اس کے روز و شب
ہر صبح جیسے ہی بالکونی سے جھانک کر نیچے کی سمت دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ لڑکی، وہ خوبصورت لڑکی سڑک کے سست رفتار ریلے میں بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دھوپ اس کے چہرے کو چومتی،اس کی مانگ میں افشاں چنتی،دھوپ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جگاتی تب اس کے دانتوں کی قندیلیں جھلملا اٹھتیں،اس وقت وہ ذرا ٹھہر کر کائنات پر اس ارض و سما پرنظر ڈالتی ہو اسے قدرے ہیچ نظر آتے، کہ جوان لہو رگوں میں چراغ جلائے رہتا اوردل میں غرور کی کمان تنی ہوتی۔
لیکن شام پڑتے ہی جب وہ دفتر سے وہاں آتی،اس کی تنی تنی باہیں ڈھیلی پڑچکی ہوتیں،گیسوؤں کی گھٹا مٹیالی چہرے پر جھریاں براج چکی ہوتیں اور وہ جوان لڑکی ادھیڑ بلکہ بوڑھی دکھتی۔ نہ اس کی چال میں مستانہ وشی ہوتی نہ انداز میں شہاب کی دمک دیکھائی پڑتی۔
یہ بارہ گھنٹے اس کی زندگی میں ہر روز بیس پچیس کی مدت لئے ہوتے اور اسے بوڑھے کرکے آگے بڑھ جاتے لیکن دوسری صبح وہ اسی طرح جوان تازہ دم اور خوبصورت دیکھائی پڑتی۔ یہ پر اسرار کیفیت مجھے پریشان کئے رہتی اور میرا دل رو اٹھتا۔
تب ایک دن میں اپنی بیوی کو بتاتا ہوں ، یوں پہلے تو وہ یقین نہیں کرتی، پھر جب میں نے ایک دن صبح و شام اس لڑکی کو دکھا دیا اور میری بیوی صبح و شام کے فرق کو اچھی طرح سمجھ چکی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
'' یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔یہ ہماری آنکھوں کی خطا ہے۔"
نہیں یہ ہماری آنکھوں کی خطا نہیں ،شرافت ہے جو لڑکی کی زندگی کی تہوں میں اُتر جاتی ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس بات کا پتہ لگاؤں گا کہ رات بھر کی ساری کمائی وہ دن کے بارہ گھنٹے، اس سے کس طرح چھین لیتےہیں، اور پھر رات اسے دوسرے دن کے لئے اتنا کچھ کہاں سے دیتی ہے؟
چنانچہ میں ا دن اور رات کی سی کیفیت والی لڑکی سے پوچھتا ہوں ۔ بیٹی ، یہ جو تم ہر صبح اتنا کچھ لے کر نکلتی ہو دن کے دس بارہ گھنٹے میں کہاں گما دیتی ہو؟
''بابا" اس نے اپنائیت سے ،واب دیا۔ اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے اور حسب معمول وہ ہاتھ میں پلاسٹک کی تھیلی دوسرے میں پرس لئے دفتر کو جارہی تھی ''بابا یہ ایک کہانی ہے،اس کے لئے آپ کو تھوڑی زحمت اٹھانے پڑے گی، اٹھائیے گا زحمت؟"
''ہاں، تھوڑی کیا بہت، تم بتاؤ مجھے کیا کرنا ہوگا۔"
تو بابا چار بجے، جب میرا دفتر بند ہوجاتا ہےآپ کو صدر دروازے پر میرا انتظار کرنا ہوگا۔ پھر میں آپکو ان ڈاکوؤں کے پاس لے جاؤں گی جو مجھے چند گھنٹوں میں کنگال کر دیتے ہیں۔
ڈاکوؤں کے پاس؟
ہاں ڈاکوؤں کے پاس؟
میں اس خوب صورت لڑکی کی رسیلی باتوں کا جام پئے گھر آجاتا ہوں۔ اور اپنی بیوی سے سارا واقعہ کہہ سناتا ہوں ۔پہلے وہ تعجب سے میری طرف دیکھتی ہےپھر ہنس پڑتی ہے وہ لڑکی پاگل ہے ۔ یا پھر بہروپیا ہوگی، میں آج سارا دن سوچتی رہی ہوں کہ وہ لڑکی ضرور بہروپیا ہے۔پھر میری بیوی مجھے سمجھاتی ہے کہ وہ آپ کو پھانس رہی ہے۔ایسی لڑکیاں خوش حال مردوں کو پھانس کر انہیں بلیک میل کرتی ہیں ، پیسے لوٹتی ہیں۔
