ہوں ۔اس کا پھول قدرت کی عطا کردہ بے مثال قوّتِ نقّالی کی وجہ سے خود کوایک اڑتی ہوئی مخصوص نسل کی مادہ مکھّی کی طرح بن کر پیش کرتا ہے جس کو دیکھ کر اسی نسل کا نر اس کی طرف مائل ہوتا ہے ۔
۲
نباتات کے ماہروں کا کہنا ہے کہ اس پھول کی پنکھڑی کے رنگوں کا امتزاج، اس کا بھورا اور چمکیلا نیلا رنگ اور اس کی بناوٹ نباتات کی دنیا میں بہت مثالی ہے اور سچ مچ ایک اڑتی ہوئی مکھّی نظر آتاہے ، قدرت کا یہ نظام بھی کتنا عجیب و غریب ہے کہ مادہ مکھّی ان پھولوں پر کبھی نہیں بیٹھتی بلکہ دوسرے اقسام کے پھولوں سے اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔اس مادہ مکھّی کا نر چند روز پہلے نکل آ تاہے اور اپنی مادہ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور دھوکے سے اس (پھول) کو اپنی مادہ سمجھ کر اس پر بیٹھ جاتا ہے،چونکہ اس کی جنسی بھوک کا تدارک نہیں ہوپاتااس لیے یہ ایک پھول سے دوسرے پھول پر اڑتا اور بیٹھتا رہتا ہے لیکن اس کی اس خواہشِ وصل اور احمقانہ حرکت سے نر پھول کے پالن گرینس(pollengrains ( مادہ پھول پر پہنچ جاتے ہیں اور بیج اور پھل کی بنیاد پڑ جاتی ہے ۔ یہ بات بھی بہت دلچسپ اور غور کرنے کی ہے کہ جب مادہ مکھّی آ نکلتی ہے تو یہ نر کبھی ان پھولوں(نقلی مادہ)کی طرف راغب نہیں ہوتا ۔
پودوں کی افزائشِ نسل کے لیے قدرت کا یہ عملِ مخصوص ، پالینیشن (pollination ( یا رسمِ شادی کہلاتا ہے ۔ یہ پودوں کی اچھّی سے اچھّی اقسام پیدا کرنے میں بہت معاون ہے۔ اس کام سے لگے ماہرین(plant- breeders )نے مختلف نرپھول کے پالن گرینس (pollengrains ( کو مادہ پھول پر تجربہ کر کے بہت ہی فائدہ مندنسلیں تیّار کی ہیں اور اسی تکنیک کی مدد سے دھان، گیہوں،گنّااور مختلف قسم کے پھلوں کی زیادہ اُ پج دینے والی قسمیں کسانوں کے پاس پہنچ رہی ہیں۔ ان قسموں کی ایجادات نے زراعت کی دنیا میں سبز انقلاب کے سنہرے خواب کی تعبیر کو حقیقت کے بہت قریب کردیا ہے۔