آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday, 2 November 2017

Ghazal - Danish Mamoon


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 2006 میں منعقدہ ایک مشاعرہ کی روداد

: آئینہ کی فائل سے



ّAbdul Qavi Dasnavi ki Bemisal Tahreerein-2

عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں-2
(بہ شکریہ گوگل)
ایک جگہ رقمطراز ہیں:


''سچی بات تو یہ ہے   کہ زندگی کو سلامتی کے ساتھ گزار لینا آج کی مادیت سے بوجھل معاشرے میں آسان نہیں ہے۔ اس معاشرے کی ساری پونجی حسد ، نفرت، احساس کمتری و برتری، ناانصافی،خود غرضی اور  ہٹ دھرمی سے ملاکر تیار ہوئی ہے۔اس معاشرے میں آپ ایمانداری اور سچائی کی زندگی تنہائی اختیار کرکے بھی نہیں گزار سکتے ہیں۔ آپ کا سماج اسے برداشت نہیں کرے گا۔ وہ آپ کی پر سکون زندگی کو برباد کرکے دم لے گااور اس توڑ پھوڑ پر فخر کرے گا۔ اگر آپ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو آپ کی آواز فضا میں لہرا کر گم ہوجائے گی۔کوئی آپ کی فریاد نہیں سنے گا۔ آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کرے گا۔ سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ آپ کے پیچھے آپ کے خلاف اڑائی ہوئی جھوٹی باتوں کو بغیر تحقیق کے سچ مان لے گا۔ بلکہ ظالم کی آواز سے اپنی آواز ملاکر اپنی دانشمندی پر ناز کرے گا۔۔۔۔۔

سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ آج کا سماج بے رحم ہوگیا ہے۔اسے ذاتی مفاد کے سوا اس بات سے غرض نہیں ہے کہ کون راستہ بہتر ہے اور کون تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔"

Wednesday, 1 November 2017

Abdul Qavi Dasnavi ki Bemisal Tahreerein-1

عبد القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں
یوم پیدائش پر گوگل کا ڈوڈ ل بناکر خراج عقیدت
(بہ شکریہ گوگل

گوگل نے آج اپنے ڈوڈل سے اردو کہ مایہ ناز ادیب عبد القوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اردو دنیا آ،ج عبد القوی دسنوی کا 87 واں یوم پیدائش منا رہی ہے۔ عبد القوی دسنوی کی پیدائش ۱۹۳۰ میں بہار کے دسنہ میں ہوئی  اور7 جولائی 2011 کوان کا انتقال ہوا۔ پانچ دہائیوں میں دسنوی نے اردو ادب کی کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے غالب ، اقبال، حسرت موہانی اور ابو الکلام آزاد پر بھرپور کام کیا۔ آپ کا تعلق سید سلیمان ندوی کے  خاندان سے تھا۔

پریم چند پر آپ کی کتاب مکتبہ جامعہ نے شائع کی جو کافی مقبول ہوئی۔آپ بھوپال میں شعبۂ اردو سے وابستہ رہے اور پوری زندگی تدریس و ادب کی خدمت میں گزاری۔ گوگل نے عبدالقوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کرکے اردو کی ایک بڑی خدمت انجام دی ہے اور ہندوستانیوں کو ایک مایہ ناز ادیب و ناقد کی یاد دلائی ہے۔ بے شک یہ ایک مستحسن قدم ہے۔
آئینہ عبد القوی دسنوی کی تحریروں کے چند اقتباسات پیش کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔

''دسنہ لائبریری نے کتاب پڑھنے اور خریدنے کا شوق پیدا کیا تھا تو میں نے اسی بچپن میں سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی کہانی زندگی میں پہلی کتاب ایک دھیلے میں خریدی تھی جسے نہایت احتیاط سے کاغذ چڑھا کر محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اسے کئی بار مطالعہ کیا تھا اور ہر بار اس احمق پر ہنسی آئی تھی جس نے سارے انڈے ایک دن حاصل کرنے کی لالچ میں اس کا پیٹ پھاڑ دیا تھا اور آنے والی دولت سے محروم ہوگیا تھا۔"

اپنی بستی  کے لوگوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:

