آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 24 March 2020

Aadmi Ki Kahani - NCERT Solutions Class X Urdu

آدمی کی کہانی
Courtesy NCERT
آج کل کے عالم کہتے ہیں کہ ہماری دنیا پہلے آگ کا ایک گولا تھی، اُس آگ کا نہیں جو ہمارے گھروں میں جلتی ہے ۔ یہ ایک اور ہی آگ تھی جو بن جلائے جلی اور بن بجھائے بجھ گئی ۔ شاید یہ وہ چیز تھی جسے ہم بجلی کہتے ہیں ۔ لیکن کبھی نہ کبھی دنیا آگ کا گولا تھی ضرور، کیوں کہ ہمیں ایسے ہی لاکھوں، کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری زمین پر اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ اگل دیتے ہیں یا زمین کے اندر سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ دوسرے آگ کے گولے جو دنیا سے بہت بڑے اور بہت زیادہ پرانے ہیں، اب تک آگ ہی آگ ہیں ۔ دنیا میں یہ آگ، پانی اور زمین کیوں بن گئی یہ ہمیں نہیں معلوم ۔ بس ہماری قسمت میں کچھ یہی لکھا تھا۔
ہاں تو پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑگئی ۔ بھاپ اور دوسری گیسیں پانی ہوگئیں ۔ جو زیادہ ٹھوس حصہ تھا، وہ چٹان بن گیا۔ یہ سب ہوا کب ؟ آج کل کے عالم زمین کی ساخت سے ، چٹانوں اور دھاتوں سے کچھ حساب لگا سکتے ہیں لیکن یہ حساب سنکھ دس سنکھ برس کے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ بے چارے آدی کی کھوپڑی میں سائنس کا یہ حساب سما نہیں سکتا۔
دنیاجب سرد پڑ گئی تو کہیں سے سمندر کی تہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا ۔ وہاں وہ پھٹا  اور پھلا پھولا ۔ لاکھوں کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے۔ آہستہ آہستہ یعنی وہی لاکھوں کروڑوں برس میں اس نے پودوں اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر یعنی سانس لے کر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ پودے اونچے ہونے لگے اور سر اٹھا کر آسمان کی طرف لپکے۔ جو کیڑے تھے وہ مچھلی بن کر تیرے ۔ اتھلے پانی میں پاؤں کے بل چلے، خشک زمین پر رینگنا شروع کیا۔ ہوا میں پرند بن کر اڑے ، چوپایوں کا روپ لے کر دوڑنے لگے۔ کہتے ہیں کہ اتھلے پانی اور خشکی میں زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیانک تھیں۔ چالیس فٹ لمبے مگر مچھ، بیس بیس ہاتھ اونچے ہاتھی، کسی جانور کی گردن اتنی لمبی  کہ ہوامیں اڑتے پرندوں کو پکڑ لے، کسی کا منہ دم کے سرے تک سوفٹ سے زیادہ لمبا ہو گا۔ ان جانوروں کو جو نام دیے گئے ہیں وہ بھی ایسے بھیانک ہیں بَرنٹُو سَورَس ، اِگتھیو سَورس میگسلو سَورَس وغیرہ لیکن دنیا کو شاید اپنی یہ اولاد پسند نہ تھی۔ یا یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہوگیا ۔ بہر حال وہ غائب ہوگئے اور جب تک آج کل کے سائنس دانوں کو ان کی ہڈیاں نہیں ملیں کسی کو پتا بھی نہ تھا کہ ایک زمانے میں ایسے دیو اور اژدہے ہماری دنیا میں آباد تھے۔
خشکی پر ان بڑے جانوروں کے بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤ نے مگر ان میں آج کل کے جانوروں کی یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں دودھ پلا کر پالتے تھے۔ ایسے جانور پہلی قسم کے جانوروں سے زیادہ سخت جان نکلے اور دنیا کی مصیبتوں کو چھیل لے گئے، پھر بھی ان کی بہت سی قسمیں مر مٹیں۔ جو باقی بچیں، ان کے بھی جسموں میں ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں کہ وہ موسم کی سختیوں کو اچھی طرح برداشت کرسکیں اور دوسرے جانوروں سے اپنی جان بھی بچا سکیں۔ اس طرح ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل پائی ہوگی جو آدمیوں کی شکل سے کچھ ملتی ہوگی ۔ جانوروں کی اس قسم کو آسانی سے بن مانس کہہ سکتے ہیں ۔ ان بن مانسوں نے چار پیروں کی جگہ دو پیروں سے چلنا سیکھا اور اگلے دو پیروں سے پکڑنے، اٹھانے اور پھینکنے کا کام لینے لگے۔ قدرت نے ان کی مدد کی اور ان کے اگلے دو پیر پنجوں کی طرح ہو گئے ۔ ان کی زبان بھی کچھ کھل گئی اور وہ دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ ہوشیار ہو گئے۔
یہ سب ہزاروں برس میں ہوا اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا کی آب و ہوا بدلی۔ وہ ایسی ٹھنڈی پڑی کہ اس کا بہت سا حصّہ برفستان ہوگیا اور برف کے کھسکتے پھسلتے پہاڑوں نے سب کچھ اپنے تلے روند ڈالا ۔ پھر گرمی آہستہ آہستہ بڑھی ۔ برفستان پگھل کر سمندر ہو گئے اور زندگی پھر ابھری اور پھیلی ۔ اس طرح چار مرتبہ ہوا اور اس وقت زمین میں کئی سو گز نیچے تک میں جو کچھ ملتا ہے وہ انھی گرمی اور سردی کے پھیروں کی داستان سناتا ہے۔ اس زمانے میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بن مانسوں کا برا حال ہوا ہوگا۔ ان میں سے بعض کی ایک دو بڈیاں برف کے نیچے اور جانوروں کی ہڈیوں کے ساتھ دفن ہوگئیں اور اب زمین کے اندر بہت دور پڑی ہیں ۔ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کروڑ یا لاکھ برس پہلے آباد تھے اور ان کے زمانے میں زمین کی کیا صورت تھی لیکن انھوں نے اس دوران میں شاید دو چار باتیں سیکھ لی تھیں جو بہت کام کی تھیں۔ کہیں جنگلوں کو جلتے دیکھ کر انھوں نے پتہ لگا لیا تھاکہ آگ کیسے جلاتے ہیں اور پھر وہ اپنی کھوہوں اور غاروں میں آگ جلا کر تاپنے لگے اور اس میں جانوروں کا گوشت اور شاید چند پھلوں اور چیزوں کو بھوننے لگے۔ وہ پتھروں کو گھس کر ان سے بھونکنے، چھیلنے اور کاٹنے بھی لگے اور اس نے ان کی زندگی کو کچھ اور آسان کر دیا ۔ آج کل کا علم بتاتا ہے کہ ہم انھی بن مانسوں کی اولاد ہیں اور جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے ہی بن مانس آدمی ہو گئے لیکن آج کا علم بن مانسوں کی کسی ایک قسم سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہیں تو ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لیکن ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔
(پروفیسر محمد مجیب)
خلاصہ:
اس سبق میں بتایا گیا ہے کہ ہماری دنیا پہلے آگ کا ایک گولا تھی ۔ یہ ایک ایسی آگ تھی جو بن جلائے جلی اور بن بجھائے بجھ گئی۔ لاکھوں کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری زمین پر اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ اگل رہے ہیں۔ زمین کے اندر سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں ۔ دوسرے آگ کے گولے جو دنیا سے بہت بڑے اور بہت زیادہ پرانے ہیں، اب تک آگ ہی آگ ہیں ۔ دنیامیں یہ آگ، پانی اور زمین کھول بن گئی۔ پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑ گئی تو کہیں سے سمندر کی تہہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا۔ وہاں وہ پھٹا اور ہھلا پھولا۔ کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے۔ آہستہ آہستہ اس نے پودوں اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر سانس لے کر زندہ ۔ رہنے کی صلاحیت پیدا کی ۔ پودے او نیچے ہونے لگے۔ کچھ کیڑے مچھلی بن کر تیرے، پچھے پرند بن کر اڑے، کچھ چوپایوں کا روپ لے کر خشکی پر دوڑنے لگے۔ پانی اور خشکی میں زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیا نک تھیں ۔ چالیس فٹ لمبے مگر مچھ بیس بیس ہاتھ ہاتھ اونچے ہاتھی کسی جانور کی گردن اتنی لمبی کہ ہوا میں اڑتے پرندوں کو پڑے۔ ان جانوروں کو جو نام دیئے گئے وہ بھی بھیانک تھے۔ یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہوگیا۔ خشکی پران بڑے جانوروں کے بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤنے مگر ان میں آج کل کے جانوروں کی یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں دودھ پلاتے تھے۔ ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل پائی ہوگی جو آدمیوں سے کچھ ملتی ہوگی ۔ یہ سب ہزاروں برس میں ہوا۔ آج کل کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہم انہی بن مانسوں کی اولاد ہیں اور جیسے جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے ہی بن مانس آدی ہو گئے۔ لیکن آج کا علم بن مانس کی کسی ایک قسم سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔
پروفیسر محمد مجیب
(1902-1985)
محمد مجیب لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ 1918 میں سینیر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ 1919 میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ گئے۔ 1922 میں بی ۔ اے آنرس پاس کیا۔ لندن میں انھوں نے فرانسیسی اور لاطینی یھی۔ وہاں سے برلن گئے اور چینی زبان میں بھی کمال حاصل کیا۔
وطن واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد مقرر ہوئے ۔ 1948 میں انھوں نے شیخ الجامعہ کی نئے داری سنبھالی اور ای عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
نھیں کتب بینی، فن تعمیر ، سنگ تراشی، مجسمہ سازی، مصوری ، موسیقی اور باغبانی سے دی تھی ۔ علمی میدان میں تاریخ نگاری ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ دنیا کی کہانی (1931)، تار فلسفه سیاست (1936)، تاریخ تمدن ہند (1957) اور روی ادب کی تاریخ دو جلدیں (1960) ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ پروفیسر مجیب کو ادب سے بھی گہری دی تھی۔ انھوں نے ڈرامے پر خصوصی توجہ دی اور آٹھ ڈرامے لکھے۔ ان میں سے کیت، انجام ، خانہ جنگی اور آزمائش جامعات کے نصاب میں شامل رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے ایک ڈراما ” أو ڈراما کر میں بھی لکھا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے جن میں کیمیاگر، باغی، چراغ راه ، اند میرا اور تھر مقبول ہوئے۔ وہ ایک کامیاب مترجم بھی تھے۔ ان کی قومی، علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کا خطاب دیا۔
معنی یادکیجیے:
آتش فشاں : آگ اگلنے والا
ساخت : بناوٹ
سنکھ : سوکھرب
کھوپڑی میں نہ سمانا : سمجھ میں نہ آنا
صفت : خاصیت
سخت جان : تکلیف  برداشت کرنے والے

