آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 6 April 2020

Dehaat ki zindagi - NCERT Solutions Class IX Urdu

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
Dehaat ki zindagi by Abdul Haleem Sharar  Chapter 5 NCERT Solutions Urdu
دیہات کی زندگی
عبدالحلیم شرر
اے شہر کے عالی شان محلوں میں رہنے والو !تمھیں نہیں معلوم کہ دیہات کے رہنے والے دنیا کا کیا لطف اٹھاتے ہیں۔ تم ایک منزل عشرت میں ہو۔ عالم کی نیرنگیاں تمھاری نظر سے بہت کم گزرتی ہیں۔ جس مقام پرتم ہو وہاں صبح و شام کی مختلف کیفیتیں بھی اپنا پورا پور ااثر نہیں دکھاسکتیں۔ تمھیں خبربھی نہیں ہوتی کہ آفتاب کب نکلا اور کب غروب ہوا۔ ہواکس طرف کی چلی اور کیا بہار دکھا گئی۔ مگر غریب دیہات والے جنہیں تم اکثر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو وہ ان امور کا ہروقت اندازہ کرتے رہتے ہیں ۔ ہرصبح انہیں ایک نیا لطف دیتی ہے اور ہر شام سے انہیں ایک نئی راحت نصیب ہوتی ہے۔
گاؤں کے جفاکش رہنے والے صبح کے تارے ہنوز جھلملانے بھی نہیں پاتے کہ وہ اپنی رات کی راحت سے اکتا چکتے ہیں، ایسے وقت میں نسیم کے خوشگوار اور نازک جھونکے آتے ہیں اور بڑے ادب کے ساتھ انہیں جگانے لگتے ہیں۔ اس وقت ان کے ناز اور بادسحر   کے نیاز دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ صبح کی ہوا نہایت شگفتگی کے ساتھ جگاتی ہے اور وہ نہیں جاگتے ۔ صرف کروٹیں بدل بدل کر رہ جاتے ہیں۔بادِ سحر یوں ہی اصرار کرتی ہوتی ہے کہ صبح کے نقیب مرغان سحر اٹھتے ہیں اور انھیں اٹھاتے ہیں ۔ غریب محنت پسند لوگ تازہ دم اٹھ بیٹھتے ہیں ۔ وقت کی کیفیتوں کو نہایت غور سے بڑے لطف کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ جھونپڑیوں سے باہر نکلیں ، آسمان کو دیکھا جس میں تارے جھلملا رہے تھے۔ افق مشرق پر نظر ڈالی جو رات بھر کے چمکے ہوئے تاروں پر غالب آئی جاتی تھی۔ کچھ کچھ نمودار ہونے والے درختوں کو دیکھا جن پر چڑیاں  چہچہارہی تھیں ۔ یہ سماں انھیں اپنی خوبیاں دکھا کر بے خود کرنے کو تھا کہ انھوں نے اپنے دن کے کام کو یاد کیا۔ آگے بڑھے اور رات کی دبی ہوئی آگ پر گری ہوئی پیتاں جمع کر کے آگ جلائی۔ تاپ تاپ کے افسردہ ہاتھ پاؤں کو گرمایا اس کے بعد پاس کے شکستہ جھونپڑے میں جا کے بیل کھولے اور عین اس وقت جب کہ آفتاب کی کھڑی کھڑی کر نیں مشرقی کناره آسمان سے اوپر کو چڑھتی نظر آتی ہیں ۔ یہ لوگ لمبے لمبے پھلوں کو کاندھے پر رکھ کر کھیت کی طرف روانہ ہوئے ۔ کھیتوں کی مینڈوں پر جارہے ہیں ۔ اور زمین کی فیاضیوں کو کس مسرت اور خوشی کی نظر سے دیکھتے جاتے ہیں۔ ہرے ہرے کھیت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے لہرارہے ہیں ۔ نظر اس خوشگوار سبزی پر عجب لطف کے ساتھ کھیلتی ہوئی دور تک چلی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے پودے جو خدا کے پاس سے دنیا والوں کی روزی لیے آتے ہیں کس قدر شگفتہ اور بشاش نظر آتے ہیں۔ رات کا برقعہ اڑھا کر آسمان نے انھیں اور زیادہ خوبصورت بنا دیا ہے۔ کیونکہ تاروں کی چھاؤں میں اس وقت ان کی نازک اور چھوٹی پتیوں پر شبنم کے موتی جھلک رہے ہیں ایک عالمِ جواہر ہے جس پر جھلملاتے ہوئے تاروں کی شعاعیں خدا جانے کیا کیفیتیں دکھا رہی ہیں ۔ ان جفا کشوں نے اس وسیع میدان کو نہایت شوق سے دیکھا جو اس وقت تو صرف ان کی نظر ہی کو خوش کرتا ہے مگر اصل میں قدرت کے ہدیے اور نیچرکے تحفے ہر جاندار کو اس کی فیاضیوں سے ملتے ہیں ۔ یہ لوگ کھیتوں میں پہنچ کر اپنی غفلت پر نادم ہوگئے کیونکہ اور لوگ ان سے پیشتر پہنچ چکے تھے۔ یہ لوگ تر و تازہ کھیتوں میں منتشر ہوگئے ۔ آفتاب کی کرنوں نے جو امیر غریب سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہے کھیتوں کی مینڈوں اور کنووں کے کناروں پر ان کا خیر مقدم کیا۔
اب یہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہیں کہ نیچر کے جذبات بھی ان پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتے اور قدرت کی بہار بھی ان کی دل فریبی کرنے سے عاجز ہے۔ وہ ہرا ہرا سبزہ زار، وہ سہانا سماں، وہ صبح  کی بہار۔ و ہ تر و تازہ ہوا وہ  اجلی کرنیں، ایسی چیز یں ہیں جن کا شوق اکثر بے چین طبیعت والوں کو شہروں سے باہر کھینچ کر لے جایا کرتا ہے۔ بار بار ہم پر ایسی وحشت سوار ہوتی ہے کہ گھر سے دو تین کوس تک نکل گئے ہیں مگر یہ لوگ اپنے روزانہ کے کاموں میں ایسے مصروف ہیں کہ انکیفیتوں کو آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتے،  زمین کی اس استعداد کے بڑھانے میں دل و جان سے سائی ہیں جو صرف ان کے لیے نہیں تمام دنیا کے لیے مفید ہے۔ جان توڑ کر محنت کر رہے ہیں ۔غریب کم قوت بیل جوشاید رزق رسانی عالم کی فکر میں دبلے ہو گئے ہیں ان کے ہاتھوں کی مار کھاتے ہیں اور زمین کو پیداوار کے قابل بناتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی محنت آسان کرنے کے لیے یہ لوگ نہایت دردناک آواز میں کچھ گاتے جاتے ہیں اور ان کی آواز کھلے میدان میں گونج گونج کر ایک نئی کیفیت پیدا کرتی جاتی ہے، کنوؤں کے کنارے والے پانی نکال نکال کر زمین کو سیراب اور چھوٹے چھوٹے درختوں کو زندہ کر رہے ہیں ۔ دیکھو وہ کس شوق سے اس بات کے منتظر ہیں کہ ڈول او پر آئے اور انڈیلیں اور جس وقت ڈول ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے کس جوش کے عالم میں چلا اٹھتے ہیں۔ پانی ان کی بڑی دولت ہے جس کی امید میں و و آرزومند بن کر کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اورکبھی کنووں کی طرف رخ کرتے ہیں۔
آفتاب پوری بلندی  پرپہنچ کر نیچے کی طرف مائل ہوتا ہے اور جھکتے جھکتے افق مغرب کے قریب پہنچتے وقت باغ عالم کی دلچسپیوں سے رخصت ہونے کے خیال میں زرد پڑ جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ آفتاب کی حالت اور وضع میں اختلاف ہوجاتے ہیں مگر یہ نہ تھکنے والے اور دھن کے پکے دہقان ایک ہی وضع اور ایک ہی صورت سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ نہ محنت ا نھیں تھکا تی ہے نہ مشقت انھیں ماند ہ کرتی ہے ۔ نہ دھوپ سے پریشان ہوتے ہیں نہ کام کرنے سے  اکتا تے ہیں ۔ الغرض آفتاب غروب ہوتا ہے، دن ان سے رخصت ہوتا ہے اور یہ شام کی دلفریب کیفیتوں کا لطف بخوبی دیکھ کر یہ امید لگا کر کہ کل کھیتوں کو آج سے زیادہ تر وتازہ پائیں گے اپنے کھیتوں سے رخصت ہوتے ہیں ۔ خوش خوش اس کچے اور کم حیثیت گھر میں آتے ہیں جسے ہم نہایت ذلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں۔ بی بی ،غریبی کا کھانا اور فصل کے مناسب ، غذ اان کے سامنے لا کر رکھ دیتی ہے اوتہ ِدل سے خدا کا شکر ادا کر کے کھاتے ہیں اور دوسرے دن کی محنت کا خیال کر کے اپنے تئیں سویرے ہی سلا دیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جس وقت شہروں کے پہر، دن چڑھے تک سونے والے سیہ کار اپنی شرمناک زندگی کے برے نمونے دکھانے کے لیے جاگتے ہیں ۔ زاہد نماز عشا پڑھ کے سو چکا ہے۔ بے فکرے گپیں اڑارہے ہیں ۔ شعرا مضمون آفرینی کی فکر میں ہیں ۔ امراء کے محلوں میں کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ بچے کہانیاں سن رہے ہیں ۔ طلبا ء کتاب پر جھکے ہوئے ہیں ، میکش وہ پیاس بجھارہے ہیں جو کمبخت نہیں بجھتی ہے۔ سیہ کار بدکاری کی دھن میں شہر کی سڑکیں اور گلیاں چھان رہا ہے اور جفاکش عجب میٹھی نیند میں غافل ہو گئے ہیں تا کہ تڑکے آنکھ کھلے ۔ یہ پچھلا اطمینان اور یہ سچی آسائش بے شک حسد کے قابل ہیں۔
گاؤں عموما ًقدرت کا سچی جلوہ گاہ ہوتا ہے۔ وہاں کے سین اپنی سادگی اور دل فریب کیفیتوں کے ساتھ انتہا سے زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں ۔ اے شہر کے نازک خیال اور چابکدست کاریگر و ! وہاں تمھاری صنّا عیوں کی بالکل قدر نہیں ۔ وہاں صرف قدرت کی کاریگری عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور خدا کی فیاضیاں بڑی کامیابی اور نہایت شوق کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں۔ ان کی خوشی کا پیمانہ بہت چھوٹا اور تنگ ہے۔ وہ بہت تھوڑے عرصہ میں خوش ہو جاتے ہیں اور ادنیٰ مسرّت ان کی دل فریبی کے لیے کافی ہوتی ہے۔ وہ لہلہاتے ہوئے سبزہ زارجنہیں وہ روزصبح وشام آتے جاتے وقت دیکھا کرتے ہیں ۔ ان کے مسرور کر دینے کے لیے بہت کافی ہیں ۔ وہ تروتازہ کھیت جن سے زیادہ پیداوار کی امید ہے ان کی خوشی کو اعتدال سے زیادہ بڑھا دیا کرتے ہیں۔ دیہات کا چودھری اگرچہ اس کی حکومت چند کچے اورٹوٹے پھوٹے مکانوں اور ایک وسیع میدان پر محد ود ہے مگر اپنے حلقہ کا پورا بادشاہ ہے۔ اس کے آگے وہاں کی مختصر آبادی میں ہر ایک کا سر جھک جاتا ہے۔ اس کے راج کو ہرشخص بلاعذر تسلیم کر لیتا ہے ۔ اس کے فیصلوں کی کہیں اپیل بھی نہیں ہوتی مگر باوجود اس حکومت کے دیکھو وہ کس بے تکلفی سے اپنے مکان کے دروازے پر بیٹھا ہے۔ دنیاوی پرتکلف فرش کی ضرورت نہیں ۔ میز کرسی کو وہ نا پسند کرتا ہے۔ قدرت کے سادے فرش اور خدا کی زمین پر اس کا دربار لگا ہوا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے رتبہ کے قریب ہی سمجھتا ہے۔ اسی لیے نہ وہ کسی مقام پر بیٹھتا ہے اور نہ گاوں والے کی ذلت کی جگہ پر بیٹھتے ہیں ۔ بس یہ حالت ہے کہ اگر عزت ہے تو سب کی ۔ اس کے گھر میں بھی وہی سامان اور فرنیچر ہے جو اس کے ماتحتوں کے گھر میں ہے۔ پیال اس کا نرم اور آرام دہ بچھونا ہے۔ کچی مگر صاف اور لپی ہوئی کو کوٹھریاں اس کی خواب گاہ ہیں ۔ جفاکش اور گھر گرہست بہو بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں اس کے خادم ہیں کوٹھیوں میں بھرا ہوا غلہ اس کی دولت ہے۔ چند دبلے اور لاغرمویشی اس کا قیمتی سرمایہ ایک کم حیثیت مکان اس کی کوٹھی ہے اور اِردگِرد کے کھیت اور آس پاس کا سبزہ زار اس کا جانفزا باغ ہے۔
گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اور بسیط حالت پر ہیں۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اور اطمینان سے گزرتی ہے۔ ان کی فکر یں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمار اسکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے ۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے اس لیے وہ خدا کی بے واسطہ ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں ۔ غلہ اور اناج ان کا سکہ ہے۔ دنیا کی ہر چیز جوان کی ضرورتیں رفع کرسکتی ہے، غلہ کے عوض میں ان کو باآسانی اور بہ کفایت مل سکتی ہے۔
غریب دیہاتیوں کی یہ بات اس قابل ہے کہ ہم ان سے ایک کارآمد سبق لیں۔ اتفاق ان کی قوت ہے اور باہمی ہمدردی ان کا ہتھیار ہے۔ افلاس اور آفاتِ سماوی  بھی  کبھی ان کی دشمن ہوجاتی ہے۔ مگر وہ اس ہتھیارکو لے کر اٹھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ کھیتوں میں پانی پہنچاتے وقت وہ با ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ کھیتوں میں بیج  ڈالتے وقت وہ ایک دوسرے کو غلّہ قرض دیتے رہتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک عالم کی فکر اپنے سر لیتے ہیں اور دنیا بھر کے لیے خود مصیبت میں پھنستے ہیں ۔ ہم بے فکر ہیں اور اپنی اغراض اور بقائے زندگی کے اسباب بھولے ہوئے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کام کو  وہ پورا کرتے ہیں۔ اس جفاکشی کے انعام میں خدا کی طرف سے انھیں جو کچھ ملتا ہے اس میں سے خود بہت کم لیتے ہیں اور سب ہمارے حوالے کر دیتے ہیں ۔
ایک کسان کی زندگی پر غور کرو اور اس کی سالا نہ محنت و مشقت کا اندازہ کرو کہ کس طرح جان توڑ توڑ کر اور اپنے تئیں مٹامٹا کر جفا کشی پرتلا رہتا ہے اور اس کے بعد یہ غور کرو کہ وہ کس لیے اس مصیبت میں پڑتا ہے تو معلوم ہوگا کہ وہ دنیا کا کتنا بڑا ہمدرد ہے اور حبِّ ملک اس کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بے شک وہ ساری دنیا کے لیے یہ محنت کرتا ہے اور اس سے زیادہ نوع انسان کا دوست دنیا بھر میں نہ ملے گا۔
اے ہمدردی قوم کا لفظ بار بار زبان پر لانے والو! اگر اپنی کوششوں کا کچھ نتیجہ دیکھنا چاہتے ہو تو ان غریب، جفاکش دہقانوں کی پیروی کرو ۔ قوم کی کھیتی روز بروز کملاتی جاتی ہے اور چند روز میں بالکل سوکھ جائے گی تمھارا فرض ہے کہ جلدی اٹھو اور جس طرح ہو سکے اپنی راحت بیچ بیچ کران کھیتوں میں پانی پہنچاؤ ۔ قومی کھیت کے پودے یعنی موجود ہ نسل بھی نہ سنبھلی تو کہیں کے نہ رہو گے۔

