آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 25 March 2017

ز مہجوری برآمد جان عالم

حضرت جامی ؒ

ز مہجوری برآمد جان عالم
ترحم یا نبی اللہ ترحم
(آپﷺ کی فرقت میں دنیا کی جان لبوں پر آگئی
رحم فرمائیے یارسول اللہ! رحم فرمائیے)
نہ آخر رحمۃ للعالمینی
ز محروماں چرا فارغ نشینی
کیا آپﷺ سارے عالم کے لئے رحمت نہیں ہیں؟پھر محروموں سے یہ بے اعتنائی کیوں ہے؟)
بروں آور سر از برد یمانی
کہ رومی تست صبحِ زندگانی
(یمنی چادر سرسے ہٹا کر اپنا جمال دکھائیے کیونکہ آپﷺ کا چہرہ ہی زندگانی کی صبح ہے)
شبِ اندوہ مارا روز گرداں
ز رویت روز ما فیروز گرداں
 (ہماری شب ِ غم کودن میں تبدیل کردیجئے،اپنے جلوے سے زندگانی کو کامرانی عطافرمائیے)
بہ تن در پوش عنبر بوئے جامہ
بہ سر بربند کافوری عمامہ
(ہماری چارہ سازی کو آنے کے لئے) معنبر لباس پہن لیجئے اور سراقدس پر کافوری عمامہ کو جگہ دیجئے)
ادیم طائفی نعلین پا کن
شراک از شتۂ جانہائے ما کن
 (طائف کے ادیم کی بنی ہوئی نعلین پہن لیجئے، اس کے تسموں کی جگہ ہمارے رشتۂ جاں کو کام میں لائیے)
فرود آویز از سر گیسواں را
فگن سایہ بہ پا سرو رواں را
(سراقدس سے دونوں طرف معنبر گیسو لٹکا لیجئے اور اپنے مناسب قد کا سایہ اپنے قدموں پر ڈالئے، یعنی ہماری مدد کو چلے آئیے)
جہانے دیدہ کردہ فرش راہند
چو فرش اقبال پا بوس تو خواہند
 (یارسول اللہ! ایک جہان آپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے فرش کی طرح آپ کی قدم بوسی کے شرف کا مشتاق ہے)
ز حجرہ پائے در صحن حرم نِہ
بہ فرق خاک رہ بوساں قدم نِہ
(حجرے سے نکل کر حرم نبوی کے صحن میں تشریف لائیے اور خاکِ راہ چومنے والوں کے سرپر قدم رکھیے)
اگرچہ غرق دریائے گناہیم
 فتادہ خشک لب برخاک راہیم
 (اگرچہ ہم گناہوں کے دریا میں ڈوبے ہوئے ہیں پھر بھی ( آپ ﷺ کی) راہ میں پیاسے پڑے ہوئے ہیں)
تو ابرِ رحمتی آں بہ کہ گاہے
کنی برحال لب خشکاں نگاہے
 ( آپﷺ ابررحمت ہیں کیا خوب ہو کہ کبھی ہم تشنہ لبوں کے حال پر بھی نظرفرمائیں)
بہ حسن اہتمامت کار جامی
طفیل دیگراں باید تمامی
 ( کیا عجب کہ آپﷺ کی نگاہِ کرم سے دوسروں کے طفیل میں جامی کا کام بھی بن جائے۔)

Thursday 23 March 2017

صفائی سے بہتر نہیں کوئی شئے

صفائی سے بہتر نہیں کوئی شئے

تحریر: صحبہ عثمانی


پیارے بچّوں!
آج میں آپ سے صفائی کی اہمیت پر بات کرنے جا رہی ہوں ـ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گندگی سبھی بیماریوں کی جڑ ہے ـ گندگی کی وجہ سے مچھر پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کے کاٹنے سے بیماری پیدا ہوتی ہے ـ
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کے چاروں طرف جو گندگی پھیلی ہوتی ہے اس میں آپ کا کتنا بڑا حصہ ہے ـ ہم اپنی تمام خرابیوں کی ذمہ داری سرکار پر ڈال کر اپنے ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں لیکن کیا ہم غورکرتے ہیں کہ آپ کی گلی محلے میں جو گندگی ہے اس کے لیے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں ـ
میں اکثر دیکھتی ہوں کہ ابھی صفائی والا گلی  میں جھاڑو لگاکر گلی سے جاتا بھی نہیں کہ کسی نا کسی چھت سے کوڑے کا ایک پیکٹ سڑک پر آپ کا منہ چڑھانے لگتا ہے ـحیرت ہے کہ ہمیں اپنی اس حرکت پر کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی اس جانب توجہ دلائے تو ہم الٹا اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ـ
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہمارے گھروں میں اتنا  کوڑا کیوں پیدا ہوتا ہے ـپہلے ہمارے علاقے میں کوڑے کی صرف ایک جھنڈی ہوا کرتی تھی جہاں اگر کوڑا نہ اٹھایا جائے تو گندگی کا انبار لگ جایا کرتا تھا اور وہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا ـ اب صورت حال یہ ہے کہ علاقے میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ـ جس کا جہاں دل چاہتا ہے کوڑا ڈال دیتا ہے اور پھر اس کا دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس جگہ کوڑے ڈالنے لگتے ہیں ـ نتیجہ یہ ہے کہ پورا محلہ ہی کوڑا گھر میں تبدیل نظر آتا ہےـ جگہ جگہ کوڑے کا ڈھیر لگنے میں صفائی کرنے والے وہ ملازم بھی کم ذمہ دار نہیں جو آپ کے گھر سے تو کوڑا لے جاتے ہیں لیکن وہ اسے کہیں قریب ہی خالی جگہ دیکھ کر ٹھکانے لگا دیتے ہیں ـ نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے گھر کا کوڑا ایک بار پھر قریب ہی آپ کی طبیعت مکدّر کر رہا ہوتا ہےـ
ہم صفائی کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر صفائی میں ہمارا حصہ صفر ہوتا ہے یہاں مجھے اپنے شہر اور گاؤں میں فرق صاف نظر آتا ہے ـ مجھے اپنے گاؤں کی گلیاں یاد آتی ہیں جہاں گندگی نام کی چیز نہیں ہوتی ـ گھر مٹّی کے ہوتے ہیں لیکن مٹّی سے ہی لیپ کر ان کی دیواریں اتنی چکنی بنا دی جاتی ہیں کہ آپ انھیں دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں ـ وہاں کوئی صفائی والا نہیں آتا ـ گھر کی عورتیں اور لڑکیاں ہی صفائی کا سارا کام کرتی ہیں ـ وہ اپنے گھر کی دیواروں پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بناتی ہیں تاکہ ان کا گھر خوبصورت لگے ـ اور صبح سویرے وہ اپنے پورے گھر میں جھاڑو دیتی ہیں اور اپنا دروازہ اور گھر کے باہر کے حصے کی صفائی کرتی ہیں ـ اپنی گلی میں جھاڑو لگاتی ہیں  اور جو کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے اسے کہیں دور گڈھے میں پھینک آتی ہیں ـ پوری بستی یہی کام کرتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر جانب ایک صاف ستھرا ماحول ہوتا ہے ـ آپ ننگے پیر اپنے گھر کر باہر کہیں بھی جا سکتے  ہیں لیکن  کیا آپ اپنے شہر میں اس بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں ۔
پیارے بچّو!
اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنے آس پاس کی صفائی میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں ـ سب سے پہلے تو آپ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ  اپنے گھر میں کم سے کم کوڑا اکٹھاہو نے دیں ـ
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں کم سے کم پولتھین کا استعمال کریں ـ پلاسٹک کی یہ تھیلیاں سب سے زیادہ گندگی پھیلاتی ہیں اور نقصان دہ بھی ہوتی ہیں ـ ان تھیلیوں کے کھانے سے  نہ جانےکتنے پالتو جانور اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ـ یہ تھیلیاں سیور میں جاکر اسے بھی جام کر دیتی ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برسات کے دنوں میں نالیوں کا پانی سڑکوں پر آجاتا ہے ـ آپ کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے ـ جب آپ مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کو چھینٹ پڑجانے اور ناپاک ہو جانے کا ڈر ستانے لگتا ہے ـ                          لہٰذا اس سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے والدین اور بڑے بھائی بہنوں کو اس بات کے لئے رضامند کریں کہ وہ بازار سے کپڑوں کے تھیلے میں سامان لائیں ـ ان تھیلوں کو آپ گھر میں ہی دھوکر صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں اورپلاسٹک  کی بازاری تھیلیوں سے اپنے سامان کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں ـ
اگر آپ پلاسٹک کی تھیلیوں کو درکنار کرنا شروع کریں گے تو آپ کے گھروں میں کوڑا کرکٹ کی مقدارخود بخود کم ہونےلگے گی۔ دوسرے کوڑے مثلاً سبزیوں کے چھلکے وغیرہ آسانی سے ری سائکل ہو جاتے ہیں وہ پلاسٹک کی تھیلیوں کی طرح آپ کی جان کا کال نہیں بنتے ـ تجارتی پیشہ وروں اپنے فائدے کے لئے ایک مصیبت سماج کے سر منڈھ دی ہے جو سراسر نقصان کا سودہ ہے ـ اگر پلاسٹک کی تھیلیاں نہ ہوں گی تو آپ ان میں کوڑے بھر کر سڑک پر نہیں پھیکیں گے ـ اور کوڑے والا آپ کی ڈسٹ بن سے براہ راست کوڑا لے جائے گا اور انہیں میونسپلٹی کی مقرر کردہ جگہ پر ٹھکانے لگائے گاجہاں سے میونسپلٹی کی گاڑیاں ان کو ری سایکل کرنے کے لئے لے جا سکیں گی ـ
بچوں! ان باتوں سے آپ نے کیا سیکھا؟ آج میں صرف آپ سے باتیں کرنا چاہتی ہوں اس لئےکہ آپ کی آنکھوں میں مستقبل کا خواب سجتا ہےـ میں جانتی ہوں کہ آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور آپ مختلف  مقامات کی تصاویر اپنے موبائل اور کمپیوٹر یہ دیکھتے ہیں ـ مغربی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی صفائی آپ کے دلوں میں ایک شوق پیدا کرتی ہے کہ کاش میرا ملک بھی اتنا ہی صاف ستھرا  ہوتا ـ ہمارا ملک بہت ہی خوبصورت ہے لیکن ہم نے اپنے ہاتھوں اس میں داغ لگا رکھا ہے ـ ہم کہیں کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے آس پاس کی جگہ کو صاف رکھنا اپنا فرض نہیں سمجھتے ـ ہمیں اگر تھوکنا ہوتا ہے تو کنارے کی جگہ تلاش نہیں کرتے بلکہ اپنے سامنے کی سڑک یا دیوار گندی کر دیتے ہیں ـ
پیارےبچوں! آپ اس بات کا بیڑہ اٹھائیں کہ آپ اپنے آس پاس گندگی نہیں ہونے دیں گے اس گرمی میں مچھر کو اپنے پاس پیماریاں لے کر نہیں آنے دیں گے ـ جہاں  کہیں بھی گندگی دیکھیں   اپنے والدین کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ اس کے لئے آواز اٹھائیں ـ سڑک پر کسی کو کوڑا نہ پھینکنے دیں ـ محبت سے ان کو صفائی کی اہمیت بتائیں اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنے  میں اپنے والدین کی مدد کریں ـ کوشش کریں کہ گھر کے اندر اور گھر کے آس پاس گندا پانی جمع نہ ہو ـ جس میں مچھرپیدا ہو ـ
گھر کے کولر کا پانی بھی روز بدلیں ـ صفائی بہت بڑی نعمت ہیں ـ کیا گندگی دیکھ کر آپ کےاندر کوفت پیدا نہیں ہوتی ـ صفائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں تاکہ اور دیگر بہت ساری بنیادی باتیں اس سے وابستہ ہیں نماز سے قبل وضو صرف اسی لیے کیا جاتا ہے کہ نماز کے لیے پاکیزگی اور صفائی ضروری ہے...

اپنے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کیجئے اور دوسروں کے بھروسے مت رہئے ـ تبھی آپ ایک صاف ستھری اور صحت مندزندگی گزار پائیں گےـ



Wednesday 22 March 2017

تبصرہ خیابان خیال


بہ شکریہ چوتھی دنیا

Tuesday 21 March 2017

بے وقوف مرغا

بے وقوف مرغا
اقصیٰ عثمانی
ایک بار دو چور  رات میں گھوم رہے تھے۔ انہوں نےایک آواز سنی۔  چوروں نے اوپر چھت پر   چڑ ھ کر دیکھا تو ایک مرغا بانگ دےرہا تھا۔ دونوں چور خوشی سے جھوم اٹھے۔ انہوں نے کہا ارے واہ ہمارے لئے کل کی دعوت کا بہترین انتظام ہوگیا۔ وہ اسے ذبح کرکے کھانے کا منصوبہ بنانے لگے۔ مرغا یہ دیکھ کر ڈر گیا ۔وہ ان سے کہنے لگا مجھے مت مارو میں آپ دونوں کو روزانہ صبح سویرے اٹھاؤں گا اور پھر آپ دونوں اپنے کام پر چلے جانا ۔ یہ سن کر چور گھبرا گئے اور انہوں نے فوراً ہی مرغے کو مار ڈالا۔
جانتے ہو بچو! چوروں نے مرغے کو مارنے میں جلدی کیوں کی۔؟
 کیونکہ وہ یہ سن کر ڈر گئے  تھےکہ اب مرغا انہیں اٹھانے کے لئے روز صبح سویرے بانگ دے گا جسے سن کر محلے والے اٹھ جائیں گے اور انہیں چوری کرتے پکڑلیں  گے۔(انگریزی سے ماخوذ)

موسم بہار


Saturday 18 March 2017

Shikayat Ka Anjaam

شکایت کا انجام
اقصیٰ عثمانی
ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ وہ جنگل کا راجہ تھا۔ ایک بار شیر بیمار پڑ گیا ۔ جنگل کے سارے جانور ا سےدیکھنے آئے ۔وہ اس کے لئے طرح طرح کے تحفے لاتے۔شیر انہیں دیکھ کر خوش ہوجاتا۔وہ خود کو اچھا محسوس کرنے لگتا۔اسے دوسروں   کو  اپنی عزت کرتے دیکھ بہت خوشی ہوتی۔ اگر کوئی اس کی عزت نہیں کرتا  تو وہ اس سے بہت ناراض ہوتا۔ اس کی عیادت کے لئے جنگل کے سارے جانور آئے۔لیکن لومڑی کو آنے میں دیر ہو گئی ۔بھیڑیا لومڑی سے نفرت کرتا تھا ۔ کیونکہ لومڑی بھیڑیے سے زیادہ عقل مند اور چالاک تھی۔  بھیڑیے نے سوچا ”کتنا اچھا موقع ہے۔ میں شیر کو لومڑی کے خلاف ورغلا سکتا ہوں۔“لومڑی کو مصیبت میں ڈالنے کے لیے اس نے شیر کو  لومڑی کے بارے میں  ایک جھوٹی کہانی  سنائی ۔جب کہانی ختم ہونے لگی تبھی لومڑی آگئی  اور اس نے  دیکھا  کہ شیر  بہت غصے میں ہے   ۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گئی۔ اس نے بھیڑیے کو سبق سکھانے کی سوچی۔ اس نے کہا ”جہاں پناہ !رکیے یہاں بات کرنے  سے اچھا ہے کی  آپ میری بات پر غور کیجیے، میرے پاس آپ کی بیماری کے لیے ایک علاج ہے۔ آپ کسی  بھیڑیے کی کھال کو اپنے  جسم پر لپیٹ لیجیے۔ یہ آپ کو گرم رکھے گی اور آپ کو اچھا لگے گا ۔“یہ سنتے  ہی شیر چنگھاڑا  اور بھیڑیے کو مار کر اس کی  کھال لپیٹ لی۔بھیڑیا بے چارہ اپنی جان سے گیا۔
سبق: اگر بھیڑیے نے شیر کو جھوٹی کہانی سنانے کے بجائے اس سے سچ بولا ہوتا تو ایسا نہیں 
ہوتا۔ہمیں کسی کی بلا وجہ شکایت نہیں کرنی چاہئے۔
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Gyan - Natique Quadri

گیان
ناطق قادری
چلو نا، پکچر دیکھنے چلیں۔ پاکیزہ لگی ہوئی ہے۔
چلو نا،  ٹیبل ٹینس دیکھنے چلیں-
چلو نا، گھر چلیں۔
مگر وہ سگریٹ کے کش لیتا رہا، پر سکون اور خاموش تالاب میں تیرتی ہوئی چھوٹی  چھوٹی مچھلیوں کو تکتا رہاسبھی جاچکے تھے۔
اب وہ تنہا تھا۔اسے کچھ سکون ملا۔ اس نےدوسرا سگریٹ سلگایا۔ اس کا داہنا ہاتھ بار بار پیشانی پر جاتا کچھ دیر ٹھہرتا پھر ہٹ کر  تالاب کے کنارے اُگی ہوئی دوب کو نوچنے میں مصروف ہو جاتا۔ تبھی فضا میں ایک آواز ابھری۔
”تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔“
جیسے اس کا منتظر رہا ہو۔مگر اس کی پیشانی پر ننھی ننھی بوندیں نمو دار ہونے لگیں۔ہونٹ سختی سے بند ہو گئے۔اُس کے چہرے پر غصّہ اور بے چارگی کے لشکر حملہ آور تھے۔اس نے سر کو جھٹکا دیا۔ پیشانی کی بوندیں تالاب میں جا پڑیں۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اس طرف تیزی سے دوڑیں۔ مگر وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔بوندیں تالاب کا جز بن چکی تھیں۔بوندیں اپنا وجود کھو چکی تھیں۔
وہ پیر پھیلا کر لیٹ رہا۔ آنکھیں بند کئے نہ جانے کتنی دیر وہ پڑا رہا۔ یکایک اس نے آنکھیں کھول دیں اور جب اس کی آنکھیں کھلیں تووہی آواز پھر موجود تھی۔”تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔“
اس بار اس نے نہایت دھیمے لہجے میں جواب دیا۔
”مجھے ایسا ہی کرنا چاہے تھا۔“
تم تو ہر بات جانتے ہو۔ذرا سوچو تو
مشاہرہ دو ہزار روپے
بیوی خوبصورت، ضدی اور بدھو
ساڑی کی قیمت ”پانچ سو روپے“
تمہی بتاؤ میں کیا کرتا۔
تم تو ہوا کے دوش پر ادھر سے ادھر گھومتے پھرتے ہو۔ہم جیسے انسانوں کو تنگ کرنا تمہارا کام ہے۔
ذرا گھر بسا کر دیکھو۔ نوکری کر کے دیکھو دو ہزار روپیہ ماہوار مشاہرہ پاکر ایک خوبصورت اور جان نچھاور کرنے والی بیوی کا شوہر بن کر اور بمبئی کلاتھ اسٹور کی رنگ برنگی ساڑیوں کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے گزر کر دکھلاؤ؟
کیوں؟ چُپ ہوگئے؟
اس کی آواز خاصی تیز ہو گئی تھی۔
پاگل معلوم ہوتا ہے۔
تالاب کے دوسرے سرے پر نہ جانے کب سے آکر بیٹھی ہوئی بچوں کی ٹولی میں سے ایک منچلے لڑکے نے ریمارک پاس کیا۔وہ چُپ ہوگیا۔
اُس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
اسے سکون چاہئے تھا۔ وہ سب کچھ بھول جانا چاہتا تھا۔شام کو اپنے مکان میں واپس بھی جانا تھا۔ مگر وہاں! تو!،۔۔۔
سورج غروب ہونے والاتھا۔ دن کو ”موت“آنے والی تھی۔
اس نے سوچا۔ بستر مرگ بھی کبھی کبھی کتنا حسیں ہو جاتا ہے۔جیسے یہ شام، دن کا بستر مرگ۔ کتنی بھلی کتنا حسین
مگر وہ زیادہ دیر نہیں سوچ سکا۔وہ اس ہولناک  چیخ کی طرف متوجہ ہوگیا۔
ایک بکری چیختی ہوئی ایک سمت بے تحاشہ بھاگی جارہی تھی۔ وحشت اور خوف سے مغلوب بکری بے تحاشے بھاگی جارہی تھی۔ اس کی دردناک چیخیں سناٹے کو کھائے جارہی تھیں۔بچوں کی ٹولی پرسکون تالاب میں متواتر پتھر پھینک رہی تھی۔
بکری کے پیچے ایک موٹا سا کریہہ صورت شخص موٹا ڈنڈا لئے دوڑا جا رہا تھا۔رک جا ورنہ تیری دوسری ٹانگ بھی توڑ دوں گا۔ اُس نے ہانپتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا تھا تبھی اس کی نظر بکری کی مجروح ٹانگ پر پڑی جہاں پٹی بندھی تھی اور ڈھیر سے ہلدی چونا لگے تھے۔
یہ دیکھ کر وہ رو پڑا ۔اپنے کئے پر رو پڑا۔ اپنے ہاتھ کو دیکھ کر رو پڑا۔
بکری میں میں کرتی ہوئی وحشی ہرن کی طرح بھاگی جا رہی تھی۔وہ اسے دیکھ رہا تھا ۔ اس منظر نے اس کے پریشان ذہن کو اور پریشان کردیا تھا۔ اس نے سوچا یہ تو چوپایا ہے۔چار ٹانگوں والی ہے  مگر جس کی صرف دو ٹانگیں ہیں۔
وہ کہاں بھاگے؟ کیسے بھاگے؟
اور پھر اس کی نظر میں اس کے اپنے کمرہ کا منظر گھوم گیا۔ بے چین ہوکر اس نے اپنی پیشانی کو ملنا شروع کردیا۔
اس نے دیکھا  ایک گھنے پیپل کے سایہ میں بکری دم لے رہی تھی۔ بکری نے گھوم کر پیچھے دیکھا۔ وہ موٹا شخص نظر نہیں آیا۔ وہ سستانے لگی۔ اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی۔
ڈنڈا لئے ہوئے وہ موٹا شخص پاس کی جھاڑی سے نکل کر دبے پاؤں ا س درخت کی طرف آرہا تھا جہاں بکری تھک کر بیٹھ گئی تھی۔
کہیں دور کوئل نہ جانے کس کا ذکر کر رہی تھی۔
یکایک بکری اٹھ کھڑی ہوئی ، مگر موٹے شخص کا مضبوط اور کھرد را ہاتھ اس کی گردن پر جا پڑا تھا۔اس کی درد ناک چیخ نے ایک بار پھر سناٹے کاوجود ہلا کر رکھ دیا تھا۔
چیخ سن کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے قدم اس پیپل کے درخت کی طرف بڑھنے کو بیتاب ہو گئے۔
ابھی وہ اس درخت سے کچھ ہی فاصلے پر تھا  کہ اس کے قدم رک گئے ۔
کریہہ صورت والے شخص نے موٹے ڈنڈے کو دور پھینک دیا تھا۔ بکری کی گردن میں دونوں ہاتھ حمائل کرکے اس کے سر کو اپنی پیشانی ے رگڑ رہا تھا اور کچھ آہستہ آہستہ بولتا جا رہا تھا۔وہ بکری کی پیٹھ کو تھپک رہا تھا اور اس کی مجروح ٹانگ کو اپنے ہاتھوں سے سہلا رہا تھا۔بکری کی آنکھوں میں آنسو تھا۔
وہ بھی دبی زباں سے اوں اوں میں میں کررہی تھی اور بار بار اپنی پیشانی اس شخص کی گردن پر رگڑ رہی تھی۔
جب وہ پیپل کے پاس پہنچا تو دونوں پاس کی بستی کی طرف جاتے دکھائی دیے۔ بستی کے کچے مکانوں سے دھنواں نکل رہا تھا۔ دونوں گم سم تیز تیز بستی  کی طرف جا رہے تھے۔
وہ کچھ دیر کھڑا اپنی کیفیتوں کا جائزہ لیتا رہا۔وہ گھنے پیپل کے نیچے تھا۔ گھنے پیپل کے سایہ میں شام بھی رات معلوم ہونے لگی تھی۔ اس نے پیپل کے درخت کو دیکھا۔ اس نے سوچا مہاتما بدھ نے اسی کے نیچے روشنی پائی تھی یکایک اس نے محسوس کیا  کہ جیسےاس کا دل بالکل ہلکا ہوگیا ہو۔اسے ”گیان“ مل گیا ہو۔
اب وہ  دوڑ رہا تھا۔
کھیت ، پگڈنڈی پار کرکے اب وہ ایک چوڑی سڑک پر آگیا تھا۔اس نے دوڑنا کم کردیا تھا تب بھی اس کی رفتار میں کافی تیزی تھی۔اس نے گلی پار کی۔ ایک۔ دو۔ تین۔۔پھر وہ ایک پر رونق بازار میں آگیا۔ بمبئی کلاتھ اسٹور کے پاس اس کےتیز قدم سست پڑگئے۔ اس نے لٹکتی ہوئی خوشنما ساڑیوں کا جائزہ لیا۔پھر چل پڑا۔
تیز تیز
اس نے تین چار گلیاں پار کیں۔
اور اب وہ ایک مکان کے دروازے پر کھڑا اپنی سانسوں کی آمد و رفت پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔
دروازہ بغیر کھٹکھٹائے کھل گی جیسے کوئی دروازہ سے لگ  کر اس کا منتظر بیٹھا تھا۔دروازہ کھولنے والی پچیس برس کی دلکش عورت تھی۔اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ اس نے ابھی ابھی اپنے آنسو پوچھے ہیں۔وہ واپس ہوئی تو وہ لنگڑا کر چل رہی تھی۔ وہ اندر گیا۔لڑکی کے چہرے سے جھلاہٹ ، بے چارگی اور یاس و غم کے ساتھ ساتھ حیرت بھی نمایاں تھی۔
وہ کچھ دیر کھڑا اس کو دیکھتا رہا۔ عورت نے نظریں نیچی کر لیں۔اس کا چہرہ شکائیتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔اس کی آنکھیں شبنمی ہو چلی تھیں۔
وہ اس کے اور قریب ہو گیا۔

دفعتاً و ہ جھک پڑا ۔ اس نے اس کی ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پھر جھک کر اس کی مجروح ٹانگ پر جہاں ہلدی چونا لگے تھے اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ عورت مبہوت کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں کے کٹورے چھلک پڑے۔ مگر ساتھ ساتھ اس کے ہونٹوں پر ایک نہایت لطیف تبسم کا جنم ہورہا تھا اور رخسار پر حیا کی شفق نمودار ہونے لگی تھی۔

میں مصوّر ہوں ۔ صحبہ عثمانی


Sehba Usmani, Class; VI-B
KKG Public School. Zakir Nagar, New Delhi

Thursday 16 March 2017

Hasid Bakra

حاسد بکرا
اقصیٰ عثمانی


ایک بکرا اور گدھا ایک فارم میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ بکرے کو اپنےکھانے کا انتظام خود  ہی کرنا پڑتا تھا جبکہ گدھا  خوب محنت سے کام کرتا تھا اس لئے اس کا مالک اس سے خوش ہو کر  اسے کھانا دیا کرتا تھا۔یہ دیکھ کر بکرا اس گدھے سے  حسد کرنے لگا۔گدھا سخت محنت کر جنگلوں سے بکرےکے لئے گھاس لایا کرتا تھا۔لیکن حسد میں اسے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ گدھے کی سبھی خوبیوں کو بھول کر اس نے سوچا کہ اگر گدھا  کام کرنا چھوڑ دے تو اس کے حصّہ کا کھانا بھی اسے مل جائے گا۔اس لئے  ایک دن بکرے نے گدھے کو ایک گہرےگڈھے میں ڈھکیل دیا۔ گدھے کو گہری چوٹ لگ گئی ۔ اس کا مالک اس گدھے کو علاج کے لئے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا۔ ڈاکٹر نے گدھے کی حالت دیکھ کر کہا کہ اسے جلد سے جلد  اچھا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  اسے کھانے کے ساتھ بکرے کا جوس پلایا جائے۔ کسان کو اپنا گدھا بہت پیارا تھا اس نے فوراً ہی بکرے کو ذبح کرڈالا ۔ اور اس کے لئے جوس تیار کرنے لگا۔ اس طرح حسد نے بکرے کی جان لے لی۔گدھا گھاس کھاتا تھا بکرے کا جوس اس کے کسی کام نہ آیا۔

(انگریزی سے ماخوذ)
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

میں مصوّر ہوں ۔ فبیٰ


Fabiya, KKG Public School, Class VI-B
Zakir Nagar, New Delhi-110025

خوش خبری