تلے : نیچے
داستان : لمبی کہانی فکشن کی ایک قسم
گھوہ :  غار
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہونا : ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھنا، ایک ہی جیسی خصوصیات رکھنا
قدیمی :  پرانا، قدیم
غور کیجیے:

ہماری دنیا ایک دم نہیں بن گئی بلکہ اس کے بنے میں خاصہ وقت لگا ہے اور یہ درجہ بہ درجہ اپنی تکمیل کو پینی ہے۔ یہ دنیا انسان اور حیوان کبھی کے لیے بنائی گئی ہے۔ کبھی جانداروں کو جینے کا حق حاصل ہے۔

سوچنے اور بتایئے:
1. زمین سے بڑے آگ کے گولے کون سے ہیں؟ 

2۔ زمین کی بناوٹ سے زمین کی عمر کا اندازہ کس طرح لگایا جاسکتا ہے؟ 

3۔ زمین پر مختلف جانداروں کی نشوونما کیسے ہوئی؟ 

4. دودھ پلانے والے جانور بڑے بڑے بے ڈول جانوروں سے زیادہ سخت جان کیوں نکلے؟ 

5۔ زمین کے برفتان بن جانے پر جانداروں کا کیا حال ہوا؟ 

6۔ آگ جلاناسیکھنے کے بعد انسانی زندگی میں کیا تبدیلی ہوئی؟
نیچے لکھے ہوئے محاوروں اور کہاوتوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
 کھوپڑی میں نہ سمانا
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہونا
بھیس بدلنا
عملی کام:
زمین پر پائے جانے والے مختلف قدیم جانوروں کی تصویریں جمع کیجیے۔




کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 22 March 2020

Rubaiyat - NCERT Solutions Class X Urdu


رباعیات
(1)
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتاہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
 جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتاہے

(2)
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
 جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
میر انیس
(1802 - 1874)

میر انیس فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میر ببرعلی تھا۔ ان کے والد میرخلیق بھی ایک معروف مرثیہ گو تھے۔ مرثیہ گوئی کی تاریخ میں میر انیس کا بڑا مرتبہ ہے۔ انیس کے مرثیے کی بہت سی خوبیوں میں بیان کی صفائی ، سلاست اور جذبات نگاری کی خاص اہمیت ہے۔ مناظر فطرت کی تصویر کشی اور ڈرامائی تاثر کو ابھارنے میں بھی انھیں بڑی مہارت تھی۔
میر انیس نے مرثیوں کے علاوہ رباعیاں، نوحے اور سلام بھی لکھے ہیں لیکن اردو شاعری کی تاریخ میں وہ اپنے مرثیوں کی ہی وجہ سے ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔

مشق
معنی یادکیجیے:
رتبہ : مرتبه، درجه
فروتنی : انکساری، عاجزی
تہی مغز : جن کا دماغ خالی ہو، مراد کم عقل لوگ
ثنا :  تعريف
 ظرف : برتن
 صدا : آواز
سرائے : مسافروں کے ٹھہرنے کی جگہ
فانی : مٹ جانے والا

غور کیجیے:

* عربی میں چار کو اربع کہتے ہیں ۔ رباعی میں چار مصرعے ہوتے ہیں ، اس لیے اسے رباعی کہا جاتا ہے۔
*  رباعی کے پہلے ، دوسرے اور آخری مصرعے کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔
 رباعی کی ایک خاص ہیئت ہوتی ہے اور اس کے اوزان بھی مقرر ہیں۔

سوچیےاوربتایئے:

1. دل میں فروتنی کوجگہ کون دیتا ہے؟
جواب: اعلیٰ مقام پر بیٹھا ہوا شخص  جسے خدا دنیا میں رتبہ عطا کرتا ہے وہ اپنے بڑے پن سے اپنے اندر فروتنی کو جگہ دیتا ہے۔

 2. اپنی ثنا آپ کون کرتا ہے؟
جواب: ایک کم ظرف انسان ہی اپنی ثنا آپ کرتا ہے۔

 3. خالی ظرف کے صدا دینے سے کیا مراد ہے؟
جواب: خالی ظرف کے صدا دینے سے شاعر کی مراد یہ ہے کہ جو انسان جتنا  ہی ہلکا یعنی کم ظرف ہوتا  ہے وہ اپنی بڑائی اتنا ہی زیادہ بیان کرتا ہے جیسے کہ ایک خالی برتن کے گرنے سے تیز آواز پیدا ہوتی ہے۔

4. شاعر نے دنیا کو سرائے فانی کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر نے دنیا کو سرائے فانی اس لیے کہا ہے کہ کوئی بھی دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا ہے اور ہر شخص کو ایک دن مرنا ہے۔دنیا میں انسان کچھ دنوں کا مہمان ہے اور دنیا اس کے لیے دنیا ہمیشہ نہ رہنے والی ایک سرائے ہے۔

5. بڑھاپا اور جوانی کے لیے شاعر نے کیا فرق بتایا ہے؟
جواب: شاعر نے بڑھاپے اور جوانی میں یہ فرق بتایا ہے کہ بڑھاپا ایک بار آجائے تو پھر وہ نہیں جاتا اور جوانی ایک بار چلی جائے تو پھر وہ واپس نہیں آتی۔

عملی کام:
انیس  کے علاوہ دوسرے رباعی گو شعرا کی رباعیاں پڑھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Hasti apni Hubab ki si hai -NCERT Solutions Class10 Urdu