مضمون نگاری
اردو میں مختصر مضمون نگاری کا آغاز سرسید سے ہوتا ہے۔ انھوں نے اس صنف کو سماجی اصلاح کے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا ۔ اس کے بعد مضمون نگاری بھی ایک صنف کی حیثیت سے رائج ہوگئی ۔ سماجی موضوعات کے علاوہ علمی، ادبی، فلسفیانہ اور دیگر موضوعات پر بھی مضامین لکھے جا سکتے ہیں ۔ حالی ،شبلی، محمد حسین آزاد ،نذیر احمد، میر ناصر علی ، نیا ز فتح پوری ، رشید احمد صدیقی ، مرزا فرحت اللہ بیگ، محفوظ علی بدایونی، ابوالکلام آزاد، خواجہ غلام السید ین وغیرہ اردو کے اہم مضمون نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
مختصر مضمون کی ایک شکل انشائیہ کہلاتی ہے۔ انشائیہ اور مضمون میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ لیکن عام طور پر انشائیہ میں مزاح اور طنز یا خوش مزاجی کا رنگ ہوتا ہے اور انشائیہ نگاراکثر باتیں اپنے حوالے سے ، یا اکثر اپنے ہی بارے میں ،بیان کرتا ہے۔
عبدالحلیم شرر
(1860ء – 1926ء)
عبدالحلیم نام اور شرر تخلص تھا۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور ان کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہوئی ۔ بعد میں ان کے والدحکیم تفضل حسین نے ان کو کلکتہ  مٹیا بر ج بلا لیا۔ یہاں حکیم صاحب ، واجد علی شاہ کی ملازمت میں تھے۔ اہل علم کا بھی اچھا مجمع تھا، شررکی علمی  نشو ونما یہیں ہوئی ۔ انھوں نے اردو، فارسی، انگریزی اور عربی میں مہارت حاصل کر لی۔ 1870ء میں شر رکو  پھر لکھنؤ واپس آناپڑا۔
لکھنؤ آ کر شرر نے اپناعلمی مشغلہ برابر جاری رکھا ،مختلف اہل کمال سے فیض حاصل کرتے رہے۔ 1879ء میں وہ  مزیدتعلیم کے لیے دہلی گئے ۔ دہلی پہنچ کرشر رنے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
دہلی سے لکھنؤ واپس آنے کے بعد 1881 ء میں انھوں نے اودھ اخبار کی ملازمت کر لی جس میں برابر مضامین لکھتے رہے۔ 1887ء میں شرر نے اپنا رسالہ ’دل گداز‘ جاری کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس رسالے میں ان کے ناول’ ملک العزيز ورجنا‘ ، ’حسن انجلينا‘ ، ’منصور موہنا‘قسط وار شائع ہونے لگے۔ کچھ مدت بعد مالی تنگیوں کی وجہ سے ان کو حیدر آباد جانا پڑا۔ یہاں رہ کر انھوں نے تاریخ سندهھ لکھنی شروع کی۔ نواب وقار الا مرا نے ان کی قدردانی کی اور اپنے بیٹےکے ساتھ 1893ء میں انگلستان بھیج دیا جہاں تین سال تک قیام رہا اور انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی ۔ واپس آکر حیدرآباد سے’ دل گداز ‘جاری کیا۔ 1909ء میں وہ لکھنؤ واپس آ گئے اور انھوں نے یہیں وفات پائی۔
عبد الحلیم شرر نےاردو میں تاریخی ناول کی ابتدا کی ۔اس کے علاوہ  انہوں نے ڈرامے بھی لکھےجن میں ایک منظوم ڈرامہ بھی تھا۔”گذشتہ لکھنؤ“ نامی کتاب میں انہوں نے نوابی لکھنؤ کے آخری زمانے کی تہذیب کا بہت دلچسپ اور معلومات افروز مرقع پیش کیا ہے۔
Dehaat ki zindagi by Abdul Haleem Sharar  Chapter 5 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی 
عشرت : عیش
نیرنگی : حیرت پیدا کرنے کی قوت، وہ صفت جس سے لوگ تعجب با فکر میں پڑ جائیں
حقارت : عزت کی نگاہ سے نہ دیکھنا
امور : امر کی جمع یعنی کا م ، باتیں
ہدیہ : تحفہ
جفاکش : محنتی
ہنوز : اب تک
بادِ سحر : صبح کی ہوا
نقیب : اعلان کرنے والا
نمودار : ظاہر ،نمایاں
سماں : منظر
افسردہ : اداس
فیاضی : دریا دلی ، سخاوت
بشاش : خوش
شعائیں : کرنیں
منتشر : پھیلا ہوا بکھرا ہوا
وحشت : گھبراہٹ ، دیوانگی
استعداد : اہلبیت ، لیاقت
رزق رسانی : روزی پہنچانا
افق : وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
وضع : شکل، بناوٹ
ماندہ : تھکا ہوا
میکش : شرابی
چابکدست : مشاق، ہنر مند
صناعی : کاریگری
بسیط : پھیلا ہوا
مروج : رائج، جس کا چلن ہو
آفات سماوی : آسانی بلائیں
بقا : باقی رہنا
رزاق مطلق : خدا، جسے رزق دینے کا پورا اختیار ہے۔
ضیافت : دعوت