میں بیوی کی بات سن کر خاموش ہوجاتا ہوں ۔مگر میرا دل نہیں مانتا۔ بار بار اندر سے آواز آتی ہے جیسے کوئی کہہ رہا ہو یہ لڑکی کھری ہے کھری ہے بالکل کنچن ہے ۔ چنانچہ دوسرے دن میں مقررہ وقت پر اس کے دفتر کے صدر دروازے پر جا کھڑا ہوتا ہوں اور انتظار کر رہا ہوتا ہوں کہ ابھی جب وہ دن بھر کی محنت کے بعد دفتر سے نکلے گی تو بوڑھی ہوچکی ہوگی اور میں اسے پہچان بھی نہیں پاؤں گا کیونکہ میرا حیال تھا کہ دن بھر کی کڑی مشقت کے سبب ہی اس کی رونق لُٹ جاتی ہے۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب وہ دفتر کی سیڑھیاں چھلانگ کر نیچے اتری تو وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی اس کا چہرہ کھیت میں ہل جوتنے والے کسان کے چہرے کی طرح دمک رہا تھا یوں ہیرا دمکتا ہے ۔
وہ دوڑی ہوئی آئی اور اس نے لپک کر میرا بازو پکڑ لیا۔ میرے من میں سنکھا جاگی۔ میری بیوی کی قیاس آرائی۔۔ میں ذرا محتاط ہوگیا ' (کیونکہ آدمی کا لاشعور جتنا ایماندار ہوتا اتنا ہی بے ایمان بھی)
"چلئے" اس نے میرا بازو پکڑ کر کھینتے ہوئے کہا پہلے کینٹن میں چائے پی جائے۔ وہ خاصی بے تکلّف ہورہی تھی۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ کینٹن میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ چائے پیتے پیتے سوچنے لگا۔ لڑکی اتنی بے باک کیوں ہے؟
مگر مجھے اس سوال کا جواب اندر سے نہیں ملا۔ چائے ختم ہو گئی ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوا نکالا۔ اس میں دس دس کے نوٹ تھے۔ لڑکی نے جلدی سے بٹوہ چھین کر میری جیب میں ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر میں گھبرا اٹھا مگر وہ بدستور بے تکلفی سے ہنستی رہی گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ پھر لڑکی نے اپنے پرس سے چند آنے پیسے نکالے اور کینٹن والے لڑکے کو دے کر مجھے لئے باہر چلی آئی۔
اب میں یہاں سے بازار کی سمت چلتی ہوں ، جہاں مجھے رات کے لئے آٹا خریدنا ہے پھر سبزی، پھر چنے، چینی، تیل۔۔۔آٹا، پھر سبزی ،چنے، دال، تیل۔۔۔۔۔زندگی کا پہیہ انھیں اجناس کے بل بوتے چلتا ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی مرجائے۔ وہ لڑکی جو ساری کائنات کا حسن سمیٹے، میرے آگے آگے چل رہی ہے ، ایک نامعلوم سے غیر مرئی دھاگے میں مجھی باندھے لئے چل رہی ہے۔ کتنی اچھی ہے، میری عمر سے آدھے عمر کی۔۔۔۔۔ میری بیٹی اگر زندہ رہ جاتی تو شاید ایسی ہی نکلتی۔ اتنی ہی بڑی ایسی ہی۔۔۔۔خوبصورت،۔۔۔۔
مگر ذہن اس سچائی سے پرے بھی دیکھتا ہے۔ میں اپنی عمر سے بیس پچیس برس کم ہوجاتا ہوں اور اب کے اس کی چال میں جو مستانہ وشی نظر آتی ہے ، وہ کوئی اور چیز ہے، کولہوں میں چلتے سمے جو بھنور پڑتے ہیں ان میں میری اپنی کشتی مطلب ہے کشتیٔ حیات ڈوبتی ابھرتی نظر آتی ہے اور میں گلے تک پانی میں ڈوبا ہوا کھویا چلا جارہا ہوں ، کہ کائنات کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ماضی حال بن جاتا ہے اور سچائیاں تخیل کی رنگ آمیزی کے باعث کوئی تڑپتا ہوا قتل کردینے والا ، لوٹ لینے والا تبسم۔