غزل

ہستی اپنی حباب کی سی ہے #####یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے #####  پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
 بار بار اس کے در پر جاتا ہوں #####حالت اب اضطراب کی سی ہے
 میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز  #####اسی خانہ خراب کی سی ہے  
میر اُن نیم بازآنکھوں میں
 ساری مستی شراب کی سی ہے
(میر تقی میر)
میرتقی میر
(1722 - 1810)

میر تقی میر آگرہ میں پیدا ہوئے ۔ ابھی  بچّے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ کچھ دن بعد وہ دلی میں آ بسے۔ دلی کی زندگی میں جب انتشار پیدا ہونے لگا تو میر تلاش معاش میں لکھنؤ چلے گئے۔ باقی زندگی لکھنؤ ہی میں گزاری اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ میر کلاسیکی اردو غزل کے ایک بڑے شاعر ہیں ۔ وہ اردو غزل کے امام سمجھے جاتے ہیں ۔ سادہ اور عام فہم الفاظ میں سوز و گداز کی کیفیات پیدا کرنے میں میر کا کوئی ثانی نہیں ۔ غزلوں کے علاوہ شاعری کی دوسری اصناف میں بھی انھوں نے خوب جوہر دکھائے ہیں ۔ ان کی مثنویوں ’بہارِعشق‘،’ شعلۂ عشق‘ اور ‘دریائےعشق‘ کو بھی بہت شہرت ملی۔ فارسی میں اردو شعرا کا ایک تذکره، ” نکات الّشعرا“ اور ”ذکرِ میر“ کے عنوان سے اپنی سوانح حیات بھی لکھی ہے۔ انھیں خدائے سخن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

م’شق
معنی یاد کیجیے:
ہستی : وجود
نازکی : نزاکت
حباب : بلبله
نمائش : دکھاوا، مراد دنیا
اضطراب  : بے چینی 
خانہ خراب  : جس کا گھر برباد ہو گیا ہو ،مراد عاشق 

غور کیجیے:
* غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلصں استعمال کرتا ہے، اسے مقطع کہتے ہیں۔
* تیز دھوپ میں ریگستان کو دیکھیں تو کچھ دوری پر پانی چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ یہ در اصل ریت ہی ہوتی ہے ، پانی ہونے کا صرف دھوکا ہوتا ہے۔ اسی کو سراب کہتے ہیں اور اسی وجہ سے سراب کے ایک معنی دھو کا‘ ہیں۔
* غزل کے دوسرے شعر میں ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی جیسا بتایا گیا ہے، اسے تشبیہ کہتے ہیں۔

سوچیے اور بتایئے:
 1. انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: انسانی زندگی کی حیثیت پانی کے ایک بلبلے جیسی ہے۔

 2. بے چینی کے عالم میں شاعر پر کیا بیت رہی ہے؟
جواب: شاعر عالم اضطراب یعنی بے چینی کے عالم میں بار بار اپنے محبوب کے گھر پر جاتا ہے۔

3. شعر میں خانہ خراب کسے کہا گیا ہے؟
جواب: اس شعر میں شاعر نے اپنے آپ کو خانہ خراب یعنی ایک ایسا شخص جس کا گھر برباد ہوگیا ہو سے تعبیر کیا ہے۔

عملی کام:
* آپ جانتے ہیں کہ کسی چیز ، آدمی یا جگہ کے نام کو اسم کہا جاتا ہے۔ میر کی غزل میں جتنے اسموں کا استعمال ہوا ہے، ان کی ایک فہرست بنائے۔
* میر کے کچھ اور اشعار یاد کیجیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Saturday 21 March 2020

Koi Umeed Bar Nahi Aati - Ghalib - NCERT Solutions Class 10 Urdu


کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی اُمّید بَر نہیں آتی
 کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معیّن ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

 آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

 ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں 
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

 کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب 
شرم تم کو مگر نہیں آتی


مرزا غالب
(1797 - 1869)
مرزا اسد اللہ خاں غالب کی ولادت آگرے میں ہوئی ۔ ابھی وہ بچے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ۔ شادی کے بعد غالب دہلی آگئے ۔ یہاں کے علمی اور ادبی ماحول میں ان کے شعری ذوق کی تربیت ہوئی۔ بہت جلد انھوں نے اپنی الگ پہچان بنالی اور اعلیٰ ادبی مقام حاصل کرلیا۔ غالب نظم اور نثر دونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ دونوں میں ان کا انداز بہت منفرد اور دل کش ہے۔
خیال کی بلندی، مضمون آفرینی اور شوخی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ان کی شاعری میں انسان کے وجود اور اس کی دنیا کے گہرے مسئلوں کا بیان ملتا ہے۔ غالب جتنے بڑے مفکر تھے اتنے ہی بڑے فنکار بھی تھے۔ اپنے کلام کی وسعت کے ساتھ ساتھ غالب اپنی صناعی اور اپنی طباعی کے لیے بھی ہمشیہ یاد رکھے جائیں گے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غالب نے جو بلند مرتبہ شاعری میں حاصل کیا وہی مرتبہ ان کی نثر کوبھی حاصل ہے۔
’دیوان غالب‘ میں بمشکل دو ہزار اشعار ہیں لیکن غالب ہندوستان ہی نہیں دنیا کے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے خطوط کے مجموعے ”اردو معلّےٰ“ اور ”عود ہندی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔

مشق
معنی یاد کیجیے:
اُمید بر نہ آنا : أميد پوری نہ ہونا
صورت : تدبیر، طریقہ
معيّن : طے شدہ
مگر : شاید

غور کیجیے:

’آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی‘
 یہاں ’آگے‘ کے معنی ’پہلے‘ کے ہیں۔

 ’ورنہ کیا بات کر نہیں آتی‘
یہاں ’کر‘ کے معنی ہیں ’کرنا‘ ۔ یہ پرانا طریقہ ہے۔ آج کل اس کا استعمال اس طرح نہیں ہوتا۔

سوچیے اور بتایئے:
 1. ’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہاں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اُسے اپنی بیماری کے ٹھیک ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے اور اب ہر جانب سے وہ مایوس ہو چکا ہے۔


2۔ دوسرے شعر کا مفہوم بیان کیجیے۔
جواب: اس شعر میں غالب کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موت کا ایک دن معین ہے یعنی موت اپنے وقت پر آنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا دن اور وقت معین کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود انسان رات بھر اپنی موت کے خوف سے سو نہیں پاتا اور اسے ساری رات نیند نہیں آتی ہے۔


3. کعبے جانے سے شاعر کو شرم کیوں آتی ہے؟
جواب: اس شعر میں کعبے جانے سے مراد شاعر کا خدا کے سامنے جانے سے ہے۔ وہ خود سے مخاطب ہے کہ تم نے دنیا کے کون سے گناہ چھوڑے ہیں اور اب تم کعبے جانے کی بات کر رہے ہو۔وہ اپنے گناہوں کو یاد کرکےنادم ہے، وہ کہتا ہے کہ ان سب سے باوجود تم نے ابھی تک اپنے گناہوں سے منہ نہیں موڑا ہے۔۔

عملی کام:
اس غزل کے قافیے اپنی کاپی میں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Awanti - NCERT Solutions Class X Urdu

