آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 11 July 2020

Isra Art Gallery Flower-6


گل در سبزہ
 
 
 

Isra Art Gallery Flower-7


گلابِ سرخ
 
 
 

Isra Art Gallery Flower-5


آفتاب در سبزۂ ہندی
 
 
 

Isra Art Gallery Flower-3

Isra Art Gallery Flower-2

آفتابِ گلابی
 
 
 

Isra Art Gallery Flowers



احاطۂ دل پذیر
 
 
 

Saturday, 4 July 2020

Sawere Uthna - Mohammad Husain Azad

سویرے اٹھنا
محمد حسین آزاد
Painting by Isra 

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
خوشی کا تھا وقت اور ٹھنڈی هوا
پرندوں کا تھا ہر طرف چہچہا
یهی جی میں آئی که گھر سے نکل
ٹہلتا #ٹہلتا #ذرا#باغ #چل
چھڑی ہاتھ میں لے کے گھر سے چلا
اور اک باغ کا سید ها رسته لیا
وہاں اور ہی جا کے دیکھی بهار
درختوں کی ہے ہر طرف اک قطار
کہیں ہے چنبیلی کہیں موتیا
گلاب اور گیندا کہیں ہے کھِلا
کھلے پھول ہیں اس قدر جا بجا
که خوشبو سے ہے باغ مهکا ہوا
کہیں آم ہیں اور کہیں ہیں انار
کہیں کھٹے میٹھے ہیں دیتے بہار
لگے پھل درختوں میں ہیں اس قدر
کہ شاخیں زمین سے لگیں آن کر
بیان کیجئے کیا ہری گھاس کا
بچھونا ہے مخمل کا گویا بچھا
بہ جي چاہتا ہے کہ اس فرش پر
پھریں لوٹتے ہم ادهر اور ادهر
پہ سبزی ہے اک لطف دکھلا رہی
طراوت ہے آنکھوں میں کیا آرہی
خدا نے ہماری خوشی کے لئے
یہ سامان سارے ہیں پیدا کئے
سویرے ہی اٹھے گا جو آدمی
رہے گا وہ دن بھر ہنسی اور خوشی
نہ  آئے  گی  سستی  کبھی  نام  کو
کرے گا خوشی سے ہر اک کام کو
رہے گا وہ بیماریوں سے بچا
یہ ہے سو  دواؤں سے بہتر دوا

*بعد کے ایڈیشنوں میں یہ مصرع يوں ہے
 یہ سبزی تر و تازگی لا رہی۔

آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Tuesday, 30 June 2020

Usi Se Thanda Usi Se garam - Dr Zakir Hussain

اُسی سے ٹھنڈا اُسی سے گرم
ڈاکٹر ذاکر حسین
میاں بالشتے لکڑہارے سے سوال پوچھتے ہوئے۔