عین اس وقت وہ لڑکی پلٹ کر میری طرف دیکھتی ہے اور ذرا افسردگی سے دریافت کرتی ہے، دیکھا آپ نے۔۔؟
"ہاں۔۔"میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا،دیکھ پایا تھا تو بس اتنا کہ دنیا پیچھے کی طرف بھاگی جارہی ہے۔ سرپٹ اور میں اس کے ساتھ خود۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا؟"یہی کہ تم بہت اچھی ہو ، بڑی خوب صورت"
"اوہ ہو بابا۔ چھوڑئیے نا میری خوبصورتی کو۔" اس نے لاپروائی اور قطعی اطمینان سے جواب دیا۔" آپ نے دیکھا نہیں جب میں نے بنئے سے آٹے کا بھاؤ پوچھا تو کل کے مقابلے میں آج اس نے کیلو میں دو آنے زیادہ بتائے۔"
"ہاں ہاں سنا تھا میں نے۔"
"تو بس دیکھا نہیں اسی دم میرے چہرے کی خوبصورتی اور بانہوں کی رونق آپ سے آپ ، گھٹ گئی۔
میں نے دیکھا واقعی اس کے چہرے کا رنگ پھیکا ہوچکا تھا، اور باہیں ڈھیلی پڑچکی تھیں۔
بس اسی طرح آپ دیکھتے چلئے، میرا تھوڑا تھوڑا سب میں بٹ جائے گا۔ کچھ بنیا کی دوکان پر، کچھ سبزی والے کے پاس، کچھ دال، تیل، چنے نمک والے کے سامنے۔
وا ایک بار مسکرائی، وہی قاتل جان لیوا تبسم۔۔۔مگر ویسا نہیں محسوس ہوا ، کچھ اور لگا، وہ آگے بڑھ گئی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اور دفعتاً مجھے یاد آیا، یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ مونا لیزا بھری مسکراہٹ میں۔۔۔۔ایک جوان عورت کا قتل کردینے والا منصوبہ پوشیدہ تھا کہ ماں کی ممتا تھی۔لینارڈ مل جاتا تو میں پوچھ لیتا۔ ویسے اس عجیب تبسم کی وضاحت مختلف معنوں میں ہوتی رہی ہے۔
جب وہ میرے دروازے کے قریب آچکی اور میرا شانہ پکڑ کر جھنجھوڑنے کے انداز میں پوچھا،میں خیالات کی دنیا سے چونکا اور اب دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ یہ تو کوئی اور تھی اتنی بوڑھی، اتنی بدصورت اور اتنی ہی لٹی ہوئی۔
میں اپنی بیوی کو ساری باتیں بتا چکا تو تعجب سے اس کا منہ کھلا رہ جاتا ہے کچھ دیر تک وہ چپ رہتی ہے۔ تعجب، تعجب، تعجب۔ کتنے ہی لمحے گذر گئے۔ اچانک چونک کر پوچھتی ہے۔
"پھر رات بھر میں۔۔۔۔"
"ہاں۔ رات بھر میں اس کے پاس بہت سا اثاثہ جمع ہوجاتا ہے۔۔۔جب میں اس کے گھر گیا تو اس نے مجھے اپنے شوہر سے ملایا، جو اپاہج ہے۔اپنے تینوں خوب صورت بچوں سے ملایا جو کچے فرش پر ایک ٹاٹ کا ٹکڑا بچھائے لکھ پڑھ رہے تھے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، ایک بچّہ اچھل کر ماں سے لپٹ گیا، اس کی گردن میں باہیں ڈال دیں اور تھیک بچوں کے انداز میں ٹھنکنے لگا۔ ہوں ،ہوں۔۔ماں میری گیند؟پھر دوسرے بچّے نے بھی ایسا ہی کہا ماں میرا جھنجھنا؟
پھر تیسرا بھی منمنایا، اور میری کتابیں؟