غور کرنے کی بات
*  شہری زندگی کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر فطری ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
*  دیہات کے ماحول میں فطرت اپنی تمام ترخوبیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔
*  سادگی ، جفاکشی ، انسانی ہمدردی ، آپسی بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ دیہی زندگی کی اہم خصوصیات ہیں۔
*   کسان دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے سخت محنت و مشقت کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. دیہات کے رہنے والے زندگی کا کیا لطف اٹھاتے ہیں؟

 2. شہر کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی کس طرح مختلف ہوتی ہے؟

 3. دیہی زندگی کی وہ کون سی خصوصیات ہیں جن سے قوموں اور ملکوں کی ترقی وابستہ ہے؟

 4. اس سبق میں مصنف نے کسان کی زندگی کے کن پہلوؤں پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے؟


عملی کام
اس مضمون کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے: آپ نے کوئی گاؤں ضرور دیکھا ہوگا ۔ اس پر ایک مضمون لکھیے ۔
 ذیل کے الفاظ میں جمع کی واحد اور واحد کی جمع بنائیے: 
منزل ، امور ، تحفہ، جذبات، شاعر، امیر ، کتاب ، خادم ، آفت، اسباق ، اسباب، اغراض غریب

درج ذیل اقتباس کا مطلب اپنے الفاظ میں لکھیے:
گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اوربسیط حالت پر ہیں ۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اور اطمینان سے گزرتی ہے۔ ان کی فکریں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمارا سکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے۔ اس لیے وہ خدا کی ہے واسطے ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں ۔

خلاصہ:
عبدالحلیم شرر نے اس مضمون میں دیہات کی اور شہری زندگی پر تبصرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ شہر کے مقابلے میں دیہات کی زندگی کس قدر فطری ہے اور دیہات میں فطرت اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ کس قدر حسین نظر آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اے شہر کے عالی شان محلوں میں رہنے والو!تم نہیں جانتے کہ سورج کب طلوع ہوا اور کب غروب ہوا، ہوا کس طرف سے آئی اور اپنی بہادری دکھاتی ہوئی کدھر چلی گئی مگر دیہات کے رہنے والےجنھیں تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو وہ صبح شام اور بدلتے موسموں سے کس قدرلطف حاصل کرتے ہیں۔ گاؤں کے محنت کش کسان اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ابھی صبح کا سورج نہیں نکلا ہوتا اور آسمان پر کچھ ستارے نظر آتے رہتے ہیں۔ اس وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوا انہیں سلاتی نہیں جگاتی ہے اور وہ اپنی جھونپڑیوں سے باہر آ کر کھلے آسمان کو دیکھتے ہیں، اس وقت پیڑوں پر چڑیاں چہچہارہی ہوتی ہیں ، وہ اس حسین منظر سے بے خود ہو جاتے ہیں اور پھر تازہ اپنے بیل اور ہل لے کر کھیتوں پر چلے جاتے ہیں ۔ کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے پودوں  کے پتوں پر شبنم کے قطرے اپنی بہار دکھاتے ہیں ۔ یہ غریب کسان روزانہ ایسےصبح سے شام تک قدرت کی کاریگری کا نظارہ کرتے ہوئے یہ کسان غروب آفتاب تک اپنی اپنی جھونپڑیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر اگلی صبح اسی طرح بیدار ہوتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں شہر کے لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ رات کو دیر تک جاگ کر ایسے کام کرتے ہیں جو انہیں گناہگار بناتے ہیں جبکہ گاؤں عموما قدرت کی سچی جلوہ گاہ ہوتا ہے وہاں کے مناظر اپنی سادگی اور دل فریب کیفیتوں کے ساتھ انتہائی دلچسپ ہوتے ہیں ۔ گاؤں والوں کے لیے قدرت کا عطیہ ہے۔
مضمون کے آخر میں شرر کہتے ہیں کہ غریب دیہاتوں کی زندگی سے ہم سبق حاصل کریں کہ وہ کس قدرمحنت مشقت سے غلہ اور اناج اگاتے ہیں ۔ جوغربت کی زندگی بسر کرتے ہیں کبھی کبھی کوئی آفت ناگہانی ان کی فصل خراب کر دیتی ہے۔ وہ مفلس رہ کر بھی دوسروں کی بھلائی اور زندہ رہنے کے لیے کھیتوں میں بیج ڈالتے رہتے ہیں اورفصل تیار ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ایک کسان دنیا کا کتنا بڑا ہمدرد ہے، وہ اپنے ملک کے رہنے والوں سے کس قدر محبت کرتا ہے وہ اناج اگاتا ہے اور ساری دنیا کے لیے محنت کرتا ہے۔ اس لیے شہر والوں کو چاہئیے کہ وہ اس کی زندگی پر ہمدردی کے ساتھ غور کریں اور جس طرح کسان محنت کرتا ہے اسی طرح انہیں بھی قوم کے لیے محنت کرنی چاہئیے

کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 5 April 2020

Shab e Baraat - Makhdoom e Jehan Sheikh Sharafuddin Ahmad Yahya Maneri (R)




سلطان المحققین حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری قدس سرہ کے ملفوظات کے مجموعہ مونس المریدین سے شب برات کی فضیلت  اور معمولات سے متعلق ملفوظ خانقاہ معظم، بہار شریف کے شکریہ کے ساتھ   قارئین آئینہ کی خدمت میں   پیش ہیں۔ان ملفوظات کو حضرت صَلاح مخلص داؤد خاں نے یکجا کیا ہے اور یہ کتاب مکتبۂ شرف، بیت الشرف، خانقاہ معظم، بہار شریف سے شائع ہوئی ہے۔





Saturday 4 April 2020

Ghazal Dr. Kaleem Ajiz

غزل
 ڈاکٹر کلیم عاجز

 وہ چاہے ۔ کوئی بلا سے نہ چا ہے یا چاہے
اسی کو کہیے سُہاگن  جسے پیا چاہے

کسے مجال ہے مسند کو بوریا چاہے
وہ دینے والاہے دے جس کو جو دیا چاہے

بغیر اجازت پیرمغاں ہے وہ بھی حرام
 شراب کیا کہ اگر زھر بھی پیا چاہے

 وہ محترم نہ رہے گا کسی کی نظروں میں
 تری نظر جسے بے آبرو کیاچاہے

 یہ دور وہ ہے، کسی حال میں بھی چین نہیں
 گریباں چاک ہو، دامن اگرسیاچاہے

گذر کے مرحلۂ دارسے بھی دیکھ لیا
 یہ کام سہل ہے ہمّت اگر کیا چاہے

طبیب عشق  کا یہ نسخۂ مجرّب ہے
 مرے کسی کی محبت میں گرجیا چاہے

غزل میں عکس رخ انقلاب رکھتا ہوں
 نگاہ  لائے  جو  یہ  آئینہ  لیا  چاہے
(بہ شکریہ المجیب)