''اور یہ بھی سچ ہے کہ اس بستی کے رہنے  والوں کی آپس میں محبت ، ایک دوسرے کے لئے احترام، ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کی کوششیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہر معاملے میں تعاون، ایک دوسرے کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھنے کا جذبہ، ایک دوسرے کی خوشیوں کو اپنی خوشی جاننے کا تصور، ایک دوسرے  کےغم دکھ درد کو اپنا درد محسوس کرنے  کا اور ایک دوسرے کے لئے مٹ جانے کی تڑپ آج بھی میرے دل میں ایک عجیب اضطراب پیدا کردیتی ہے۔ اور اس انسان پرور فضا میں لوٹ جانے کی خواہش کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ بار بار آج سوچتا ہوں کہ دسنہ کے وہ لوگ کتنے  اچھے تھے جودوسروں کی پر مسرت زندگی میں اپنی زندگی کی تسکین کا سامان پاتے تھے اور کتنے برے اور انسانیت کے نام پر داغ ہیں وہ لوگ جو اپنی پستی فکر کا زہر دوسروں کی پرسکون زندگی میں گھول کر اس کا سکون اور طمانیت چھین لیتے ہیں اور اپنی تخریبی صلاحیت پر نازاں رہتے ہیں۔"
(جاری)

Tuesday, 31 October 2017

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 97ویں یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ پروگرام کا انعقاد

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 97ویں یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ  پروگرام کا انعقاد

(رپورٹ: محمد سعد اللہ صدیقی)


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۹۷ ویں   یوم تاسیس کے موقع پر دو روزہ پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جو کل بروز اتوار سے شروع ہوکر آج بروز پیر اختتام پزیر ہوا۔
پروگرام کی ابتدا کل صبح ۹ بجے بدست وایس چانسلر طلعت احمد ہوئی۔ پروگرام کے آغاز پر اپنی تقریر میں جناب طلعت احمد نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے معیار کا مختصر تعارف کرایا۔۔ مزید برآں یہ بھی بتایا کہ عصر حاضر میں جامعہ کا تعلیمی معیار اور اقتدار ایشیائی سطح پر ۲۰۰ویں نمبر پر جبکہ ہندوستانی تعلیمی سطح پر ۵ویں نمبر پر شمار کیا جا رہا ہے ۔ یہ نہایت اعزاز کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی علمی اور فنی میدان میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ جامعہ اپنی علمی، ادبی و فنی اور تاریخی اعتبار سے بیش بہا علمی خزانوں کا مخزن رہا ہےـ
اس کے بعد مختلف پروگراموں کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں سب سے پہلے بچوں نے جامعہ کا ترانہ پیش کیا ، بعد ازاں موسیقی اور نغمے کے مسابقے کرائے گئے۔ مختلف موضوعات پر مناقشے اور مباحثات کا بھی انعقاد کرایا گیا ، جس میں جامعہ کے بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کئی موضوعات پر ڈرامے بھی اسٹیج کئے گئے جس کا تعلق محض معاشرتی اور اخلاقی زندگی کی اصلاح و فلاح و بہبود تھا۔ بروز اتوار رات میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان کے مشہور شعراء کرام اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ جس کی پیشکش پولس پبلک لائبریری کی جانب سے کی گئی تھی۔
بروز سوموار یوم تاسیس پروگرام کے آخری دن بھی پروگراموں کا سلسلہ اپنے شباب پر رہا۔ سب سے پہلے پروفیسر محمد مجیب موضوع کے تعلق سے توسیعی لیکچر کا انعقاد کیا گیا جس میں الگ الگ طلبائے جامعہ نے حصہ لیا۔ بعد ازاں مختلف موضوعات کے تحت ادبی پروگرام، بیت بازی ، نکڑ ناٹک اور خطابات پیش کئے گئے۔ سب سے اخیر میں مشہور قوال نظامی برادرس نے اصوفیائے کرام و تصوف کے تعلق سے قوالی پیش کرکے اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کیا اور سامعین کو اپنی بہترین آواز اور کلام سے محظوظ و لطف اندوز کرایا۔
یہ بات قابل ذکر ہے یوم تاسیس کے ہی تعلق سے ایک عظیم الشان تعلیمی میلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں علحدہ علحدہ شعبہ جات کے بک اسٹال لگائے گئے۔ طلبہ و طالبات کے علاوہ ان کے اہل خانہ اور علاقہ کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔





غزل ۔ طاہر عثمانی

غزل
تاج العرفان حکیم شاہ محمدطاہر عثمانی فردوسیؒ

مجھے راز درون دل عیاں کرنا نہیں آتا
حدیث دل سر محفل بیاں کرنا نہیں آتا

لئے پھرتی چمن میں ہر طرف ہے نکہت گل کو
صبا کو راز غنچوں کا نہاں کرنا نہیں آتا

جبین شوق مصروف تلاش حسن مطلق ہے
مجھے سجدوں کو صرف آستاں کرنا نہیں آتا

عجب بیچارگی ہے ان اسیران محبت کی
ہیں مجبور فغاں لیکن فغاں کرنا نہیں آتا

سناؤں شرح حال قلب مضطر کس طرح طاہرؔ
مجھے افشائے راز دیگراں کرنا نہیں آتا
    

Monday, 30 October 2017

Ghazal - Khumaar Barabankvi

غزل
خمار بارہ بنکوی

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں
مری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں

یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیے تو دیے دل بجھے جا رہے ہیں

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

بہشت تصور کے جلوے ہیں میں ہوں
جدائی سلامت مزے آ رہے ہیں

قیامت کے آنے میں رندوں کو شک تھا
جو دیکھا تو واعظ چلے آ رہے ہیں

بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ
خمارؔ    آپ کافر ہوئے جا رہے ہیں

Sunday, 29 October 2017

پرنسپل کا خط والدین کے نام

:رشاد عثمانی کے واٹس اپ پیغام سے

سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۲۰۱۵ کے سالانہ تعلیمی میلہ میں ایک طالب علم کابنایا ہوا ماڈل۔تصویر آئینہ

" محترم والدین!
آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے۔
لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان بچوں میں (مستقبل کے) موسیقار بھی بیٹھے ہوں گے جن کے لیے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے۔
لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اسکی خوداعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجئے گا۔
اگر وہ اچھے مارکس نہ لا سکیں تو انھیں حوصلہ دیجئے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں  اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
اگر وہ کم مارکس لاتے ہیں تو انھیں بتا دیں کہ آپ پھر بھی ان سے پیار کرتے ہیں اور آپ انھیں ان کم مارکس کی وجہ سے جج نہیں کریں گے۔
خدارا! ایسا ہی کیجیے گا اور جب آپ ایسا کریں گے پھر دیکھیے گا آپ کا بچہ  دنیا بھی فتح کر لے گا۔۔۔ ایک امتحان اور کم مارکس آپ کے بچے سے اس کے خواب اور اس کا ٹیلنٹ نہیں چھین سکتا۔
برائے مہربانی ایسا مت سوچئے گا کہ اس دنیا میں صرف ڈاکٹر اور انجینئرز ہی خوش رہتے ہیں۔۔
آپ کا مخلص

پرنسپل۔۔۔۔۔۔۔"

ریلیاں ہی ریلیاں

گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان بھر میں ریلیوں کی بہار ہے۔ اسی پس منظر میں طنز و مزاح کے مشہور شاعر حضرت رضا نقوی واہی مرحوم کی ایک مشہور نظم ملاحظہ کریں۔

Saturday, 28 October 2017

Iftekhar Arif : A Beautiful combination of Classic and Modern Poetry

روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج :افتخار راغبؔ 



فوزیہ ربابؔ



اے دل گر اس کے حُسن پہ کرنی ہے گفتگو
حدِّ جمالیات سے آگے کی سوچنا

بالعموم بہت کم شعر ایسے ہوتے ہیں جو پڑھتے ہی قاری کے ذہن پر نقش ہو جائیں اور ضرب المثل بننے کی خصوصیت رکھتے ہوں۔ اس بھیڑ میں چند شعراء ہی ایسے ہیں جنھوں نے اپنی محنت لگن اور دیانتداری سے وادیِ سخن میں اپنا جداگانہ مقام پیدا کیا ہے۔ انھیں میں ایک افتخار راغبؔ صاحب ہیں جن کے زیادہ تر اشعار تاثر اور تاثیر سے لبریز ہیں:
دھیان اپنی جگہ نہیں راغبؔ 
لکھ دیا کس کا نام اپنی جگہ
اس نے یوں آج شب بخیر کہا
صبح تک خیریت نہیں میری
جی تو کرتا ہے اپنے لب سی لوں
تم کو کہہ کر کبھی خدا حافظ
مرے خدا مجھے اپنی امان میں رکھنا