ذرا پیسے بچنے دو ، پہلے تمہارے بابا کے پاؤں کی دوائیں آئیں گی۔۔۔پھر آجائیں گے جھنجھنا بھی، گیند بھی ، کتابیں بھی۔ ذرا دم لو، تمہارے بابا کے پاؤں ٹھیک ہوتے ہی وہ کام پر جانے لگیں گے نا۔۔۔۔؟
پھر میں نے دیکھا وہ آدمی تڑپ کر رہ گیا۔ نمو کیا یہ سچ ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں کام پر۔۔۔۔۔ میرے پاؤں ٹھیک ہو جائیں گے۔
ہاں ہاں ضرور، پھر یہ مہنگائی بھی کم ہوگی، کم ہوتی جائے گی۔۔۔۔
اس کے مایوس چہرے پرسیاہیاں کھسکنے لگیں۔
پھر میں نے دیکھا اس کے بچّوں کے چہرے پر بھی نور بکھرنے لگا ۔ عین اس وقت وہ لڑکی مجھے جھنجھوڑتی ہے، دیکھا ، دیکھا، بابا۔
"کیا؟" میں پلٹ کر پوچھتا ہوں ، پھر اس لڑکی کی طرف دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔واقعی، یہ تو وہی پہلے والی خوب صورت سجی سجیلی۔۔۔۔
میں یہ سب کہتا جارہا ہوں۔ میری بیوی انہماک سے سنتی جا رہی ہے، اور سمے کا سبک بہاؤ جاری ہے۔ پل، چھن، لمحہ، گھنٹہ۔۔۔۔۔ وقت۔۔۔۔وقت۔
مگر وہ وقت کب آئے گا؟ اچانک میری بیوی پوچھ لیتی ہے۔"جب اس کے پتی کے پاؤں۔ اس کے بچّے کے کھلونے کابیں۔۔۔۔ کب یہ مہنگائی، کم ہوگی۔
دفعتاً میں چونک اٹھتا ہوں، میری بیوی کے سوال بظاہر بہت معمولی ہیں، گر اندر اترتے ہ تھاہ نہیں لگ رہی ہے۔ واقعی وہ وقت کب آئے گا۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہتا ہوں ۔صبح، دوپہر، شام، دن ، رات، ہفتوںمگر جواب نہیں سوجھتا۔ بہت دیر تک میری بیوی ٹکٹکی لگائے میری جانب دیکھتی رہتی ہے۔ جب مجھ سے کوئی جواب نہیں بنتا تو میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔۔۔۔
دیکھو، میں نہیں بتا سکتا، کہ مجھے خود پتہ نہیں، البتہ کل میں شہر کے کسی عالم، کسی سیاست داں، کسی نجومی سے مل کر ضرور معلوم کروں گا۔ پھر تمہیں بتاؤں گا ۔ ضرور ضرور۔
لیکن شام پڑتے ہی جب وہ دفتر سے وہاں آتی،اس کی تنی تنی باہیں ڈھیلی پڑچکی ہوتیں،گیسوؤں کی گھٹا مٹیالی چہرے پر جھریاں براج چکی ہوتیں اور وہ جوان لڑکی ادھیڑ بلکہ بوڑھی دکھتی۔ نہ اس کی چال میں مستانہ وشی ہوتی نہ انداز میں شہاب کی دمک دیکھائی پڑتی۔
یہ بارہ گھنٹے اس کی زندگی میں ہر روز بیس پچیس کی مدت لئے ہوتے اور اسے بوڑھے کرکے آگے بڑھ جاتے لیکن دوسری صبح وہ اسی طرح جوان تازہ دم اور خوبصورت دیکھائی پڑتی۔ یہ پر اسرار کیفیت مجھے پریشان کئے رہتی اور میرا دل رو اٹھتا۔
تب ایک دن میں اپنی بیوی کو بتاتا ہوں ، یوں پہلے تو وہ یقین نہیں کرتی، پھر جب میں نے ایک دن صبح و شام اس لڑکی کو دکھا دیا اور میری بیوی صبح و شام کے فرق کو اچھی طرح سمجھ چکی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
'' یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔یہ ہماری آنکھوں کی خطا ہے۔"
نہیں یہ ہماری آنکھوں کی خطا نہیں ،شرافت ہے جو لڑکی کی زندگی کی تہوں میں اُتر جاتی ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس بات کا پتہ لگاؤں گا کہ رات بھر کی ساری کمائی وہ دن کے بارہ گھنٹے، اس سے کس طرح چھین لیتےہیں، اور پھر رات اسے دوسرے دن کے لئے اتنا کچھ کہاں سے دیتی ہے؟
چنانچہ میں ا دن اور رات کی سی کیفیت والی لڑکی سے پوچھتا ہوں ۔ بیٹی ، یہ جو تم ہر صبح اتنا کچھ لے کر نکلتی ہو دن کے دس بارہ گھنٹے میں کہاں گما دیتی ہو؟
''بابا" اس نے اپنائیت سے ،واب دیا۔ اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے اور حسب معمول وہ ہاتھ میں پلاسٹک کی تھیلی دوسرے میں پرس لئے دفتر کو جارہی تھی ''بابا یہ ایک کہانی ہے،اس کے لئے آپ کو تھوڑی زحمت اٹھانے پڑے گی، اٹھائیے گا زحمت؟"
''ہاں، تھوڑی کیا بہت، تم بتاؤ مجھے کیا کرنا ہوگا۔"
تو بابا چار بجے، جب میرا دفتر بند ہوجاتا ہےآپ کو صدر دروازے پر میرا انتظار کرنا ہوگا۔ پھر میں آپکو ان ڈاکوؤں کے پاس لے جاؤں گی جو مجھے چند گھنٹوں میں کنگال کر دیتے ہیں۔
ڈاکوؤں کے پاس؟
ہاں ڈاکوؤں کے پاس؟
میں اس خوب صورت لڑکی کی رسیلی باتوں کا جام پئے گھر آجاتا ہوں۔ اور اپنی بیوی سے سارا واقعہ کہہ سناتا ہوں ۔پہلے وہ تعجب سے میری طرف دیکھتی ہےپھر ہنس پڑتی ہے وہ لڑکی پاگل ہے ۔ یا پھر بہروپیا ہوگی، میں آج سارا دن سوچتی رہی ہوں کہ وہ لڑکی ضرور بہروپیا ہے۔پھر میری بیوی مجھے سمجھاتی ہے کہ وہ آپ کو پھانس رہی ہے۔ایسی لڑکیاں خوش حال مردوں کو پھانس کر انہیں بلیک میل کرتی ہیں ، پیسے لوٹتی ہیں۔
میں بیوی کی بات سن کر خاموش ہوجاتا ہوں ۔مگر میرا دل نہیں مانتا۔ بار بار اندر سے آواز آتی ہے جیسے کوئی کہہ رہا ہو یہ لڑکی کھری ہے کھری ہے بالکل کنچن ہے ۔ چنانچہ دوسرے دن میں مقررہ وقت پر اس کے دفتر کے صدر دروازے پر جا کھڑا ہوتا ہوں اور انتظار کر رہا ہوتا ہوں کہ ابھی جب وہ دن بھر کی محنت کے بعد دفتر سے نکلے گی تو بوڑھی ہوچکی ہوگی اور میں اسے پہچان بھی نہیں پاؤں گا کیونکہ میرا حیال تھا کہ دن بھر کی کڑی مشقت کے سبب ہی اس کی رونق لُٹ جاتی ہے۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب وہ دفتر کی سیڑھیاں چھلانگ کر نیچے اتری تو وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی اس کا چہرہ کھیت میں ہل جوتنے والے کسان کے چہرے کی طرح دمک رہا تھا یوں ہیرا دمکتا ہے ۔
وہ دوڑی ہوئی آئی اور اس نے لپک کر میرا بازو پکڑ لیا۔ میرے من میں سنکھا جاگی۔ میری بیوی کی قیاس آرائی۔۔ میں ذرا محتاط ہوگیا ' (کیونکہ آدمی کا لاشعور جتنا ایماندار ہوتا اتنا ہی بے ایمان بھی)
"چلئے" اس نے میرا بازو پکڑ کر کھینتے ہوئے کہا پہلے کینٹن میں چائے پی جائے۔ وہ خاصی بے تکلّف ہورہی تھی۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ کینٹن میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ چائے پیتے پیتے سوچنے لگا۔ لڑکی اتنی بے باک کیوں ہے؟
مگر مجھے اس سوال کا جواب اندر سے نہیں ملا۔ چائے ختم ہو گئی ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوا نکالا۔ اس میں دس دس کے نوٹ تھے۔ لڑکی نے جلدی سے بٹوہ چھین کر میری جیب میں ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر میں گھبرا اٹھا مگر وہ بدستور بے تکلفی سے ہنستی رہی گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ پھر لڑکی نے اپنے پرس سے چند آنے پیسے نکالے اور کینٹن والے لڑکے کو دے کر مجھے لئے باہر چلی آئی۔