Friday 3 April 2020

Magar woh toot gayi - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Magar woh toot gayi by Saleha Abid Hussain  Chapter 4 NCERT Solutions Urdu
مگر وہ ٹوٹ گئی
صالحہ عابد حسین
دور کسی گھنٹے نے دو بجائے ۔ اس کے وسیع بیڈ روم کے ہاتھی دانت کے لیمپ میں نیلا زیرو بلب روشن تھا جس کی ٹھنڈی روشنی میں ہر چیز بےجان سی نظر آرہی تھی ۔ سنگھار میز پربھی سیکڑوں شیشیاں، بوتلیں برش وغیرہ وغیرہ - ڈبل بیڈ کا قیمتی بستر اور نیلا نائٹ گون، چھت پر ایک چھوٹا سا بلوریں جھاڑ - ہر چیز اس کا منہ چڑارہی تھی۔
برابر کے کمرے میں نے اپنی آیا کے ساتھ آرام کر رہے تھے۔ دوسرے نوکر اپنے اپنے کواٹرز میں محو خواب ہوں گے ہاں صرف اس کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ دو بج چکے ، نہ وہ آئے ، نہ نیند آئی ۔ جس طرح وہ روٹھے روٹھے ہیں اسی طرح نیند بھی روٹھ گئی ہے۔ وہ ڈبل بیڈ کے دوسرے حصّے پرلوٹ لگا کر آ گئی اور ان کے تکیے پر سر رکھ دیا آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب سا امنڈ آیا جو اس کے گالوں پر لڑھکتے کنپٹیوں پر سے پھیلتے نرم  تکیے  میں جذب ہوتے رہے ۔ سامنے دیوار پران دونوں کی قد آدم رنگین تصویر آویزاں تھی ۔ ان کی شادی کی تصویر ۔ اس کے چہرے پر شرمیلی اور مسرور مسکراہٹ ہے اور ان کی آنکھوں میں اشتیاق ہے شرارت ہے اورتجسس بھی؟
شادی - شادی - شادی!!
شادی یار بربادی؟ کتنی بربادیاں اس نے اپنے چاروں طرف دیکھی تھیں۔ ماں کی زندگی، بھابھی کا انجام، اس کی پیاری سہیلی منورما کی خودکشی، اس کی ٹیچر کی تنہا اداس زندگی ۔ دو چار نہیں بیسیوں ناکام شادیوں کو اس نے دیکھا تھا۔ یہ شادی بربادی کیوں بن جاتی ہے؟ عورتیں تو مردوں ہی کو الزام دیتی ہیں مگر کیا ان کا قصور کچھ نہیں ہوتا؟ کیا حقیقت نہیں کہ شادی شدہ زندگی کو کامیاب اور  مسرور بنا نا عورت کا کام ہے۔نباہنے کی ذمے داری مرد سے زیادہ عورت پر آتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو۔ اگر وہ چاہے تو ؟ کیا یا نہیں ہوسکتا۔ اس نے اگر کبھی شادی کی تو۔ ”نہیں نہیں“ وہ لرز اٹھی ۔ جانے کیا انجام ہو۔ وہ ابھی شادی نہیں کرے گی ۔ ایم ۔ اے کرنے کے بعد۔ پھر ۔پھر سوچے گی۔ لیکن ادھر ادھر کی زندگیاں دیکھ کر وہ بہت زیادہ حساس بلکہ شکّی ہوگئی تھی ۔ کیا ہرج ہے اگر وہ شادی نہ کرے؟ اورتعلیم پائے۔ ڈگریاں لے۔ اچھی سی نوکری کرے۔ اپنا گھر بنائے۔
مگر یہ ناکام زندگیاں -یہ جدائیاں یہ طلاقیں؟ اس میں مرد سے زیادہ عورت کا قصور ہے شاید۔ وہ چاہے تو..... وہ سہارنا سیکھے ۔گھر بنانا یا بگاڑنا عورت کے ہاتھ میں ہے ۔ بھابی کا مزاج۔۔ خدا کی پناہ ! باجی کی خودداری اور آن بان ۔ شوہر سے مقا بلے.... منورما حد سے زیادہ حساس نہ ہوتی۔ اور اتنی بے زبان تو ۔تو شاید خودکشی کی نوبت نہ آتی۔
اماں اس رشتے کے خلاف تھیں۔ خاندان اور باجی کوعمر پر اعتراض تھا اور بھائی صاحب کھلم کھلا کہتے تھے کہ مزاج کا بہت تیز ہے۔ البتہ ابا میاں کہتے ۔ ”ذہین ہے۔ اعلا تعلیم یافتہ ہے۔ اتنی پوزیشن ہے۔ درجہ عہدہ، کیا نہ تھا ان کے پاس اور پھر یہ مسکان ! خوامخواہ لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ پندرہ سترہ برس کا فرق ہے، کیا ہوا۔ مرد کی عمر میں فرق ہونا ہی چاہیے۔ لڑ کی جلدی میچور ہو جاتی ہے۔ مزاج بھی مردوں کا تیز ہوتا ہے۔ عورت اگر مزاج شناس ہو تو اماں ، باجی، بھابی منورما، شانتی۔ ان سب کی زندگیاں اس کی نظر میں ہیں۔ سب کی کمزوریاں بھی وہ جانتی ہے۔ اس کا عزم تھا کہ وہ ان کا دل جیتے گی۔ اس کے لیے ناگز یر بن جائے گی۔ اس کے مزاج کو سہارے گی۔ اسے خوش رکھے گی۔ میں نباہ کرنا جانتی ہوں نباہ کر کے دکھاؤں گی۔“ اور سب کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ وہ ان کی بن گئی۔
ایک کے بعد دوسری بیٹی ہوئی تو اس روشن خیال اعلا تعلیم یافتہ مرد کے چہرے پر ناگواری کے بل پڑ گئے ۔ جیسے یہ اس کے اختیار کی بات تھی ۔ بچیوں نے جانا ہی نہیں کہ باپ کی محبت کس چڑیا کا نام ہے۔ خالائیں، پھوپھیاں، محلّے پڑوس والے جن بچوں کے بھولے چہروں اور پیاری باتوں پر جان دیتے ، ماموں چچا جن سے اتنی محبت کرتے وہ ڈیڈی کی صورت کو ترستی رہیں اور ماں کی محبت سے محروم!
مگراسے تو نباہ کرنا تھا۔ اس کے لیے اس نے وہ سہا، وہ سہا، جس کا اعتراف وہ خود اپنی ذات سے بھی کرنانہیں چاہتی تھی! سارا خاندان یہ سمجھتا تھا کہ شوہر اسے بے حد چاہتا ہے۔ آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ ہزاروں میں کھیلتی ہے۔ ہر ضرورت اور خواہش پوری ہوتی ہے۔ ہر عیش و آرام میسر ہے۔ ایسی خوش قسمت لڑکیاں کم ہوتی ہیں ۔ خوش قسمت !!
ہاں اس نے سب کو یہ احساس دلایا تھا۔ وہ جلتے داغ، وہ ٹپکتے زخم ، وہ مجروح خودداری اپنائیت کا وہ مجبور احساس کس نے دیکھا ؟ کون دیکھ سکتا تھا جس کو وہ پندرہ سال سے سہارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے جلے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی!
اس نے– اس عالی خاندان– تعلیم یافتہ خودمختار لڑکی نے کیا کیا نہیں سہا۔ رات رات بھر ٹانگیں دبائیں دن بھر کھانے پکائے اور اپنے ہاتھ سے کھلائے!
جب شوشو پیدا ہوا تو کچھ عرصے مجازی خدا نے بیٹے کی ماں بن جانے کے بعد اس کا خیال کیا۔ وہ قدر اور عزت جو کچھ عرصے بعد پھر خاک میں مل گئی۔
چار بجے کی آواز پر وہ چونک پڑی ۔ کھڑکی میں سے چاند کی کرنیں شیشے پر دھندلاسی گئی تھیں ۔ وہ اب تک نہیں آیا۔ اور اب یہ کون سی نئی بات ہے۔ کب سے یہ آگ سینے میں بھڑک رہی ہے اور وہ ان شعلوں کو بجھانے اور دبانے کی جد و جہد میں لگی ہوئی ہے۔
”چند دن کو بھیا کے پاس چلی جاؤں؟“ ”ہاں جاؤنا – تمھیں کسی سے محبت ہی نہیں ہے؟‘‘ پہلی بار اس نے یہ جملہ سنا تو حیران رہ گئی منہ سے نکلا۔
”کیا سچ مچ چلی جاؤں؟“
”اور کیا اسٹامپ پر لکھ کر دوں؟“
”اورتم میرے بغیر .... “
 ”میں خوب رہ لوں گا تمھارے بغیر ۔ تمھاری لڑ کی اتنی بڑی ہوچکی ہے۔ اس کو محبت دو۔ دوسرے بچّوں کو سنبھالو۔میرا پیچھا چھوڑو۔“
وہ گم سم حیران اس کامنھ تکتی رہی ۔ وہ ایسا بے نیاز، بےتعلق بیٹھا رہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ دور کہیں سے موذّن کی آواز بلند ہوئی ۔ اس نے بیٹھ کر سرڈھک لیا۔ کھڑکی میں سے پھٹنی پوکی ہلکی دو دھیا روشنی  پراس کی نظریں جم گئیں۔اوشا!  اس کی زندگی میں اوشا کی کوئی   کرن چمکے گی کیا؟
وولڑکی اس سے زیادہ حسین نہیں ہوسکتی۔ کل اس نے ان سے صاف صاف بات کرنے کا تہیہ کرلیا تھا ۔لیکن ایک جملہ سن کر ہی انھوں نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
تم نے جون سنا سب ٹھیک ہے ۔مگر تم کون ہوتی ہو اعتراض کرنے والی ۔ وہ تو میری جان کے ساتھ ہے ۔ تم چاہو تو چھوڑ سکتی ہو؟“
نہیں –نہیں– نہیں ، ہسٹیرک انداز سے اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگی۔
نہیں - آپ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ ایسی آتی جاتی عورتیں میری جگہ نہیں لے سکتیں ۔ آپ کےبچے .......بیٹیاں  ہیں–  بیٹا ہے..........
تمھیں پیسے کی کمی نہ ہوگی۔ جتنا چاہوگی ملے گا۔
نہیں– نہیں– نہیں– مجھے پیسے کی نہیں آپ کی ضرورت ہے۔ بچوں کو باپ کی ضرورت ہے۔
" بکے جا ‘– اور یہ کہتے وہ باہر نکل گئے۔
اب سورج نکل آیا تھا۔آیا ئیں بچوں کو تیار کررہی تھیں ۔ نند کی آواز گونج رہی تھی ۔ اس کی ملازمہ دو بار نا شتے کا تقاضا کرنے آ چکی تھی۔ مگر وہ اسی طرح نائٹ گاؤن میں مسہری پر بیٹھی تھی اور سوچی جارہی تھی
نہیں– یہ شادی ٹوٹ نہیں سکتی۔ میں– میں سب سہاروں گی ۔ سب کچھ جھیلوں گی۔ مگر اسے چھوڑوں گی نہیں– عورت کی زندگی میں سخت وقت بھی آتے ہیں ۔ آج نہیں کل– کل نہیں پرسوں وہ پچھتائیں گے..... اور وہ لڑ کی۔ وہ خود انہیں چھوڑ دے گی........... میری جگہ کون لے سکتا..........
بیگم صاحب– آپ کے نام کا خط– ملازمہ نے ایک بڑا سا لفافہ اس کے کانپتے ہاتھوں میں دے دیا۔
’’جانے کیا ہے؟ اس کا دل لرز رہا تھا۔ بڑی دیر بعد اس نے لفافہ چاک کیا۔
آہ! تو ووٹوٹ گئی!
طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا تھا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کو تکے جارہی تھی اور ایک جملہ بڑ بڑاتی جاتی تھی۔
مگر وہ ٹوٹ گئی۔ ٹوٹ گئی – ٹوٹ گئی ۔