اَوَنتی

Courtsey NCERT
اونتی ایک خوش مزاج اور ہنس مکھ شخص تھا۔ غریبوں کا تو وہ بہت ہی عزیز دوست تھا۔ اس لیے لوگ اس سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بعض لوگ اس سے حسد کرتے تھے اور اس کو چڑھانے اور نیچا دکھانے کی تاک میں لگے رہتے تھے۔ لیکن اونتی اپنی سوجھ بوجھ سے الٹا انھیں کو قائل کر دیتا تھا۔
ایک بار اونتی کا مذاق اڑانے کے لیے ایک آدمی نے اس سے کہا ” اونتی! رات کو سو رہا تھا تو میرا منہ کھلا رہ گیا! اسی وقت ایک چوہا آیا اور میرے منھ میں گھس کر میرے پیٹ میں چلا گیا۔ اب تمہیں بتاؤ میں کیا کروں ۔“
اونتی نے فوراً جواب دیا۔ ”میرے دوست، بس ایک ہی علاج ہے۔ تم ایک زندہ بلّّی کو پکڑ کر اسے نگل جاؤ۔“
ایک بار اونتی کسی دوست کی بارات میں گیا۔ بارات والوں کو بہت اچھا کھانا کھلایا گیا۔ اونتی نے بھی خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاتے وقت اس نے دیکھا کہ ایک مہمان مٹھائیاں صرف کھا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جیب میں بھی بھرتا جا رہا ہے۔ اونتی بھلا ایسے موقعے پر کب چوکنے والا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چائے کی کیتلی اٹھا کر اس مہمان کی جیب میں انڈیلنے لگا تو وہ ناراض ہو کر بولے۔”  یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘ چائے انڈیلتے انڈیلتے اونتی نے بھولے پن سے جواب دیا” بھائی، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہا ہوں۔ آپ کی جیب نے بہت ساری مٹھائیاں کھائی ہیں اس لیے اسے پیاس بھی ضرور لگی ہوگی ۔ میں اسے چائے پلا رہا ہوں ۔“
ایک بار اونتی کے ملک میں تین غیرملکی تاجر آئے۔ اس ملک کے بادشاہ کے دربار میں آ کر انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہمارے سوالوں کے جواب دیئے جائیں ۔ وہاں کوئی ان کے سوالوں کا جواب نہ دے سکا۔ یہاں تک کے بادشاہ بھی ا لجھن میں مبتلا ہو گیا۔ کسی نے بادشاہ کو رائے دی کہ اونتی کو بلایا جائے وہی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے۔ بادشاہ نے اونتی کو بلانے کی اجازت دے دی۔ ہاتھ میں لاٹھی لیے اپنے گدھے پر سوار اونتی در بار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے تاجروں کے سوالوں کا جواب دینے کا حکم دیا۔ اونتی نے کہا کہ تاجر اپنے سوال پوچھیں۔
پہلے تاجر نے سوال کیا ” بتاؤ زمین کا مرکز کہاں ہے؟“
اونتی نے کسی تامل کے بغیر لاٹھی سے اپنے گدھے کی طرف اشارہ کر کے کہا ”ٹھیک وہاں، جہاں میرے گدھے کا اگلا دایاں قدم رکھا ہوا ہے۔ وہیں زمین کا مرکز ہے۔“
اونتی کا جواب سن کر تاجر بہت متعجب ہوا۔ اس نے پوچھا ”آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مرکز وہیں پر ہے اور کسی دوسری جگہ نہیں ہے۔“
”اگر آپ یقین نہیں کرتے ہیں تو جا کر خود ناپ لیں ۔ مرکز اس جگہ سے بال برابر بھی ادھر یا ادھر نکلے تو میں مان لوں گا کہ میرا جواب غلط ہے۔“ اونتی کے جواب سے تاجر لا جواب ہو گیا۔
اونتی نے اب دوسرے تاجر سے اس کا سوال پوچھا۔ دوسرے تاجر نے کہا۔” کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آسمان میں کتنے تارے ہیں؟“
اونتی نے فوراً ہی جواب دیا۔ ” میرے گدھے کے بدن پر جتنے بال ہیں، آسمان میں ٹھیک اتنے ہی تارے ہیں۔ نہ ایک کم نہ ایک زیا دہ“
تاجر نے پوچھا۔” آپ یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟“  اونتی بولا۔” یقین نہ آئے تو گن کر دیکھ لو، اگر کم یا زیادہ ہو تو کہنا۔“ تاجر بولا۔ ” بھلا گدھے کے بال کیسے گنے جا سکتے ہیں؟“ اونتی نے کہا۔”  تو تمہیں بتاؤ کہ آسمان کے تارےکیوں کر گنے جا سکتے ہیں؟“ بیچارا تا جر کوئی جواب نہ دے سکا، چپ ہو گیا۔ اب تیسرے تاجر کی باری آئی ۔ اونتی نے اس سے بھی سوال پوچھنے کو کہا۔ تیسرے تاجر نے اپنے سر کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ”اچھا بتاؤ میرے سر پر کتنے بال ہیں؟“
اونتی نے ہنس کر کہا”اگر تم بتا دو کہ میرے گدھے کی دم میں کتنے بال ہیں تو میں تمھارے سر کے بالوں کی تعداد بتا دوں گا۔“ یہ سن کر تا جر لا جواب ہو گیا اور بغلیں جھانکنے لگا۔ سب  درباری اونتی کے جوابات سن کر حیرت میں تھے۔ بادشاہ نے اسے حاضر جوابی اور ہوشیاری کا انعام دیا اور تینوں تاجر اپنا منہ لٹکائے واپس چلے گئے۔
ایک بار ایک غریب مزدور نے ایک سرائے والے سے مرغی کا کباب لے کر کھایا۔ اس دن اس کے پاس پیسے نہ تھے۔ وہ قیمت فوراً نہ دے سکا اور دوسرے دن کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ جب وہ دوسرے دن قیمت دینے آیا تو سرائے والے نے اس سے ایک ہزار روپے طلب کیے۔
مزدور کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا ”ایک ہزار روپے!“ وہ سرائے والے سے بولا”ایک مرغی کے کباب کی قیمت ایک ہزار روپے۔“
”کیوں نہیں، تم خود ہی حساب لگا لو۔ اگر تم مرغی نہ کھاتے تو وہ کتنے انڈے دیتی؟ ان انڈوں سے کتنے بچے نکلتے ؟ اور اس طرح جتنے بچے نکلتے ان کی قیمت اتنی ہی ہوتی ہے۔“ سرائے کے مالک نے کہا۔
مزدور نے کہا۔ ”میں اتنا پیسہ نہیں دوں گا۔“
اس پر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ آخر کار وہ عدالت میں پہنچے۔ منصف نے انہیں اگلے دن اپنے اپنے وکیل کے ساتھ آنے کو کہا۔
مزدور نے اونتی کے بارے میں سن رکھا تھا۔ وہ اونتی کے پاس گیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اونتی نے مزدور سے کہا۔”تم ٹھیک وقت پر عدالت میں پہنچ جانا۔ میں وہیں آجاؤں گا۔“
اگلے دن ٹھیک وقت پر سرائے کا مالک اور مزدور عدالت میں پہنچے۔ سرائے کے مالک کے وکیل نے وہی پرانی کہانی دہرا دی۔ اب مزدور کو اپنی حمایت میں کچھ کہنا تھا۔ لیکن اس وقت تک اونتی وہاں پہنچ نہیں پایا تھا جس سے مزدور بہت پریشان تھا۔
اتنی دیر میں اونتی وہاں آپہنچا۔ اس نے دیر سے پہنچنے کے لیے معافی مانگی اور کہا: ”آج مجھے اپنے کھیت میں گیہوں بونا تھا۔ اس لیے میں انھیں بھنوانے چلا گیاتھا۔“ اس بات پر سب لوگ ہنس پڑے۔
منصف نے اونتی سے پوچھا ”کیا کہیں بھنے ہوئے گیہوں سے بھی پودے اگتے ہیں؟“
اونتی بولا ”آپ ٹھیک کہتے ہیں جناب ، بھنے ہوئے گیہوں سے پودے نہیں اگ سکتے ۔ اسی طرح بھنی ہوئی مرغی بھی انڈے نہیں دے سکتی۔“
منصف کو اونتی کی بات بالکل ٹھیک معلوم ہوئی ۔ اس لیے اس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ ” سرائے کے مالک کو صرف ایک مرغی کی قیمت پانے کا اختیار ہے۔“
(ترجمہ جاپانی لوک کہانی )
ترجمہ
ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔ اس کے لیے ایک سے زائد زبانوں پر یکساں قدرت حاصل ہونا لازمی ہے۔ یہ قدرت لغوی مفاہیم پر نہیں، روز مرہ، محاورہ اور زبان کے طریقۂ کار پر ہونا بھی ضروری ہے۔جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے ، اس زبان کے بولنے والوں کی معاشرت اور طرزِ فکر سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ ان تمام خصوصیات کے بغیر صحیح اور اچھا ترجمہ ممکن نہیں ہے۔
سبق ”اونتی“ ایک جاپانی کہانی کا ترجمہ ہے۔ ”اونتی“ ایک حاضر جواب اور ذہین کردار ہے۔ اس کے جوابات پر ہنسی آتی ہے ، لیکن وہ مسائل کوحل کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ جاپان کا یہ کردار ملا نصیرالدین سے ملتا جلتا ہے۔
مشق
خلاصہ:
اونتی ایک خوش مزاج، ہنس مکھ اور غریب دوست انسان تھا ۔غریب بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے لیکن کچھ لوگ اس کی مقبولیت سے جلتے بھی تھے اور اونتی کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ اس کا مذاق اڑانے کے لئے ایک دن ایک شخص نے اونتی سے کہا کہ میرے سوتے میں منھ کھلا ہونے کی وجہ سے ایک چوہا میرے منھ میں چلا گیا، اب بتاؤ میں کیا کروں؟ اونتی نے جواب میں کہا تم ایک بلی پکڑ کر اسے نگل جاؤ۔ اونتی نے ایک دعوت میں دیکھا کہ ایک مہمان کھا ہی نہیں رہا بلکہ کھانا اپنی جیبوں میں بھی بھررہا ہے۔ اونتی ایسے موقع پر کہاں چوکنے والا تھا، اس نے چائے کی کیتلی اٹھا کر مہمان کی جیب میں الٹنی شروع کردی۔ اس پر مہمان ناراض ہوئے تو اس نے کہا بھائی آپ کی جیب نے بہت ساری مٹھائیاں کھائی ہیں، میں اس کی پیاس بجھانے کے لئے جیب میں چائے ڈال رہا ہوں۔ ایک دن اونتی کے ملک میں بادشاہ کے دربار میں تین غیرملکی آئے اور انھوں نے تین سوال کئے مگر دربار میں کوئی بھی جواب نہیں دے پایا۔ بادشاہ نے اس کام کے لیے اونتی کو بلایا۔ غیر ملکیوں نے اونتی سے پہلا سوال پوچھا، بتاؤ زمین کا مرکز کہاں ہے؟ اونتی نے بغیر تامل کے کہا، جہاں میرے گدھے کا اگلا دایاں قدم رکھا ہوا ہے، وہیں زمین کا مرکز ہے۔ غیرملکی نے اونتی سے پوچھا، آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اونتی نے کہا، آپ چاہیں تو اپنی تسلی کے لیے اچھی طرح ناپ تول کر لیں۔ غیرملکی لا جواب ہوگیا۔ دوسرے غیر ملکی نے پوچھا آسمان میں کتنے تارے ہیں؟ اونتی نے کہا، میرے گدھے کے جتنے بال ہیں ۔ دوسرا غیر ملکی تاجر بھی لاجواب ہو گیا۔ تیسرا تا جر بولا، بتاؤ میرے سر میں کتے بال ہیں؟ اونتی نے جھٹ جواب دیا، جتنے میرے گدھے کی دم میں بال ہیں۔ اونتی نے تیسرے تاجر کو بھی اسی طرح لاجواب کر دیا۔ ایک دن ایک مزدور ایک کبابی سے ادھار کباب کھا گیا۔ دوسرے دن جب وہ رقم دینے آیا تو کبابی نے اس سے ایک ہزار روپے مانگے۔ مزدور حیرت میں پڑ گیا ۔ کبابی نے اسے بتایا کہ اگر تم مرغی نے کھاتے تو وہ کتنے انڈے دیتی ؟ ان انڈوں سے کتنے بچے نکلتے اور اس طرح ایک ہزار روپے ہو جاتے۔ اس پر دونوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ مزدور نے اونتی سے کہا تم میرے مقدے کی وکالت کرو۔ اونتی نے کہا تم عدالت میں چلے جانا میں وہاں پہنچ جاؤں گا۔ دوسرے فریق تو عدالت میں پہنچ گئے مگر اونتی وہاں دیر سے پہنچا۔ اس نے دیر سے پہنچنے کے لیے معافی مانگی اور کہا، آج مجھے اپنے کھیت میں گیہوں ہونا تھا ، اس لیے میں اسے بھنوانے چلا گیا تھا۔ اس بات پر سب ہنس پڑے۔ منصف نے کہا، کیا کہیں بھنے ہوئے گیہوں سے بھی پودے اگتے ہیں؟ اونتی بولا: آپ ٹھیک کہتے ہیں، بھنے ہوئے گیہوں سے پودے نہیں اگ سکتے، اسی طرح بھنی ہوئی مرغی بھی انڈے نہیں دے سکتی ۔ منصف کو اونتی کی بات ٹھیک معلوم ہوئی ، اور اس نے مزدور کے حق میں ہی فیصلہ سنایا۔
معنی یاد کیجئے:
تاجر : تجارت کرنے والا
تامل : جھجھک
حسد : جلن
متعجب : حیران ہونا
حمایت : ساتھ دینا
حاضر جوابی : کسی سوال کا فوراً جواب دینا

غور کیجئے:
حاضر جوابی اور ذہانت سے انسان کو عزت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریے:
 الجھن  #####  بلی   ##### بالکل #####  ناپ
1. تم ایک زنده...... بلی...... کو پکڑ کر اسے نگل جاؤ۔
2. بادشاہ پھر ..... الجھن ...... میں مبتلا ہو گیا۔
3. اگر آپ یقین نہیں کرتے ہیں تو جا کرخود...ناپ...لیں۔
4. منصف کو اونتی کی بات ...بالکل... ٹھیک معلوم ہوئی۔

سوچیے اور بتائیے:
1. اونتی نے زمین کا مرکز کہاں بتایا؟
جواب:اونتی نے کہا کہ میرے گدھے کا دایاں پیر جس جگہ ہے وہی زمین کا مرکز ہے۔

2. آسمان میں کتنے تارے ہیں اونتی نے اس سوال کا کیا جواب دیا؟
جواب: اونتی نے کہا جتنے اُس کے گدھے کے بدن پر بال ہیں اتنے ہی آسمان میں تارے ہیں۔

3. سرائے والے اور مزدور میں کیا جھگڑا تھا؟
جواب:مزدور نے سرائے والے کی مرغی کا کباب کھایا اگلے دن سرائے والے نے اس سے مرغی کے کباب کے ہزار روپے مانگے یہ بول کر کہ جو مرغی اُس نے کھائی وہ انڈا دیتی اور اس انڈے میں سے اور مرغیاں ہوتی تو مزدور کو اُن سب کا پیسہ دینا ہوگا لیکن مزدور نے اتنے پیسے دینے کے لیے منع کر دیا اسی وجہ سے اُن دونوں میں جھگڑا ہوا۔

4. اونتی نے سرائے والے اور مزدور کے جھگڑے کو حل کرنے کے لیے کیا دلیل دی؟
جواب:اونتی نےکہا جس طرح بھنے ہوئے گیہوں سے پودے نہیں اگتے ویسے ہی بھنی ہوئی مرغی بھی انڈے نہیں دے سکتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئی محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
نیچا دکھانا : لوگ اونتی کو نیچا دیکھاتے تھے۔
منہ لٹکانا : سارے تاجر منہ لٹکا کر چلے گئے۔
بغلیں جھانکنا : اونتی کا جواب سن کرتاجر اپنی بغلیں جھانکنے لگا۔

عملی کام: 
اونتی کی حاضر جوابی کے بارے میں چند جملے لکھیے۔
اونتی بہت ہی حاضر جواب تھا۔
اس کے جواب لوگوں کو لاجواب کردیتے تھے۔
اس سبق میں اونتی کی حاضر جوابی کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
مثلاً جب تاجروں نے اونتی کو نیچا دکھانے کے لیے بے تکے سوالات کیے تو اونتی نے اپنی حاضر جوابی سے تاجروں کی بولتی بند کردی۔



کلک برائے دیگر اسباق

Qadam Badhao Dosto _ NCERT Solutuions Class X Urdu

قدم بڑھاؤ دوستو!
بشر نواز
Courtesy NCERT
 قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
 چلو کہ ہم کو منزلیں بلا رہی ہیں دور سے 
چلو کہ سارے راستے دھلے ہوئے ہیں نور سے
چمن کھلا کھلا سا ہے
افق دهلا دهلا سا ہے
دیے جلا ؤ راہ میں وطن کا نو سنگھار ہے
نئی نئی بہارہے
قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
سفر کی ابتدا ہے یہ، ابھی رکو نہ راہ میں 
پہاڑ ہو کہ غار ہو، نہ لاؤ تم نگاه میں
روش پرانی چھوڑ کے
قدم قدم سے جوڑ کے
چلے چلو کہ وقت کو تمھارا انتظار ہے
نئی نئی بہارہے
قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
کہو، وطن کی خاک ہی کو گلستاں بنائیں گے
روش روش کو اس چمن کی کہکشاں بنائیں گے
کلی کلی نکھار کے
جلاؤ دیپ پیار کے
ہمیں خود اپنے گلستاں پر آج اختیار ہے
نئی نئی بہار ہے
قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو


بشر نواز
بشر نواز کا اصل نام بشارت نواز خاں ہے۔ وہ اورنگ آباد میں 1935ء پیدا ہوئے ۔ وہیں انھوں نے تعلیم حاصل کی ۔ بشر نواز کاتعلق 1960 کے بعد ابھرنے والے شاعروں کی نسل سے ہے۔ اس نسل کے شعرا جدیدیت سے متاثر تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے کلاسیکی شاعری سے بھی دلچسپی برقرار رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ زبان پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور ان کی شاعری میں نئے پن  کے ساتھ ساتھ کلاسیکی رنگ بھی ملتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں لیکن نظم گو شاعر کی حیثیت سے بھی معروف ہیں۔
”رائیگاں“ اور ”اجنبی سمندر“ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ان کا انتقال 2015ء میں ہوا۔


معنی یاد کیجیے:
افق : جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں
کہکشاں : ستاروں کا جھرمٹ
روش : باغ میں بنا ہوا راستہ، پگڈنڈی ، طریقہ
گلستاں : باغ
غور کیجیے:
* اس نظم میں لفظ ’روِش‘ کا استعمال ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا ہے۔ جیسے I’روش پرانی چھوڑ کے‘،II’روش روش کواس چمن کی کہکشاں بنائیں گے‘
 پہلے مصرعے میں روش کے معنی ہیں طریقہ اور دوسرے مصرع میں اسے پگڈنڈی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

سوچیے اور بتایئے:
1. ’قدم بڑھاؤ دوستو‘ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: قدم بڑھاؤ دوستو کہہ کر شاعر لوگوں کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے اگر تم کچھ پانا چاہتے ہو تو آگے بڑھو جہاں کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔

2۔ پہاڑ اور غارکو نگاہ میں نہ لانے کا مطلب کیا ہے؟
جواب: پہاڑ اور غار کو نگاہ میں نہ لانے کے معنی یہ ہیں کہ تم مشکلات سے نہ گھبراؤ۔ راہ میں پہاڑ یا غار کچھ بھی آئے تم اس کی پرواہ نہ کرو۔


3۔ اس نظم کے ذریعے شاعر نے کیا پیغام دیا ہے؟
جواب: اس نظم میں شاعر نے یہ پیغام دیا ہے کہ تم اپنی منزل کو پانے کے لیے مسلسل آگے بڑھتے رہو۔ کامیابی کی سمت اپنے قدم بڑھاتے رہو۔ راہ میں آنے والی مشکلوں کی پرواہ نہ کرو اور اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے قدم آگے بڑھاتے رہو۔ اس ملک کے چمن کو گلزار بنادو اور چاروں جانب کامیابی کے جھنڈے گاڑ دو۔ شاعر اس نظم میں اپنے ملک کی ایک ایک روش کو کہکشاں بنانے اور اس چمن کو گلزار بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔

 عملی کام:
* جس لفظ سے کسی کام کا ہونا یا کرنا ظاہر ہو، اسے فعل کہتے ہیں جیسے : چلنا، پڑھنا وغیرہ۔ اس نظم میں شامل افعال کی ایک فہرست بنائیے۔
* اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 19 March 2020

Aaina Calendar 2020

آئینہ کی جانب سے سالِ نو 2020 کاایک خوبصورت تحفہ




June 2020
۱۴۴۱
شوال المکرم
ذیقعدہ
Mon
1
۸ 8 ۱۵ 15 ۲۲ 22 ۲۹ 29 ۷
Tue
2
۹ 9 ۱۶ 16 ۲۳ 23 ۱ 30 ۸
Wed
3
۱۰ 10 ۱۷ 17 ۲۴ 24 ۲
Thu
4
۱۱ 11 ۱۸ 18 ۲۵ 25 ۳
Fri
5
۱۲ 12 ۱۹ 19 ۲۶ 26 ۴
Sat
6
۱۳ 13 ۲۰ 20 ۲۷ 27 ۵
Sun
7
۱۴ 14 ۲۱ 21 ۲۸ 28 ۶

May 2020
۱۴۴۱
رمضان المبارک
شوال المکرم 
Mon 4 ۱۰ 11 ۱۷ 18 ۲۴ 25 ۱
Tue 5 ۱۱ 12 ۱۸ 19 ۲۵ 26 ۲
Wed 6 ۱۲ 13 ۱۹ 20 ۲۶ 27 ۳
Thu 7 ۱۳ 14 ۲۰ 21 ۲۷ 28 ۴
Fri
1
۷ 8 ۱۴ 15 ۲۱ 22 ۲۸ 29 ۵
Sat
2
۸ 9 ۱۵ 16 ۲۲ 23 ۲۹ 30 ۶
Sun 3 ۹ 10 ۱۶ 17 ۲۳ 24 ۳۰ 31 ۷










KARTOOS - NCERT SOLUTIONS CLASS X URDU

 کارتوس

حبیب تنویر

Courtesy NCERT
ڈرامے کے کردار : کرنل
: لیفٹیننٹ
: سپاہی
: سوار
زمانہ : 1799
وقت : رات
جگہ : (گورکھ پور کے جنگلوں میں کرنل کالنز کے خیمے کا اندرونی حصہ ۔ دو انگریز بیٹھے باتیں کررہے ہیں کرنل کا لنز اور ایک لیفٹیننٹ ۔ خیمے کے باہر چاندنی پھیلی ہوئی ہے۔ اندر لیمپ جل رہا ہے۔)
کرنل : جنگل کی زندگی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
لیفٹیننٹ : ہفتوں ہو گئے یہاں خیمہ ڈالے ہوئے ۔ سپاہی بھی تنگ آگئے ہیں ۔ یہ وزیرعلی آدمی ہے یا بھوت؟ ہاتھ ہی نہیں لگتا۔
کرنل : اس کے افسانے سن کر رابن ہڈ کے کارنامے یاد آجاتے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف اس کے دل میں کس قدر نفرت ہے۔ کوئی پانچ مہینے حکومت کی ہوگی۔ مگر اس پانچ مہینے میں وہ اودھ کے دربار کو انگریزی اثر سے بالکل پاک کر دینے میں تقریباً کامیاب ہوگیا تھا۔
لیفٹیننٹ : کرنل کالنز، یہ سعادت علی کون ہے؟
کرنل : آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیرعلی کا چچا اور اس کا دشمن۔ دراصل نواب آصف الدولہ کے ہاں لڑکے کی کوئی امید نہ تھی۔ وزیرعلی کی پیدائش کو سعادت علی نے اپنی موت خیال کیا۔
لیفٹیننٹ : مگر سعادت علی کو اودھ کے تخت پر بٹھانے میں کیا مصلحت تھی؟
کرنل : سعادت علی ہمارا دوست ہے اور بہت عیش پسند آدی ہے۔ اس نے ہمیں اپنی آدھی مملکت دے دی۔ اور دس لاکھ روپے نقد، اب وہ بھی مزے کرتا ہے اور ہم بھی ۔
لیفٹیننٹ : سنا ہے یہ وزیر علی افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔
کرنل : افغانستان کو حملے کی دعوت سب سے پہلے اصل میں ٹیپو سلطان نے دی۔ پھر وزیرعلی نے بھی اسے دلی بلایا اور شمس الدولہ نے بھی ۔
لیفٹیننٹ : کون شمس الدولہ؟
کرنل : نواب بنگال کا نسبتی بھائی - بہت خطرناک آدمی ہے۔
لیفٹیننٹ : اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ کمپنی کے خلاف سارے ہندوستان میں ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
کرنل : جی ہاں ۔ اور اگر یہ کامیاب ہوگئی تو بکسر اور پلاسی کے کارنا مے دھرے رہ جائیں گے اور کمپنی جو ساکھ لارڈ کلائیو کے ہاتھوں حاصل کر چکی ہے، لارڈ ویلزلی کے ہاتھوں وہ سب کھو بیٹھے گی۔
لیفٹیننٹ : وزیرعلی کی آزادی بہت خطرناک ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح اس شخص کو گرفتار کرہی لینا چاہیے۔
کرنل : پوری ایک فوج لیے اس کا پیچھا کر رہا ہوں اور برسوں سے وہ ہماری آنکھوں میں دھول ڈالے انھیں جنگلوں میں پھر رہا ہے اور ہاتھ نہیں آتا۔ اس کے ساتھ چند جاں باز ہیں ۔ مٹھی بھر آدمی مگر یہ دم خم!
لیفٹیننٹ : سنا ہے وزیرعلی ذاتی طور سے بہت بہادر آدمی ہے۔
کرنل : بہادر نہ ہوتا تو یوں کمپنی کے وکیل کوقتل کردیتا؟
لیفٹیننٹ : یہ قتل کا کیا قصہ ہوا تھا کرنل؟
کرنل : قصہ کیا ہوا تھا؟ وزیر علی کو معزول کرنے کے بعد ہم نے اسے بنارس پہنچا دیا اور تین لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کردیا۔ کچھ مہینے بعد گورنر جنرل نے اسے کلکتے طلب کیا۔ وزیر علی کمپنی کے وکیل کے پاس گیا جو بنارس میں رہتا تھا اور اس سے شکایت کی کہ گورنر جنرل اسے کلکتے میں کیوں طلب کرتا ہے۔ وکیل نے شکایت کی پروا نہ کی ۔ الٹا اسے برا بھلا سنا دیا۔ وزیر علی کے دل میں یوں بھی انگریزوں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس نے خنجر سے وکیل کا کام تمام کردیا۔
لیفٹیننٹ : اور بھاگ گیا؟
کرنل : اپنے جاں نثاروں سمیت اعظم گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اعظم گڑھ کے حکمرانوں نے ان لوگوں کو اپنی حفاظت میں گھاگھرا تک پہنچا دیا۔ اب یہ کارواں جنگلوں میں کئی سال سے بھٹک رہا ہے۔
لیفٹیننٹ : مگر وزیر علی کی اسکیم کیا ہے؟
کرنل : اسکیم یہ ہے کہ کسی طرح نیپال پہنچ جائے ، افغانی حملے کا انتظار کرے، اپنی طاقت بڑھائے، سعادت علی کو معزول کر کے خود اودھ پر قبضہ کر لے اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے۔
لیفٹیننٹ : نیپال پہنچنا تو کوئی ایسا مشکل نہیں ممکن ہے پہنچ گیا ہو۔
کرنل : ہماری فوجیں اور نواب سعادت علی خاں کے سپاہی بڑی سختی سے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ابھی جنگلوں میں ہے۔
(ایک گورا سپاہی تیزی سے داخل ہوتا ہے)
گورا سپاہی : سر!
کرنل : (اُٹھ کر ) کیا بات ہے؟
گورا سپاہی : دور سے گرداٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔
کرنل : سپاہیوں سے کہہ دو کہ تیار رہیں۔
(سپاہی سلام کر کے چلا جاتا ہے)
لیفٹیننٹ : (جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا) گرد تو ایسی اڑ رہی ہے جیسے پورا ایک قافلہ چلا آرہا ہے مگر مجھے تو ایک ہی سوار دکھائی دیتا ہے۔
کرنل : (کھڑکی کے پاس جا کر) ہاں ایک ہی سوار ہے۔ سرپٹ گھوڑا دوڑائے چلا آرہا ہے۔
لیفٹیننٹ : اور سیدھا ہماری طرف ہی آتا معلوم ہوتا ہے۔
: (کرنل تالی بجا کر سپاہی کو بلاتا ہے)
کرنل : (سپاہی سے) سپاہیوں سے کہو اس سوار پر نظر رکھیں کہ یہ کس طرف جارہا ہے۔
(سپاہی سلام کر کے چلا جاتا ہے)
لیفٹیننٹ : شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ تیزی سے اسی طرف آرہا ہے۔
(ٹاپوں کی آواز بہت قریب آ کر رک جاتی ہے)
سوار : (باہر سے ) مجھے کرنل سے ملنا ہے۔
گورا سپاہی : (چلّا کر) بہت اچھا۔
سوار : بھئی آہستہ بولو۔
گورا سپاہی : (اندر جا کر) حضورا سوار آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کرنل : بھیج دو۔
لیفٹیننٹ : وزیر علی کا ہی کوئی آدمی ہوگا۔ ہم سے مل کر اسے گرفتار کروانا چاہتا ہو گا ۔
کرنل : خاموش ( سوار سپاہی کے ساتھ اندر آتا ہے)
سوار : (آتے ہی پکار اٹھتا ہے) تنہائی تنہائی۔
کرنل : یہاں کوئی غیر آدمی نہیں۔ آپ رازِ دل کہہ دیں ۔
سوار : دیوار ہم گوش دارد۔ تنہائی۔
(کرنل لیفٹیننٹ اور سپاہی کو اشارہ کرتا ہے۔ دونوں باہر چلے جاتے ہیں ۔جب کرنل اور سوار خیمے میں تنہا رہ جاتے ہیں تو ذرا و قفے کے بعد سوار چاروں طرف دیکھ کر کہتا ہے۔)
سوار : آپ نے اس مقام پر کیوں خیمہ ڈالا ہے؟
کرنل : کمپنی کا حکم ہے کہ وزیر علی کو گرفتار کیا جائے۔
سوار : لیکن اتنا لاؤ لشکر کیا معنی؟
کرنل : گرفتاری میں مدد دینے کے لیے۔
سوار : وزیرعلی کی گرفتاری بہت مشکل ہے صاحب!
کرنل : کیوں؟
سوار : وہ ایک جاں باز سپاہی ہے۔
کرنل : میں نے بھی سن رکھا ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟
سوار : چند کارتوس
کرنل : کس لیے۔
سوار : وزیر علی کو گرفتار کرنے کے لیے۔
کرنل : واه یہ لو دس کارتوس۔
سوار : (مسکراتے ہوئے ) شکریہ۔
کرنل : آپ کا نام؟
سوار : وزیر علی! آپ نے مجھے کارتوس دیئے ہیں، اس لیے آپ کی جاں بخشی کرتا ہوں۔
(یہ کہہ کر باہر نکل جاتا ہے۔ ٹاپوں کا شور سنائی دیتا ہے۔
کرنل سناٹے میں ہکا بکا کھڑا ہے۔ لیفٹیننٹ اندر آجاتا ہے۔)
لیفٹیننٹ : کون تھا؟
کرنل : (دبی زبان میں اپنے آپ سے )ایک جاں باز سپاہی۔
(پردہ)
حبیب تنویر
(1923 - 2009)
حبیب تنویر کا اصل نام حبیب احمد خاں اور تنویر تخلص ہے۔ ادبی اور ثقافتی دنیا میں وہ حبیب تنویر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ناگ پور یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے۔ ابتدا میں انھوں نے فلمی گیت اور مکالمے لکھے پھر قدسیہ زیدی کے ہندوستانی تھیٹر میں شامل ہوگئے۔ لندن اور جرمنی میں ڈرامے کی تکنیک پر مہارت حاصل کی۔
انھوں نے بہت سے اردو ڈرامے لکھے جن میں بہت سے مشرقی اور مغربی ملکوں میں اسٹیج کیا گیا۔ ان میں ”سات پیسے“، ”چرن داس چور“، ”ہرما کی کہانی“، ”آگره بازار“، ”شاجا پور کی شانتی بائی“،” مٹی کی گاڑی“ اور ”میرے بعد“ بہت مشہور ہوئے ۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے چھتیس گڑھ کے لوک کلا کاروں کو قومی سطح پر روشناس کرایا۔
حبیب تنویر کو قومی اور بین الاقوامی سطح کے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ حکومتِ فرانس نے ان کو اپنی سوانح حیات لکھنے کے لیے اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ اسے قلم بند کرنے میں مصروف تھے۔
ہندی، بنگالی ، مراٹھی ، اور یورپ کی کئی زبانوں میں ان کے ڈرامے ترجمہ ہو چکے ہیں۔
مشق
خلاصہ:
1799ء کا زمانہ ہے۔ کرنل کالنز اور ایک لیفٹیننٹ گورکھ پور کے جنگلوں میں وزیر اعلیٰ کو پکڑنے کے لیے ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔ کرنل لیفٹینٹ سے کہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بڑاخطرناک سے سخت نفرت کرتا ہے۔ اس نے اودھ کو پانچ مہینے میں انگریزی اثر سے بالکل آزاد کروالیا تھا۔ اس پر لیفٹینٹ سے پوچھتا ہے کہ سعادت علی کون ہے۔ کرنل اسے بتاتا ہے کہ یہ آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا چچا۔ لیکن وزیر اعلیٰ اس کا دشمن ہے۔ وزیر اعلیٰ کی پیدائش کو سعادت علی نے اپنی موت خیال کیا۔ سعادت علی انگریزوں کا دوست ہی ہے، اسی لیے اسے ہم نے تخت پر بٹھایا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل سے کہتا ہے کہ سنا ہے وزیر اعلیٰ افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سے پہلے ٹیپو سلطان بھی اسے بلا چکا ہے اور بنگال کے نواب کے نسبتی بھائی شمس الدولہ نے بھی اسے بلوایا ہے۔ آج پورا ہندوستان انگریزوں کا مخالف ہورہا ہے۔ بکسراور پلاسی کے کارنامے دھرے رہ جائیں گے۔ لارڈ کلائیو کے ذریعے بنائی گئی کمپنی کی ساکھ لارڈ ویلزلی کے ہاتھوں رائیگاں ہو جائے گی۔ وزیراعلی کی آزادی بہت خطرناک ہے۔ کرنل: پوری فوج لے کر اس کا پیچھا کر رہا ہوں، مگر وہ کہاں ہاتھ آ رہا ہے۔ وہ برسوں سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ وزیراعلی کو معزول کر کے ہم نے اسے بنارس بھیج دیا تھا اور اس کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ اسے جب کلکتہ بلایا گیاتو اس نے کمپنی کے وکیل کوقتل کر دیا اور وہاں سے اپنے جانثاروں کو لے کر اعظم گڑھ کی طرف بھاگ گیا۔ اب وہ وہاں سے نیپال کی طرف نکل جانا چاہتا ہے۔ وہاں رہ کر اپنی طاقت بڑھا کر افغانی امداد لے کر نہ صرف سعادت علی خاں کو تخت سے ہٹانا چاہتا ہے بلکہ انگریزوں کو بھی ہندوستان سے نکال دینے کے فراق میں ہے۔ جبکہ ہمارے سپاہی اور سعادت علی خاں کی فوجیں برابر اس کا پیچھا کر رہی ہیں ۔ تب ہی ایک گھوڑے پر سوار وہاں آ جاتا ہے، اسے فوراً انگریز افسر کی خدمت میں پیش کر دیا جا تا ہے ۔ گھڑ سوار کرنل سے پوچھتا ہے، آپ نے یہاں کیوں ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ کرنل اسے بتاتا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ کو پکڑنا چاہتے ہیں ۔ گھڑ سوار کہتا ہے وزیر اعلیٰ کو پکڑ نا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ایک جاں باز سپاہی ہے۔ کرنل اس کا اعتراف کرتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ گھڑ سوار کہتا ہے مجھے صرف چند کارتوس درکار ہیں ۔ کرنل اس سے پوچھتا ہے کہ کارتوس کس لیے۔ گھڑ سوار : وزیر اعلیٰ کو پکڑنے کے لیے۔ کرنل اسے کارتوس دے دیتا ہے۔ جنھیں وہ شکریہ کے ساتھ قبول کر لیتا ہے اور جب کرنل اس سے نام پوچھتا ہے تو وہ اسے بتاتا ہے، وزیراعلی۔۔۔۔۔ اور باہرنکل جاتا ہے۔ اس پر کرنل ہکا بکا رہ جاتا ہے اور جب لیفٹیننٹ اندر آ کر کرنل سے پوچھتا ہے کون تھا؟ کرنل کی زبان سے صرف اتنا ہی نکلتا ہے ایک جاں باز سپاہی۔
معنی یاد کیجیے: 
خیمہ : تنبو، ٹینٹ
جاں باز : بہادر، جان پر کھیل جانے والا
مصلحت : حکمت، پالیسی
ساکھ : نیک نامی، اعتبار
معزول : تخت یا گدی سے اتارا ہوا
دیوار ہم گوش دارد : دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں
مملکت : حکومت، سلطنت
رازِ دل : دل کی بات، بھید
وقفہ : مہلت ، تھوڑی سی دیر
لاؤ لشکر : فوج اور اس کا سازو سامان