اب میں یہاں سے بازار کی سمت چلتی ہوں ، جہاں مجھے رات کے لئے آٹا خریدنا ہے پھر سبزی، پھر چنے، چینی، تیل۔۔۔آٹا، پھر سبزی ،چنے، دال، تیل۔۔۔۔۔زندگی کا پہیہ انھیں اجناس کے بل بوتے چلتا ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی مرجائے۔ وہ لڑکی جو ساری کائنات کا حسن سمیٹے، میرے آگے آگے چل رہی ہے ، ایک نامعلوم سے غیر مرئی دھاگے میں مجھی باندھے لئے چل رہی ہے۔ کتنی اچھی ہے، میری عمر سے آدھے عمر کی۔۔۔۔۔ میری بیٹی اگر زندہ رہ جاتی تو شاید ایسی ہی نکلتی۔ اتنی ہی بڑی ایسی ہی۔۔۔۔خوبصورت،۔۔۔۔
مگر ذہن اس سچائی سے پرے بھی دیکھتا ہے۔ میں اپنی عمر سے بیس پچیس برس کم ہوجاتا ہوں اور اب کے اس کی چال میں جو مستانہ وشی نظر آتی ہے ، وہ کوئی اور چیز ہے، کولہوں میں چلتے سمے جو بھنور پڑتے ہیں ان میں میری اپنی کشتی مطلب ہے کشتیٔ حیات ڈوبتی ابھرتی نظر آتی ہے اور میں گلے تک پانی میں ڈوبا ہوا کھویا چلا جارہا ہوں ، کہ کائنات کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ماضی حال بن جاتا ہے اور سچائیاں تخیل کی رنگ آمیزی کے باعث کوئی تڑپتا ہوا قتل کردینے والا ، لوٹ لینے والا تبسم۔
عین اس وقت وہ لڑکی پلٹ کر میری طرف دیکھتی ہے اور ذرا افسردگی سے دریافت کرتی ہے، دیکھا آپ نے۔۔؟
"ہاں۔۔"میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا،دیکھ پایا تھا تو بس اتنا کہ دنیا پیچھے کی طرف بھاگی جارہی ہے۔ سرپٹ اور میں اس کے ساتھ خود۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا؟"یہی کہ تم بہت اچھی ہو ، بڑی خوب صورت"
"اوہ ہو بابا۔ چھوڑئیے نا میری خوبصورتی کو۔" اس نے لاپروائی اور قطعی اطمینان سے جواب دیا۔" آپ نے دیکھا نہیں جب میں نے بنئے سے آٹے کا بھاؤ پوچھا تو کل کے مقابلے میں آج اس نے کیلو میں دو آنے زیادہ بتائے۔"
"ہاں ہاں سنا تھا میں نے۔"
"تو بس دیکھا نہیں اسی دم میرے چہرے کی خوبصورتی اور بانہوں کی رونق آپ سے آپ ، گھٹ گئی۔
میں نے دیکھا واقعی اس کے چہرے کا رنگ پھیکا ہوچکا تھا، اور باہیں ڈھیلی پڑچکی تھیں۔
بس اسی طرح آپ دیکھتے چلئے، میرا تھوڑا تھوڑا سب میں بٹ جائے گا۔ کچھ بنیا کی دوکان پر، کچھ سبزی والے کے پاس، کچھ دال، تیل، چنے نمک والے کے سامنے۔
وا ایک بار مسکرائی، وہی قاتل جان لیوا تبسم۔۔۔مگر ویسا نہیں محسوس ہوا ، کچھ اور لگا، وہ آگے بڑھ گئی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اور دفعتاً مجھے یاد آیا، یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ مونا لیزا بھری مسکراہٹ میں۔۔۔۔ایک جوان عورت کا قتل کردینے والا منصوبہ پوشیدہ تھا کہ ماں کی ممتا تھی۔لینارڈ مل جاتا تو میں پوچھ لیتا۔ ویسے اس عجیب تبسم کی وضاحت مختلف معنوں میں ہوتی رہی ہے۔
جب وہ میرے دروازے کے قریب آچکی اور میرا شانہ پکڑ کر جھنجھوڑنے کے انداز میں پوچھا،میں خیالات کی دنیا سے چونکا اور اب دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ یہ تو کوئی اور تھی اتنی بوڑھی، اتنی بدصورت اور اتنی ہی لٹی ہوئی۔
میں اپنی بیوی کو ساری باتیں بتا چکا تو تعجب سے اس کا منہ کھلا رہ جاتا ہے کچھ دیر تک وہ چپ رہتی ہے۔ تعجب، تعجب، تعجب۔ کتنے ہی لمحے گذر گئے۔ اچانک چونک کر پوچھتی ہے۔
"پھر رات بھر میں۔۔۔۔"
"ہاں۔ رات بھر میں اس کے پاس بہت سا اثاثہ جمع ہوجاتا ہے۔۔۔جب میں اس کے گھر گیا تو اس نے مجھے اپنے شوہر سے ملایا، جو اپاہج ہے۔اپنے تینوں خوب صورت بچوں سے ملایا جو کچے فرش پر ایک ٹاٹ کا ٹکڑا بچھائے لکھ پڑھ رہے تھے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، ایک بچّہ اچھل کر ماں سے لپٹ گیا، اس کی گردن میں باہیں ڈال دیں اور تھیک بچوں کے انداز میں ٹھنکنے لگا۔ ہوں ،ہوں۔۔ماں میری گیند؟پھر دوسرے بچّے نے بھی ایسا ہی کہا ماں میرا جھنجھنا؟
پھر تیسرا بھی منمنایا، اور میری کتابیں؟
ذرا پیسے بچنے دو ، پہلے تمہارے بابا کے پاؤں کی دوائیں آئیں گی۔۔۔پھر آجائیں گے جھنجھنا بھی، گیند بھی ، کتابیں بھی۔ ذرا دم لو، تمہارے بابا کے پاؤں ٹھیک ہوتے ہی وہ کام پر جانے لگیں گے نا۔۔۔۔؟
پھر میں نے دیکھا وہ آدمی تڑپ کر رہ گیا۔ نمو کیا یہ سچ ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں کام پر۔۔۔۔۔ میرے پاؤں ٹھیک ہو جائیں گے۔
ہاں ہاں ضرور، پھر یہ مہنگائی بھی کم ہوگی، کم ہوتی جائے گی۔۔۔۔
اس کے مایوس چہرے پرسیاہیاں کھسکنے لگیں۔
پھر میں نے دیکھا اس کے بچّوں کے چہرے پر بھی نور بکھرنے لگا ۔ عین اس وقت وہ لڑکی مجھے جھنجھوڑتی ہے، دیکھا ، دیکھا، بابا۔
"کیا؟" میں پلٹ کر پوچھتا ہوں ، پھر اس لڑکی کی طرف دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔واقعی، یہ تو وہی پہلے والی خوب صورت سجی سجیلی۔۔۔۔
میں یہ سب کہتا جارہا ہوں۔ میری بیوی انہماک سے سنتی جا رہی ہے، اور سمے کا سبک بہاؤ جاری ہے۔ پل، چھن، لمحہ، گھنٹہ۔۔۔۔۔ وقت۔۔۔۔وقت۔
مگر وہ وقت کب آئے گا؟ اچانک میری بیوی پوچھ لیتی ہے۔"جب اس کے پتی کے پاؤں۔ اس کے بچّے کے کھلونے کابیں۔۔۔۔ کب یہ مہنگائی، کم ہوگی۔
دفعتاً میں چونک اٹھتا ہوں، میری بیوی کے سوال بظاہر بہت معمولی ہیں، گر اندر اترتے ہ تھاہ نہیں لگ رہی ہے۔ واقعی وہ وقت کب آئے گا۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہتا ہوں ۔صبح، دوپہر، شام، دن ، رات، ہفتوںمگر جواب نہیں سوجھتا۔ بہت دیر تک میری بیوی ٹکٹکی لگائے میری جانب دیکھتی رہتی ہے۔ جب مجھ سے کوئی جواب نہیں بنتا تو میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔۔۔۔
دیکھو، میں نہیں بتا سکتا، کہ مجھے خود پتہ نہیں، البتہ کل میں شہر کے کسی عالم، کسی سیاست داں، کسی نجومی سے مل کر ضرور معلوم کروں گا۔ پھر تمہیں بتاؤں گا ۔ ضرور ضرور۔
0 comments:
Post a Comment