ایک لکڑہارا تھا ۔جنگل میں جا کر روز لکڑیاں کاٹتا۔اور شہر میں جاکر شام کو بیچ دیتا۔ ایک دن اس خیال سے کہ آس پاس سے تو سب لکڑہارے لکڑی کاٹ لے جاتے ہیں۔ سوکھی لکڑی آسانی سے ملتی نہیں۔یہ دور جنگل کے اندر تک چلا گیا۔ سردی کا موسم تھا۔ کٹکٹی کا جاڑا پڑ رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں ٹھٹھرے جاتے تھے۔اُ سکی انگلیاں بالکل سُن ہوجاتی تھیں۔ یہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کلہاڑی رکھ دیتا اور دونوں ہاتھ منھ کے پاس لے جاکر خوب زور سے اُن میں پھونک مارتا کہ گرم ہوجائیں۔
جنگل میں نامعلوم کس کس قسم کی مخلوق رہتی تھی۔سنا ہے اس میں چھوٹے چھوٹے سے بالشت بھر کے آدمی بھی ہوتے ہیں۔ اُن کی داڑھی مونچھ سب کچھ ہوتی ہے مگر ہوتے ہیں بس میخ ہی سے۔ ہم تم جیسا کوئی آدمی اُن کی بستی میں چلا جائے تو اسے بڑ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ دیکھیں یہ کرتا کیا ہے۔؟ لیکن ہم لوگوں سے ذرا اچھے ہوتے ہیں کہ اُن کے لڑکے کسی پردیسی کو ستاتے نہیں اور نہ اُن پر تالیاں بجاتے ہیں۔ نہ پتھر پھینکتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں بھی اچھے بچّے ایسا نہیں کرتے لیکن یہاں تو سبھی اچھے ہوتے ہیں۔
خیر لکڑہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا تو ایک میاں بالشتے بھی کہیں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ میاں بالشتے نے جو یہ دیکھا کہ یہ بار بار ہاتھ میں کچھ پھونکتا ہے تو سوچنے لگے کہ یہ کیا بات ہے۔دیر تک اپنی بتاشہ سے ٹھوڑی اپنے ننھے سے ہاتھ پر دھرے بیٹھے رہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا تو یہ اپنی جگہ سے اٹھے اور کچھ دور چل کر پھر لوٹ آئے کہ نہ معلوم کہیں پوچھنے سے یہ آدمی برا نہ مانے۔ مگر پھر نہ رہا گیا۔آخر کو ٹھمک ٹھمک کر لکڑہارے کے پاس گئے اور کہا
”سلام بھائی! بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھیں۔“
لکڑہارے کو یہ ذرا سا انگوٹھے برابر آدمی دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ مگر اُس نے ہنسی روک کر کہا
”ہاں ہاں بھئی ضرور پوچھو۔“
”بس یہ پوچھتا ہوں کہ تم منھ سے ہاتھوں میں پھونک سی کیوں مارتے ہو؟“
لکڑہارے نے جواب دیا”سردی بہت ہے،ہاتھ ٹھٹھرے جاتے ہیں۔ میں منھ سے پھونک مار کر انھیں ذرا گرما لیتا ہوں۔ پھر ٹھٹھرنے لگتے ہیں پھر پھونک لیتا ہوں۔
میاں بالشتے نے اپنا سُپاری جیسا سر ہلایا اور کہا ”اچھا اچھا یہ بات ہے۔“
یہ کہہ کر بالشتے میاں وہاں سے کھسک گئے، مگر رہے آس پاس ہی۔ اور کہیں سے بیٹھے برابر دیکھا کیے کہ لکڑہارا اور کیا کرتا ہے۔
دوپہر کا وقت آیا۔ لکڑہارے کو کھانے کی فکر ہوئی۔ ادھر اُدھر سے دو پتھر اٹھاکر چولہا بنایا۔اُس کے پاس چھوٹی سی ہانڈی تھی۔ آگ سلگا کر اُسے چولہے پر رکھا اور اُس میں آلو ابلنے کے لیے رکھ دیے۔گیلی لکڑی تھی اس لیے آگ بار بار ٹھنڈی ہو جاتی تو لکڑہارا منھ سے پھونک کر اسے تیز کردیتا تھا۔”ارے“ بالشتے نے دور سے دیکھ کر اپنے جی میں کہا ” اب یہ پھر پھونکتا ہے۔کیا اس کے منہ سے آگ نکلتی ہے؟“ لیکن چُپ چاپ بیٹھا دیکھا کیا۔ لکڑہارے کو بھوک زیادہ لگی تھی، اس لیے چڑھی ہوئی ہانڈی میں سے ایک آلو جو ابھی پورے طور پر اُبلا بھی نہ تھا نکال لیا۔ اُسے کھانا چاہا تو وہ ایسا گرم تھا جیسے آگ۔ اس نے مشکل سے اُسے اپنی ایک انگلی اور انگوٹھے سے دبا کر توڑا اورمنہ سے پھوں پھوں کر کے پھونکنے لگا۔
”ارے“ بالشتے نے پھر جی میں کہا ”یہ پھر پھونکتا ہے اب کیا اس آلو کو پھونک کر جلائے گا۔“ مگر آلو جلا جلایا کچھ نہیں۔ وہ تو تھوڑی دیر پھوں پھوں کرکے لکڑہارے نے اپنے منہ میں دھر لیا اور غپ غپ کھانے لگا۔ اب تو اس بالشتے کی حیرانی کا حال نہ پوچھو۔ اس سے پھر نہ رہا گیا اور ٹھمک ٹھمک پھر لکڑہارے کے پاس آیا اور کہا ”سلام! بھائی بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھیں۔“
لکڑہارے نے کہا ”برا کیوں مانوں گا پوچھو۔ بالشتے نے کہا ”تم نے صبح مجھ سے کہا تھا کہ منہ سے پھونک کر اپنے ہاتھوں کو گرماتا ہوں۔ اب اس آلو کو کیوں پھونکتے تھے یہ تو بخود بہت گرم تھا  اسے اور گرمانے سے کیا فائدہ؟“
”نہیں میاں ٹِلّو۔ یہ آلو بہت گرم ہے میں اسے منہ سے پھونک پھونک کر ٹھنڈا کر رہا ہوں۔“
بات تو کچھ ایسی نہ تھی مگر یہ سُن کر میاں بالشتے کا منہ پیلا پڑگیا۔ ڈر کے مارے کپ کپ کانپنے لگے۔ وہ برابر پیچھے ہٹتے جاتے تھے۔ لکڑہارے سے ڈر کر کچھ سہم سے گئے تھے۔ ذرا ساآدمی یونہی دیکھ کر یونہی ہنسی آئے۔ لیکن اس تھر تھر، کپ کپ کی حالت میں دیکھ کر تو ہر کسی کو ہنسی بھی آئے رنج بھی ہو۔ لکڑہارے کو بھی ہنسی آئی لیکن وہ بھی بھلا مانس تھا۔ اُس نے آخر پوچھا”کیوں میاں، کیا ہوا، کیا جاڑا بہت لگ رہا ہے۔ “ مگر میاں بالشتے تھے کہ برابر پیچے ہٹتے چلے گئے۔ اور جب کافی دور ہو گئے تو بولے ”یہ نہ جانے کیا بلا ہے۔ کوئی بھوت ہے یا جن ہے۔اُسی منہ سے گرم تھی اُسی سے ٹھنڈا بھی۔ ہمارے عقل میں نہیں آتا۔“ اور واقعی یہ بات میاں بالشتے کی ننھی سی کھوپڑی میں آنے کی تھی بھی نہیں۔


آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Saturday, 27 June 2020

kahani Ek Chor Ki - Hikayat e Rumi

کہانی ایک چور کی

ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم کھانے لگا
اتفاقًا باغبان بھی وہاں آ پہنچا اور چور سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ او بے شرم یہ کیا کر رہے ہو؟
چور مسکرایا اور بولا:
”ارے بے خبر! یہ باغ اللہ کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں ، وہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا ہوں ، میں تو اُس کا حکم پورا کر رہا ہوں ، ورنہ ایک پتّہ بھی اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔“
باغبان نے چور سے کہا
”جناب! آپ کا یہ وعظ سن کر دل بہت خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ کی دست بوسی کرلوں ۔۔۔۔ سبحان اللہ اس جہالت کے دور میں آپ جیسے عارف کا دم غنیمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو مدت کے بعد توحید ومعرفت کا یہ نکتہ ملا ہے کہ جو کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں ۔۔۔۔۔۔ قبلہ ذرا نیچے تشریف لائیے ۔۔۔۔۔۔“
چور اپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اور جھٹ سے نیچے اتر آیا ۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اسکو پکڑ لیا اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا ۔ پھر خوب مرمت کی ، آخر میں جب ڈنڈا اٹھایا تو چور چلا اٹھا ، کہ ظالم کچھ تو رحم کرو ، میرا اتنا جرم نہیں جتنا تو نے مجھے مار لیا ہے ۔ باغبان نے ہنس کر اس سے کہا کہ جناب ابھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے ، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، اگر پھل کھانے والا اللہ کا بندہ تھا تو مارنے والا بھی تو اللہ کا بندہ ہے اور اللہ کے حکم سے ہی مار رہا ہے کیونکہ اس کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہلتا.
چور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا مجھے چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ میری سمجھ میں آگیا ہے کہ بندے کا بھی کچھ اختیار ہے
باغبان نے کہا اور اسی اختیار کی وجہ سے اچھے یا برے کام کا ذمہ داربھی...!!!

(حکایت رومی )
(اقبال حسن آزاد کے فیس بُک صفحہ سے)

Newer Posts Older Posts Home

خوش خبری