Magar woh toot gayi by Saleha Abid Hussain  Chapter 4 NCERT Solutions Urdu

صالحہ عابدحسین
(1913ء – 1988 ء)
صالحہ عابد حسین کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا۔ وہ خواجہ غلام الثقلین  کی صاحبزادی اور ڈاکٹر سید عابدحسین کی بیوی تھیں۔ وہ خواجہ الطاف حسین حالی کے خاندان میں پانی پت میں پیدا ہوئیں ۔ لکھنے پڑھنے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا مشہور مصنف فلسفی اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عابد حسین سے شادی کے بعد ان کے تصنیف و تالیف کے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ لیکن ان کی بنیادی حیثیت ناول نویس اور افسانہ نگار کی ہے۔ صالحہ عابد حسین اپنے قلم کے ذریعہ تحریک آزادی میں شریک رہیں ۔ انھوں نے اپنے ناولوں ، افسانوں اور ڈراموں کے ذریعے انسانی اور تہذیبی قدروں کو عام کیا اور عورتوں کے مسائل اور سماجی خرابیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ۔ حکومت ہند نے ان کو پدم شری کا اعزاز عطا کیا ۔ کئی صوبائی اکادمیوں نے بھی انھیں انعام دیئے۔ ان کے ناولوں میں ’عذرا‘’ آتش خاموش‘، ’قطرے سے گہر ہونے تک‘،’ یادوں کے چراغ‘ اور ’اپنی اپنی صلیب‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ افسانوں کے چار مجموعے بھی شائع ہوئے۔

لفظ ومعنی
منجمد : جما ہوا، ٹھہرا ہوا
نالاں : بیزار
ہراساں : ڈرا ہوا
اوجھل : نظروں سے چھپاہوا
ہسٹریک انداز : چیخنا، چلانا، رونا۔ ہسٹیریا ایک بیماری ہوتی ہے جس میں انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ مختلف طرح کی حرکتیں کرنے لگتا ہے
خودداری : اپنی عزت کا پاس

 غور کرنے کی بات
* اس کہانی کے دو رخ ہیں۔ اس کہانی میں جہاں لڑکیوں پر مظالم کی داستان بیان کی گئی ہے وہیں غیر ذمے دار مردوں پر طنز بھی کیا گیا ہے۔
*  یہ کہانی ہمارے معاشرے کی ان خواتین کی تصویر کشی کرتی ہے جو آئے دن ایسے حالات سے مقابلہ کرتی ہیں، جیسا کہ اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ شوہر کے برےبرتاؤ کے با وجود بیوی کسی نہ کسی طرح خواہ وہ اپنے خاندان کی عزت یا اپنے بچوں کی خاطر نباہنے کی کوشش کرتی ہے۔
*  صالحہ عابد حسین کی یہ کہانی جس زمانے میں لکھی گئی اس وقت کی تعلیم یافتہ لڑکیاںظلم سہنے کے باوجود خاموش رہتی تھیں لیکن آج کی عورت بیدار ہوچکی ہے وہ شوہر کے اس گھناؤنے عمل کے بعد خاموش نہیں بیٹھتی، اس کوصدمہ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن اس کے بعد اس کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. مصنفہ نے بھابھی ، باجی اور منورما کی شادیوں کی ناکامی کے کیا اسباب بتائے ہیں؟
جواب: بھابھی کی بد مزاجی، باجی کا حد سے زیادہ خوددار ہونا اور منورما کا حد سے زیادہ حساس ہونا مصنفہ کی نظر میں ان کی شادی کی ناکامی کے اسباب میں شامل تھیں۔ 
2.  افسانے کی ہیروئن کو پورا خاندان خوش قسمت کیوں سمجھتا تھا؟
جواب: سارا خاندان یہ سمجھتا تھا کہ اُس کا شوہر اسے بے حد چاہتا ہے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا  وہ ہزاروں میں کھيلتی ہے۔ اُس کی ہر خواہش اور ضرورت پوری ہوتی ہے اس کو ہر عیش و آرام میسّر ہے اور یہی وجہ تھی کہ سب اس کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔

3.  افسانے کی ہیروئن ہر طرح کے حالات سے نباہ کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی تھی؟
جواب: افسانے کی ہیروئن کا ماننا تھا کہ یہ ناکام زندگیاں، یہ جُدائیاں اور یہ طلاقیں اس میں مرد سے زیادہ عورت کا قصور ہوتا ہے عورت چاہے تو وہ گھر کو سنبھال سکتی ہے گھر بگاڑنا یا بنانا عورت کے ہاتھ میں ہے وہ سمجھتی تھی کی اُس کی بھابھی کا مزاج، باجی کی خودداری اور منورما  کا حد سے زیادہ حساس ہونے  کی وجہ سے ان کی شادی ناکام ہو گئی۔ اُس نے سوچا کے وہ اپنے شوھر کو خوش رکھے گی اُس کا دل جیتے گی اسی لیے اُس نے فیصلہ کیا کے وہ نباہ کرے گی۔ اور یہ ثابت کردے گی کہ ناکام شادی کی وجہ مرد سے زیادہ عورت ہوتی ہے۔

4.  اس افسانے کا ہیرو تعلیم یافتہ ہونے کے باو جود لڑکیوں کے پیدا ہونے پر بیوی سے ناراض کیوں تھا؟
جواب: افسانے کا ہیرو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت رذیل ،گھٹیا اور چھوٹی سوچ رکھتا تھا اس لیے وہ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر بیوی سے ناراض ہو گیا۔

عملی کام:
مندرجہ میں محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکنا : طلاق کے فیصلے پر وہ اپنے شوہر کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکنے لگی۔
خاک میں ملنا : شادی کی ناکامی سے اس کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔
آنکھ سے اوجھل ہونا : دور راستے میں وہ اس کی آنکھ سے اوجھل ہوگیا۔
ہزاروں میں کھیلنا ; ایک امیر شخص سے شادی کر کے وہ ہزاروں میں کھیل رہی تھی۔

* افسانے میں ایک جگہ مزاج شناس‘‘ لفظ استعمال ہوا ہے جس میں شناس‘‘ لاحقہ ہے۔ آپ اس لا حقے کا استعمال کر کے تین الفاظ لکھیے۔
قیافہ شناس
مزاج شناس
زبان شناس
شناس کے معنی معرفت، عرفان و آگاہی، پہچان، شناخت ہیں۔

* اس افسانے میں استعمال ہونے والے پانچ انگریزی الفاظ لکھیے ۔
ہسٹیریا، نائٹ گاؤن، لیمپ، ڈگری،میچور، ڈیڈی
خلاصہ
.
مگر وہ ٹوٹ گئی میں صالحہ عابد حسین نے مسلم معاشرہ بلکہ ہندوستانی سماج کے ایک اہم مسئلہ پر قلم اٹھا یا ہے۔
 ایک زمانہ تھا جب ہندوستانی لڑکی کو ایک گائے بلکہ مظلوم گا ئے سمجھا جاتا تھا۔ اسے جس کھونٹے سے باندھ دیا جاتا تھا بندھ جایا کر تی تھی لیکن آج کی عورت بیدار ہوچکی ہے اس میں ایک نیا عزم ایک نیا حوصلہ ہے ۔
وہ اپنی ماں پر ہوئے مظالم سے آشنا ہے وہ بھابی اور باجی اور منورما کی ناکام شادیاں اور منورما کی خودکشی بھی دیکھی ہے  اس کے ذہن میں بے شمار سوال کلبلاتے ہیں ۔ شادی یا بربادی۔ یہ ناکام زندگیاں۔ یہ جدائیاں۔ یہ طلاقیں؟ اسے اس میں مردوں سے زیادہ عورتیں قصور وار نظر آتی ہیں اور وہ ایک عزم کرتی ہے کہ وہ اپنی شادی کو ناکام نہیں ہونے دے گی وہ کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹمنٹ کر ہی لے گی۔ نباہ کر لے گی اور اس نباہ کے لئے اس نے وہ سہا جس کاعتراف وہ خود اپنی ذات سےبھی نہیں کر نا چاہتی تھی ۔وہ مجسم خدمت گزار بن گی۔ لیکن صرف بیٹے کے پیدا ہونے پر شوہرکا
چند دن کا  التفات مل پایا ور نہ  وہی بےرخی حاکمیت کا انداز اور پھر اچانک اسے محسوس ہوا جیسے اس کا شوہر اس سے کہیں دور چلاگیا۔ کوئی دوسری لڑکی اس کے شوہر کی زندگی میں آ گئی ہےاس نےلاکھ حالات کو سنبھا لنا چاہا مگر بات بنی نہیں اور ایک دن شوہر کا بھیجا ہو الفافہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے کھولا ۔ آ ہ و ہ تو ٹوٹ گئی۔
طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کو تکے جارہی تھی اور ایک جملہ بڑبڑاتی جاتی تھی۔
مگرو ہ ٹوٹ گئی ۔ ٹوٹ گئی ۔ ٹوٹ گئی۔

کلک برائے دیگر اسباق

Taleem Se Betawajjahi ka Nateeja - Hali - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Taleem Se Betawajjahi ka Nateeja by Khwaja Altaf Hussain Hali  Chapter 16 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ
خواجہ الطاف حسین حالی

جنھوں نے کہ تعلیم کی قدر و قیمت
 نہ جانی مسلط ہوئی ان پر ظلمت
 ملوک اور سلاطیں نے کھوئی حکومت
 گھرانوں پر چھائی امیروں کے نکبت
رہے خاندانی نہ عزت کے قابل
ہوئے سارے دعوے شرافت کے باطل

 نہ چلتے ہیں و آں کام کاریگروں کے
 نہ برکت ہے پیشہ میں پیشہ وروں کے
 بگڑنے لگے کھیل سوداگروں کے
 ہوئے بند دروازے اکثر گھروں کے
کماتے تھے دولت جو دن رات بیٹھے
وہ اب ہیں دھرے ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے

 ہنر اور فن واں ہیں سب گھٹتے جاتے 
ہنر مند ہیں روز وشب گھٹتے جاتے
 ادیبوں کے فضل وادب گھٹتے جاتے
 طبیب اور ان کے مطب گھٹتے جاتے
ہوئے پست سب فلسفی اور مناظر
نہ ناظم ہیں سرسبز اُن کے نہ ناثر

 اگر اک پہنے کو ٹوپی بنائیں
 تو کپڑا وہ اک اور دنیا سے لائیں
 جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں
 تو مشرق سے مغرب میں لینے کو جائیں
ہر ایک شے میں غیروں کے محتاج ہیں وہ
 میکینکس  کی رو میں تاراج ہیں وہ

جو مغرب سے آئے نہ مال تجارت
 تو مر جائیں جو کے وہاں اہل حرفت
 ہو تجار پر بند راہ معیشت
 دکانوں میں ڈھونڈیں نہ پائیں بضاعت
پرائے سہارے ہیں بیوپار واں سب
طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب

 یہ ہیں ترک تعلیم کی سب سزائیں
 وہ کاش اب بھی غفلت سے باز اپنی آئیں
 مبادا رہ عافیت پھر نہ پائیں 
کہ ہیں بے پناہ آنے والی بلائیں
 ہوا بڑھتی جاتی سر رہ گذر ہے
چراغوں کو فانوس بن اب خطر ہے

 لیے فرد بخشیٔ ووراں کھڑا ہے
 ہر اک فوج کا جائزہ لے رہا ہے 
جنھیں ماہر اور کرتبی دیکھتا ہے 
انہیں بخشتا تیغ و طبل و نوا ہے
یہ ہیں بے ہنر یک قلم چھٹتے جاتے
 رسالوں سے نام ان کے ہیں کٹتے جاتے



نظم
نظم کے معنی’ انتظام ترتیب یا آرائش کے ہیں۔ عام اور وسیع مفہوم میں یہ لفظ نثر کے مد مقابل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد پوری شاعری ہوتی ہے۔ اس میں وہ تمام اصناف اور اسالیب شامل ہوتے ہیں جو ہیت کے اعتبار سے نثر نہیں ہیں ۔ اصطلاحی معنوں میں غزل کے علاوہ تمام شاعری کو نظم کہتے ہیں۔
عام طور پنظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم کا تانا بانانا جاتا ہے۔ خیال کا تدریجی ارتقا بی نظم کی ایک اہم خصوصیت بتایا گیا ہے۔ طویل نظموں میں بہارتقا واضح ہوتا ہے ختم نظموں میں یا انتقا م نہیں ہوتا اور کشور بیشتر ایک تار کی شکل میں بھرتا ہے۔
نظم کے لیے نہ و ہیئت کی کوئی قید ہے اور نہ موضوعات کی ۔ چنانچہ اردو میں غزل اور مثنوی کی ہیئت میں نظمیں اور آزاد و عراق میں بھی لکھی گئی ہیں ۔ اس طرح کوئی بھی موضوع نظم کا موضوع ہو سلتاہے۔
بیت کے اعتبار سے ختم کی چار میں ہوسکتی ہیں: .. پاین نظم
اسی نظم جس میں بھر کے استعمال اور قافیوں کی ترتیب میں مقررہ اصولوں کی پابندی کی گئی ہو، پایان نظم کہلاتی ہے۔ نئے انداز کی ایسی نظمیں بھی، جن کے بندوں کی ساخت مروجیوں سے مختلف ہو یا جن کے مصرعوں میں قافیوں کی ترتیب مروجہ اصولوں کے مطابق نہ ہو لیکن ان کے تمام مصرعے برابر کے ہوں اور ان میں قافیے کا کوئی نہ کوئی التزام ضرور پایا جائے ، پانظمیں
کہلاتی ہیں۔
ایسی نظم جس کے تمام مصر کے برابر کے ہوں مگر ان میں تھانے کی پابندی نہ ہو تم معر کہلاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے ظلم کاری بھی کہا ہے۔
ایسی نظم جس میں نہ تو قافیے کی پابندی کی گئی ہو اور یہ تمام مصرعوں کے ارکان برابر ہوں لینی جس کے مصرعے چھوٹے بڑے ہوں، آز انظم کہلاتی ہے۔
نثری نظم چھوٹی بوی نژری سطروں پرمشتمل ہوتی ہے۔ اس میں ردیف ، قافیے اور وزن کی پابندی نہیں ہوتی ۔ آج کل نثری نظم کا رواج دنیا کی تمام زبانوں میں عام ہے۔

خواجہ الطاف حسین حالی
(1837ء - 1914ء)
الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم وطن میں اور کچھ تعلیم دہلی میں ہوئی ۔ وہ اردو کے ادبی نظریہ ساز ناقد ، سوانح نگار اور صاحب طرز انشا پرداز ہیں ۔ شاعر کی حیثیت
سے بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کوئی راہوں پر ڈالا ۔ غزل اورقصیدے کی خامیوں کو وارخ کیا۔ ان کی غزلیں اور میں لطف واش کے اعتبارسے اعلی درجے کی ہیں ۔ ان کے کلام میں سادگی ، ورومندی اور جذبات کی پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ ان کی چار اہم کتا میں حیات سعدی، مقد مہ شعر و شاعری، یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات جاوید ہیں۔
مولانا حالی شعروادب کوض مسرت حاصل کرنے کا ذریہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ شاعری کی مقصدیت کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ہوسکتی ہے اور دنیا میں اس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔ وہ شاعری کے لیے خیلی مطالعہ کائنات اور مناسب الفاظ کی بہو کو ضروری سمجھتے تھے۔ حالی کو غالب ، شیشت اور سرسید کی صحبت حاصل تھی جس سے ان کے تنقیدی شعور کو جلائی۔
حالی نے ایک طویل نظم مد و جزر اسلام مسدس کی شکل میں لکھی جس کے بارے میں سرسید نے کہا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا ہے تو میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں ۔“

Taleem Se Betawajjahi ka Nateeja by Khwaja Altaf Hussain Hali  Chapter 16 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی
بے تو جہی : دھیان نہ دیا، تعلق نہ رکھنا
مسلط : چھایا ہوا، حاوی
نکبت : مفلسی ، بدحالی خواری
ظلمت : اندھیرا، تاریکی
باطل : جھوٹ
پیشہ : وہ کام جوروزی کمانے کے لیے کیا جائے
فضل : بزرگی مہربانی
طبیب : علاج کرنے والا حکیم
مطب : دواخانہ
ناشر : پھیلانے والا یعنی کتابیں چھاپنے والا
ناظم : انتظام کرنے والا سیکریٹری کے معنی میں بھی مستعمل
تاراج : بر باد
اہل حرفت : کاریگر
تجار : تاجر کی جامع تجارت کرنے والے
معیشت : کاروبار روزی ، سبب زندگی
بضاعت : پونجی، سامان
طفلی : بن بلایا مہمان
مبادا : کہیں ایسا نہ ہو، خدانخواسته
رہ عافیت : بچاؤ کا راستہ،خیر یت کا راستہ
طبل : نظاره
نوا : آواز
رسالوں : رسالہ کی جمع فوجی دستہ
ا
 غور کرنے کی بات
*  کسی بھی فرد، جماعت ، قوم اور ملک کی ترقی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے ۔ دنیا کےوہی مالک اور میں خوشحال اور ترقی پذیر ہیں جہاں کے شہریوں میں ہر طرح کی تعلیم  اورعلم و ہنر موجود ہے۔
*   اس نظم میں ہندوستانی قوم کی تعلیم سے دوری کو موضوع بنایا گیا ہے او تعلیم کے نہ ہونے کی  وجہ سے جو نقصانات ہوتے ہیں ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ * يہ نظم مسدس کے فارم (بیت) میں لکھی گئی ہے۔ مسدس اس نظم کوکہتے ہیں جس کے ایک بندمیں چھ مصر عے ہوتے ہیں۔ اس نظم میں سادہ اور سلیس زبان کا استعمال ہوا ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
1. تعلیم کی قدرو قیمت کیا ہے؟
2.  حکومت اورقوموں پر زوال کیسے آتا ہے؟
3.  شرافت اور عزت کا معیار کیا ہے؟
4.  ترک تعلیم کے کیا کیا نقصانات ہیں؟
5. کسی ملک اور وہاں کے عوام کی ترقی کن چیزوں سے ہوسکتی ہے؟

عملی کام
* اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* نظم کے بند نمبر ایک سے چار تک خوش خط لکھیے۔
* نظم کے پہلے بند کا مطلب لکھیے۔

* درج ذیل الفاظ میں سے واحد کی جمع اور جمع کی واحد بنا کر لکھیے:
ملک : ممالک
سلطان : سلاطین
امیروں : امیر
پیشہ وروں : پیشہ ور
سوداگروں : سوداگر
طبیب : اطباء
منظر : مناظر
تجار : تاجر
رسالوں : رسالہ
فوج : افواج

*تعلیم کے فوائد پر ایک مضمون لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 2 April 2020

Muflisi Sab Bahar Khoti Hai - Wali - NCERT Solutions Class IX

Muflisi sab bahar khoti hai by Wali Muhammad Wali  Chapter 10 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل 
ولی محمد ولی

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
 مرد کا اعتبار کھوتی ہے

کیوں کہ حاصل ہومج کوں جمعیت
 زلف تیری قرار کھوتی ہے

ہر سحرشوخ کی نگہ کی شراب
 مج انکھاں کا خمار کھوتی ہے

کیوں کے ملنا صنم کا ترک کروں
 دلبری اختیار کھوتی ہے

اے ولی آب اس پری رو کی
مج سنے کا غبار کھوتی ہے
غزل  کے معنی
عربی کا لفظ ہے ۔ اس کے اصل معنی ہیں محبوب سے باتیں کرتا ،عورتوں سے باتیں کرنا۔ وہ شاعری جسے غزل کہتے ہیں اس میں بنیادی طور پر عشقیہ باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ غزل میں دوسرے مضامین بھی داخل ہوتے گئے ہیں اور آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ غزل میں تقریبا ہر طرح کی باتیں کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل اردو کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔ غزل کا ہر شعر عام طور پر اپنے مفہوم کے اعتبار سے  مکمل ہوتا ہے۔
جس طرح غزل میں مضامین کی قید نہیں ہے اسی طرح اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں۔ یوں تو غزل میں عموماً پانچ یا سات شعر ہوتے ہیں ، لیکن بعض غزلوں میں زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں ۔ کبھی کبھی ایک ہی بحر، قافیے اور ردیف میں شاعر ایک سے زیادہ غر لیں کہہ دیتا ہے۔ اس کو دو غزلہ، سہ غزلہ ' چہار غزلہ کہا جا تا ہے۔
کسی غزل کے اگر تمام شعر موضوع کے لحاظ سے آپس میں یکساں ہوں تو اسے غزل مسلسل کہتے ہیں اور اگر شاعر غزل کے اندر کسی ایک مضمون یا تجربے کو ایک سے زیادہ اشعار میں بیان کرے تو اسے قطعہ اور ایسے اشعار کو قطعہ بند کہتے ہیں۔
غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے۔ مطلع کے بعد والا شعرزیب مطلع یا حسن مطلع کہلاتا ہے۔ غزل میں ایک سے زیاده مطلع بھی ہو سکتے ہیں۔ انھیں مطلع ثانی ( دوسرا )مطلع ثالث (تیسرا) کہا جاتا ہے۔ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاه بیت کہلاتا ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو اور صرف قافیے ہوں ، اس کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔
ولی محمد ولی
(1667ء - 1707ء)
ولی کے نام تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش ، سب کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن بیشترلوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا نام ولی محمد اورخص ولی تھا۔ وہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ بعد میں احمد آباد کر انھوں نے شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں تعلیم مکمل کی اور یہیں شاہ نور الدین سہروردی کے مرید ہوئے۔ ولی نے فارسی الفاظ اور انداز بیان
کی آمیزش سے ایک نیا رنگ پیدا کیا ۔ ولی کے کلام کا یہ نیا رنگ نہ صرف ان کی مقبولیت کا باعث بنا بلکہ اس زمانے کے دہلی کے شعرا نے بھی اس کا اثر قبول کیا اور وہ بھی اسی انداز میں شاعری کرنے
لگے۔ ولی کے اثر سے دہلی میں اردو شاعری کا چلن عام ہوا جو آگے چل کر روز به روز ترقی کرتا گیا۔ وی کا انتقال احمدآباد میں ہوا۔
ولی اپنے زمانے کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کی تقریبا تمام اصناف میں صلاحیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ دلی سے پہلے قصیدہ اور مثنوی کا رواج زیادہ تھا۔ ولی نے غزل کو اولیت دے
کر اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ ان کی غزلوں میں خیال کی ندرت اور بیان کی لطافت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں حسن وشق کے مضامین کے ساتھ ساتھ تصوف ومعرفت کو بھی جگہ دی ۔ عشقیہ واردات و کیفیات کے بیان میں سرور وستی کا انداز پایا جاتا ہے۔ ولی محبوب کے حسن کے داخلی اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے خارجی اوصاف کا بیان بڑے پرلطف اور دلکش انداز میں کرتے ہیں ۔ ولی کی زبان میں ایک خاص مٹھاس ہے، جو ہندی ، د مینی اور فارسی کے الفاظ کوتوازن کے ساتھ استعمال کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔

Muflisi sab bahar khoti hai by Wali Muhammad Wali  Chapter 10 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
مفلسی : غریبی
کھونا : لے جانا ختم کر دینا گم کرنا
جمعیت : ٹھہراو، سکون
انکھاں : آنکھیں
خمار : پیاس لینی شراب کی طلب لیکن اسے بہت سے لوگ نشہ کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔ یہاں دونوں معنی صحیح ہو سکتے ہیں۔
صنم : محبوب (اصل معنی بت)
کیوںکے : کیوں کر
آب : چمک، پانی۔ یہاں چک کے معنی میں ہے۔
دلبری : محبوبیت
مچ : میرے، میرا
پری رو : پری چہرہ خوبصورت چہرے والا)
سینے : سینہ
غبار : رنجیدگی ناخوشی

 غور کرنے کی بات:
*  غزل میں بہت سے الفاظ ایسے آئے ہیں جواب نہیں بولے جاتے ۔ جیسے جج کوں (مجھ کو )،اکھاں (آنکھیں)، سنے ( سینہ ) کوں (کو)ج، مجھے معنی میرا ، میرے . اس غزل کے آخری شعر میں ایک لفظ آب آیا ہے۔ یہاں اس کے معنی چیک کے ہیں
لیکن اب پانی کو بھی کہتے ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
 1. مرد کا اعتبار کھونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: مفلسی یعنی غریبی ایک بری چیز ہے۔ ایک غریب آ دمی پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ اس کی باتوں پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرتا۔
 2. کون سی چیز شاعر کے سینے کا غبار کھورہی ہے؟
جواب: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا چہرہ اتنا خوبصورت ہے کہ اسے دیکھ کر میرے سینۓ میں جو بھی رنجیدگی ہے وہ دور ہو جاتی ہے یعنی اپنی محبوبہ کو دیکھ کر اس کی ساری شکایت اور رنج دور ہو جاتا ہے۔
3. شاعرصنم سے ملنا کیوں نہیں ترک کر پاتا ہے؟
جواب: شاعر اپنے محبوب سے ملنا اس لیے ثرک نہیں کر پاتا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور وہ اپنے دل پر قابو نہیں رکھ پاتا اور بے اختیار صنم سے ملنے پہنچ جاتا ہے۔
عملی کام
* اس غزل کو بلند آواز سے پڑھے اور زبانی یاد کیجیے۔

نیچے دیے گئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
مفلسی : ں : ں
بہار : ں : ں
اعتبار : ں : ں
سحر ں : ں
اختیار : ں : ں
غبار : ں

* کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو لکھنے میں ایک جیسے نہیں ہوتے اور ان کو پڑھنے میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ جیسے ڈرنظر ، نذر نظیر ، اشرار إصرار، الم علم عقل ۔ قل ۔ آپ اپنے استاد سے ان الفاظ کا فرق معلوم کر کے لکھیے۔

* غزل کے دوسرے شعر میں ایک لفظ حاصل آیا ہے اگر ہم اس کے شروع میں ل+ (ا) لگا دیں تو اس کے معنی ہی بدل جائیں گے اور یہ لفظ بن جائے گا لا حاصل یعنی جس سے کچھ حاصل نہ ہو۔ آپ اسی طرح لگا کر پانچ الفاظ لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Ashk Aankhon Mein Kab Nahin Aata - Mir Taqi Mir - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Ashk Aankhon mein kab nahin aata by Mir Taqi Mir  Chapter 11 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
میرتقی میر

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا

 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا

 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا

 جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا


میر تقی میر
(1722ء - 1810ء)
میرتقی میر آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درویش صفت انسان تھے۔ میر کی نوعمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا پھر میں دہلی آگئے اور یہاں طویل عرصے تک رہے۔ یہاں خان آرزو کی محبتوں نے ان کے ذوق شعراورعلم کو ترقی دی اور بہت جلد وہ دہلی کے نمایاں شعر میں گئے جانے لگے۔ دلی میں انھوں نے اچھے اور برے دونوں طرح کے دن گزارے، اپنے مربیوں کے ساتھ کچھ وقت راجپوتانے میں گزارا اور بالآخر 1782ء کے قریب وہ لکھنؤ آگئے ۔ نواب آصف الدولہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے سے لے کر آج تک تمام شعرا اور ناقدین نے ان کی شاعران عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ انھیں خدائے تین کہا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انھیں اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔

میر کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں اتنی ہی خوبی سے جگہ دی ہے جس خوبی سے وہ رنج وغم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بظاہر سادہ ہے لیکن اس میں فکر کی گہرائی ہے۔ ان کے شعروں کو چھوتے ہیں ۔ میر اپنی شاعری میں لفظوں کو نے نئے رنگ سے استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نئے نئے معنی پیدا کرتے ہیں ۔ میر نے بر می گن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا اصل میدان غزل او مثنوی ہے۔ اردو میں ان کا خینم گلیات شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے ذکر میز کے نام سے فارسی زبان میں آپ بیتی لکھی اور نکات الشعرا کے نام سے اردو شاعروں کا ذکر چلکھا جسے اردو شعرا کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔


Ashk Aankhon mein kab nahin aata by Mir Taqi Mir  Chapter 11 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
اشک : آنسو
وہ : یہاں بمعنی محبوب
لوہو : (لہو ) خون
مونس : دوست ، دل کو تسلی دینے والا
ہجراں : جدائی
گریہ : آنسو
ہمدم : ساتھی
سخن : بات
غبارمیر : میر کی خاک (یعنی مرکر خاک ہو جانے کے بعد میر کا جسم غبار بن کر ہوا میںاڑ رہا ہے)

تشریح
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا
تشریح : میر کہتے ہیں کہ میں ہجر یار میں ہر دم روتا رہتا ہوں ۔ ایسا کون سا وقت ہونا ہے جب میری آنکھوں میں آنسو نہیں اور جب میری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے تو خون ٹپکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ روتے روتے میری آنکھوں سےآنسوؤں کے بجائے خون نکلنے لگا ہے
 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا
تشریع : میرے ہوش حواس رخصت نہیں ہوئے ہیں ۔ میں پوری طرح ہوش میں ہوں ۔ لوگ مجھے بے کا دیوانہ سمجھتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ جب محبوب آجاتا ہے تو میں ضرور ہوش وخرد سے بے گانہ نہ ہو جاتا ہوں ۔
صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا
تشریح : ہجر کی صعوبت میں اگر کوئی مونس و ہمدرد تھا تو وہ تھا صبر اسی کے سہارے شب ہجراں گزر رجاتی تھی مگراب تو  اس نے بھی ایک مدت ہوئی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اب تو ہمیں کسی طرح قرارنہیں آتا۔
 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا
تشریح:  ہمارے دل سے کوئی خواہش ضرور رخصت ہوئی اسی لئے تو میں رونا آرہا ہے ۔ یہ خواہش و صال یارکی
خواہش بھی ہوسکتی ہے۔
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا
تشریح : اے میرے ہمدم میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کیا کروں جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ باتیں لبوں تک نہیں آ پا تیں۔محجوب کے آتے ہی تمام باتیں بھول جاتا ہوں ۔ غالب نے بھی اس طرح کہا ہے۔
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پو جھو کہ مدیا کیا ہے۔
دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا
تشریح : میر ے والد نے مرتے وقت میر کو ایک ہی وصیت کی تھی کہ بیٹا عشق کر عشق آداب زندگی سکھاتا ہے۔ میرکے جسم کی خاک مرنے کے بعد بھی پاس ادب کی خاطر محبوب تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ یہ سلیقے یہ اد ب عشق ہی کی بدولت ہیں عشق کے بغیر یہ ادب حاصل نہیں ہوتا۔




غور کرنے کی بات
 * میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
 * میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
*  میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
*  یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔
K
سوالوں کے جواب لکھیے
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: اس شعر میں شاعر غم کی شدت بیان کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ غم جب زیادہ شدید ہوتا ہے تو آ نکھوں میں آ نسو نہیں آ تا بلکہ آنکھوںسے۔خون ٹپکتا ہے۔

 2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب: شاعر نے گریہ آ نے کا سبب اپنی سب خواہشوں کا مر جانا بتایا ہے۔

 3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔
جواب: مقطع میں میر کا کہنا ہے کہ تو اگر سچی محبت کرتا ہے تو اپنے محبوب سے دور بیٹھ اور یہ تبھی ممکن ہے جب تو اس سے عشق کرتا ہے۔اس لییے کہ یہ ادب عشق کے بغیر ممکن نہیں۔

عملی کام
*  استاد کی مدد سے غزل کو  صحیح تلفظ اور مناسب ادائیگی سے پڑھیے۔
*  اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
*  اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔


کلک برائے دیگر اسباق

Dard Mannat Kashe Dawa Na Hua - Mirza Ghalib - NCERT Solutions Class IX Urdu


(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
میرتقی میر

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا

 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا

 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا

 جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا


میر تقی میر
(1722ء - 1810ء)
میرتقی میر آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درویش صفت انسان تھے۔ میر کی نوعمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا پھر میں دہلی آگئے اور یہاں طویل عرصے تک رہے۔ یہاں خان آرزو کی محبتوں نے ان کے ذوق شعراورعلم کو ترقی دی اور بہت جلد وہ دہلی کے نمایاں شعر میں گئے جانے لگے۔ دلی میں انھوں نے اچھے اور برے دونوں طرح کے دن گزارے، اپنے مربیوں کے ساتھ کچھ وقت راجپوتانے میں گزارا اور بالآخر 1782ء کے قریب وہ لکھنؤ آگئے ۔ نواب آصف الدولہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے سے لے کر آج تک تمام شعرا اور ناقدین نے ان کی شاعران عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ انھیں خدائے تین کہا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انھیں اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔

میر کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں اتنی ہی خوبی سے جگہ دی ہے جس خوبی سے وہ رنج وغم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بظاہر سادہ ہے لیکن اس میں فکر کی گہرائی ہے۔ ان کے شعروں کو چھوتے ہیں ۔ میر اپنی شاعری میں لفظوں کو نے نئے رنگ سے استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نئے نئے معنی پیدا کرتے ہیں ۔ میر نے بر می گن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا اصل میدان غزل او مثنوی ہے۔ اردو میں ان کا خینم گلیات شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے ذکر میز کے نام سے فارسی زبان میں آپ بیتی لکھی اور نکات الشعرا کے نام سے اردو شاعروں کا ذکر چلکھا جسے اردو شعرا کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

لفظ ومعنی
اشک : آنسو
وہ : یہاں بمعنی محبوب
لوہو : (لہو ) خون
مونس : دوست ، دل کو تسلی دینے والا
ہجراں : جدائی
گریہ : آنسو
ہمدم : ساتھی
سخن : بات
غبارمیر : میر کی خاک (یعنی مرکر خاک ہو جانے کے بعد میر کا جسم غبار بن کر ہوا میںاڑ رہا ہے)

غور کرنے کی بات
 * میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
 * میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
*  میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
*  یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:

 2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب:

 3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔


عملی کام
*  استاد کی مدد سے غزل کو  صحیح تلفظ اور مناسب ادائیگی سے پڑھیے۔
*  اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
*  اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔


کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری