آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 14 November 2020

Guddi Ka Lal-Noor Khan by Maulwi Abdul Haq NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

گدڑی کا لال نورخان

لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں ۔ نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے

پھول میں گر آن ہے کانٹے میں بھی ایک شان ہے

  نور خاں مرحوم کنٹنجنٹ کے اول رسالے میں سپاہی سے بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج میں حیدرآباد کی کنٹنجنٹ خاص حیثیت اور امتیاز رکھتی تھی۔ ہر شخص اس میں بھرتی نہیں ہوسکتا تھا، بہت دیکھ بھال ہوتی تھی ۔ بعض اوقات نسب نامے تک دیکھے جاتے تھے تب کہیں جا کر ملازمت ملتی تھی ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ صرف شرفا اس میں بھرتی کیے جائیں ۔ یہی و جہ تھی کہ کنٹنجنٹ والے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ قید بھی اٹھ گئی اور اس میں اور انگریزوں کی دوسری فوجوں میں کوئی فرق نہ رہا۔ پہلے زمانے میں سپاہ گری بہت معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اب اس میں اور دوسرے پیشوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بات یہ ہے کہ اشراف کا سنبھالنا مشکل کام ہے۔ اس میں ایک آن بان اور خودداری ہوتی ہے جو بہادری اور انسانیت کا اصل جوہر ہے، ہر کوئی اس کی قدر نہیں کرسکتا۔ اس لیے شریف روتا اور ذلیل ہنستا ہے۔ یہ جتنا پھیلتا ہے وہ اتنا ہی سکڑتا ہے۔ کرنل نواب افرالملک بہادر بھی نور خاں مرحوم ہی کے رسالے کے ہیں ۔ کنٹنجنٹ کے بہت سے لوگ اکثر تو کرنل صاحب موصوف کے توسط سے اور بعض اور ذرائع سے حیدرآباد ریاست میں آ کر ملازم ہو گئے ۔ ان میں بہت سے نواب ، کرنل، میجر، کپتان اور بڑے بڑے عہدے دار ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نور خاں بھی ہے؟

اول رسالے کے بعض لوگوں سے معلوم ہوا کہ خان صاحب مرحوم فوج میں بھی بڑی آن بان سے رہے اور سچائی اور فرض شناسی میں مشہور تھے۔ یہ ڈرل انسٹرکٹر تھے یعنی گوروں کو جو نئے بھرتی ہو کر آتے تھے ڈرل سکھاتے تھے۔ اس لیے اکثر گورے افسروں سے واقف تھے۔ وہ بڑے شہسوار تھے۔ گھوڑے کو خوب پہچانتے تھے۔ بڑے بڑے سرکش گھوڑے جو پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیتے تھے، انھوں نے درست کیے۔ گھوڑے کے سدھانے اور پھیرنے میں انھیں کمال تھا۔ چوں کہ بدن کے چھریرے اور ہلکے پھلکے 

تھے، گھڑ دوڑوں میں گھوڑے دوڑاتے تھے اور اکثر شرطیں جیتے تھے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی، خوش تدبیری اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر اوقات ناراض ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ان کے کمانڈنگ افسر نے کسی بات پر خفا ہوکر جیسا کہ انگریزوں کا عام قاعدہ ہے انھیں 'ڈیم' کہہ دیا۔ یہ تو گالی تھی، خاں صاحب کسی کی ترچھی نظر کے بھی روادار نہ تھے۔ انھوں نے فوراً رپورٹ کر دی ۔ لوگوں نے چاہا کہ معاملہ رفع دفع ہوجائے اور آگے نہ بڑھے مگر خاں صاحب نے ایک نہ سنی۔ معاملے نے طول کھینچا اور جنرل صاحب کو لکھا گیا۔ کمانڈنگ افسر کا کورٹ مارشل ہوا اور اس سےکہا گیا کہ خان صاحب سے معافی ما نگے ۔ ہر چند اس نے بچنا چاہا مگر پیش نہ گئی اور مجبوراً اسے معافی مانگنی پڑی۔ ایسی خودداری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دفعداری سے آگے نہ بڑھے۔

اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں ۔ شریف افسر خاں صاحب کی سچائی ، دیانت اور جفاکشی کی بہت قدر کرتے تھے اور ان کو اپنی اردلی میں رکھتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انھیں خاں صاحب کے بہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور

وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے در پے رہتے تھے۔ ایسے لوگ اپنی اور اپنی قوم والوں کی خوداری کو تو جو ہر شرافت سمجھتے ہیں لیکن اگر یہی جو ہرکسی دیسی میں ہوتا ہے تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں ۔ تاہم ان کے بعض انگریزی افسران پر بہت مہربان تھے۔ خاص کر کرنل فرن ٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تھا کہ شاید کسی اور پر ہو۔ جب کرنل صاحب نے اپنی خدمت سے استعفا دیا تو اپنا تمام مال و اسباب اور سامان جو ہزارہا روپے کا تھا، خاں صاحب کے سپرد کر گئے ۔ یہ امر انگریز افسروں کو بہت ناگوار ہوا۔ اس وقت کے کمانڈنگ افسر سے نہ رہا گیا اور اس نے کرنل موصوف کو خط لکھا کہ آپ نے ہم پر اعتماد نہ کیا اور ایک دیسی دفعدار کو اپنا تمام قیمتی سامان حوالے کر گئے ۔ اگر آپ یہ سامان ہمارے سپرد کر جاتے تو اسے اچھے داموں میں فروخت کر کے قیمت آپ کے پاس بھیج دیتے۔ اب بھی اگر آپ لکھیں تو اس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ کرنل نے جواب دیا کہ مجھے نورخان پرتمام انگریز افسروں سے زیادہ اعتماد ہے ، آپ کوزحمت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس پر یہ لوگ اور برہم ہوئے۔

ایک بار کمانڈنگ افسر یہ سامان دیکھنے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں فلاں چیز میم صاحب نے ہمارے ہاں سے منگائی تھی، چلتے

وقت واپس کرنی بھول گئے ، اب تم یہ سب چیزیں ہمارے بنگلے پر بھیج دو۔ خاں صاحب نے کہا میں ایک چیز بھی نہیں دوں گا، آپ کرنل صاحب کو لکھیے وہ اگر مجھے لکھیں گے تو مجھے دینے میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ وہ اس جواب پر بہت بگڑا اور کہنے لگا تم ہمیں جھوٹا سمجھتے ہو؟ خاں صاحب نے کہا میں آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتا، یہ سامان میرے پاس امانت ہے اور میں کسی کو اس میں سے ایک تنکا بھی دینے کا مجاز نہیں ۔ غرض وہ بڑ بڑاتا ہوا کھسیانا ہو کر چلا گیا۔ خاں صاحب نے ایک انگریزی محرر سے اس سامان کی مکمل فہرست تیار کرائی اور کچھ تو خود خرید کر کچھ نیلام کے ذریعے بیچ کر ساری رقم کرنل صاحب کو بھیج دی۔

نہ معلوم یہی کرنل تھا یا کوئی دوسرا افسر، جب ملازمت سے قطع تعلق کر کے جانے لگا تو اس نے ایک سونے کی گھڑی، ایک عمدہ بندوق اور پانسوروپے نقد خاں صاحب کو بطور انعام یاشکرانے کے دیے۔ خاں صاحب نے لینے سے انکار کیا کرنل اور اس کی بیوی نے بہتیرا اصرار کیا مگر انھوں نے سوائے ایک بندوق کے دوسری چیز نہ لی اور باقی سب چیز یں واپس کر دیں۔

کرنل اسٹوارٹ بھی جو ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے۔ رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ ان کی روش سے خوش نہ تھے اور خوش کیوں کر ہوتے، خوشامد سے انھیں چڑ تھی اور غلامانہ اطاعت آتی نہیں تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ اپنے کرنل کے ہاں کھڑے تھے کہ ایک انگریز افسر گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے اتر کر اس نے خاں صاحب سے کہا کہ گھوڑا پکڑو ۔ انھوں نے کہا ” میں سائیں نہیں ہوں ۔ اس نے ایسا جواب کا ہے کو سنا تھا، بہت چیں بہ جببیں ہوامگر کیا کرتا، آخر باگ درخت کی ایک شاخ سے انکا کر اندر چلا گیا۔ اب نہ معلوم یہ خاں صاحب کی شرارت تھی یا اتفاق تھا کہ باگ شاخ میں سے نکل گئی اور گھوڑا بھاگ نکلا۔ اب جو صاحب باہر آئے تو گھوڑا ندارد۔ بہت جھنجھلایا، بڑی مشکل سے تلاش کر کے پکڑوایا تو جگہ جگہ سے زخمی پایا۔ اس نے کرنل صاحب سے خاں صاحب کی بہت شکایت کی۔ معلوم نہیں کرنل نے اس انگر یز کو کیا جواب دیا لیکن وہ خاں صاحب سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ تم نے خوب کیا۔

خاں صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور اس طرح وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پر وظیفہ لے کر فوجی ملازمت سے سبک دوش ہوگئے ۔ سچ ہے انسان کی برائیاں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں ہوتیں بعض وقت اس کی خوبیاں بھی اسے لے ڈوبتی ہیں ۔

کرنل اسٹوارٹ نے بہت چاہا کہ وہ مسٹر ہنکن ناظم پولیس سے سفارش کر کے انھیں ایک اچھا عہده دلا دیں مگر خاں صاحب نے اسے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں اب اپنے وطن دولت آباد ہی میں رہنا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ صوبے دار صاحب اورنگ آباد سے سفارش فرما دیں تو بہت اچھا ہو ۔ کرنل صاحب بہت اصرار کرتے رہے کہ دیکھو میں پولیس میں بہت اچھی خدمت مل جائے گی انکار نہ کرو مگر یہ نہ مانے۔ آخر مجبور ہو کر نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار صوبہ اورنگ آباد سے سفارش کی ۔ صوبے دار صاحب کی عنایت سے وہ قلعہ دولت آباد کی جمعیت کے جمعدار ہو گئے اور بہت خوش تھے۔

نواب مقتدر جنگ کے بعد نواب بشیر نواز جنگ اورنگ آباد کی صوبے داری پر آئے۔ وہ بھی خاں صاحب پر بہت مہربان تھے۔ اسی زمانے میں لارڈ کرزن وائسراے دولت آباد تشریف لائے ۔ خاں صاحب نے سلامی دینے کی تیاری کی کئی توپیں ساتھ ساتھ رکھ کر سلامی دینی شروع کی ۔ لارڈ کرزن گھڑی نکال کر دیکھ رہے تھے۔ جب سلامی ختم ہوئی تو نواب صاحب سے خاں صاحب کی تعریف کی ۔ سلامی ایسے قاعدے اور اندازے سے دی کہ ایک سیکنڈ کا فرق نہ ہونے پایا۔ نواب صاحب نے اس کا تذکرہ خاں صاحب سے کیا اور کہا کہ میاں اب تمھاری خیر نہیں معلوم ہوتی۔

لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالا حصار پر گئے تو وہاں سستانے کے لیے کرسی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگرٹ دان نکال کر سگریٹ پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگرٹ سلگایا ہی تھا کہ یہ فوجی سلام کر کے آگے بڑھا اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگرٹ نیچے پھینک دیا اور جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ حرکت دیکھ کر نواب بشیر نواز جنگ بہادر اور دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا مگر موقع ایسا تھا کہ کچھ کہ نہیں سکتے تھے لہو کے سے گھونٹ پی کر چپ رہ گئے۔ بعد میں بہت کچھ لے دے کی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ خاں صاحب نے قاعدے کی پوری پابندی کی تھی، اس میں چوں و چرا کی گنجائش نہ تھی۔

اب اسے اتفاق کہیے یا خاں صاحب کی تقدیر کہ لارڈ کرزن نے جانے کے بعد ہی فنانس کی معتمدی کے لیے مسٹر وا کر کا انتخاب کیا ۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر واکر نے اصلاحیں شروع کیں ۔ اس لپیٹ میں قلعہ دولت آباد بھی آ گیا، اوروں کے ساتھ خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے۔

دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ لگانا شروع کردیا۔ مسٹر وا کر دورے پر دولت آباد آئے تو ایک روز ٹہلتے ٹہلتے ان کے باغ میں بھی آپہنچے۔ خاں صاحب بیٹھے گھاس کرپ رہے تھے ۔ مسٹر واکر کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سلام کیا۔ پوچھا کیا حال ہے، کہنے لگے آپ کی جان و مال کو دعا دیتا ہوں ۔ اب آپ کی بدولت گھاس کھودنے کی نوبت آگئی ۔ مسٹر واکر نے کہا یہ اچھا کام ہے ۔ دیکھو تمھارے درخت انجیروں سے کیسے لدے ہوئے ہیں ۔ ایک ایک آنے کو بھی ایک ایک انجیر بیچو توکتنی آمدنی ہوجائے گی ۔ خاں صاحب گھبرائے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کم بخت انجیروں پر بھی ٹیکس لگا دے۔ تڑ سے جواب دیا کہ آپ نے انجیر لدے ہوئے تو دیکھ لیے اور یہ نہ دیکھا کہ کتے سڑ گل کر گر جاتے ہیں۔ کتنے آندھی ہواسے گر پڑتے ہیں، کتے پرند کھا جاتے ہیں اور پھر ہماری دن رات کی محنت مسٹرواکر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بلا کے مردم شناس ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں اور چند ہی باتوں میں آدمی کو ایسا پرکھ لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ پھر جیسا وہ آدمی کو سمجھتے ہیں ویسا ہی نکلتا ہے۔ کبھی خطا ہوتے نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب ایسے قابل جوہروں کی تلاش میں رہتے ہیں، فوراً ہی اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا برتاؤ ان سے بہت شریفانہ اور دوستانہ تھا۔ نواب برز ور جنگ اس زمانے میں صوبے دار تھے ۔ مقبرے کا باغ ان کی نگرانی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سفارش کر کے باغ سے پانچ روپے ماہانہ الونس (الاؤنس) مقرر کر دیا۔

نواب برزور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا، وہ اسے بیچنا چاہتے تھے ۔ کلب میں کہیں اس کا ذکر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ میں اسے خرید لوں گا مگر پہلے نورخاں کو دکھالوں ۔ وہاں سے آ کر ڈاکٹر صاحب نے خاں صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ بھئی اس گھوڑے کو دیکھ آؤ کوئی عیب تو نہیں ۔ خاں صاحب نے کہا آپ نے غضب کیا میرا نام لے دیا۔ گھوڑے میں کوئی عیب ہوا تو میں چھپاؤں گا نہیں اور صوبے دار صاحب مفت میں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تم خواہ مخواہ و ہم کرتے ہو، کل جا کے ضرور گھوڑا د یکھ لو۔ خاں صاحب گئے ۔ گھوڑا نسل کا تو اچھا تھا مگر پانچوں شرعی عیب موجود تھے۔ انھوں نے صاف صاف آکے کہہ دیا اور ڈاکٹر صاحب نے خریدنے سے انکار کردیا۔ صوبے دار صاحب آگ بگولا ہوگئے ۔ دوسرے روز مقبرے میں آئے۔ باغ کا رجسٹر منگایا اور نور خاں کے نام پر اس زور سے قلم کھینچا کہ اگر لفظوں میں جان ہوتی تو وہ بلبلا اٹھتے ۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کیا مگر انھوں نے اس کی تلافی کر دی ۔ یہ سن کر صوبے دار صاحب اور بھی جھنجلائے۔

ڈاکٹر صاحب ترقی پاکر حیدر آباد چلے گئے ۔ ان کی خدمت کا دوسرا انتظام ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب ناظم تعلیمات ہو گئے اور میں ان کی عنایت سے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد آیا۔ ڈاکٹر صاحب ہی نے مجھے نورخان سے ملایا اور ان کی سفارش کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں عارضی طور پر دولت آباد میں مدرس کر دیا تھا، میں نے عارضی طو پر اپنے دفتر میں محرر کردیا، وہ مدرسی اور محرری تو کیا کرتے مگر بہت سے مدرسوں اور محرروں سے زیادہ کارآمد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب باغ کی نگرانی میرے حوالے کی تو خاں صاحب کا الونس بھی جاری ہو گیا۔

  اعلاحضرت واقدس بعد تخت نشینی اورنگ آباد رونق افروز ہوئے تو یہاں کی خوش آب و ہوا کو بہت پسند فرمایا اور عظیم الشان  باغ لگانے کا حکم دیا۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب کے سپرد ہوا اور ان سے بہتر کوئی یہ کام کر بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی مہربانی سے آخر اس باغ کے عملے میں خاں صاحب کو بھی ایک اچھی سی جگہ مل گئی جو ان کی طبیعت کے مناسب تھی اور آخر دم تک وہ اسی خدمت پر ہے۔ اور جب تک دم میں دم رہا، اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت سے کرتے رہے۔

   یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے ہیں لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں ۔ سچائی بات کی اور معاملے کی ان کی سرشت میں تھی ۔ خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے  تھے۔ اس میں انھیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے ۔ مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کے لیے تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہے تو ایسی خوشی خوشی کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔ دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے ۔ چونکہ ادنا اعلا سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان سے غریب دوستوں کے بہت سے کام نکلتے تھے ۔ ان کا گھر مہمان سرائے تھا۔ اورنگ آباد کے آنے جانے والے کھانے کے وقت بے تکلف ان کے گھر جاتے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔ بعض لوگ جو مسافر بنگلے میں آ کر ٹھہر جاتے تھے ان کی بھی دعوت کر دیتے تھے ۔ بعض اوقات ٹولیوں کی ٹولیاں پہنچ جاتی تھیں اور وہ ان کی دعوتیں بڑی فیاضی سے کرتے تھے۔ اس قدر قلیل معاش ہونے پر ان کی یہ مہمان نوازی دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیوی بھی ایسی نیک بخت تھی کہ دفعتاً مہمانوں کے پہنچ جانے سے کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی بلکہ خوشی خوشی کام کرتی اور کھلاتی تھی ۔ خوددار ایسے تھے کہ کسی سے ایک پیسے کا روادار نہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر سراج الحسن ہر چند طرح طرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہتے تھے مگر وہ ٹال جاتے تھے۔ مجھ سے انھیں خاص أنس تھا۔ میں کوئی چیز دیتا تو کبھی انکار نہ کرتے بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے۔ مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں ۔ انھیں مٹھاس کھاتے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ اکثر جیب میں گڑ رکھتے تھے۔ ایک بار میرے ساتھ دعوت میں گئے قسم قسم کے تکلف کے کھانے تھے۔ خاں صاحب نے چھوٹتے ہی میٹھے پر ہاتھ ڈالا۔ ایک صاحب جو دعوت میں شریک تھے یہ خیال کر کے کہ خان صاحب کو دھوکا ہوا ہے کہنے لگے کہ حضرت یہ میٹھا ہے۔ مگر انھوں نے کچھ پروا نہ کی اور برابر کھاتے رہے۔ جب وہ ختم ہو گیا تو دوسرے میٹھے پر ہاتھ بڑھایا۔ ان صاحب نے پھرٹوکا کہ حضرت یہ میٹھا ہے، انھوں نے کچھ جواب نہ دیا اور اسے بھی ختم کر ڈالا۔ جب بھی وہ کسی دوست کے ہاں جاتے تو وہ انھیں ضرور میٹھا کھلاتے اور یہ خوش ہو کر کھاتے۔

  خان صاحب بہت زندہ دل تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی جسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ وہ بچوں میں بچے، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے تھے اور ہمیشہ خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے۔ ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے غم غلط ہوتا تھا۔ آخر دم تک ان کی زندہ دلی ویسی ہی رہی۔

  ڈاکٹر سراج الحسن صاحب جب کبھی اورنگ آباد آتے تو اسٹیشن سے اترتے ہی اپنا روپیہ پیسہ سب ان کے حوالے کر دیتے اور سب خرچ انھیں کے ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جانے سے پہلے ایک روز قبل وہ حساب لے کے بٹھتے بعض وقت جب بدہ نہ ملتی تو آدھی آدھی رات تک لیے بیٹھے رہتے تھے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب کہتے کہ خاں صاحب یہ تم کیا کرتے ہو، جو خرچ ہوا ہوا، باقی جو بچا وہ دے دیا یا زیادہ خرچ ہوا ہو تو لے لیا مگر وہ کہاں مانتے تھے، جب تک حساب ٹھیک نہ بیٹھتا انھیں اطمینان نہ ہوتا۔ چلتے وقت کہتے کہ لیجیے صاحب یہ آپ کا حساب ہے، اتنا خرچ ہوا اور اتنا بچا۔ یا کچھ زیادہ خرچ ہو جاتا تو کہتے کہ اتنے پیسے ہمارے خرچ ہوئے ہیں یہ ہمیں دلوائیے کبھی ایسا ہوا کہ انھیں کچھ شبہ ہوا تو جانے کے بعد پھر حساب لے کے بیٹھتے اور خط لکھ کر بھیجتے کہ اتنے آنے آپ کے رہ گئے تھے وہ بھیجے جاتے ہیں یا اتنے پیسے میرے زیادہ خرچ ہوگئے تھے وہ بھیج دیجیے گا۔ ڈاکٹر صاحب ان باتوں پر بہت جھنجھلاتے تھے مگر وہ اپنی وضع نہ چھوڑتے تھے۔

  وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہر و وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں ۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی کو دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں ۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے !   

خاکہ

اصطلاحی معنی میں لفظ " خاکہ انگریزی لفظ اسکیچ (Sketch) کا ترجمہ ہے۔ خاکے سے مراد ایک ایسی نثری تحریر ہے جس میں کسی شخصیت کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے ۔ اس کے لیے خاکہ لکھنے والے کا اس انسان کی شخصیت سے نہ صرف متاثر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے واقفیت اور قربت بھی لازمی ہے۔ خاکہ نگاری سوانح نگاری سے مختلف ہے۔ اس میں سوانح حیات کی طرح واقعات ترتیب وار نہیں لکھے جاتے اور نہ ہی تمام حالات و واقعات کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ خاکہ نگاراسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے جس سے وہ کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی تحریر سے مرعو بیت ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا بیان ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غیر جانبدار نظر آئے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ خاکے میں شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو بیان کیا جائے۔ جس طرح خوبیوں کا بیان مرعوبیت سے پاک ہونا چاہیے اسی طرح خامیوں کے بیان میں ذاتی دشمنی و عناد کا پہلو نہیں آنا چاہیے خامیوں کے بیان میں بھی اپنائیت کا احساس نمایاں ہونا چاہیے۔

مولوی عبدالحق

(1870-1961)

بابائے اردو مولوی عبد الحق مغربی اتر پردیش کے قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ۔ 1894 میں ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے بی۔ اے پاس کیا۔ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہوئے اور زندگی بھر اردو زبان کی خدمت میں مصروف رہے۔ انجمن کی جانب سے ان کی ادارت میں سہ ماہی ادبی رسالہ " اردو " جاری ہوا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے ایل ایل  - ڈی اور علی گڑھ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔

مولوی عبدالحق محقق، سوانح نگار، خاکہ نگار، لغت نویس، ماہر قواعد اور صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ زبان سادہ اور پر اثر لکھتے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دکن اور شمالی ہندوستان کے قدیم ادبی سرمائے کی بازیافت ہے۔ اس طرح بہت کی بیاضیں اور رسالے ضائع ہونے سے بچ گئے۔
ہندوستان اور پاکستان میں اردو زبان کی اشاعت کے سلسلے میں مولوی عبدالحق کی خدمات بے مثال ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- مولوی عبدالحق نے نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرنے کے بجائے ایک غریب سپاہی کا حال لکھا ہے۔ یہ نورمحمد خاں کنٹنجٹ کے اول رسالے میں سپاہی بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج
حیدرآباد کی کنٹنجٹ خاص اور امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ نور خاں نے فوج میں بڑی آن بان کے ساتھ ملازمت کی اور اپنی سچائی، فرض شناسی کے باعث مشہور ہوئے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر ناراض ہو جاتے تھے۔ اچھے برے ہرقوم میں ہوتے ہیں، افسروں میں بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انہیں خاں صاحب کے یہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے درپے رہتے تھے، تاہم ان کے بعض انگریزی افسران ان پر بہت مہربان تھے، خاص کر کریل فرن مٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تها کہ شاید کسی پرہو۔
کرنل اسٹوارٹ بھی ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے ، رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد اور انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے اکثر انگریز افسران سے ایسا کام لینا چاہتے تھے جیسے ادنی غلام یاسائیس وغیرہ کا۔ خان صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کریل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پروظیفہ لے کر فوجی ملازمت
سے سبکدوش ہوگئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے چاہا کہ وہ مسٹر نکن ، ناظم پولیس سے سفارش کر کے انہیں ایک اچھا عہدہ دلا دیں مگر خاں صاحب تیار نہ ہوئے ۔ نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار اورنگ آباد نے انہیں قلعہ دولت آباد کی ریعیت کا جمعدار مقرر کر دیا تو خاں صاحب بہت خوش ہوئے۔
ایک بار لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالاحصار پر گئے تو سستانے کیلئے کر سی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگریٹ نکال کر پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ خاں صاحب فوجی سلام کر کے آگے بڑھے اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگریٹ نیچے پھینک کر جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ دیکھ کر دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا۔ انہیں دنوں فنانس کی معتدی کیلئے مسٹر واکر آگئے۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر وا کرنے اصلاحیں شروع کیں تو اوروں کے ساتھ نور خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے ۔ چنانچہ ملازمت ختم ہونے کے بعد دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ اگانا شروع کر دیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم  تعلیمات ہو کر آئے تھے وہ بلا کے مردم شناس تھے، انہوں نے نواب پر زور سے سفارش کر کےخاں صاحب کو باغ کا نگراں مقرر کر دیا۔ نواب برز ور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا جسے وہ بیچنا چاہتے تھے، ڈاکٹر سراج الحسن  نے اسے خریدنا چاہا لیکن خاں صاحب کو گھوڑا دکھانے پر پتہ چلا کہ اس گھوڑے میں عیب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے گھوڑا خریدنے سے انکار کر دیا۔ نواب بزرور جنگ نے طیش میں آ کر خاں صاحب کی ملازمت ختم کر دی۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سید سراج الحسن ترقی پاکر حیدرآباد چلے گئے، کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کوصدر ۔مہتمم تعلیمات اورنگ آباد بنا دیا۔ اور نور محمد خاں سے انہیں عارضی طور پر دولت آباد ہی میں مدرس کر دیا تھا۔ مولوی صاحب نے انہیں عارضی طور پر اپنے دفتر میں محرر کر دیا۔ مگر خان صاحب کی دلچسپی کے سامان یہاں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کو باغ کی نگرانی سپرد کی تو نور خاں باغ کے عملے میں شامل ہو گئے اور جب تک دم میں دم رہا اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت داری سے کرتے رہے۔ یوں محنت سے تو اور بھی کام کرتے تھے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ خواہ اس میں انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے مگروہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے۔ بڑے وضعدار تھے،کم آمدنی میں فراخدلی سے مہمان نوازی
کرتے، کسی سے کچھ مدد قبول نہ کرتے۔ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے ، نور خاں بہت زندہ دل تھے غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے خود خوش رہتے دوسروں کو بھی خوش رکھتے۔
نور خاں صاحب بات کے اور دل کے کھرے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا۔ اور ان کی مستعدی دیکھ کر امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ قو میں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے!

  سوالوں کے جواب لکھے :

   1۔ مصنف نے نورخاں کو گدڑی کا لال کیوں کہا ہے؟

   2۔ نور خاں نے کمانڈرنگ آفیسر کی رپورٹ کیوں کی اور اس کا کیا اثر ہوا؟

   3. نورخاں کی فرض شناسی کے کسی ایک واقعے کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

   4. ”قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں“ اس جملے کی وضاحت کیجیے۔

 

Thursday 12 November 2020

Sultan by Ahmad Nadeem Qasmi NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

سلطان
احمد ندیم قاسمی
دادا کے بائیں پنجے میں سلطان کی کھوپڑی تھی اور دائیں میں لاٹھی جو پٹری کے پکے فرش پر ٹھن ٹھن بجے جارہی تھی ۔ سلطان ذرا سا رکا تو دادا جلدی سے بولنے لگا " ہے بابو جی۔ اندھے فقیر کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
نہیں نہیں داد‘‘ سلطان بولا” بابونہیں ہے۔ مداری کا تماشا ہور ہا ہے۔“
تیرے مدارکی .......‘‘ گالی کومکمل کرنے سے پہلے ہی دادا پر کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ سلطان کے سر پر رکھے ہوئے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ کر کھانسی کے ایک  لمبے چکر میں ڈوب گیا۔
جب تک دادا کی سانس معمول پر آئی، سلطان مداری کی ٹوکری کے نیچے رکھے ہوئے چتھڑوں کو سفید براق رنگ کے دوموٹے موٹے کبوتروں میں بدلتا دیکھ چکا تھا۔
دادا نے اپنا بایاں بازو ہوا میں پھیلا کر پوچھا کہاں گیا تو؟“
سلطان نے فوراً اپنا سر دادا کے پنجے میں تھما دیا اور وہ پٹڑی پر چلنے لگے۔
  ایک جگہ دادا کی لاٹھی بجلی کے کھمبے سے ٹکرائی تو کھمبا بج اٹھا اور سلطان بول ”دادا ! سنا؟ کھمبا کیسا بولا ؟
   ’’ہان‘ دادا رک گیا اور کھمبے کو ایک بار بجانے کی کوشش کی مگر نشانہ چوک گیا۔ کھمے بولتے ہیں۔ لے ذرا سا بجالے‘‘
سلطان نے دادا کی لاٹھی کھمبے پر ماری اور دادا بولا دیکھا؟ جب میں تمھاری طرح چھوٹا سا تھا تو دیر دیر تک کھمبوں پر کان رکھے کھڑا رہتا تھا۔ ان دنوں کھمبوں میں میمیں انگریزی بولتی تھیں ، پھر دادا نے میموں کی نقل کی ۔ "یوگڈ ۔ یو بیڈ۔"
میمیں بولتی تھیں کھمبوں میں؟‘‘سلطان حیران رہ گیا۔ آج کل کون بولتا ہے دادا؟ پھر ایک دم سلطان کا لہجہ بدلا اور اس نے سرگوشی میں دادا سے کہا ” دو بابو آرہے ہیں دادا‘‘
دادا جلدی جلدی بولنے لگا ” بابو جی۔ اندھے فقیرکو راہ مولا ایک روٹی کے پیسے دیتے جاؤ۔ اللہ تمھیں ترقیاں دے۔ اللہ تمھیں بیٹے اور پوتے دے۔“
ایک با بو قہقہ مار کر بولا ” یہ بڈھا تو خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے۔ پھر دونوں زور زور سے ہنستے ہوئے گذر گئے ۔
” چلے گئے !‘‘ سلطان نے آہستہ سے کہا پھر ذرا سارک کر اس نے بابووں کو گالی دے دی۔
دادا نے اپنے پنجے کو سلطان کی کھوپڑی پر دبایا۔ ” پھر وہی بک بک ۔ کل کیا کہا تھا میں نے کبھی کسی نے سن لیا تو ادھر کا منہ ادھر لگا دے گا‘‘
سلطان چپ چاپ دادا کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد بولا ” میرے سر پر جہاں تمہارا انگوٹھا ہے نا دادا۔ وہاں ذرا سا کھجا دو"
دادا نے اپنا انگوٹھا سلطان کی کنپٹی پر زور سے رگڑا۔ ’’سلطان ‘‘ خاصی دیر کے بعد دادا بولا ” کیا بات ہے آج تو تم کہیں رکتے ہی نہیں، آج با بولوگ کہاں چلے گئے؟
مر گئے‘ سلطان نے جواب دیا۔ پھر یکا یک رک گیا اور بولا آج کون سا دن ہے دادا ؟
میں کیا جانوں بیٹا۔‘‘ دادا بولا۔ ” تم دن یا درکھا کرو نا۔ میرے لیے تو دن رات دونوں برابر ہیں ۔‘ دادا نے ذرا سا رک کر سوچا پھر بولا۔
پرسوں تم مجھے نیلا گنبد کی مسجد میں لے گئے تھے نا؟ پرسوں جمعہ تھا۔ اس حساب سے تو آج اتوار ہے۔ بیڑا غرق ہو اس اتوار کا۔ آج تو بابولوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیوی بچوں سے کھیل رہے ہوں گے ۔
سلطان یوں دم بخود کھڑا رہ گیا جیسے کوئی زبردست حادثہ ہو گیا ہے۔ اچانک ٹن کی آواز آئی کسی راہ چلتے نے سلطان کے ہاتھ کے کٹورے میں ایک پیسہ ڈال دیا تھا۔
’’ کچھ ملا ؟ کیا ملا؟“ دادا نے پوچھا۔
ایک پیسہ ہے۔“ سلطان بولا ” چھوٹے والا۔ نئے والا ۔ دادا نے اپنا پنجہ سلطان کے سر پر گھمایا۔’’جا کوئی چیز لے کر کھالے۔ جا۔ میں یہیں کھڑا ہوں ‘‘
ایک پیسے کا تو کوئی کچھ نہیں دیتا دا دا ‘‘ سلطان بولا ” دو تین ہو گئے ۔ گنڈیری کھاؤں گا۔“
دادا نے سلطان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا کر جیب میں ڈالا ” لے یہ دو نئے پیسے کل کے بچے رکھے ہیں ۔ کوئی چیز کھالے۔ تو نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ۔ بچوں کو تو بڑی بھوک لگتی ہے۔ جا‘‘
سلطان نے پیسے لے لیے تو دادا بولا ’’ جلدی سے آجا۔ اچھا میں یہیں کھڑا ہوں ۔ کہاں کھڑا ہوں میں؟‘‘
"ذرا سا بائیں کو ہو جا دادا" سلطان نے دادا کا ہاتھ پکڑ کر کہا ” کھمبے کے ساتھ لگ جا‘‘
دادا کھمبے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ دیر تک یوں ہی کھڑا رہا۔ پھر وہ کھمبے پر کان رکھ کر جیسے کچھ سنے لگا اور مسکرانے لگا۔ یکا یک وہ چونک سا اٹھا اور سلطان کو پکارنے لگا۔ "سلطان ۔ اے سلطان ‘‘ پھر وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ ” او سلطان ! تو کہاں جا کر مرگیا؟‘‘ کوئی جواب نہ پا کر وہ ادھر ادھر گھوم کر بولا۔ ” اے بھئی، خدا کے بندہ! میرا چھوٹا سا پوتا ادھر کہیں سے پیسے دو پیسے کی کوئی چیز لینے گیا ہے۔ سلطان نام ہے۔ کہیں تانگے موٹر کے نچے تو نہیں آ گیا بدنصیب کی اولاد ‘‘ پھر وہ چلا دیا۔ ” اوسلطان ‘‘
’’ آیا دادا۔ دور سے سلطان کی آواز آئی مگر زور سے چیخنے کی وجہ سے دادا کے کھانسی چھوٹ گئی۔
دادا کی سانس معمول پر آنے لگی تو اس نے پلٹ کر جیسے کھمبے سے پوچھا۔ ” کہاں مر گیا تھا تو؟“
سلطان نے دادا کا بایاں ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ ”مداری تماشا دکھا رہا تھا۔ پیٹ سے گولے نکال رہا تھا۔‘‘
دادا نے اپنے اپنے کو سلطان کی کھوپڑی پر یوں دبایا جیسے اسے اوپر اٹھالے گا۔ چل گھر چل۔ وہاں میں تجھے مداری کا تماشا دکھاؤں ۔ یہ نہیں سوچا کہ میں اندھا اپاہج یہاں رستے میں کھڑا ہوں ۔
سلطان چپ چاپ چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد دادانے نرمی سے پوچھا کیا کھایا؟
"گنڈیریاں‘‘ سلطان بولا۔
”ارے بد بخت گنڈیریاں تو پانی ہوتی ہیں۔ دادا پیر غصے ہونے لگا۔ چنے کھالیتا تو دوپہر تک کا سہارا تو ہو جاتا ‘‘ سلطان چپ چاپ چتا رہا۔
" کٹورا ہاتھ میں لٹکا تو نہیں رکھا؟“ دادا نے پوچھا۔
"نہیں دادا" سلطان بولا۔
’’ہاں‘‘ دادا نے نرمی سے نصیحت کی ۔’’ اٹھائے رکھا کرو۔ لٹکا رہے تو لوگ سمجھتے ہیں یہ بھکاری نہیں ہیں ۔ سودا لینے چلے ہیں ‘‘
سلطان چہکنے لگا۔ ایک بار میں کٹورے میں تیل لینے جارہا تھا تو ایک بابو نے اس میں دونی ڈال دی تھی ۔ یاد ہے دادا؟
ہاں دا دا بولا۔ ” پر ایساکم ہوتا ہے ایسے با ہوکم ہوتے ہیں ۔ ’’ دادا‘‘ سلطان نے کہا۔ انگوٹھے والی جگہ کو ایک بار پھر کھجادے۔“ دادا نے سلطان کی کنپٹی پر انگوٹھا زور سے رگڑا اور بولا ”آج واپس جا کر میں زہبو بیٹی سے کہوں گا کہ میرے بچے کے سر سے جوئیں چن لے۔
تم بھی اس کا کوئی کام کر دینا۔ بالٹی بھرلا نا نل سے۔ اچھا؟
      گھر واپس آ کر جب سلطان ، دادا کو کھٹولے کے پاس لاتا تو کہتا۔ ” لے دادا بیٹھ جا۔ دادا لاٹھی کو کھٹولے کے پائے سے لگادیتا اور سلطان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا کر کھٹولے پر بیٹھ جاتا۔ سر پر سے دادا کا ہاتھ اٹھتے ہی سلطان کو یوں محسوس ہوتا جیسے ایک دم  وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہے اور اس کے پاؤں میں لوہے کے گولوں کی جگہ ربڑ کے پہیے بندھ گئے ہیں ۔ وہ چپکے سے چھپریا میں سے نکل آتا۔ پھر خالہ زیبو کی آنکھ بچا کر بھاگ نکلتا اور بنگلوں سے گھرے ہوئے میدان میں پہنچ جاتا جہاں امیروں کے بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور غریبوں کے بچے انھیں گیند اٹھا کر دیتے تھے۔ پھر جب وہ میدان خالی کر دیتے تھے تو بیروں، خانساموں اور چپراسیوں کے بچے بلور کی گولیاں کھیلتے تھے۔ ایک بار سلطان نے بھی اس کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی ۔ چند روز تک کھیلا بھی تھا مگر پھر ایک دن ایک لڑکے نے انکشاف کیا تھا کہ سلطان تو اندھے بھکاری کا بچہ ہے۔ جب سے اسے کھیل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ جب کوئی بچہ بلور کی گولی بہت دور پھنیک بیٹھتا تو سلطان لپک کر یہ گولی اٹھا لاتا تھا اور مالک کے حوالے کرنے سے پہلے اسے چند بار انگلیوں میں گھما لیتا تھا۔ ایک بار دادا کے سامنے دیر تک زار زار رو کر اس نے چند پیسے حاصل کر لیے تھے اور ان سے بلور کی گولیاں خرید لایا تھا مگر جب میدان میں پہنچا اور بچوں نے اس کے ہاتھ میں گولیاں دیکھی تھیں، تو وہ یہ کہہ کر اس پر جھپٹ پڑے تھے کہ یہ تو ہماری گولیاں ہیں ۔ وہ اس دن خوب پاؤں پٹخ پٹخ کر رویا تھا مگر دوسرے دن پھر میدان میں جا نکلا تھا۔
ایک بار میدان میں آنے کے بعد اسے واپس گھر جانے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں دادا پھر سے اس کے سر کو اپنے سوکھے ہاتھ میں جکڑ کر اسے سڑک سڑک نہ لیے پھرے۔ اسے معلوم تھا کہ صبح کو آنکھ کھلتے ہی اسے دادا کے ساتھ گدا کرنے کے لیے نکل جانا ہوگا۔ اس لیے کھٹولے سے اٹھتے ہی اسے ایسا لگتا جیسے اس نے پتھر کی ٹوپی پہن لی ہے۔ دادا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں درد کی پانچ لہریں بن کر اس کی کھوپڑی میں دوڑ جاتیں اور جب دادا نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے بعد لاٹھی سنبھالتا اور سلطان کو پاس بلاکر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا تو سلطان آدھا مر جاتا۔ دادا کا یہ ہاتھ سوتے جاگتے میں اسے بھوت کی طرح ڈراتا تھا۔ یہ ہاتھ اسے گرفتار کر لیتا تھا۔ اور وہ پٹری پر یوں چلتا تھا جیسے ملزم ہتھکڑیاں پہنے سپاہی کے ساتھ چلتے ہیں اور پھر قید خانے کے صدر دروازے کے جنگلے میں سے باہر سڑک پر لوگوں کو چلتا پھرتا ہنستا مسکراتا دیکھتے ہیں مگر بس دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ان کی بصارت کے ساتھ سلاخیں صلیبوں کی طرح چمٹ جاتی ہیں۔
جب دادا کا ہاتھ اپنے سر پر رکھے وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا تھا تو کئی بار اس کا جی چاہا کہ گنڈیری والے کے خوانچے میں سے جوگنڈیری لڑھک کر گندی نالی کے کنارے جا کر رک گئی تھی، وہ لپک کر کھالے۔ بابو نے کیلا کھا کر جو چھلکا بھی پھینکا ہے اسے بڑھ کر اٹھالے اور ذرا سا چاٹ لے۔ مگر جب بھی اس نے کسی بہانے دادا سے ذرا سارک جانے کو کہا تو دادا نے اپنی انگلیاں اس کے سر کی ہڈی میں گاڑ دیں اور بولا ” میں تجھے ٹہلانے نکلا ہوں کہ تو مجھے گدا کرانے نکلا ہے؟ ارے بدبخت! دن بھر میں چار پانچ آنے کی بھیک نہ ملی تو ز یبو بٹی دو وقت کی روٹی ہمیں کیا اپنی گرہ سے کھلائے گی؟ اس کی یہی مہربانی کیا کم ہے کہ اس نے ہمارے سر چھپانے کو اپنی چھپریا دے رکھی ہے؟
کافی دنوں کی بات ہے دادا بنگلوں سے بھیک مانگنے کے بعد جب کوارٹروں کے پیچھے بیگو کوچوان کے گھروندے کے سامنے سے گزرا تو اس کی ماں زیو لپک کر آئی اور بولی ارے بابا دعا کر۔ الله میرے بیٹے کی پسلی کا دردٹھیک کردے۔ میں تجھے پورا ایک روپیہ دوں گی“
دادا نے وہیں کھڑے ہو کر دعا مانگی تھی پھر چند روز کے بعد اس نے سلطان کو دوبارہ ان ہی بنگلوں کی طرف چلنے کو کہا۔ ابھی وہ بنگلوں تک نہیں پہنچے تھے کہ زیبو نے انھیں رستے ہی میں پکڑ لیا۔ دادا کو ایک روپیہ دیا اور بولی’’ مجھے بتا تو کہاں رہتا ہے بابا؟ میں جمعرات کی جمعرات تیری سلامی کو آیا کروں گی ۔‘ پھر جب اسے معلوم ہوا تھا کہ یہ دادا پوتا تو کسی دکان کے چھجے تلے پڑرہتے ہیں تو اس نے بیٹے سے کہہ کر چھپریا خالی کرا دی تھی اور جب سے دونوں وہیں رہتے تھے۔ دن بھر کی بھیک اس کو لا دیتے تھے اور وہ اسی حساب سے انھیں روٹی پکا دیتی تھی۔ ان دنوں دادا سے وہ اپنے بیٹے کے اولاد ہونے کی دعا کرا رہی تھی۔
سلطان کو دادا کے علاوہ خالہ ز یبو بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ جب بھی دادا کو واپس چھپریا میں پہنچا کر نکلا تو زیبو سے چھپ کر نکلا۔ ورنہ وہ شور مچا دیتی تھی کہ لو دیکھو۔ اپنے بوڑھے اپاہج دادا کو اکیلا چھوڑ کر کھیلنے چلا ہے۔
جس روز دا دا دن ڈھلے ہی تھک کر واپس آجاتا اور سلطان کو کھسک جانے کا موقع نہ ملتا تو ذرا سا سستالینے کے بعد وہ پھر سے لاٹھی سنبھال کر کہتا چل سلطان ۔ چوک کا ایک اور چکر لگوادے۔ آج کچھ زیادہ مل گیا تو کل تیری چھٹی‘ مگر یہ چھٹی کبھی نہیں ملتی تھی۔ اس لیے کہ کچھ زیادہ کبھی نہیں ملتا تھا۔
البتہ اب کچھ عرصے سے یوں ہونے لگا تھا کہ دادا کو آدھی رات کے بعد دمے کے دورے پڑتے اور وہ کھانس کھانس اور ہانپ ہانپ کر صبح تک ادھ موا ہو جاتا۔ اس روز وہ گدا پرنہیں نکلتا تھا۔ مگر سلطان کو جب بھی چھٹی نہیں ملتی تھی ۔ وہ دن بھر بیٹھا دادا کے کندھے اور پسلیاں دباتا رہتا اور اس کے ہاتھ رکتے تو دادا کھانسی سے بھنجی ہوئی آواز میں پکارتا " کیوں سلطان کیا کر رہا ہے؟ مرتو نہیں گیا؟ "
سلطان فوراً دادا کے کندھے پکڑ لیتا اور جی میں کہتا ”اللہ کرے تو خود مرجائے دادا۔ تو مر جائے تو اللہ قسم کیسے مزے آئیں۔ اللہ کرے تو جلدی جلدی سے بس ابھی ابھی مر جائے اور میں بنگلے کی بی بی سے اس کے بچے کی ٹوپی کی بھیک مانگ کر اپنا سر ڈھانپ لوں ۔“
پھر ایک روز دادا سچ مچ مر گیا۔ وہ ٹوٹتی رات سر کو گھٹنوں پر رکھے کھانستا اور ہانپتا رہا اور اس کی پسلیاں پھنکتی اور سمٹتی رہیں ۔ سلطان اس کے کندھے دباتا رہا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کے کناروں کو انگوٹھوں کی پوروں سے سہلاتا رہا۔ پھر وہ سو گیا۔ اور جب صبح کو اس کی آنکھ کھلی تو روتی ہوئی خالہ زبیو نے اسے بتایا کہ " سلطان ۔ تیرا دادا تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ "
ایکا ایکی سلطان کے اندر چار طرف پھلجھڑیاں سی چھوٹیں اور وہ بولا "سچ ؟ " جیسے اسے یقین نہیں آرہا کہ دادا لوگ بھی مر سکتے ہیں ۔ پھر بیگو کو چوان آس پاس کے لوگوں کو جمع کر لایا اور وہ دادا کو غسل دے
کر دفنانے لے گئے۔
خالہ زیبو وقفے وقفے سے روتی رہی اور اس کی بہو نے بھی سلطان کو بڑے پیار سے دن بھر اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ بیگو بھی قبرستان سے واپس آیا تو سلطان کے لیے گنڈیریاں لیتا آیا اور گنڈیریاں چوستے ہوئے سلطان نے سوچا۔ جب دادا مر جاتے ہیں تو کیسے مزے آتے ہیں۔
رات بھی خالہ زیپو نے اسے چھپریا میں نہ جانے دیا کہ بچہ ہے، ڈر جائے گا۔ صبح کو اس نے سلطان کو رات کی ایک چپاتی اور لسی کا ایک پیالہ دیا۔ خوب پیٹ بھر کر وہ اٹھا تو زیبو نے پوچھا۔ کہاں چلے بیٹا؟‘‘
سلطان کو یہ سوال بڑا عجیب سا لگا۔ ہم کہیں بھی جائیں تمھیں کیا۔ ہمارا دادا تو مر گیا ہے۔
سلطان کو خاموش پا کر وہ بولی نہیں بیٹا۔ کھیلتے ویلتے نہیں ہیں ۔ پھر وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر چھپریا میں لے آئی اور کٹورا اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی "آج کہیں سے آٹھ دس آنے کمالا ۔۔۔۔۔۔ میں تجھے چاول کھلاؤں گی۔ جا بیٹا کسی آباد سڑک کا ایک پھیرا لگا لے۔ اللہ تیرا ساتھی ہو۔"
سلطان نے ہاتھ میں کٹورا لے لیا مگر چھپر یا سے باہر آتے ہی وہ رک گیا۔ واپس چھپریا میں گھسا جیسے کچھ بھول آیا ہے۔ پھر وہ بلبلا کر رو دیا اور خالہ زیبو کے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے کترا کر بھاگ نکلا۔
اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہورہا تھا جب اس نے سڑک پر ایک بابو کے سامنے کٹورا پھیلایا۔ ”بابو جی اندھے فقیر کو راہ مولا ایک روٹی ۔" اس نے زار زار روتے ہوئے دادا کے الفاظ دہرا دیے۔
کیا تو اندھا ہے؟“بابو نے سختی سے پوچھا۔
سلطان کو یکا یک اپنی غلطی کا احساس ہوا اور گھبرا کر اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ جھوٹ بھی بکتا ہے اور روتا بھی ہے؟
بابونے ڈانٹا۔ نوکری کرے گا ؟ اس نے پوچھا پھر سلطان کو مسلسل روتا پا کر جانے لگا۔ سلطان رندھی ہوئی آواز میں بولا " ہے بابو جی۔ راہ مولا پیسے دو پیسے دیتے جاؤ“
بابو پلٹے بغیر آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دور نکل گیا تھا جب روتا ہوا سلطان یکا یک اس کی طرف دوڑنے لگا اور پکارنے لگا ”بابوجی۔ ہے بابو جی ۔
با بورک گیا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ٹھٹھک گئے ۔ ” نوکری کرے گا؟“بابو نے پوچھا۔
"بابو جی." ہانپتا ہوا سلطان بابو کے پاس رکا۔ پھر اس کا نچلا ہونٹ ذرا سا لٹکا اور وہ بولا ”بابوجی - دیکھیے۔ میں نوکری نہیں مانگتا ۔ بھیک نہیں مانگتا ۔ اس نے کٹورا زمین پر پٹخ دیا۔
تو پھر مجھے کیوں پکارا ؟ بابو نے جمع ہوتے ہوئے لوگوں پر ایک نظر دوڑا کر ذرا تلخی سے پوچھا۔
ایک دم سلطان کی آنکھوں میں اکٹھے بہت سے آنسو آگئے ۔ اس کے ہونٹ پھڑ کنے لگے اور وہ بڑی مشکل سے بولا بابو جی ۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔ خدا آپ کو بہت بہت دے۔ کیا آپ ذرا دور تک میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چل سکیں گے؟
" لو اور سنو۔" بابواحمقوں کی طرح ہجوم کو دیکھنے لگا۔
احمد ندیم قاسمی
(1916 - 2006)
احمد ندیم قاسمی ضلع شاہ پور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں ہی میں ہوئی۔ 1935 میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ملازمت کرتے رہے۔ 1942 میں تہذیب نسواں اور "پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ وہ ادب لطیف‘ اور نقوش“ کے بھی مدیر رہے۔ انھوں نے ” فنون“ کے نام سے خود اپنا بھی ایک سہ ماہی جریدہ جاری کیا جس کے وہ آخر وقت تک مدیر رہے۔
احمد ندیم قاسمی ادب میں کئی حیثیتوں کے مالک تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور ایک معروف ادبی صحافی بھی ۔ ان کے نصف درجن کے قریب شعری مجموعے اور ایک درجن سے زیادہ افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے۔ ادبی مضامین اور اخباری کالم نویسی کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا، انھوں نے سب سے زیادہ شہرت اپنے افسانوں کی وجہ سے پائی۔ پنجاب کی دیہی زندگی اور عام انسانوں کے مسائل کی عکاسی کا وہ غیر معمولی سلیقہ رکھتے تھے۔ اسی لیے عام پڑھنے والوں میں ان کی کہانیاں بہت مقبول تھیں۔
احمد ندیم قاسمی کا تعلق ایک روایتی مزہبی خاندان سے تھا۔ ترقی پسندتحریک سے بھی انھوں نے اپنی ترجیحات کے ساتھ رابطہ قائم رکھا۔ ان کے اس ذہنی رویہ کے اثرات ان کی تخلیقات میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔

خلاصہ:
سلطان معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کا مشہور افسانہ ہے۔ اس افسانے میں انسانی نفسیات اور جذبات کو سلیقے سے بیان کیا گیا ہے۔ سلطان نام کا ایک لڑکا ہے جو اپنے نابینا دادا کے ساتھ بھیک مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلتا ہے۔ دادا کا بایاں ہاتھ ہمیشہ سلطان کی کھوپڑی پر رہتا ہے۔ دارا مختلف سڑکوں سے گزرتا ہوا ان سڑکوں اور بازاروں کی خصوصیت بتاتا ہے۔ اتوار کا دن تھا جب حسب معمول دادا اور سلطان بازار میں نکلے۔ ادھر ادھر جانے کے بعد بھی انہیں کچھ نہیں ملا تو دادا نے پوچھا ”آج بابو لوگ کہاں چلے گئے؟ سلطان نے کہا ” پرسوں تم مجھے نیلا گنبد کی مسجد میں لے گئے تھے نا، پرسوں جمعہ تھا اس حساب سے تو آج اتوار ہے۔“ بیڑاغرق ہواس اتوار کا آج تو بابو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیوی بچوں سے کھیل رہے ہوں گے۔ "سلطان یوں دم بخود کھڑارہ گیا جیسے کوئی زبردست حادثہ ہو گیا ہو۔ شام کو سلطان اور دادا گھر واپس آئے تو دادا نے کھٹولے پر بیٹھ کر سلطان کے سر سے اپنا ہاتھ اٹھالیتا ہے۔ دادا کا ہاتھ ہے ہی سلطان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دم وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہو۔ اور اس کے پاؤں میں لوہے کے گولوں کی جگہ ربڑ کے پہیے بندھ گئے ہوں۔ وہ چپکے سے چھپریا سے نکل آتا، پھر خالد زیبوکی آنکھ بچا کر بھاگ نکلتا اور بنگلوں سے گھرے ہوئے میدان میں پہنچ جاتا جہاں امیروں کے بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور غریبوں کے بچے انہیں گیند اٹھا کر دیے تھے۔ پھر جب وہ میدان خالی کر دیتے تھے تو بیروں، خانساموں اور چپراسیوں کے بچے بلور کی گولیاں کھیلتے تھے۔ ایک بار سلطان نے بھی اس کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی تو ایک لڑکے نے انکشاف کیا تھا کہ سلطان تو اندھے بھکاری کا بچہ ہے، بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ میدان میں آنے کے بعد اسے واپس گھر جانے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں دادا پھر سے اس کے سر کو اپنے سو کھے ہاتھ میں جکڑ کر اسے سڑک سڑک نہ لیے پھرے ۔ ہر صبح اسے ایسا لگتا جیسا اس نے پتھر کی ٹوپی پہن لی ہے۔ دادا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں در کی پانچ لہریں بن کر اس کی کھوپڑی میں دوڑ جاتیں ۔ ایک بار دارابنگلے کے بعد جو کوارٹروں کے پیچھے بیگو کوچوان کے گھروندے کے سامنے سے گزرا تو اس کی ماں زیبو لپک کرائی اور بولی ۔ ارے بابا! دعا کر میرے بیٹے کی پسلی کا درد ٹھیک ہو جائے میں تجھے ایک روپیہ دوں گی۔ پھر ایک بار ز یبو نے انہیں راستے میں پکڑ لیا اور دادا کو ایک روپیہ دے کر بولی، مجھے بتا کہاں رہتا ہے؟ میں جمعرات کی جمعرات تیری سلامی کو آیا کروں گی۔ زبیو کو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی گھر نہیں ہے تو اس نے اپنے بیٹے سے چھپر یا خالی کرا دی۔ دادا اور سلطان وہاں رہنے لگے۔ انہیں جو بھیک ملتی تو وہ اس کا ایک حصہ زیبو خالہ کودیتے اور وہ انہیں دو وقت کی روٹی کھلا دیتی۔ ایک روز اس چھپریا میں دادا مر گیا۔ اسی روز زیبو اور بہو نے سلطان کو بڑے پیار سے دن بھر اپنے پاس رکھا۔ زیبوکابیٹا بیگو بھی قبرستان سے واپس آیا تو سلطان کیلئے گنڈیریاں لایا اور سلطان سوچنے لگا، جب دادا مر جاتے ہیں تو کیسے مزے آتے ہیں۔ اگلے دن سلطان پھر بھیک مانگنے نکلا ۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا،آج اس کے سر پر دادا کا ہاتھ نہ تھا۔ ایک بابو کو دیکھ کر سلطان رندھی ہوئی آواز میں بولا ہے بابو جی ! راہ مولا میں پیسے دو پیسے دیتے جاؤ۔ بابو پلٹے بغیر آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دور نکل گیا جب روتا ہوا سلطان یکایک اس کی طرف دوڑنے لگا اور پکارنے لگا۔ ہے بابو جی ! ہے بابوجی ! بابو رک گیا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ٹھٹھک گئے ۔ نوکری کرے گا باہو نے پوچھا۔ ہانپتا ہوا سلطان نچلا ہونٹ ذرا سا لٹکا کر بولا۔ بابوجی! میں نوکری نہیں مانگتا، بھیک نہیں مانتا۔ یہ کہ کر اس نے کٹورا زمین پر پٹخ دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر وہ بڑی مشکل سے بولا کیا آپ ذرا دور تک میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چل سکیں گے ۔” لو اور سنو !“بابو احمقوں کی طرح ہجوم کو دیکھنے لگا۔

  سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ سلطان کو ز یبو خالہ کا باہر جانے پر ٹوکنا کیوں برا لگتا ہے؟
جواب: سلطان کو زیبو خالہ کا باہر جانے پر ٹوکنا اس لیے برا لگتا تھا کہ وہ دوسرے بچّوں کی طرح ہی سب کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ جب وہ اپے بوڑھے دادا کو چھپریا میں پہنچا دیتا تھا تب اسے لگتا تھا کہ اس نے اپنا کام ختم کرلیا ہے اور اب وہ دوسروں کے ساتھ کھیلنے کے لیے آزاد ہے لیکن وہ جیسے ہی اپنے قدم باہر نکلتا زیبو خالہ اسے ٹوک دیتی اور وہ اس سے سخت ناراض ہوتا۔

2۔ سلطان کو دادا کا ہاتھ لوہے کی ٹوپی جیسا کیوں لگتا تھا اور بعد میں اس کے نہ ہونے پر اسے کیا محسوس ہوا؟
جواب: سلطان کو دادا کا ہاتھ لوہے کی ٹوپی جیسا اس لیے لگتا تھا کہ سلطان کے دادا اپنی سخت ہتھیلیوں سے اس کے سر کواس طرح پکڑتے تھے کہ جیسے وہ کسی شکنجے میں کس گیا ہوا ہو۔ دادا کو اس بات کا ڈر رہتا کہ سلطان اسے باہر اکیلا چھوڑ کر کھیلنے نہ بھاگ جائے اس لیے وہ اس کے سر پر اپنی گرفت بہت سخت رکھتا اور اسے لگتا کہ اس نے اپنے سر پر ایک لوہے کی ٹوپی پہن رکھی ہو۔ 

3۔ سلطان نے بابوجی سے اپنے سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دور چلنے کی درخواست کیوں کی؟
جواب: بابو جی کے سوال جواب سے اسے اپنے دادا کے نہ ہونے کا شدت سے احساس ہوا۔ اور اس یاد کی شدت میں وہ بے ساختہ بابوجی کی طرف دوڑ پڑا۔ اسے بابو جی میں اپنے دادا اپنے سرپرست کی صورت نظر آنے لگی اور وہ بے ساختہ ان سے اپنی خواہش کا اظہار کر بیٹھا کہ کیا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچہ دور چلیں گے۔ اس نے بھیک کا کٹورہ دور پھیک دیا تھا کیونکہ اسے بھیک کی خواہش نہیں تھی بس وہ اپنے سر پر ایک سرپرست کا شفقت بھرا ہاتھ چاہتا تھا۔ بابو جی چونکہ پورے احوال سے واقف نہ تھے اس لیے وہ صرف حیرت سے اسے دیکھتے رہے۔

I.C.S by Ali Abbas Husaini NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

آئی۔سی۔ایس
علی عباس حسینی
وحید کا آئی۔سی ۔ ایس میں جانا بالکل داتا کی دین تھی۔ ایک غریب دیہاتی زمیندار کا لڑکا جو گیارہ بارہ برس کے سن تک ایک چھوٹے مختصر اور تنگ کچے مکان میں پلا ہو، جو گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ گلی ڈنڈا، کبڈی، گیڑی اور آنکھ مچولی کھیلنے میں لگا رہا ہو، جس نے لڑکوں کے ساتھ ہر بڑے سے بڑے درخت پر چڑھ جانے اور چھپ بیٹھنے میں مہارت حاصل کی ہو۔ جس نے سات برس کی عمر سے گائیں بھینسیں خود دو ہی ہوں اور ان کا گوبر اپنے ہاتھ سے اٹھایا ہو۔ اور جس کے سب سے بڑے دوست چھوٹی امت کے لوگ رہے ہوں ۔ وہ آج آئی ۔ سی ۔ ایس پاس ہو اور ہیٹ کوٹ پہنے صاحب بنا، ول ٹم کیا مانگٹا اور ہم نہیں جانٹا، بولنے کا فخر حاصل کر لے۔ واقعی بخشش الہی تھی یا حضرت موسی کے لیے سنا تھا۔ وحید کے معاملے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
ہم نے مانا کہ بارہ برس کے سن سے اس کنده ناتراش کو ایک دور کے عزیز نے رحم کھا کر اپنے پاس رکھا، خراد پر چڑھایا اور آدمی بنایا۔ مگر یہ سب رحمت باری اور فضل الہی تھا۔ اس نے اگر ان عزیز کے دل میں اولاد کی خواہش کے ساتھ ساتھ ان کی گود بھی اولاد سے بھری ہوتی تو پھر کیا ہوتا۔ اگر وحید کی فطرت میں اثر قبول کرنے کا مادہ نہ ہوتا، اچھے خاصے جانور سے بھلا مانس انسان بننے کی صلاحیت و دیعت نہ کی ہوتی تو وہ کاہے کو اسکول یا کالج ہی سے اپنے کپڑوں، اپنے فیشن، اپنی تہذیب، اپنے سلیقے اور اپنی ذہانت کے لیے مشہور ہوتا۔ پورے ایک زمین سے نکال کر دوسری زمین میں لگا دینے سے اپنی نوعیت اور جنس نہیں بدل دیتے، نیم آم نہیں بن جاتی ، نہ گیندا گلاب ہو جاتا ہے۔
مگر یہاں وحید کے معاملے میں تو محمد پورکیا چھوٹا اور الہ آبا د کیا ملا کہ ایسا معلوم ہوا کہ شخصیت ہی دوسری ہو گئی، جون بدل گئی، جس طرح اس نے محمد پور کے پھٹے پرانے کپڑے اتارے اور الہ آباد کے نئے چمکتے بھڑ کتے پہن لیے، اسی طرح اس کی وہ بارہ برس تک کی طبیعت ، ضد، جھلاہٹ ، شرارت، بھد اپن، ہٹیلاپن، اکھڑ پن، گنوار پن، بدتہذیبی، بد اخلاقی، کج روی، یا وہ گوئی، در بیدہ ذہنی،بے ہودہ گوئی، کم عقلی، بد اطواری، دیرفہمی، بد شوقی اور موقع ناشناسی سب محمد پوری کپڑوں کے ساتھ اتر گئی اور اس کی جگہ الہ آبادی کپڑوں کے پہنتے ہی متانت ، سنجیدگی ، خودداری، وقار، زودفہمی ، سگھڑ اپا، جامہ زیبی ، خوش مزاجی ، معاملہ فہمی، سخن سنجی آگئی ۔ ہمارا یہ ادعا نہیں کہ یہ فرق فوراً پیدا ہو گیا تھا یا واقعی ایک جگہ سے چھوٹتے ، ایک گھر سے نکلتے اور دوسرے گھر میں داخل ہوتے ہی پیدا ہو گیا تھا۔
  نہیں، اس تبدیلی میں سال دو سال لگے تھے۔ مگر پھر بھی یہ ایسا سریع اور عظیم انقلاب تھا جسے کایا پلٹ ہو جانا کہتے ہیں۔
بہر نوع، ما لک کی دین کہیے یا وحید کی فطری صلاحیت و قابلیت ، ہوا ایسا ہی کہ وحید جس دن سے اسکول میں داخل ہوا اور جس دن تک وہ تعلیم پاتا رہا ہمیشہ اپنے درجے میں اول آیا۔ یہاں تک کہ ایم ۔ اے پاس کرنے کے بعد آئی۔سی ۔ ایس بھی ایسے اچھے نمبروں سے پاس ہوا کہ نہ سعی و سفارش کی ضرورت ہوئی اور نہ خاندانی حقوق و خدمات گنانے پڑے۔ اور دو برس انگلستان میں مزید تعلیم و تجربہ حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ وہاں کے قیام کے دوران میں ریاست مہید ر پور کے ایک رکن خاص، صاحب زادہ شہاب الدین خاں سے ملا قات و راه و رسم پیدا ہوئی اور اسی سلسلے میں ان کی صاحب زادی جہاں آرا بیگم سے بھی جو اس سال آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی۔اے میں نمایاں حیثیت سے کامیاب ہوئی تھیں روز روز ملنے جلنے نے کشش پیدا کی۔ صاحب زادہ کی اجازت اور جہاں آرا بیگم کی پسندیدگی سے اس نے وہیں بیاہ رچایا اور نئی دلہن ساتھ لے کر ہندوستان پلٹا۔ چونکہ دل میں یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں افلاس اور دیہاتیت کا پول نہ کھل جائے ۔ اس لیے ہندوستان میں پہنچنے اور دہلی حضور وائسرائے کے صدر دفتر میں تعیناتی کا درمیانی زمانہ ریاست مہید ر پور میں سسرال ہی میں بسر کیا اور گھر لکھ بھیجا کہ ”میں فی الحال مکان نہیں آ سکتا لیکن برابر والد کے لیے خرچ بھیجتا رہوں گا۔ کسی کو میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بوڑھا باپ دل مسوس کر، بوڑھی ماں رو دھو کر اور بھائی خفا ہو کر خاموش رہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا گھر اس قابل نہیں کہ کوئی آئی۔ سی ۔ ایس آکر قیام کرے، وہ اسے خوب سمجھتے تھے کہ ان کا جھونپڑا کسی بیگم بہو کو اتارنے کے لائق نہیں ۔ انھوں نے ٹھنڈی سانسیں بھر یں آسمان کو دیکھا اور چھاتی پرسل رکھ لی۔
غرض بیگم نے نہ اپنی سسرال دیکھی اور نہ ساس سسر جیٹھ، دیوروں سے ملنے کی نوبت آئی کہ وحید دہلی میں لاٹ صاحب کے دفتر میں کام کرنے لگا۔ وہاں کے مشاغل بڑے بڑے آدمیوں سے ملنا جلنا، راجگان، مہاراج اور والیان ملک کی پارٹیاں، ایٹ ہوم، ڈنر، سنیما، تھیٹر، کھیل تماشے، غرض دل چسپیوں میں نہ کسی کی کمی تھی اور نہ ان کی وجہ سے اتنی فرصت کہ نئے رشتہ داروں اور عزیزوں کی ذرا فکر کی جائے۔ مگر بیگم کے لیے یہ دل چسپیاں ہوسکتیں تھیں وحید کی ماں کے لیے نہیں۔ اس نے تو وحید کو جنا تھا، اس کی مامتا کو بھلا کیسے چین پڑتا۔ وہ بیٹے کو لکھتی رہی بس ایک نظر دکھا جانے کی خواہش تھی، بہو کے دیکھنے کی بھی بڑی تمنائیں تھیں۔ بیٹے کی شادی کے بارے میں بڑھیا نے نہ جانے کیا کیا سوچ رکھا تھا، اپنوں پرایوں میں بہت سی لڑکیاں دیکھ رہی تھیں ۔ مگر وہاں صاحب زادے خود ہی بیگم بیاہ لائے ۔ شادی ایسے چپ چپاتے کر لی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور موقع بھی ہوتا تو پہنچتی کیسے۔ کالے کوسوں دور سمندر پار، انگلستان میں ، پھر سسرال اپنے میل کی نہ جوڑ کی۔ وہاں روپیوں کی، عزت کی ، شان و شوکت کی افراط تھی، |
یہاں افلاس و تنگ دستی ، نکبت کی بہتات ۔ بہو پڑھی لکھی آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ، لاٹ صاحب، ہاتھ ملانے والی ۔ ساس جاہل، دیہاتن اور پردہ میں بیٹھنے والی۔ اس سے ساس کی طرح پیش آنا، بہو بنا کر ملنا، ہاتھی سے گنا کھانا تھا۔ مور کی طرح ناچنے کو جی تو ضرور چاہا تھا لیکن پاؤں کو دیکھ کر لاج بھی آتی تھی۔ صبر کی سل چھاتی پر رکھی ۔ مگر یہ بوجھ اتنا بھاری تھا کہ پہلو میں درد ہونے لگا۔ اس بے چینی نے خط لکھنے پر مجبور کیا۔ پہلے تو لڑ کے ہی کو لکھتی رہی۔ جب ادھر سے برابر ٹالنے ہی والا جواب ملا تو پھر ایک دن حمیدہ نے چھوٹے لڑکے کو پاس بلایا اور دل کی ساری کہانی بیگم بہو کولکھوا دی۔
بات چونکہ دل سے نکلی تھی اس لیے دل میں گھر کر گئی۔ بیگم بہو کو لفظ لفظ میں خلوص، سادگی اور سچائی کی عطرآگیں بوئے خوش آئی۔ وہ ہاتھ میں خط لیے بے ساختہ آئی۔ سی ۔ ایس وحید کے دفتر میں گھس آئیں اور اس کے سامنے سے فائلیں کھینچ کر بولیں۔
” کیوں صاحب یہ آخر آج تک آپ نے مجھے میری سسرال کے لوگوں سے کیوں نہ ملایا‘‘ مسٹر وحید آئی۔سی ۔ ایس، بیگم کے اس طرح چیں بہ جبیں آنے سے یوں ہی گھبرائے تھے، اس غیر متوقع سوال نے انھیں کچھ ڈرا سادیا ۔ وہ ذرا اٹک اٹک کے بولے۔
جب سے ہندوستان پلٹ کے آیا۔ تمھارے میکے گیا پھر وہاں سے ملازمت پر چلا آنا پڑا۔ یہاں کے کاموں میں کچھ اس طرح پھنس گیا کہ ...."
وہ بات کاٹ کر بولیں کہ" ماں باپ اور بھائیوں سے بھی نہ مل سکے اور نہ بیوی کو ملا سکے ۔‘‘ وحید کی ذہانت کام آئی، اس نے ذرا مسکرا کر کہا ” یہ آج دفعتاً آپ کو سسرال کیوں یاد آ گئی ، کیا کسی نے خط لکھا ہے؟
بیگم بولیں ” جی ہاں میں تو انسان ہوں ہی نہیں کہ مجھے کوئی فکر ہوتی۔ بار ہا آپ سے پوچھا آپ نے کہا کسی دن اطمینان سے باتیں ہوں گی تو بتاؤں گا۔ شاید آپ مجھے انسان نہیں سمجھتے یا اپنے گھر والوں کو جانورسمجھتے ہیں ۔"
وحید نے ذرا متانت سے کہا" بھئی ہے تو یونہی کہ تم ان لوگوں سے مل کر کچھ خوش نہ ہوگی ۔ نہ وہ کچھ باتیں کرنا جانیں نہ آداب و تہذیب سے واقف نہ ان کے رہنے سہنے کا طریقہ ہم لوگوں کا سا۔“
بیگم نے تلخ مسکراہٹ سے کہا، ”اب آپ زیادہ ان کی تعریفیں بیان فرمانے کی زحمت نہ کیجیے۔ آج آپ کی والدہ کا خط آیا ہے۔ میں خود چل رہی ہوں ۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گی۔"
وحید گھبرا گیا وہ جلدی سے بولا ”ارے تم وہاں چلوگی محمد پور ۔“
اس نے کہا کہ ہاں ہاں کیا کوئی وہاں کٹکھنا کتا چھوٹا ہوا ہے کہ جاتے ہی مجھے کاٹ کھائے گا۔ اور یہ کہتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
وحید دیر تک سناٹے میں رہا۔ جانتا تھا کہ گھر میں رہنے کی جگہ مشکل سے نکل سکے گی ۔ بیگم مصر تھیں کہ میں ضرور جاؤں گی، کہاں قیام ہوگا، کیا انتظام، پھر جتنی ادھ تعلیم و شائستگی ، تہذیب و مدنیت تھی اتنی ہی ادھر جہالت، غیر شائستگی اور دیہاتیت ۔ خدا جانے بڑی بی نے کیا لکھوا دیا ہے کہ بیگم پر اس قدر اثر ہوا۔ آج تو پوری تر یا ہٹ کا مزہ آ گیا۔ اس نے جلدی سے خطوں کا کاغذ کھینچا باپ کو خط لکھا۔ اسی وقت بینک گھر گیا وہاں سے تین سو روپوں کے نوٹ لیے ڈاک خانے سے رجسٹری لفافہ منگا کر بیمہ کر دیا۔ خط میں لکھا" فوراً خانہ باغ کے احاطے میں گموس کے کھمبے جڑوا کے ان پر بنگلہ نما پھوس کا چھپر ڈلوا دیجیے اور معمولی ٹڑوں کی دیواریں کھینچ کر اس کے اندرونی حصے میں کئی کمرے بنوا دیجیے۔ بیگم آپ لوگوں سے ملنے آرہی ہیں ۔ بس کوئی پندرہ دن میں ہم لوگ پہنچ جائیں گے۔ صحیح تاریخ سے بعد میں اطلاع دوں گا۔“
جب بیمہ لگا چکا تو وحید نے اطمینان کی سانس لی ۔ اب بہت کچھ ذمے داری اس کے سر سے ہٹ چکی تھی۔ اب بس اتنی سی بات رہ گئی تھی کہ بیگم کو چھٹی نہ ملنے کا بہانہ کر کے پندرہ دن اور روکنا تھا۔ اس امر میں زیادہ وقت بھی نہ ہوئی اس لیے کہ بیگم نے سسرال چلنے کا قطعی فیصلہ سناتے ہی وہاں جانے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔ متواتر کئی راتوں اور کئی دن وحید کو اپنے بڑے بھائیوں اور ان کی بیویوں کے نام اور حلیے، ان کے بچوں کی تعداد، بہنوں اور ان کے شوہروں کے نام، ان کی صورت شکل، بن بیاہے بھائی کی عمر، لیاقت، مزاج ، طبیعت، قد و قامت، بڑے میاں اور بڑی بی کی پسند کی چیزیں سب بتانا پڑیں۔ بیگم بات اور بات کی جڑ سب کچھ کھود کھود کر پوچھتی تھیں ۔ بعض وقت ان کے سوالات کا جواب دیتے دیتے عاجز آجاتے تھے۔ لیکن اسی کے ساتھ بیگم کی اس غیر معمولی دل چسپی لینے کا نفسیاتی اثر ان پر بھی شروع ہوا۔ سفید رنگ کا خون بد لنے لگا۔ فطرت میں جو اپنوں سے اپنے ماں، باپ، بھائی بہن سے ہمدردی و محبت تھی اور جو آئی ۔ سی ۔ ایس کے مخملی پردوں سے ڈھک گئی تھی جس پر انگلستان اور ہندوستانی سکریٹریٹ
کے ماحول نے ایک نیا ملمع چڑھا دیا تھا۔ بیگم کی کرید نے اس ملمع کوگھس ڈالا۔ بار بار کے سوال و جواب سے ملمع اتر گیا۔ خلوص و یگانگت جگہ جگہ سے جھلکنے لگی۔
خدا خدا کر کے وہ دن بھی آ گیا جس کا بیگم کو بے چینی سے انتظار تھا یعنی وحید کی پندرہ دن کی چھٹی منظور ہوگئی اور سفر کے لیے اسباب بند ھنے لگا۔ بیگم نے جانے کیا سمجھا تھا کہ دس بارہ ٹرنک اور سوٹ کیس کپڑوں سے بھر لیے تھے۔ وحید نے چلنے سے کچھ گھنٹے قبل اتفاق سے یہ سامان دیکھ لیا تھا۔ بڑی ردو کد کی ، مگر بکسوں میں کمی نہ ہوئی اور سب کے سب موٹر کے علاوہ کرائے کی لاری پر لاد کر اسٹیشن پہنچائے گئے ۔
گاڑی چلی تو وحید کا پس و پیش پھر بڑھا۔ سوچ رہا تھا کہ خدا جانے گھر پر والدین نے بیگم کے لائق کوئی جگہ حسب ہدایت بنوائی بھی یانہیں بیگم کو ان دیہاتیوں کی باتیں پسند آئیں یا نہ آئیں۔ یا خود ان لوگوں کو بیگم کی بے پردگی بھائے یا نہ ۔ وہ سب کے سب پرانے خیال کے، دقیانوسی مراسم کے پابند، رئیسوں، امیروں کا طور طر یقہ، انگلستان و یورپ کی تعلیم وتربیت ، دیکھیے جوڑ کیسے بیٹھتا ہے اور آپس میں کیسے نبھتی ہے۔ آگ اور برف کا تال میل بیٹھے نہ بیٹھے۔ یہ جدھر بھی نظر کرتا، جس پہلو پر غور کرتا دشواریاں ہی دشواریاں دکھائی دیتیں ۔ جی چاہتا بیگم کو سمجھائیں ۔ ان کو اس سفر کے نشیب و فراز سمجھائیں۔
مگر بیگم کی یہ حالت تھی کہ انھوں نے ابتدائے سفر سے ایک ناول شروع کیا تو راستے بھر اسی کو پڑھتی رہیں ۔ سفر طویل تھا۔ ایک دن اور ایک رات گاڑی پر دونوں رہے مگر سوائے کھانا کھانے کے اوقات کے کسی وقت باتیں کرنے کا موقع نہ ملا۔ ایک تو فرسٹ کلاس میں ہونے کی وجہ سے دونوں کے برتھ کافی فاصلے پر تھے، دوسرے ان کے برتھ کے اوپر والے حصے پر ایک انگریز دراز تھا۔ اسی حالت میں نجی اور خانگی گفتگو ناممکن ہی نہیں بلکہ محال تھی۔ کھانے کی میز پر رسٹور ان کار میں اس کا موقع نہ تھا۔ پاس ہی پاس مختلف میزوں پر دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے، کس طرح یہ مسئلہ چھیڑ سکتا تھا؟ غرض محمد پور کا اسٹیشن آ گیا اور یہ بیگم صاحبہ سے کچھ کہہ نہ سکے۔
وہاں اسٹیشن پر جو گاڑی رکی تو چھوٹا بھائی مع پینس اور آٹھ کہاروں کے دکھائی دیا۔ وحید نے بیگم سے جلدی سے کہا یہاں شاید تمھیں پردہ کرنا پڑے۔
انھوں نے کہا کہ میں پہلے ہی سے اس کے لیے تیار ہوں اور یہ کہتے ہی بکس کھول کر برقعہ نکال کر پہن لیا۔ وحید کو اس کی خبر بھی نہ تھی کہ وہ اپنا انتظام کیے بیٹھی ہیں اس لیے اسے بہت ہی تجب ہوا، مگر چھوٹے بھائی کی گھبرائی ہوئی صورت اور اسٹیشن پر گاڑی زیادہ نہ رکنے کے خیال نے گفتگو کا موقع نہ دیا۔ ڈبے کے سامنے پینس لگتے ہی بیگم اس میں جلدی سے سوار کروائی گئیں اور یہ مع اپنے بھائی کے بیل گاڑی پر اسباب لدوانے کے احکام صادر کر کے گھر کے تانگے پر بیٹھ کر روانہ ہوا۔
حمید اس کا بھائی اس سے پانچ برس چھوٹا تھا۔ اس نے قصبے کے ورنا کیولر اسکول سے اردو مڈل پاس کر کے تعلیم چھوڑ دی تھی اور کاشت کاری میں باپ کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔ اس لیے اس میں نہ تو وہ کلچر تھا جو ایک تعلیم یافتہ شخص میں پایا جاتا ہے اور نہ اس میں وہ تہذیب وشائستگی تھی جو شہروں میں رہنے اور اچھی سوسائٹی میں ملنے جلنے سے پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ ایک ناتراشیدہ اور ناصاف کرده ہیرا تھا۔ اس پر اب تک میل چڑھا ہوا تھا۔ مگر اس دیہاتیت اور بھدے پن میں خلوص کی آب و تاب ماند نہ ہوئی تھی۔ وہ تا نگا خود ہی ہنکاتا جاتا تھا اور بھائی سے بہت ہی بے تکلفی سے باتیں کرتا جاتا تھا۔ اور موقع موقع سے بھائی کے آئی سی ۔ ایس شہری اور رئیس ہونے پر طعن بھی کرتا جاتا تھا۔ غرض اس کی باتوں نے، بچپن کے مانوس مناظر نے، وطن کے سر سبز درختوں نے اور قصبے کے ہرے بھرے کھیتوں نے وحید پر آہستہ آہستہ اثر کرنا شروع کیا۔ وہ سب سے پہلے تو یہ بھولا کہ وہ آئی ۔ سی ۔ ایسں ہے۔ پھر یہ بھولا کہ وہ بیگم سی تعلیم یافتہ رئیسہ کا شوہر ہے۔ پھر یہ بھولا کہ اس کی ہندوستان کے بڑے بڑے راجگان، مہاراجگان سے ملاقات ہے۔ پھر یہ بھولا کہ وہ ایک تعلیم یافتہ مہذب انسان ہے۔ وہ کیا کرتا۔ جن حصوں سے وہ گزر رہا تھا ان کا ایک ایک ذرہ، ایک ایک چپہ ، ایک ایک بوٹا اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ وہی زمین جس پر وہ کبھی ننگے پاؤں دوڑا تھا، وہی کھیت جن میں اس نے اپنے ہاتھ سے مٹر اور چنا بویا تھا، وہی درخت جن کی شاخوں پر جلد سے جلد چڑھ جانے کے مقابلے میں وہ جیتا تھا، وہی چڑیاں جن کے بچے پکڑ لانے کےلیے وہ قصبے بھر میں مشہور تھا۔ یہ ساری چیزیں اس کا خیر مقدم کر رہی تھیں اور اپنے اپنے طور پر دل کی گہرائیوں میں اپنے اپنے گرے پڑے گھروں کو کرید کرید کر اپنے بیٹھنے کی جگہیں بنارہی تھیں۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ سر سبز درخت لہلہا رہے تھے۔ ہرے کھیت آنکھوں کو تر اوٹ پہنچا رہے تھے اور سوندھی سوندھی مٹی کی بو مشام جاں کو معطر کیے دیتی تھی کہ اتنے میں مکان کی کچی دیوار دکھائی دی ۔ معلوم ہوا جیسے روح کی گردن میں پھندا ڈال کر کسی نے کھینچنا شروع کیا۔ چھوٹے بھائی نے بھی گھوڑے کو چا یک رسید کیا۔ وہ پہلے ہی گھر دیکھتے ہی ہنہنا کے قدم بڑھا چکا تھا۔ ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ وحید کا دم اس طرح پھول رہا تھا جیسے گھوڑے کی جگہ وہ خود اس دوڑ میں شریک ہو۔ عجب نہیں کہ اس کی نظر کے تار پر اس کی روح دوڑ رہی ہو۔
بارے گھر آیا سامنے بڑے میاں دکھائی دیے۔ گھر پر سوائے کرتے پاجائے سلیپر کے کچھ نہ پہنتے تھے مگر آج خلاف معمول شیروانی بھی پہنے تھے اور بوٹ بھی۔ غالیا آئی ۔ سی ۔ ایس او تعلیم یافتہ بیگم بہو کی خاطر یہ زحمت انگیز کی تھی ۔ وحید نے تانگے سے اتر کر تسلیم کی ۔ انھوں نے آب دیدہ ہو کر گلے سے لگا لیا۔ باہری مکان میں قصبے کے اور بھی عمائد موجود تھے۔ ایسے بھی تھے جنھوں نے بچپن میں اس کی گوشمالی کی تھی اور ایسے بھی جو اس کے ساتھ بہت سی شرارتوں میں شریک رہتے تھے۔ سب بڑی محبت سے ملے۔ بڑے میاں نے کہا ” گھر میں اس وقت جانے کا موقع نہیں ہے۔ وہاں دلہن اتارنے کے لیے ساری برادری کی عورتیں جمع ہیں ۔ آو تمھیں نئے مکان میں پہنچا دیں۔ اسے دیکھ لو اور نہا دھو کر کپڑے بدل ڈالو پھر باتیں ہوں“ یہ کہہ کر خانہ باغ میں لے گئے۔ وہاں وحید کے حسب خواہش پختہ کھمبوں پر ایک بنگلہ نما چھپر ڈال دیا گیا تھا۔ بیچ میں سبز کپڑے تان تان کے مختلف دیواریں بنا دی گئی تھیں۔ یعنی اچھا خاصا صاحب کے ڈرائنگ روم، ڈریسنگ روم ، سلیپنگ روم، ڈائنگ روم اور کچھ مخصوص کمرے بیگم صاحبہ کے لیے تیار تھے۔ پلنگ، کرسیاں، فرش سب چیزیں سلیقے سے لگی تھیں۔
وحید حیرت سے اپنے والد کا منہ دیکھ کر بولا ” یہ سب سامان کس نے اتنے سلیقے سے لگا ڈالا؟ انھوں نے حمید کی طرف اشارہ کر کے کہا ” جس دن سے تمھارا خط آیا ہے، بس یہ انھیں کا موں میں لگا رہا۔ پھر گاؤں بھر کے تمام جوان ساتھ تھے۔ ان ہی سبھوں نے مل کر یہ سب درست کیا ہے۔ نہ دن کو دن سمجھا ہے نہ رات کو رات ‘‘
وحید نے بھائی کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ وہ بولا ہم دیہاتیوں کے ہاں صاحب مع میم صاحبہ کے تشریف لا رہے تھے۔ پھر ہم اتنا بھی نہ کرتے ۔ آئی ۔سی ۔ ایس جو لوگ ہوتے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں نازک، ان کے دل و دماغ نازک ہوتے ہیں۔ اب اگر آپ ہمارے موٹے بھدے اور بدشکل پلنگ استعمال کرتے تو آپ کو تکلیف نہ ہوتی ؟
وحید نے مسکرا کر کہا ہوں ، تو تم سمجھتے ہو، ہم لوگ بالکل نازک ہوتے ہیں، کیوں؟
وہ بولا " اور کیا؟ کیا آپ میرے ساتھ کھیت گوڑ سکتے ہیں؟ ہل چلا سکتے ہیں؟ پانچ منٹ میں بھاگ نکلیے گا۔‘‘ وحید نے کہا اچھا ذرا میں نہا لوں تو تم کو بتاتا ہوں ۔“ اس نے کہا بہت اچھا آج ہی شام کو بھابی کے سامنے ! ‘‘
بیگم کا اندر کیا رسپشن ہوا۔ کس کس طرح کی رسمیں کی گئیں۔ بیبیوں نے کیا کیا فقرے کسے، کس کو پسند آئیں، خود ان پر کیا گزری اور ان کے ساتھ ماما دائیوں نے کیا رائے قائم کی۔ یہ سب تمام باتیں بیان کرنا اس مختصر افسانے میں ممکن نہیں ۔ اس کے لیے ایک پورے ناول کی ضرورت ہے۔ ہاں اتنا ظاہر بیں آنکھیں بھی دیکھ سکتی تھیں کہ تمام وہ احکام جو ساس نے نافذ کیے وہ خوشی خوشی بجا لائیں ۔ یہاں تک کہ بڑی بی نے اپنے دیہاتی لب ولہجہ میں خود کہا کہ ” اللہ تمھیں مانگ کوکھ سے ٹھنڈا رکھے تم نے میرا دل خوش کر دیا۔ مجھے بڑے بڑے وسواس تھے مگر مجھے ایسا جان پڑتا ہے کہ میں دن میں چراغ لے کر ڈھونڈتی تو ایسی بہو نہ مل سکتی تھی ۔‘‘ نندوں نے اس پر خوب خوب فقرے کسے۔ مگر بڑی نندوں نے چھوٹیوں کو ڈانٹا، اور انھیں اپنے ساتھ اٹھا کر خانه باغ والے مکان میں پہنچا آ ئیں ۔ شام کو جب اعزا اور برادری کے لوگ جا چکے تو سارا گھر نئی بہو کے پاس سمٹ کر آ گیا۔ بڑے میاں رونمائی کے
لیے بلائے گئے اور بیوی کو ایک بھد یسل سونے کا زیور دے کر بہو کے پاس کرسی پر بیٹھ گئے۔ بڑی بی نے کہا ” وحید کو بھی بلا لو، اب سب رسمیں ہوگئیں۔ اب خواہ مخواہ کی شرم بے کار ہے ۔“وحید و حمید بھی آئے ۔ بیگم نے اپنی ایک بوڑھی ماما کی طرف دیکھا۔ اس نے خوان پرخوان لگانا شروع کیے۔ کسی میں بڑی بھاوج کے لیے جوڑا نکلا تو کسی میں نندوں کے لیے۔ تہذیب یہ کہ جس کا جوڑا ہوتا اس کے سامنے خوان لے کر خود بیگم جاتیں اور خوان رکھ کر اس طرح مؤدب کھڑی رہتیں جیسے معلوم ہوتا کوئی پجارن کسی دیوی کے سامنے بھینٹ چڑھا رہی ہے۔
میاں حمید پہلو بدل رہے تھے کہ عورتوں کو سب کچھ ملا مگر مجھ غریب کو کچھ بھی نہیں کہ اتنے میں ایک اور خوان آیا بیگم وہ لے کر اس کی طرف بڑھیں ۔ اس نے جلدی سے بڑھ کر خوان سنبھال کر رکھا۔ خودخوان پوش ہٹا کر دیکھا، خوان میں شیروانیوں اور قمیصوں کے کپڑے اور کئی پائجامے سلے ہوئے رکھے تھے۔ ان کے ساتھ مختلف قسم کے رومال، موزے، عطر، سینٹ ، کنگھا، تیل اور ایک آئینہ اور کچھ روپے بھی رکھے تھے۔ حمید شرما گیا۔ بیگم نے آہستہ سے کہا ”بھیا پاؤں اور سر کی ناپ نہ معلوم تھی اس لیے ٹوپی اور جوتا نہ خرید سکی۔ آپ اپنی پسند کا خرید لیجیے ۔
وہ ان چیزوں کو لیتے ہوئے جھجھکا تو بڑے میاں نے کہا ” اخاه! آج آپ بھی شرما رہے ہیں ۔ ارے بے وقوف تو تو چھوٹا ہے۔ بندگی کر اور سب جلدی سے سمیٹ‘‘
اس نے جلدی سے بیگم کو تسلیم کی ، روپیہ اٹھانا چاہا ، ماں نے کہا اور بھائی کو تسلیم نہیں!؟
وحید نے کہا: " جی روپے تو بیگم نے دیے ہیں اور کپڑے بھی انھیں نے۔ میرا خدا شاہد ہے کہ میں بھی نہیں جانتا کہ انھوں نے یہ سب سامان کب اور کیوں کر درست کیا‘‘
سب نے بیگم کو بڑی محبت سے دیکھا۔ انھوں نے مسکرا کر سر جھکایا۔ سب سے آخر میں دو بڑے بڑے خوان آئے۔ بیگم نے ایک ساس کے سامنے رکھا ایک سسرے کے، دونوں طرح طرح کے کپڑوں اور چیزوں سے پر تھے اور پھر لطف یہ کہ تمام چیزیں وہی جو ان کی خاص پسند کی تھیں۔
وحید متعجب ہو کر بول اٹھا " بھئی کمال کیا، یہ تمام سامان کر ڈالا اور میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔" حمید نے کہا جی بھلا صاحب کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیا مطلب؟
وحید اس پر جھپٹ پڑا۔ تو آج صبح سے بہت تیزیاں کر رہا ہے۔ سمجھ لیا کہ میں آئی۔سی۔ ایس کیا ہوں کہ بالکل موم کا بن گیا ہوں کھڑا تو رہ!"
وہ ہنستا ہوا یہ کہ کر بھاگا، اچھا مجھے پکڑ ہی لیجیے تو میں جانوں!"
دونوں بھائیوں میں دوڑ ہونے لگی۔ وہ بار بار جھکائیاں دے کر نکل جاتا مگر وحید برابر پیچھا کرتا رہا۔ یہاں تک کہ حمید یہ سمجھ کر کہ اب گرفتار ہو جاؤں گا ایک املی کے درخت پر چڑھنے لگا۔ جب وحید اس کے نیچے آ کر رک گیا تو وہ بول’’ آئی۔ سی ۔ ایس صاحب! یہاں تشریف لایئے۔ وحید نے بھی جوتے کے فیتے کھول ڈالے، اور ننگے پاؤں ہو کر درخت پر چڑھنا شروع کیا۔ املی کا درخت بہت بڑا تھا۔ حمید تو پہلے سب سے اونچی شاخ پر چڑھ گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وحید اسی پر چلا آ رہا ہے تو جلدی سے وہ اس سے اچک کر دوسری پر ہو رہا۔ مگر تا بہ کے؟ وحید کی کم سنی کی مہارت کام آئی۔ اس نے بالآخر حمید کو پکڑ ہی لیا اور وہیں سے کان پکڑے نیچے اتار لایا۔ حمید کے کھسیانے ہونے پر سارا گھر بنستا رہا ۔ مگر بیگم خاموش بیٹھی رہیں۔ وحید نے ان کی خاموشی سے ذرا سا اثر لیا۔ اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا تو ریشمی قمیص کئی جگہ سے پھٹ چکی تھی اور پتلون کی ساری کریز خاک میں مل گئی تھی۔ مگر اس وقت اس پر فضا اور ماحول کا پورا اثر ہو چکا تھا، اس نے کچھ زیادہ پروا نہ کی۔ سامنے بہت سے بانس کٹے ہوئے پڑے تھے۔ بھائی سے بولا کہ یہاں اچھے نہیں معلوم ہوتے چلو دوسرے حصے میں پھینک آئیں ۔ دیکھیں تو کتنی محنت کر سکتے ہو؟
بڑے میاں نے کہا نہیں بیٹا تم رہنے دوکل مزدور بلا کر ہٹا دیا جائے گا۔
اس نے مسکرا کر کہا نہیں ابا جان، یہ اپنے کو بڑا قوی سجھنے لگا ہے آپ کے سامنے ہی آج فیصلہ ہو جائے گا ۔ یہ کہ کر حمید کے ساتھ بانسوں کے اٹھانے پر پل پڑا۔
چشم زدن میں تقریباً سو ہے چھلے بانس دونوں بھائیوں نے اٹھا کر دوسرے حصے میں منتقل کر دیے۔ دونوں پسینے میں شرابور مٹی سے اٹے ہوئے کرسیوں کے پاس آ کر تھک کر بیٹھ گئے۔
بڑی بی نے پوچھا حمید اب آئی۔سی ۔ ایس کے متعلق کیا رائے ہے؟“
اس نے اپنے میلے ہاتھ سے پیشانی کا پسینہ پوچھتے ہوئے کہا ” میری دانست میں ان سے بجائے حکومت کرنے کے مزدوروں کا کام لینا چاہیے، یہ بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔“
سب لوگ ہنس ہی رہے تھے کہ بیگم ساس سسر کو سلام کر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
وحید کو بیگم کے جاتے ہی خیال آیا کہ اس نے اپنی دیہاتیت اور بربریت کا جس طرح مظاہرہ کیا ہے اس کے بعد اس کی کوئی وقعت بیگم کی نظروں میں باقی نہیں رہ سکتی۔ اسے حد درجه خجالت اور شرمندگی محسوس ہونے لگی اور باپ کے یہ کہنے پر کہ جاؤ میاں وحید نہا کر کپڑے بدل ڈالو، اب یہ تو بالکل درختوں اور بانسوں کی نذر ہو چکے ۔ اس کی کیفیت میں اور اضافہ ہو گیا۔
وہ گردن جھکائے اس حصے میں گیا جو حمام کرنے کے لیے مخصوص کر لیا گیا تھا اور اس نے نہا دھو کر جلدی جلدی کپڑے بدل ڈالے، پھر وہ شرمنده اورمنفعل اس کمرے میں گیا جو بیگم کے لیے مخصوص تھا۔ دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں اس کی خاص پسند کی ساڑی پہنے کھڑکی کے سامنے ہیں۔ وحید کو ان کے انداز سے محسوس ہوا کہ بیگم اس کے افعال سے بے حد رنجیدہ ہیں ۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا ' بیگم انھوں نے اس کی طرف پلٹ کر دیکھا وہ رک رک کر بولا ” بیگم میں تم سے بہت شرمندہ ہوں مگر .......... مگر میں کیا کروں .............................. اس ماحول اور اس فضا نے................. مجھے انسانیت کا جامہ اتارنے پر مجبور کیا ۔
انھوں نے کہا، انسانیت نہ کہیے آئی۔ سی ۔ ایسں کا جامہ کہیے ۔‘‘

علی عباس حسینی
(1897 - 1969)
علی عباس حسینی اتر پردیش کے ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پٹنہ میں ہوئی ۔ الہ آباد سے بی۔اے اور لکھنؤ سے ایم ۔ اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایل ۔ ٹی کی سند حاصل کرنے کے بعد ایک سرکاری اسکول میں اردو فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔
علی عباس حسینی نے شروع میں پریم چند سے متاثر ہو کر افسانے لکھے۔ ایسے افسانوں میں گاؤں کے معصوم اور سادہ لوح افراد کی خوب صورت عکاسی ملتی ہے۔ بعد میں ان کے افسانوں میں ایسے کردار نظر آتے ہیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ علی عباس حسین کو انسانی نفسیات پر عبور حاصل ہے۔ وہ کردار کی ذہنی تہوں کو آہستہ آہستہ کھولتے ہیں جس سے اس کی مکمل شخصیت سامنے آجاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں واقعات کی طوالت تو ہے مگر پلاٹ میں جھول پیدا نہیں ہوتا۔ علی عباس حسینی کے افسانوں کی بڑی خوبی ان کی زبان ہے۔ وہ عربی فارسی کے الفاظ سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔
’’ آئی۔ سی ۔ ایس، باسی پھول‘ ’’ میلہ گھومنی،" کچھ "ہنسی نہیں ہے" ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔" اردو ناول کی تاریخ اور تنقید" ان کی تنقیدی کتاب ہے۔
خلاصہ:
علی عباس حسینی مشہور افسانہ نگار ہیں اُنہوں نے پریم چند کی طرح گاؤں اور دیہات کی زندگی اور وہاں کے سیدھے سادے لوگوں پر ان گنت افسانے لکھے ہیں۔ آئی سی ایس بھی ایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں مصنف نے گاؤں کی سادہ زندگی اور شہری انداز رہائش کا موازنہ کیا گیا ہے۔
 افسانے کا ہیرو وحید ایک چھوٹے سے  گاؤں محمد پور میں پیدا ہوا تھا۔  اس نے اپنا بچپن اسی گاؤں میں گزارا۔ بارہ سال گاؤں میں رہنے کے بعد وہ الہ باد چلا گیا جہاں اس کے دور کے عزیز رہتے تھے۔ اُن کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اُنہوں نے اسے اپنے بیٹے کی طرح رکھا اور اسے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ وہ ایم اے کرکے آئی سی ایس ہو گیا اور اُسے مزید تعلیم کے لئے لندن بھیج دیا گیا ۔ وحید دو سال لندن میں رہا۔ اسی دوران اس کی ملاقات آکسفورڈ میں پڑھنے والی جہاں آرا بیگم سے ہوئی جو ریاست مہیندر پور کے رکن خاص صاحبزادہ شہاب الدین خان کی بیٹی تھیں۔ جہاں آرا بیگم کو اس سے محبت ہو گئی اور اس نے اپنے والدین کواپنی پسند سے آگاہ کیا اور اُن کی اجازت سے لندن ہی میں اُن کی شادی ہو گئی۔ اپنی تعلیم مکمل کرکے وحید دلہن کے ساتھ ہندوستان واپس آگیا۔ لیکن یہاں وہ اپنے گاؤں نہیں گیا کہ کہیں لوگوں کو اس کی اصلیت نہ معلوم ہو جائے کہ وہ ایک گاؤں کا رہنے والا ہے۔ وحید دہلی میں وائسرائے کے دفتر میں افسر مقرر ہو گیا تو اُس نے گاؤں خط بھیجا کہ مصروفیت کی وجہ سے گھر واپس نہیں آسکتا اور خرچ بھیجتا رہےگا اور یہ کہ کسی کو اس کے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔ بوڑھا باپ دل مسوس کر،بوڑھی ماں رو دھو کر چپ ہوگئے اور بھابھی خاموش رہ گئی وہ جانتے تھے کہ ان کا گھر اس قابل نہیں کے کوئی آئی سی ایس واپس آکر قیام کرے۔ وہ اسے خوب صحیح سمجھتے تھے کے ان کا جھونپڑا کسی بیگم بہو کو اتارنے لائق نہیں اس طرح جہاں آرا بیگم نے نہ اپنا سسرال دیکھا اور نہ ساس، سسر، جیٹھ سے ملنے کی نوبت آئی۔ وحید دہلی میں بڑے بڑے آدمیوں سے ملنے جلنے، والیان ملک کی پارٹیوں سنیما تھیٹر اور دوسری ایسی مصروفیت میں اس قدر مشغول ہو گیا کہ اسے اپنے سگے عزیزوں کی ذرا فکر نہیں رہی۔ کچھ عرصہ اسی طرح گزرا ۔ایک بار وحید کی ماں نے بہو کو ایسا خط لکھا کہ وہ سسرال جانے کو تیار ہو گئیں اور شوہر سے کچھ ناراض ہو کر سسرال جانے کی خواہش ظاہر کی۔ وحید بیوی کی یہ کیفیت دیکھ کر پریشان ہو گیا فوراً گھر پیسے بھیجے اور خط میں لکھ دیا کہ باغ کے احاطے میں بنگلہ نما پھوس کا جھونپڑا ڈلوا کر اس میں کئی کمرے بنوادیں چند دن بعد وحید بیگم کے ہمراہ اپنے گھر کے لیے روانہ ہوا۔ اُس نے دیکھا کہ بیگم کے ساتھ کئی سوٹ کیس اور دس بارہ ٹرنک ہیں۔ گاڑی چلی تو وحید کو بار بار خیال آتا رہا کہ خدا جانے گھر پر والدین نے بیگم کے لائق کوئی جگہ ہدایت کے مطابق بنوائی یا نہیں۔ محمد پور کا اسٹیشن آیا تو وحید نے بیگم سے کہا کہ یہاں کے رواج کے مطابق پردہ کرنا پڑےگا تو بیگم اس کے لیے پہلے سے تیار تھیں۔ اُنہوں نے ایک برقعہ نکال کر پہن لیا۔ وحید اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیل گاڑی پر سوار ہو کر گھر پہنچا اور بیگم کے لئے پینس آئی تھی۔ اس پر سوار ہو کر وہ گاؤں کے لیے روانہ ہوئی۔ والدین نے بہو کا روایتی انداز میں استقبال کیا۔ وحید نے رہنے کے لئے مکان دیکھا تو اُسے تعجب ہوا کہ سب کچھ بہت سلیقے سے کیا گیا ہے۔ شام کو سب عزیز واقارب جمع ہوئے اور بہو کو منہ دکھائی وغیرہ پیش کی گئی۔ بہو نے بھی خوان منگوا کر ساس، سسر، جیٹھ، دیور،بھاوج اور نندوں کے لئے کپڑے،رومال،موزے،عطر، سینٹ وغیرہ پیش کیے۔ وحید سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔ اسی دوران حمید نے شرارت کی اور وحید چھوٹے بھائی پر جھپٹ پڑا۔ حمید درخت پر چڑھ گیا تو وحید بھی اس کے پیچھے تیزی سے چڑھا۔ بیگم خاموشی سے تماشا دیکھ رہی تھیں۔ ایک طرف بہت سے بانس کٹے ہوئے پڑے تھے دونوں بھائیوں نے مل کر بانس کو دوسرے حصے میں منتقل کردیا۔ اس دوران وحید کے کپڑے خراب ہو گئے تھے۔باپ کے کہنے پر وہ کپڑے بدلنے اور نہانے کےلئے گیا۔ وہ کچھ شرمندگی کے ساتھ بیگم کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ اس کی خاص پسند کی ساڑی پہنے کھڑی ہوئی ہیں۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بڑے شہر کے ماحول اور فضا نے اُسے انسانیت کا جامہ اتارنے پر مجبور کردیاتھا۔ جس پر اُس کی بیگم نے مسکرا کر جواب دیا کہ گاؤں کی فضا نےانسانیت کا جامہ نہیں آئی سی ایس کا جامہ اتارنے پر مجبور کردیا ہے یعنی اب تک وہ آئی سی ایس بن کر اپنے ماضی سے کترا رہا تھا اور اپنے گھر کے لوگوں کو ہیچ تصور کر رہا تھا لیکن ماضی کو کبھی الگ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔  
مصنف نے اس کتاب میں یہ باور کرایا ہے کہ مغربی ماحول میں پلی بڑھی لڑکی بھی کس طرح اپنے ملک کی جڑوں سے گھلی ملی رہتی ہے اور ایک عہدہ کس طرح کسی انسان کو اتنا احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے کہ اسے اپنا ماضی ہی کمتر نظر آنے لگتا ہے۔ یہ افسانہ قاری کو اپنے پلاٹ میں باندھے رکھتا ہے اور انہیں بہو کا کردار بہت متاثر کرتا ہے۔
سچ ہے پودے ایک زمین سے نکال کر دوسری زمین پر لگا دینے سے اپنی نوعیت اور جنس نہیں بدل دیتے۔ اس افسانہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اچھی پوزیشن پا کر ہمیں اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہیے اور کسی احساس کمتری میں نہیں رہنا چاہیے۔
سوالوں کے جواب لکھے :
1۔ آئی۔سی ۔ ایس بننے کے بعد وحید میں کیا تبدیلی آئی؟
جواب: آئی سی ایس بننے کے بعد وحید میں یہ تبدیلی آئی کہ وہ بڑے لوگوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے لگا اور اس کے اندر دکھاوا پیدا ہوگیا۔ اسے اپنے گھر اور گاؤں سے شرم آنے لگی اور وہ احساس کمتری کا شکار ہوگیا۔ اُس نے اپنے گھر کے لوگوں سے دوری بنا لی۔

2۔ گاؤں پہنچنے سے پہلے وحید کی کیا کیفیت تھی؟ 
جواب: گھر پہنچنے سے پہلے وہ اس بات سے ڈر رہا تھا کہ کہیں اُس کی بیگم اس کے گھریلو حالات دیکھ کر اُن سب کی غربت سے شرمندہ ہو۔ اور کہیں اُس کی پول نہ کھل جائے۔ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس نے گھر ٹھیک کرنے کے لیے جو رقم بھیجی تھی اُس سے سارے انتظامات صحیح طرح ہوئے یا نہیں۔ اسے یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ اس کی بیگم کو اس کے گھر والے اور گھر والوں کو اس کی بیگم پسند آئیں گی بھی یا نہیں۔

3- ’’ پودے ایک زمین سے نکال کر دوسری زمین میں لگا دینے سے اپنی نوعیت اور جنس نہیں بدل دیتے‘‘ اس فقرے کی وضاحت کیجیے۔
جواب:اس فقرے میں پودوں کی حقیقت بیان کی گئی ہےکہ مثال کے طور پر اگر آم کے پیڑ کا پودہ اگر ایک جگہ سے اکھاڑ  کر دوسری  جگہ لگایا جائے تو وہ آم کا پودا ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح ایک انسان کہیں بھی چلا جائے اس کی فطرت نہیں بدلے گی وہ انسان ہی رہے گا۔

4۔ بہو بیگم کے کردار کی خوبیاں بیان کیجیے۔
جواب: وحید کی بیگم گرچہ ایک اعلیٰ خاندان کی خاتون تھیں لیکن وہ ایک شریف النفس بیوی تھیں۔ انہیں اپنے رشتہ داروں کی عزت کا خیال تھا۔ انہوں نے اُن سب کو کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی وحید نے اُن سب کا تعارف کرایا تھا لیکن اس کے باوجود جب اُس کی ساس نے محبت بھرا خط لکھا جسے پڑھتے ہی وہ کھنچی چلی آئیں اور ساتھ ہی سب کے لیے تحائف لینا بھی نہیں بھولیں۔ انہوں نے اپنے سسرال کے ہر فرد کے لیے کچھ نہ کچھ تحفہ خریدا اور اپنے گھر والوں کا دل جیت لیا۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے گاؤں کی تہذیب و معاشرت کا بھی بھرپور خیال رکھا ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے گھر والے پردہ پسند کرتے ہیں تو انہوں نے نہ صرف اپنے لیے برقعہ خریدا بلکہ اُسے پہنا بھی۔ یہ ساری باتیں اُن کی خوبیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
 

Wednesday 11 November 2020

Haqeeqat e Husn By Allama Iqbal Class 10 Nawa e Urdu

حقیقتِ حسن

علامہ اقبال

 خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا

جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا

ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا

شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا

ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی

وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی

کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سُنی

فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے سُنی

سحر نے تارے سے سُن کر سنائی شبنم کو

فلک کی بات بتادی زمیں کے محرم کو

بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے

کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے

چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا

!شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا

تشریح:

 اقبال کی یہ نظم مختصر ہے کل چودہ مصرعے ہیں ان مصرعوں میں اقبال نے بتایا ہے کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے خواہ وہ کتنی ہی خوبصورت ہو۔ اقبال نے اس کی مثالیں پیش کی ہیں۔ چاند، صبح کے ستارے ، صبح شبنم، پھول، موسم بہار، شباب سب ناپائدار ہیں۔ اس دنیا میں کچھ دیر کیلئے آتے ہیں، اپنی بہار دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ ان مثالوں سے اقبال نے یہ ظاہر کیا ہے کہ حسن کو بھی فنا ہونا ہے۔ خواہ وہ چاند میں ہو یا شبنم میں ۔ موسم بہار ہو، یا عہد جوانی ، سب نا پائدار اور فنا ہونے والے ہیں ۔ فطرت کا یہی اصول ہے۔
 خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
تشریح:-  ایک روزحسن نے خدا سے یہ سوال کیا کہ تو نے مجھے دنیا میں بھیجا مگر لازوال نہیں بتایا، یعنی حسن میں کمی آئے گی حسن برقرار نہیں رہے گا۔
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا
خدا کی جانب سے جواب آیا کہ یہ دنیا ایک تصویر خانہ ہے، جس میں طرح طرح کی تصویریں لگی ہوئی ہیں ۔ تصویر یں اصل شے کاعکس ہوتی ہیں ، یہ دنیا تو فنا کی لمبی رات کی ایک کہانی ہے۔
ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
یہ دنیا تو تغیر کے رنگ سے ہی سامنے آتی ہے، یعنی دنیا کی اشیاء بدلتی رہتی ہیں۔ صبح کے بعد دوپہر دو پہر کے بعد شام اور پھر رات ۔ لڑکپن کے بعد جوانی اور جوانی کے بعد بڑھاپا، یہی تغیر یعنی تبدیلی کا رنگ ہے۔
کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سُنی
فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے سُنی
چاند قریب ہی موجود یہ باتیں سن رہا تھا، اس نے آسمان پر سب کو بتا دیا۔ صبح کے ستارے نے بھی یہ بات سنی۔
سحر نے تارے سے سُن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتادی زمیں کے محرم کو
صبح کے ستارے نے یہ سن کر صبح کو بتایا، اور صبح سے شبنم تک یہ بات پہنچی۔ اس طرح آسمان کی یہ بات زمین کے محرم (شبنم) تک پہنچ گئی ۔ شبنم کو زمین کا محرم( راز دار) اسلئے کہا ہے کہ وہ آسان سے زمین پر آئی ہے۔
بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
شبنم نے آسمان پر ہونے والی بات پھول کو سنا دی۔ شبنم کے بات سن کر پھول کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کلی جوکھلی نہیں تھی، اس کا ننھا سا دل غم سے خون ہو گیا۔ یعنی اس پر افسردگی طاری ہو گئی۔
چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا
!شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا
پھول اورکلی کی حالت دیکھ کر موسم بہار روتا ہوا رخصت ہوا۔ شباب باغ کی سیر کرنے آیاتھا۔ وہ خوش ہونے کے بجائے سوگوار ہوگیا۔
اقبال نے ان سات اشعار میں حسن سے بات شروع کر کے شباب پرختم کی ۔ اور یہ بتا دیا کہ ہر شے بدلتی ہے اور فنا ہوتی ہے۔ حقیقت حسن یہ ہے کہ وہ بھی دنیا کی دیگر اشیاء کی طرح فنا ہونے والا ہے۔

1. حسن نے خدا سے کیا سوال کیا؟
جواب: علامہ اقبال کی نظم حقیقت حسن کے اس شعر میں حسن خدا سے یہ سوال کرتا ہے کہ اس نے اسے لازوال یعنی ہمیشہ قائم رہنے والا کیوں نہیں بنایا۔ دراصل حسن اس شعر میں خدا سے یہ شکوہ کرتا ہے کہ اس نے اس نے اسے ختم ہوجانے والا کیوں بنایا کاش وہ اسے ہمیشہ قائم رہنے والا بناتا تاکہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہتا اور ہمیشہ ہی اس کی قدر باقی رہتی۔

2. خدا اور حسن کے درمیان گفتگو کی خبر زمین کے لوگوں کو کیسے معلوم ہوئی؟
جواب: خدا اور حسن کے درمیان اس مکالمہ کی خبر زبان در زبان زمین تک آپہنچی۔ سب سے پہلے دونوں کے درمیان یہ گفتگو قمر یعنی چاند نے سنی۔ اور یہ گفتگو فلک پر پھیل گئی جسے صبح کے ستارے نے سنا۔ سحر نے تارے سے اس گفتگو کو سن کر اسے شبنم کو سنایا۔ شبنم کے اس پیغام کو سن کر پھول کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس بات کو سن کر کلی کا ننھا سا دل غم سے خون ہوگیا۔ اور موسم بہار کو اپنے لازوال ہونے کا اتنا غم پہنچا کہ وہ چمن کو چ؍وڑ کر چلا گیا۔اور وہ شباب جو چمن میں سیر کی غرض سے آیا تھا حسن کی بے بسی پی سوگوار واپس ہو گیا۔

3. پھول، کلی، موسم بہار اور شباب کو سوگوار کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر نے پھول، کلی، موسم بہار اور شباب کو سوگوار اس لیے کہا ہے کہ یہ سب حسن اور خدا کے مکالمے کو سن کر غمزدہ ہو گئے تھے۔ حسن کی بے ثباتی نے ان سب کو غمزدہ کردیا تھا اس لیے کہ یہ باتیں ان سب کو براہ راست متاثر کرتی تھیں۔ یہ سب ہی حسن کے حامل اور حسن کے پرستار تھے۔ حسن کے لازوال ہونے نے ان سب کو متاثر کیا تھا۔ 



دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Gilli Danda by Premchand NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

گِلّی ڈنڈا
منشی پریم چند
ہمارے انگریزی خواں دوست چاہے مانیں یا نہ مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ گلی ڈنڈا سب کھیلوں کا راجا ہے۔ اب بھی جب کبھی لڑکوں کوگلی ڈنڈا کھیلتے دیکھتا ہوں تو جی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جا کر کھیلنے لگوں ۔ نہ لان (میدان) کی ضرورت ہے نہ شنگارڈ ، نٹ کی نہ بلے کی ۔ مزے سے کسی درخت کی ایک شاخ کاٹ لی گلی بنائی اور دو آدمی بھی آگئے تو کھیل شروع ہو گیا۔ ولایتی کھیلوں میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ان کے سامان مہنگے ہوتے ہیں۔ جب تک کم از کم ایک روپیہ خرچ نہ کیجیے کھلاڑیوں میں شمار نہیں ہوسکتا۔ یہاں گلی ڈنڈا ہے کہ بغیر ہینگ پھٹکری کے لگے رنگ چوکھا دیتا ہے لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر ایسے دیوانے ہورہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہوگئی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں ہر ایک لڑکے سے تین چار روپے سالانہ صرف کھیل کی فیس لی جاتی ہے۔ کسی کو یہ نہیں سوجھتا کہ ہندوستانی کھیل کھلائیں جو بغیر پیسے کوڑی کے کھیلا جاتا ہے۔ انگریزی کھیل ان کے لیے ہیں جن کے پاس روپیہ ہے۔ بے چارے غریب لڑکوں کے سر پرفضول خرچیاں کیوں منڈھتے ہو۔ ٹھیک ہے گلی سے آنکھ پھوٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے تو کیا کرکٹ سے سر پھٹ جانے کا، تلی پھٹ جانے کا ، ٹانگ ٹوٹ جانے کا خدشہ نہیں رہتا۔ اگر ہمارے ماتھے پر گلی لگ جانے کا داغ آج تک لگا ہوا ہے تو ہمارے کئی دوست ایسے بھی ہیں جو بلے سے گھائل ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی رکھتے ہیں۔ خیر یہ تو اپنی اپنی پسند ہے اور بچپن کی یادوں میں گلی ڈنڈا ہی سب سے شیریں یاد ہے۔ وہ علی الصباح گھر سے نکل جانا، وہ درختوں پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹنا اور گلی ڈنڈے بنانا، وہ جوش و خروش، وہ لگن، وہ کھلاڑیوں کے جمگھٹے، وہ پدنا اور پدانا، وہ لڑائی جھگڑے، وہ بے تکلف سادگی، جس میں چھوت چھات ، غریب امیر کی کوئی تمیز نہ تھی۔ جس میں امیرانہ چونچلوں اور غرور اور خود نمائی کی گنجائش نہ تھی، اسی وقت بھولے گا جب گھر والے بگڑ رہے ہیں۔ والد صاحب چوکے پر بیٹھے روٹیوں پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ اماں کی دوڑ صرف دروازے تک ہے لیکن ان کے خیال میں میرا تاریک مستقبل ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ڈگمگا رہا ہے اور میں ہوں کہ پدانے میں مست ہوں۔ نہ نہانے کا خیال ہے نہ کھانے کا۔ گلی ہے تو ذرا سی مگر اس میں دنیا بھر کی مٹھاس اور عاشقوں کا لطف بھرا ہوا ہے۔
میرے ہمجولیوں میں ایک لڑکا گیا نام کا تھا۔ مجھ سے دو تین سال بڑا ہوگا۔ دبلا لمبا بندروں کی سی پھرتی ، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی جھپٹ ۔ گلی کیسی ہی ہو اس طرح جھپٹتا تھا جس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔ معلوم نہیں اس کے ماں باپ کون تھے، کہاں رہتا تھا، کیا کھاتا تھا، پرتھا ہمارے گلی کلب کا چیمپین ۔ جس کی طرف وہ آ جائے اس کی جیت یقینی تھی ۔ ہم سب اسے دور سے آتا دیکھ کر اس کا استقبال کرتے تھے اور اسے اپنا گوئیاں بنا لیتے تھے۔
      ایک دن میں اور گیا دونوں ہی کھیل رہے تھے۔ میں پد رہا تھا وہ پدا رہا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پدانے میں ہم دن بھر مست رہ سکتے ہیں پدنا ایک منٹ بھی سہا نہیں جاتا۔ میں نے گلا چھڑانے کے لیے وہ سب چالیں چلیں جو ایسے موقعے پر خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی قابل معافی ہیں ۔ لیکن گیا اپنا داؤں لیے بغیر پیچھا نہ چھوڑتا تھا۔ میں گھر کی طرف بھاگا، منت سماجت اور خوشامد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ گیا نے مجھے دوڑ کر پکڑ لیا اور ڈنڈا تان کر بولا ” میرا داؤں دے کر جاؤ ۔ پدایا تو بڑا بہادر بن کر، پدنے کے وقت کیوں بھاگتے ہو“
”تم پھر پداؤ تو میں دن بھر پدتا رہوں گا؟“
” ہاں تمھیں دن بھر پدنا پڑے گا۔“
”کھانے جاؤں نہ پینے ؟“
” ہاں میرا داؤں دیے بغیر کہیں نہیں جاسکتے۔“
” میں تمھارا غلام ہوں؟“
”ہاں تم میرے غلام ہو“
” میں گھر جاتا ہوں دیکھوں تم میرا کیا کر لوگے ۔“
”گھر جاؤ گے کیسے، دل لگی ہے۔ داؤں دیا ہے داؤں لیں گے۔ ”
”اچھا کل میں نے تمھیں امرود کھلایا تھا وہ رکھ دو۔“
”وہ تو پیٹ میں چلا گیا۔“
’’نکالو پیٹ سے تم نے کیوں کھایا میرا امرود؟“
”امرود تم نے دیا تھا میں نے کھایا میں تم سے مانگنے گیا تھا؟‘‘
”جب تک میرا امرود نہ دو گے میں داؤں نہ دوں گا۔“
میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے آخر میں نے کسی غرض کی وجہ سے ہی امرود کھلایا ہوگا ۔ کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے۔ بھیک تک تو غرض ہی کے لیے دیتے ہیں۔ جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے مجھ سے داؤں لینے کا کیا حق حاصل ہے۔ رشوت دے کر تو لوگ خون چھپا جاتے ہیں۔ وہ میرا امرود یوں ہی ہضم کر جائے گا۔ امرود پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے۔ یہ سراسر بے انصافی تھی۔
گیا نے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ”میرا داؤں دے کر جاؤ ، میں امرود سمرود کچھ نہیں جانتا۔“ٹ
مجھے انصاف کا زور تھا۔ ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا۔ میں نے گالی دی۔
  اس نے اس سے بھی سخت گالی دی اور گا لی ہی نہیں ایک ڈنڈا بھی جما دیا۔ میں رونے لگا۔
گیا میرے اس ہتھیار کا مقابلہ نہ کر سکا۔ بھاگا، میں نے فوراً  آنسو پونچھ ڈالے۔ ڈنڈے کی چوٹ بھول گیا اور ہنستا ہوا گھر پہنچا۔ میں تھانے دار کا لڑکا ایک لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیا۔ مجھے اس وقت بھی بے عزتی کا باعث معلوم ہوا لیکن گھر میں کسی سے شکایت نہ کی۔ انھیں دنوں والد صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا ۔ نئی دنیا دیکھنے کی خوشی میں ایسا پھولا کہ اپنے ہمجولیوں سے جدا ہونے کا بالکل افسوس نہ ہوا۔ والد صاحب افسوس کرتے تھے یہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی۔ اماں بھی افسوس کرتی تھیں۔ یہاں سب چیزیں سستی تھیں اور محلے کی عورتوں سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا۔ لڑکوں سے شیخی بگھار رہا تھا۔ وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ وہاں کے انگریزی اسکولوں میں کوئی ماسٹر اگر لڑکوں کو پیٹے تو عمر قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھٹی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں ان کی نگاہوں میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں ۔ بچوں میں جھوٹ کو سچ بنا لینے کی وہ طاقت ہوتی ہے ، جسے ہم، جو سچ کو جھوٹا بنا دیتے ہیں ، نہیں سمجھ سکتے ۔ دوست کہہ رہے تھے تم خوش قسمت ہو بھائی ۔ ہمیں تو اسی گاؤں میں جینا بھی ہے اور مرنا بھی ہے۔
بیس سال گزر گئے ۔ میں نے انجینیری پاس کی ہے اور کسی ضلع کا دورہ کرتے ہوئے اسی قصبے میں پہنچا اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرا۔ اس جگہ کو دیکھتے ہی بچپن کی اس قدر دل کش اور شیریں یاد تازہ ہوا ٹھی کہ میں نے چھڑی اٹھائی اور قصبے کی سیر کو نکلا۔ آنکھیں کسی پیارے مسافر کی طرح بچپن کے ان مقامات کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں جن کے ساتھ کتنی ہی یادگاریں وابستہ تھیں لیکن اس مانوس نام کے علاوہ وہاں کوئی شناسا نہیں ملا۔ جہاں کھنڈر تھا، وہاں پکے مکانات کھڑے تھے۔ جہاں برگد کا ایک پرانا درخت تھا وہاں اب ایک خوبصورت باغیچہ تھا۔ اس جگہ کی کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ اگر اس کے نام و نشان کا علم نہ ہوتا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکتا تھا۔ وہ پرانی یادگاریں باہیں پھیلا پھیلا کر اپنے پرانے دوستوں کے گلے لپٹنے کے لیے بے قرار ہورہی تھیں مگر وہ دنیا بدل گئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اس زمین سے لپٹ کر روؤں اور کہوں کہ تم مجھے بھول گئیں لیکن میرے دل میں تمھاری یاد تازہ ہے۔
اچانک ایک کھلی جگہ میں نے دو تین لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے میں اپنے آپ کو بالکل بھول گیا کہ میں ایک اونچا افسر ہوں، صاحبی ٹھاٹھ ہیں، رعب اور اختیار کے لباس میں ہوں ۔ جا کر ایک لڑکے سے پوچھا ”کیوں بیٹے یہاں کوئی گیا نام کا آدمی رہتا ہے؟“
ایک لڑکے نے گلی ڈنڈا سمیٹ کر سہمے ہوئے لہجے میں کہا ”ہاں ہے تو۔“
لڑکا دوڑا ہوا گیا اور جلد ایک پانچ ہاتھ کے کالے دیو کو ساتھ لیے آتا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے دور ہی سے پہچان لیا۔ اس کی طرف لپکنا چاہتا ہی تھا کہ اس کے گلے سے لپٹ جاؤں مگر کچھ سوچ کر رہ گیا۔
بولا ”کہو کیا مجھے پہچانتے ہو؟“
گیا نے جھک کر سلام کیا۔ ”ہاں مالک، بھلا پہچانوں گا کیوں نہیں،آپ مزے میں رہے؟“
”بہت مزے میں تم اپنی کہو؟“
” ڈپٹی صاحب کا سائیس ہوں“
”ماتا دین درگا دونوں ڈاکیے ہو گئے ہیں اور آپ؟“
”میں ضلع کا انجینیر ہوں“
”سرکار تو پہلے ہی بڑے جہین(ذہین)تھے۔“
”اب بھی گلی ڈنڈا کھیلتے ہو؟“
میں نے گیا کی طرف سوال کی آنکھوں سے دیکھا۔
”گلی ڈنڈا کیا کھیلوں گا سرکار۔ اب تو پیٹ کے دھندے ہی سے چھٹی نہیں ملتی۔“
”آؤ آج ہم تم کھیلیں۔تم پدانا ہم پدیں گے تمھارا ایک داؤں ہمارے اوپر ہے وہ آج لے لو“
گیا بڑی مشکل سے راضی ہوا۔ وہ ٹہرا ٹکے کا مزدور، میں ایک بڑا آفیسر۔ میرا اور اس کا کیا جوڑ۔ بے چارہ جھینپ رہا تھا۔ لیکن مجھے بھی کچھ کم جھینپ نہ تھی۔ اس لیے نہیں کہ میں گیا کے ساتھ کھیلنے جا رہا تھا بلکہ لوگ اس کھیل کو عجوبہ سمجھ کر اس کا تماشا بنا لیں گے اور اچھی خاصی بھیڑ لگ جائے گی۔ اس بھیڑ میں وہ لطف کہاں رہے گا لیکن کھیلے بغیر تو رہا نہیں جاتا تھا۔ آخر فیصلہ ہوا دونوں بستی سے دور تنہائی میں جاکر کھیلیں۔ وہاں کون دیکھنے والا بیٹھا ہوگا۔ مزے سے کھیلیں گے اور بچپن کی مٹھائی کو خوب مزے لے لے کر کھائیں گے۔ میں گیا کو لے کر ڈاک بنگلے پر آیا اور موٹر میں بیٹھ کر دونوں میدان کی طرف چلے اور ساتھ ہی ایک کلہاڑی لے لی۔
میں متانت کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا تھا مگر گیا ابھی تک مذاق سمجھ رہا تھا۔اس کے چہرے پر خوش اور ولولے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ شاید ہم دونوں میں جو فرق ہو گیا تھا وہ اسے سوچنے میں محو تھا۔ میں نے پوچھا” تمھیں بھی ہماری یاد آتی تھی، سچ کہنا؟
گیا جھینپتا ہوا بولا”میں آپ کو یاد کر کے کیا کرتا حضور!کس لایق ہوں-قسمت میں کچھ دن آپ کے ساتھ کھیلنا لکھا تھا نہیں تو میری کیا گنتی۔“
”وہ ڈنڈا جو تان کر جمایا تھا یاد ہے نا؟“
گیا نے شرماتے ہوئے کہا ”وہ لڑکپن تھا سرکار!اس کی یاد نہ دلاو۔“
واہ!وہ میرے ان دنوں کی سب سے رسیلی یاد ہے۔ تمھارے اس ڈنڈے میں جو رس تھا وہ اب نہ عزت اور بڑائی میں پاتا ہوں،نہ دولت میں۔کچھ ایسی مٹھاس تھی اس میں کہ آج تک اس سے من میٹھا ہوتا رہتا ہے۔
اتنی دیر میں ہم بستی سے کوئی تین میل نکل آئے تھے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ مغرب کی طرف کوسوں بھیم تال پھیلا ہوا تھا جہاں آ کر ہم کسی وقت کنول کے پھول توڑنے جاتے تھے اور اس کے جھمکے بنا کر کانوں میں ڈال لیتے تھے۔ جون کی شام کیسر میں ڈوبی چلی آرہی تھی،میں لپک کر درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ کاٹ لایا۔ جھٹ پٹ گلی ڈنڈا بن گیا۔ کھیل شروع ہو گیا۔ میں نے راب میں گلی رکھ کر اچھالی اور گلی گیا کے سامنے سے نکل گئی۔
اس نے ہاتھ لپکایا۔ جیسے مچھلی پکڑ رہا ہو۔ گلی اس کے پیچھے جا کر گری۔ یہ وہی گیا تھا جس کے ہاتھوں میں گلی آپ ہی آپ آکر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ داہنے بائیں ہو،گلی اس کی ہتھیلی میں پہنچتی تھی۔ جیسے گلیوں پر جادو کر کے اس نے بس میں کر لیا ہو۔ نئی گلی ، پرانی گلی ، چھوٹی گلی ، بڑی گلی ، نوک دار گلی ۔ سب ہی اس سے مل جاتی تھیں گویا اس کے ہاتھوں میں مقناطیسی طاقت تھی جو گلیوں کو کھینچ لیتی ہے لیکن آج گلیوں کو اس سے وہ محبت نہیں رہی ۔ پھر تو میں نے اس کو پدانا شروع کیا۔ میں طرح طرح کے فریب کر رہا تھا۔ مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کر رہا تھا۔ داؤں پورا ہونے پر بھی ڈنڈا کھیلے جاتا تھا۔ حالانکہ قاعدے کے مطابق گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔ گلی پر جب ہلکی چوٹ پڑتی اور وہ ذراسی دور گر پڑتی تو لپک کر خود ہی اٹھا لاتا اور دو بارہ ٹل لگاتا۔ گیا یہ ساری بے قاعدگیاں دیکھ رہا تھا اور کچھ نہ بولتا تھا۔ گویا اسے تمام قاعدے قوانین بھول گئے ہوں ۔ اس کا نشانہ کتنا بے خطا تھا۔ گلی اس سے نکل کر ٹن سے ڈنڈے پر آ کر لگتی تھی۔ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کا کام تھا ڈنڈے سے ٹکرا جانا ۔ لیکن آج وہ گلی ڈنڈے سے لگتی ہی نہیں ہے۔ کبھی داہنے جاتی ہے کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے۔
آدھ گھنٹہ پدانے کے بعد گلی ایک بار ڈنڈے میں آ لگی ۔ میں نے دھاندلی کی ’’ گلی ڈنڈے کے بالکل پاس سے گئی ہے مگر لگی نہیں ۔
گیانے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔’’ نہیں لگی ہوگی ۔ ڈنڈے میں لگتی تو کیا میں بے ایمانی کرتا‘‘  نہیں بھیا! بھلاتم بے ایمانی کروگے؟
بچپن میں مجال تھی میں ایسا گھپلا کر کے جیتا بچتا۔ یہ ہی گیا میری گردن پر چڑھ بیٹھتا۔ لیکن آج میں اسے کتنی آسانی سے دھوکا دیے چلا جاتا تھا۔ گدھا ہے ساری باتیں بھول گیا۔
اچانک گلی ڈنڈے میں لگی اور اتنے زور سے لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو۔ اس ثبوت کے مقابل مجھے کسی طرح کا فریب چلنے کا حوصلہ اس وقت بھی نہ ہو سکا۔ لیکن کیوں نہ ایک بار سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کروں ، میرا حرج ہی کیا ہے۔ مان گیا تو واہ واہ ، ور نہ دو چار ہاتھ تو پدنا ہی پڑے گا۔ اندھیرے کا بہانہ کر کے گلا چھڑالوں گا پھر کون داؤں دینے آتا ہے۔ گیانے فاتحانہ انداز سے کہا لگ گئی ٹن سے بولی “
میں نے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
تم نے لگتے دیکھا، میں نے تو نہیں دیکھا۔
" ٹن سے بولی ہے سرکار ‘‘
"اور جو کسی اینٹ سے لگ گئی ہو".
میرے منہ سے یہ فقرہ کیسے نکل گیا اس پر مجھے خود حیرت ہے۔ اس سچائی کو جھٹلا نا ویسا ہی تھا جیسے دن کو رات کہنا۔ ہم دونوں نے گلی کو ڈنڈے میں زور سے لگتے دیکھا لیکن گیا نے میرا کہنا مان لیا۔
”ہاں سرکار کسی اینٹ پر لگی ہوگی ڈنڈے میں لگتی تو اتنی آواز نہ آتی۔"
میں نے پھر پدانا شروع کیا۔ لیکن اس قدر صاف اور صریح دھوکا دینے کے بعد مجھے گیا کی سادگی پر رحم آنے لگا۔ اس لیے جب تیسری بار گلی ڈنڈے پر لگی تو میں نے بڑی فراخدلی کے ساتھ داؤں دینا طے کر لیا۔
گیا نے کہا اب تو اندھیرا ہو گیا ہے بھیا کل پر رکھو۔"
میں نے سوچا کل بہت سا وقت ہوگا۔ یہ نہ جانے کتنی دیر پدائے اس لیے اس وقت معاملہ صاف کر لینا اچھا ہوگا ’’نہیں نہیں بہت اجالا ہے تم اپنا داؤں لے لو۔"
"گلی سوجھے گی نہیں .“
کچھ پرواہ نہیں “
گیانے پدا نا شروع کیا۔ مگر اب بالکل مشق نہیں تھی۔ اس نے دوبارہ ٹل لگانے کا ارادہ کیا لیکن دونوں ہی بار وہ چوک گیا۔ ایک منٹ سے کم میں وہ اپنا داؤں پورا کر چکا تھا۔ بے چارہ گھنٹہ بھر پدا لیکن ایک منٹ میں اپنا داؤں کھو بیٹھا۔ میں نے اپنے دل کی وسعت کا ثبوت دیا ایک داؤں اور لے لو تم پہلے ہی ہاتھ میں ہار گئے ‘‘
"نہیں بھیا اب اندھیرا ہو گیا ہے"۔
" تمھاری مشق چھوٹ گئی کیا. کبھی کھیلتے نہیں ہو؟"
"کھیلنے کا وقت ہی نہیں ملتا بھیا‘‘
ہم دونوں موٹر میں جا بیٹھے اور چراغ جلتے جلتے پڑاؤ پر جا پہنچے۔ گیا چلتے چلتے بولا۔ ” کل یہاں گلی ڈنڈا ہو گا ۔ سب ہی پرانے کھلاڑی کھیلیں گے ۔ تم بھی آؤ گے جب ھیں فرصت ہو۔ سب ہی کھلاڑیوں کو بلا لوں ‘‘
میں نے شام کا وقت دیا اور دوسرے دن میچ دیکھنے کو گیا۔ کوئی دس آدمیوں کی منڈ لی تھی ۔ کئی میرے لڑکپن کے ساتھی نکلے مگر بیشتر نوجوان تھے جنہیں میں پہچان نہ سکا۔ کھیل شروع ہوا۔ میں موٹر پر بیٹھے بیٹھے تماشا دیکھنے لگا۔ آج گیا کا کھیل اور اس کی کرامت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وٹل لگاتا تو گلی آسمان سے باتیں کرتی ۔ کل کی سی وہ جھجھک ، وہ ہچکچاہٹ ، وہ بے دلی آج نہ تھی۔ لڑکپن کی جو بات تھی آج اس نے کمال کی عروج تک پہنچا دی تھی۔ کہیں کل اس نے مجھے اس طرح پدایا ہوتا تو میں ضرور رونےلگتا۔ اس کے ڈنڈے کی چوٹ کھا کر گلی دو سو گز کی خبر لاتی تھی۔
     پدنے والوں میں ایک نوجوان نے کچھ بدعنوانی کی۔ اس کا دعوی تھا کہ میں نے گلی دبوچ لی ہے۔ گیا کا کہنا تھا کہ اچھلی ہے۔ اس پر دونوں میں تال ٹھونکنے کی نوبت آئی ۔ نوجوان دب گیا۔ گیا کا تمتمایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ ڈر گیا۔ میں کھیل میں نہ تھا مگر دوسروں کے اس کھیل میں مجھے وہ ہی لڑ کپن کا لطف آ رہا تھا جب ہم سب کچھ بھول کر کھیل میں مست ہو جاتے تھے۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ گیا کل میرے ساتھ کھیل نہیں بلکہ کھیلنے کا بہانہ کیا۔ اس نے مجھے رحم کے قابل سمجھا۔ میں نے دھاندلی کی ، بے ایمانیاں کیں اسے ذرا بھی غصہ نہ آیا۔ اس لیے کہ وہ کھیل نہ رہا تھا مجھے کھلا رہا تھا۔ میرا جی دیکھ رہا تھا ۔ وہ پدا کر میرا کچومر نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ اب میں افسر ہوں ۔ یہ افسری میرے اور اس کے درمیان ایک دیوار بن گئی ہے۔ میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں، ادب پاسکتا ہوں ، لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا۔ لڑکپن تھا تب میں اس کا ساتھی تھا۔ ہم میں کوئی بھید نہ تھا۔ یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں اور مجھے اب وہ اپنا جوڑ نہیں سمجھتا۔ وہ بڑا ہو گیا ہے، میں چھوٹا ہو گیا ہوں۔

منشی پریم چند
(1880-1936)
پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ وہ بنارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی ۔ اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ پرائمری اسکول میں ٹیچر ہو گئے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
پریم چند کو طالب علمی کے زمانے سے ہی مضامین لکھنے کا شوق تھا۔ "اسرار معابد‘‘ کے نام سے ان کا پہلا ناول بنارس کے ایک رسالے میں شائع ہونا شروع ہوا۔ بعد میں وہ رسالہ "زمانہ" کے لیے پابندی سے مضامین اور افسانے لکھنے لگے۔ 1908 میں ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعه "سوز وطن“ کے نام سے شائع ہوا جسے حکومت نے ضبط کر لیا۔ اب وہ پریم چند کے قلمی نام سے لکھنے لگے۔ ملک میں آزادی کی تحریک پھیل رہی تھی۔ پریم چند بھی گاندھی جی کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ 1921 میں سرکاری ملازمت سے استعفا دے دیا۔ وہ قلم کے سپاہی بن گئے اور اپنی تحریروں کو آزادی اور قومی تعمیر کے مقاصد کے لیے وقف کردیا۔
پریم چند کے افسانے اور ناول اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھوں نے ادب کو مقامی زندگی خاص طور پر دیہاتوں کے مسائل کا ترجمان بنا دیا۔ پریم چند کی حقیقت نگاری زندگی کے تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہے۔ اسی خصوصیت نے انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کر دیا۔ ان کے افسانے قومی، سیاسی اور سماجی رجحانات کے آئینہ دار ہیں۔
پریم چند نے ناول اور افسانوں کے علاوہ ڈرامے اور مضامین بھی لکھے۔ ان کے افسانوں کے نمائندہ مجموعے "پریم پچپیسی‘‘، پریم چالیسا‘‘ ’’ زاد راه“، ”آخری تحفہ“ اور ”واردات“ ہیں۔ ناولوں میں ”بیوه“، ”بازار حسن“، ”گوشہ عافیت“، ”میدان عمل“، ”چوگان ہستی“, اور ”گودان“ بہت مشہور ہیں۔ 
خلاصہ:
گلی ڈنڈا پریم چند کا مقبول افسانہ ہے۔یہ دو دوستوں کی کہانی ہے جو بچپن میں ایک قصبے میں گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ افسانے کے ابتدائی حصے میں پریم چند نے گلی ڈنڈا کی خوبیاں بتائی ہیں کہ یہ دوسرے کھیلوں سے اور خاص طور پر انگریزوں کے کھیلوں  سے بہتر ہے کیونکہ  اس میں زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔مصنف کو اپنی  بچپن کی یادوں میں گلّی ڈنڈا سب سے شیریں یاد لگتی ہے۔اسے اپنے گاؤں میں درختوں پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹ کر گلّی ڈنڈا بنانا۔ وہ جوش و خروش ، وہ لگن ،وہ  کھلاڑیوں کے جمگھٹے، وہ پدنا اور پدانا ، وہ لڑائی جھگڑے جس میں چھوت چھات ، امیر غریب کی کوئی تمیز نہ تھی سب بہت یاد آتا۔ مصنف کے ساتھ گلّی ڈنڈا کھیلنے والے میں ایک لڑکا گیا نام کا بھی تھا۔جو اس سے عمر میں دو سال بڑا تھا۔ وہ بہت پھرتیلا ،لمبا اور تیز تھا۔وہ گلّی ڈنڈے میں ماہر تھا۔ اُس کے ماں باپ کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا۔ وہ گلّے ڈنڈا کلب کا چیمپئن بھی تھا۔ ایک بار مصنف اور گیا گلّی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ مصنف پد رہا تھا اور وہ پِدا رہا تھا۔ پدانے میں تو اچھا لگتا ہے لیکن پِدنے میں نہیں۔آخر کار مصنف نے ایسی چالیں چلیں جو خلاف قانون تھیں لیکن قابل معافی تھیں۔ مگر گیا اپنا داؤں لیے بغیر پیچھانہیں چھوڑتا تھا۔ کھیل کے درمیان مصنف گھر بھاگنے لگا لیکن گیا نے اسے روکا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور گیا نے مصنف کو ایک ڈنڈا بھی جمایا۔ مصنف رونے لگا۔ مصنف تھانیدار کا بیٹا تھا اور وہ ایک معمولی لونڈے کے ہاتھوں پِٹا تھا۔ یہ مصنف کے لیے ایک ہتھیار تھا جس سے گیا خوف زدہ ہوگیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ انہیں دنوں مصنف کے والد کا تبادلہ ہوگیا۔  گرچہ اس کی ماں وہاں جانے سے خوش نہیں تھی اس لیے کہ یہاں کے لوگوں سے اسے لگاؤ ہوگیا تھا اور یہ رہنے کے لیے بھی ایک سستی جگہ تھی۔ اسے اس جگہ سے پیار ہو گیا تھا۔ وہیں دوسری جانب نئی جگہ جانے سے مصنف بہت خوش تھا اور وہ نئی جگہ کے بارے میں اپنے دوستوں سے شیخی بگھار رہا تھا۔20 سال گزر گئے ۔مصنف اب انجینئر بن چکا تھا۔ وہ گاؤں واپس آیا۔اتنے دنوں میں گاؤں بہت بدل چکا تھا۔ وہاں اس نے بچّوں کو گِلّی ڈنڈا کھیلتے دیکھا۔ اس نے ان سے گیا کے بارے میں پوچھا۔ ان میں سے ایک بچّہ ایک بڑے سے آدمی کو لے کر آیا جو اسے کالے دیو جیسا نظر آ رہا تھا۔ مصنف نے اسے پہچان لیا وہ گیا ہی تھا۔ گیا نے بھی مصنف کو پہچان لیا۔ گیا نے مصنف کو بتایا کہ اب وہ ڈپٹی کا سائیس ہے۔ مصنف نے اس سے گِلّی ڈنڈا کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ مشکل سے کھیلنے کے لیے راضی ہوا۔ لوگ زیادہ بھیڑ نہ لگائیں اور ان کے کھیل کو عجوبہ سمجھ کر تماشہ نہ بنادیں اس لیے وہ گیا کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر بستی سے دور چلا گیا۔ گیا اتنے دنوں بعد اچھے سے نہیں کھیل پا رہا تھا۔ اس کی تیزی ختم ہو چکی تھی اور اب اس سے گِلّی بھی نہیں پکڑی جا رہی تھی۔ مصنف نے طرح طرح کے فریب کیے۔ گیا یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن کچھ بول نہیں رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ گِلّی ڈنڈا کے سارے قاعدے قانون بھول گیا ہو۔ کھیل کے دوران ڈنڈے پر گلّی لگنے کے باوجود مصنف نے اس بات سے انکار کردیا تھا کہ گِلّی اس کے ڈنڈے سے لگی ہے۔ یہ ایک کھلا جھوٹ تھا لیکن گیا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ پھر مصنف نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے گیا کو داؤں دے دیا۔ گیا نے پِدانا شروع کیا لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کھیلنا بھول چکا ہو۔ اب اس کی مشق بالکل نہ رہی تھی۔ وہ کھیل ختم کرکے بستی واپس جانے لگے۔ گیا نے بتایا کہ اگلے دن گاؤں میں گِلّی ڈنڈے کا میچ ہوگا۔ اگلے دن مصنف میچ دیکھنے گیا۔وہاں اس کے بچپن کے کچھ ساتھی بھی تھے۔ اس دن گیا بہت اچھا کھیل رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مصنف حیران رہ گیا۔ پچھلے دن جیسی بے دلی، ہچکچاہٹ، جھجھک اس دن نہ تھی۔ اب مصنف سمجھا کہ وہ اس کے ساتھ کھیلنے کا بہانہ کر رہا تھا اور وہ اسے صرف کھلا رہا تھا۔ وہ اسے ہرانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسے اپنے برابر نہیں اپنے سے اونچا سمجھتا تھا ۔پہلے یہ اس کا ساتھی تھا لیکن اب وہ ایک افسر ہے۔ پہلے ان میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن مصنف کو لگا کہ اب وہ  گیا کی نظر میں عہدہ پاکر رحم کے قابل ہو گیا ہے۔ گیا اسے برابر کا نہیں سمجھتا۔ مصنف کو لگا کہ اب گیا بڑا ہوگیا ہے اوروہ چھوٹا۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1. مصنف نے گلّی ڈنڈے کو کھیلوں کا راجہ کیوں کہا ہے
 جواب: مصنف نے گلی ڈنڈے کو کھیلوں کا راجہ اس بنیاد پر کہا ہے کہ اس میں لان ، نیٹ، بلّے کی ضرورت نہیں۔ گلّی ڈنڈا ایک درخت کی شاخ کاٹ کر بنا لیا جاتا ہے۔ اس میں پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔باقی انگریزی کھیلوں میں پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کرکٹ، ٹینس،والی بال وغیرہ۔
2. گیا کے داؤں سے بچنے کے لیے ضلع انجینئر نے کون کون سی چال چلی؟
جواب:گیا کے داؤں سے بچنے کے لیے ضلح انجینیئر نے بہت ساری بے ایمانی کی۔ وہ داؤں پورا ہونے کے بعد بھی کھیلے جاتا تھا جبکہ گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔اس نے کھیل کے بہت سے قاعدے قانون توڑے۔
3.مصنف کو یہ احساس کیوں کر ہوا کہ گیا اس سے جان بوجھ کر ہار رہا تھا؟
جواب:مصنف کو یہ احساس اس لیے ہوا کیونکہ اس کے  اگلے دن جب گیا اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو وہ ایک ماہر کھلاڑی کی طرح ٹل لگا رہا تھا اور مخالف ٹیم کی گلیوں کو پکڑ رہا تھا۔یہ دیکھ کر اسے خیال آیا کہ وہ پچھلے دن کھیل نہیں رہا تھا کھلا رہا تھا۔
4.اگر آپ گیا کی جگہ ہوتے تو آپ کا رویہ کیسا ہوتا؟
جواب:جس زمانے کی یہ کہانی ہے اس حساب سے ایک ضلع انجینئر اور ایک ان پڑھ میں بہت فرق تھا بچپن کی دوستی ہونے کے باوجود ہمارا بھی وہی رویہ ہوتا جو گیا کا تھا۔

خوش خبری