پھر اس نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے

افتخار راغبؔ صاحب کی شاعری روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ یعنی ان کے یہاں ملیح روایات کی پاسداری بھی ہے اور جدّت کی شیرینی بھی، نازک احساسات و جذبات بھی ہیں تلخی و ترشی بھی، حزن و یاس کی کیفیت بھی ہے مگر فرحت و شادمانی کا جذبہ اس پر غالب ہے۔ غالبؔ سی پرکاری و زبان و بیان کے دروبست میں تخلیقی شان ہے تو میرؔ کی سادگی و سلاست حزن و یاس کے ساتھ اثر انگیزی بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کہتے ہیں اچھے شعر کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھ کر بے ساختہ آہ یا واہ نکل جائے۔ یہ کیفیت راغبؔ صاحب کی شاعری میں بہت نمایاں طور پرموجود ہے مگر غور کرنے پر معنی و مفہوم کے نئے در وا ہوتے جاتے ہیں:
ساری دنیا کو ہرانے والی
ایک درویش سے ہاری دنیا
خوش بیاں تجھ سے زیادہ کون ہے
چپ یہاں تجھ سے زیادہ کون ہے
کیا کہوں راغبؔ ترے بارے میں اب
خوش گماں تجھ سے زیادہ کون ہے
خواہشِ ناتمام سے تکلیف
دل کو ہے دل کے کام سے تکلیف
ماتم پُرسی مت کر اے منھ زور ہَوا
کتنے پتّے ٹوٹے اب تعداد نہ گِن
افتخار راغبؔ کی شاعری حیات و کائنات کا مربوط و منضبط فلسفہ بیان کرتی ہے۔ ان کی شاعری ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے ان کا عزمِ مصمم نیز مستقل مزاجی ان کی شاعری میں بھی خوب نظر آتی ہے۔ حکیمانہ افکار کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کے گرُ سے افتخار راغبؔ بخوبی واقف ہیں:
روک دے پرواز میری، کاٹ دے صیّاد پر
توٗ مجھے مجبور کر سکتا نہیں فریاد پر
ہم کو بس اک ذات سے امّید ہے اور کچھ نہیں
آپ کو تکیہ ہے اپنی طاقت و تعداد پر
امن کی ہر ہاتھ میں قندیل ہو
روشنی میں روشنی تحلیل ہو
مجھے تھا رہنا سدا اپنی بات پر قائم
میں سنگِ میل ہوا گردِ کارواں نہ ہوا
مشکلیں لاکھ راہِ شوق میں ہوں
شوقِ منزل سنبھال کر رکھنا
ہم ہیں قائم اصول پر اپنے
گردشِ صبح و شام اپنی جگہ
علم والوں کو علم ہے راغبؔ 
دولتِ جہل آگہی سے ملے
مچھلی کیسے رہتی ہے پانی کے بِن
حال سے میرے خوب ہیں وہ واقف لیکن
یہاں ایک لفظ ’’لیکن‘‘ سے شعر میں جو تاثیر اور کیفیت پیدا ہوئی ہے اس کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں۔
راغبؔ صاحب کی شاعری میں عمدہ تراکیب، خوبصورت استعاراتی زبان، بے ساختگی کے ساتھ ساتھ مشکل و منفرد ردیفوں میں بھی بڑے عمدہ اشعار ملتے ہیں۔ ان کی پوری شاعری پر نظر ڈالی جائے تو نئی زمینوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو فقرہ یا لفظ ان کو پسند آجائے اسے ردیف بنا کر شاہ کار غزل کہنے پر ان کو دسترس حاصل ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے پر عام طور سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افتخار راغب ؔ چھوٹی بحر کے بڑے شاعر ہیں لیکن اس کتاب میں بڑی بحروں میں جو غزلیں نظر نواز ہوئیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بڑی بحروں پر بھی آپ کو عبور حاصل ہے :
کس جگہ کس وقت اور کس بات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
میری شرحِ خواہش و جذبات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
اے غزل بے قرار رہتا ہوں صرف تجھ پر نثار رہتا ہوں
تجھ پہ راغبؔ مری طبیعت ہے چین آئے تو کس طرح آئے
چھپ چھپ کر دل کیوں روتا ہے کیا عالم وحشت ہوتا ہے
رہ رہ کر جی گھبرائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
اچھا لگتا ہے تم کو اگر کھیلنا میرے جذبات سے
کچھ نہ بولوں گا میں عمر بھر کھیلنا میرے جذبات سے
گجرات کی طرح ہوں میں، مجھ کو بھی غم گسار دو
کس کو بتاؤں کس طرح گزرا تھا دو ہزار دو
اُس نے کہا تھا ایک شب ’’تم نے مجھے بدل دیا‘‘
کیسے کہوں میں اُس سے اب تم نے مجھے بدل دیا
افتخار راغبؔ کی شاعری میں میریت کا عنصر نمایاں ہے۔ سادگی، سلاست، مضامین کا تنوع غرض یہ کہ تاثر اور تاثیر سے مملو آپ کی بیشتر غزلیں شاہ کار تخلیق ہیں۔آپ کی شاعری جذباتِ زندگی و عصرِ حاضر کی عکّاسی کرتی ہے۔ نیز سادگی و اصلاحِ زبان و بیان کے تو کیا کہنے۔ یہ عنصر میں نے موجودہ دور کے شعراء میں بہت کم پایا ہے:
یوں ہی رہنے لگی ہے وحشت سی
کوئی آفت نہیں محبت سی
آ محبت سے آ سکون سے رہ
دل ہے مسکن ترا سکون سے رہ
سبز پتّو ڈرو ہواؤں سے
میں تو ٹوٹا ہوا ہوں میرا کیا
لیجیے اور امتحان مرا
اور ہونا ہے کامیاب مجھے
لے کے نکلے ہو دور بین کہاں
اُن کے جیسا کوئی حسین کہاں
ایک خاص بات جو میں نے آپ کی شاعری میں محسوس کی وہ یہ کہ آپ کی شاعری میں حساسیت تو بدرجہ اتم موجود ہے مگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ احساس اور جنون کے درمیان جو ایک غیر مرئی لکیر ہے اس سے آپ خوب شناسا ہیں:
تمھاری مسکراہٹ کھینچتی ہے
تبسّم کی لکیریں جسم و جاں میں
دل کے دو حرفوں جیسے ہی ایک ہیں ہم
اک متحرک ہر لمحہ اور اک ساکن
پوچھا گیا تمھارے تعلق سے کچھ اگر
تم ہاں اُسے سمجھنا میں بولوں اگر نہیں
میں افتخار راغبؔ صاحب کے تینوں مجموعہ ہائے غزلیات ’’لفظوں میں احساس‘‘ ، ’’خیال چہرہ‘‘ اور ’’غزل درخت‘‘ پڑھ چکی ہوں اور چوتھا مجموعہ "یعنی تو" کے مسودے کا بھی میں نے بغور مطالعہ کر لیا ہے۔ لہٰذا یقین کامل ہے کہ راغبؔ صاحب جس قسم کی شاعری کررہے ہیں یہ ادب کا بیش قیمتی اثاثہ ثابت ہوگی۔آپ کی بیشتر غزلیں اور اشعار دل کو چھو گئے۔ اب کیا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں کہ وقت کم ہے اور گفتگو طویل ہوتی جارہی ہے ۔ راغبؔ صاحب کو صمیمِ قلب سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور آخر میں اب ملاحظہ فرمائیں وہ غزل جو اس مکمل کتاب کی وجہِ تخلیق بنی ہے جسے پڑھتے ہی بالیقین آپ بھی مسحور ہو جائیں گے۔ آپ غزل کا لطف لیجیے اور مجھے دیجیے اجازت کہ پھر ملیں گے اگر خدا لایا:
پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ
مِل گیا عشق کو اِک حُسن محل یعنی توٗ
شہرِ خوباں میں کہاں سہل تھا دل پر قابوٗ
مضطرب دل کو ملا صبر کا پھل یعنی توٗ
غمِ دل ہو غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو
سب مسائل کا مِرے ایک ہی حل یعنی توٗ
گنگناتے ہی جسے روح مچل اُٹھتی ہے 
میرے لب پر ہے ہمیشہ وہ غزل یعنی توٗ
دفعتاً چھیڑ کے خود تارِ ربابِ الفت
میرے اندر کوئی جاتا ہے مچل یعنی توٗ
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی توٗ
پیاس کی زد میں محبت کا شجر یعنی میں
جس پہ برسا نہ کبھی پریٖت کا جل یعنی توٗ
قلبِ راغبؔ میں عجب شان سے ہے جلوہ فگن
دلربائی کا حسیں تاج محل یعنی توٗ


خوش خبری