غور کیجیے:
*  وطن سے محبت کرنے والے جاں باز تاریخ میں زندہ رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کی قدر کی جاتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے جملوں میں صحیح لفظوں سے خالی جگہوں کو بھر یے: 
1۔  سنا ہے کہ وزیرعلی افغانستان کے بادشاہ شاہ زماں کو ہندوستان پر ....حملے...... کی دعوت دے رہا ہے ۔ (حملے، لڑائی) 
2-  وزیرعلی کے دل میں انگریزوں کےخلاف.......نفرت....... کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔(نفرت، برائی ، محبت)  
3۔  وزیرعلی کی .....گرفتاری...... بہت مشکل ہے صاحب۔ (معزولی ، جاں بخشی ، گرفتاری) 

سوچیے اور بتائیے:

1. وزیر علی کے کارنامے سن کر کس کے کارنامے یاد آتے ہیں؟
جواب: وزیر علی کے کارنامے سن کر رابن ہُڈ کے کارنامے یاد آتے تھے۔

2. سعادت علی کو انگریزوں نے اودھ کے تخت پر کیوں بٹھایا؟
جواب: سعادت علی ایک عیش پسند آدمی تھا۔ اس نے انگریزوں کو اپنی آدھی مملکت  اور دس لاکھ روپے نقد دیا جس کے بدلے انگریزوں نے اسے تخت پر بٹھایا۔

3. سعادت علی کیسا آدمی تھا؟
جواب: سعادت علی ایک عیش پسند آدمی تھا۔ وہ تخت اور حکومت کا لالچی تھا اور اسے صرف اپنی ذات سے مطلب تھا۔

4. کرنل سے کارتوس مانگنے والا سوار کون تھا؟
جواب: کرنل سے کارتوس مانگنے والا سوار وزیرعلی تھا۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے:
تخت : انگریزوں نے ہندوستان کے تخت پر قبضہ کرلیا۔
خلاف : ہندوستانی انگریزوں کی حکومت کے خلاف تھے۔
پاک : وزیر علی ملک کو انگریزوں سے پاک کرنا چاہتا تھا۔
بہادر : وزیر علی  بہت بہادر تھا۔
جاں باز : وزیرعلی ایک جاں باز سپاہی تھا۔
وظیفہ : انگریزوں نے وزیرعلی کا تین لاکھ روپے وظیفہ مقرر کردیا تھا۔
اسکیم : وزیرعلی کی اسکیم نیپال پہنچنا تھی۔

جمع کے واحد اور واحد کے جمع بنائیے:
جنگل : جنگلات
شکایات : شکایت
افواج : فوج
سلاطین : سلطان
وظیفہ : وظائف
وزیر : وزراء

عملی کام
* استاد سے تین شہیدانِ وطن کے نام معلوم کر کے لکھیے۔
شہید بھگت سنگھ
شہید اشفاق اللہ خاں
رام پرساد بسمل

*  دو لوگوں کے درمیان کی گفتگو یا بات چیت مکالمہ کہلاتی ہے۔ اس ڈرامے کے پانچ مکا لمے یاد کر کے لکھیے۔ 
کرنل کالنز، یہ سعادت علی کون ہے؟
آصف الدولہ کا بھائی ہے۔ وزیرعلی کا چچا اور اس کا دشمن۔
جنگل کی زندگی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
افغانستان کو حملے کی دعوت سب سے پہلے اصل میں ٹیپو سلطان نے دی۔
سعادت علی ہمارا دوست ہے اور بہت عیش پسند آدی ہے۔

*  اس ڈرامے کو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسٹیج کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری